Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

97۔ 1 یہ وہی لوگ ہیں جو کفر و مصیت الٰہی میں اتنے غرق ہوچکے ہوتے ہیں کہ کوئی و عظ ان پر اثر نہیں کرتا اور کوئی دلیل ان کے کارگر نہیں ہوتی۔ اسلئے نافرمانیاں کرکے قبول حق کی فطری استعداد و صلاحیت کو وہ ختم کر لئے ہوتے ہیں، ان کی آنکھیں اگر کھلتی ہیں تو اس وقت، جب عذاب الٰہی ان کے سروں پر آجاتا ہے، تب وہ ایمان اللہ کی بارگاہ میں قبول نہیں ہوتا (فَلَمْ يَكُ يَنْفَعُهُمْ اِيْمَانُهُمْ لَمَّا رَاَوْا بَاْسَـنَا) (40 ۔ المومن۔ 85) جب وہ ہمارا عذاب دیکھ چکے (اس وقت) ان کے ایمان نے انھیں کوئی فائدہ نہیں دیا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَلَوْ جَاۗءَتْھُمْ كُلُّ اٰيَةٍ ۔۔ : یعنی کوئی بھی نشانی یا معجزہ آجائے، وہ ہرگز ایمان نہیں لائیں گے، یہاں تک کہ عذاب الیم دیکھ لیں، مگر اس وقت انھیں ایمان لانے کا کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکے گا، جیسا کہ فرعون اور اس کی قوم کو کچھ فائدہ نہیں ہوا اور اسی طرح دوسرے پیغمبروں کی امتوں کے کفار کو اللہ کا عذاب دیکھنے پر ایمان لانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ دیکھیے سورة مومن (٨٥) اس کی وجہ اللہ تعالیٰ نے یہ بتائی ہے کہ اگر اس وقت ان کو چھوڑ دیا جائے تو وہ دوبارہ کفر کی روش پر چل نکلیں گے۔ دیکھیے سورة انعام (٢٧، ٢٨) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَوْ جَاۗءَتْھُمْ كُلُّ اٰيَۃٍ حَتّٰى يَرَوُا الْعَذَابَ الْاَلِيْمَ۝ ٩٧- لو - لَوْ : قيل : هو لامتناع الشیء لامتناع غيره، ويتضمّن معنی الشرط نحو : قوله تعالی: قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء 100] .- ( لو ) لو ( حرف ) بعض نے کہا ہے کہ یہ امتناع الشئی لا متناع غیر ہ کے لئے آتا ہے ( یعنی ایک چیز کا دوسری کے امتناع کے سبب ناممکن ہونا اور معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء 100] کہہ دو کہ اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے ہاتھ میں ہوتے ۔ - الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- ألم - الأَلَمُ الوجع الشدید، يقال : أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قال تعالی: فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَما تَأْلَمُونَ [ النساء 104] ، وقد آلمت فلانا، و عذاب أليم، أي : مؤلم . وقوله : لَمْ يَأْتِكُمْ [ الأنعام 130] فهو ألف الاستفهام، وقد دخل علی «لم» .- ( ا ل م ) الالم - کے معنی سخت درد کے ہیں کہا جاتا ہے الم یالم ( س) أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قرآن میں ہے :۔ فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ ( سورة النساء 104) تو جس طرح تم شدید درد پاتے ہو اسی طرح وہ بھی شدید درد پاتے ہیں ۔ اٰلمت فلانا میں نے فلاں کو سخت تکلیف پہنچائی ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ( سورة البقرة 10 - 174) میں الیم بمعنی مؤلم ہے یعنی دردناک ۔ دکھ دینے والا ۔ اور آیت :۔ اَلَم یَاتِکُم (64 ۔ 5) کیا تم کو ۔۔ نہیں پہنچی ۔ میں الف استفہام کا ہے جو لم پر داخل ہوا ہے ( یعنی اس مادہ سے نہیں ہے )

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٩٧) خواہ ان کے پاس تمام دلائل پہنچ جائیں جن کا وہ آپ سے مطالبہ کرتے ہیں، پھر بھی وہ ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ بدر، احد اور احزاب کے واقعات نہ دیکھ لیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٩٧ (وَلَوْ جَآءَ تْہُمْ کُلُّ اٰیَۃٍ حَتّٰی یَرَوُا الْعَذَابَ الْاَلِیْمَ )- جیسا کہ فرعون کا معاملہ ہوا کہ جب غرق ہونے لگا تب ایمان لایا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani