Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

جس پر اللہ تعالیٰ کا کرم ہو اللہ کی قدر کسی کام سے عاجز نہیں ۔ وہ چاہے تو سب کو ہی اسلام یا کفر پر جمع کردے لیکن اس کی حکمت ہے جو انسانی رائے ان کے دین و مذاہب جدا جدا برابر جاری و ساری ہیں ۔ طریقے مختلف ، مالی حالات جداگانہ ایک ایک کے ماتحت یہاں مراد دین و مذہب کا اختلاف ہے ۔ جن پر اللہ کا رحم ہو جائے وہ رسولوں کی تابعداری رب تعالیٰ کی حکم برداری میں برابر لگے رہتے ہیں ۔ اب وہ نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مطیع ہیں ۔ اور یہی نجات پانے والے ہیں ۔ چنانچہ مسند و سنن میں حدیث ہے جس کی ہر سند دوسری سند کو تقویت پہنچا رہی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہودیوں کے اکہتر گروہ ہوئے ۔ نصاریٰ بہتر فرقوں میں تقسیم ہوگئے ، اس امت کے تہتر فرقے ہو جائیں گے ، سب جہنمی ہیں سوائے ایک جماعت کے ، صحابہ نہ پوچھا یا رسول وہ کون لوگ ہیں ؟ آپ نے جواب دیا وہ جو اس پر ہوں جس پر میں ہو اور میرے اصحاب ( مستدرک حاکم ) بقول عطا مختلفین سے مراد یہودی ، نصرانی ، مجوسی ہیں اور اللہ کے رحم والی جماعت سے مراد یک طرفہ دین اسلام کے مطیع لوگ ہیں ۔ قتادہ کہتے ہیں کہ یہ جماعت ہے گو ان کے وطن اور بدن جدا ہوں اور اہل معصیت فرقت و اختلاف والے ہیں گو ان کے وطن اور بدن ایک ہی جا جمع ہوں ۔ قدرتی طور پر ان کی پیدائش ہی اسی لیے ہے شقی و سعید کی ازلی تقسیم ہے ۔ یہ بھی مطلب ہے کہ رحمت حاصل کرنے والی یہ جماعت بالخصوص اسی لیے ہے ۔ حضرت طاؤس کے پاس دو شخص اپنا جھگڑا لے کر آئے اور آپس کے اختلاف میں بہت بڑھ گئے تو آپ نے فرمایا کہ تم نے جھگڑا اور اختلاف کیا اس پر ایک شخص نے کہا اسی لیے ہم پیدا کئے گئے ہیں ۔ آپ نے فرمایا ، غلط ہے اس نے اپنے ثبوت میں اسی آیت کی تلاوت کی تو آپ نے فرمایا اس لیے نہیں پیدا کیا کہ آپس میں اختلاف کریں ، بلکہ پیدائش تو جمع کے لیے اور رحمت حاصل کرنے کے لیے ہوئی ہے جیسے کہ ابن عباس سے مروی ہے کہ رحمت کے لیے پیدا کیا ہے نہ کہ عذاب کے لیے ۔ اور آیت میں ہے ( وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ 56؀ ) 51- الذاريات:56 ) میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے ہی پیدا کیا ہے ۔ تیسرا قول ہے کہ رحمت اور اختلاف کے لیے پیدا کیا ہے ۔ چنانچہ مالک اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ایک فرقہ جنتی اور ایک جہنمی ۔ انہیں رحمت حاصل کرنے اور انہیں اختلاف میں مصروف رہنے کے لیے پیدا کیا ہے تیرے رب کا یہ فیصلہ ناطق ہے کہ اس کی مخلوق میں ان دونوں اقسام کے لوگ ہوں گے اور ان دونوں سے جنت دوزخ پر کئے جائیں گے ۔ اس کی کامل حکمتوں کو وہی جانتا ہے ۔ بخاری و مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جنت دوزخ دونوں میں آپس میں گفتگو ہوئی ۔ جنت نے کہا مجھ میں تو صرف ضعیف اور کمزور لوگ ہی داخل ہوتے ہیں اور جہنم نے کہا میں تکبر اور ظلم کرنے والوں کے ساتھ مخصوص کی گئی ہوں ۔ اس پر اللہ تعالیٰ عزوجل نے جنت سے فرمایا تو میری رحمت ہے ، جسے میں چاہوں اسے تجھ سے نواز دوں گا ۔ اور جہنم سے فرمایا تو میرا عذاب ہے جس سے میں چاہوں تیرے عذاب کے ذریعہ اس سے انتقام لوں گا ۔ تم دونوں پر ہو جاؤ گی ۔ جنت میں تو برابر زیادتی رہے گی یہاں تک کہ اس کے لیے اللہ تعالیٰ ایک نئی مخلوق پیدا کرے گا اور اسے اس میں بسائے گا اور جہنم بھی برابر زیادتی طلب کرتی رہے گی یہاں تک کہ اس پر اللہ رب العزت اپنا قدم رکھ دے گا تب وہ کہے گی تیری عزت کی قسم اب بس ہے بس ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٣١] اختلاف کی اصل وجہ :۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو خیر و شر میں سے کوئی ایک راہ انتخاب کرنے کی مکمل آزادی دے رکھی ہے اگر یہ آزادی انتخاب و اختیار انسان سے چھین لی جائے تو اختلاف کا ہونا ممکن نہیں رہتا اور جب تک یہ آزادی موجود ہے لوگ اختلاف کرتے ہی رہیں گے نیز اگر یہ آزادی انسان سے چھین لی جائے تو انسان کی تخلیق کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے انسان کو خیر و شر کی راہیں سجھا دی گئیں۔ پھر اسی غرض کے لیے انبیاء آئے اللہ نے کتابیں نازل فرمائیں لیکن تھوڑے ہی لوگ تھے جنہوں نے اس آزادی انتخاب و اختیار کا درست استعمال کیا زیادہ لوگ ایسے غلط کار ہی ثابت ہوئے جنہوں نے گمراہی کی راہیں اختیار کرکے اپنے آپ کو جہنم کا اہل ثابت کیا۔ یہ ارادہ و اختیار کی قوت انسان کے علاوہ جنوں کو بھی دی گئی ہے انسانوں کی طرح جنوں کی اکثریت بھی گمراہ اور جہنم کی مستحق ہی رہی ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَلَوْ شَاۗءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّةً وَّاحِدَةً : یعنی اے میرے رسول تیری خواہش تو یہ ہے کہ سب لوگ مسلمان ہوجائیں، ایک بھی کافر نہ رہے (دیکھیے شعراء : ٣) اور یہ بات تیرے رب پر کچھ مشکل بھی نہیں، جب اس نے جن و انس کے سوا باقی پوری مخلوق کو اپنی اطاعت کا پابند بنا رکھا ہے تو وہ جن و انس کو بھی ایک ہی امت بنا سکتا تھا کہ کوئی کفر کر ہی نہ سکتا، فرمایا : (وَلَوْ شَاۗءَ رَبُّكَ لَاٰمَنَ مَنْ فِي الْاَرْضِ كُلُّھُمْ جَمِيْعًا ۭ اَفَاَنْتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتّٰى يَكُوْنُوْا مُؤْمِنِيْنَ ) [ یونس : ٩٩ ] مگر تیرے رب کی حکمت کا تقاضا کچھ اور تھا، اس لیے اس نے کسی کو ایمان پر مجبور نہیں کیا، سمع و بصر دے کر اور راستہ بتا کر اختیار دے دیا کہ حق و باطل میں سے جو چاہو اختیار کرو۔ اس لیے یہ سب لوگ کبھی ایمان پر متفق نہیں ہوسکتے، بلکہ ان میں ہمیشہ اختلاف رہے گا، کوئی مومن ہے کوئی کافر، کوئی فرماں بردار کوئی نافرمان، فرمایا : ( وَلِذٰلِكَ خَلَقَهُمْ ) ” اور اس نے انھیں اسی (آزمائش کے) لیے پیدا فرمایا ہے۔ “ مائدہ میں ہے : ( وَّلٰكِنْ لِّيَبْلُوَكُمْ فِيْ مَآ اٰتٰىكُمْ ) [ المائدۃ : ٤٨ ] ” اور لیکن تاکہ وہ تمہیں اس میں آزمائے جو اس نے تمہیں دیا ہے۔ “ اور یہ بات اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی طے کردی ہے کہ میں جہنم کو اس آزمائش میں ناکام ہونے والے جن و انس سے بھروں گا اور اس بات کے ذکر کی ضرورت ہی نہیں کہ آزمائش میں کامیاب ہونے والوں کو اپنی جنت سے نوازوں گا۔ - وَّلَا يَزَالُوْنَ مُخْتَلِفِيْنَ اِلَّا مَنْ رَّحِمَ رَبُّكَ : معاویہ بن ابو سفیان (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم میں خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے تو فرمایا : ( أَلاَ إِنَّ مَنْ قَبْلَکُمْ مِنْ أَھْلِ الْکِتَابِ افْتَرَقُوْا عَلٰی ثِنْتَیْنِ وَ سَبْعِیْنَ مِلَّۃً ، وَإِنَّ ھٰذِہِ الْمِلَّۃَ سَتَفْتَرِقُ عَلٰی ثَلاَثٍ وَ سَبْعِیْنَ ، ثِنْتَانِ وَسَبْعُوْنَ فِی النَّارِ وَوَاحِدَۃٌ فِي الْجَنَّۃِ و ھِيَ الْجَمَاعَۃُ ) زَادَ ابْنُ یَحْیَی وَعَمْرٌو فِيْ حَدِیْثِھِمَا : ( وَإِنَّہٗ سَیَخْرُجُ فِيْ أُمَّتِيْ أَقْوَامٌ تَجَارَی بِھِمْ تِلْکَ الْأَھْوَاءُ کَما یَتَجَارَی الْکَلَبُ لِصَاحِبِہِ ، وَقَالَ عَمْرٌو : الْکَلَبُ بِصَاحِبِہِ لاَ یَبْقَی مِنْہٗ عِرْقٌ وَلاَ مَفْصِلٌ إِلاَّ دَخَلَہٗ )[ أبوداوٗد، السنۃ، باب شرح السنۃ : ٤٥٩٧۔ السلسلۃ الصحیحۃ : ١؍٤٠٤، ح ٢٠٤ ] ” یاد رکھو تم سے پہلے اہل کتاب بہتر (٧٢) ملتوں میں جدا جدا ہوگئے اور یہ ملت تہتر (٧٣) میں جدا جدا ہوجائے گی۔ بہتر (٧٢) آگ میں اور ایک جنت میں ہوگا اور وہ ” الجماعۃ “ ہے۔ “ ابن یحییٰ اور عمرو نے اپنی روایتوں میں مزید کہا : ” میری امت میں ایسی قومیں نکلیں گی جن میں یہ خواہشات و بدعات اس طرح رگ رگ میں جاری ہوجائیں گی جیسے باؤلے پن کی بیماری، اس بیماری کے مریض کے رگ و ریشے میں جاری ہوجاتی ہے۔ “ - 3 اس آیت سے صاف معلوم ہوا کہ کسی امت کا اتفاق اور اجتماع رحمت ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ لوگ ہمیشہ مختلف رہیں گے مگر جس پر تیرا رب رحم کرے اور صاف ظاہر ہے کہ امت مسلمہ صرف اسی چیز پر جمع ہوسکتی ہے جو اللہ کی طرف سے نازل ہوئی اور وہ کتاب وسنت ہے۔ یہی طریق مستقیم ہے اور اسی پر چلنے والے ” الجماعۃ “ ہیں، باقی سب فرقے بعد میں اس سیدھے راستے سے ہٹنے کی وجہ سے پیدا ہوئے ۔- 3 اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عام لوگوں میں مشہور روایت ” اِخْتَلاَفُ أُمَّتِیْ رَحْمَۃٌ“ یعنی میری امت کا اختلاف رحمت ہے، یہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر صاف جھوٹ ہے۔ حافظ ابن حزم (رض) نے اسے موضوع ثابت کرتے ہوئے ایک دلچسپ بات یہ بھی لکھی کہ اگر اسے صحیح مانا جائے تو پھر امت کا اتفاق زحمت ہوگا، کیونکہ اختلاف رحمت ہے، جب کہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر اپنے رحم کا ذکر کیا ہے جو اختلاف کرنے والے نہیں ہوں گے۔ اس لیے سب فرقے چھوڑ کر کتاب و سنت کو مضبوطی سے تھام لینا ہی راہ نجات ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

اختلاف مذموم اور محمود : - پانچویں آیت میں جو یہ ارشاد فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو سب انسانوں کو ایک ہی امت و ملت بنا دیتا۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہتے تو تمام انسانوں کو زبردستی قبول اسلام پر مجبور کر ڈالتے سب کے سب مسلمان ہی ہوجاتے ان میں کوئی اختلاف نہ رہتا مگر بتقاضائے حکمت اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کسی کو کسی عمل پر مجبور نہیں کرتے بلکہ اس نے انسان کو ایک قسم کا اختیار سپرد کردیا ہے اس کے ماتحت وہ اچھا یا برا جو چاہے عمل کرسکتا ہے، اور انسان کی طبائع مختلف ہیں اس لئے راہیں مختلف ہوتی ہیں اور عمل مختلف ہوتے ہیں، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ کچھ لوگ ہمیشہ دین حق سے اختلاف کرتے ہی رہیں گے بجز ان لوگوں کے جن پر اللہ تعالیٰ نے رحمت فرمائی، یعنی انبیاء (علیہم السلام) کا اتباع کرنے والے۔- اس سے معلوم ہوا کہ اختلاف سے مراد اس جگہ دین حق اور تعلیم انبیاء کی مخالفت ہے، اجتہادی اختلاف جو ائمہ دین اور فقہاء اسلام میں ہونا ناگزیر ہے اور عہد صحابہ سے ہوتا چلا آیا ہے، وہ اس میں داخل نہیں، نہ وہ رحمت الہٰی کے خلاف ہے بلکہ مقتضائے حکمت و رحمت ہے، جن حضرات نے ائمہ مجتہدین کے اختلاف کو اس آیت کی رو سے غلط، خلاف رحمت قرار دیا ہے، یہ خود سیاق آیت کے بھی خلاف ہے اور صحابہ وتابعین کے تعامل کے بھی۔ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَوْ شَاۗءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّلَا يَزَالُوْنَ مُخْتَلِفِيْنَ۝ ١١٨ ۙ- لو - لَوْ : قيل : هو لامتناع الشیء لامتناع غيره، ويتضمّن معنی الشرط نحو : قوله تعالی: قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء 100] .- ( لو ) لو ( حرف ) بعض نے کہا ہے کہ یہ امتناع الشئی لا متناع غیر ہ کے لئے آتا ہے ( یعنی ایک چیز کا دوسری کے امتناع کے سبب ناممکن ہونا اور معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء 100] کہہ دو کہ اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے ہاتھ میں ہوتے ۔ - شاء - والْمَشِيئَةُ عند أكثر المتکلّمين كالإرادة سواء، وعند بعضهم : المشيئة في الأصل : إيجاد الشیء وإصابته، وإن کان قد يستعمل في التّعارف موضع الإرادة، فالمشيئة من اللہ تعالیٰ هي الإيجاد، ومن الناس هي الإصابة، قال : والمشيئة من اللہ تقتضي وجود الشیء، ولذلک قيل : ( ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن) والإرادة منه لا تقتضي وجود المراد لا محالة، ألا تری أنه قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] ، وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] ، ومعلوم أنه قد يحصل العسر والتّظالم فيما بين الناس، قالوا : ومن الفرق بينهما أنّ إرادةالإنسان قد تحصل من غير أن تتقدّمها إرادة الله، فإنّ الإنسان قد يريد أن لا يموت، ويأبى اللہ ذلك، ومشيئته لا تکون إلّا بعد مشيئته لقوله : وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان 30] ، روي أنّه لما نزل قوله : لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] - ( ش ی ء ) الشیئ - المشیئۃ اکثر متکلمین کے نزدیک مشیئت اور ارادہ ایک ہی صفت کے دو نام ہیں لیکن بعض کے نزدیک دونوں میں فرق ہے - ( 1 ) مشیئت کے اصل معنی کسی چیز کی ایجاد یا کسی چیز کو پا لینے کے ہیں ۔ اگرچہ عرف میں مشیئت ارادہ کی جگہ استعمال ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے معنی اشیاء کو موجود کرنے کے ہیں اور لوگوں کی مشیئت کے معنی کسی چیز کو پالینے کے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کو چاہنا چونکہ اس کے وجود کو مقتضی ہوتا ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے ۔ ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کا ارادہ کرنا اس کے حتمی وجود کو نہیں چاہتا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ لوگوں میں عسرۃ اور ظلم پائے جاتے ہیں ۔ - ( 2 ) اور ارادہ میں دوسرا فرق یہ ہے کہ انسان کا ارادہ تو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر ہوسکتا ہے مثلا انسان چاہتا ہے کہ اسے موت نہ آئے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو مار لیتا ہے ۔ لیکن مشیئت انسانی مشئیت الہیٰ کے بغیروجود ہیں نہیں آسکتی جیسے فرمایا : ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان 30] اور تم کچھ بھی نہیں چاہتے مگر وہی جو خدائے رب العلمین چاہے ایک روایت ہے کہ جب آیت : ۔ لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] یعنی اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے ۔ - الأُمّة :- كل جماعة يجمعهم أمر ما إمّا دين واحد، أو زمان واحد، أو مکان واحد سواء کان ذلک الأمر الجامع تسخیرا أو اختیارا، وجمعها : أمم، وقوله تعالی: وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثالُكُمْ [ الأنعام 38] أي : كل نوع منها علی طریقة قد سخرها اللہ عليها بالطبع، فهي من بين ناسجة کالعنکبوت، وبانية کالسّرفة «4» ، ومدّخرة کالنمل ومعتمدة علی قوت وقته کالعصفور والحمام، إلى غير ذلک من الطبائع التي تخصص بها كل نوع . وقوله تعالی: كانَ النَّاسُ أُمَّةً واحِدَةً [ البقرة 213] أي : صنفا واحدا وعلی طریقة واحدة في الضلال والکفر، وقوله : وَلَوْ شاءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ أُمَّةً واحِدَةً [هود 118] أي : في الإيمان، وقوله : وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ [ آل عمران 104] أي : جماعة يتخيّرون العلم والعمل الصالح يکونون أسوة لغیرهم، وقوله : إِنَّا وَجَدْنا آباءَنا عَلى أُمَّةٍ [ الزخرف 22] أي : علی دين مجتمع . قال : وهل يأثمن ذو أمّة وهو طائع وقوله تعالی: وَادَّكَرَ بَعْدَ أُمَّةٍ [يوسف 45] أي : حين، وقرئ ( بعد أمه) أي : بعد نسیان . وحقیقة ذلك : بعد انقضاء أهل عصر أو أهل دين . وقوله : إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً قانِتاً لِلَّهِ [ النحل 120] أي : قائما مقام جماعة في عبادة الله، نحو قولهم : فلان في نفسه قبیلة . وروي :«أنه يحشر زيد بن عمرو بن نفیل أمّة وحده» وقوله تعالی: لَيْسُوا سَواءً مِنْ أَهْلِ الْكِتابِ أُمَّةٌ قائِمَةٌ [ آل عمران 113] أي : جماعة، وجعلها الزجاج هاهنا للاستقامة، وقال : تقدیره : ذو طریقة واحدة فترک الإضمار أولی.- الامۃ - ہر وہ جماعت جن کے مابین رشتہ دینی ہو یا وہ جغرافیائی اور عصری وحدت میں منسلک ہوں پھر وہ رشتہ اور تعلق اختیاری اس کی جمع امم آتی ہے اور آیت کریمہ :۔ وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُمْ ( سورة الأَنعام 38) اور زمین پر جو چلنے پھر نے والے ( حیوان ) دو پروں سے اڑنے والے پرند ہیں وہ بھی تمہاری طرح جماعتیں ہیں ۔ میں امم سے ہر وہ نوع حیوان مراد ہے جو فطری اور ت سخیری طور پر خاص قسم کی زندگی بسر کر رہی ہو ۔ مثلا مکڑی جالا بنتی ہے اور سرفۃ ( مور سپید تنکوں سے ) اپنا گھر بناتی ہے اور چیونٹی ذخیرہ اندوزی میں لگی رہتی ہے اور چڑیا کبوتر وغیرہ وقتی غذا پر بھروسہ کرتے ہیں الغرض ہر نوع حیوان اپنی طبیعت اور فطرت کے مطابق ایک خاص قسم کی زندگی بسر کر رہی ہے اور آیت کریمہ :۔ كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً ( سورة البقرة 213) ( پہلے تو سب ) لوگ ایک امت تھے ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تما لوگ صنف واحد اور ضلالت و کفر کے ہی کے مسلک گامزن تھے اور آیت کریمہ :۔ وَلَوْ شَاءَ اللهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً ( سورة المائدة 48) اور اگر خدا چاہتا تو تم سب کو ہی شریعت پر کردیتا ۔ میں امۃ واحدۃ سے وحدۃ بحاظ ایمان مراد ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ ( سورة آل عمران 104) کے معنی یہ ہیں کہ تم میں سے ایک جماعت ایسی بھی ہونی چاہیے جو علم اور عمل صالح کا راستہ اختیار کرے اور دوسروں کے لئے اسوۃ بنے اور آیت کریمہ ؛۔ إِنَّا وَجَدْنَا آبَاءَنَا عَلَى أُمَّةٍ ( سورة الزخرف 22 - 23) ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک متفقہ دین پر پایا ہے ۔ میں امۃ کے معنی دین کے ہیں ۔ چناچہ شاعر نے کہا ہی ع (25) وھل یاثمن ذوامۃ وھوطائع ( طویل ) بھلا کوئی متدین آدمی رضا اور رغبت سے گناہ کرسکتا ہے اور آیت کریمہ :۔ وَادَّكَرَ بَعْدَ أُمَّةٍ ( سورة يوسف 45) میں امۃ کے معنی حین یعنی عرصہ دارز کے ہیں اور ایک قرات میں بعد امہ ( ربالھاء ) ہے یعنی نسیان کے بعد جب اسے یاد آیا ۔ اصل میں بعد امۃ کے معنی ہیں ایک دور یا کسی ایک مذہب کے متبعین کا دورگزر جانے کے بعد اور آیت کریمہ :۔ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةً قَانِتًا ( سورة النحل 120) کے معنی یہ ہیں کہ حضرت ابراہیم عبادت الہی میں ایک جماعت اور قوم بمنزلہ تھے ۔ جس طرح کہ محاورہ ہے ۔ فلان فی نفسہ قبیلۃ کہ فلاں بذات خود ایک قبیلہ ہے یعنی ایک قبیلہ کے قائم مقام ہے (13) وروی انہ یحشر زیدبن عمرابن نفیل امۃ وحدہ اورا یک روایت میں ہے کہ حشر کے دن زید بن عمر و بن نفیل اکیلا ہی امت ہوگا ۔ اور آیت کریمہ :۔ - لَيْسُوا سَوَاءً مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ أُمَّةٌ قَائِمَةٌ ( سورة آل عمران 113) وہ سب ایک جیسے نہیں ہیں ان اہل کتاب میں کچھ لوگ ( حکم خدا پر ) قائم بھی ہیں ۔ میں امۃ بمعنی جماعت ہے زجاج کے نزدیک یہاں قائمۃ بمعنی استقامت ہے یعنی ذو و طریقہ واحدۃ تو یہاں مضمر متردک ہے - زال ( لایزال)- مَا زَالَ ولا يزال خصّا بالعبارة، وأجریا مجری کان في رفع الاسم ونصب الخبر، وأصله من الیاء، لقولهم : زَيَّلْتُ ، ومعناه معنی ما برحت، وعلی ذلك : وَلا يَزالُونَ مُخْتَلِفِينَ [هود 118] ، وقوله : لا يَزالُ بُنْيانُهُمُ [ التوبة 110] ، وَلا يَزالُ الَّذِينَ كَفَرُوا [ الرعد 31] ، فَما زِلْتُمْ فِي شَكٍّ [ غافر 34] ، ولا يصحّ أن يقال : ما زال زيد إلّا منطلقا، كما يقال : ما کان زيد إلّا منطلقا، وذلک أنّ زَالَ يقتضي معنی النّفي، إذ هو ضدّ الثّبات، وما ولا : يقتضیان النّفي، والنّفيان إذا اجتمعا اقتضیا الإثبات، فصار قولهم : ما زَالَ يجري مجری (کان) في كونه إثباتا فکما لا يقال : کان زيد إلا منطلقا لا يقال : ما زال زيد إلا منطلقا .- ( زی ل ) زالہ یزیلہ زیلا - اور مازال اور لایزال ہمیشہ حرف نفی کے ساتھ استعمال ہوتا ہے اور یہ کان فعل ناقص کی طرح اپنے اسم کی رفع اور خبر کو نصب دیتے ہیں اور اصل میں یہ اجوف یائی ہیں کیونکہ عربی زبان میں زیلت ( تفعیل ) یاء کے ساتھ استعمال ہوتا ہے اور مازال کے معنی ہیں مابرح یعنی وہ ہمیشہ ایسا کرتا رہا ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ - وَلا يَزالُونَ مُخْتَلِفِينَ [هود 118] وہ ہمیشہ اختلاف کرتے رہیں گے ۔ لا يَزالُ بُنْيانُهُمُ [ التوبة 110]- وہ عمارت ہمیشہ ( ان کے دلوں میں باعث اضطراب بنی ) رہیگی ۔ وَلا يَزالُ الَّذِينَ كَفَرُوا [ الرعد 31] کافر لوگ ہمیشہ ۔۔۔ رہیں گے ۔ فَما زِلْتُمْ فِي شَكٍّ [ غافر 34] تم برابر شبہ میں رہے ۔ اور محاورہ میں مازال زید الا منطلقا کہنا صحیح نہیں ہے جیسا کہ ماکان زید الا منطلقا کہاجاتا ہے کیونکہ زال میں ثبت گی ضد ہونے کی وجہ نفی کے معنی پائے جاتے ہیں اور ، ، ما ، ، و ، ، لا ، ، بھی حروف نفی سے ہیں اور نفی کی نفی اثبات ہوتا ہے لہذا مازال مثبت ہونے میں گان کیطرح ہے تو جس طرح کان زید الا منطلقا کی ترکیب صحیح نہیں ہے اس طرح مازال زید الا منطلقا بھی صحیح نہیں ہوگا ۔ - الاختلافُ والمخالفة- والاختلافُ والمخالفة : أن يأخذ کلّ واحد طریقا غير طریق الآخر في حاله أو قوله، والخِلَاف أعمّ من الضّدّ ، لأنّ كلّ ضدّين مختلفان، ولیس کلّ مختلفین ضدّين، ولمّا کان الاختلاف بين النّاس في القول قد يقتضي التّنازع استعیر ذلک للمنازعة والمجادلة، قال : فَاخْتَلَفَ الْأَحْزابُ [ مریم 37] - ( خ ل ف ) الاختلاف والمخالفۃ - الاختلاف والمخالفۃ کے معنی کسی حالت یا قول میں ایک دوسرے کے خلاف کا لفظ ان دونوں سے اعم ہے کیونکہ ضدین کا مختلف ہونا تو ضروری ہوتا ہے مگر مختلفین کا ضدین ہونا ضروری نہیں ہوتا ۔ پھر لوگوں کا باہم کسی بات میں اختلاف کرنا عموما نزاع کا سبب بنتا ہے ۔ اس لئے استعارۃ اختلاف کا لفظ نزاع اور جدال کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَاخْتَلَفَ الْأَحْزابُ [ مریم 37] پھر کتنے فرقے پھٹ گئے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

خدا چاہتا تو سب لوگ ایک ہی امت ہوتے - قول باری ہے ولو شاء ربک لعجل الناس امۃ واحدۃ بیشک تیرا رب اگر چاہتاتو تمام انسانوں کو ایک گروہ بنا سکتا تھا۔ قتادہ کے قول کے مطابق سب کو مسلمان بنا دیتا۔ وہ اس طرح کہ سب کو ایمان کی طرف چلنے پر مجبور کردیتا ۔ اس میں منع کا پہلو ہے یعنی اگر وہ لوگ اس کے خلاف چلنے کا ارادہ کرتے تو انہیں ایسا کرنے نہ دیا جاتا بلکہ انہیں ایمان کی خوبی اور اس کی منفعت کی وسعت کی طرف مجبورا ً جانا پڑتا۔- قول باری ہے ولا یزالون مختلفین مگر اب تو وہ مختلف طریقوں ہی پر چلتے رہیں گے۔ مجاہد عطاء ، قتادہ اور اعمش کے قول کے مطابق مختلف ادیان پر چلتے رہیں گے۔ یعنی کوئی یہودی ہوگا تو کوئی نصرانی تو کوئی مجوسی اور اسی طرح اورادیان فاسدہ کا ماننے والے لوگ ہوں گے۔ حسن سے مروی ہے کہ لوگ ارزاق میں اور ایک دوسرے کو اپنے قابو میں لانے اور غلبہ پانے کے احوال کے لحاظ سے مختلف ہوں گے۔ قول باری ہے الا من رحم ربک اور ان بےراہ راویوں سے صر ف وہ لوگ بچیں گے جن پر تیرے رب کی رحمت ہے۔ باطل کی مختلف راہوں پر چلنے والوں سے آیت میں مذکورہ لوگوں کو مستثنیٰ کردیا گیا ہے اور اس سلسلے میں مطلق ایمان کا ذکر کیا گیا ہے جو ثواب حاصل کرنے کا ذریعہ ہے اس لیے کہ ایمان ہی باطل کی مختلف راہوں پر چلنے سے بچا سکتا ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١١٨) اور اگر اللہ تعالیٰ کو منظور ہوتا تو تمام لوگوں کو ایک ہی ملت یعنی ملت اسلامی پر قائم کردیتا اور آئندہ بھی ہمیشہ لوگ دین حق اور باطل میں اختلاف کرتے رہیں گے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١١٨ (وَلَوْ شَاۗءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّلَا يَزَالُوْنَ مُخْتَلِفِيْنَ )- جہاں کہیں بھی لوگ اکٹھے مل جل کر رہ رہے ہوں گے ان میں اختلاف رائے کا ہونا بالکل فطری بات ہے۔ مختلف لوگوں کی مختلف سوچ ہے ہر ایک کا اپنا اپنا نقطہ نظر ہے اور اس کے لیے اپنا اپنا استدلال ہے۔ اسی کے مطابق ان کے نظریات ہیں اور اسی کے مطابق ان کے اعمال و افعال۔ جب تک یہ استدلال علم اور قرآن وسنت کی بنیاد پر ہے تو اس میں کوئی قباحت نہیں ‘ بشرطیکہ یہ اختلاف کی حد تک رہے اور تفرقہ کی صورت اختیار نہ کرے اور ” من دیگر م تو دیگری “ والا معاملہ نہ ہو۔ - اس نکتہ کو یوں بھی سمجھنا چاہیے کہ امام ابوحنیفہ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہما دونوں نے قرآن و سنت سے استدلال کیا ہے ‘ مگر بعض اوقات دونوں بزرگوں کی آراء میں بہت زیادہ اختلاف پایا جاتا ہے۔ مگر ایسے اہل علم حضرات کے ہاں ایسا اختلاف کبھی بھی نزاع اور تفرقہ بازی کا باعث نہیں بنتا۔ ایک دوسرے زاویے سے دیکھا جائے تو دنیا کی رونق اور خوبصورتی بھی اسی تنوع اور اختلاف سے قائم ہے۔ - گلہائے رنگا رنگ سے ہے رونق چمن - اے ذوق اس چمن کو ہے زیب اختلاف سے - اگر دنیا میں یکسانیت ( ) ہی ہو تو انسان کی طبیعت اس سے اکتا جائے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani