Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

انبیاء کے فرماں بردار اور جنت رسولوں کے تابعدار جنت میں رہیں گے ۔ جہاں سے کبھی نکلنا نہ ہوگا ۔ زمین و آسمان کی بقا تک ان کی بھی جنت میں بقا رہے گی مگر جو اللہ چاہے یعنی یہ بات بذاتہ واجب نہیں بلکہ اللہ کی مشیت اور اسکے ارادے پر ہے بقول ضحاک و حسن یہ بھی موحد گنہگاروں کے حق میں ہے وہ کچھ مدت جہنم میں گزار کر اس کے بعد وہاں سے نکالے جائیں گے یہ عطیہ ربانی ہے جو ختم نہ ہو گا ۔ نہ گھٹے گا یہ اس لیے فرمایا کہ کہیں ذکر مشیت سے یہ کھٹکا نہ گزرے کہ ہمیشگی نہیں ۔ جیسے کہ دوزخیوں کے دوام کے بعد بھی اپنی مشیت اور ارادے کی طرف رجوع کیا ہے ۔ سب اس کی حکمت و عدل ہے وہ ہر اس کام کو کر گزرتا ہے جس کا ارادہ کرے ۔ بخاری و مسلم میں ہے موت کو چت کبرے مینڈھے کی صورت میں لایا جائے گا اور اسے ذبح کر دیا جائے گا ۔ پھر فرما دیا جائے گا کہ اہل جنت تم ہمیشہ رہو گے اور موت نہیں اور جہنم والوں تمہارے لیے ہمیشگی ہے موت نہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

108۔ 1 یہ استثناء بھی عصاۃ اہل ایمان کے لئے ہے۔ یعنی دیگر جنتیوں کی طرح یہ نافرمان مومن ہمیشہ سے جنت میں نہیں رہیں ہوں گے، بلکہ ابتدا میں ان کا کچھ عرصہ جہنم میں گزرے گا اور پھر انبیاء اور اہل ایمان کی سفارش سے ان کو جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کیا جائے گا، جیسا کہ احادیث صحیحہ سے یہ باتیں ثابت ہیں۔ 108۔ 2 غیر مجذوذ کے معنی ہیں غیر مقطوع۔ یعنی نہ ختم ہونے والی عطاء۔ اس جملے سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ جن گناہ گاروں کو جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کیا جائے گا، یہ دخول عارضی نہیں، ہمیشہ کے لئے ہوگا اور تمام جنتی ہمیشہ اللہ کی عطاء اور اس کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے رہیں گے، اور یہ ہمیشہ کیلئے جاری رہے گا۔ اس میں کبھی انقطاع نہیں ہوگا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاَمَّا الَّذِيْنَ سُعِدُوْا فَفِي الْجَنَّۃِ خٰلِدِيْنَ فِيْہَا مَا دَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ اِلَّا مَا شَاۗءَ رَبُّكَ۝ ٠ ۭ عَطَاۗءً غَيْرَ مَجْذُوْذٍ۝ ١٠٨- سعد - السَّعْدُ والسَّعَادَةُ : معاونة الأمور الإلهية للإنسان علی نيل الخیر، ويضادّه الشّقاوة، وأعظم السّعادات الجنّة، فلذلک قال تعالی: وَأَمَّا الَّذِينَ سُعِدُوا فَفِي الْجَنَّةِ [هود 108] ، وقال : فَمِنْهُمْ شَقِيٌّ وَسَعِيدٌ [هود 105] ،- ( س ع د ) السعد - والسعادۃ ( خوش نصیبی ) کے معنی ہیں حصول خیر میں امور الہیہ کا انسان کے لئے ممدا ور معاون ہونا ۔ اس کی ضد شقاوۃ ( بدبختی ) ہے ۔ قرآن پاک میں فرمایا ہے : وَأَمَّا الَّذِينَ سُعِدُوا فَفِي الْجَنَّةِ [هود 108] اور جو نیک بخت ہوں گے وہ بہشت میں ( داخل کئے جائیں گے ۔ اور فرمایا : ۔ فَمِنْهُمْ شَقِيٌّ وَسَعِيدٌ [هود 105] پھر ان مٰن سے کچھ بد بخت ہوں گے اور کچھ نیک بخت )- جَنَّةُ :- كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ 15]- الجنۃ - ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ - حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔- شاء - والْمَشِيئَةُ عند أكثر المتکلّمين كالإرادة سواء، وعند بعضهم : المشيئة في الأصل : إيجاد الشیء وإصابته، وإن کان قد يستعمل في التّعارف موضع الإرادة، فالمشيئة من اللہ تعالیٰ هي الإيجاد، ومن الناس هي الإصابة، قال : والمشيئة من اللہ تقتضي وجود الشیء، ولذلک قيل : ( ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن) والإرادة منه لا تقتضي وجود المراد لا محالة، ألا تری أنه قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] ، وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] ، ومعلوم أنه قد يحصل العسر والتّظالم فيما بين الناس، قالوا : ومن الفرق بينهما أنّ إرادةالإنسان قد تحصل من غير أن تتقدّمها إرادة الله، فإنّ الإنسان قد يريد أن لا يموت، ويأبى اللہ ذلك، ومشيئته لا تکون إلّا بعد مشيئته لقوله : وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان 30] ، روي أنّه لما نزل قوله : لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] - ( ش ی ء ) الشیئ - المشیئۃ اکثر متکلمین کے نزدیک مشیئت اور ارادہ ایک ہی صفت کے دو نام ہیں لیکن بعض کے نزدیک دونوں میں فرق ہے - ( 1 ) مشیئت کے اصل معنی کسی چیز کی ایجاد یا کسی چیز کو پا لینے کے ہیں ۔ اگرچہ عرف میں مشیئت ارادہ کی جگہ استعمال ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے معنی اشیاء کو موجود کرنے کے ہیں اور لوگوں کی مشیئت کے معنی کسی چیز کو پالینے کے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کو چاہنا چونکہ اس کے وجود کو مقتضی ہوتا ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے ۔ ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کا ارادہ کرنا اس کے حتمی وجود کو نہیں چاہتا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ لوگوں میں عسرۃ اور ظلم پائے جاتے ہیں ۔ - ( 2 ) اور ارادہ میں دوسرا فرق یہ ہے کہ انسان کا ارادہ تو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر ہوسکتا ہے مثلا انسان چاہتا ہے کہ اسے موت نہ آئے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو مار لیتا ہے ۔ لیکن مشیئت انسانی مشئیت الہیٰ کے بغیروجود ہیں نہیں آسکتی جیسے فرمایا : ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان 30] اور تم کچھ بھی نہیں چاہتے مگر وہی جو خدائے رب العلمین چاہے ایک روایت ہے کہ جب آیت : ۔ لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] یعنی اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے ۔ - عطا - العَطْوُ : التّناول، والمعاطاة : المناولة، والإعطاء :- الإنالة . قال تعالی: حَتَّى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ [ التوبة 29] . واختصّ العطيّة والعطاء بالصّلة . قال : هذا عَطاؤُنا فَامْنُنْ أَوْ أَمْسِكْ بِغَيْرِ حِسابٍ [ ص 39]- ( ع ط و ) العطوا - ( ن ) کے معنی ہیں لینا پکڑنا اور المعاد طاہ باہم لینا دینا الاعطاء ( افعال ) قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ [ التوبة 29] یہاں تک کہ جزیہ دیں ۔ اور العطیۃ والعطاء خاص کر اس چیز کو کہتے ہیں جو محض تفضیلا دی جائے ۔- جذ - الجَذُّ : کسر الشیء وتفتیته، ويقال لحجارة الذهب المکسورة ولفتات الذهب : جذاذ، ومنه قوله تعالی: فَجَعَلَهُمْ جُذاذاً [ الأنبیاء 58] ، عَطاءً غَيْرَ مَجْذُوذٍ [هود 108] ، أي : غير مقطوع عنهم ولا محترم وقیل : ما عليه جذّة، أي : متقطع من الثیاب .- ( ج ذ ذ) الجذو - ( ن ) کے معنی کسی چیز کو توڑنے اور ریزہ ریزہ کرنے کے ہیں اور پتھر یا سونے کے ریزوں کو جذاذ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی میں فرمایا : ۔ فَجَعَلَهُمْ جُذاذاً [ الأنبیاء 58] پھلان کو توڑ کر ریزہ ریزہ کردیا ۔ عَطاءً غَيْرَ مَجْذُوذٍ [هود 108] یہ ( خدا کی ) بخشش ہے جو کبھی منقطع نہیں ہوگی ۔ محاورہ ہے ۔ یعنی اس کے بدن پر چیتھڑا بھی نہیں ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٠٨) اور رہ گئے وہ لوگ جو سعید ہیں، وہ جنت میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے، جیسا کہ آسمان و زمین پیدایش کے وقت سے لے کر اب تک موجود ہیں، تاہم اگر اللہ ہی کو منظور ہو کہ وہ اہل سعادت کو نکال کر اہل شقاوت میں داخل کردے کیوں کہ اس کا فرمان ہے کہ جس چیز کو وہ چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے باقی رکھتا ہے تو اسے پورا اختیار ہے کہ وہ سعادت کے زمرہ سے نکال کر شقاوت کے زمرہ میں داخل کردے۔- آیت کریمہ کا یہ بھی مطلب ہوسکتا ہے کہ وہ جنت میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے جب تک جنت کے آسمان و زمین باقی رہیں گے البتہ اگر آپ کے رب ہی کو منظور ہو کہ وہ دخول جنت سے پہلے گناہوں سے پاک کرنے کے لیے دوزخ میں داخل فرمائے پھر دوزخ سے نکال کر جنت میں داخل کردے تو اب دخول جنت کے بعد ہمیشہ جنت میں رہیں گے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(عَطَآءً غَیْرَ مَجْذُوْذٍ )- ان آیات میں جنت اور جہنم کا جو موازنہ کیا گیا ہے اس میں جنت کے لیے (عَطَآءً غَیْرَ مَجْذُوْذٍ ) کے الفاظ اضافی طور پر استعمال کیے گئے ہیں۔ اس طرح کے لفظی فرق و تفاوت کا جب علماء و مفسرین باریک بینی سے جائزہ لیتے ہیں تو ان سے بڑے بڑے فلسفیانہ نکات پیدا ہوتے ہیں۔ چناچہ جنت اور جہنم کے بارے میں حافظ ابن تیمیہ اور شیخ ابن عربی دونوں نے ایک رائے پیش کی ہے جو اہل سنت کے عام اجماعی عقیدے سے مختلف ہے۔ ان دونوں بزرگوں کے درمیان اگرچہ بڑا نظریاتی بعد ہے (امام ابن تیمیہ بعض اوقات شیخ محی الدین ابن عربی پر تنقید کرتے ہوئے بہت سخت الفاظ استعمال کرتے ہیں) مگر اس رائے میں دونوں کا اتفاق ہے کہ جنت تو ابدی ہے مگر جہنم ابدی نہیں ہے۔ ایک وقت آئے گا ‘ چاہے وہ ارب ہا سال کے بعد آئے ‘ جب جہنم ختم کردی جائے گی۔ اس کے برعکس اہل سنت کا اجماعی عقیدہ یہی ہے کہ جنت اور جہنم دونوں ابدی ہیں۔ واللہ اعلم

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة هُوْد حاشیہ نمبر :109 یعنی ان لوگوں میں ہرگز شامل نہ ہو جو اللہ کی ذات میں ، اس کی صفات میں ، اس کے حقوق میں اور اس کے اختیارات میں کسی طور پر غیر اللہ کو شریک کرتے ہیں ۔ خواہ وہ غیر اللہ ان کا اپنا نفس ہو ، یا کوئی دوسرا انسان ہو ، یا انسانوں کا کوئی مجموعہ ہو ، یا کوئی روح ہو ، جن ہو ، فرشتہ ہو ، یا کوئی مادّی یا خیالی یا وہمی وجود ہو ۔ پس مطالبہ صرف اس ایجابی صورت ہی میں نہیں ہے کہ توحیدِ خالص کا راستہ پوری استقامت کے ساتھ اختیار کر ۔ بلکہ اس سلبی صورت میں بھی ہے کہ ان لوگوں سے الگ ہو جا جو کسی شکل اور ڈھنگ کرتے ہوں ۔ عقیدے ہی میں نہیں عمل میں بھی ، انفرادی طرزِ زندگی ہی میں نہیں اجتماعی نظام حیات میں بھی ، معبدوں اور پرستش گاہوں ہی میں نہیں درس گاہوں میں بھی ، عدالت خانوں میں بھی ، قانون سازی کی مجلسوں میں بھی ، سیاست کے ایوانوں میں بھی ، معیشت کے بازاروں میں بھی ، غرض ہر جگہ ان لوگوں کے طریقے سے اپنا طریقہ الگ کر لے جنہوں نے اپنے افکار و اعمال کا پورا نظام خدا پرستی اور ناخدا پرستی کی آمیزش پر قائم کر رکھا ہے ۔ توحید کا پیرو زندگی کے کسی پہلو اور کسی شعبے میں بھی شرک کی راہ چلنے والوں کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر نہیں چل سکتا ، کجا کہ آگے وہ ہوں اور پیچھے یہ اور پھر بھی اس کی توحید پرستی کے تقاضے اطمینان سے پورے ہوتے رہیں پھر مطالبہ شرک جلی ہی سے پرہیز کا نہیں ہے بلکہ شرک خفی سے بھی کامل اور سخت اجتناب کا ہے ۔ بلکہ شرک خفی زیادہ خوفناک ہے اور اس سے ہوشیار رہنے کی اور بھی زیادہ ضرورت ہے ۔ بعض نادان لوگ ”شرک خفی“ کو ”شرک خفیف“ سمجھتے ہیں اور ان کا گمان یہ ہے کہ اس کا معاملہ اتنا اہم نہیں ہے جتنا شرک جلی کا ہے ۔ حالاں کہ خفی کے معنی خفیف کے نہیں ہیں ، پوشیدہ و مستور کے ہیں ۔ اب یہ سوچنے کی بات ہے کہ جو دشمن منہ کھول کر دن دہاڑے سامنے آجائے وہ زیادہ خطرناک ہے یا وہ جو آستین میں چھُا ہوا ہو یا دوست کے لباس میں معانقہ کر رہا ہو؟ بیماری وہ زیادہ مہلک ہے جس کی علامات بالکل نمایاں ہوں یا وہ جو مدتوں تک تندرستی کے دھوکے میں رکھ کر اندر ہی اندر صحت کی جڑ کھوکھلی کر تی رہے؟ جس شرک کو ہر شخص بیک نظر دیکھ کر کہہ دے کہ یہ شرک ہے ، اس سے تو دین توحید کا تصادم بالکل کھلا ہوا ہے ۔ مگر جس شرک کو سمجھنے کے لیے گہری نگاہ اور مقتضیات ِ توحید کا عمیق فہم درکار ہے وہ اپنی غیر مرئی جڑیں دین کے نظام میں اس طرح پھیلاتا ہے کہ عام اہل توحید کو ان کی خبر تک نہیں ہوتی اور رفتہ رفتہ ایسے غیر محسوس طریقے سے دین کے مغز کو کھا جاتا ہے کہ کہیں خطرے کا الارم بجنے کی نوبت ہی نہیں آتی ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani