[٩٦] کامیابی کے لئے وسائل اور اسباب اختیار کرنا اور دعا کرنا دونوں لازم و ملزوم ہیں :۔ اس آیت میں انبیاء کی دعوت و تبلیغ کے ابتدائی دور کا نقشہ پیش کیا جارہا ہے۔ انبیاء کی دعوت کو ابتداء میں قبول کرنے والے چند نوجوان اور باہمت لوگ ہی ہوتے ہیں جنہیں مخالفین کے شدائد اور ظلم و ستم کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔ پھر ان کے بزرگوں کی مصلحت کوشیاں بھی ان کے آڑے آتی ہیں اور ایک کثیر طبقہ تماشا دیکھنے والوں کا بھی موجود ہوتا ہے جو ان حالات میں غیر جانب دار رہتے ہیں وہ صرف اس انتظار میں رہتے ہیں جو فریق بھی غالب ہوگا وہ اس کے ساتھ مل جائیں گے اور اگر ان جوانوں کی جماعت کو کوئی مصیبت پیش آجائے تو ان کے لیے اپنے بزرگ بھی جو دل سے مومن ہوتے ہیں ان کی پیش رفت پر طعنہ زنی کرنے اور کیڑے نکالنے لگتے ہیں گویا یہ دور ہر طرح سے اس مختصر سی مسلمان جماعت کے لیے سخت ابتلا کا دور ہوتا ہے۔ یہی صورتحال موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لانے والے ان نوجوانوں کی تھی جو اپنے ایمان پر ثابت قدم رہتے اور اللہ پر بھروسہ کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ سے دعائیں بھی کرتے تھے کہ اے ہمارے پروردگار ہم پر رحم فرما اور جن مشکلات میں ہم گھرے ہوئے ہیں اس سے نجات کی راہ پیدا فرما دے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مسلمان کے لیے وسائل و اسباب کو اختیار کرنا اور اس کے ساتھ ساتھ اللہ سے دعا کرتے رہنا دونوں باتیں کامیابی کے لیے لازم و ملزوم ہیں نیز یہ بھی کہ وسائل و اسباب کو اختیار کیے بغیر محض دعاؤں پر انحصار کرنے کا کچھ فائدہ نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ دعا بھی صرف اس صورت میں قبول کرتا اور اپنی رحمت اور مدد نازل فرماتا ہے جب انسان یا کوئی قوم اپنے مقدور بھر اسباب و وسائل کو بھی اختیار کرتی ہے۔
فَقَالُوْا عَلَي اللّٰهِ تَوَكَّلْنَا۔۔ : انھوں نے پیغمبر کی نصیحت کو نہ صرف قبول کیا بلکہ زبان سے اقرار بھی کیا کہ ہم صرف اللہ ہی پر توکل کرتے ہیں، وہی ہمارا سہارا ہے اور اس کے ساتھ دو دعائیں کیں اور یہ دونوں دعائیں ظالم حکمرانوں کے ظلم سے بچنے کے لیے اکسیر ہیں۔ پہلی دعا یہ کہ اے ہمارے پروردگار ہمیں ظالم لوگوں کے لیے فتنہ نہ بنا۔ ” فِتنۃً “ کا لفظ مصدر ہے جو ” فَتَنَ “ فعل معروف کا مصدر بمعنی اسم فاعل ہوگا، یعنی ” فَاتِنِیْنَ “ فتنے اور آزمائش میں ڈالنے والے۔ اسی طرح یہ ” فُتِنَ “ فعل مجہول کا مصدر بمعنی اسم مفعول بھی ہوسکتا ہے، یعنی ” مَفْتُوْنِیْنَ “ فتنے میں ڈالے ہوئے۔ پہلی صورت میں معنی ہوگا کہ یا اللہ تو ہمیں ان ظالموں کو فتنے میں ڈالنے والے، یعنی کفر کے فتنے میں ڈالنے کا باعث نہ بنا کہ اگر یہ ہم پر مسلط رہے اور ہم مسلسل ان کے ظلم کا نشانہ ہی بنے رہے تو یہ اپنے سچے ہونے اور حق پر ہونے کے فتنے میں پڑجائیں گے اور کفر میں مزید پختہ ہوجائیں گے اور سمجھیں گے کہ اگر مسلمان سچے اور حق پر ہوتے تو ان کا رب ضرور ان کی مدد کرتا، جیسا کہ ایک شاعر نے کہا ہے - حق پرستوں کی اگر کی تو نے دل جوئی نہیں - طعنہ دیں گے بت کہ مسلم کا خدا کوئی نہیں - اور ” فِتنَۃً “ کو مصدر مجہول ماننے کی صورت میں معنی یہ ہوگا کہ ہمیں ان ظالموں کے لیے (مفتون) فتنے میں پڑجانے والے نہ بنا کہ ان کے ظلم و تشدد کی وجہ سے ہمارا کوئی شخص فتنۂ ارتداد میں پڑ کر ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ دوسری دعا یہ کی کہ پروردگار تو ہمیں صرف ان کے لیے فتنے کا باعث بننے ہی سے نہ بچا، بلکہ اپنی رحمت کے ساتھ ان کافروں سے ہمیں نجات اور آزادی بھی دلا۔ اس دعا سے معلوم ہوا کہ اللہ کے بندوں کو ایمان اور آخرت کی کتنی فکر تھی کہ وہ یہ بھی نہیں چاہتے تھے کہ وہ کسی شخص کے کفر میں مبتلا رہنے کا باعث بنیں اور نہ یہ چاہتے تھے کہ کسی کے ظلم کی وجہ سے خود فتنے میں پڑ کر اپنا ایمان ضائع کر بیٹھیں۔
فَقَالُوْا عَلَي اللہِ تَوَكَّلْنَا ٠ ۚ رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَۃً لِّلْقَوْمِ الظّٰلِــمِيْنَ ٨٥ ۙ- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں
(٨٥۔ ٨٦) وہ کہنے لگے ہم نے اللہ پر توکل کیا کہ اے ہمارے پروردگار ہم پر ان مشرکین کو مسلط نہ فرما کہ پھر وہ ہمیں باطل پر اور اپنے کو حق پر جانیں اور ہمیں فرعون اور اس کی قوم سے نجات عطا فرما ،
آیت ٨٥ (فَقَالُوْا عَلَی اللّٰہِ تَوَکَّلْنَاج رَبَّنَا لاَ تَجْعَلْنَا فِتْنَۃً لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ )- اللہ پر توکل کرتے ہوئے ہم اپنا معاملہ اسی کے حوالے کرتے ہیں۔ پروردگار اب ایسا نہ ہو کہ ہمارے ذریعے سے تو ان کو آزمائے۔ جیسے ابو جہل اگر آل یاسر پر ظلم ڈھاتا تھا تو اللہ کے ہاں یہ اس کی بھی آزمائش ہو رہی تھی ‘ لیکن اس آزمائش میں تختۂ مشق حضرت یاسر اور حضرت سمیہ بن رہے تھے۔
سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :82 یہ جواب ان نوجوانوں کا تھا جو موسی علیہ السلام کا ساتھ دینے پر آمادہ ہوئے تھے یہاں قالوا کی ضمیر قوم کی طرف نہیں بلکہ ذریہ کی طرف پھر رہی ہے جیسا کہ سیاق کلام سے خود ظاہر ہے ۔ سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :83 ان صادق الایمان نوجوانوں کی یہ دعا کہ ہمیں ظالم لوگوں کے لیے فتنہ نہ بنا ، بڑے وسیع مفہوم پر حاوی ہے ۔ گمراہی کے عالم غلبہ وتسلط کی حالت میں جب کچھ لوگ قیام حق کے لیے اٹھتے ہیں ، تو انہیں مختلف قسم کے ظالموں سے سابقہ پیش آتا ہے ۔ ایک طرف باطل کے اصلی علمبردار ہوتے ہیں جو پوری طاقت سے ان داعیان حق کو کچل دینا چاہتے ہیں ۔ دوسری طرف نام نہاد حق پرستوں کا ایک اچھا خاصا گروہ ہوتا ہے جو حق کو ماننے کا دعوی تو کرتا ہے مگر باطل کی قاہرانہ فرماں روائی کے مقابلہ میں اقامت حق کی سعی کو غیر واجب ، لا حاصل ، یا حماقت سمجھتا ہے اور اس کی انتہائی کوشش یہ ہوتی ہے کہ اپنی خیانت کو جو وہ حق کے ساتھ کر رہا ہے کسی نہ کسی طرح درست ثابت کر دے اور ان لوگوں کو الٹا برسر باطل ثابت کر کے اپنے ضمیر کی اس خلش کو مٹائے جو ان کی دعوت اقامت دین حق سے اس کے دل کی گہرائیوں میں جلی یا خفی طور پر پیدا ہوتی ہے ۔ تیسری طرف عامۃ الناس ہوتے ہیں جو الگ کھڑے تماشا دیکھ رہے ہوتے ہیں اور ان کا ووٹ آخر کار اسی طاقت کے حق میں پڑا کرتا ہے جس کا پلہ بھاری رہے ، خواہ وہ طاقت حق ہو یا باطل ۔ اس صورت حال میں ان داعیان حق کی ہر ناکامی ، ہر مصیبت ، ہر غلطی ، ہر کمزوری اور ہر خامی ان مختلف گروہوں کے لیے مختلف طور پر فتنہ بن جاتی ہے ۔ وہ کچل ڈالے جائیں یا شکست کھا جائیں تو پہلا گروہ کہتا ہے کہ حق ہمارے ساتھ تھا نہ کہ ان بے وقوفوں کے ساتھ جو ناکام ہوگئے ۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ دیکھ لیا ہم نہ کہتے تھے کہ ایسی بڑی بڑی طاقتوں سے ٹکرانے کا حاصل چند قیمتی جانوں کی ہلاکت کے سوا کچھ نہ ہوگا ، اور آخرکار اس تہلکہ میں اپنے آپ کو ڈالنے کا ہمیں شریعت نے مکلف ہی کب کیا تھا ، دین کے کم سے کم ضروری مطالبات تو ان عقائد و اعمال سے پورے ہو ہی رہے تھے جن کی اجازت فراعنہ وقت نے دے رکھی تھی ۔ تیسرا گروہ فیصلہ کر دیتا ہے کہ حق وہی ہے جو غالب رہا ۔ اسی طرح اگر وہ اپنی دعوت کے کام میں کوئی غلطی کر جائیں یا مصائب و مشکلات کی سہار نہ ہونے کی وجہ سے کمزوری دکھا جائیں ، یا ان سے ، بلکہ ان کے کسی ایک فرد سے بھی کسی اخلاقی عیب کا صدور ہو جائے ، تو بہت سے لوگوں کے لیے باطل سے چمٹے رہنے کے ہزار بہانے نکل آتے ہیں اور پھر اس دعوت کی ناکامی کے بعد مدت ہائے دراز تک کسی دوسری دعوت حق کے اٹھنے کا امکان باقی نہیں رہتا ۔ پس یہ بڑی معنی خیز دعا تھی جو موسی علیہ السلام کے ان ساتھیوں نے مانگی تھی کہ خدایا ہم پر ایسا فضل فرما کہ ہم ظالموں کے لیے فتنہ بن کر نہ رہ جائیں ۔ یعنی ہم کو غلطیوں سے خامیوں سے کمزوریوں سے بچا اور ہماری سعی کو دنیا میں بار آور کر دے ، تاکہ ہمارا وجود تیری خلق کے لیے سبب خیر بنے نہ کہ ظالموں کے لیے وسیلہ شر ۔