Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

107۔ 1 ان الفاظ سے بعض لوگوں کو یہ مغالطہ لگا ہے کہ کافروں کے لئے جہنم کا عذاب دائمی نہیں ہے بلکہ موقت ہے یعنی اس وقت تک رہے گا جب تک آسمان و زمین رہیں گے۔ لیکن یہ بات صحیح نہیں۔ کیونکہ یہاں (مَا دَ امَتِ السِّمٰوٰ تُ وَالْاَرْضُ ) اہل عرب کے روز مرہ کی گفتگو اور محاورے کے مطابق نازل ہوا ہے۔ عربوں کی عادت تھی کہ جب کسی چیز کا دوام ثابت کرنا مقصود ہوتا تو وہ کہتے تھے (یہ چیز اسی طرح ہمیشہ رہے گی۔ جس طرح آسمان و زمین کا دوام ہے) اسی محاورے کو قرآن کریم میں استعمال کیا گیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اہل کفر و شرک جہنم میں ہمیشہ رہیں گے۔ جس کو قرآن نے متعدد جگہ خالدین فیھا کے الفاظ سے ذکر کیا ہے۔ ایک دوسرا مفہوم اس کا یہ بھی بیان کی گیا ہے کہ آسمان و زمین سے مراد جنس ہے۔ یعنی دنیا کے آسمان و زمین اور ہیں جو فنا ہوجائیں گے لیکن آخرت کے آسمان و زمین ان کے علاوہ اور ہوں گے، جیسا کہ قرآن کریم میں اس کی صراحت ہے، (يَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَيْرَ الْاَرْضِ وَالسَّمٰوٰتُ وَبَرَزُوْا لِلّٰهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ 48 ۔ ) 14 ۔ ابراہیم :48) ، اس دن یہ زمین دوسری زمین سے بدل دی جائے گی اور آسمان بھی بدل دئیے جائیں گے۔ اور آخرت کے یہ آسمان وزمین، جنت اور دوزخ کی طرح ہمیشہ رہیں گے۔ اس آیت میں یہی آسمان و زمین مراد ہے نہ کہ دنیا کے آسمان و زمین جو فنا ہوجائیں گے۔ (ابن کثیر) ان دونوں مفہوموں میں سے کوئی بھی مفہوم مراد لے لیا جائے، آیت کا مفہوم واضح ہوجاتا ہے اور وہ اشکال پیدا نہیں ہوتا جو مذکور ہوا۔ امام شوکانی نے اس کے اور بھی کئی مفہوم بیان کیے ہیں جنہیں اہل علم ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔ 107۔ 2 اس استثناء کے بھی کئی مفہوم بیان کئے گئے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ صحیح مفہوم یہی ہے کہ یہ استثناء ان گناہ گاروں کے لئے ہے جو اہل توحید و اہل ایمان ہوں گے۔ اس اعتبار سے اس سے ما قبل آیت میں شَقِی کا لفظ عام یعنی کافر اور عاصی دونوں کو شامل ہوگا اور (اِ لَّا مَا شَآءَ رَبُّکَ ) سے عاصی مومنوں کا استثناء ہوجائے گا اور مَا شَآء میں مَا، مَنْ کے معنی میں ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١١٩] یہ الفاظ بطور محاورہ استعمال کیے گئے ہیں کیونکہ اہل عرب دوام اور لا محدود مدت بیان کرنے کے لیے یہی الفاظ استعمال کرتے تھے ورنہ یہ موجودہ زمین و آسمان تو قیامت کے وقت ختم کردیے جائیں گے۔ البتہ ظاہری الفاظ کا لحاظ رکھتے ہوئے ان سے عالم اخروی کے زمین و آسمان مراد لیے جاسکتے ہیں۔- [١٢٠] کیا اعمال کے نتائج ناقابل تبدل ہیں ؟ اس آیت میں ان گمراہ لوگوں کا رد ہے جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اللہ نے اشیاء میں جو تاثیریں رکھ دی ہیں انہی کے مطابق ہی افعال کے نتائج برآمد ہوتے ہیں اور ان میں ردو بدل ناممکن ہے یہ عقیدہ دراصل اللہ کی قدرت کاملہ کا انکار ہے وہ اس کی مثال یہ دیتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے زہر کھالیا ہے تو وہ لازماً مرجائے گا اور موت ایسی یقینی ہے جس کا کوئی علاج نہیں۔ جبکہ اہل سنت کا عقیدہ یہ ہے کہ اگر اللہ چاہے تو زہر کھانے والے کو بھی بچا سکتا ہے۔ اسی طرح اگر اللہ چاہے تو کسی مجرم کو تھوڑی بہت سزا دے کر یا سزا دئیے بغیر ہی معاف کرسکتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

خٰلِدِيْنَ فِيْهَا مَا دَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ : ” جب تک سارے آسمان و زمین قائم ہیں “ مراد ہمیشہ کا عذاب ہے، کیونکہ جب کسی چیز کی ہمیشگی ظاہر کرنا مقصود ہوتا ہے تو عرب ” مَا دَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ “ کا محاورہ استعمال کرتے ہیں، ورنہ تعلیق نہیں، یعنی یہ معنی نہیں کہ جب تک آسمان و زمین قائم رہیں گے عذاب رہے گا پھر نہیں۔ ہاں آسمان و زمین سے مراد آخرت کے آسمان و زمین ہوں تو محاورے کے بغیر ہی ہمیشگی مراد ہے، کیونکہ دنیا کے زمین و آسمان تو اس دن بدل دیے جائیں گے، فرمایا : (يَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَيْرَ الْاَرْضِ وَالسَّمٰوٰتُ وَبَرَزُوْا لِلّٰهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّار) [ إبراہیم : ٤٨ ] ” جس دن یہ زمین اور زمین سے بدل دی جائے گی اور سب آسمان بھی اور لوگ اللہ کے سامنے پیش ہوں گے، جو اکیلا ہے، بڑا زبردست ہے۔ “ آخرت کے آسمان و زمین میں جنت واقع ہوگی اور وہ ہمیشہ رہنے والی ہے۔ لہٰذا وہ زمین و آسمان بھی دائمی ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے جنتیوں کا قول ذکر فرمایا : (وَقَالُوا الْحـَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ صَدَقَنَا وَعْدَهٗ وَاَوْرَثَنَا الْاَرْضَ نَـتَبَوَّاُ مِنَ الْجَــنَّةِ حَيْثُ نَشَاۗءُ ) [ الزمر : ٧٤ ] ” اور وہ کہیں گے سب تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے ہم سے اپنا وعدہ سچا کیا اور ہمیں اس زمین کا وارث بنادیا کہ ہم جنت میں جہاں چاہیں جگہ بنالیں۔ “ تو مطلب یہ ہوگا کہ جہنمی جہنم میں اور جنتی جنت میں ہمیشہ رہیں گے۔ (ابن کثیر)- اِلَّا مَا شَاۗءَ رَبُّكَ : یہ لفظ ” شَقِیٌّ“ اور ” سَعِیْد “ دونوں کے تذکرے میں آئے ہیں، یعنی بدبخت آگ میں ہمیشہ رہیں گے جب تک آسمان و زمین قائم ہیں، مگر جو تیرا رب چاہے۔ اسی طرح سعادت مندوں کے متعلق بھی فرمایا کہ وہ ہمیشہ جنت میں رہیں گے جب تک آسمان و زمین قائم ہیں، مگر جو تیرا رب چاہے۔ دونوں آیتوں میں ” مگر جو تیرا رب چاہے “ کا تعلق اہل توحید سے ہے۔ پہلی آیت میں مطلب یہ ہوگا کہ مومن موحد گناہ گار جب اپنی سزا بھگت لیں گے تو انھیں جہنم سے نکال لیا جائے گا، جیسا کہ ابوسعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں : ( یَدْخُلُ أَھْلُ الْجَنَّۃِ الْجَنَّۃَ وَأَھْلُ النَّار النَّارَ ثُمَّ یَقُوْلُ اللّٰہُ تَعَالَی أَخْرِجُوْا مَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہِ مِثْقَالُ حَبَّۃٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنْ إِیْمَانٍ ، فَیُخْرَجُوْنَ مِنْھَا قَدِ اسْوَدُّوْا فَیُلْقَوْنَ فِيْ نَھْرِ الْحَیَا أَوِ الْحَیَاۃِ ، شَکَّ مَالِکٌ فَیَنْبُتُوْنَ کَمَا تَنْبُتُ الْحِبَّۃُ فِيْ جَانِبِ السَّیْلِ ، أَلَمْ تَرَ أَنَّھَا تَخْرُجُ صَفْرَاءَ مُلْتَوِیَۃً ؟ ) [ بخاری، الإیمان، باب تفاضل أہل الإیمان فی الأعمال : ٢٢۔ مسلم : ١٨٤ ] ” اہل جنت، جنت میں اور اہل نار آگ میں داخل ہوجائیں گے، پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا : ” جس شخص کے دل میں ایک رائی کے دانے کے برابر ایمان ہے اسے اس سے نکال لو “ تو وہ اس سے اس حال میں نکالے جائیں گے کہ سیاہ ہوچکے ہوں گے، پھر انھیں ” نَھْرُ الْحَیَا “ (بارش کے پانی کی نہر) یا ” نَھْرُ الْحَیَاۃِ “ (زندگی کی نہر) میں ڈال دیا جائے گا (امام مالک کو شک ہے) تو وہ اس طرح اگ آئیں گے جیسے بوٹیوں کا بیج سیلاب کی جانب میں اگ آتا ہے۔ تم نے نہیں دیکھا کہ وہ زرد لپٹا ہوا اگتا ہے ؟ “ - اس مفہوم کی بہت سی احادیث آئی ہیں کہ سزا پا کر یا شفاعت سے یا محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے گناہ گار مسلمان آخر کار جہنم سے نکل کر جنت میں چلے جائیں گے، اس پر اہل سنت کا اتفاق ہے۔ گو بعض نے اس سے دوزخ کے بالآخر فنا ہونے پر استدلال کیا ہے اور اس سلسلے میں ایک ضعیف حدیث اور کچھ غریب اقوال بھی نقل کیے ہیں، مگر یہ مطلب قرآن کی دوسری آیات کے خلاف ہے، جن میں جہنمیوں کے متعلق ” خالدین “ اور ” ابدا “ کے الفاظ مذکور ہیں اور ان احادیث کے بھی صریح خلاف ہے، جن میں ہے : ( یُجَاء بالْمَوْتِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ کَأَنَّہٗ کَبْشٌ أَمْلَحُ حَتّٰی یُجْعَلَ بَیْنَ الْجَنَّۃِ وَالنَّارِ ، ثُمَّ یُذْبَحُ ، ثُمَّ یُنَادِيْ مُنَادٍ یَا أَھْلَ الْجَنَّۃِ لاَ مَوْتَ ، یَا أَھْلَ النَّارِ لاَ مَوْتَ ، فَیَزْدَادُ أَھْلُ الْجَنَّۃِ فَرَحًا إِلٰی فَرَحِھِمْ ، وَیَزْدَادُ أَھْلُ النَّارِ حُزْنًا إِلٰی حُزْنِھِمْ ) [ مسلم، الجنۃ و نعیمہا، باب النار یدخلہا الجبارون : ٢٨٤٩، ٤٣؍٢٨٥٠۔ بخاری : ٦٥٤٨ ] ” موت کو ایک مینڈھے کی شکل میں جنت اور جہنم کے درمیان لا کر ذبح کردیا جائے گا اور اعلان کرنے والا اعلان کرے گا کہ اے اہل جنت (اب) موت نہیں اور اے اہل نار اب موت نہیں تو جنتیوں کی خوشیوں کے ساتھ مزید خوشی کا اور جہنمیوں کے غم کے ساتھ مزید غم کا اضافہ ہوجائے گا۔ “ اور مسلم کی ایک روایت (٤٢؍٢٨٥٠) میں ہے : ( کُلٌّ خَالِدٌ فِیْمَا ھُوَ فِیْہِ ) کہ ہر ایک جس جگہ میں ہے اس میں ہمیشہ رہے گا۔ ایسی بہت سی صحیح احادیث موجود ہیں، اس لیے جہنم کے بالآخر فنا ہونے کی کوئی واضح اور پختہ دلیل موجود نہیں۔ - اِنَّ رَبَّكَ فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيْدُ : یہ ان لوگوں پر رد ہے جو ہر عمل کی تاثیر ذاتی سمجھتے ہیں، جیسا کہ زہر کھانے کا لازمی نتیجہ موت ہے، چناچہ معتزلہ اور خارجیوں کا کہنا ہے کہ جو مسلمان کبائر کا مرتکب ہو اور توبہ نہ کی ہو، وہ بھی ابدی جہنمی ہے۔ ایک دفعہ جو آگ میں چلا گیا وہ وہاں سے کبھی نہیں نکلے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اہل شقاوت (جو جہنم میں جائیں گے، جن میں کافر اور گناہ گار مسلمان دونوں شامل ہیں) کے متعلق فرمایا کہ وہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے، مگر جو تیرا رب چاہے۔ کیونکہ بلاشبہ تیرا رب جو چاہے کر گزرنے والا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کسی بھی چیز کی تاثیر اللہ کے حکم ہی سے ہوتی ہے، وہ چاہے تو آگ جلاتی ہے، پانی غرق کرتا ہے، زہر موت کا باعث بنتا ہے، اگر وہ اس کے برعکس چاہے تو نہ آگ جلاتی ہے، نہ پانی غرق کرتا ہے، نہ زہر کھانا موت کا باعث ہوتا ہے، حالانکہ یہ ان کی اپنی تاثیر کے خلاف ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ اہل کبائر مسلمانوں کو جہنم سے نکال لے گا، وہ جو چاہے کر گزرنے والا ہے، کوئی اس کا ہاتھ نہیں پکڑ سکتا۔- وَاَمَّا الَّذِيْنَ سُعِدُوْا ۔۔ : اس دوسری آیت میں اہل سعادت (اہل جنت) کے متعلق بھی ” مگر جو تیرا رب چاہے “ کے الفاظ فرمائے ہیں۔ یہاں بھی ان سے مراد گناہ گار مسلمان ہی ہیں، یعنی جنتی جنت میں ہمیشہ رہیں گے، تاہم کچھ لوگ اللہ کی مشیت کے تحت جہنم سے نکال کر جنت میں لائے جائیں گے۔ گویا وہ ہمیشہ جنت میں نہ رہے مگر جنت میں داخل ہونے کے بعد چونکہ کوئی بھی اس سے نہیں نکلے گا، اس لیے آخر میں فرمایا : (عَطَاۗءً غَيْرَ مَجْذُوْذٍ ) یعنی جنت ایسا عطیہ ہے جو قطع کیا جانے والا نہیں۔ (روح المعانی)- شاہ عبد القادر (رض) اپنے فوائد میں لکھتے ہیں کہ اس کے یعنی آیت : ( مَا دَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ ) کے دو معنی ہوسکتے ہیں، ایک یہ کہ رہیں گے آگ میں جتنی دیر رہ چکے ہیں آسمان و زمین دنیا میں، مگر جتنا اور چاہے تیرا رب، وہ اسی کو معلوم ہے۔ دوسرے یہ کہ رہیں گے آگ میں جب تک رہے آسمان و زمین اس (آخری) جہان کا، یعنی ہمیشہ مگر جو چاہے رب تو موقوف کر دے، لیکن وہ چاہ چکا کہ موقوف نہ ہو۔ اس کہنے میں فرق نکلا اللہ کے ہمیشہ رہنے میں اور بندے کے کہ بندے کے ہمیشہ رہنے پر ساتھ یہ بات لگی ہے کہ اللہ چاہے تو فنا کر دے۔ “ (موضح) گویا شاہ صاحب نے اس مشہور اعتراض کا بھی جواب دے دیا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات بھی ہمیشہ رہنے والی ہے، جنتی اور جہنمی بھی ہمیشہ جنت اور جہنم میں رہنے والے ہوئے تو دونوں ایک دوسرے کی مثل ابدی ہوگئے، جب کہ فرمایا : (لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئْ ) [ الشوریٰ : ١١ ] ” اس کی مثل کوئی چیز نہیں۔ “ جواب یہ ہے کہ بندے کا جہنم یا جنت میں ہمیشہ رہنا اور ابدی ہونا اللہ تعالیٰ کی مشیت پر موقوف ہے، جبکہ اللہ تعالیٰ کا ابدی ہونا کسی کی مشیت پر موقوف نہیں۔ وہ خود ہی ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا، وہ ازلی بھی ہے اور ابدی بھی۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

خٰلِدِيْنَ فِيْہَا مَا دَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ اِلَّا مَا شَاۗءَ رَبُّكَ۝ ٠ ۭ اِنَّ رَبَّكَ فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيْدُ۝ ١٠٧- خلد - الخُلُود : هو تبرّي الشیء من اعتراض الفساد، وبقاؤه علی الحالة التي هو عليها، والخُلُودُ في الجنّة : بقاء الأشياء علی الحالة التي عليها من غير اعتراض الفساد عليها، قال تعالی: أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة 82] ،- ( خ ل د ) الخلودُ ( ن )- کے معنی کسی چیز کے فساد کے عارضہ سے پاک ہونے اور اپنی اصلی حالت پر قائم - رہنے کے ہیں ۔ اور جب کسی چیز میں دراز تک تغیر و فساد پیدا نہ ہو۔ قرآن میں ہے : ۔ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُونَ [ الشعراء 129] شاید تم ہمیشہ رہو گے ۔ جنت میں خلود کے معنی یہ ہیں کہ اس میں تمام چیزیں اپنی اپنی اصلی حالت پر قائم رہیں گی اور ان میں تغیر پیدا نہیں ہوگا ۔ قرآن میں ہے : ۔ أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة 82] یہی صاحب جنت میں ہمشہ اسمیں رہیں گے ۔- دوم - أصل الدّوام السکون، يقال : دام الماء، أي : سكن، «ونهي أن يبول الإنسان في الماء الدائم» ۔ وأَدَمْتُ القدر ودوّمتها : سكّنت غلیانها بالماء، ومنه : دَامَ الشیءُ : إذا امتدّ عليه الزمان، قال تعالی: وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيداً ما دُمْتُ فِيهِمْ [ المائدة 117]- ( د و م ) الدام - ۔ اصل میں دوام کے معنی سکون کے ہیں کہا جاتا ہے ۔ دام المآء ( پانی ٹھہر گیا ) اور ( حدیث میں یعنی کھڑے پانی میں پیشاب کرنے سے منع کیا گیا ہے تھوڑا سا پانی ڈالکر ہانڈی کو ٹھنڈا کردیا ۔ اسی سے دام الشئی کا محاورہ ہے یعنی وہ چیز جو عرصہ دراز تک رہے قرآن میں ہے : ۔ وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيداً ما دُمْتُ فِيهِمْ [ المائدة 117] اور جب تک میں ان میں رہا ان ( کے حالات ) کی خبر رکھتا رہا ۔ إِلَّا ما دُمْتَ عَلَيْهِ قائِماً [ آل عمران 75] جب تک اس کے سر پر ہر قت کھڑے نہ رہو ۔- سما - سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] ، - ( س م و ) سماء - ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔- أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ - فعل - الفِعْلُ : التأثير من جهة مؤثّر، وهو عامّ لما کان بإجادة أو غير إجادة، ولما کان بعلم أو غير علم، وقصد أو غير قصد، ولما کان من الإنسان والحیوان والجمادات، والعمل مثله، - ( ف ع ل ) الفعل - کے معنی کسی اثر انداز کی طرف سے اثر اندازی کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ تاثیر عمدگی کے ساتھ ہو یا بغیر عمدگی کے ہو اور علم سے ہو یا بغیر علم کے قصدا کی جائے یا بغیر قصد کے پھر وہ تاثیر انسان کی طرف سے ہو یا دو سے حیوانات اور جمادات کی طرف سے ہو یہی معنی لفظ عمل کے ہیں ۔ - رود - والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17]- ( ر و د ) الرود - الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٠٧ ( خٰلِدِيْنَ فِيْهَا مَا دَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ اِلَّا مَا شَاۗءَ رَبُّكَ )- یہ مقام مشکلات القرآن میں سے ہے۔ یہ قرآن کا واحد مقام ہے جہاں (خٰلِدِیْنَ فِیْہَا) کے ساتھ کچھ استثنات بھی آئے ہیں۔ جہنم اور جنت کب تک رہیں گی یا جہنمی اور جنتی لوگ ان میں کب تک رہیں گے ؟ اس کے بارے میں فرمایا : (مَا دَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ ) کہ جب تک آسمان و زمین قائم رہیں گے۔ اس سے مراد ابدیت بھی ہوسکتی ہے اور اس طرح کا کوئی اشارہ بھی ہوسکتا ہے کہ شاید کبھی کوئی ایسا وقت آئے جب زمین و آسمان کا وہ نظام بدل بھی جائے اور کوئی دوسرا نظام اس کی جگہ لے لے۔ واضح رہے کہ اس ” زمین و آسمان “ سے مراد بھی موجودہ زمین و آسمان نہیں ہوسکتے ‘ اس لیے کہ ازروئے الفاظ قرآنی یہ تو قیامت کے روز بدل ڈالے جائیں گے اور یہاں قیامت کے بعد پیش آنے والے حالات و واقعات کا ذکر ہو رہا ہے۔ پھر اس میں بھی ایک استثناء بیان کیا گیا ہے : (اِلاَّ مَا شَآءَ رَبُّکَ ) ” سوائے اس کے جو تیرا رب چاہے “۔ یعنی اگر اللہ تعالیٰ خود ہی کسی کے عذاب میں تخفیف کرنا چاہے یا کسی کو ایک مدت تک عذاب دے کر جہنم سے نکالنے کا فیصلہ فرمائے تو اسے اس کا پورا اختیار ہے۔ جزا و سزا کے بارے میں بھی اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اختیار مطلق ہے ‘ لیکن یہ بھی اللہ تعالیٰ کا طے شدہ فیصلہ ہے کہ کفار کے لیے جہنم ابدی ٹھکانہ ہے۔ واللہ اعلم

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة هُوْد حاشیہ نمبر :107 متن میں لفظ یَتَوَفّٰکُمْ ہے جس کا لفظی ترجمہ ہے ”جو تمہیں موت دیتا ہے“ ۔ لیکن اس لفظی ترجمہ سے اصل روح ظاہر نہیں ہوتی ۔ اس ارشاد کی روح یہ ہے کہ ”وہ جس کے قبضے میں تمہاری جان ہے ، جو تم پر ایسا مکمل حاکمانہ اقتدار رکھتا ہے کہ جب تک اس کی مرضی ہو اسی وقت تک تم جی سکتے ہو اور جس وقت اس کا اشارہ ہو جائے اسی آن تمہیں اپنی جان اس جان آفرین کے حوالے کردینی پڑتی ہے ، میں صرف اسی کی پرستش اور اسی کی بندگی و غلامی اور اسی کی اطاعت و رمانبرداری کا قائل ہوں “ ۔ یہاں اتنا اور سمجھ لینا چاہیے کہ مشرکینِ مکہ یہ مانتے تھے اور آج بھی ہر قسم کے مشرک یہ تسلیم کرتے ہیں کہ موت صرف اللہ رب العالمین کے اختیار میں ہے ، اس پر کسی دوسرے کا قابو نہیں ہے ۔ حتیٰ کہ جن بزرگوں کو یہ مشرکین خدائی صفات و اختیارات میں شریک ٹھیراتے ہیں ان کے متعلق بھی وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ان میں سے کوئی خود اپنی موت کا وقت نہیں ٹال سکا ہے ۔ پس بیان مدعا کے لیے اللہ تعالیٰ کی بے شمار صفات میں سے کسی دوسری صفت کا ذکر کرنے کے بجائے یہ خاص صفت کہ”وہ جو تمہیں موت دیتا ہے “ یہاں اس لیے انتخاب کی گئی ہے کہ اپنا مسلک بیان کر نے کے ساتھ ساتھ اس کے صحیح ہونے کی دلیل بھی دے دی جائے ۔ یعنی سب کو چھوڑ کر میں اس کی بندگی اس لیے کرتا ہوں کہ زندگی و موت پر تنہا اسی کا اقتدار ہے ۔ اور اس کے سوا دوسروں کی بندگی آخر کیوں کروں جب کہ وہ خود اپنی زندگی وموت پر بھی اختیار نہیں رکھتے کجا کہ کسی اور کی زندگی و موت کے مختار ہوں ۔ پھر کمال بلاغت یہ ہے کہ ”وہ مجھے موت دینے والا ہے“ کہنے کے بجائے”وہ جو تمہیں موت دیتا ہے“ فرمایا ۔ اس طرح ایک ہی لفظ میں بیانِ مدعا ، دلیل مدعا ، اور دعوت الی المدعیٰ ، تینوں فائدے جمع کر دیے گئے ہیں ۔ اگر یہ فرمایا جا تا کہ”میں اس کی بندگی کرتا ہوں جو مجھے موت دینے والا ہے“ تو اس سے صرف یہی معنی نکلتے کہ”مجھے اس کی بندگی کرنی ہی چاہیے“ ۔ اب جو یہ فرمایا کہ”میں اس کی بندگی کرتا ہوں جو تمہیں موت دینے والا ہے“ ، تو اس سے یہ معنی نکلے کہ مجھے ہی نہیں ، تم کو بھی اسی کی بندگی کرنی ہی چاہیے اور تم یہ غلطی کر رہے ہو کہ اس کے سوا دوسروں کی بندگی کیے جاتے ہو ۔ سورة هُوْد حاشیہ نمبر :108 اس مطالبے کی شدت قابل غور ہے ۔ بات ان الفاظ میں بھی ادا ہو سکتی تھی کہ تو”اس دین کو اختیار کر لے“ یا ”اس دین پر چل“یا” اس دین کا پیرو بن جا“ ۔ مگر اللہ تعالیٰ کو بیان کے یہ سب پیرایے ڈھیلے ڈھالے نظر آئے ۔ اس دین کی جیسی سخت اور ٹھکی اور کسی ہوئی پیروی مطلوب ہے اس کا اظہار ان کمزور الفاظ سے نہ ہو سکتا تھا ۔ لہٰذا اپنا مطالبہ ان الفاظ میں پیش فرمایا کہ ”اَقِمْ وَجْھَکَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفًا “ ۔ اقم وجھک کے لفظی معنی ہیں”اپنا چہرہ جما دے“ اس کا مفہوم یہ ہے کہ تیرا رخ ایک ہی طرف قائم ہو ۔ ڈگمگاتا اور ہِلتا ڈُلتا نہ ہو ۔ کبھی پیچھے اور کبھی آگے اور کبھی دائیں وار کبھی بائیں نہ مڑتا رہے ۔ بالکل ناک کی سیدھ اسی راستے پر نظر جمائے ہوئے چل جو تجھے دکھا دیا گیا ہے ۔ یہ بندش بجائے خود بہت چُست تھی ، مگر اس پر بھی اکتفا نہ کیا گیا ۔ اس پر ایک اور قید حنیفا کی بڑھا ئی گئی ۔ حنیف اس کو کہتے ہیں جو سب طرف سے مڑ کر ایک طرف کا ہو رہا ہو ۔ پس مطالبہ یہ ہے کہ اس دین کو ، اس بندگی خدا کے طریقے کو ، اس طرزِ زندگی کو کہ پرستش ، بندگی ، غلامی ، اطاعت ، فرمانبرداری سب کچھ صرف اللہ رب العالمین ہی کی کی جائے ، ایسی یکسوئی کے ساتھ اختیار کر کہ کِسی دوسرے طریقے کی طرف ذرہ برابر میلان و رحجان بھی نہ ہو ۔ ، اس راہ پر آکر ان غلط راہوں سے کچھ بھی لگاؤ باقی نہ رہے جنہیں تو چھوڑ کر آیا ہے اور ان ٹیڑھے راستوں پر ایک غلط انداز نگاہ بھی نہ پڑے جن پر دنیا چلی جا رہی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

60: اس سے موجودہ زمین اور آسمان مراد نہیں ہیں، کیونکہ یہ تو قیامت کے ساتھ ختم ہوجائیں گے، البتہ قرآن کریم ہی سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آخرت میں وہاں کے حالات کے مطابق دوسرے زمین و آسمان پیدا کئے جائیں گے (دیکھئے سورۂ ابراہیم ١٤۔ ٤٨، سورۂ زمر ٢٤۔ ٧٤) اور چونکہ وہ زمین و آسمان ہمیشہ رہیں گے اس لئے آیت کا مطلب یہ ہوا کہ وہ لوگ بھی دوزخ میں ہمیشہ رہیں گے۔ 61: رَبُّکَ : اسی قسم کا استثناء سورۃ انعام (٦۔ ١٢٨) میں بھی گزرا ہے جیسا کہ وہاں ہم نے عرض کیا تھا، اس کی ٹھیک ٹھیک مراد تو اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے، لیکن اس سے بظاہر ایک تو یہ حقیقت واضح فرمائی گئی ہے کہ کسی کے عذاب وثواب کا تمام ترفیصلہ اللہ تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہے، کسی کی فرمائش یا سفارش کا اس میں کوئی دخل نہیں ہے، دوسرے یہ کہ کافروں کو عذاب دینا اللہ تعالیٰ کی کوئی مجبوری نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی مشیت پر موقوف ہے، وہ اگر کسی کو کفر کے باوجود عذاب سے نکالنا چاہے تو کوئی اسکا ہاتھ پکڑ نے والا نہیں ہے، یہ اور بات ہے کہ اسکی مشیت کافروں کو ہمیشہ عذاب ہی میں رکھے، جیسا کہ قرآن کریم کی اکثر آیات سے معلوم ہوتا ہے۔