Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

ریا ہر نیکی کے لیے زہر ہے ابن عباس فرماتے ہیں ریاکاروں کی نیکیوں کا بدلہ سب کچھ اسی دنیا میں مل جاتا ہے ۔ ذرا سی بھی کمی نہیں ہوتی ۔ پس جو شخص دنیا میں دکھاوے کے لے نماز پڑھے ، روزے رکھے یا تہجد گزاری کرے ، اس کا اجر اسے دنیا میں ہی مل جاتا ہے ۔ آخرت میں وہ خالی ہاتھ اور محض بےعمل اُٹھتا ہے ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ وغیرہ کا بیان ہے یہ آیت یہود و نصاری کے حق میں اتری اور اور مجاہد کہتے ہیں ریاکاروں کے بارے میں اتری ہے ۔ الغرض کس کا جو قصد ہو اسی کے مطابق اس سے معاملہ ہوتا ہے دنیا طلبی کے لیے جو اعمال ہوں وہ آخرت میں کار آمد نہیں ہو سکتے ۔ مومن کی نیت اور مقصد چونکہ آخرت طلبی ہی ہوتا ہے اللہ اسے آخرت میں اس کے اعمال کا بہترین بدلہ عطا فرماتا ہے اور دنیا میں بھی اس کی نیکیاں کام آتی ہیں ایک مرفوع حدیث میں بھی یہی مضمون آیا ہے ۔ قرآن کریم کی ( مَنْ كَانَ يُرِيْدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّــلْنَا لَهٗ فِيْهَا مَا نَشَاۗءُ لِمَنْ نُّرِيْدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهٗ جَهَنَّمَ ۚ يَصْلٰىهَا مَذْمُوْمًا مَّدْحُوْرًا 18؀ ) 17- الإسراء:18 ) میں بھی اسی کا تفصیلی بیان ہے کہ دنیا طلب لوگوں میں سے جسے ہم جس قدر چاہیں دے دیتے ہیں ۔ پھر اس کا ٹھکانا جہنم ہوتا ہے جہاں وہ ذلیل و خوار ہو کر داخل ہوتا ہے ۔ ہاں جس کی طلب آخرت ہو اور بالکل اسی کے مطابق اس کا عمل بھی ہو اور وہ ایمان دار بھی تو ایسے لوگوں کی کوشش کی قدر دانی کی جاتی ہے ۔ انہیں ہر ایک کو ہم تیرے رب کی عطا سے بڑھاتے رہتے ہیں تیرے پروردگار کا انعام کسی سے رکا ہوا نہیں ۔ تو خود دیکھ لے کہ کس طرح ہم نے ایک کو ایک پر فضیلت بخشی ہے ۔ آخرت کیا باعتبار درجوں کے اور کیا باعتبار فضیلت کے بہت ہی بڑی اور زبردست چیز ہے اور آیت میں ارشاد ہے ( مَنْ كَانَ يُرِيْدُ حَرْثَ الْاٰخِرَةِ نَزِدْ لَهٗ فِيْ حَرْثِهٖ ۚ وَمَنْ كَانَ يُرِيْدُ حَرْثَ الدُّنْيَا نُؤْتِهٖ مِنْهَا وَمَا لَهٗ فِي الْاٰخِرَةِ مِنْ نَّصِيْبٍ 20؀ ) 42- الشورى:20 ) جس کا ارادہ آخرت کی کھیتی کا ہو ہم خود اس میں اس کے لیے برکت عطا فرماتے ہیں اور جس کا ارادہ دنیا کی کھیتی کا ہو ہم گو اسے اس میں سے کچھ دے دیں لیکن آخرت میں وہ بےنصیب رہ جاتا ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

مَنْ كَانَ يُرِيْدُ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا وَزِيْنَتَهَا۔۔ : یہ دو آیات کفار اور مشرکین کے بارے میں ہیں، کیونکہ دوسری آیت میں ہے : ( َيْسَ لَهُمْ فِي الْاٰخِرَةِ اِلَّا النَّارُ ) ” ان کے لیے آخرت میں آگ کے سوا کچھ نہیں۔ “ مطلب یہ ہے کہ جو کفار یہاں دنیا طلبی کے لیے صدقہ و خیرات وغیرہ اور نیک عمل کرتے ہیں، جن کا تعلق رفاہ عامہ سے ہے، انھیں ان کاموں کا بدلہ دنیا ہی میں پورا پورا دے دیا جاتا ہے، لیکن یہ بدلہ ملنا اللہ تعالیٰ کی مرضی پر موقوف ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (مَنْ كَانَ يُرِيْدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّــلْنَا لَهٗ فِيْهَا مَا نَشَاۗءُ لِمَنْ نُّرِيْدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهٗ جَهَنَّمَ ۚ يَصْلٰىهَا مَذْمُوْمًا مَّدْحُوْرًا) [ بنی إسرائیل : ١٨ ] ” جو شخص اس جلدی والی (دنیا) کا ارادہ رکھتا ہو ہم اس کو اس میں جلدی دے دیں گے جو چاہیں گے، جس کے لیے چاہیں گے، پھر ہم نے اس کے لیے جہنم بنا رکھی ہے، اس میں داخل ہوگا، مذمت کیا ہوا، دھتکارا ہوا۔ “ اسی معنی کی ایک اور آیت سورة شوریٰ (٢٠) میں بھی ہے۔ کفار کو دنیا میں کسی نیکی کا فائدہ آخرت میں عذاب کم ہونے کی صورت میں تو ہوسکتا ہے، لیکن ان کا آگ سے نکلنا کسی صورت ممکن نہیں، جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حمایت اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سفارش کی وجہ سے ابوطالب کے عذاب میں تخفیف ہوگی، مگر وہ آگ سے نکل نہیں سکے گا۔ اسی طرح آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ کفر میں زیادتی اور کمی کی وجہ سے جہنم میں کفار کے عذاب میں کمی بیشی ہوگی، جیسا کہ فرمایا : (اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ فِي الدَّرْكِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ ) [ النساء : ١٤٥ ] ” بیشک منافق لوگ آگ کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے۔ “ نیکی کی کمی بیشی کی وجہ سے جنت کے درجات اور بدی کی کمی بیشی کی وجہ سے جہنم کے درکات میں فرق ہوگا۔ البتہ کفار کی کوئی نیکی انھیں جہنم سے نہیں نکال سکے گی، کیونکہ آخرت میں نیک عمل کی قبولیت کے لیے ایمان شرط ہے۔ دیکھیے سورة حجر کی دوسری آیت کی تفسیر۔ - علمائے تفسیر نے ان دو آیتوں کو عام بھی مانا ہے اور لکھا ہے کہ اس میں منافق اور ریا کار بھی شامل ہیں کہ ان کے عمل بھی آخرت میں اکارت جائیں گے۔ چناچہ ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( رَجُلٌ اسْتُشْھِدَ فَأُتِيَ بِہٖ فَعَرَّفَہٗ نِعْمَتَہٗ فَعَرَفَھَا، قَالَ فَمَا عَمِلْتَ فِیْھَا، قَالَ قَاتَلْتُ فِیْکَ حَتَّی اسْتُشْھِدْتُ قَالَ کَذَبْتَ وَلٰکِنَّکَ قَاتَلْتَ لَأَنْ یُّقَالَ جَرِيْءٌ فَقَدْ قِیْلَ ثُمَّ اُمِرَ بِہٖ فَسُحِبَ عَلٰی وَجْھِہٖ حَتّٰی أُلْقِيَ فِي النَّارِ ) [ مسلم، الإمارۃ، باب من قاتل للریاء۔۔ : ١٩٠٥ ] ” قیامت کے دن ایک شہید کو لایا جائے گا، اللہ تعالیٰ اسے اپنی نعمتوں کی پہچان کرائے گا، وہ انھیں پہچان لے گا، تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا : ” تو نے ان کے لیے کیا کیا ؟ “ وہ کہے گا : ” یا اللہ میں نے لڑتے لڑتے تیری راہ میں جان دے دی۔ “ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے : ” تو نے جھوٹ کہا، تو نے محض اس لیے جنگ کی تھی کہ لوگ تجھے بہادر کہیں، چناچہ تجھے یہ داد مل گئی۔ “ پھر حکم ہوگا اور اسے چہرے کے بل گھسیٹ کر آگ میں ڈال دیا جائے گا۔ “ اس کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ریا کار قاری اور ریاکار دولت مند کے متعلق بھی یہی بیان فرمایا۔ واضح رہے کہ اگر اس آیت کو عام رکھا جائے تو ” لَيْسَ لَهُمْ فِي الْاٰخِرَةِ اِلَّا النَّارُ “ (ان کے لیے آخرت میں آگ کے سوا کچھ نہیں) کی تاویل کی جائے گی کہ کفار اور منافقین کے لیے تو دائمی جہنم ہے، مگر مسلمان گناہ گار سزا کے بعد جہنم سے نکل بھی آئیں گے اور بعض کو اللہ تعالیٰ معاف بھی کر دے گا، اہل سنت کا یہی عقیدہ ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - جو شخص ( اپنے اعمال خیر سے) محض حیات دنیوی ( کی منفعت) اور اس کی رونق ( حاصل کرنا) چاہتا ہے ( جیسے شہرت و نیک نامی و جاہ اور ثواب آخرت حاصل کرنے کی اس کی نیت نہ ہو) تو ہم ان لوگوں کے ( ان) اعمال ( کی جزا) ان کو دنیا ہی میں پورے طور سے بھگتا دیتے ہیں اور ان کے لئے دنیا میں کچھ کمی نہیں ہوتی ( یعنی دنیا ہی میں ان کے اعمال کے عوض ان کو نیک نامی اور صحت و فراغ عیش و کثرت اموال و اولاد عنایت کردیا جاتا ہے جب کہ ان کے اعمال کا اثر ان کے اضداد پر غالب ہو اور اگر اضداد غالب ہوں تو پھر یہ اثر نہیں مرتب ہوتا، یہ تو دنیا میں ہوا رہا آخرت میں، سو) یہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کے لئے آخرت میں بجز دوزخ کے اور کچھ ( ثواب وغیرہ) نہیں اور انہوں نے جو کچھ کیا تھا وہ آخرت میں سب ( کا سب) ناکارہ ( ثابت) ہوگا اور ( واقع میں تو) جو کچھ کر رہے ہیں وہ ( اب بھی) بےاثر ہے ( بوجہ فساد نیت کے مگر صورت ظاہری کے اعتبار سے ثابت سمجھا جاتا ہے آخرت میں یہ ثبوت بھی زائل ہوجاوے گا) کیا منکر قرآن ایسے شخص کی برابری کرسکتا ہے جو قرآن پر قائم ہو جو کہ اس کے رب کی طرف سے آیا ہے اور اس ( قرآن) کے ساتھ ایک گواہ تو اسی میں موجود ہے ( یعنی اس کا معجزہ ہونا جو کہ دلیل عقلی ہے) اور ( ایک) اس سے پہلے ( یعنی) موسیٰ ( علیہ السلام) کی کتاب ( یعنی توریت اس کے ساتھ شہادت کے لئے موجود) ہے جو کہ ( احکام بتلانے کے اعتبار سے) امام ہے اور ( احکام پر جو ثمرہ وثواب ملے گا اس کے اعتبار سے وہ کتاب سبب) رحمت ہے ( اور یہ دلیل نقلی ہے، غرض قرآن کے صدق و صحت کے لئے عقلی اور نقلی دونوں دلیلیں موجود ہیں پس ان ہی دلائل کے سبب سے) ایسے لوگ (جن کا ذکر ہوا کہ وہ صاحب بیّنہ ہیں) اس قرآن پر ایمان رکھتے ہیں اور ( کافر کا یہ حال ہے کہ) جو شخص دوسرے فرقوں میں سے اس قرآن کا انکار کرے گا تو دوزخ اس کے وعدہ کی جگہ ہے ( پھر منکر قرآن مصدق قرآن کے برابر کب ہوا) سو ( اے مخاطب) تم قرآن کی طرف سے شک میں مت پڑنا بلا شک و شبہ وہ سچی کتاب ہے تمہارے رب کے پاس سے ( آئی ہے) لیکن ( باوجود ان دلائل کے غضب ہے کہ) بہت سے آدمی ایمان نہیں لاتے۔- معارف و مسائل - مخالفین اسلام کو جب عذاب کی وعیدیں سنائی جاتیں تو وہ اپنی خیرات و صدقات اور خدمت خلق و رفا عام کے کاموں کو سند میں پیش کرتے تھے کہ ہم ایسے نیک کام کرتے ہیں پھر ہم کو عذاب کیسا ؟ اور آج تو بہت ناواقف مسلمان بھی اس شبہ میں گرفتار نظر آتے ہیں کہ جو کافر ظاہری اعمال و اخلاق درست رکھتے ہیں، خلق خدا کی خدمت اور خیرات و صدقات کرتے ہیں، سڑکیں پل شفا خانے، پانی کی سبیلیں بناتے اور چلاتے ہیں ان کو مسلمانوں سے اچھا جانتے ہیں، مذکورہ آیات میں سے پہلی آیت میں اس کا جواب دیا گیا ہے۔- خلاصہ جواب کا یہ ہے کہ ہر عمل کے مقبول اور باعث نجات آخرت ہونے کی پہلی شرط یہ ہے کہ وہ عمل اللہ کے لئے کیا گیا ہو، اور اللہ کے لئے کرنا وہی معتبر ہے جو اس کے رسول کے بتلائے ہوئے طریقہ پر کیا گیا ہو، جو شخص اللہ اور اس کے رسول پر ایمان ہی نہیں رکھتا اس کے تمام اعمال و اخلاق ایک بےروح ڈھانچہ ہے جس کی شکل و صورت تو اچھی بھی ہے مگر روح نہ ہونے کی وجہ سے دار آخرت میں اس کا کوئی وزن اور اثر نہیں، البتہ دنیا میں چونکہ اس سے لوگوں کو فائدہ پہنچتا ہے اور ظاہری صورت کے اعتبار سے وہ نیک عمل ہے اس لئے اللہ جل شانہ نے اپنے کمال عدل و انصاف کی بناء پر اس عمل کو بھی بالکل ضائع نہیں قرار دیا بلکہ اس کے کرنے والے کے پیش نظر جو مقصد تھا کہ دنیا میں اس کی عزت ہو لوگ اس کو سخی کریم، بڑا آدمی سمجھیں، دنیا کی دولت، تندرستی اور راحت نصیب ہو، اللہ تعالیٰ اس کو یہ سب کچھ دنیا میں دیدیتے ہیں، آخرت کا تصور اور وہاں کی نجات اس کے پیش نظر ہی نہ تھی اور نہ اس کا بےروح عمل وہاں کی نعمتوں کی قیمت بن سکتا تھا اس لئے ان اعمال کا وہاں کچھ عوض نہ ملے گا اور کفر و معصیت کی وجہ سے جہنم میں رہے گا، یہ خلاصہ مضمون ہے پہلی آیت کا، اب اس کے الفاظ کو دیکھئے۔- ارشاد ہے کہ جو شخص صرف دنیا کی زندگی اور اس کی رونق ہی کا ارادہ کرتا رہا تو ہم اس کے اعمال کا بدلہ دنیا ہی میں پورا دیدیتے ہیں، ان کے لئے دنیا میں کچھ کمی نہیں ہوتی، یہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کے لئے آخرت میں بجز دوزخ کے اور کچھ نہیں۔- یہاں یہ بھی قابل لحاظ ہے کہ قرآن میں اس جگہ مَن اَرَادَ کا مختصر لفظ چھوڑ کر مَنْ كَانَ يُرِيْدُ کا لفظ اختیار فرمایا ہے جو دوام و استمرار پر دلالت کرتا ہے جس کا ترجمہ ارادہ کرتا رہا، کیا گیا ہے اس سے معلوم ہوا کہ یہ حال صرف ایسے لوگوں کا ہے جو شخص آخرت کی فکر اور وہاں کی نجات کے لئے عمل کرتا ہے پھر اس کے ساتھ کچھ دنیا کا بھی ارادہ کرلے تو وہ اس میں داخل نہیں۔- ائمہ تفسیر کا اس میں اختلاف ہے کہ یہ آیت کفار کے حق میں آئی ہے یا مسلمانوں کے یا مسلم و کافر دونوں سے متعلق ہے ؟- آیت کے آخری جملہ میں جو الفاظ آئے ہیں کہ آخرت میں ان کے لئے بجز دوزخ کے کچھ نہیں، اس سے ظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ کفار ہی کے متعلق ہے کیونکہ مسلمان کتنا ہی گناہگار ہو، گناہوں کی سزا بھگتنے کے بعد آخر کار جنت میں جائے گا، اسی لئے ضحاک وغیرہ مفسرین نے اس کو کفار ہی کے متعلق قرار دیا ہے۔- اور بعض حضرات نے فرمایا کہ اس سے مراد وہ مسلمان ہیں جو اپنے نیک اعمال سے صرف دنیا کی بھلائی، راحت، دولت، عزت کے طلبگار ہیں، نیک عمل اسی نیت سے کرتے ہیں کہ دنیا میں عزت و راحت ملے، اور مذکورہ جملہ کا مطلب یہ ہے جب تک اپنے اعمال بد کی سزا نہ بھگت لیں گے اس وقت تک ان کو بجز دوزخ کے کچھ نہ ملے گا۔- اور زیادہ راجح اور واضح بات یہ ہے کہ یہ آیت ان لوگوں سے متعلق ہے جو اپنے اعمال صالح کو صرف دنیا کے فوائد دولت، عزت، صحت وغیرہ کی نیت سے کرتے ہیں خواہ ایسا کرنے والے کافر ہوں جو آخرت کے قائل ہی نہیں، یا مسلمان ہوں جو زبان سے آخرت کے قائل ہیں مگر عمل میں اس کی فکر نہیں رکھتے، بلکہ ساری فکر دنیا ہی کے فوائد سے وابستہ رکھتے ہیں، حضرات مفسرین میں سے مجاہد، میمون بن مہران، معاویہ (رض) نے اسی کو اختیار فرمایا ہے۔- رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مشہور حدیث انما الاعمال بالنیات سے بھی اسی معنی کی تائید ہوتی ہے کہ جو شخص اپنے عمل میں جس چیز کی نیت کرتا ہے، اس کو وہی ملتی ہے، جو دنیا کی نیت کرتا ہے اس کو دنیا ملتی ہے، جو آخرت کی نیت کرتا ہے آخرت ملتی ہے، جو دونوں کی نیت کرتا ہے اس کو دونوں ملتی ہیں، تمام اعمال کا مدار نیت پر ہونا ایک ایسا اصول ہے جو ہر ملت و مذہب میں تسلیم کیا گیا ہے۔ ( قرطبی) ۔- اسی لئے ایک حدیث میں ہے کہ قیامت کے روز ان لوگوں کو لایا جائے گا جو دنیا میں عبادت اس لئے کرتے تھے کہ لوگوں کی نظر میں ان کی عزت ہو، ان سے کہا جائے گا کہ تم نے نماز پڑھی، صدقہ خیرات کیا، جہاد کیا، قرآن کی تلاوت کی مگر یہ سب اس نیت سے کیا کہ تم نمازی اور سخی اور غازی اور قاری کہلاؤ تو جو تم چاہتے تھے وہ تمہیں مل گیا، دنیا میں تمہیں یہ خطابات مل چکے اب یہاں تمہارے ان اعمال کا کوئی بدلہ نہیں اور سب سے پہلے جہنم میں ان لوگوں کو ڈالا جائے گا۔- حضرت ابوہریرہ یہ حدیث نقل کرکے رو پڑے اور فرمایا کہ قرآن کریم کی آیت مَنْ كَانَ يُرِيْدُ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا وَزِيْنَتَهَا سے اس حدیث کی تصدیق ہوتی ہے۔- صحیح مسلم میں بروایت انس منقول ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہیں کرتے، مومن جو نیک کام کرتا ہے اس کو دنیا میں بھی کچھ بدلہ ملتا ہے اور آخرت میں ثواب ملتا ہے، اور کافر ( چونکہ آخرت کی فکر ہی نہیں رکھتا اس لئے اس) کا حساب دنیا ہی میں بھگتا دیا جاتا ہے، اس کے نیک اعمال کے بدلہ میں دنیا کی دولت، عزت، صحت، راحت اس کو دے دیجاتی ہے یہاں تک کہ جب وہ آخرت میں پہنچتا ہے تو اس کے پاس کچھ نہیں ہوتا جس کا معاوضہ وہاں پائے۔- تفسیر مظہری میں ہے کہ مومن اگرچہ دنیا کی فلاح کا بھی خواہش مند ہوتا ہے مگر آخرت کا ارادہ غالب رہتا ہے اس لئے اس کو دنیا میں بقدر ضرورت ہی ملتا ہے اور بڑا معاوضہ آخرت میں پاتا ہے۔- حضرت فاروق اعظم ایک مرتبہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مکان پر حاضر ہوئے تو سارے گھر میں چند گنی چنی چیزوں کے سوا کچھ نہ دیکھا تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ دعا فرمایئے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی امت کو بھی دنیا کی وسعت عطا فرماویں، کیونکہ ہم فارس و روم کو دیکھتے ہیں وہ دنیا میں بڑی وسعت اور فراخی میں ہیں حالانکہ وہ خدا تعالیٰ کی عبادت نہیں کرتے، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تکیہ سے کمر لگائے ہوئے تھے، حضرت عمر کے یہ الفاظ سن کر سیدھے بیٹھ گئے اور فرمایا : اے عمر تم اب تک اسی خیال میں پڑے ہو، یہ تو وہ لوگ ہیں جن کی نیکیوں کا بدلہ انہیں دنیا ہی میں دے دیا گیا ہے۔ ( مظہری) ۔- جامع ترمذی اور مسند احمد میں بروایت انس منقول ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس شخص کی نیت اپنے اعمال میں طلب آخرت کی ہوتی ہے اللہ تعالیٰ دنیا میں اس کے دل کو غنی کردیتے ہیں اور اس کی ضروریات کو پورا فرما دیتے ہیں اور دنیا اس کے پاس ذلیل ہو کر آتی ہے، اور جس شخص کی نیت طلب دنیا کی ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ محتاجی اس کے سامنے کردیتے ہیں کہ اس کی حاجت کبھی پوری ہی نہیں ہوتی کیونکہ ہوس دنیا اس کو چین سے نہیں بیٹھنے دیتی ایک حاجت پوری ہونے سے پہلے دوسری حاجت سامنے آجاتی ہے اور بیشمار فکریں اس کو لگ جاتی ہیں اور ملتا صرف وہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے لکھ دیا ہے۔- آیت مذکورہ میں جو یہ ارشاد ہوا ہے کہ دنیا کا ارادہ کرنے والوں کو ان کے عمل کا بدلہ دنیا ہی میں پورا دے دیا جاتا ہے، اس پر یہ شبہ ہوسکتا ہے کہ بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں کہ باوجود دنیا کا ارادہ کرنے اور کوشش کرنے کے دنیا میں بھی ان کا مطلب پورا نہیں ہوتا اور بعض دفعہ کچھ بھی نہیں ملتا، اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن کریم کی آیت میں اس جگہ اجمال ہے اس کی پوری تفصیل سورة اسراء کی اس آیت میں ہے، جس میں فرمایا (آیت) مَنْ كَانَ يُرِيْدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّــلْنَا لَهٗ فِيْهَا مَا نَشَاۗءُ لِمَنْ نُّرِيْدُ ، یعنی جو شخص دنیا ہی کا ارادہ کر رہتا ہے ہم اس کو دنیا ہی میں نقد دیدیتے ہیں مگر یہ دنیا دو شرطوں کے ساتھ مشروط ہے، اول یہ کہ جس قدر دنیا چاہیں اتنا ہی دیتے ہیں ان کی مانگ اور طلب کے برابر دنیا ضروری نہیں، دوسرے یہ کہ صرف اسی شخص کو دیتے ہیں جس کو دنیا بتقاضائے حکمت مناسب سمجھتے ہیں ہر ایک کو دینا ضروری نہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

مَنْ كَانَ يُرِيْدُ الْحَيٰوۃَ الدُّنْيَا وَزِيْنَتَہَا نُوَفِّ اِلَيْہِمْ اَعْمَالَہُمْ فِيْہَا وَہُمْ فِيْہَا لَا يُبْخَسُوْنَ۝ ١٥- رود - والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17]- ( ر و د ) الرود - الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔ - زين - الزِّينَةُ الحقیقيّة : ما لا يشين الإنسان في شيء من أحواله لا في الدنیا، ولا في الآخرة، فأمّا ما يزينه في حالة دون حالة فهو من وجه شين، - ( زی ن ) الزینہ - زینت حقیقی ہوتی ہے جو انسان کے لئے کسی حالت میں بھی معیوب نہ ہو یعنی نہ دنیا میں اور نہ ہی عقبی ٰ میں اور وہ چیز جو ایک حیثیت سی موجب زینت ہو لیکن دوسری حیثیت سے موجب زینت نہ ہو وہ زینت حقیقی نہیں ہوتی بلکہ اسے صرف ایک پہلو کے اعتبار سے زینت کہہ سکتے ہیں - وُفِّيَتْ- وتَوْفِيَةُ الشیءِ : ذله وَافِياً ، واسْتِيفَاؤُهُ : تناوله وَافِياً. قال تعالی: وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ ما كَسَبَتْ [ آل عمران 25] اور توفیتہ الشیئ کے معنی بلا کسی قسم کی کمی پورا پورادینے کے ہیں اور استیفاء کے معنی اپنا حق پورا لے لینے کے ۔ قرآن پا ک میں ہے : ۔ وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ ما كَسَبَتْ [ آل عمران 25] اور ہر شخص اپنے اعمال کا پورا پورا بدلہ پائے گا ۔- عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے - بخس - البَخْسُ : نقص الشیء علی سبیل الظلم، قال تعالی: وَهُمْ فِيها لا يُبْخَسُونَ- [هود 15] ، وقال تعالی: وَلا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْياءَهُمْ [ الأعراف 85] ، والبَخْسُ والبَاخِسُ : الشیء الطفیف الناقص، وقوله تعالی: وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف 20] قيل : معناه : بَاخِس، أي : ناقص، وقیل : مَبْخُوس أي : منقوص، ويقال : تَبَاخَسُوا أي : تناقصوا وتغابنوا فبخس بعضهم بعضا .- ( ب خ س ) البخس - ( س ) کے معنی کوئی چیز ظلم سے کم کرنا کے ہیں قرآن میں ہے وَهُمْ فِيها لا يُبْخَسُونَ [هود 15] اور اس میں ان کی حتی تلفی نہیں کی جاتی ولا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْياءَهُمْ [ الأعراف 85] اور لوگوں کو چیزیں کم نہ دیا کرو ۔ البخس وا ابا خس ۔ حقیر اور آیت کریمہ : وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف 20] میں بعض نے کہا ہے کہ بخس کے معنی حقیر اور ناقص کے ہیں اور بعض نے منحوس یعنی منقوص کا ترجمہ کیا ہے ۔ محاورہ ہے تباخسوا ۔ انہوں نے ایک دوسرے کی حق تلفی کی ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

طلب دنیا یا عقبی کی چاہت - قول یاری ہے من کان یرید الحیوۃ الدنیا وزینتھا نوف الیھم اعمالھم فیھا وھم فیھا لا یبخسون اولیک الذین لیس لھم فی الاخرۃ الا النار جو لوگ بس اسی دنیا کی زندگی اور اس کی خوشنمائیوں کے طالب ہوتے ہیں ۔ ان کی کارگزاری کا سارا پھل ہم یہیں ان کو دے دیتے ہیں اور اس میں ان کے ساتھ کوئی کمی نہیں کی جاتی مگر آخرت میں ایسے لوگوں کے لیے آگ کے سوا کچھ نہیں ہے ۔ آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ جو شخص دنیا کی خاطر کوئی عمل کرے گا آخرت میں اس کے لیے اس عمل کے ثواب کا کوئی حصہ نہیں ہوگا ۔ اس کی مثال یہ قول باری ہے من کان یرید حرث الاخرۃ نزدلہ فی حرثد و من کان یرید حرث الدنیا نوتہ منھا وما لہ فی الاخرۃ من نصیب جو شخص آخرت کی کھیتی کا طلب گار ہوتا ہے ہم اس کو کھیتی میں اور اضافہ کرتے ہیں اور جو شخص دنیا کی کھیتی کا طلب ہوتا ہے ہم اسے اس میں سے دے دیتے ہیں اور آخرت میں اس کے لیے کوئی حصہ نہیں ہوتا ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی انہی معنوں میں روایت منقول ہے کہ آپ نے فرمایا بشرا متی بالسناء والمتمکن فی الارض فمن عمل منھم عملا ً للدنیا لم یکن لہ فی الاخرۃ نصیب ۔ میری امت کو اس دنیا میں چمک اٹھنے اور غلبہ پانے کی بشارت ہو ، ان میں سے جو شخص دنیا کی خاطر کوئی عمل کرے گا آخرت میں اس کے لیے کوئی حصہ نہیں ہوگا ۔- یہ بات اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ ایسا عمل جو صرف تقرب الٰہی اور عبادت کے طور پر سر انجام دیا جاتا ہے اس پر اجرت لینا جائز نہیں ہے اس لیے کہ اجرت دنیا کا حصہ اور اس سے تعلق رکھنے والا فائدہ ہے، اس بنا پر اگر اجرت لے لی جائے گی تو وہ عمل تقرب الٰہی اور عبادت کے دائرہ سے نکل جائے گا کتاب و سنت کا یہی مقتضی ہے ۔ قول باری توف الیھم اعمالھم کی تفسیر دو طرح سے کی گئی ہے۔ اول یہ کہ اگر کوئی کافر صلہ رحمی کرتا ہے یا کسی سائل کو کچھ دے دیتا ہے یا کسی مصیبت زدہ پر ترس رکھاتا ہے یا اسی قسم کا کوئی نیک عمل کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ دنیا ہی میں اس کے عمل کا بدلہ اسے دے دیتا ہے ۔ بدلے کی صورت یہ ہوتی ہے کہ اس کے رزق میں وسعت پیدا کردی جاتی ہے ، دنیاوی نعمتوں سے اس کی آنکھوں کو ٹھنڈک حاصل ہوتی ہے یا دنیاوی مصیبتیں اس سے دور کردی جاتی ہیں ۔ مجاہد اور ضحاک سے یہ تفسیر مروی ہے۔ - دوسری تفسیر یہ ہے کہ جو شخص حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مال غنیمت میں حصہ لینے کی خاطر جنگ میں شریک ہوگا ۔ آخرت کا ثواب اس کے مد نظر نہیں ہوگا وہ مال غنیمت میں اپنے حصے کا مستحق قرار پائے گا اور اسے اس کا حصہ مل جائے گا ، اس صورت میں آیت منافقین کی کیفیت بیان کرے گی ۔ اگر یہ دوسری تاویل اختیار کی جائے تو پھر آیت کی اس بات پر دلالت ہوگئی کہ کافر اگر مسلمانوں کے ساتھ مل کر جنگ میں شریک ہوگا تو اسے مال غنیمت میں سے حصہ ملے گا ، نیز اس پر بھی دلالت ہو رہی ہے کہ کافروں کے خلاف جنگ میں کافروں سے مدد لینا جائز ہے ۔ ہمارے اصحاب کا بھی یہی قول ہے اس لیے کہ غلبہ حاصل ہونے کی صورت میں اسلام کا حکم ان پر غالب ہوگا، کفر کا حکم غالب نہیں آئے گا ، اس لیے اگر یہ لوگ جنگ میں شریک ہوں گے تو مال غنیمت میں سے تھوڑا بہت انہیں بھی دے دیا جائے گا تا ہم آیت میں ایسی کوئی دلالت موجود نہیں ہے کہ جنگ میں شریک ہو کر ایک کافر جس بدلے کا مستحق ہوگا وہ مال غنیمت کا ایک سہم یعنی مجاہدین کو ملنے والے حصوں کی طرح ایک حصہ ہوگا یا تھوڑا بہت مال ہوگا ۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٥) جو شخص اپنے اعمال سے جو کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے ذمہ فرض کیے ہیں محض حیات دنیوی اور اس کی رونق حاصل کرنا چاہتا ہے تو ہم ان کے ان اعمال کا ثواب دنیا ہی میں دے دیتے ہیں اور ان کے اعمال کے ثواب میں دنیا میں کچھ کمی نہیں کرتے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٥ (مَنْ كَانَ يُرِيْدُ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا وَزِيْنَتَهَا )- جن لوگوں کا مقصد حیات ہی دنیوی مال و متاع کو حاصل کرنا ہو اور اسی کے لیے وہ رات دن دوڑ دھوپ میں لگے ہوں تو :- (نُوَفِّ اِلَيْهِمْ اَعْمَالَهُمْ فِيْهَا وَهُمْ فِيْهَا لَا يُبْخَسُوْنَ )- ان لوگوں کے دل و دماغ پر دنیا پرستی چھائی ہوئی ہے ‘ اور انہوں نے اپنی تمام تر صلاحیتیں دنیوی زندگی کو حسین و دلکش بنانے کے لیے ہی صرف کردی ہیں۔ ان کی ساری منصوبہ بندی اسی دنیا کے مال و متاع کے حصول کے لیے ہے۔ چناچہ ان کی اونچی اونچی عمارات بھی بن گئی ہیں ‘ کاروبار بھی خوب وسیع ہوگئے ہیں ‘ ہر قسم کا سامان آسائش بھی ان کی دسترس میں ہے ‘ عیش و عشرت کے مواقع بھی حسب خواہش انہیں میسر ہیں۔ لیکن انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ :

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة هُوْد حاشیہ نمبر :15 اس سلسلہ کلام میں یہ بات اس مناسبت سے فرمائی گئی ہے کہ قرآن کی دعوت کو جس قسم کے لوگ اس زمانہ میں رد کر رہے تھے اور آج بھی رد کر رہے ہیں وہ زیادہ تر وہی تھے اور ہیں ۔ جن کے دل و دماغ پر دنیا پرستی چھائی ہوئی ہے ۔ خدا کے پیغام کو رد کرنے کے لیے جو دلیل بازیاں وہ کرتے ہیں وہ سب تو بعد کی چیزیں ہیں ۔ پہلی چیز جو اس انکار کا اصل سبب ہے وہ ان کے نفس کا یہ فیصلہ ہے کہ دنیا اور اس کے مادی فائدوں سے بالاتر کوئی شئے قابل قدر نہیں ہے ، اور یہ کہ ان فائدوں سے متمع ہونے کے لیے ان کو پوری آزادی حاصل رہنی چاہیے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

11: کافر لوگ جو آخرت پر تو ایمان نہیں رکھتے، اور جو کچھ کرتے ہیں، دنیا ہی کی خاطر کرتے ہیں، ان کی نیکیوں، مثلا صدقہ خیرات وغیرہ کا صلہ دنیا ہی میں دے دیا جاتا ہے، آخرت میں ان کا کوئی ثواب نہیں ملتا، کیونکہ ایمان کے بغیر آخرت میں کوئی نیکی معتبر نہیں ہے۔ اسی طرح اگر کوئی مسلمان کوئی نیک کام صرف دنیوی شہرت یا دولت وغیرہ حاصل کرنے کے لیے کرے تو اسے دنیا میں تو وہ شہرت یا دولت مل سکتی ہے۔ لیکن اس نیکی کا ثواب آخرت میں نہیں ملتا۔ بلکہ واجب عبادتوں میں اخلاص کے فقدان کی وجہ سے الٹا گناہ ہوتا ہے۔ آخرت میں وہی نیکی معتبر ہے جو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کی نیت سے کی گئی ہو۔