ہلاکت اور نجات ، ٹھوس دلائل کافروں کی اس ہلاکت اور مومنوں کی نجات میں صاف دلیل ہے ہمارے ان وعدوں کی سچائی پر جو ہم نے قیامت کے بارے میں کئے ہیں جس دن تمام اول و آخر کے لوگ جمع کئے جائیں گے ۔ ایک بھی باقی نہ چھوٹے گا اور وہ بڑا بھاری دن ہوگا تمام فرشتے ، تمام رسول ، تمام مخلوق حاضر ہوگی ۔ حاکم حقیقی عادل کافی انصاف کرے گا ۔ قیامت کے قائم ہو نے میں دیر کی وجہ یہ ہے کہ رب یہ بات پہلے ہی مقرر کر چکا ہے کہ اتنی مدت تک دنیا بنی آدم سے آباد رہے گی ۔ اتنی مدت خاموشی پر گزرے گی پھر فلاں وقت قیامت قائم ہوگی ۔ جس دن قیامت آجائے گی ۔ کوئی نہ ہوگا جو اللہ کی اجازت کے بغیر لب بھی کھول سکے ۔ مگر رحمن جسے اجازت دے اور وہ بات بھی ٹھیک بولے ۔ تمام آوازیں رب رحمن کے سامنے پست ہوں گی ۔ بخاری و مسلم کی حدیث شفاعت میں ہے اس دن صرف رسول ہی بولیں گے اور ان کا کلام بھی صرف یہی ہوگا کہ یا اللہ سلامت رکھ ، یا اللہ سلامتی دے ۔ مجمع محشر میں بہت سے تو برے ہوں گے اور بہت سے نیک ۔ اس آیت کے اترنے پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ پوچھتے ہیں کہ پھر یا رسول اللہ ہمارے اعمال اس بنا پر ہیں جس سے پہلے ہی فراغت کر لی گئی ہے یا کسی نئی بنا پر؟ آپ نے فرمایا نہیں بلکہ اس حساب پر جو پہلے سے ختم ہو چکا ہے جو قلم چل چکا ہے لیکن ہر ایک کے لیے وہی آسان ہوگا ۔ جس کے لیے اس کی پیدائش کی گئی ہے ۔
103۔ 1 یعنی مواخذہ الٰہی میں یا ان واقعات میں جو عبرت و موعظبت کے لئے بیان کئے گئے ہیں۔ 103۔ 2 یعنی حساب اور بدلے کے لئے۔
[١١٤] یعنی قوموں کے عروج وزوال کی داستان یا عروج وزوال کے قانون سے عبرت وہی لوگ حاصل کرتے ہیں جن میں اللہ کا خوف ہوتا ہے اور آخرت میں اللہ کے حضور جواب دہی کے تصور سے ڈرتے رہتے ہیں اور یہ واقعات انھیں اللہ کی نافرمانی سے باز رکھنے میں موثر ثابت ہوتے ہیں۔ رہے وہ لوگ جو نہ اللہ سے ڈرتے ہیں نہ آخرت کے عذاب سے تو وہ ایسے عبرت انگیز واقعات سرسری طور پر پڑھ کر یا دیکھ کر انھیں اتفاقات زمانہ سے متعلق کردیتے ہیں یا زیادہ سے زیادہ ان کی مادی یا طبیعی توجیہات تلاش کرنے لگتے ہیں۔- [١١٥] یوم مشہود کا ایک ترجمہ یہ بھی کیا گیا ہے کہ اس دن سب لوگوں کو حاضر کیا جائے گا یعنی تمام لوگ اس دن صرف جمع ہی نہیں کیے جائیں گے بلکہ انھیں باز پرس کے لیے اللہ کے سامنے حاضر بھی کیا جائے گا اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کے مقدمات پر شہادتیں قائم کی جائیں گی اور سب کارروائی تمام لوگوں کی موجودگی میں کی جائے گی۔
اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً لِّمَنْ خَافَ عَذَابَ الْاٰخِرَةِ : یعنی ان آیات و واقعات سے وہی عبرت حاصل کرے گا جس کا آخرت پر ایمان ہے، مگر جس کا آخرت پر ایمان نہیں وہ ان تمام واقعات کی کوئی نہ کوئی سائنسی توجیہ کرے گا کہ زمین و آسمان کے تغیرات کی وجہ سے ایسا ہوا، ظلم یا عدل سے اس کا کیا تعلق ؟- ذٰلِكَ يَوْمٌ مَّجْمُوْعٌ : یعنی وہ قیامت کا دن ایسا ہے جس کے لیے تمام لوگ جمع کیے ہوئے ہوں گے۔ زمخشری نے فرمایا کہ فعل مجہول ” یُجْمَعُ لَہُ “ (جمع کیے جائیں گے) کے بجائے اسم مفعول ” مَّجْمُوْعٌ لہ “ (جمع کیے ہوئے ہوں گے) اس لیے استعمال فرمایا کہ اسم میں دوام اور ہمیشگی پائی جاتی ہے جب کہ فعل میں یہ چیز نہیں ہوتی۔ - وَذٰلِكَ يَوْمٌ مَّشْهُوْدٌ : یعنی اس میں سب لوگ حاضر کیے ہوئے ہوں گے، کوئی چھپ سکے گا نہ ادھر ادھر ہو سکے گا۔ ایک معنی یہ ہے کہ اس دن ہر نیکی یا بدی کی شہادت موجود ہوگی اور پیش بھی کی جائے گی۔ یہ بھی مراد ہے کہ اس دن پہلے، پچھلے انسان اور جن سب حاضر ہوں گے، فرشتے بھی اور خود ذات الٰہی بھی فیصلے کے لیے تشریف لائیں گے، فرمایا : (وَّجَاۗءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا) [ الفجر : ٢٢ ] ” اور تیرا رب آئے گا اور فرشتے جو صف در صف ہوں گے۔ “
اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَۃً لِّمَنْ خَافَ عَذَابَ الْاٰخِرَۃِ ٠ۭ ذٰلِكَ يَوْمٌ مَّجْمُوْعٌ ٠ۙ لَّہُ النَّاسُ وَذٰلِكَ يَوْمٌ مَّشْہُوْدٌ ١٠٣- الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- آخرت - آخِر يقابل به الأوّل، وآخَر يقابل به الواحد، ويعبّر بالدار الآخرة عن النشأة الثانية، كما يعبّر بالدار الدنیا عن النشأة الأولی نحو : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت 64] ، وربما ترک ذکر الدار نحو قوله تعالی: أُولئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ [هود 16] . وقد توصف الدار بالآخرة تارةً ، وتضاف إليها تارةً نحو قوله تعالی: وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأنعام 32] ، وَلَدارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا[يوسف 109] .- وتقدیر الإضافة : دار الحیاة الآخرة .- اخر ۔ اول کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے اور اخر ( دوسرا ) واحد کے مقابلہ میں آتا ہے اور الدارالاخرۃ سے نشاۃ ثانیہ مراد لی جاتی ہے جس طرح کہ الدار الدنیا سے نشاۃ اولیٰ چناچہ فرمایا وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ ( سورة العنْکبوت 64) ہمیشہ کی زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے لیکن کھی الدار کا لفظ حذف کر کے صرف الاخرۃ کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ ( سورة هود 16) یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں آتش جہنم کے سوا اور کچھ نہیں ۔ اور دار کا لفظ کبھی اخرۃ کا موصوف ہوتا ہے اور کبھی اس کی طر ف مضاف ہو کر آتا ہے چناچہ فرمایا ۔ وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ ( سورة الأَنعام 32) اور یقینا آخرت کا گھر بہتر ہے ۔ ان کے لئے جو خدا سے ڈرتے ہیں ۔ (6 ۔ 32) وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ( سورة النحل 41) اور آخرت کا اجر بہت بڑا ہے ۔ اگر وہ اسے جانتے ہوتے ۔- نوس - النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] - ( ن و س ) الناس ۔- بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ - شهُودُ والشَّهَادَةُ- الشُّهُودُ والشَّهَادَةُ : الحضور مع المشاهدة، إمّا بالبصر، أو بالبصیرة، وقد يقال للحضور مفردا قال اللہ تعالی: عالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهادَةِ [ السجدة 6] ، لکن الشهود بالحضور المجرّد أولی، والشّهادة مع المشاهدة أولی، ويقال للمحضر : مَشْهَدٌ ، وللمرأة التي يحضرها زوجها : مُشْهِدٌ ، وجمع مَشْهَدٍ : مَشَاهِدُ ، ومنه : مَشَاهِدُ الحجّ ، وهي مواطنه الشریفة التي يحضرها الملائكة والأبرار من الناس . وقیل : مَشَاهِدُ الحجّ : مواضع المناسک . قال تعالی: لِيَشْهَدُوا مَنافِعَ لَهُمْ [ الحج 28] ، وَلْيَشْهَدْ عَذابَهُما[ النور 2] ، ما شَهِدْنا مَهْلِكَ أَهْلِهِ [ النمل 49] ، أي : ما حضرنا، وَالَّذِينَ لا يَشْهَدُونَ الزُّورَ [ الفرقان 72] ، أي : لا يحضرونه بنفوسهم ولا بهمّهم وإرادتهم .- المشھود والشھادۃ کے معنی کسی چیز کا مشاہدہ کرنے کے ہیں خواہ بصر سے ہو یا بصیرت سے اور صرف حاضر ہونے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : عالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهادَةِ [ السجدة 6] پوشیدہ اور ظاہر کا جاننے والا ۔ لیکن اولٰی یہ ہے کہ شھود کے معنی صرف حاضر ہونا ہوں اور شھادۃ میں حاضر ہونے کے ساتھ مشاہدہ کا بھی اعتبار کیا جائے المحضر بمعنی مشہد یعنی حاضر ہونے کی جگہ کو کہا جاتا ہے مشہد وہ عورت جس کا خاوند حاضر ہو اور مشھد کی جمع مشاھد آتی ہے اسی سے مشاہد الحج ہیں یعنی وہ مواضع شریف جہاں کہ فرشتے اور نیک لوگ حاضر ہوتے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ مشاھد الحج کے معنی مناسک حج کے ہیں قرآن میں ہے : لِيَشْهَدُوا مَنافِعَ لَهُمْ [ الحج 28] تاکہ وہ اپنے فائدہ کے لئے حاضر ہوں ۔ وَلْيَشْهَدْ عَذابَهُما[ النور 2] اور ان کی سزا کے وقت موجود ہو ۔ ما شَهِدْنا مَهْلِكَ أَهْلِهِ [ النمل 49] ہم تو اس کے گھر والوں کے موقع ہلاکت پر گئے ہی نہیں ۔ وَالَّذِينَ لا يَشْهَدُونَ الزُّورَ [ الفرقان 72] اور وہ جھوٹی گواہی نہیں دیتے ۔ یعنی نہ تو زود کے موقع پر خود ہی حاضر ہوتے ہیں اور نہ اس کا قصد یا ارادہ کرتے ہیں
(١٠٣) ان مذکورہ واقعات میں ایسے شخص کے لیے عبرت ہے جو آخرت کے عذاب سے ڈرتا ہو کہ ان نافرمانوں کی اتباع نہ کرے یہ قیامت کا دن ہے کہ اس میں تمام اگلے پچھلے لوگ جمع کیے جائیں گے اور اس روز سب آسمان و زمین والے حاظر کیے جائیں گے۔
سورة هُوْد حاشیہ نمبر :105 “یہ ان کے اس مطالبہ کا آخری اور قطعی جواب ہے جو وہ ایمان لانے کے لیےشرط کے طور پر پیش کرتے تھے کہ ہمیں کوئی نشانی دکھائی جائے جس سے ہم کو یقین آجائے کہ تمہاری نبوت سچی ہے ۔ اس کےجواب میں فرمایا جا رہا ہے کہ اگر تمہارے اندر حق کی طلب اور قبولِ حق کی آمادگی ہو تو وہ بے حد و حساب نشانیاں جو زمین و آسمان میں ہر طرف پھیلی ہوئی ہیں تمہیں پیغام محمدی کی صداقت کا اطمینان دلانے کے لیے کافی سے زیادہ ہیں ۔ صرف آنکھیں کھول کر انہیں دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ لیکن اگر یہ طلب اور یہ آمادگی ہی تمہارے اندر موجود نہیں ہے تو پھر کوئی نشانی بھی ، خواہ وہ کیسی ہی خارقِ عادت اور عجیب و غریب ہو ، تم کو نعمت ایمان سے بہرہ ور نہیں کر سکتی ۔ ہر معجزے کو دیکھ کر تم فرعون اور اس کی قوم کے سرداروں کی طرح کہو گے یہ تو جادو گری ہے ۔ اس مرض میں جو لوگ مبتلا ہو تے ہیں ان کی آنکھیں صرف اس وقت کھلا کرتی ہیں جب خدا کا قہر و غضب اپنی ہولناک سخت گیری کے ساتھ ان پر ٹوٹ پڑتا ہے جس طرح فرعون کی آنکھیں ڈوبتے وقت کھلی تھیں ۔ مگر عین گرفتاری کے موقع پر جو توبہ کی جائے اس کی کوئی قیمت نہیں ۔