مشرکوں کا حشر مشرکوں کے شرک کے باطل ہو نے میں ہرگز شبہ تک نہ کرنا ۔ ان کے پاس سوائے باپ دادا کی بھونڈی تقلید کے اور دلیل ہی کیا ہے؟ ان کی نیکیاں انہیں دنیا میں ہی مل جائیں گی آخرت میں عذاب ہی عذاب ہوگا ۔ جو خیر و شکر کے وعدے ہیں سب پورے ہو نے والے ہیں ۔ ان کا عاب کا مقررہ حصہ انہیں ضرور پہنچے گا ۔ موسیٰ علیہ السلام کو ہم نے کتاب دی لیکن لوگوں نے تفرقہ ڈالا ۔ کسی نے اقرار کیا تو کسی نے انکار کر دیا ۔ پس انہی نبیوں جیسا حال آپ کا بھی ہے کوئی مانے گا کوئی ٹالے گا ۔ چونکہ ہم وقت مقرر کر چکے ہیں چونکہ ہم بغیر حجت پوری کئے عذاب نہیں کیا کرتے اس لیے یہ تاخیر ہے ورنہ ابھی انہیں ان کے گناہوں کا مزہ یاد آجاتا ہے ۔ کافروں کو اللہ اور اس کے رسول کی باتیں غلط ہی معلوم ہوتی ہیں ۔ ان کا شک و شبہ زائل نہیں ہوتا ۔ سب کو اللہ جمع کرے گا اور ان کے کئے ہوئے اعمال کا بدلہ دے گا ۔ اس قرآۃ کا بھی معنی اس ہمارے ذکر کردہ معنی کی طرف ہی لوٹنا ہے ۔
109۔ 1 اس سے مراد وہ عذاب ہے جس کے وہ مستحق ہوں گے، اس میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔
[١٢١] یہ خطاب رسول اللہ کو محض تاکید مزید کے لیے ہے ورنہ خطاب عام لوگوں کو ہے نبی تو دوسرے لوگوں کے بھی اس قسم کے شکوک رفع کرتا ہے وہ خود کیسے اس قسم کے شک میں مبتلا ہوسکتا ہے ؟- [١٢٢] مشرکانہ عقائد نقل عقل اور تجربہ کے مطابق غلط ہیں :۔ یعنی جب قوم پر عذاب آیا تو ان کے بت، مجاور اور آستانے انھیں اللہ کے عذاب سے نہ بچا سکے تو اب ان کفار مکہ کے معبود انھیں کیسے بچا سکتے ہیں یا ان کی حمایت کرسکتے ہیں ؟ لہذا جو کچھ عقائد ان لوگوں نے اپنے معبودوں سے متعلق قائم کر رکھے ہیں وہ عقل اور تجربہ کی کسوٹی پر غلط ثابت ہوتے ہیں۔ لہذا یہ جو کچھ ہو رہا ہے محض اندھی تقلید کی بنا پر ہو رہا ہے اور ہم ایسے لوگوں کو پوری پوری سزا دیں گے۔
فَلَا تَكُ فِيْ مِرْيَةٍ مِّمَّا يَعْبُدُ هٰٓؤُلَاۗءِ : یعنی ان کے معبودوں کے باطل ہونے یا نفع نقصان کا مالک نہ ہونے میں کسی قسم کا شک نہ کر۔ ” مِّمَّا يَعْبُدُ هٰٓؤُلَاۗءِ “ ( جن کی یہ لوگ عبادت کرتے ہیں) میں ” یہ لوگ “ سے مراد مشرکین قریش ہیں۔ ابن عاشور نے لکھا ہے کہ میں نے قرآن کی اس اصطلاح کی جستجو کی تو تقریباً گیارہ مقامات میں ایسا ہی پایا۔ یہ بات میرے دل میں اللہ کی طرف سے ڈالی گئی ہے اور میں نے آیت : ( وَّجِئْنَا بِكَ عَلٰي هٰٓؤُلَاۗءِ شَهِيْدًا) [ النساء : ٤١ ] کی تفسیر میں اس کی وضاحت کی ہے۔ [ التحریر والتنویر ] یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس قسم کا کوئی شک تھا جس سے اللہ تعالیٰ منع فرما رہا ہے ؟ جو اب اس کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا : (اَقِمِ الصَّلٰوۃَ ) [ ہود : ١١٤ ] ” نماز قائم کر۔ “ اسی طرح فرمایا : (يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ اتَّقِ اللّٰهَ وَلَا تُطِـعِ الْكٰفِرِيْنَ وَالْمُنٰفِقِيْنَ ) [ الأحزاب : ١ ] ” اے نبی اللہ سے ڈر اور کافروں اور منافقوں کی اطاعت نہ کر۔ “ تو کیا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پہلے نماز قائم نہیں کرتے تھے ؟ یا کیا آپ اس سے پہلے اللہ سے نہیں ڈرتے تھے ؟ اور کیا آپ کفار و منافقین کی اطاعت کیا کرتے تھے ؟ نہیں، ہرگز نہیں، اس قسم کے احکام جن پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مخلص اہل ایمان پہلے ہی کار بند ہوں، نازل کرنے سے مراد یہ ہوتی ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور پہلے سے عمل کرنے والے ہمیشہ ان پر کاربند رہیں اور استقامت اختیار کریں اور دوسرے تمام انسان بھی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے واسطے سے اپنے آپ کو مخاطب سمجھ کر ان احکام پر عمل کریں کہ جب نبی کو یہ حکم ہے تو ہماری کیا اوقات ہے کہ ہم اس پر عمل نہ کریں۔ - مَا يَعْبُدُوْنَ اِلَّا كَمَا يَعْبُدُ اٰبَاۗؤُهُمْ مِّنْ قَبْلُ :” اٰبَاۗؤُهُمْ “ سے مراد عادوثمود ہیں، کیونکہ عدنانی عربوں کی ماں بنوجرہم سے تھی جو اسماعیل (علیہ السلام) کی بیوی تھی۔ بنو جرہم ثمود سے تھے اور قریش کی ماں بنو خزاعہ سے تھی، جو قصی کی بیوی تھی اور عرب میں بت پرستی عمرو بن لحی نے شروع کی تھی جو خزاعی تھا۔ (ابن عاشور) یعنی ان کی غیر اللہ کی پرستش کی بنیاد سوائے باپ دادا کی اندھی تقلید کے اور کچھ نہیں ہے۔ (ابن کثیر) آبا و اجداد کی غیر اللہ کی عبادت کیا تھی ؟ یہی کہ وہ اپنے بزرگوں یا ان کے بتوں یا قبروں کو مصیبت کے وقت پکارتے تھے، انھیں اللہ کا بیٹا یا جز یا عین قرار دیتے تھے۔ اسی طرح عبادت میں ان کے نام کی نذر و نیاز ماننا، اللہ کے حصے کے ساتھ جانوروں اور کھیتیوں میں ان کا حصہ رکھنا، ان کو اللہ کی صفات، مثلاً علم غیب کا مالک، دور سے فریاد سننے اور مدد کرنے والا سمجھنا سبھی شامل ہیں۔ ہر زمانے کے مشرک ایک ہی طرح کے ہوتے ہیں : (بَلْ قَالُوْا مِثْلَ مَا قَالَ الْاَوَّلُوْن) [ المؤمنون : ٨١ ] ” بلکہ انھوں نے کہا جیسے پہلوں نے کہا تھا “ اور ان کے پاس تقلید آباء کے سوا کوئی دلیل نہیں ہوتی اور ان پر وہی محاورہ صادق آتا ہے کہ ” مَا أَشْبَہَ اللَّیْلَۃَ بالْبَارِحَۃِ “ ” آج کی رات کل کی رات کے کس قدر مشابہ ہے۔ “- وَاِنَّا لَمُوَفُّوْهُمْ نَصِيْبَهُمْ غَيْرَ مَنْقُوْصٍ : انھیں ان کا حصہ پورا پورا دینے سے مراد ایک تو یہ ہے کہ کسی شخص کا تقدیر میں دنیا کا جو رزق اور آسائشیں لکھی گئی ہیں، وہ مسلمان ہو یا کافر ہر ایک کو ملیں گی، کافروں کو بھی ان کا حصہ پورا ملے گا۔ دیکھیے سورة بنی اسرائیل (٢٠) دوسری یہ کہ ان کی نیکیاں جو انھوں نے دنیا میں کی ہیں ان کا پورا بدلہ ہم انھیں دنیا ہی میں دے دیں گے۔ دیکھیے سورة احقاف (٢٠) اور تیسری یہ کہ ہم ان کی غیر اللہ کی عبادت اور شرک کا پورا پورا بدلہ دنیا میں نہیں بلکہ قیامت کے دن ضرور دینے والے ہیں۔ یہاں یہ آخری معنی زیادہ مناسب ہے، کیونکہ ان لوگوں کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی برکت سے پہلی قوموں کی طرح دنیا میں آسمانی عذاب نہیں دیا گیا، جس سے ان کا نام و نشان مٹ جاتا۔
فَلَا تَكُ فِيْ مِرْيَۃٍ مِّمَّا يَعْبُدُ ہٰٓؤُلَاۗءِ ٠ ۭ مَا يَعْبُدُوْنَ اِلَّا كَـمَا يَعْبُدُ اٰبَاۗؤُہُمْ مِّنْ قَبْلُ ٠ ۭ وَاِنَّا لَمُوَفُّوْہُمْ نَصِيْبَہُمْ غَيْرَ مَنْقُوْصٍ ١٠٩ ۧ- مری - المِرْيَةُ : التّردّد في الأمر، وهو أخصّ من الشّكّ. قال تعالی: وَلا يَزالُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي مِرْيَةٍ مِنْهُ [ الحج 55] ، فَلا تَكُ فِي مِرْيَةٍ مِمَّا يَعْبُدُ هؤُلاءِ [هود 109] ، فَلا تَكُنْ فِي مِرْيَةٍ مِنْ لِقائِهِ [ السجدة 23] ، أَلا إِنَّهُمْ فِي مِرْيَةٍ مِنْ لِقاءِ رَبِّهِمْ [ فصلت 54] والامتراء والممَارَاة : المحاجّة فيما فيه مرية . قال تعالی: قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِي فِيهِ يَمْتَرُونَ [ مریم 34] ، بِما کانُوا فِيهِ يَمْتَرُونَ [ الحجر 63] ، أَفَتُمارُونَهُ عَلى ما يَرى[ النجم 12] ، فَلا تُمارِ فِيهِمْ إِلَّا مِراءً ظاهِراً [ الكهف 22] وأصله من : مَرَيْتُ النّاقةَ : إذا مسحت ضرعها للحلب .- ( م ر ی) المریۃ - کے معنی کسی معاملہ میں تردد ہوتا ہے ۔ کے ہیں اور یہ شک سے خاص - قرآن میں ہے : وَلا يَزالُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي مِرْيَةٍ مِنْهُ [ الحج 55] اور کافر لوگ ہمیشہ اس سے شک میں رہیں گے۔ الامتراء والمماراۃ کے معنی ایسے کام میں جھگڑا کرنا کے ہیں ۔ جس کے تسلیم کرنے میں تردد ہو ۔ چناچہ قرآن میں ہے : قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِي فِيهِ يَمْتَرُونَ [ مریم 34] یہ سچی بات ہے جس میں لوگ شک کرتے ہیں بما کانوا فِيهِ يَمْتَرُونَ [ الحجر 63] جس میں لوگ شک کرتے تھے ۔ أَفَتُمارُونَهُ عَلى ما يَرى[ النجم 12] کیا جو کچھ وہ دیکھتے ہیں تم اس میں ان سے جھگڑتے ہو ۔ فَلا تُمارِ فِيهِمْ إِلَّا مِراءً ظاهِراً [ الكهف 22] تو تم ان کے معاملے میں گفتگو نہ کرنا ۔ مگر سرسری سی گفتگو ۔ دراصل مریت الناقۃ سے ماخوذ ہے ۔ جس کے معنی ہیں اونٹنی کے تھنوں کو سہلانا تاکہ دودھ دے دے ۔ ( مریم ) علیماالسلام ۔ یہ عجمی لفظ ہے اور حضرت عیسیٰ اعلیہ السلام کی والدہ کا نام ( قرآن نے مریم بتایا ہے - - عبادت - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] . والعِبَادَةُ ضربان :- عِبَادَةٌ بالتّسخیر، وهو كما ذکرناه في السّجود .- وعِبَادَةٌ بالاختیار، وهي لذوي النّطق، وهي المأمور بها في نحو قوله : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] ، وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - عبادۃ دو قسم پر ہے - (1) عبادت بالتسخیر جسے ہم سجود کی بحث میں ذکر کرچکے ہیں (2) عبادت بالاختیار اس کا تعلق صرف ذوی العقول کے ساتھ ہے یعنی ذوی العقول کے علاوہ دوسری مخلوق اس کی مکلف نہیں آیت کریمہ : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] اپنے پروردگار کی عبادت کرو ۔ وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] اور خدا ہی کی عبادت کرو۔ میں اسی دوسری قسم کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ۔ - وُفِّيَتْ- وتَوْفِيَةُ الشیءِ : ذله وَافِياً ، واسْتِيفَاؤُهُ : تناوله وَافِياً. قال تعالی: وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ ما كَسَبَتْ [ آل عمران 25] اور توفیتہ الشیئ کے معنی بلا کسی قسم کی کمی پورا پورادینے کے ہیں اور استیفاء کے معنی اپنا حق پورا لے لینے کے ۔ قرآن پا ک میں ہے : ۔ وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ ما كَسَبَتْ [ آل عمران 25] اور ہر شخص اپنے اعمال کا پورا پورا بدلہ پائے گا ۔- نقص - النَّقْصُ : الخُسْرَانُ في الحَظِّ ، والنُّقْصَانُ المَصْدَرُ ، ونَقَصْتُهُ فهو مَنْقُوصٌ. قال تعالی: وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوالِ وَالْأَنْفُسِ [ البقرة 155] ، وقال : وَإِنَّا لَمُوَفُّوهُمْ نَصِيبَهُمْ غَيْرَ مَنْقُوصٍ [هود 109] ،- ( ن ق ص ) النقص - ( اسم ) حق تلفی اور یہ نقصتہ ( ن ) فھو منقو ص کا مصدر بھی ہے جس کے معنی گھٹانے اور حق تلفی کر نیکے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوالِ وَالْأَنْفُسِ [ البقرة 155] اور جانوں اور مالوں ۔۔۔۔ کے نقصان سے وَإِنَّا لَمُوَفُّوهُمْ نَصِيبَهُمْ غَيْرَ مَنْقُوصٍ [هود 109] اور ہم ان کو ان کا حصہ پورا پوارا کم وکاست دینے والے ہیں ۔
(١٠٩) مگر یقیناً یہ ثواب مسلسل ہوگا اور اس میں کسی قسم کی کوئی کمی نہ ہوگی (اور اللہ تعالیٰ جنت میں بھیجنے کے بعد پھر دوبارہ وہاں سے نہ نکالے گا سو اہل مکہ جن چیزوں کی پرستش کررہے ہیں اس کے بارے میں ذرا شبہ نہ کرنا کیوں کہ یہ لوگ بھی اسی طرح عبادت کررہے ہیں جیسا کہ اس سے قبل ان کے باپ دادا کرتے تھے اور اسی وجہ سے ہلاک ہوجائیں گے اور ہم ان کی سزا ان کو پوری پوری بغیر کمی بیشی کے دیں گے۔- کہا گیا ہے کہ یہ آیت فرقہ قدریہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
(مَا يَعْبُدُوْنَ اِلَّا كَمَا يَعْبُدُ اٰبَاۗؤُهُمْ مِّنْ قَبْلُ )- یہ تو بس لکیر کے فقیر بنے ہوئے ہیں۔
سورة هُوْد حاشیہ نمبر :110 اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم واقعی ان معبودوں کی طرف سے کسی شک میں تھے بلکہ دراصل یہ باتیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کرتے ہوئے عامۃ الناس کو سنائی جارہی ہیں ۔ مطلب یہ ہے کہ کسی مرد معقول کو اس شک میں نہ رہنا چاہیے کہ یہ ولگ جو ان معبودوں کی پرستش کرنے اور ان سے دعائیں مانگنے میں لگے ہوئے ہیں تو آخر کچھ تو انہوں نے دیکھا ہوگا جس کی وجہ سے یہ ان سے نفع کی امیدیں رکھتے ہیں ، واقعہ یہ ہے کہ یہ پرستش اور نذریں اور نیازیں اور دعائیں کسی علم ، کسی تجربے اور کسی حقیقی مشاہدے کی بنا پر نہیں ہیں ، بلکہ یہ سب کچھ نری اندھی تقلید کی وجہ سے ہورہا ہے ، آخر یہی آستانے پچھلی قوموں کے ہاں ھی تو موجود تھے ، اور ایسی ہی ان کی کرامتیں ان میں بھی مشہور تھیں ، مگر جب خدا کا عذاب آیا تو وہ تباہ ہوگئیں اور یہ آستانے یونہی دھرے کے دھرے رہ گئے ۔