اللہ کی حکمت سے کوئی آگاہ نہیں اللہ کی حکمت ہے کہ کوئی ایمان لائے اور کسی کو ایمان نصیب ہی نہ ہو ۔ ورنہ اگر اللہ کی مشیت ہوتی تو تمام انسان ایمان دار ہوجاتے ۔ اگر وہ چاہتا تو سب کو اسی دین پر کار بند کر دیتا ۔ لوگوں میں اختلاف تو باقی ہی نہ رہے ۔ سوائے ان کے جن پر رب کا رحم ہو ، انہیں اسی لیے پیدا کیا ہے ، تیرے رب کا فرمان حق ہے کہ جہنم انسانوں اور جنوں سے پر ہوگی ۔ کیا ایماندار ناامید نہیں ہوگئے؟ یہ کہ اللہ اگر چاہتا تو تمام لوگوں کو ہدایت کرسکتا تھا ۔ یہ تو ناممکن ہے کہ تو ایمان ان کے دلوں کے ساتھ چپکا دے ، یہ تیرے اختیار سے باہر ہے ۔ ہدایت و ضلالت اللہ کے ہاتھ ہے ۔ تو ان پر افسوس اور رنج و غم نہ کر اگر یہ ایمان نہ لائیں تو تو اپنے آپ کو ان کے پیچھے ہلاک کردے گا ؟ تو جسے چاہے راہ راست پر لا نہیں سکتا ۔ یہ تو اللہ کے قبضے میں ہے ، تجھ پر تو صرف پہنچا دینا ہے حساب ہم خود لے لیں گے ، تو تو نصیحت کر دینے والا ہے ۔ ان پر داروغہ نہیں ۔ جسے چاہے راہ راست دکھائے جسے چاہے گمراہ کر دے ۔ اس کا علم اس کی حکمت اس کا عدل اسی کے ساتھ ہے ۔ اس کی مشیت کے بغیر کوئی بھی مومن نہیں ہو سکتا ۔ وہ ان کو ایمان سے خالی ، ان کے دلوں کو نجس اور گندہ کر دیتا ہے جو اللہ کی قدرت ، اللہ کی برھان ، اللہ کے احکام کی آیتوں میں غور فکر نہیں کرتے ۔ عقل و سمجھ سے کام نہیں لیتے ، وہ عادل ہے ، حکیم ہے ، اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ۔
99۔ 1 لیکن اللہ نے ایسا نہیں چاہا، کیونکہ یہ اس کی اس حکمت و مصلحت کے خلاف ہے، جسے مکمل طور پر وہی جانتا ہے۔ یہ اس لئے فرمایا کہ نبی کی شدید خواہش ہوتی تھی کہ سب مسلمان ہوجائیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ نہیں ہوسکتا کیونکہ مشیت الٰہی جو حکمت بالغہ اور مصلحت راجحہ پر مبنی ہے، اس کا تقاضہ نہیں۔ اس لئے آگے فرمایا کہ آپ لوگوں کو زبردستی ایمان لانے پر کیسے مجبور کرسکتے ہیں ؟ جب کہ آپ کے اندر اس کی طاقت ہے نہ اس کے آپ مکلف ہی ہیں۔
[١٠٧] یعنی رسول اللہ کی یہ تو انتہائی خواہش تھی کہ سب کے سب لوگ ہی ایمان لے آئیں اور اگر اللہ چاہتا تو وہ ایسا کر بھی سکتا تھا مگر یہ بات اللہ کی مشیئت کے خلاف ہے۔ اللہ کی مشیئت یہ ہے کہ جو لوگ ایمان لائیں علی وجہ البصیرت اور اپنے اختیار و ارادہ کو پوری آزادی کے ساتھ استعمال کرکے لائیں لہذا آپ کی یہ ذمہ داری نہیں کہ کسی کو ایمان لانے پر مجبور کریں اور نہ ہی آپ کو ان کے ایمان نہ لانے کی وجہ سے کچھ رنج کرنے یا پریشان ہونے کی ضرورت ہے۔
وَلَوْ شَاۗءَ رَبُّكَ لَاٰمَنَ ۔۔ : یعنی اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو فرشتوں کی طرح جنوں اور انسانوں کی فطرت بھی ایسی بنا دیتا کہ وہ کفر و نافرمانی کر ہی نہ سکتے، یا ان سب کے دل ایمان و طاعت کی طرف پھیر دیتا، لیکن اس طرح چونکہ جنوں اور انسانوں کو علیحدہ قسم کی حیثیت سے پیدا کرنے کا مقصد ہی فوت ہوجاتا۔ (دیکھیے ہود : ١١٨، ١١٩۔ فاطر : ٨) اس لیے اس نے اپنی مرضی سے ان کی فطرت میں یہ چیز رکھی ہے کہ وہ عقل سے کام لے کر چاہیں تو ایمان و طاعت کا راستہ اختیار کریں یا چاہیں تو کفر و نافرمانی کا۔ - اَفَاَنْتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتّٰى يَكُوْنُوْا مُؤْمِنِيْنَ : یعنی ایمان دل کا معاملہ ہے، اس پر کسی کو مجبور کیا جاسکتا ہی نہیں اور مجبور کرنا جائز بھی نہیں، فرمایا : (لَآ اِكْرَاهَ فِي الدِّين) [ البقرۃ : ٢٥٦ ] ” دین میں کوئی زبردستی نہیں۔ “ اگر آپ کسی کو زبردستی مسلمان بنا بھی لیں تو دل کی کیا ضمانت ہے کہ اس میں بھی ایمان آچکا ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازراہ شفقت یہ زبردست خواہش تھی کہ اللہ کے سب بندے ایمان لے آئیں، اس لیے اس آیت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ کہہ کر تسلی دی گئی کہ یہ چونکہ ہونے والی بات نہیں، اس لیے آپ کیوں اپنے آپ کو رنج و کرب میں مبتلا کرتے ہیں ؟
خلاصہ تفسیر - اور ( ان اقوام و قرٰی کی کیا تخصیص ہے) اگر آپ کا رب چاہتا تو تمام روئے زمین کے لوگ سب کے سب ایمان لے آتے ( مگر بعض حکمتوں کی وجہ سے یہ نہ چاہا اس لئے سب ایمان نہیں لائے) سو ( جب یہ بات ہے تو) کیا آپ لوگوں پر زبردستی کرسکتے ہیں جس میں وہ ایمان ہی لے آئیں حالانکہ کسی شخص کا ایمان لانا بدون خدا کے حکم ( یعنی مشیت) کے ممکن نہیں اور اللہ تعالیٰ بےعقل لوگوں پر (کفر کی) گندگی واقع کردیتا ہے۔
وَلَوْ شَاۗءَ رَبُّكَ لَاٰمَنَ مَنْ فِي الْاَرْضِ كُلُّھُمْ جَمِيْعًا ٠ ۭ اَفَاَنْتَ تُكْرِہُ النَّاسَ حَتّٰى يَكُوْنُوْا مُؤْمِنِيْنَ ٩٩- شاء - والْمَشِيئَةُ عند أكثر المتکلّمين كالإرادة سواء، وعند بعضهم : المشيئة في الأصل : إيجاد الشیء وإصابته، وإن کان قد يستعمل في التّعارف موضع الإرادة، فالمشيئة من اللہ تعالیٰ هي الإيجاد، ومن الناس هي الإصابة، قال : والمشيئة من اللہ تقتضي وجود الشیء، ولذلک قيل : ( ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن) والإرادة منه لا تقتضي وجود المراد لا محالة، ألا تری أنه قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] ، وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] ، ومعلوم أنه قد يحصل العسر والتّظالم فيما بين الناس، قالوا : ومن الفرق بينهما أنّ إرادةالإنسان قد تحصل من غير أن تتقدّمها إرادة الله، فإنّ الإنسان قد يريد أن لا يموت، ويأبى اللہ ذلك، ومشيئته لا تکون إلّا بعد مشيئته لقوله : وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان 30] ، روي أنّه لما نزل قوله : لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] - ( ش ی ء ) الشیئ - المشیئۃ اکثر متکلمین کے نزدیک مشیئت اور ارادہ ایک ہی صفت کے دو نام ہیں لیکن بعض کے نزدیک دونوں میں فرق ہے - ( 1 ) مشیئت کے اصل معنی کسی چیز کی ایجاد یا کسی چیز کو پا لینے کے ہیں ۔ اگرچہ عرف میں مشیئت ارادہ کی جگہ استعمال ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے معنی اشیاء کو موجود کرنے کے ہیں اور لوگوں کی مشیئت کے معنی کسی چیز کو پالینے کے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کو چاہنا چونکہ اس کے وجود کو مقتضی ہوتا ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے ۔ ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کا ارادہ کرنا اس کے حتمی وجود کو نہیں چاہتا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ لوگوں میں عسرۃ اور ظلم پائے جاتے ہیں ۔ - ( 2 ) اور ارادہ میں دوسرا فرق یہ ہے کہ انسان کا ارادہ تو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر ہوسکتا ہے مثلا انسان چاہتا ہے کہ اسے موت نہ آئے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو مار لیتا ہے ۔ لیکن مشیئت انسانی مشئیت الہیٰ کے بغیروجود ہیں نہیں آسکتی جیسے فرمایا : ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان 30] اور تم کچھ بھی نہیں چاہتے مگر وہی جو خدائے رب العلمین چاہے ایک روایت ہے کہ جب آیت : ۔ لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] یعنی اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے ۔ - أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ - كره - قيل : الْكَرْهُ والْكُرْهُ واحد، نحو : الضّعف والضّعف، وقیل : الكَرْهُ : المشقّة التي تنال الإنسان من خارج فيما يحمل عليه بِإِكْرَاهٍ ، والکُرْهُ :- ما يناله من ذاته وهو يعافه، وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ [ التوبة 33] - ( ک ر ہ ) الکرہ - ( سخت ناپسند یدگی ) ہم معنی ہیں جیسے ضعف وضعف بعض نے کہا ہے جیسے ضعف وضعف بعض نے کہا ہے کہ کرۃ ( بفتح الکاف ) اس مشقت کو کہتے ہیں جو انسان کو خارج سے پہنچے اور اس پر زبر دستی ڈالی جائے ۔ اور کرہ ( بضم الکاف ) اس مشقت کو کہتے ہیں جو اسے نا خواستہ طور پر خود اپنے آپ سے پہنچتی ہے۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ [ التوبة 33] اور اگر چہ کافر ناخوش ہی ہوں ۔ - نوس - النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] - ( ن و س ) الناس ۔- بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔
(٩٩) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر آپ کے پروردگار کی مرضی ہوتی تو تمام کفار ایمان لے آتے لہذا جب یہ بات ہے تو کیا آپ لوگوں کو مجبور کرسکتے ہیں کہ وہ ایمان لائیں۔
آیت ٩٩ (وَلَوْ شَآءَ رَبُّکَ لَاٰمَنَ مَنْ فِی الْاَرْضِ کُلُّہُمْ جَمِیْعًا)- یہ مضمون سورة الانعام میں بڑے شد ومد کے ساتھ آچکا ہے۔ حضور کی شدید خواہش تھی کہ یہ سب لوگ ایمان لے آئیں مگر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس سلسلے میں ہمارا اپنا قانون ہے اور وہ یہ کہ جو حق کا طالب ہوگا اسے حق مل جائے گا اور جو تعصب ضد اور ہٹ دھرمی پر اتر آئے گا اسے ہدایت نصیب نہیں ہوگی۔ اگر لوگوں کو مسلمان بنانا ہی مقصود ہوتا تو اللہ کے لیے یہ کون سا مشکل کام تھا۔ وہ سب کو پیدا ہی ایسے کرتا کہ سب مؤمن متقی اور پرہیزگار ہوتے۔ آخر اس نے فرشتے بھی تو پیدا کیے ہیں جو کبھی غلطی کرتے ہیں نہ اس کی معصیت۔ جیسا کہ سورة التحریم میں فرمایا : (لَا یَعْصُوْنَ اللّٰہَ مَآ اَمَرَہُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ ) وہ اللہ کے احکام کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کرتے ہیں جو انہیں حکم دیا جاتا ہے۔ لیکن انسانوں کو اس نے پیدا ہی امتحان کے لیے کیا ہے۔ سورة الملک کے آغاز میں زندگی اور موت کی تخلیق کا یہی مقصد بتایا گیا ہے : (خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا) (آیت ٢) ” اس نے زندگی اور موت کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون حسن عمل کا رویہ اختیار کرتا ہے “۔ لہٰذا اے نبی آپ اس معاملے میں اپنا فرض ادا کرتے جائیں ‘ کوئی ایمان لائے یا نہ لائے اس کی پروا نہ کریں ‘ کسی کو ہدایت دینے یا نہ دینے کا معاملہ ہم سے متعلق ہے۔- (اَفَاَنْتَ تُکْرِہُ النَّاسَ حَتّٰی یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ )- اصل میں یہ ساری باتیں حضور کے دل مبارک کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے کی جا رہی ہیں کہ آپ ہر وقت دعوت و تبلیغ کی جدوجہدّ میں مصروف ہیں ‘ پھر آپ کو یہ اندیشہ بھی رہتا ہے کہ کہیں اس ضمن میں میری طرف سے کوئی کوتاہی تو نہیں ہو رہی۔ جیسے سورة الاعراف (آیت ٢ میں) فرمایا : (فَلاَ یَکُنْ فِیْ صَدْرِکَ حَرَجٌ مِّنْہُ ) کہ آپ کے دل میں فرائض رسالت کے سلسلے میں کسی قسم کی تنگی نہیں ہونی چاہیے۔ اور ان لوگوں کے پیچھے آپ اپنے آپ کو ہلکان نہ کریں۔
سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :101 یہ لوگ ایسے تھے جن کا معاملہ مشکوک تھا ۔ نہ ان کے منافق ہونے کا فیصلہ کیا جا سکتا تھا نہ گناہگار مومن ہونے کا ان دونوں چیزوں کی علامات ابھی پوری طرح نہ ابھری تھیں ۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے معاملہ کو ملتوی رکھا ۔ نہ اس معنی میں کہ فی الواقع خدا کے سامنے معاملہ مشکوک تھا ، بلکہ اس معنی میں کہ مسلمانوں کو کسی شخص یا گروہ کے معاملہ میں اپنا طرزِ عمل اس وقت تک متعین نہ کرنا چاہیے کہ جب تک اس کی پوزیشن ایسی علامات سے واضح نہ ہو جائے جو علم غیب سے نہیں بلکہ حس اور عقل سے جانچی جا سکتی ہوں ۔
40: یعنی اللہ تعالیٰ زبردستی سب کو مومن بنا سکتا تھا۔ لیکن چونکہ دنیا کے دار الامتحان میں ہر شخص سے مطالبہ یہ ہے کہ وہ اپنی آزاد مرضی اور اختیار سے ایمان لائے، اس لیے کسی کو زبردستی مسلمان کرنا نہ اللہ تعالیٰ کا طریقہ ہے، نہ کسی اور کے لیے جائز ہے۔