Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

اللہ پر مکمل بھروسہ ایمان کی روح حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم بنی اسرائیل سے فرماتے ہیں کہ اگر تم مومن مسلمان ہو تو اللہ پر بھروسہ رکھو جو اس پر بھروسہ کرے وہ اسے کافی ہے عبادت و توکل دونوں ہم پلہ چیزیں ہیں ۔ فرمان رب ہے ( فَاعْبُدْهُ وَتَوَكَّلْ عَلَيْهِ ۭ وَمَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ ١٢٣؀ۧ ) 11-ھود:123 ) اسی کی عبادت کر اور اسی پر بھروسہ رکھ ۔ ایک اور آیت میں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ارشاد فرماتا ہے کہ کہہ دے کہ رب رحمن پر ہم ایمان لائے اور اسی کی ذات پاک پر ہم نے توکل کیا ۔ فرماتا ہے مشرق و مغرب کا رب جو عبادت کے لائق معبود ہے ، جس کے سوا پرستش کے لائق اور کوئی نہیں ۔ تو اسی کو اپنا وکیل و کارساز بنا لے ۔ تمام ایمانداروں کو جو سورت پانچوں نمازوں میں تلاوت کرنے کا حکم ہوا اس میں بھی ان کی زبانی اقرار کرایا گیا ہے کہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد طلب کرتے ہیں ۔ بنو اسرائیل نے اپنے نبی علیہ السلام کا یہ حکم سن کر اطاعت کی اور جواباً عرض کیا کہ ہمارا بھروسہ اپنے رب پر ہی ہے ۔ پروردگار تو ہمیں ظالموں کے لیے فتنہ نہ بنا کہ وہ ہم پر غالب رہ کر یہ سمجھنے لگیں کہ اگر یہ حق پر ہوتے اور ہم باطل پر ہوتے تو ہم ان پر غالب کیسے رہ سکتے یہ مطلب بھی اس دعا کا بیان کیا گیا ہے کہ اللہ ہم پر ان کے ہاتھوں عذاب مسلط نہ کرانا ، نہ اپنے پاس سے کوئی عذاب ہم پر نازل فرما کہ یہ لوگ کہنے لگیں کہ اگر بنی اسرائیل حق پر ہوتے تو ہماری سزائیں کیوں بھگتتے یا اللہ کے عذاب ان پر کیوں اترتے؟ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر یہ ہم پر غالب رہے تو ایسا نہ ہو کہ یہ کہیں ہمارے سچے دین سے ہمیں ہٹانے کے لیے کوششیں کریں ۔ اور اے پروردگار ان کافروں سے جنہوں نے حق سے انکار کر دیا ہے حق کو چھپایا لیا تو ہمیں نجات دے ، ہم تجھ پر ایمان لائے ہیں اور ہمارا بھروسہ صرف تیری ذات پر ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

84۔ 1 بنی اسرائیل، فرعون کی طرف سے جس ذلت اور رسوائی کا شکار تھے، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے آنے کے بعد بھی اس میں کمی نہیں آئی، اس لئے وہ سخت پریشان تھے، بلکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے انہوں نے یہ تک کہہ دیا، اے موسٰی، جس طرح تیرے آنے سے پہلے ہم فرعون اور اس کی قوم کی طرف سے تکلیفوں میں مبتلا تھے، تیرے آنے کے بعد بھی ہمارا یہی حال ہے۔ جس پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے انھیں کہا تھا کہ امید ہے کہ میرا رب جلدی تمہارے دشمن کو ہلاک کر دے گا۔ لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ تم صرف ایک اللہ سے مدد چاہو اور صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑو (ملاحظہ ہو سورت الا عراف آیات 128، 129) (قَالَ مُوْسٰي لِقَوْمِهِ اسْتَعِيْنُوْا باللّٰهِ وَاصْبِرُوْا ۚ اِنَّ الْاَرْضَ لِلّٰهِ ڐ يُوْرِثُهَا مَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِهٖ ۭوَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِيْنَ 128؁ قَالُوْٓا اُوْذِيْنَا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَاْتِيَنَا وَمِنْۢ بَعْدِ مَا جِئْتَنَا ۭ قَالَ عَسٰي رَبُّكُمْ اَنْ يُّهْلِكَ عَدُوَّكُمْ وَيَسْتَخْلِفَكُمْ فِي الْاَرْضِ فَيَنْظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُوْنَ 129؀ ) یہاں بھی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے انھیں تلقین کی کہ اگر تم اللہ کے سچے فرمانبردار ہو تو اسی پر توکل کرو۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَقَالَ مُوْسٰى يٰقَوْمِ اِنْ كُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ باللّٰهِ ۔۔ : موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات اور سچا نبی ثابت ہونے پر بھی فرعون کے ظلم میں کمی نہ آئی، بلکہ وہ اور بڑھ گیا۔ بنی اسرائیل نے موسیٰ (علیہ السلام) سے شکوہ کیا کہ آپ کے آنے سے پہلے بھی اور آپ کے آنے پر بھی ہمیں ایذا ہی دی گئی تو موسیٰ (علیہ السلام) نے انھیں صبر اور توکل کی تلقین فرمائی۔ دیکھیے سورة اعراف (١٢٨، ١٢٩) زیر تفسیر آیت میں اللہ پر توکل کو ایمان اور اسلام کا لازمی نتیجہ قرار دیا گیا، جیسا کہ دوسری آیات میں ایمان اور توکل یا عبادت اور توکل کو ایک ساتھ بیان فرمایا ہے۔ دیکھیے سورة ہود (١٢٣) ، ملک (٢٩) اور فاتحہ (٤) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَقَالَ مُوْسٰى يٰقَوْمِ اِنْ كُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللہِ فَعَلَيْہِ تَوَكَّلُوْٓا اِنْ كُنْتُمْ مُّسْلِمِيْنَ۝ ٨٤- قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - وكل - والتَّوَكُّلُ يقال علی وجهين، يقال :- تَوَكَّلْتُ لفلان بمعنی: تولّيت له، ويقال : وَكَّلْتُهُ فَتَوَكَّلَ لي، وتَوَكَّلْتُ عليه بمعنی: اعتمدته قال عزّ وجلّ : فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ [ التوبة 51] - ( و ک ل) التوکل ( تفعل )- اس کا استعمال دو طرح ہوتا ہے ۔ اول ( صلہ لام کے ساتھ ) توکلت لفلان یعنی میں فلاں کی ذمہ داری لیتا ہوں چناچہ وکلتہ فتوکل لی کے معنی ہیں میں نے اسے وکیل مقرر کیا تو اس نے میری طرف سے ذمہ داری قبول کرلی ۔ ( علیٰ کے ساتھ ) توکلت علیہ کے معنی کسی پر بھروسہ کرنے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ [ التوبة 51] اور خدا ہی پر مومنوں کو بھروسہ رکھنا چاہئے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٨٤) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ حالت دیکھ کر فرمایا کہ اسی پر بھروسہ کرو جب کہ تم مومن ہو۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :81 ظاہر ہے کہ یہ الفاظ کسی کافر قوم کو خطاب کر کے نہیں کہے جا سکتے تھے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا یہ ارشاد صاف بتا رہا ہے کہ بنی اسرائیل کی پوری قوم اس وقت مسلمان تھی ، اور حضرت موسیٰ علیہ السلام ان کو یہ تلقین فرما رہے تھے کہ اگر تم واقعی مسلمان ہو ، جیسا کہ تمہارا دعویٰ ہے ، تو فرعون کی طاقت سے خوف نہ کھاؤ بلکہ اللہ کی طاقت پر بھروسہ کرو ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani