Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

کشتی نوح پر کون کون سوار ہوا ؟ حضرت نوح جنہیں اپنے ساتھ لے جانا چاہتے تھے ان سے فرمایا کہ آؤ اس میں سوار ہو جاؤ اس کا پانی پر چلنا اللہ کے نام کی برکت سے ہے اور اسی طرح اس کا آخری ٹھہراؤ بھی اسی پاک نام سے ہے ۔ ایک قرآت میں مجرھا و مرسھا بھی ہے ۔ یہی اللہ کا آپ کو حکم تھا کہ جب تم اور تمہارے ساتھی ٹھیک طرح بیٹھ جاؤ تو کہنا ( الْـحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ نَجّٰىنَا مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِيْنَ 28؀ ) 23- المؤمنون:28 ) اور یہ بھی دعا کرنا کہ ( اَنْزِلْنِيْ مُنْزَلًا مُّبٰرَكًا وَّاَنْتَ خَيْرُ الْمُنْزِلِيْنَ 29؀ ) 23- المؤمنون:29 ) اس لیے مستحب ہے کہ تمام کاموں کے شروع میں بسم اللہ پڑھ لی جائے خواہ کشتی پر سوار ہونا ہو ، خواہ جانور پر سوار ہونا ہو ، جیسے فرمان باری ہے کہ اسی اللہ نے تمہارے لیے تمام جوڑے پیدا کئے ہیں اور کشتیاں اور چوپائے تمہاری سواری کے لئے پیدا کئے ہیں کہ تم ان کی پیٹھ پر سواری کرو ، الخ ، ۔ حدیث میں بھی اس کی تاکید اور رغبت آئی ہے ، سورہ زخرف میں اس کا پورا بیان ہوگا انشاء اللہ تعالیٰ ۔ طبرانی میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں میری امت کے لیے ڈوبنے سے بچاؤ ان کے اس قول میں ہے سوار ہوتے ہوئے کہہ لیں ( آیت بسم اللّٰہ الملک وما قدرواللہ حق قدرہ ) پوری ( بِسْمِ اللّٰهِ مَجْــرٖ۩ىهَا وَمُرْسٰىهَا ۭ اِنَّ رَبِّيْ لَغَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ 41؀ ) 11-ھود:41 ) اس دعا کے آخر میں اللہ کا وصف غفور و رحیم اس لیے لائے کہ کافروں کی سزا کے مقابلے میں مومنون پر رحمت و شفقت کا اظہار ہو ۔ جیسے فرمان ہے تیرا رب جلد سزا کرنے والا اور ساتھ ہی غفور و رحیم بھی ہے ۔ اور آیت میں ہے ( وَاِنَّ رَبَّكَ لَذُوْ مَغْفِرَةٍ لِّلنَّاسِ عَلٰي ظُلْمِهِمْ ۚ وَاِنَّ رَبَّكَ لَشَدِيْدُ الْعِقَابِ Č۝ ) 13- الرعد:6 ) یعنی تیرا پروردگار لوگوں کے گناہوں کو بخشنے والا بھی ہے اور سخت سزا دینے والا بھی ہے ۔ اور بھی بہت سی آیتیں ہیں جن میں رحمت و انتقام کا بیان ملا جلا ہے ۔ پانی روئے زمین پر پھر گیا ہے ، کسی اونچے سے اونچے پہاڑ کی بلندی سے بلند چوٹی بھی دکھائی نہیں دیتی بلکہ پہاڑوں سے اوپر پندرہ ہاتھ اور بقولے اسی میل اوپر کو ہو گیا ہے باوجود اس کی کشتی نوح بحکم الٰہی برابر صحیح طور پر جا رہی ہے ۔ خود اللہ اس کا محافظ ہے اور وہ خاص اس کی عنایت و مہر ہے ۔ جیسے فرمان ہے ( اِنَّا لَمَّا طَغَا الْمَاۗءُ حَمَلْنٰكُمْ فِي الْجَارِيَةِ 11۝ۙ ) 69- الحاقة:11 ) یعنی پانی میں طغیانی کے وقت ہم نے آپ تمہیں کشتی میں چڑھا لیا کہ ہم اسے تمہارے لیے نصیحت بنائیں اور یاد رکھنے والے کان اسے یاد رکھ لیں اور آیت میں ہے کہ ہم نے تمہیں اس تختوں والی کشتی پر سوار کرایا اور اپنی حفاظت میں پار اتارا اور کافروں کو ان کے کفر کا انجام دکھا دیا اور اسے ایک نشان بنا دیا کیا اب بھی کوئی ہے جو عبرت حاصل کرے؟ اس وقت حضرت نوح علیہ السلام نے اپنے صاحبزادے کو بلایا یہ آپ کے چوتھے لڑکے تھے اس کا نام حام تھا یہ کافر تھا اسے آپ نے کشتی میں سوار ہو نے کے وقت ایمان کی اور اپنے ساتھ بیٹھ جانے کی ہدایت کی تاکہ ڈوبنے سے اور کافروں کے عذاب سے بچ جائے ۔ مگر اس بد نیت نے جواب دیا کہ نہیں مجھے اس کی ضرورت نہیں میں پہاڑ پر چڑھ کر طوفان باراں سے بچ جاؤں گا ۔ ایک اسرائیلی روایت میں ہے کہ اس نے شیشے کی کشتی بنائی تھی واللہ اعلم ۔ قرآن میں تو یہ ہے کہ اس نے یہ سمجھا کہ یہ طوفان پہاڑوں کی چوٹیوں تک نہیں پہنچنے کا میں جب جا پہنچوں گا تو یہ پانی میرا کیا بگاڑے گا ؟ اس پر حضرت نوح علیہ السلام نے جواب دیا کہ آج عذاب الٰہی سے کہیں پناہ نہیں وہی بچے گا جس پر اللہ کا رحم ہو ۔ یہاں عاصم معصوم کے معنی میں ہے جیسے طاعم مطعوم کے معنی میں اور کا سی مکسو کے معنی میں آیا ہے ۔ یہ باتیں ہو ہی رہی ہیں جو ایک موج آئی اور پسر نوح کو لے ڈوبی ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

41۔ 1 یعنی اللہ ہی کے نام سے اس کا پانی کی سطح پر چلنا اور اسی کے نام پر اس کا ٹھہرنا ہے۔ اس سے ایک مقصد اہل ایمان کو تسلی اور حوصلہ دینا بھی تھا کہ بلا خوف و خطر کشتی میں سوار ہوجاؤ، اللہ تعالیٰ ہی اس کشتی کا محافظ اور نگران ہے اسی کے حکم سے چلے گی اور اسی کے حکم سے ٹھہرے گی۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے دوسرے مقام پر فرمایا کہ اے نوح جب تو اور تیرے ساتھی کشتی میں آرام سے بیٹھ جائیں تو کہو (اَلْحَمْدُ لللّٰہِ الَّذِیْ نَجّٰنَا مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ ہ وَ قُلْ رَّبِّ اَنْزِلْنِیْ مُنْزَلًا مُّبٰرَکَا وَّ اَنْتَ خَیْرُالْمُنْزِلِیْنَ ) (المومنون 28، 29) سب تعریف اللہ ہی کے لئے ہے، جس نے ہمیں ظالم لوگوں سے نجات عطا فرمائی اور کہہ کہ اے میرے رب مجھے بابرکت اتارنا اتار اور تو ہی بہتر اتارنے والا ہے ۔ بعض علماء نے کشتی یا سواری پر بیٹھتے وقت (بِسْمِ اللّٰہِ مَجْرٖھا ومُرْسٰھِا) کا پڑھنا مستحب قرار دیا ہے، مگر حدیث سے (وَتَـقُوْلُوْاسُبْحٰنَ الَّذِيْ سَخَّــرَ لَنَا ھٰذَا وَمَا كُنَّا لَهٗ مُقْرِنِيْنَ ) 43 ۔ الزخرف :13) پڑھنا ثابت ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤٧] کشتی پر سوار ہونے کی دعا :۔ نوح نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا کہ اللہ کا نام لے کر اس کشتی پر سوار ہوجاؤ کچھ فکر مت کرو اس کا چلنا اور ٹھہرنا سب اللہ کے اذن اور اس کے نام کی برکت سے ہے۔ غرقابی کا کوئی اندیشہ نہیں کیونکہ میرا پروردگار مومنوں کی کوتاہیوں سے درگذر کرنے والا اور ان پر بہت مہربان ہے۔ وہ یقیناً اپنے فضل و کرم سے ہم کو بخیریت اتارے گا۔- ضمناً اس آیت سے چند باتیں معلوم ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ مومن کو صرف اسباب پر بھروسہ نہ کرنا چاہیے بلکہ اللہ سے اس کے فضل و کرم کی دعا بھی کرتے رہنا چاہیے کیونکہ اسباب کی باگ ڈور بھی اسی کے ہاتھ میں ہے اور دوسری یہ کہ کشتی یا جہاز پر سوار ہوتے وقت یہ دعا پڑھنی چاہیے (بِسْمِ اللّٰهِ مَجْــرٖ۩ىهَا وَمُرْسٰىهَا ۭ اِنَّ رَبِّيْ لَغَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ 41؀) 11 ۔ ھود :41)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَقَالَ ارْكَبُوْا فِيْهَا بِسْمِ اللّٰهِ مَجْــرٖ۩ىهَا وَمُرْسٰىهَا : ” ارْكَبُوْا فِيْهَا “ عام طور پر سوار ہونے کے لیے ” رَکِبَ عَلَیْہِ “ آتا ہے، یہاں ” اِرْکَبُوْا عَلَیْھَا “ کی جگہ ” ارْكَبُوْا فِيْهَا “ اس لیے فرمایا کہ کشتی میں کمرے کی طرح داخل ہو کر بیٹھا جاتا ہے، جب کہ گھوڑے وغیرہ کے اوپر سوار ہوتے ہیں۔ (ابن عاشور) اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ کشتی صرف تختے نہیں تھے جن کے اوپر وہ سوار ہوئے تھے، بلکہ اللہ تعالیٰ کی نگرانی میں تیار ہونے والی وہ کشتی بہترین کمروں، آرام دہ سیٹوں اور کئی منزلوں والی تھی، جن میں وہ سوار ہوئے۔ ” مَجْرَی “ ” جَرَی یَجْرِیْ “ (ض) سے مصدر میمی ہے، یعنی چلنا۔ بعض قراء نے اس میں امالہ کیا ہے، یعنی الف کو یاء کی طرف اور فتحہ کو کسرہ کی طرف مائل کرکے پڑھتے ہیں۔ ” مُرْسَی “ یہ باب افعال ” اَرْسَی یُرْسِیْ “ ( ر س و) سے مصدر میمی ہے، یعنی اس کا ٹھہرنا۔ کشتی میں سوار ہوتے وقت نوح (علیہ السلام) نے یہ دعا پڑھی، اس لیے کشتی میں سوار ہوتے وقت یہ دعا قرآن مجید سے ثابت ہے۔ سورة مومنون میں وہ دعا بھی مذکور ہے جو کشتی پر سوار ہو کر آرام سے بیٹھ جانے پر پڑھنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا تھا : (الْـحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ نَجّٰىنَا مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِيْنَ ) اور (رَّبِّ اَنْزِلْنِيْ مُنْزَلًا مُّبٰرَكًا وَّاَنْتَ خَيْرُ الْمُنْزِلِيْنَ ) [ المؤمنون : ٢٨، ٢٩ ] سورة زخرف میں کشتی ہو یا کوئی بھی سواری، اس پر سوار ہوتے وقت اللہ تعالیٰ نے یہ دعا سکھائی ہے : (سُبْحٰنَ الَّذِيْ سَخَّــرَ لَنَا ھٰذَا وَمَا كُنَّا لَهٗ مُقْرِنِيْنَ 13؀ۙوَاِنَّآ اِلٰى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ ) [ الزخرف : ١٣، ١٤ ] ” پاک ہے وہ جس نے اسے ہمارے تابع کردیا، حالانکہ ہم اسے قابو میں لانے والے نہ تھے اور بیشک ہم اپنے رب ہی کی طرف ضرور لوٹ کر جانے والے ہیں۔ “ صحیح مسلم میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اونٹ پر سوار ہو کر یہ دعا پڑھنے کی حدیث موجود ہے، اس میں مزید الفاظ بھی ہیں۔ [ دیکھیے مسلم، الحج، باب استحباب الذکر إذا رکب دابتہ متوجھا۔۔ : ١٣٤٢، عن ابن عمر ]- اِنَّ رَبِّيْ لَغَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ : مطلب یہ ہے کہ ہم سب جو کشتی میں سوار ہو کر عذاب سے بچے ہیں، اس لیے نہیں بچے کہ ہم گناہوں سے یکسر پاک ہیں، بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ میرا رب غفور و رحیم ہے۔ ایمان لانے کی وجہ سے اس نے ہماری لغزشوں سے درگزر فرما کر ہمیں یہ عزت بخشی ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور نوح ( علیہ السلام) نے ( سب جانوروں کو سوار کرکے اپنے متبعین سے) فرمایا کہ ( آؤ اس کشتی میں سوار ہوجاؤ اور غرق سے کچھ اندیشہ مت کرنا کیونکہ) اس کا چلنا اور ٹھہرنا ( سب) اللہ ہی کے نام سے ہے (اور وہی اس کے محافظ ہیں پھر اندیشہ کیوں کیا جاوے اور گو بندوں کے گناہ مقتضی غرق کو ہیں مگر) بالیقین میرا رب غفور ہے رحیم ہے ( وہ اپنی رحمت سے گناہ بخش دیتا ہے اور حفاظت بھی کرتا ہے، غرض سب کشتی پر سوار ہوگئے اور اس اثناء میں پانی بڑھ گیا) اور وہ کشتی ان کو لے کر پہاڑ جیسی موجوں میں چلنے لگی اور نوح ( علیہ السلام) نے اپنے (ایک سگے یا سوتیلے) بیٹے کو ( جس کا نام کنعان تھا اور وہ باوجود فہمائش کے ایمان نہ لایا تھا اور بوجہ ایمان نہ لانے کے کشتی میں سوار نہ کیا گیا تھا اور اس وقت کشتی سے) علیحدہ مقام پر تھا کہ اے میرے پیارے بیٹے (کشتی میں سوار ہونے کی شرط کہ ایمان ہے بجا لا کر جلدی) ہمارے ساتھ سوار ہوجا اور ( عقیدہ میں) کافروں کے ساتھ مت ہو ( یعنی کفر کو چھوڑ دے کہ غرق سے بچ جاوے) وہ کہنے لگا کہ میں بھی کسی پہاڑ کی پناہ لے لوں گا جو مجھ کو پانی ( میں غرق ہونے) سے بچالے گا (کیونکہ وہ وقت ابتداء طوفان کا تھا پہاڑوں کے اوپر پانی نہ پہنچا تھا) نوح ( علیہ السلام) نے فرمایا کہ آج اللہ کے قہر سے کوئی بچانے ولا نہیں ( نہ پہاڑ اور نہ اور کوئی چیز) لیکن جس پر وہی رحم کرے ( تو اس کو خود ہی بچا لے، غرق کنعان اس وقت بھی ایمان نہ لایا اور پانی زور شور کے ساتھ اس طرف سے بڑھ گیا) اور دونوں (باپ بیٹوں) کے بیچ میں ایک موج حائل ہوگئی پس وہ ( بھی مثل دوسرے کافروں کے) غرض ہوگیا اور (جب کفار سب غرق ہوچکے تو) حکم ہوگیا کہ اے زمین اپنا پانی ( جو کہ تیری سطح پر موجود ہے) نگل جا، اور اے آسمان ( برسنے سے) تھم جا ( چناچہ دونوں امر واقع ہوگئے) اور پانی گھٹ گیا اور قصہ ختم ہوا اور کشتی (کوہ) جودی پر آٹھہری اور کہہ دیا گیا کہ کافر لوگ رحمت سے دور۔- معارف و مسائل - کشتیوں اور دوسری سواریوں پر سوار ہونے کے آداب :- آیات مذکورہ میں سے پہلی آیت میں کشتی اور سواری پر سوار ہونے کے آداب کی تعلیم ہے کہ بِسْمِ اللّٰهِ مَجْــرٖ۩ىهَا وَمُرْسٰىهَا کہہ کر سوار ہوں، مجرے کے معنی جاری ہونا اور چلنا اور مرسی کے معنی رکنا اور ٹھہرنا ہیں معنی یہ ہیں کہ اس کشتی اور سواری کا چلنا بھی اللہ تعالیٰ ہی کی قدرت اور اس کے نام سے ہے اور رکنا اور ٹھہرنا بھی اسی کی قدرت کے تابع ہے۔- ہر سواری کا چلنا اور ٹھہرنا صرف اللہ تعالیٰ کی قدرت سے ہے :- انسان اگر ذرا بھی غور سے کام لے تو اسے معلوم ہوگا کہ کشتی ہو یا خشکی پر چلنے والی کوئی سواری، نہ اس کا پیدا کرنا بنانا اس کی قدرت میں ہے نہ چلانا اور ٹھہرانا اس کے بس کا ہے، انسان اپنی سطحی اور سرسری نظر کی بنا پر سمجھتا ہے کہ میں نے اس کو بنایا اور چلایا ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ نہ اس نے وہ لوہا، لکڑی، پیتل، المونیم وغیرہ پیدا کئے جو ان تمام سواریوں کا خام مادہ ہے اور نہ اس کے بس میں ہے کہ ایک تولہ لوہا یا ایک فٹ لکڑی پیدا کرسکے، پھر ان خام اجناس ( مٹیریل) سے طرح طرح کے کل پرزے بنانے کی عقل و فہم کس نے دی ؟ کیا یہ عقل و فہم انسان نے خود دپیدا کرلی ہے ؟ اگر خود پیدا کرلینا انسان کے بس میں ہوتا تو دنیا میں کوئی بیوقوف کم عقل نہ رہتا ہے، ہر شخص افلاطون و ارسطو ہی بن کر رہتا، کہیں کی لکڑی، کہیں کا لوہا، کہیں کے آلات و اوذار استعمال کر کے سواری کا ڈھانچہ بھی بن گیا، اب اس منوں اور ٹنوں کے بھاری بوجھ کو لے کر زمین پر دوڑنے یا ہوا پر اڑنے کے لئے جس طاقت ( پاور) کی ضرورت ہے وہ خواہ پیٹرول سے حاصل کی جائے یا ہوا اور پانی کے ٹکراؤ سے برقی صورت میں حاصل کی جائے، بہرحال سوچنے کی بات یہ ہے کہ ان میں سے انسان نے کس چیز کو پیدا کیا ہے، پیٹرول اس نے پیدا کیا یا ہوا، پانی اس نے بنایا، ان میں آکسیجن، ہائیڈروجن کی طاقتیں اس نے پیدا کیں ؟- اگر انسان ذرا بھی عقل سے کام لے تو اس کو سائنس کی اعجوبہ کاری اور عروج کے اس زمانہ میں بھی اپنی بےبسی اور عاجزی ہی کا مشاہدہ ہوگا، اور اس اقرار کے بغیر نہ رہ سکے گا کہ ہر سواری کا چلنا اور رکنا سب خالق کائنات حق تعالیٰ ہی کے قبضہ میں ہے۔- غافل انسان اپنے ظاہری جوڑ توڑ کے تصرفات جن کا دوسرا نام سائنسی ایجادات ہے ان پر فخر و غرور کے نشہ میں ایسا مست ہوجاتا ہے کہ اصل حقیقت نظروں سے اوجھل ہوجاتی ہے اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبروں کے ذریعہ اس غفلت کا پردہ چاک کرتے ہیں اور بِسْمِ اللّٰهِ مَجْــرٖ۩ىهَا وَمُرْسٰىهَا کی اصل حقیقت سامنے کردیتے ہیں، دیکھنے میں تو یہ ایک دو لفظی فقرہ ہے مگر غور کیجئے تو یہ کلید اور کنجی ہے ایک ایسے دروازہ کی جہاں سے انسان اس مادی دنیا میں رہتے ہوئے روحانی عالم کا باشندہ بن جاتا ہے، اور کائنات کے ذرہ ذرہ میں جمال حق تعالیٰ کا مشاہدہ کرنے لگتا ہے۔- یہیں سے مومن کی دنیا اور کافر کی دنیا میں فرق نمایاں ہوجاتا ہے، سواری پر دونوں سوار ہوتے ہیں لیکن مومن کا قدم جو سواری پر آتا ہے وہ اس کو صرف زمین کی مسافت قطع نہیں کراتا بلکہ عالم بالا سے بھی روشناس کردیتا ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَقَالَ ارْكَبُوْا فِيْہَا بِسْمِ اللہِ مَجْؔــرٖىہَا وَمُرْسٰىہَا۝ ٠ ۭ اِنَّ رَبِّيْ لَغَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝ ٤١- ركب - الرُّكُوبُ في الأصل : كون الإنسان علی ظهر حيوان، وقد يستعمل في السّفينة، والرَّاكِبُ اختصّ في التّعارف بممتطي البعیر، وجمعه رَكْبٌ ، ورُكْبَانٌ ، ورُكُوبٌ ، واختصّ الرِّكَابُ بالمرکوب، قال تعالی: وَالْخَيْلَ وَالْبِغالَ وَالْحَمِيرَ لِتَرْكَبُوها وَزِينَةً [ النحل 8] ، فَإِذا رَكِبُوا فِي الْفُلْكِ- ) رک ب ) الرکوب - کے اصل معنی حیوان کی پیٹھ پر سوار ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ لِتَرْكَبُوها وَزِينَةً [ النحل 8] تاکہ ان سے سواری کا کام لو اور ( سواری کے علاوہ یہ چیزیں ) موجب زینت ( بھی ) ہیں ۔ مگر کبھی کشتی وغیرہ سواری ہونے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :۔ فَإِذا رَكِبُوا فِي الْفُلْكِ [ العنکبوت 65] پھر جب لوگ کشتی میں سوار ہوتے ہیں ۔ - اسْمُ- والِاسْمُ : ما يعرف به ذات الشیء، وأصله سِمْوٌ ، بدلالة قولهم : أسماء وسُمَيٌّ ، وأصله من السُّمُوِّ وهو الذي به رفع ذکر الْمُسَمَّى فيعرف به، قال اللہ : بِسْمِ اللَّهِ [ الفاتحة 1] ، وقال : ارْكَبُوا فِيها بِسْمِ اللَّهِ مَجْراها [هود 41] ، بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ [ النمل 30] ، وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ [ البقرة 31] ، أي : لألفاظ والمعاني مفرداتها ومرکّباتها .- وبیان ذلک أنّ الاسم يستعمل علی ضربین :- أحدهما : بحسب الوضع الاصطلاحيّ ، وذلک هو في المخبر عنه نحو : رجل وفرس .- والثاني : بحسب الوضع الأوّليّ.- ويقال ذلک للأنواع الثلاثة المخبر عنه، والخبر عنه، والرّابط بينهما المسمّى بالحرف، وهذا هو المراد بالآية، لأنّ آدم عليه السلام کما علم الاسم علم الفعل، والحرف، ولا يعرف الإنسان الاسم فيكون عارفا لمسمّاه إذا عرض عليه المسمّى، إلا إذا عرف ذاته . ألا تری أنّا لو علمنا أَسَامِيَ أشياء بالهنديّة، أو بالرّوميّة، ولم نعرف صورة ما له تلک الأسماء لم نعرف الْمُسَمَّيَاتِ إذا شاهدناها بمعرفتنا الأسماء المجرّدة، بل کنّا عارفین بأصوات مجرّدة، فثبت أنّ معرفة الأسماء لا تحصل إلا بمعرفة المسمّى، و حصول صورته في الضّمير، فإذا المراد بقوله : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة 31] ، الأنواع الثلاثة من الکلام وصور المسمّيات في ذواتها، وقوله : ما تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا أَسْماءً سَمَّيْتُمُوها [يوسف 40] ، فمعناه أنّ الأسماء التي تذکرونها ليس لها مسمّيات، وإنما هي أسماء علی غير مسمّى إذ کان حقیقة ما يعتقدون في الأصنام بحسب تلک الأسماء غير موجود فيها، وقوله : وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكاءَ قُلْ سَمُّوهُمْ [ الرعد 33] ، فلیس المراد أن يذکروا أساميها نحو اللّات والعزّى، وإنما المعنی إظهار تحقیق ما تدعونه إلها، وأنه هل يوجد معاني تلک الأسماء فيها، ولهذا قال بعده : أَمْ تُنَبِّئُونَهُ بِما لا يَعْلَمُ فِي الْأَرْضِ أَمْ بِظاهِرٍ مِنَ الْقَوْلِ [ الرعد 33] ، وقوله : تَبارَكَ اسْمُ رَبِّكَ [ الرحمن 78] ، أي : البرکة والنّعمة الفائضة في صفاته إذا اعتبرت، وذلک نحو : الكريم والعلیم والباري، والرّحمن الرّحيم، وقال : سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى [ الأعلی 1] ، وَلِلَّهِ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الأعراف 180] ، وقوله : اسْمُهُ يَحْيى لَمْ نَجْعَلْ لَهُ مِنْ قَبْلُ سَمِيًّا - [ مریم 7] ، لَيُسَمُّونَ الْمَلائِكَةَ تَسْمِيَةَ الْأُنْثى- [ النجم 27] ، أي : يقولون للملائكة بنات الله، وقوله : هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا - [ مریم 65] أي : نظیرا له يستحقّ اسمه، وموصوفا يستحقّ صفته علی التّحقیق، ولیس المعنی هل تجد من يتسمّى باسمه إذ کان کثير من أسمائه قد يطلق علی غيره، لکن ليس معناه إذا استعمل فيه كما کان معناه إذا استعمل في غيره .- الاسم - کسی چیز کی علامت جس سے اسے پہچانا جائے ۔ یہ اصل میں سمو ہے کیونکہ اس کی جمع اسماء اور تصغیر سمی آتی ہے ۔ اور اسم کو اسم اس لئے کہتے ہیں کہ اس سے مسمیٰ کا ذکر بلند ہوتا ہے اور اس کی معرفت حاصل ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ ارْكَبُوا فِيها بِسْمِ اللَّهِ مَجْراها [هود 41] اور ( نوح (علیہ السلام) نے ) کہا کہ خدا کا نام لے کر ( کہ اس کے ہاتھ میں ) اس کا چلنا ( ہے ) سوار ہوجاؤ۔ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ [ النمل 30] وہ سلیمان کی طرف سے ہے اور مضمون یہ ہے ) کہ شروع خدا کا نام لے کر جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے ۔ اور آیت : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ [ البقرة 31] اور اس آدم کو سب ( چیزوں کے ) نام سکھائے ۔ میں اسماء سے یہاں الفاظ و معانی دونوں مراد ہیں ۔ خواہ مفردہوں خواہ مرکب اس اجمال کی تفصیل یہ ہے ۔ کہ لفظ اسم دو طرح استعمال ہوتا ہے ۔ ایک اصطلاحی معنی میں اور اس صورت میں ہمیشہ مخبر عنہ بنتا ہے ۔ جیسے رجل وفرس دوم وضع اول کے لحاظ سے اس اعتبار سے ( کلمہ کی ) انواع ثلاثہ یعنی مخبر عنہ ( اسم ) خبر اور رابطہ ( حرف ) تینوں پر اس معنی مراد ہیں ۔ کیونکہ آدم (علیہ السلام) نے جس طرح اسماء کی تعلیم حاصل کی تھی ۔ اسی طرح افعال وحروف کا علم بھی نہیں حاصل ہوگیا تھا اور یہ ظاہر ہے کہ جب تک کسی چیز کی ذات کا علم حاصل نہ ہو محض نام کے جاننے سے انسان اسے دیکھ کر پہچان نہیں سکتا ہے مثلا اگر ہم ہندی یا رومی زبان میں چند چیزوں کے نام حفظ کرلیں تو ان چیزوں کے اسماء کے جاننے سے ہم ان کے مسمیات کو نہیں پہچان سکیں گے ۔ بلکہ ہمار علم انہیں چند اصوات تک محدود رہے گا اس سے ثابت ہوا کہ اسماء کی معرفت مسمیات کی معرفت کو مستلزم نہیں ہے اور نہ ہی محض اسم سے مسمی ٰ کی صورت ذہن میں حاصل ہوسکتی ہے ۔ لہذا آیت : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة 31] میں اسماء سے کلام کی انواع ثلاثہ اور صورۃ مسمیات بمع ان کی ذوات کے مراد ہیں اور آیت ما تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا أَسْماءً سَمَّيْتُمُوها [يوسف 40] جن چیزوں کی تم خدا کے سوا پرستش کرتے ہو وہ صرف نام ہی نام ہیں جو تم نے رکھ لئے ہیں ۔ کے معنی یہ ہیں ک جن اسماء کی تم پرستش کرتے ہو ان کے مسمیات نہیں ہیں ۔ کیونکہ و اصنام ان اوصاف سے عاری تھے ۔ جن کا کہ وہ ان اسماء کے اعتبار سے ان کے متعلق اعتقاد رکھتے تھے ۔ اور آیت : وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكاءَ قُلْ سَمُّوهُمْ [ الرعد 33] اور ان لوگوں نے خدا کے شریک مقرر کر رکھے ہیں ۔ ان سے کہو کہ ( ذرا ) انکے نام تولو ۔ میں سموھم سے یہ مراد نہیں ہے کہ لات ، عزی وغیرہ ان کے نام بیان کرو بلکہ آیت کے معنی پر ہیں کہ جن کو تم الاۃ ( معبود ) کہتے ہو ان کے متعلق تحقیق کرکے یہ تو بتاؤ کہ آیا ان میں ان اسماء کے معانی بھی پائے جاتے ہیں ۔ جن کے ساتھ تم انہیں موسوم کرتے ہو ( یعنی نہیں ) اسی لئے اس کے بعد فرمایا أَمْ تُنَبِّئُونَهُ بِما لا يَعْلَمُ فِي الْأَرْضِ أَمْ بِظاهِرٍ مِنَ الْقَوْلِ [ الرعد 33] ( کہ ) کیا تم اسے ایسی چیزیں بتاتے ہو جس کو وہ زمین میں ( کہیں بھی ) معلوم نہیں کرتا یا ( محض ) ظاہری ( باطل اور جھوٹی ) بات کی ( تقلید کرتے ہو ۔ ) اور آیت : تَبارَكَ اسْمُ رَبِّكَ [ الرحمن 78] تمہارے پروردگار ۔۔ کا نام برا بابر کت ہے ۔ میں اسم رب کے بابرکت ہونے کے معنی یہ ہیں ک اس کی صفات ۔ الکریم ۔ العلیم ۔ الباری ۔ الرحمن الرحیم کے ذکر میں برکت اور نعمت پائی جاتی ہے جیسا ک دوسری جگہ فرمایا : سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى [ الأعلی 1] ( اے پیغمبر ) اپنے پروردگار جلیل الشان کے نام کی تسبیح کرو ۔ وَلِلَّهِ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الأعراف 180] اور خدا کے نام سب اچھے ہی اچھے ہیں ۔ اور آیت : اسْمُهُ يَحْيى لَمْ نَجْعَلْ لَهُ مِنْ قَبْلُ سَمِيًّا[ مریم 7] اسمہ یحیٰ لم نجعل لہ من قبل سمیا َ (719) جس کا نام یحیٰ ہے ۔ اس سے پہلے ہم نے اس نام کا کوئی شخص پیدا نہیں کیا ۔ میں سمیا کے معنی ہم نام ، ، کے ہیں اور آیت :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا[ مریم 65] بھلا تم اس کا کوئی ہم نام جانتے ہو ۔ میں سمیا کے معنی نظیر کے ہیں یعنی کیا اس کی کوئی نظیر ہے جو اس نام کی مستحق ہوا اور حقیقتا اللہ کی صفات کے ساتھ متصف ہو اور اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ کیا تم کسی بھی پاتے ہو جو اس کے نام سے موسوم ہوکیون کہ ایسے تو اللہ تعالیٰ کے بہت سے اسماء ہیں جن کا غیر اللہ پر بھی اطلاق ہوسکتا ہے یا ہوتا ہے لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا ہے کہ ان سے معافی بھی وہی مراد ہوں جو اللہ تعالیٰ پر اطلاق کے وقت ہوتے ہیں ۔ اور آیت : لَيُسَمُّونَ الْمَلائِكَةَ تَسْمِيَةَ الْأُنْثى[ النجم 27] اور وہ فرشتوں کو ( خدا کی ) لڑکیوں کے نام سے موسوم کرتے ہیں ۔ میں لڑکیوں کے نام سے موسوم کرنے کے معنی یہ ہیں ۔ کہ وہ فرشتوں کو بنات اللہ کہتے ہیں ۔- جَرْي - : المرّ السریع، وأصله كمرّ الماء، ولما يجري بجريه . يقال : جَرَى يَجْرِي جِرْيَة وجَرَيَاناً. قال عزّ وجل : وَهذِهِ الْأَنْهارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي [ الزخرف 51] وقال تعالی: جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمُ الْأَنْهارُ [ الكهف 31] ، وقال : وَلِتَجْرِيَ الْفُلْكُ [ الروم 46] ، وقال تعالی: فِيها عَيْنٌ جارِيَةٌ [ الغاشية 12] جریۃ وجریا وجریا نا کے معنی تیزی سے چلنے کے ہیں ۔ اصل میں یہ لفظ پانی اور پانی کی طرح چلنے والی چیزوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَهذِهِ الْأَنْهارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي [ الزخرف 51] اور یہ نہریں جو میرے ( محلوں کے ) نیچے بہ رہی ہیں ۔ میری نہیں ہیں ۔ جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمُ الْأَنْهارُ [ الكهف 31] باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں ۔ وَلِتَجْرِيَ الْفُلْكُ [ الروم 46] اور تاکہ کشتیاں چلیں فِيها عَيْنٌ جارِيَةٌ [ الغاشية 12] اس میں چشمے بہ رہے ہوں گے - رسا - يقال : رَسَا الشیء يَرْسُو : ثبت، وأَرْسَاهُ غيره، قال تعالی: وَقُدُورٍ راسِياتٍ [ سبأ 13] ، وقال تعالی: ارْكَبُوا فِيها بِسْمِ اللَّهِ مَجْراها وَمُرْساها - من : أجریت، وأَرْسَيْتُ ، فالمُرْسَى يقال للمصدر، والمکان، والزمان، والمفعول، وقرئ : ( مجريها ومرسيها) - ( ر س و ) رسا الشئی - ۔ ( ن ) کے معنی کسی چیز کے کسی جگہ پر ٹھہرنے اور استوار ہونے کے ہیں اور ارسٰی کے معنی ٹھہرانے اور استوار کردینے کے ۔ قرآن میں ہے : وَقُدُورٍ راسِياتٍ [ سبأ 13] اور بڑی بھاری بھاری دیگیں جو ایک پر جمی رہیں ۔ اور قرآن میں جو ہے ۔ ارْكَبُوا فِيها بِسْمِ اللَّهِ مَجْراها وَمُرْساها«3» اللہ کے نام سے اس کا چلنا اور لنگر انداز ہونا ہے ۔ تو یہ اجریت وارسیت ( باب افعال ) سے موخوذ ہے ۔ اور مرسی کا لفظ مصدر میمی آتا ہے اور صیغہ ظرف زمان ومکان اور اسم مفعول بھی استعمال ہوتا ہے اور آیت نذکورۃ الصدر میں ایک قرات وقرئ : ( مجريها ومرسيها) - بھی ہے ۔- غفر - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285]- ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ - رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین .- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] لوگو تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٤١) حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنے پیروکاروں سے فرمایا اس کشتی میں سوار ہوجاؤ اس کا چلنا اور اس کا ٹھہرنا سب اللہ ہی کے نام سے ہے یا یہہ کہ اللہ تعالیٰ ہی جہاں چاہے گا اس کو چلائے گا اور جس مقام پر چاہے گا اس کو روکے گا، میرے رب بہت ہی معاف فرمانے والا اور توبہ کرنے والے پر بہت ہی رحمتیں فرمانے والا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤١ (وَقَالَ ارْكَبُوْا فِيْهَا بِسْمِ اللّٰهِ مَجْــرٖ۩ىهَا وَمُرْسٰىهَا ) - جب تک اللہ چاہے گا اور جس سمت کو اسے چلائے گا یہ چلے گی اور جب اور جہاں اس کی مشیت ہوگی یہ لنگرانداز ہوجائے گی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة هُوْد حاشیہ نمبر :45 یہ ہے مومن کی اصلی شان ۔ وہ عالم اسباب میں ساری تدابیر قانون فطرت کے مطابق اسی طرح اختیار کرتا ہے جس طرح اہل دنیا کرتے ہیں ، مگر اس کا بھروسہ ان تدبیروں پر نہیں بلکہ اللہ پر ہوتا ہے اور وہ خوب سمجھتا ہے کہ اس کی کوئی تدبیر نہ تو ٹھیک شروع ہو سکتی ہے ، نہ ٹھیک چل سکتی ہے اور نہ آخری مطلوب تک پہنچ سکتی ہے جب تک اللہ کا فضل اور اس کا رحم و کرم شامل حال نہ ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani