Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

جس طرح ان ظالموں کی ہلاکت ہوئی ان جیسا جو بھی ہوگا اسی نتیجے کو وہ بھی دیکھے گا ۔ اللہ تعالیٰ کی پکڑ المناک اور بہت سختی والی ہوتی ہے ۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ ظالموں کو ڈھیل دے کر پھر پکڑیں گے ۔ وقت ناگہاں دبا لیتا ہے ۔ پھر مہلت نہیں ملتی پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت کی ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

102۔ 1 یعنی جس طرح گزشتہ بستیوں کو اللہ تعالیٰ نے تباہ اور برباد کیا، آئندہ بھی وہ ظالموں کی اسی طرح گرفت کرنے پر قادر ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ان اللہ لیملی للظالم حتی اذا اخذہ لم یفلتہ اللہ تعالیٰ یقیناً ظالم کو مہلت دیتا ہے لیکن جب اس کی گرفت کرنے پر آتا ہے تو پھر اس طرح اچانک گرتا ہے کہ پھر مہلت نہیں دیتا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١١٣] یعنی اللہ ظالم لوگوں کو مہلت دیئے جاتا ہے اور مہلت سے مقصود تنبیہ بھی ہوتا ہے اور اتمام حجت بھی۔ لیکن جس قوم پر اتمام حجت ہوچکے اور تنبیہات بھی سود مند ثابت نہ ہوں اور ان لوگوں میں خیر اور بھلائی کو قبول کرنے کی استعداد ہی باقی نہ رہے تو پھر اس وقت ان پر ایسا قہر الٰہی نازل ہوتا ہے جو ان کے لیے سخت تکلیف دہ بھی ہوتا ہے اور جان لیوا بھی۔ اور اس عذاب سے بسا اوقات اس قوم کا نام و نشان ہی صفحہ ہستی سے مٹادیا جاتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَكَذٰلِكَ اَخْذُ رَبِّكَ ۔۔ : ” اَخَذَ “ کا معنی اچانک جلدی سے پکڑ لینا، جیسا کہ کہتے ہیں : ” فُلَانٌ اَخَذَہُ الْمَوْتُ “ فلاں کو موت نے آدبوچا۔ یعنی جس طرح گزشتہ سات انبیاء ( علیہ السلام) کی اقوام پر ظلم کی وجہ سے پکڑ آئی، کسی بھی ظالم بستی (والوں) پر تیرے رب کی پکڑ ایسی ہی ہوتی ہے۔ ابو موسیٰ اشعری (رض) روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِنَّ اللّٰہَ لَیُمْلِیْ للظَّالِمِ حَتّٰی إِذَا أَخَذَہٗ لَمْ یُفْلِتْہُ ، ثُمَّ قَرَأَ : (وَكَذٰلِكَ اَخْذُ رَبِّكَ اِذَآ اَخَذَ الْقُرٰي وَهِىَ ظَالِمَةٌ ۭ اِنَّ اَخْذَهٗٓ اَلِيْمٌ شَدِيْدٌ ) [ بخاری، التفسیر، باب : ( و کذلک أخذ ربک۔۔ ) : ٤٦٨٦۔ مسلم : ٢٥٨٣ ] ” اللہ تعالیٰ ظالم کو ڈھیل دیتا ہے، لیکن آخر کار جب اسے پکڑتا ہے تو ایسا پکڑتا ہے کہ وہ اس سے چھوٹ کر کہیں جا نہیں سکتا۔ “ اس کے بعد آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ یہ آیت ہر زمانے میں ہر ظالم کو شامل ہے۔ سلف میں سے کسی نے کہا ہے : ” کفر کے ساتھ سلطنت قائم رہ سکتی ہے مگر ظلم کے ساتھ نہیں۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور آپ کے رب کی دار و گیر ایسی ہی ( سخت) ہے جب وہ کسی بستی والوں پر دار وگیر کرتا ہے جبکہ وہ ظلم ( و کفر) کیا کرتے ہوں، بلا شبہ اس کی دار و گیر بڑی الم رساں ( اور) سخت ہے ( کہ اس سے سخت تکلیف پہنچتی ہے اور اس سے کوئی بچ نہیں سکتا) ان واقعات میں اس شخص کے لئے بڑی عبرت ہے جو آخرت کے عذاب سے ڈرتا ہو ( وجہ عبرت ظاہر ہے کہ جب دنیا کا عذاب ایسا سخت ہے حالانکہ یہ دار الجزاء نہیں تو آخرت کا جو کہ دار الجزاء ہے کیسا سخت عذاب ہوگا) وہ (یعنی آخرت کا دن) ایسا دن ہوگا کہ اس میں تمام آدمی جمع کئے جاویں گے اور وہ سب کی حاضری کا دن ہے اور ( وہ دن گو اب تک آیا نہیں لیکن اس سے کوئی اس کے آنے میں شک نہ کرے آوے گا ضرور) ہم اس کو صرف تھوڑی مدت کے لئے ( بعض مصلحتوں سے) ملتوی کئے ہوئے ہیں (پھر) جس وقت وہ دن آوے گا ( مارے ہیبت کے لوگوں کا یہ حال ہوگا کہ) کوئی شخص بدون خدا کی اجازت کے بات تک ( بھی) نہ کرسکے گا (ہاں جب حساب کتاب کیلئے حاضری ہوگی اور ان کے اعمال پر جواب طلب کیا جاوے گا اس وقت البتہ منہ سے بات نکلے گی خواہ وہ بات مقبول ہو یا مقبول نہ ہو سو اس حالت میں تو سب اہل موقف شریک ہوں گے) پھر (آگے) ان میں ( یہ فرق ہوگا کہ) بعض تو شقی ( یعنی کافر) ہوں گے اور بعضے سعید ( یعنی مومن) ہوں گے سو جو لوگ شقی ہیں وہ تو دوزخ میں ایسے حال سے ہوں گے کہ اس میں ان کی چیخ و پکار پڑی رہے گی ( اور) ہمیش ہمیش کو اس میں رہیں گے جب تک آسمان و زمین قائم ہیں ( یہ محاورہ ہے ابدیت کیلئے) اور کوئی نکلنے کی سبیل نہ ہوگی ہاں اگر خدا ہی کو ( نکالنا) منظور ہو تو دوسری بات ہے ( کیونکہ) آپ کا رب جو کچھ چاہے اس کو پورے طور سے کرسکتا ہے ( مگر باوجود قدرت کے یہ یقینی ہے کہ خدا یہ بات نہ چاہے گا اس لئے نکلنا نصیب نہ ہوگا) اور رہ گئے وہ لوگ جو سعید ہیں سو وہ جنت میں ہوں گے ( اور) وہ اس میں ( داخل ہونے کے بعد) ہمیشہ ہمیشہ کو رہیں گے جب تک آسمان و زمین قائم ہیں ( گو جانے کے قبل کچھ سزا بھگتی ہو) ہاں اگر خدا ہی کو ( نکالنا) منظور ہو تو دوسری بات ہے ( مگر یہ یقینی ہے کہ خدا یہ بات کبھی نہ چاہے گا پس نکلنا بھی کبھی نہ ہوگا بلکہ) وہ غیر منقطع عطیہ ہوگا ( اور جب کفر کا وبال اوپر کی آیتوں سے معلوم ہوچکا) سو ( اے مخاطب) جس چیز کی یہ پرستش کرتے ہیں اس کے بارے میں ذرا شبہ نہ کرنا ( بلکہ یقین رکھنا کہ ان کا یہ عمل موجب سزا ہے بوجہ باطل ہونے کے، اور باطل ہونے کی دلیل یہ ہے کہ) یہ لوگ بھی اسی طرح ( بلا دلیل بلکہ خلاف دلیل) عبادت ( غیر اللہ کی) کر رہے ہیں جس طرح ان کے قبل ان کے باپ دادا عبادت کرتے تھے ( امر خلاف دلیل باطل اور موجب سزا ہوتا ہے) اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب (یعنی توریت) دی تھی سو اس میں (بھی مثل قرآن کے) خلاف کیا گیا (کہ کسی نے مانا کسی نے نہ مانا، یہ کوئی آپ کے لئے نئی بات نہیں ہوئی پس آپ مغموم نہ ہوں اور ( یہ منکرین ایسے مستحق عذاب ہیں کہ) اگر ایک بات نہ ہوتی جو آپ کے رب کی طرف سے پہلے ٹھہر چکی ہے ( کہ پورا عذاب ان کو آخرت میں دوں گا) تو ( جس چیز میں یہ اختلاف کر رہے ہیں) ان کا ( قطعی) فیصلہ (دنیا ہی میں) ہوچکا ہوتا ( یعنی وہ عذاب موعود واقع ہوجاتا) اور یہ لوگ ( باوجود قیام براہین کے ابھی تک) اس ( فیصلہ یعنی عذاب موعود) کی طرف سے ایسے شک میں ( پڑے) ہیں جس نے ان کو تردد میں ڈال رکھا ہے ( کہ ان کو عذاب کا یقین ہی نہیں آتا، شک کا مطلب یہی ہے) اور ( کسی کے شک و انکار سے یہ عذاب ٹلے گا نہیں بلکہ) بالیقین سب کے ایسے ہی ہیں کہ آپ کا رب ان کو ان کے اعمال (کی جزا) کا پورا پورا حصہ دے گا، بالیقین وہ ان کے سب اعمال کی پوری خبر رکھتا ہے ( جب ان کی سزا کا معاملہ آپ سے کچھ سروکار نہیں رکھتا تو آپ اور مسلمان اپنے کام میں لگے رہیں، وہ کام یہ ہیں جو اگلی آیات میں مذکور ہیں) ۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَكَذٰلِكَ اَخْذُ رَبِّكَ اِذَآ اَخَذَ الْقُرٰي وَہِىَ ظَالِمَۃٌ۝ ٠ ۭ اِنَّ اَخْذَہٗٓ اَلِيْمٌ شَدِيْدٌ۝ ١٠٢- أخذ - الأَخْذُ : حوز الشیء وتحصیله، وذلک تارةً بالتناول نحو : مَعاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنا مَتاعَنا عِنْدَهُ [يوسف 79] ، وتارةً بالقهر نحو قوله تعالی: لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة 255] - ( اخ ذ) الاخذ - ۔ کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا جمع کرلینا اور احاطہ میں لے لینا اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑلینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ ( سورة يوسف 79) خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سو اہم کسی اور پکڑ لیں اور کبھی غلبہ اور قہر کی صورت میں جیسے فرمایا :۔ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ( سورة البقرة 255) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی اور نہ ہ نیند ۔ محاورہ ہے ۔- قرية- الْقَرْيَةُ : اسم للموضع الذي يجتمع فيه الناس، وللناس جمیعا، ويستعمل في كلّ واحد منهما . قال تعالی: وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف 82] قال کثير من المفسّرين معناه : أهل القرية .- ( ق ر ی ) القریۃ - وہ جگہ جہاں لوگ جمع ہو کر آباد ہوجائیں تو بحیثیت مجموعی ان دونوں کو قریہ کہتے ہیں اور جمع ہونے والے لوگوں اور جگہ انفراد بھی قریہ بولا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف 82] بستی سے دریافت کرلیجئے ۔ میں اکثر مفسرین نے اہل کا لفظ محزوف مان کر قریہ سے وہاں کے با شندے مرے لئے ہیں - ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں - ألم - الأَلَمُ الوجع الشدید، يقال : أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قال تعالی: فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَما تَأْلَمُونَ [ النساء 104] ، وقد آلمت فلانا، و عذاب أليم، أي : مؤلم . وقوله : لَمْ يَأْتِكُمْ [ الأنعام 130] فهو ألف الاستفهام، وقد دخل علی «لم» .- ( ا ل م ) الالم - کے معنی سخت درد کے ہیں کہا جاتا ہے الم یالم ( س) أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قرآن میں ہے :۔ فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ ( سورة النساء 104) تو جس طرح تم شدید درد پاتے ہو اسی طرح وہ بھی شدید درد پاتے ہیں ۔ اٰلمت فلانا میں نے فلاں کو سخت تکلیف پہنچائی ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ( سورة البقرة 10 - 174) میں الیم بمعنی مؤلم ہے یعنی دردناک ۔ دکھ دینے والا ۔ اور آیت :۔ اَلَم یَاتِکُم (64 ۔ 5) کیا تم کو ۔۔ نہیں پہنچی ۔ میں الف استفہام کا ہے جو لم پر داخل ہوا ہے ( یعنی اس مادہ سے نہیں ہے )- شدید - والشِّدَّةُ تستعمل في العقد، وفي البدن، وفي قوی النّفس، وفي العذاب، قال : وَكانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً [ فاطر 44] ، عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوى[ النجم 5] ، يعني : جبریل عليه السلام، - ( ش دد ) الشد - اور شدۃ کا لفظ عہد ، بدن قوائے نفس اور عذاب سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَكانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً [ فاطر 44] وہ ان سے قوت میں بہت زیادہ تھے ۔ عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوى[ النجم 5] ان کو نہایت قوت والے نے سکھایا ؛نہایت قوت والے سے حضرت جبریل (علیہ السلام) مراد ہیں

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٠٢) اور آپ کے پروردگار کا عذاب ایسا ہی سخت ہے جب وہ کسی بستی کے لوگوں پر عذاب نازل کرتا ہے جب کہ وہ کفر وشرک میں مبتلا ہوں، بیشک اس کی پکڑ بہت سخت ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٠٢ (وَكَذٰلِكَ اَخْذُ رَبِّكَ اِذَآ اَخَذَ الْقُرٰي وَهِىَ ظَالِمَةٌ)- جب کسی بستی میں گناہ اور معصیت کا چلن عام ہوجاتا ہے تو وہ گویا ” ظلم “ کی مرتکب ہو کر عذاب کی مستحق ہوجاتی ہے۔- (اِنَّ اَخْذَهٗٓ اَلِيْمٌ شَدِيْدٌ )- اللہ کی پکڑ کے بارے میں سورة البروج میں فرمایا گیا : (اِنَّ بَطْشَ رَبِّکَ لَشَدِیْدٌ) ” یقیناً تیرے رب کی پکڑ بہت سخت ہے۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani