افسوس انسان نے اکثر حق کی مخالفت کی کسی بستی کے تمام باشندے کسی نبی پر کبھی ایمان نہیں لائے ۔ یا تو سب نے ہی کفر کیا یا اکثر نے ۔ سورہ یٰسین میں فرمایا بندوں پر افسوس ہے ان کے پاس جو رسول آئے انہوں نے ان کا مذاق اڑایا ۔ ایک آیت میں ہے ان سے پہلے رسول آئے ، انہیں لوگوں نے جادوگر یا مجنون کا ہی خطاب دیا ۔ تجھ سے پہلے جتنے رسول آئے سب کو ان کی قوم کے سرکشوں ساہو کاروں نے یہی کہا کہ ہم نے تو اپنے بڑوں کو جس لکیر پر پایا اسی کے فقیر بنے رہیں گے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مجھ پر انبیاء پیش کئے گئے کسی نبی کے ساتھ تو لوگوں کا ایک گروہ تھا ۔ کسی کے ساتھ صرف ایک آدمی کوئی محض تنہا ۔ پھر آپ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی امت کی کثرت کا بیان کیا ۔ پھر اپنی امت کا ، اس سے بھی زیادہ ہونا ۔ زمین کے مشرق مغرب کی سمت کو ڈھانپ لینا بیان فرمایا ۔ الغرض تمام انبیاء میں سے کسی کی ساری امت نے انہیں نبی نہیں مانا ۔ سوائے اہل نینویٰ کے جو حضرت یونس علیہ السلام کی امت کے لوگ تھے ۔ یہ بھی اس وقت جب نبی علیہ السلام کی زبان سے عذاب کی خبر معلوم ہوگئی ۔ پھر اس کے ابتدائی آثار بھی دیکھ لیے ۔ ان کے نبی علیہ السلام انہیں چھوڑ کر چلے بھی گئے ۔ اس وقت یہ سارے کے سارے اللہ کے سامنے جھک گئے اس سے فریاد شروع کی ، اس کی جناب میں عاجزی اور گریہ و زاری کرنے لگے ، اپنی مسکینی ظاہر کرنے لگے ۔ اور دامن رحمت سے لپٹ گئے ۔ سارے کے سارے میدان میں نکل کھڑے ہوئے اپنی بیویوں ، بچوں اور جانوروں کو بھی ساتھ اٹھا کر لے گئے ۔ اور آنسوؤں کی جھڑیاں لگا کر اللہ تعالیٰ سے فریاد کرنے دعائیں مانگنے لگے کہ یا رب عذاب ہٹا لے ۔ رحمت رب جوش میں آئی ، پروردگار نے ان سے عذاب ہٹا لیا اور دنیا کی رسوائی کے عذاب سے انہیں بچالیا ۔ اور ان کی عمر تک کی انہیں مہلت دے دی اور اس دنیا کا فائدہ انہیں پہنچایا ۔ یہاں جو فرمایا کہ دنیا کا عذاب ان سے ہٹا لیا ۔ اس سے بعض نے کہا ہے کہ اُخروی عذاب دور نہیں ۔ لیکن یہ ٹھیک نہیں اس لے کے دوسری آیت میں ہے ( فَاٰمَنُوْا فَمَتَّعْنٰهُمْ اِلٰى حِيْنٍ ١٤٨ۭ ) 37- الصافات:148 ) وہ ایمان لائے اور ہم نے انہیں زندگی کا فائدہ دیا ۔ اس سے ثابت ہوا کہ وہ ایمان لائے ۔ اور یہ ظاہر ہے کہ ایمان آخرت کے عذاب سے نجات دینے والا ہے ۔ واللہ اعلم ۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں آیت کا مطلب یہ ہے کہ کس بستی اہل کفر کا عذاب دیکھ لینے کے بعد ایمان لانا ان کے لیے نفع بخش ثابت نہیں ہوا ۔ سوائے قوم یونس علیہ السلام کی قوم کے کہ جب انہوں نے دیکھا کہ ان کے نبی ان میں سے نکل گئے اور انہوں نے خیال کر لیا کہ اب اللہ کا عذاب آیا چاہتا ہے ، اس وقت توبہ استغفار کرنے لگے ٹاٹ پہن کر خشوع و خضوع سے میلے کچیلے میدان میں آکھڑے ہوئے بچوں کو ماؤں سے دور کردیا ۔ جانوروں کے تھنوں سے ان کے بچوں کو الگ کر دیا ۔ اب جو رونا دھونا اور فریاد شروع کی تو چالیس دن رات اسی طرح گزار دیئے ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے دل کی سچائی دیکھ لی ۔ ان کی توبہ و ندامت قبول فرمائی اور ان سے عذاب دور کردیا ، یہ لوگ موصل کے شہر نینویٰ کے رہنے والے تھے ۔ فلو لا کی فھلا قرأت بھی ہے ان کے سروں پر عذاب رات کی سیاہی کے ٹکڑوں کی طرح گھوم رہا تھا ان کے علماء نے انہیں مشورہ دیا تھا کہ جنگل میں نکل کھڑے ہو اور اللہ سے دعا کرو کہ وہ ہم سے اپنے عذاب کو دور کر دے اور یہ کہو یاحی حین لاحی یاحی محیی الموتی یاحی لا الہ الا انت قوم یونس کا پورہ قصہ سورہ الصافات کی تفسیر میں انشاء اللہ العزیز ہم بیان کریں گے ۔
98۔ 1 لولا یہاں تحضیض کے لیے ھلا کے معنی میں ہے یعنی جن بستیوں کو ہم نے ہلاک کیا، ان میں کوئی ایک بستی بھی ایسی کیوں نہ ہوئی جو ایسا ایمان لاتی جو اس کے لئے فائدہ مند ہوتا۔ ہاں صرف یونس (علیہ السلام) کی قوم ایسی ہوئی ہے کہ جب وہ ایمان لے آئی تو اللہ نے ان سے عذاب دور کردیا مختصر پس منظر یہ کہ یونس (علیہ السلام) نے جب دیکھا کہ ان کی تبلیغ و دعوت سے ان کی قوم متاثر نہیں ہو رہی تو انہوں نے قوم میں اعلان کیا کہ فلاں فلاں دن تم پر عذاب آجائے گا اور وہ خود وہاں سے نکل گئے۔ جب عذاب بادل کی طرح ان پر امڈ آیا تو وہ بچوں عورتوں سمیت ایک میدان میں جمع ہوگئے اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ و استفغار شروع کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرما لی اور ان سے عذاب ٹال دیا۔ حضرت یونس (علیہ السلام) آنے جانے والے مسافروں سے اپنی قوم کا حال معلوم کرتے رہتے تھے، انھیں جب معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی قوم سے عذاب ٹال دیا ہے، تو انہوں نے اپنی تکذیب کے بعد اس قوم میں جانا پسند نہیں کیا بلکہ ان سے ناراض ہو کر وہ کسی اور طرف روانہ ہوگئے، جس پر وہ کشتی کا واقعہ پیش آیا (جس کی تفصیل اپنے مقام پر آئے گی) البتہ مفسرین کے درمیان اس امر میں اختلاف ہے کہ قوم یونس ایمان کب لائی ؟ عذاب دیکھ کر لائی جب کہ ایمان لانا نافع نہیں ہوتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے اس قانون سے مستثنی کر کے اس کے ایمان کو قبول کرلیا۔ یا ابھی عذاب نہیں آیا تھا یعنی وہ مرحلہ نہیں آیا تھا کہ جب ایمان نافع نہیں ہوتا۔ لیکن قرآن کریم قوم یونس کا الا کے ساتھ جو استثنا کیا ہے وہ پہلی تفسیر کی تائید کرتا ہے۔ واللہ اعلم با الصواب۔ 98۔ 2 قرآن نے دنیاوی عذاب کے دور کرنے کی صراحت تو کی ہے، اخروی عذاب کی بابت صراحت نہیں کی، اس لیے بعض مفسرین کے خیال میں اخروی عذاب ان سے ختم نہیں کیا گیا۔ لیکن جب قرآن نے یہ وضاحت کردی کہ دنیاوی عذاب، ایمان لانے کی وجہ سے ٹالا گیا تھا، تو پھر اخروی عذاب کی بابت صراحت کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہ جاتی ہے۔ کیونکہ اخروی عذاب کا فیصلہ تو ایمان اور عدم ایمان کی بنیاد پر ہی ہونا ہے۔ اگر ایمان لانے کے بعد قوم یونس اپنے ایمان پر قائم رہی ہوگی، تو یقینا وہ اخروی عذاب سے بھی محفوظ رہے گی۔ البتہ بصورت دیگر عذاب سے بچنا صرف دنیا ہی کی حد تک ہی ہوگا۔
[١٠٦] سیدنایونس کا مرکز تبلیغ نینوا :۔ سیدنا یونس (علیہ السلام) کا ذکر یہاں پہلی دفعہ آیا ہے اور غالباً اسی وجہ سے اس سورة کا نام سورة یونس ہے البتہ آگے تین مقامات پر بھی اجمالی ذکر ہوگا یعنی سورة انبیاء کی آیات ٨٧۔ ٨٨ میں اور سورة الصافات کی آیات ١٣٩ تا ١٤٨ میں اور سورة قلم کی آیات ٤٨ تا ٥٠ میں، آپ تقریباً آٹھ سو سال قبل مسیح اہل نینوا کی طرف مبعوث ہوئے۔ نینوا اس زمانے میں دریائے دجلہ کے کنارے ایک بہت بڑا اور بارونق شہر تھا اور اس شہر کے کھنڈرات موجودہ شہر موصل (عراق) کے عین مقابل پائے جاتے ہیں یہی شہر اشوریوں (قوم یونس) کا دارالسلطنت تھا اور اس کے کھنڈرات سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ شہر تقریباً ساٹھ مربع میل میں پھیلا ہوا تھا۔- یونس (علیہ السلام) کا فرار اور عذاب کا ٹل جانا :۔ اشوری لوگ بھی بت پرست تھے سیدنا یونس نے سات سال تک انھیں تبلیغ کی اور اللہ کا پیغام پہنچایا مگر ان پر کچھ بھی اثر نہ ہوا اور اپنے نبی کی تکذیب اور مخالفت پر کمر بستہ رہے ایسے سرکش اور ہٹ دھرم لوگوں کے متعلق اللہ تعالیٰ کی سنت جاریہ یہی ہے کہ ان پر عذاب نازل کرکے انھیں تباہ و برباد کردے اور ایسے عذاب سے انبیاء اپنی اپنی سرکش قوموں کو ڈراتے بھی رہے ہیں۔ سیدنا یونس (علیہ السلام) نے ان لوگوں سے مایوس ہو کر اور تنگ آکر انھیں ایک معینہ وقت پر (بعض روایات کے مطابق ٣ دن اور بعض روایات کے مطابق چالیس دن بعد) عذاب نازل ہونے کی دھمکی دے دی حالانکہ معین وقت کی قید کے ساتھ عذاب کی دھمکی دینا اللہ تعالیٰ کی سنت کے خلاف ہے۔ اس قوم نے پھر بھی کوئی پرواہ نہ کی اور جب عذاب آنے کے موعودہ وقت میں ایک آدھ دن باقی رہ گیا اور عذاب کے آثار نظر نہ آئے تو سیدنا یونس اللہ کے اذن کے بغیر وہاں سے چل کھڑے ہوئے کہ مبادا عذاب نہ آئے اور ان لوگوں کی نظروں میں جھوٹے ثابت ہوں۔ آپ کا اس طرح بلا حکم الٰہی نکل کھڑے ہونا بھی اگرچہ اللہ کی رضا کے خلاف تھا تاہم آپ کو سچا کرنے کی خاطر معینہ وقت پر عذاب آگیا، سیاہ بادل چھا گئے اور تاریک دھواں اس قوم کے گھروں کی طرف بڑھنے لگا اس وقت لوگوں نے سیدنا یونس کو تلاش کرنا شروع کیا اور جب وہ نہ ملے تو خود اپنے بال بچوں بلکہ حیوانوں سمیت ایک وسیع میدان میں اکٹھے ہوگئے اور اللہ کے حضور اپنے گناہوں کا اعتراف اور آہ وزاری کرنے لگے اور اس گریہ وزاری میں اتنا مبالغہ کیا کہ اللہ نے ان کی توبہ قبول فرما لی اور ان پر واقع ہونے والے عذاب سے انھیں نجات دے دی۔ اللہ کی سنت جاریہ میں استثناء کی یہ واحد مثال ہے کہ اس قوم پر سے آنے والے عذاب کو روک دیا گیا۔- عذاب کے ٹلنے کی وجوہ :۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس قوم سے یہ امتیازی اور استثنائی سلوک کیوں ہوا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ امتیازی سلوک بھی اللہ کے ایک دوسرے قانون کے مطابق ہوا تھا جو یہ تھا کہ سیدنا یونس امر الٰہی کے بغیر انھیں چھوڑ کر چلے گئے اور ابھی ان پر اتمام حجت کا وقت پورا نہیں ہوا تھا اور اس کی دوسری وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ جس انداز سے ان لوگوں نے اللہ کے حضور آہ ورازی کی اور اپنے گناہوں سے توبہ کی اس طرح پہلے کسی قوم نے نہ کی تھی۔ واللہ اعلم بالصواب
فَلَوْلَا كَانَتْ قَرْيَةٌ اٰمَنَتْ فَنَفَعَهَآ اِيْمَانُهَآ۔۔ : یعنی کوئی ایسی بستی کیوں نہ ہوئی جو رسول کے عذاب سے ڈرانے پر ڈر جاتی اور عذاب آنے سے پہلے ایمان لے آتی، پھر اس کا ایمان اسے نفع دیتا، مگر ایسی کوئی بستی بھی نہ ہوئی، سب اس وقت ہی ایمان لائے جب ان پر اللہ تعالیٰ کا عذاب آگیا، سوائے یونس (علیہ السلام) کی قوم کے کہ یونس (علیہ السلام) کے کئی سال دعوت دینے کے باوجود جب وہ ایمان نہ لائے تو یونس (علیہ السلام) نے ان پر عذاب کے لیے بددعا کی اور انھیں آگاہ کردیا کہ تم پر عذاب آنے ہی والا ہے اور خود وہاں سے ناراض ہو کر نکل گئے۔ دیکھیے سورة انبیاء (٨٧) اور صافات (١٤٠) قوم جانتی تھی کہ یونس نے کبھی جھوٹ نہیں بولا، ان کے نکل جانے سے وہ مزید ڈر گئے، اس لیے عذاب آنے سے پہلے ہی پوری بستی نے نہایت عاجزی کے ساتھ کفر سے توبہ کی اور یونس (علیہ السلام) پر ایمان لے آئے، اب یہ ایمان چونکہ بروقت تھا، عذاب دیکھنے سے پہلے تھا، اس لیے اس ایمان نے انھیں یہ نفع دیا کہ ان سے عذاب ہٹا لیا گیا اور اللہ تعالیٰ نے انھیں ان کی طبعی عمر تک دنیا کی زندگی سے فائدہ اٹھانے کا موقع دیا۔ سورة صافات کی آخری آیات میں بھی ان کے ایمان لانے اور اس کے نافع ہونے کا ذکر ہے۔ - 3 یہ کفار قریش اور اہل کتاب کو تنبیہ ہے کہ تمہیں یونس (علیہ السلام) کی قوم سے سبق حاصل کرنا چاہیے اور عذاب سے پہلے ایمان لے آنا چاہیے، نہ کہ آل فرعون اور دوسری برباد ہونے والی قوموں کے نقش قدم پر چلنا چاہیے۔ - 3 تفسیر قاسمی میں ہے کہ یہ بات کہ عذاب کے بادل پہنچ گئے تھے، اندھیرا چھا گیا تھا، پھر انھوں نے توبہ کی، قرآن و حدیث میں کہیں مذکور نہیں اور نہ ہی عذاب آنے کے بعد ٹلتا ہے۔
ساتویں آیت میں غفلت شعار منکرین کو اس پر تنبیہ کی گئی ہے کہ زندگی کی فرصت کو غنیمت جانو، انکار و سرکشی سے اب بھی باز آجاؤ ورنہ ایک ایسا وقت آنے والا ہے جب توبہ کرو گے تو توبہ قبول نہ ہوگی، ایمان لاؤ گے تو ایمان مقبول نہ ہوگا اور وہ وقت وہ ہوگا جبکہ موت کے وقت آخرت کا عذاب سامنے آجائے، اسی سلسلہ میں حضرت یونس (علیہ السلام) اور ان کی قوم کا ایک واقعہ ذکر فرمایا گیا جس میں بڑی عبرتیں اور نصیحتیں ہیں۔- اس آیت میں ارشاد ہے کہ ایسا کیوں نہ ہوا کہ منکر قومیں ایسے وقت ایمان لے آئیں کہ ان کا ایمان ان کو نفع دیتا یعنی موت کے وقت یا وقوع عذاب اور مبتلاء عذاب ہوچکنے کے بعد یا قیامت کے وقت جب کہ توبہ کا دروازہ بند ہوجائے گا کسی کی توبہ اور ایمان مقبول نہ ہوگا، اس سے پہلے پہلے اپنی سرکشی سے باز آجاتیں اور ایمان لے آتیں، بجز قوم یونس (علیہ السلام) کے کہ انہوں نے ایسا وقت آنے سے پہلے ہی جب خدا تعالیٰ کا عذاب آتا دیکھا تو فوراً توبہ کرلی اور ایمان لے آئے، جس کی وجہ سے ہم نے ان سے رسوا کرنے والا عذاب ہٹا لیا۔- اس تفسیر کا حاصل یہ ہے کہ دنیا کا عذاب سامنے آجانے پر بھی توبہ کا دروازہ بند نہیں ہوتا اور عذاب آخرت کا سامنے آنا یا قیامت کے دن ہوگا یا موت کے وقت، خواہ وہ طبعی موت ہو یا کسی دنیوی عذاب میں مبتلا ہو کر ہو جیسے فرعون کو پیش آیا۔- اس لئے قوم یونس (علیہ السلام) کی توبہ قبول ہوجانا عام ضابطہ الہٰیہ کے خلاف نہیں بلکہ اس کے ماتحت ہے کیونکہ انہوں نے اگرچہ عذاب آتا ہوا دیکھ کر توبہ کی مگر عذاب میں مبتلا ہونے اور موت سے پہلے کرلی، بخلاف فرعون اور دو سرے لوگوں کے جنہوں نے عذاب میں مبتلا ہونے کے بعد اور غرغرہ موت کے وقت توبہ کی اور ایمان کا اقرار کیا اس لئے ان کا ایمان معتبر نہ ہوا اور توبہ قبول نہ ہوئی۔- قوم یونس (علیہ السلام) کے واقعہ کی ایک نظیر خود قرآن کریم میں بنی اسرائیل کا وہ واقعہ ہے جس میں کوہ طور کو ان کے سروں پر معلق کرکے ان کو ڈرایا گیا اور توبہ کرنے کا حکم دیا گیا انہوں نے توبہ کرلی تو وہ توبہ قبول ہوئی، جس کا ذکر سورة بقرہ میں آیا ہے۔- (آیت) رَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّوْرَ ۭ خُذُوْا مَآ اٰتَيْنٰكُمْ بِقُوَّةٍ ، ہم نے ان کے سروں پر کوہ طور کو معلق کرکے حکم دیا کہ جو احکام تمہیں دیئے گئے ہیں ان کو مضبوطی سے پکڑو۔- وجہ یہ تھی کو انہوں نے عذاب کے واقع ہونے اور موت میں مبتلا ہونے سے پہلے محض عذاب کا اندیشہ دیکھ کر توبہ کرلی تھی، اسی طرح قوم یونس (علیہ السلام) نے عذاب کو آتا ہوا دیکھ کر اخلاص اور الحاح وزاری کے ساتھ توبہ کرلی جس کی تفصیل آگے آتی ہے تو اس توبہ کا قبول ہوجانا ضابطہ مذکورہ کے خلاف نہیں ( قرطبی) اس جگہ بعض معاصرین سے ایک سخت غلطی ہوئی ہے کہ حضرت یونس (علیہ السلام) کی طرف فریضہ رسالت ادا کرنے میں کوتاہیوں کی نسبت کردی اور قوم سے عذاب ہٹ جانے کا سبب پیغمبر کی کوتاہی کو قرار دیا اور اسی کوتاہی کو سبب عتاب بنایا جس کا ذکر سورة انبیاء اور سورة صٰفٰت میں آیا ہے، ان کے الفاظ یہ ہیں :- " قرآن کے اشارات اور صحیفہ یونس کی تفصیلات پر غور کرنے سے اتنی بات صاف معلوم ہوجاتی ہے کہ حضرت یونس (علیہ السلام) سے فریضہ رسالت ادا کرنے میں کچھ کو تاہیاں ہوگئی تھیں اور غالباً انہوں نے بےصبر ہو کر قبل از وقت اپنا مستقر چھوڑ دیا تھا اس لئے جب آثار عذاب دیکھ کر آشوریوں نے توبہ و استغفار کی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف کردیا، قرآن میں خدائی دستور کے جو اصول و کلیات بیان کئے گئے ہیں ان میں ایک مستقل دفعہ یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کو اس وقت تک عذاب نہیں دیتا جب تک اس پر اپنی حجت پوری نہیں کردیتا پس جب نبی جگہ سے ہٹ گیا تو اللہ تعالیٰ کے انصاف نے اس قوم کو عذاب دینا گوارا نہ کیا۔ " اھ ( تفہیم القرآن مولانا مودودی ٣١٢۔ ج ٢ طبع ١٩٦٤ ء) - یہاں سب سے پہلے دیکھنے کی بات یہ ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) کا گناہوں سے معصوم ہونا تو ایک مسلمہ عقیدہ ہے جس پر تمام امت کا اجماع ہے، اس کی تفصیلات میں کچھ جزوی اختلاف بھی ہیں کہ یہ عصمت ہر قسم کے صغیرہ گناہوں سے ہے یا صرف کبیرہ سے اور یہ کہ یہ عصمت قبل از نبوت کے زمانے کو بھی شامل ہے یا نہیں، لیکن اس میں کسی فرقہ کسی شخص کا اختلاف نہیں ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) سب کے سب ادائے رسالت کے فریضہ میں کبھی کوتاہی نہیں کرسکتے، کیونکہ انبیاء کے لئے اس سے بڑا کوئی گناہ نہیں ہوسکتا کہ جس منصب کے لئے اللہ تعالیٰ نے ان کا انتخاب فرمایا ہے خود اسی میں کوتاہی کر بیٹھیں، یہ تو فرض منصبی میں کھلی ہوئی خیانت ہے جو عام شریف انسانوں سے بھی بعید ہے، اس کوتاہی سے بھی اگر پیغمبر معصوم نہ ہوا تو پھر دوسرے گناہوں سے عصمت بےفائدہ ہے۔- قرآن و سنت کے مسلمہ اصول اور اجماعی عقیدہ عصمت انبیاء کے بظاہر خلاف اگر کسی جگہ قرآن و حدیث میں بھی کوئی بات نظر آتی تو اصول مسلمہ کی رو سے ضروری تھا کہ اس کی تفسیر و معنی کی ایسی توجیہ تلاش کی جاتی جس سے وہ قرآن و حدیث کے قطعی الثبوت اصول سے متصادم و مختلف نہ رہے۔- مگر یہاں تو عجیب بات یہ ہے کہ مصنف موصوف نے جس بات کو قرآنی اشارات اور صحیفہ یونس کی تفصیلات کے حوالہ سے پیش کیا ہے وہ صحیفہ یونس میں ہو تو ہو جس کا اہل اسلام میں کوئی اعتبار نہیں، قرآنی اشارہ تو ایک بھی نہیں، بلکہ ہوا یہ کہ کئی مقدمے جوڑ کر یہ نتیجہ زبردستی نکالا گیا ہے، پہلے تو یہ فرض کرلیا گیا کہ قوم یونس (علیہ السلام) سے عذاب کا ٹل جانا خدائی دستور کے خلاف واقع ہوا جو خود اسی آیت کے سیاق وسباق کے بھی بالکل خلاف ہے اور اہل تحقیق ائمہ تفسیر کی تصریحات کے بھی خلاف ہے، اس کے ساتھ یہ فرض کرلیا گیا کہ خدائی قانون کو اس موقعہ پر اس لئے توڑا گیا تھا کہ خود پیغمبر سے فریضہ رسالت کی ادائیگی میں کو تاہیاں ہوگئی تھیں، اس کے ساتھ یہ بھی فرض کرلیا کہ پیغمبر کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی خاص وقت نکلنے کا مقرر کردیا گیا تھا، وہ اس وقت مقرر سے پہلے فریضہ دعوت کو چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے، اگر ذرا بھی غور و انصاف سے کام لیا جائے تو ثابت ہوجاے گا کہ قرآن و حدیث کا کوئی اشارہ ان فرضی مقدمات کی طرف نہیں پایا جاتا۔- خود آیت قرآن کے سیاق پر غور کیجئے تو الفاظ آیت کے یہ ہیں : - (آیت) فَلَوْلَا كَانَتْ قَرْيَةٌ اٰمَنَتْ فَنَفَعَهَآ اِيْمَانُهَآ اِلَّا قَوْمَ يُوْنُسَ ۔- جس کا مفہوم صاف یہ ہے کہ دنیا کے عام بستی والوں کے متعلق بطور اظہار افسوس یہ ارشاد ہے کہ وہ ایسے کیوں نہ ہوگئے کہ ایمان اس وقت لے آتے جس وقت تک ایمان مقبول اور نافع ہوتا ہے یعنی عذاب میں یا موت میں مبتلا ہونے سے پہلے پہلے ایمان لے آتے تو ان کا ایمان قبول ہوجاتا، مگر قوم یونس اس سے مستثنی ہے کہ وہ آثار عذاب دیکھ کر عذاب میں مبتلا ہونے سے پہلے ہی ایمان لے آئی تو ان کا ایمان اور توبہ قبول ہوگئی۔- آیت کا یہ واضح مفہوم خود بتلا رہا ہے کہ یہاں کوئی خدائی قانون نہیں توڑا گیا بلکہ عین خدائی دستور کے مطابق ان کا ایمان اور توبہ قبول کرلی گئی ہے۔- اکثر مفسرین بحر محیط، قرطبی، زمخشری، مظہری، روح المعانی وغیرہ نے آیت کا یہی مفہوم لکھا ہے جس میں قوم یونس کی توبہ قبول ہونا عام قانون الہٰی کے تحت ہے، قرطبی کے الفاظ یہ ہیں :- وقال ابن جبیر غشیھم العذاب کما یغشی الثوب القبر فلما صحت توبتھم رفع اللہ عنھم العذاب وقال الطبری خص قوم یونس من بین سائرالامم بان تیب علیھم بعد معاینۃ العذاب وذکر ذلک عن جماعۃ من المفسرین وقال الزجاج انھم لم یقع بھم العذاب وانما راوا العلامۃ التی تدل علی العذاب ولو راو عین العذاب لما نفعھم ایمانھم۔ قلت قول الزجاج حسن فان المعاینۃ التی لا تنفع التوبۃ معھا ھی التلبس بالعذاب کقصۃ فرعون ولھذا جاء بقصۃ قوم یونس علی اثر قصۃ فرعون و یعضد ھذا قولہ (علیہ السلام) ان اللہ یقبل توبۃ العبد مالم یغرغر والغرغرۃ الحشرجۃ وذلک ھو حال التلبس بالموت و قد روی معنی ما قلناہ عن ابن مسعود ( الی) وھذا یدل علی ان توبتھم قبل رویۃ العذاب ( الی) وعلی ھذا فلا اشکال ولا تعارض ولا خصوص۔- ( ترجمہ) ابن جبیر کہتے ہیں کہ عذاب نے ان کو اس طرح ڈھانپ لیا تھا جیسے قبر پر چادر پھر چونکہ ان کی توبہ صحیح ہوگئی ( کہ وقوع عذاب سے پہلے تھی) تو ان کا عذاب اٹھا دیا گیا، طبری فرماتے ہیں کہ قوم یونس کو تمام اقوام عالم سے یہ خصوصیت دی گئی ہے کہ معاینہ عذاب کے بعد ان کی توبہ قبول کرلی گئی، زجاج نے فرمایا کہ ان لوگوں پر ابھی عذاب پڑا نہیں تھا بلکہ علامات عذاب دیکھی تھیں اور اگر عذاب پڑجاتا تو ان کی توبہ بھی قبول نہ ہوتی، قرطبی فرماتے ہیں کہ زجاج کا قول اچھا اور بہتر ہے کیونکہ جس معاینہ عذاب کے بعد توبہ قبول نہیں ہوتی وہ وہ کہ عذاب میں مبتلا ہوجائے جیسا واقعہ فرعون میں پیش آیا، اور اسی لئے اس سورة میں قوم یونس کا واقعہ فرعون کے واقعہ کے بعد متصلا ذکر فرمایا ہے تاکہ فرق واضح ہوجائے کہ فرعون کا ایمان ابتلاء عذاب کے بعد تھا بخلاف قوم یونس کے کہ وہ وقوع عذاب سے پہلے ہی ایمان لے آئی، اس بات کی تائید آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس ارشاد سے بھی ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ بندے کی توبہ اس وقت تک قبول فرماتا ہے جب تک وہ غرغرہ کی حالت میں نہ پہنچ جائے، اور غرغرہ موت کے وقت طاری ہونے والے سکرات کو کہتے ہیں، اور یہی بات حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایت سے معلوم ہوتی ہے جس میں بتلایا ہے کہ قوم یونس نے وقوع عذاب سے پہلے توبہ کرلی تھی، قرطبی فرماتے ہیں کہ اس تقریر و تفسیر پر نہ کوئی اشکال ہے نہ تعارض نہ قوم یونس کی تخصیص "۔- اور طبری وغیرہ مفسرین نے بھی جو اس واقعہ کو قوم یونس کی خصوصیت بتلایا ہے ان میں سے بھی کسی نے یہ نہیں کہا کہ اس خصوصیت کا سبب یونس (علیہ السلام) کی کو تاہیاں تھیں بلکہ اس قوم کا سچے دل سے توبہ کرنا اور علم الہٰی میں مخلص ہونا وغیرہ وجوہات لکھی ہیں۔- اور جب یہ معلوم ہوگیا کہ قوم یونس (علیہ السلام) کا عذاب ٹل جانا عام قانون قدرت کے خلاف ہی نہیں تھا بلکہ عین مطابق تھا تو اس کلام کی بنیاد ہی ختم ہوگئی۔- اسی طرح کسی قرآنی اشارے سے یہ ثابت نہیں کہ عذاب کی وعید سنانے کے بعد یونس (علیہ السلام) بغیر اذن خداوندی اپنی قوم سے الگ ہوگئے بلکہ سیاق آیات اور تفسیری روایات سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ جیسا تمام سابق امتوں کے ساتھ معاملہ ہوتا آیا تھا کہ جب ان کی امت پر عذاب آنے کا فیصلہ کرلیا جاتا تو اللہ تعالیٰ اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے ساتھیوں کو یہاں سے نکل جانے کا حکم دے دیتے تھے جیسا لوط (علیہ السلام) کا واقعہ بتصریح قرآن میں مذکور ہے، اسی طرح یہاں بھی جب اللہ کا یہ حکم یونس (علیہ السلام) کے ذریعہ ان لوگوں کو پہنچا دیا گیا کہ تین دن کے بعد عذاب آئے گا تو یونس (علیہ السلام) کا اس جگہ سے نکل جانا ظاہر یہی ہے کہ بامر خداوندی ہوا ہے۔- البتہ یونس (علیہ السلام) سے جو پیغمبرانہ شان کے اعتبار سے ایک لغزش ہوئی اور اس پر سورة انبیاء اور سورة صٰفٰت کی آیتوں میں عتاب کے الفاظ آئے اور اسی کے نتیجہ میں مچھلی کے پیٹ میں رہنے کا واقعہ پیش آیا، وہ یہ نہیں کہ انہوں نے فریضہ رسالت میں کوتاہی کردی تھی بلکہ واقعہ وہ ہے جو اوپر مستند تفسیروں کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ جب یونس (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو اللہ کے حکم کے مطابق تین دن کے بعد عذاب کے آنے کی وعید سنا دی اور پھر باذن الہٰی اپنی جگہ کو چھوڑ کر باہر چلے گئے اور بعد میں یہ ثابت ہوا کہ عذاب نہیں آیا تو اب یونس (علیہ السلام) کو اس کی فکر لاحق ہوئی کہ میں اپنی قوم میں واپس جاؤں گا تو جھوٹا قرار دیا جاؤں گا اور اس قوم کا یہ دستور تھا کہ جس کا جھوٹ ثابت ہوجائے اس کو قتل کردیں تو اب اپنی قوم کی طرف لوٹ کر جانے میں جان کا بھی اندیشہ ہوا، ایسے وقت بجز اس کے کوئی راستہ نہ تھا کہ اب اس وطن ہی سے ہجرت کرجائیں لیکن سنت انبیاء (علیہم السلام) کی یہ ہے کہ جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہجرت کی اجازت نہ آجائے محض اپنی رائے سے ہجرت نہیں کرتے تو یونس (علیہ السلام) کی لغزش یہ تھی کہ اللہ کی اجازت آنے سے پہلے ہجرت کا قصد کرکے کشتی پر سوار ہوگئے جو اگرچہ اپنی ذات میں کوئی گناہ نہیں تھا مگر سنت انبیاء سے مختلف تھا، اگر آیات قرآن کے الفاظ میں غور کریں تو یونس (علیہ السلام) کی لغزش فریضہ رسالت کی ادائیگی میں کوئی کوتاہی نہیں بلکہ قوم کے ظلم و ستم سے بچنے کے لئے ہجرت قبل الاذن کے سوا اور کچھ نہیں ثابت ہوگی، سورة صٰفٰت کی آیت اس مضمون کے لئے تقریباً صریح ہے، جس میں فرمایا ہے (آیت) اِذْ اَبَقَ اِلَى الْفُلْكِ الْمَشْحُوْنِ ، اس میں بقصد ہجرت کشتی پر سوار ہونے کو اَبَقَ کے لفظ سے بطور عتاب کے تعبیر کیا گیا ہے، جس کے معنی ہیں کسی غلام کا اپنے آقا کی اجازت کے بغیر بھاگ جانا اور سورة انبیاء کی آیت میں ہے : (آیت) وَذَا النُّوْنِ اِذْ ذَّهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ اَنْ لَّنْ نَّقْدِرَ عَلَيْهِ ، جس میں طبعی خوف کی بناء پر قوم سے جان بچا کر ہجرت کرنے کو بطور عتاب کے اس شدید عنوان سے بیان فرمایا ہے، اور یہ سب فرائض رسالت کی مکمل ادائیگی کے بعد اس وقت پیش آیا جب کہ اپنی قوم میں واپس جانے سے جان کا خطرہ لاحق ہوگیا، تفسیر روح المعانی میں یہی مضمون بالفاظ ذیل لکھا ہے :- ای غضبان علے قومہ لشدۃ شکیمتھم و تمادی اصرارھم مع طول دعوتہ ایاھم و کان ذھابہ ھذا سھم ھجرۃ عنھم لکنہ لم یؤ مر بہ۔ " یعنی یونس (علیہ السلام) اپنی قوم سے ناراض ہو کر اس لئے چل دیئے کہ قوم کی شدید مخالفت اور اپنے کفر پر اصرار کے باوجود زمانہ دراز تک دعوت رسالت پہنچاتے رہنے کا مشاہدہ کرچکے تھے اور ان کا یہ سفرہ جرت کے طور پر تھا مگر ابھی تک ان کو ہجرت کی اجازت نہیں ملی تھی "۔- اس میں واضح کردیا ہے کہ دعوت و رسالت میں کوئی کوتاہی سبب عتاب نہیں تھی بلکہ قبل از اجازت ہجرت کرنا سبب عتاب بنا ہے جو فی نفسہ کوئی گناہ نہ تھا مگر سنت انبیاء کے خلاف ہونے کی وجہ سے اس پر عتاب آیا ہے، معاصر موصوف کو بعض علماء نے اس غلطی پر متنبہ فرمایا تو سورة صٰفٰت کی تفسیر میں انہوں نے اپنے موقف کی حمایت و تائید میں بہت سے مفسرین کے اقوال بھی نقل فرمائے ہیں جن میں وہب بن منبہ وغیرہ کی بعض اسرائیلی روایتوں کے سوا کسی سے ان کا یہ موقف صحیح ثابت نہیں ہوتا کہ حضرت یونس (علیہ السلام) سے معاذ اللہ فریضہ رسالت کی ادائیگی میں کو تاہیاں ہوگئی تھیں۔- اور یہ بات اہل علم سے مخفی نہیں کہ عام طور پر حضرات مفسرین اپنی تفسیروں میں اسرائیلی روایات بھی نقل کردیتے ہیں جن کے بارے میں ان سب کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ روایات مستند و معتبر نہیں، کسی حکم شرعی کا ان پر مدار نہیں رکھا جاسکتا، اسرائیلی روایات خواہ مفسرین اسلام کی کتابوں میں ہوں یا صحیفہ یونس میں صرف انہیں کے سہارے حضرت یونس (علیہ السلام) پر یہ بہتان عظیم لگایا جاسکتا ہے کہ ان سے فریضہ رسالت کی ادائیگی میں کو تاہیاں ہوگئی تھیں اور کسی مفسر اسلام نے اس کو قبول نہیں کیا واللہ سبحانہ وتعالی اعلم وبہ استغیث ان یعصمنا من الخطایا و الزلات۔- حضرت یونس (علیہ السلام) کا مفصل واقعہ :- حضرت یونس (علیہ السلام) کا واقعہ جس کا کچھ حصہ تو خود قرآن میں مذکور ہے اور کچھ روایات حدیث و تاریخ سے ثابت ہے، وہ یہ ہے کہ حضرت یونس (علیہ السلام) کی قوم عراق میں موصل کے مشہور مقام نینوٰی میں بستی تھی، ان کی تعداد قرآن کریم میں ایک لاکھ سے زیادہ بتلائی ہے ان کی ہدایت کے لئے اللہ تعالیٰ نے یونس (علیہ السلام) کو بھیجا، انہوں نے ایمان لانے سے انکار کیا، حق تعالیٰ نے یونس (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ ان لوگوں کو آگاہ کردو کہ تین دن کے اندر اندر تم پر عذاب آنے والا ہے، حضرت یونس نے قوم میں اس کا اعلان کردیا، قوم یونس نے آپس میں مشورہ کیا تو اس پر سب کا اتفاق ہوا کہ ہم نے کبھی یونس (علیہ السلام) کو جھوٹ بولتے نہیں دیکھا اس لئے ان کی بات نظر انداز کرنے کے قابل نہیں، مشورہ میں یہ طے ہوا کہ یہ دیکھا جائے کہ یونس (علیہ السلام) رات کو ہمارے اندر اپنی جگہ مقیم رہتے ہیں تو سمجھ لو کہ کچھ نہیں ہوگا اور اگر وہ یہاں سے کہیں چلے گئے تو یقین کرلو کہ صبح کو ہم پر عذاب آئے گا، حضرت یونس بارشاد خداوندی رات کو اس بستی سے نکل گئے، صبح ہوئی تو عذاب الہٰی ایک سیاہ دھوئیں اور بادل کی شکل میں ان کے سروں پر منڈلانے لگا اور فضاء آسمانی سے نیچے ان کے قریب ہونے لگا تو ان کو یقین ہوگیا کہ اب ہم سب ہلاک ہونے والے ہیں، یہ دیکھ کر حضرت یونس کو تلاش کیا کہ ان کے ہاتھ پر مشرف بایمان ہوجائیں اور پچھلے انکار سے توبہ کرلیں مگر یونس (علیہ السلام) کو نہ پایا تو خود ہی اخلاص نیت کے ساتھ توبہ و استغفار میں لگ گئے، بستی سے ایک میدان میں نکل آئے، عورتیں بچے اور جانور سب اس میدان میں جمع کردیئے گئے ٹاٹ کے کپڑے پہن کر عجز وزاری کے ساتھ اس میدان میں توبہ کرنے اور عذاب سے پناہ مانگنے میں اس طرح مشغول ہوئے کہ پورا میدان آہ و بکا سے گونجنے لگا، اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمالی اور عذاب ان سے ہٹا دیا جیسا کہ اس آیت میں ذکر کیا گیا ہے، روایات میں ہے کہ یہ عاشوراء یعنی دسویں محرم کا دن تھا۔- ادھر حضرت یونس (علیہ السلام) بستی سے باہر اس انتظار میں تھے کہ اب اس قوم پر عذاب نازل ہوگا، اس کے توبہ و استغفار کا حال ان کو معلوم نہ تھا، جب عذاب ٹل گیا تو ان کو فکر ہوئی کہ مجھے جھوٹا قرار دیا جائے گا کیونکہ میں نے اعلان کیا تھا کہ تین دن کے اندر عذاب آجائے گا، اس قوم میں قانون یہ تھا کہ جس شخص کا جھوٹ معلوم ہو اور وہ اپنے کلام پر کوئی شہادت نہ پیش کرے تو اس کو قتل کردیا جاتا تھا، یونس (علیہ السلام) کو فکر ہوئی کہ مجھے جھوٹا قرار دے کر قتل کردیا جائے گا۔- انبیاء (علیہم السلام) ہر گناہ و معصیت سے معصوم ہوتے ہیں مگر انسانی فطرت و طبعیت سے جدا نہیں ہوتے، اس وقت یونس (علیہ السلام) کو طبعی طور پر یہ ملال ہوا کہ میں نے بحکم الہٰی اعلان کیا تھا اور اب میں اعلان کی وجہ سے جھوٹا قرار دیا جاؤں گا، اپنی جگہ واپس جاؤں تو کس منہ سے جاؤں اور قوم کے قانون کے مطابق گردن زدنی بنوں، اس رنج و غم اور پریشانی کے عالم میں اس شہر سے نکل جانے کا ارادہ کرکے چل دیئے یہاں تک کہ بحر روم کے کنارہ پر پہنچ گئے وہاں ایک کشتی دیکھی جس میں لوگ سوار ہو رہے تھے، یونس (علیہ السلام) کو ان لوگوں نے پہچان لیا اور بغیر کرایہ کے سوار کرلیا، کشتی روانہ ہو کر جب وسط دریا میں پہنچ گئی تو دفعۃً ٹھہر گئی، نہ آگے بڑھتی ہے نہ پیچھے چلتی ہے، کشتی والوں نے منادی کی کہ ہماری اس کشتی کی من جانب اللہ یہی شان ہے کہ جب اس میں کوئی ظالم گناہگار یا بھاگا ہوا غلام سوار ہوجاتا ہے تو یہ کشتی خود بخود رک جاتی ہے، اس آدمی کو ظاہر کردینا چاہئے تاکہ ایک آدمی کی وجہ سے سب پر مصیبت نہ آئے۔- حضرت یونس (علیہ السلام) بول اٹھے کہ وہ بھاگا ہوا غلام گناہگار میں ہوں، کیونکہ اپنے شہر سے غائب ہو کر کشتی میں سوار ہونا ایک طبعی خوف کی وجہ سے تھا باذن الہٰی نہ تھا، اس بغیر اذن کے اس طرف آنے کو حضرت یونس (علیہ السلام) کی پیغمبرانہ شان نے ایک گناہ قرار دیا کہ پیغمبر کی کوئی نقل و حرکت بلا اذن کے نہ ہونی چاہئے تھی اس لئے فرمایا کہ مجھے دریا میں ڈال دو تو تم سب اس عذاب سے بچ جاؤ گے کشتی والے اس پر تیار نہ ہوئے بلکہ انہوں نے قرعہ اندازی کی تاکہ قرعہ میں جس کا نام نکل آئے اس کو دریا میں ڈالا جائے، اتفاقاً قرعہ میں حضرت یونس (علیہ السلام) کا نام نکل آیا، ان لوگوں کو اس پر تعجب ہوا تو کئی مرتبہ قرعہ اندازی کی ہر مرتبہ بحکم قضاء و قدر حضرت یونس (علیہ السلام) کا ہی نام آتا رہا، قرآن کریم میں اس قرعہ اندازی اور اس میں یونس (علیہ السلام) کا نام نکلنے کا ذکر موجود ہے (آیت) فَسَاهَمَ فَكَانَ مِنَ الْمُدْحَضِيْنَ ۔- یونس (علیہ السلام) کے ساتھ حق تعالیٰ کا یہ معاملہ ان کے مخصوص پیغمبرانہ مقام کی وجہ سے تھا کہ اگرچہ انہوں نے اللہ کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہیں کی تھی جس کو گناہ اور معصیت کہا جاتا ہے اور کسی پیغمبر سے اس کا امکان نہیں، کیونکہ وہ معصوم ہوتے ہیں لیکن پیغمبر کے مقام بلند کے مناسب نہ تھا کہ محض خوف طبعی سے کسی جگہ بغیر اذن خداوندی منتقل ہوجاویں، اس خلاف شان عمل پر بطور عتاب یہ معاملہ کیا گیا۔- اس طرف قرعہ میں نام نکل کر دریا میں ڈالے جانے کا سامان ہو رہا تھا دوسری طرف ایک بہت بڑی مچھلی بحکم خداوندی کشتی کے قریب منہ بھیلائے ہوئے لگی ہوئی تھی کہ یہ دریا میں آئیں تو ان کو اپنے پیٹ میں جگہ دے، جس کو حق تعالیٰ نے پہلے سے حکم دے رکھا کہ یونس (علیہ السلام) کا جسم جو تیرے پیٹ کے اندر رکھا جائے گا یہ تیری غذا نہیں بلکہ ہم نے تیرے پیٹ کو ان کا مسکن بنایا ہے، یونس (علیہ السلام) دریا میں گئے تو فوراً اس مچھلی نے منہ میں لے لیا، حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا کہ یونس (علیہ السلام) اس مچھلی کے پیٹ میں چالیس روز رہے یہ ان کو زمین کی تہ تک لے جاتی اور دور دراز کی مسافتوں میں پھراتی رہی، بعض حضرات نے سات، بعض نے پانچ دن اور بعض نے ایک دن کے چند گھنٹے مچھلی کے پیٹ میں رہنے کی مدت بتلائی ہے (مظہری) حقیقت حال حق تعالیٰ کو معلوم ہے، اس حالت میں حضرت یونس (علیہ السلام) نے یہ دعا کی لَّآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰــنَكَ ڰ اِنِّىْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِيْنَ ، اللہ تعالیٰ نے اس دعا کو قبول فرما لیا اور بالکل صحیح وسالم حضرت یونس (علیہ السلام) کو دریا کے کنارے پر ڈال دیا۔- مچھلی کے پیٹ کی گرمی سے ان کے بدن پر کوئی بال نہ رہا تھا، اللہ تعالیٰ نے ان کے قریب ایک کدو ( لوکی) کا درخت اگا دیا، جس کے پتوں کا سایہ بھی حضرت یونس (علیہ السلام) کیلئے ایک راحت بن گئی، اور ایک جنگلی بکری کو اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرما دیا کہ وہ صبح و شام ان کے پاس آ کھڑی ہوتی اور وہ اس کا دودھ پی لیتے تھے۔- اس قصہ میں جتنے اجزاء قرآن میں مذکور یا مستند روایات حدیث سے ثابت ہیں وہ تو یقینی ہیں باقی اجزاء تاریخی روایات کے ہیں جن پر کسی شرعی مسئلہ کا مدار نہیں رکھا جاسکتا۔
فَلَوْلَا كَانَتْ قَرْيَۃٌ اٰمَنَتْ فَنَفَعَہَآ اِيْمَانُہَآ اِلَّا قَوْمَ يُوْنُسَ ٠ ۭ لَمَّآ اٰمَنُوْا كَشَفْنَا عَنْھُمْ عَذَابَ الْخِزْيِ فِي الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا وَمَتَّعْنٰھُمْ اِلٰى حِيْنٍ ٩٨- قرية- الْقَرْيَةُ : اسم للموضع الذي يجتمع فيه الناس، وللناس جمیعا، ويستعمل في كلّ واحد منهما . قال تعالی: وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف 82] قال کثير من المفسّرين معناه : أهل القرية .- ( ق ر ی ) القریۃ - وہ جگہ جہاں لوگ جمع ہو کر آباد ہوجائیں تو بحیثیت مجموعی ان دونوں کو قریہ کہتے ہیں اور جمع ہونے والے لوگوں اور جگہ انفراد بھی قریہ بولا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف 82] بستی سے دریافت کرلیجئے ۔ میں اکثر مفسرین نے اہل کا لفظ محزوف مان کر قریہ سے وہاں کے با شندے مرے لئے ہیں - نفع - النَّفْعُ : ما يُسْتَعَانُ به في الوُصُولِ إلى الخَيْرَاتِ ، وما يُتَوَصَّلُ به إلى الخَيْرِ فهو خَيْرٌ ، فَالنَّفْعُ خَيْرٌ ، وضِدُّهُ الضُّرُّ. قال تعالی: وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان 3] - ( ن ف ع ) النفع - ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس سے خیرات تک رسائی کے لئے استعانت حاصل کی جائے یا وسیلہ بنایا جائے پس نفع خیر کا نام ہے اور اس کی ضد ضر ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان 3] اور نہ اپنے نقصان اور نفع کا کچھ اختیار رکھتے ہیں ۔- قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - لَمَّا - يستعمل علی وجهين :- أحدهما : لنفي الماضي وتقریب الفعل . نحو : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران 142] . والثاني : عَلَماً للظّرف نحو : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف 96] أي : في وقت مجيئه، وأمثلتها تکثر .- ( لما ( حرف ) یہ دوطرح پر استعمال ہوتا ہے زمانہ ماضی میں کسی فعل کی نفی اور اس کے قریب الوقوع ہونے کے لئے جیسے فرمایا : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران 142] حالانکہ ابھی خدا نے تم میں سے جہاد کرنے والوں کو اچھی طرح معلوم کیا ہی نہیں ۔ اور کبھی یہ اسم ظرف ک طورپر استعمال ہوتا ہے ۔ اور یہ قرآن میں بکژت آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف 96] جب خوشخبری دینے والا آپہنچا۔- كشف - كَشَفْتُ الثّوب عن الوجه وغیره، ويقال : كَشَفَ غمّه . قال تعالی: وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلا کاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ [ الأنعام 17]- ( ک ش ف ) الکشف - كَشَفْتُ الثّوب عن الوجه وغیره، کا مصدر ہے جس کے معنی چہرہ وغیرہ سے پر دہ اٹھا نا کے ہیں ۔ اور مجازا غم وانداز ہ کے دور کرنے پر بھی بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلا کاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ [ الأنعام 17] اور خدا تم کو سختی پہچائے تو اس کے سوا کوئی دور کرنے والا نہیں ہے ۔ - خزی - خَزِيَ الرّجل : لحقه انکسار، إمّا من نفسه، وإمّا من غيره . فالذي يلحقه من نفسه هو الحیاء المفرط، ومصدره الخَزَايَة ورجل خَزْيَان، وامرأة خَزْيَى وجمعه خَزَايَا . وفي الحدیث :«اللهمّ احشرنا غير خزایا ولا نادمین» والذي يلحقه من غيره يقال : هو ضرب من الاستخفاف، ومصدره الخِزْي، ورجل خز . قال تعالی: ذلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيا [ المائدة 33] ، - ( خ ز ی ) خزی - ( س ) الرجل رسوا ہونا ۔ خواہ وہ رسوائی انسان کو خود اس کی ذات سے لاحق ہو یا غیر کی طرف سے پھر رسوائی اپنی جانب سے لاحق ہوتی ہے اسے حیائے مفرط کہاجاتا ہے اور اس کا مصدر خزابۃ ہے ۔ اس سے صیغہ صفت مذکر خزبان اور مونث خزلی خزابا ۔ حدیث میں ہے (110) اللھم احشرنا غیر خزایا و الاناد میں اے خدا ہمیں اس حالت میں زندہ نہ کرنا ہم شرم اور ندامت محسوس کرنیوالے ہوں ۔ اور جو رسوائی دوسروں کی طرف سے لاحق ہوتی ہے وہ ذلت کی ایک قسم ہے ۔ اور اس کا مصدر خزی ہے ۔ اور رجل خزی کے معنی ذلیل آدمی کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا :۔ ذلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيا [ المائدة 33] دنیا میں انکی سوائی ہے ۔ کہ رسوائی اور برائی ہے ۔ - حين - الحین : وقت بلوغ الشیء وحصوله، وهو مبهم المعنی ويتخصّص بالمضاف إليه، نحو قوله تعالی: وَلاتَ حِينَ مَناصٍ [ ص 3] - ( ح ی ن ) الحین - ۔ اس وقت کو کہتے ہیں جس میں کوئی چیز پہنچے اور حاصل ہو ۔ یہ ظرف مبہم ہے اور اس کی تعین ہمیشہ مضاف الیہ سے ہوتی ہے جیسے فرمایا : ۔ وَلاتَ حِينَ مَناصٍ [ ص 3] اور وہ رہائی کا وقت نہ تھا ۔
(٩٨) چناچہ جن بستیوں والوں پر عذاب نازل ہوچکا ہے، نزول عذاب کے وقت ان میں سے کوئی بھی ایمان نہیں لایا کہ ایمان لانا اس کو نفع بخش ہوتا مگر نزول عذاب کے وقت کسی نے بھی بذریعہ ایمان نفع حاصل نہیں کیا، ہاں مگر حضرت یونس (علیہ السلام) کی قوم کہ ان کا ایمان لانا انکو فائدہ مند ہوا جب وہ ایمان لائے تو اس سخت ترین عذاب کو ہم نے دنیاوی زندگی میں ان سے ٹال دیا اور مرنے تک بغیر عذاب کے ان کو رہنے دیا۔
آیت ٩٨ (فَلَوْلاَ کَانَتْ قَرْیَۃٌ اٰمَنَتْ فَنَفَعَہَآ اِیْمَانُہَآ اِلاَّ قَوْمَ یُوْنُسَ )- حضرت یونس نینوا کی طرف مبعوث ہوئے تھے۔ آپ کی دعوت کے مقابلے میں آپ کی قوم انکار پر اڑی رہی۔ جب آخری حجت کے بعد ان لوگوں پر عذاب کا فیصلہ ہوگیا تو حضرت یونس حمیت دینی کے جوش میں انہیں چھوڑ کر چلے گئے اور جاتے جاتے انہیں یہ خبر دے گئے کہ اب تین دن کے اندر اندر تم پر عذاب آجائے گا ‘ جبکہ اللہ کی طرف سے آپ کو اپنی قوم کو چھوڑ کر جانے کی ابھی باضابطہ طور پر اجازت نہیں دی گئی تھی۔ اللہ تعالیٰ کی سنت یہ رہی ہے کہ ایسے مواقع پر رسول اپنی مرضی سے اپنی بستی کو نہیں چھوڑ سکتا جب تک کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے باقاعدہ ہجرت کا حکم نہ آجائے (نبی کا معاملہ اس طرح سے نہیں ہوتا) ۔ محمد رسول اللہ کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ آپ نے مسلمانوں کو مدینہ ہجرت کرنے کا حکم دے دیا تھا مگر آپ نے خود اس وقت تک ہجرت نہیں فرمائی جب تک آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے با ضابطہ طور پر اس کی اجازت نہیں مل گئی تھی۔ سیرت کی کتابوں میں یہاں تک تفصیل ملتی ہے کہ حضرت ابوبکر نے دو اونٹنیاں اس مقصد کے لیے تیار کر رکھی تھیں اور روزانہ آپ سے استفسار کرتے تھے کہ حضور اجازت ملی یا نہیں ؟- بہر حال حضرت یونس کے جانے کے بعد جب عذاب کے آثار پیدا ہوئے تو پوری بستی کے لوگ اپنے بچوں ‘ عورتوں اور مال مویشی کو لے کر باہر نکل آئے اور اللہ کے حضور گڑگڑا کر توبہ کی۔ اللہ کے قانون کے مطابق تو عذاب کے آثار ظاہر ہوجانے کے بعد نہ ایمان فائدہ مند ہوتا ہے اور نہ توبہ قبول کی جاتی ہے ‘ مگر حضرت یونس کے وقت سے پہلے ہجرت کر جانے کی وجہ سے اس قوم کے معاملے میں نرمی اختیار کی گئی اور ان کی توبہ قبول کرتے ہوئے ان پر سے عذاب کو ٹال دیا گیا۔ یوں انسانی تاریخ میں ایک استثناء ( ) قائم ہوا کہ اس قوم کے لیے قانون خداوندی میں رعایت دی گئی ۔
سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :98 یونس علیہ السلام جن کا نام بائیبل میں یوناہ ہے اور جن کا زمانہ سن 784 سے سن 860 ء قبل مسیح کے درمیان بتایا جاتا ہے اگرچہ اسرائیلی نبی تھے ، مگر ان کو اشور ( اسیریا ) والوں کی ہدایت کے لیے عراق بھیجا گیا تھا اور ا سی بنا پر اشوریوں کو یہاں قوم یونس کہا گیا ہے ۔ اس قوم کا مرکز اس زمانہ میں نینوی کا مشہور شہر تھا جس کے وسیع کھنڈرات آج تک دریائے دجلہ کے مشرقی کنارے پر موجودہ موصل کے عین مقابل پائے جاتے ہیں اور اسی علاقے میں یونس علیہ السلام نبی کے نام سے ایک مقام بھی موجود ہے ۔ اس قوم کے عروج کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ اس کا دارالسلطنت نینوی تقریبا 60 میل کے دور میں پھیلا ہوا تھا ۔ سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :99 قرآن میں اس قصہ کی طرف تین جگہ صرف اشارات کیے گئے ہیں ، کوئی تفصیل نہیں دی گئی ( ملاحظہ ہو سورہ انبیاء آیات 87 ، 88 ۔ الصافات 139 ، 148القلم 48 تا 50 ) اس لیے یقین کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ قوم کن خاص وجوہ کی بنا پر خدا کے اس قانون سے مستثنی کی گئی کہ عذاب کا فیصلہ ہو جانے کے بعد کسی کا ایمان اس کے لیے نافع نہیں ہوتا ، بائیبل میں یوناہ کے نام سے جو مختصر سا صحیفہ ہے اس میں کچھ تفصیل تو ملتی ہے مگر وہ چنداں قابل اعتماد نہیں ہے ۔ کیونکہ اول تو نہ وہ آسمانی صحیفہ ہے ، نہ خود یونس علیہ السلام کا اپنا لکھا ہوا ہے ، بلکہ ان کے چار پانچ سو برس بعد کسی نامعلوم شخص نے اسے تاریخ یونس کے طور پر لکھ کر مجموعہ کتب مقدسہ میں شامل کر دیا ہے ۔ دوسرے اس میں بعض صریح مہملات بھی پائے جاتے ہیں جو ماننے کے قابل نہیں ہیں ۔ تاہم قرآن کے اشارات اور صحیفہ یونس کی تفصیلات پر غور کرنے سے وہی بات صحیح معلوم ہوتی ہے ۔ جو مفسرین قرآن نے بیان کی ہے کہ حضرت یونس علیہ السلام چونکہ عذاب کی اطلاع دینے کے بعد اللہ تعالی کی اجازت کے بغیر اپنا مستقر چھوڑ کر چلے گئے تھے ، اس لیے جب آثار عذاب دیکھ کر آشوریوں نے توبہ واستغفار کی تو اللہ تعالی نے انہیں معاف کر دیا ۔ قرآن مجید میں خدائی دستور کے جو اصول وکلیات بیان کیے گئے ہیں ان میں ایک مستقل دفعہ یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی کسی قوم کو اس وقت تک عذاب نہیں دیتا جب تک اس پر اپنی حجت پوری نہیں کر لیتا ۔ پس جب نبی نے اس قوم کی مہلت کے آخری لمحے تک نصیحت کا سلسلہ جاری نہ رکھا اور اللہ کے مقرر کردہ وقت سے پہلے بطور خود ہی وہ ہجرت کر گیا ، تو اللہ تعالی کے انصاف نے اس کی قوم کو عذاب دینا گوارا نہ کیا کیونکہ اس پر اتمام حجت کی قانونی شرائط پوری نہیں ہوئی تھیں ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ الصافات ، حاشیہ نمبر85 ) سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :100 مطلب یہ ہے کہ آخرکار معاملہ اس خدا کے ساتھ ہے جس سے کوئی چیز چھپ نہیں سکتی ۔ اس لیے بالفرض اگر کوئی شخص دنیا میں اپنے نفاق کو چھپانے میں کامیاب ہو جائے اور انسان جن جن معیاروں پر کسی کے ایمان و اخلاص کو پرکھ سکتے ہیں ان سب پر بھی پورا اتر جائے تو یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ وہ نفاق کی سزا پانے سے بچ نکلا ہے ۔
39: پچھلی آیتوں میں یہ حقیقت بیان فرمائی گئی تھی کہ کسی انسان کے لیے ایمان لانا اسی وقت کار آمد ہوتا ہے جب وہ موت سے پہلے اور عذاب الٰہی کا مشاہدہ کرنے سے ہپلے ایمان لائے۔ جب عذاب آجاتا ہے تو اس وقت ایمان لانا کار آمد نہیں ہوتا۔ اس اصول کے مطابق اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ پچھلی جتنی قوموں پر عذاب آیا، ان سب کا حال یہ تھا کہ وہ عذاب کو دیکھنے سے پہلے ایمان نہیں لائے، اس لیے عذاب کا شکار ہوئے۔ البتہ ایک یونس (علیہ السلام) کی قوم ایسی تھی کہ وہ عذاب کے نازل ہونے سے ذرا پہلے ایمان لے آئی تھی۔ اس لیے اس کا ایمان منظور کرلیا گیا، اور اس کی وجہ سے اس پر آنے والا عذاب ہٹا لیا گیا۔ حضرت یونس (علیہ السلام) کا واقعہ یہ ہوا تھا کہ جب وہ اپنی قوم کو عذاب کی پیشگوئی کر کے بستی سے چلتے گئے تو ان کی قوم کو ایسی علامتیں نظر آئیں جن سے انہیں حضرت یونس (علیہ السلام) کے انتباہ کے سچے ہونے کا یقین ہوگیا، چنانچہ وہ عذاب کے آنے سے پہلے ہی ایمان لے آئے۔ حضرت یونس (علیہ السلام) کے واقعے کی پوری تفصیل ان شاء اللہ سورۃ صافات (139:37) میں آئے گی۔ ان کے واقعے کا مختصر ذکر سورۃ انبیاء (87:21) اور سورۃ قلم (48:68) میں بھی آیا ہے۔