Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

16۔ 1 ان دو آیات کے بارے میں بعض کا خیال ہے اس میں اہل ریا کار کا ذکر ہے، بعض کے نزدیک اس سے مراد یہود و نصاریٰ ہیں اور بعض کے نزدیک طالبان دنیا کا ذکر ہے۔ کیونکہ دنیادار بھی بعض اچھے عمل کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کی جزا انھیں دنیا میں دے دیتا ہے، آخرت میں ان کے لئے سوائے عذاب کے اور کچھ نہیں ہوگا۔ اسی مضمون کو قرآن مجید سورة بنی اسرائیل آیات 18، 21 (مَنْ كَانَ يُرِيْدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّــلْنَا لَهٗ فِيْهَا مَا نَشَاۗءُ لِمَنْ نُّرِيْدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهٗ جَهَنَّمَ ۚ يَصْلٰىهَا مَذْمُوْمًا مَّدْحُوْرًا 18؀ وَمَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَةَ وَسَعٰى لَهَا سَعْيَهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰۗىِٕكَ كَانَ سَعْيُهُمْ مَّشْكُوْرًا 19؀ كُلًّا نُّمِدُّ هٰٓؤُلَاۗءِ وَهٰٓؤُلَاۗءِ مِنْ عَطَاۗءِ رَبِّكَ ۭ وَمَا كَانَ عَطَاۗءُ رَبِّكَ مَحْظُوْرًا 20؀ اُنْظُرْ كَيْفَ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلٰي بَعْضٍ ۭ وَلَلْاٰخِرَةُ اَكْبَرُ دَرَجٰتٍ وَّاَكْبَرُ تَفْضِيْلًا 21؀) 17 ۔ الاسراء :18 تا 21) اور سور، شوریٰ آیت 20 (مَنْ كَانَ يُرِيْدُ حَرْثَ الْاٰخِرَةِ نَزِدْ لَهٗ فِيْ حَرْثِهٖ ۚ وَمَنْ كَانَ يُرِيْدُ حَرْثَ الدُّنْيَا نُؤْتِهٖ مِنْهَا وَمَا لَهٗ فِي الْاٰخِرَةِ مِنْ نَّصِيْبٍ 20؀) 42 ۔ الشوری :20) میں بیان کیا گیا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٩] دنیا میں نیک اعمال بجالانے والے کافروں کو اخروی عذاب کیوں ہوگا ؟ آیت نمبر ١٥ اور ١٦ کے مخاطب صرف کافر نہیں بلکہ اس میں مسلمان بھی شامل ہیں اور ان میں جو قانون بیان کیا گیا ہے وہ سب پر ایک جیسا لاگو ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ جو نیکی کا کام صرف دنیا کے حصول کے لیے کیا جائے گا اس کا پورا پورا ثمرہ اللہ تعالیٰ اسے دنیا میں دے دیتے ہیں مگر آخرت میں اس کا کچھ اجر نہ ہوگا بلکہ اسے دوزخ کا عذاب بھی ہوگا یہاں ہم اس کی چند مثالیں پیش کریں گے مثلاً ایک کافر اپنے کاروبار میں جھوٹ فریب اور دغا بازی سے پرہیز کرتا ہے اور دیانت داری سے کام لیتا ہے تو اس کا ثمرہ یہ ہے کہ اس کے کاروبار کو فروغ حاصل ہو تو وہ یقینا حاصل ہوگا اور اگر یہی کام ایک مسلمان کرتا ہے اور جھوٹ فریب اور دغابازی سے اس لئے پرہیز کرتا ہے کہ یہ اللہ کا حکم ہے تو اس کی تجارت کو بھی فروغ حاصل ہوگا آخرت میں اللہ کی فرمانبرداری کا اجر بھی ملے گا اس کی مثال یہ ہے کہ ایک صحابی نے اپنا گھر بناتے وقت مسجد کی طرف کھڑکی رکھی۔ آپ نے اسے پوچھا کہ یہ کھڑکی یہاں کس خیال سے رکھی ہے ؟ اس نے عرض کیا اس لیے کہ ہوا کی آمدورفت رہے۔ آپ نے فرمایا : اگر تم یہ نیت کرلیتے کہ ادھر سے اذان کی آواز آئے گی تو تمہیں اس کا ثواب بھی مل جاتا اور ہوا کی آمد و رفت تو بہرحال ہونا ہی تھی۔ اس کی دوسری مثال مسلم کی وہ حدیث ہے جو ریا کاری کے باب سے متعلق ہے کہ قیامت کے دن ایک ریا کار اور دنیا دار عالم کو اللہ کے حضور پیش کیا جائے گا اللہ تعالیٰ اس پر اپنا احسان جتلاتے ہوئے پوچھے گا کہ تم نے دنیا میں کیا نیک عمل کیا ؟ وہ کہے گا میں نے تیری خاطرخود دین کا علم سیکھا اور لوگوں کو سکھلاتا رہا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا جھوٹ کہتے ہو تم نے یہ کام اس لیے کیا تھا کہ تمہیں بڑا عالم کہا جائے وہ دنیا میں تمہیں کہا جاچکا اور تم اپنے کام کا پورا بدلہ لے چکے اب میرے پاس تمہارے لیے کوئی اجر نہیں پھر فرشتوں کو حکم دیا جائے گا کہ اسے دوزخ میں پھینک دیا جائے۔ اسی طرح ریا کار سخی اور مجاہد سے بھی یہی سوال و جواب اور یہی سلوک ہوگا۔ ( مسلم۔ کتاب الامارۃ۔ مَنْ قَاتَلَ للرَّ یَاءِ وَالسُّمْعَۃِ اِسْتَحَقَّ النَّارَ )- یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک کافر اس دنیا میں پاکیزہ زندگی گزارتا ہے لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے اپنا کاروبار دیانت داری سے کرتا ہے اسلام دشمن سرگرمیوں میں بھی حصہ نہیں لیتا تو یہ تو سمجھ میں آتا ہے کہ اسے دنیا میں اس کے نیک کاموں کا ثمرہ مل جائے اور آخرت میں کچھ نہ ملے مگر دوزخ کا عذاب کس جرم کی پاداش میں ہوگا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس سزا کے لیے بنیادی جرم ہی دوسرا ہے اور وہ ہے اللہ کی طرف سے اتمام حجت کے بعد اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان نہ لانا ایسے شخص کو نہ کسی کام میں اللہ کی رضا مطلوب ہوتی ہے نہ ہی وہ اللہ کے احسانات کا شکریہ ادا کرتا ہے نہ حدود اللہ کا خیال رکھ سکتا ہے بلکہ ایک ایمان لانے والے اور نہ لانے والے دونوں کی زندگی کی راہیں ہی جداجدا ہوجاتی ہیں آگ کا عذاب اسے ان دوسرے جرائم کی پاداش میں ہوگا۔- کفار مکہ ایک یہ حجت بھی پیش کیا کرتے تھے کہ ہم مسافروں کو کھانا کھلاتے ہیں یتیموں کی پرورش کرتے ہیں، بھوکوں کی خبرگیری کرتے ہیں راستوں پر کنوئیں کھدواتے ہیں سایہ دار درخت لگاتے ہیں اور بھی بہت سے نیک کام کرتے ہیں جن کا مقبول ہونا بھی ثابت ہے کہ ایسے ہی کاموں کی وجہ سے ہم دنیا میں پھلتے پھولتے ہیں اولاد اور مال میں برکت اور امن اور تندرستی نصیب ہوتی ہے تو ہمیں یہی بات کافی ہے اس کے بعد قرآن کے اتباع کی ضرورت بھی کیا رہ جاتی ہے ؟ اس آیت میں اللہ نے کافروں کی اسی حجت کا جواب دیا ہے ان نیک کاموں کا ہم فی الواقع انھیں دنیا میں اچھا بدلہ دے دیتے ہیں۔ رہا آخرت کا معاملہ تو نہ آخرت پر ان کا اعتقاد ہے اور نہ ہی آخرت میں بدلہ لینے کی غرض سے یہ کام کرتے ہیں۔ لہذا انھیں ان کاموں کا آخرت میں کچھ بدلہ نہیں ملے گا اور عذاب اس وجہ سے ہوگا کہ وہ آخرت کے منکر ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

دوسری آیت میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مؤمنین مخلصین کا حال ان لوگوں کے مقابلہ میں پیش کیا گیا جن کا مبلغ علم اور منتہائے مقصود صرف دنیا ہے تاکہ دنیا دیکھ لے کہ یہ دو گروہ برابر نہیں ہوسکتے، پھر ان کا یہ حال بیان کرکے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت و رسالت کا تمام عالم انسان کے لئے قیامت تک عام ہونا، اور جو شخص آپ پر ایمان نہ لائے خواہ اعمال کچھ بھی کرے اس کا گمراہ اور جہنمی ہونا بیان فرمایا ہے۔- پہلے جملہ میں فرمایا کہ کیا منکر قرآن ایسے شخص کی برابری کرسکتا ہے جو قرآن پر قائم ہو جو کہ اس کے رب کی طرف سے آیا ہے اور اس کے ساتھ ایک گواہ تو اسی میں موجود ہے اور اس سے پہلے موسیٰ کی کتاب گواہ ہے جو قابل اقتداء اور لوگوں کے لئے رحمت بنا کر بھجی گئی تھی۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ لَيْسَ لَہُمْ فِي الْاٰخِرَۃِ اِلَّا النَّارُ۝ ٠ ۡ ۖ وَحَبِطَ مَا صَنَعُوْا فِيْہَا وَبٰطِلٌ مَّا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۝ ١٦- آخرت - آخِر يقابل به الأوّل، وآخَر يقابل به الواحد، ويعبّر بالدار الآخرة عن النشأة الثانية، كما يعبّر بالدار الدنیا عن النشأة الأولی نحو : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت 64] ، وربما ترک ذکر الدار نحو قوله تعالی: أُولئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ [هود 16] . وقد توصف الدار بالآخرة تارةً ، وتضاف إليها تارةً نحو قوله تعالی: وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأنعام 32] ، وَلَدارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا[يوسف 109] .- وتقدیر الإضافة : دار الحیاة الآخرة .- اخر ۔ اول کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے اور اخر ( دوسرا ) واحد کے مقابلہ میں آتا ہے اور الدارالاخرۃ سے نشاۃ ثانیہ مراد لی جاتی ہے جس طرح کہ الدار الدنیا سے نشاۃ اولیٰ چناچہ فرمایا وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ ( سورة العنْکبوت 64) ہمیشہ کی زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے لیکن کھی الدار کا لفظ حذف کر کے صرف الاخرۃ کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ ( سورة هود 16) یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں آتش جہنم کے سوا اور کچھ نہیں ۔ اور دار کا لفظ کبھی اخرۃ کا موصوف ہوتا ہے اور کبھی اس کی طر ف مضاف ہو کر آتا ہے چناچہ فرمایا ۔ وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ ( سورة الأَنعام 32) اور یقینا آخرت کا گھر بہتر ہے ۔ ان کے لئے جو خدا سے ڈرتے ہیں ۔ (6 ۔ 32) وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ( سورة النحل 41) اور آخرت کا اجر بہت بڑا ہے ۔ اگر وہ اسے جانتے ہوتے ۔- حبط - وحَبْط العمل علی أضرب :- أحدها :- أن تکون الأعمال دنیوية فلا تغني في القیامة غناء، كما أشار إليه بقوله : وَقَدِمْنا إِلى ما عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْناهُ هَباءً مَنْثُوراً [ الفرقان 23] - والثاني :- أن تکون أعمالا أخروية، لکن لم يقصد بها صاحبها وجه اللہ تعالی، كما روي :- «أنه يؤتی يوم القیامة برجل فيقال له : بم کان اشتغالک ؟ قال : بقراءة القرآن، فيقال له : قد کنت تقرأ ليقال : هو قارئ، وقد قيل ذلك، فيؤمر به إلى النار» «1» .- والثالث :- أن تکون أعمالا صالحة، ولکن بإزائها سيئات توفي عليها، وذلک هو المشار إليه بخفّة المیزان .- وأصل الحبط من الحَبَطِ ، وهو أن تکثر الدابة أكلا حتی ينتفخ بطنها، وقال عليه السلام : «إنّ ممّا ينبت الربیع ما يقتل حبطا أو يلمّ» «2» . وسمّي الحارث الحَبَطَ «3» ، لأنه أصاب ذلك، ثم سمي أولاده حَبَطَات .- ( ح ب ط ) الحبط - حبط عمل کی تین صورتیں ہیں - ۔ ( 1) اول یہ کہ وہ اعمال دینوی ہوں - اس لئے قیامت کے دن کچھ کام نہین آئیں گے اسی کیطرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ۔ وَقَدِمْنا إِلى ما عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْناهُ هَباءً مَنْثُوراً [ الفرقان 23] اور جو انہوں نے عمل کئے ہوں گے ہم ان کی طرف متوجہ ہوں گے تو ان کو اڑتی خاک کردیں گے ۔ - اور جو انہوں نے عمل کئے ہوں گے ہم ان کی طرف متوجہ ہوں گے تو ان کو اڑتی خاک کردیں گے ۔ - ( 2 ) اعمال تو اخروی ہو - لیکن انہیں اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لئے نہ کیا گیا ہو جیسا کہ مروی ہے کہ قیامت کے دن آدمی لایا جائے گا اور اس سے پوچھا جائے گا کہ تو کس قسم کے عمل کرتا رہا وہ جواب دے گا کہ میں قرآن پاک پڑھتا رہا تو اس سے کہا جائے گا کہ تونے قرآن اس لئے پڑھا تھا کہ تجھے قاری کہا جائے سو لوگ تجھے قاری کہتے رہے حکم ہوگا کہ اس دوزخ میں لے جاؤ ۔- ( 3 ) تیسری صورت یہ ہے کہ اعمال صالحہ کئے ہوں گے - لیکن ان کے بالمقابل گناہ کا بارا ستقدر ہوگا کہ اعمال صالحہ بےاثر ہوکر رہ جائیں گے اور گناہوں کا پلہ بھاری رہے گا اسی کی طرف خفۃ المیزان سے اشارہ فرمایا گیا ہے ۔ اصل میں حبط کا لفظ حبط سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں کہ جانور اتنا زیادہ کھا جائے کہ اس کا پیٹ اپھر جائے ۔ حدیث میں ہے (70) ان مما ینبت الربیع مایقتل حبطا او یلم بعض اوقات موسم ربیع کی گھاس یا پیٹ میں ابھار کی وجہ سے قتل کردتی ہے اور یا بیمار کردیتی ہے ۔ ایک شخص حارث کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ وہ نفخ بطن سے مرگیا تھا تو اس کا نام الحدث الحبط پڑگیا اور اس کی اولاد کو حبطات کہا جاتا ہے ۔- صنع - الصُّنْعُ : إجادةُ الفعل، فكلّ صُنْعٍ فِعْلٌ ، ولیس کلّ فعل صُنْعاً ، ولا ينسب إلى الحیوانات والجمادات کما ينسب إليها الفعل . قال تعالی: صُنْعَ اللَّهِ الَّذِي أَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ [ سورة النمل 88] ، وَيَصْنَعُ الْفُلْكَ [هود 38] ، - ( ص ن ع ) الصنع - ( ف) کے معنی کسی کام کو ( کمال مہارت سے ) اچھی طرح کرنے کے ہیں اس لئے ہر صنع کو فعل کہہ سکتے ہیں مگر ہر فعل کو صنع نہیں کہہ سکتے اور نہ ہی لفظ فعل کی طرح حیوانات اور جمادات کے لئے بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ صُنْعَ اللَّهِ الَّذِي أَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ [ سورة النمل 88] یہ خدا کی صنعت کاری ہے جس نے ہر چیز کو نہایت مہارت سے محکم طور پر بنایا ۔ وَيَصْنَعُ الْفُلْكَ [هود 38] تو نوح (علیہ السلام) نے کشتی بنائی شروع کردی ۔- بطل - البَاطِل : نقیض الحق، وهو ما لا ثبات له عند الفحص عنه، قال تعالی: ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ هُوَ الْباطِلُ [ الحج 62]- ( ب ط ل ) الباطل - یہ حق کا بالمقابل ہے اور تحقیق کے بعد جس چیز میں ثبات اور پائیداری نظر نہ آئے اسے باطل کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں سے : ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ هُوَ الْباطِلُ [ الحج 62] یہ اس لئے کہ خدا کی ذات برحق ہے اور جن کو یہ لوگ خدا کے سوا کے پکارتے ہیں وہ لغو ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٦) یہ لوگ جو دنیا میں اللہ کے سوا جھوٹے معبودوں کے لیے نیکیاں کرتے ہیں وہ سب نیکیاں آخرت میں ان کے منہ پر مار دی جائیں گی اور آخرت میں ان کو ان کے اعمال کا کچھ بدلہ نہیں ملے گا جو انہوں نے دنیا میں کیے تھے کیوں کہ انہوں نے یہ نیکیاں غیر اللہ کے لیے کی تھیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٦ (ااُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْاٰخِرَةِ اِلَّا النَّارُ )- ان کی ساری محنت اور بھاگ دوڑ اسی دنیا کے لیے تھی ‘ لہٰذا ہم نے ان کی محنت کا صلہ اسی دنیا میں دے کر ان کا حساب چکا دیا ہے ۔- (وَحَبِطَ مَا صَنَعُوْا فِیْہَا وَبٰطِلٌ مَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ )- روز محشر انہیں معلوم ہوگا کہ جو کچھ انہوں نے دنیا میں بنایا اور جس کے لیے اپنی تمام تر استعدادات اور صلاحیتیں صرف کیں وہ سب ملیامیٹ ہوچکا ہے ‘ اور اگر انہوں نے اپنے دل کو بہلانے کے لیے کوئی جھوٹی سچی نیکی کی ہوگی تو وہ بھی بےبنیاد ثابت ہوگی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة هُوْد حاشیہ نمبر :16 یعنی جس کے پیش نظر محض دنیا اور اس کا فائدہ ہو ، وہ اپنی دنیا بنانے کی جیسی کوشش یہاں کرے گا ویسا ہی اس کا پھل اسے یہاں مل جائیگا ۔ لیکن جب کہ آخرت اس کے پیش نظر نہیں ہے اور اس کے لیے اس نے کوئی کوشش بھی نہیں کی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ اس کی دنیا طلب مساعی کی بارآوری کا سلسلہ آخرت تک دراز ہو ۔ وہاں پھل پانے کا امکان تو صرف اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب کہ دنیا می آدمی کی سعی ان کاموں کے لیے ہو جو آخرت میں بھی مانع ہوں ۔ مثال کے طور پر اگر ایک شخص چاہتا ہے کہ ایک شاندار مکان اسے رہنے کے لیے ملے اور وہ اس کے لیے ان تدابیر کو عمل میں لاتا ہے جن سے یہاں مکان بنا کرتے ہیں تو ضرور ایک عالی شان محل بن کر تیار ہو جائے گا اور اس کی کوئی اینٹ بھی محض اس بنا پر جمنے سے انکار نہ کرے گی کہ ایک کافر اسے جمانے کی کوشش کر رہا ہے ۔ لیکن اس شخص کو اپنا یہ محل اور اس کا سارا سروسامان موت کی آخری ہچکی کے ساتھ ہی اس دنیا میں چھوڑ دینا پڑے گا اور اس کی کوئی چیز بھی وہ اپنے ساتھ دوسرے عالم میں نہ لے جا سکے گا ۔ اگر اس نے آخرت میں محل تعمیر کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا ہے تو کوئی معقول وجہ نہیں کہ اس کا یہ محل وہاں اس کے ساتھ متنقل ہو ۔ وہاں کوئی محل وہ پاسکتا ہے تو صرف اس صورت میں پاسکتا ہے جب کہ دنیا میں اس کی سعی ان کاموں میں ہو جن سے قانون الہٰی کے مطابق آخرت کا محل بنا کرتا ہے ۔ اب سوال کیا جا سکتا ہے کہ اس دلیل کا تقاضا تو صرف اتنا ہی ہے کہ وہاں اسے کوئی محل نہ ملے ۔ مگر یہ کیا بات ہے کہ محل کے بجائے وہاں اسے آگ ملے؟ اس کا جواب یہ ہے ( اور یہ قرآن ہی کا جواب ہے جو مختلف مواقع پر اس نے دیا ہے ) کہ جو شخص آخرت کو نظر انداز کر کے محض دنیا کے لیے کام کرتا ہے وہ لازما و فطرۃ ایسے طریقوں سے کام کرتا ہے جن سے آخرت میں محل کے بجائے آگ کا الاؤ تیار ہوتا ہے ۔ ( ملاحظہ ہو سورہ یونس ، حاشیہ نمبر ۱۲ ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani