[١٣٠] اہل خیر کی موجودگی میں اللہ کا عذاب نہیں آتا :۔ یعنی ایسی صورت میں کبھی عذاب نہیں آتا کہ اس قوم میں اہل خیر موجود بھی ہوں اور وہ اصلاح کی کوششوں میں بھی لگے ہوں۔ خواہ وہ تھوڑے ہی ہوں ایسے لوگوں کی وجہ سے مجرم بھی اللہ کے عذاب سے محفوظ رہتے ہیں۔ عذاب تو صرف اس وقت آتا ہے جب سرتاسر برائی پھیل جائے، کیونکہ اللہ کو خواہ مخواہ لوگوں کو عذاب دینے کا شوق نہیں۔
وَمَا كَانَ رَبُّكَ لِـيُهْلِكَ ۔۔ : یعنی اگر وہ لوگ مجرم ہونے کے بجائے مصلح ہوتے، پھر انھیں عذاب کے ساتھ ہلاک کیا جاتا تو یہ صاف ظلم تھا اور اللہ تعالیٰ کبھی ایسا ظلم نہیں کرتا کہ کسی بستی والے لوگ فساد نہ کریں بلکہ اصلاح کریں اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے ہوں اور پھر بھی اللہ تعالیٰ ان پر عذاب بھیج دے، کیونکہ یہ ظلم ہوگا اور اللہ تعالیٰ کسی صورت بھی ظلم کرنے والا نہیں۔ بعض اہل علم نے ظلم سے مراد شرک لے کر یہ معنی کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ دنیا میں کسی بستی کو صرف شرک کی وجہ سے ہلاک نہیں کرتا، جب کہ اس کے رہنے والے زمین میں فساد نہ کرتے ہوں، بلکہ آپس کے تعلقات میں اصلاح رکھتے ہوں۔ ہلاک اسی وقت کرتا ہے جب وہ حد سے بڑھ کر زمین میں فساد پھیلانے لگیں، مگر پہلا معنی زیادہ درست ہے۔
چوتھی آیت میں فرمایا کہ آپ کا رب شہروں اور بستیوں کو ظلم سے ہلاک نہیں کرتا جبکہ ان کے بسنے والے نیکوکار یعنی مسلمان ہوں۔ مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے یہاں ظلم و جور کا کوئی امکان نہیں، جن کو ہلاک کیا جاتا ہے وہ اسی کے مستحق ہوتے ہیں، اور بعض حضرات نے فرمایا کہ اس آیت میں ظلم سے مراد شرک ہے اور مصلحون سے مراد وہ لوگ ہیں جو باوجود مشرک کافر ہونے کے معاملات اور اخلاق اچھے رکھتے ہیں، کسی کو نقصان و ایذاء نہیں پہنچاتے، جھوٹ نہیں بولتے، دھوکہ نہیں دیتے، اور مطلب آیت کا یہ ہے کہ دنیا کا عذاب کسی قوم پر محض ان کے مشرک کافر ہونے کی وجہ سے نہیں آتا جب تک کہ وہ اعمال و اخلاق میں بھی ایسے کام نہ کرنے لگیں جن سے زمین میں فساد پھیلتا ہے، پچھلی جتنی قوموں پر عذاب آئے ان کے خاص خاص اعمال بد اس کا سبب بنے، نوح (علیہ السلام) کی قوم نے حضرت نوح (علیہ السلام) کو طرح طرح کی ایذائیں پہنچائیں، قوم شعیب (علیہ السلام) نے ناپ تول میں کمی کرکے فساد پھیلایا، قوم لوط (علیہ السلام) نے بد ترین قسم کی بدکاری کو شیوہ بنایا، قوم موسیٰ و عیسیٰ (علیہما السلام) نے اپنے پیغمبروں پر ظلم ڈھائے، قرآن کریم نے دنیا میں ان پر عذاب آنے کا سبب انہی اعمال و افعال کو بتلایا ہے، نرے کفر و شرک کی وجہ سے دنیا میں عذاب نہیں آتا اس کی سزا تو جہنم کی دائمی آگ ہے، اسی لئے بعض علماء نے فرمایا کہ ملک و سلطنت کفر و شرک کے ساتھ چل سکتے ہیں مگر ظلم و جور کے ساتھ نہیں چل سکتے۔
وَمَا كَانَ رَبُّكَ لِـيُہْلِكَ الْقُرٰي بِظُلْمٍ وَّاَہْلُہَا مُصْلِحُوْنَ ١١٧- هلك - الْهَلَاكُ علی ثلاثة أوجه :- افتقاد الشیء عنك، وهو عند غيرک موجود کقوله تعالی: هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة 29] - وهَلَاكِ الشیء باستحالة و فساد کقوله :- وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة 205] ويقال : هَلَكَ الطعام .- والثالث :- الموت کقوله : إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء 176] وقال تعالیٰ مخبرا عن الکفّار : وَما يُهْلِكُنا إِلَّا الدَّهْرُ [ الجاثية 24] .- ( ھ ل ک ) الھلاک - یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ایک یہ کہ - کسی چیز کا اپنے پاس سے جاتے رہنا خواہ وہ دوسرے کے پاس موجود ہو جیسے فرمایا : هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة 29] ہائے میری سلطنت خاک میں مل گئی ۔- دوسرے یہ کہ - کسی چیز میں خرابی اور تغیر پیدا ہوجانا جیسا کہ طعام ( کھانا ) کے خراب ہونے پر ھلک الطعام بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة 205] اور کھیتی کو بر باد اور انسانوں اور حیوانوں کی نسل کو نابود کردی ۔ - موت کے معنی میں - جیسے فرمایا : ۔ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء 176] اگر کوئی ایسا مرد جائے ۔- قرية- الْقَرْيَةُ : اسم للموضع الذي يجتمع فيه الناس، وللناس جمیعا، ويستعمل في كلّ واحد منهما . قال تعالی: وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف 82] قال کثير من المفسّرين معناه : أهل القرية .- ( ق ر ی ) القریۃ - وہ جگہ جہاں لوگ جمع ہو کر آباد ہوجائیں تو بحیثیت مجموعی ان دونوں کو قریہ کہتے ہیں اور جمع ہونے والے لوگوں اور جگہ انفراد بھی قریہ بولا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف 82] بستی سے دریافت کرلیجئے ۔ میں اکثر مفسرین نے اہل کا لفظ محزوف مان کر قریہ سے وہاں کے با شندے مرے لئے ہیں - ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں - صلح - والصُّلْحُ يختصّ بإزالة النّفار بين الناس، يقال منه : اصْطَلَحُوا وتَصَالَحُوا، قال : أَنْ يُصْلِحا بَيْنَهُما صُلْحاً وَالصُّلْحُ خَيْرٌ [ النساء 128] - ( ص ل ح ) الصلاح - اور الصلح کا لفظ خاص کر لوگوں سے باہمی نفرت کو دورکر کے ( امن و سلامتی پیدا کرنے پر بولا جاتا ہے ) چناچہ اصطلحوا وتصالحوا کے معنی باہم امن و سلامتی سے رہنے کے ہیں قرآن میں ہے : أَنْ يُصْلِحا بَيْنَهُما صُلْحاً وَالصُّلْحُ خَيْرٌ [ النساء 128] کہ آپس میں کسی قرار داد پر صلح کرلیں اور صلح ہی بہتر ہے ۔
خدا ظلم نہیں کرتا - قول باری ہے وما کان ربک لیھلک القری بظلم واھلحا مصلحون ۔ تیرا رب ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ناحق تباہ کر دے حالانکہ ان کے باشندے اصلاح کرنے والے ہوں ۔ ایک تفسیر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں کسی چھوٹے ظلم پر جوان کی طرف سے سرزد ہوتا ہے انہیں ہلاک نہیں کرتا ۔ ایک قول کے مطابق اللہ تعالیٰ انہیں کسی بڑے ظلم پر جو ان کے ایک چھوٹے سے طبقے کی طرف سے ہوتا ہے انہیں ہلاک نہیں کرتا ۔ جس طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے ان اللہ لایھلک العامۃ بذنوب الخاصۃ اللہ تعالیٰ خاص لوگوں کے گناہوں کی وجہ سے عام لوگوں کو ہلاک نہیں کرتا ۔ ایک قول کے مطابق اللہ تعالیٰ ظالم بن کر انہیں ہلاک نہیں کرتا جس طرح یہ قول باری ہے ان اللہ لا یظلم الناس شیئا ً ۔ اللہ تعالیٰ لوگوں پر ذرا برابر بھی ظلم نہیں کرتا ۔ زیر بحث آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ بستیوں والوں کو ناحق تباہ نہیں کرتادرآنحالی کہ ان کے باشندے اصلاح کرنے والے ہیں۔- ایک اور آیت میں ارشاد ہے وان من قدیہ الا نحن مھلکوھا قبل یوم القیامۃ - یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ لوگ قیامت کے قریب خرابی اور فساد کی انتہا پر پہنچ چکے ہوں گے جس کی بنا پر اللہ تعالیٰ انہیں ہلاک کرے گا ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد لا تقوم الساعۃ الا علی شرار الخلق ۔ قیامت خلق خدا میں سے بد ترین لوگوں پر آئے گی کا بھی یہی مصداق ہے۔
(١١٧) اور آپ کا پروردگار ایسا نہیں کہ بستی والوں کو ان کے کفر کی وجہ سے ہلاک کرڈالے جب کہ ان میں ایسے حضرات بھی ہوں جو کہ دوسروں کو نیکیوں کا حکم دے رہے ہوں اور برائیوں سے روک رہے ہوں۔- یا مطلب یہ ہے کہ آپ کا رب ایسا نہیں کہ بستی والوں کو کفر کی وجہ سے جب کہ وہاں کے بعض لوگ اصلاح کی فکر میں ہوں اور اطاعت خداوندی پر قائم ہوں اور اس کو مضبوطی کے ساتھ پکڑے ہوئے ہوں۔
آیت ١١٧ (وَمَا كَانَ رَبُّكَ لِـيُهْلِكَ الْقُرٰي بِظُلْمٍ وَّاَهْلُهَا مُصْلِحُوْنَ )- ایسا نہیں ہوتا کہ کسی علاقے کسی ملک یا شہر میں اچھے کردار کے حامل اپنی اور دوسروں کی اصلاح میں سرگرم لوگوں کی اکثریت ہو اور اللہ پھر بھی اس بستی پر عذاب بھیج دے۔
سورة هُوْد حاشیہ نمبر :115 ان آیات میں نہایت سبق آموز طریقے سے ان قوموں کی تباہی کے اصل سبب پر روشنی ڈالی گئی ہے جن کی تاریخ پچھلے چھ رکوعوں میں بیان ہوئی ہے ۔ اس تاریخ پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا جاتا ہے کہ صرف انہی قوموں کو نہیں ، بلکہ پچھلی انسانی تاریخ میں جتنی قومیں بھی تباہ ہوئی ہیں ان سب کو جس چیز نے گرایا وہ یہ تھی کہ جب اللہ تعالی نے انہیں اپنی نعمتوں سے سرفراز کیا تو وہ خوشحالی کے نشے میں مست ہو کر زمین میں فساد برپا کرنے لگیں اور ان کا اجتماعی خمیر اس درجہ بگڑ گیا کہ یا تو ان کے اندر ایسے نیک لوگ باقی رہے ہی نہیں جو ان کو برائیوں سے روکتے ، یا اگر کچھ لوگ ایسے نکلے بھی تو وہ اتنے کم تھے اور ان کی آواز اتنی کمزور تھی کہ ان کے روکنے سے فساد نہ رک سکا ۔ یہی چیز ہے جس کی بدولت آخرکار یہ قومیں اللہ تعالی کے غضب کی مستحق ہوئیں ، ورنہ اللہ کو اپنے بندوں سے کوئی دشمنی نہیں ہے کہ وہ تو بھلے کام کر رہے ہوں اور اللہ ان کو خواہ مخواہ عذاب میں مبتلا کر دے ۔ اس ارشاد سے یہاں یہ تین باتیں ذہن نشین کرنی مقصود ہیں ۔ ایک یہ کہ ہر اجتماعی نظام میں ایسے نیک لوگوں کا موجود رہنا ضروری ہے جو خیر کی دعوت دینے والے اور شر سے روکنے والے ہوں ۔ اس لیے کہ خیر ہی وہ چیز ہے جو اصل میں اللہ کو مطلوب ہے ، اور لوگوں کے شرور کو اگر اللہ برداشت کرتا بھی ہے تو اس خیر کی خاطر کرتا ہے جو ان کے اندر موجود ہو ، اور اسی وقت تک کرتا ہے جب تک ان کے اندر خیر کا کچھ امکان باقی رہے ۔ مگر جب کوئی انسانی گروہ اہل خیر سے خالی ہو جائے اور اس میں صرف شریر لوگ ہی باقی رہ جائیں ، یا اہل خیر موجود ہوں بھی تو کوئی ان کی سن کر نہ دے اور پوری قوم کی قوم اخلاقی فساد کی راہ پر بڑھتی چلی جائے ، تو پھر خدا کا عذاب اس کے سر پر اس طرح منڈلانے لگتا ہے جیسے پورے دنوں کی حاملہ کہ کچھ نہیں کہہ سکتے کب وضع حمل ہوجائے ۔ دوسرے یہ کہ جو قوم اپنے درمیاں سب کچھ برداشت کرتی ہو مگر صرف انہی چند گنے چنے لوگوں کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہ ہو جو اسے برائیوں سے روکتے اور بھلائیوں کی دعوت دیتے ہوں ، تو سمجھ لو کہ اس کے برے دن قریب آگئے ہیں ، کیونکہ اب وہ خود ہی اپنی جان کی دشمن ہوگئی ہے ۔ اسے وہ سب چیزیں تو محبوب ہیں جو اس کی ہلاکت کی موجب ہیں اور صرف وہی ایک چیز گوارا نہیں ہے جو اس کی زندگی کی ضامن ہے ۔ تیسرے یہ کہ ایک قوم کے مبتلائے عذاب ہونے یا نہ ہونے کا آخری فیصلہ جس چیز پر ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اس میں دعوت خیر پر لبیک کہنے والے عناصر کس حد تک موجود ہیں ۔ اگر اس کے اندر ایسے افراد اتنی تعداد میں نکل آئیں جو فساد کو مٹانے اور نظام صالح کو قائم کرنے کے لیے کافی ہو تو اس پر عذاب عام نہیں بھیجا جاتا بلکہ ان صالح عناصر کو اصلاح حال کا موقع دیا جاتا ہے ، لیکن اگر پیہم سعی وجہد کے باوجود اس میں سے اتنے آدمی نہیں نکلتے جو اصلاح کے لیے کافی ہو سکیں ، اور وہ قوم اپنی گود سے چند ہیرے پھنک دینے کے بعد اپنے طرز عمل سے ثابت کر دیتی ہے کہ اب اس کے پاس کوئلے ہی کوئلے باقی رہ گئے یہں ، تو پھر کچھ زیادہ دیر نہیں لگتی کہ وہ بھٹی سلگا دی جاتی ہے جو ان کوئلوں کو پھونک کر رکھ دے ۔ ( تشریح کے لیے ملاحظہ ہو الذاریات ، حاشیہ 34 )