Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

42۔ 1 یعنی جب زمین پر پانی تھا، حتٰی کے پہاڑ بھی پانی میں ڈوبے ہوئے تھے، یہ کشتی حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو دامن میں سمیٹے، اللہ کے حکم سے اور اس کی حفاظت میں پہاڑ کی طرح رواں دواں تھی۔ ورنہ اتنے طوفانی پانی میں کشتی کی حیثیت ہی کیا ہوتی ہے ؟ اسی لئے دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے اسے بطور احسان ذکر فرمایا۔ (اِنَّا لَمَّا طَغَا الْمَاۗءُ حَمَلْنٰكُمْ فِي الْجَارِيَةِ 11 ۝ ۙ لِنَجْعَلَهَا لَكُمْ تَذْكِرَةً وَّتَعِيَهَآ اُذُنٌ وَّاعِيَةٌ 12۝) 59 ۔ الحاقہ :12-11) جب پانی میں طغیانی آگئی تو اس وقت ہم نے تمہیں کشتی میں چڑھا لیا تاکہ اسے تمہارے لئے نصیحت اور یادگار بنادیں اور تاکہ یاد رکھنے والے کان اسے یاد رکھیں (وحملنہ علی ذات الواح ودسر تجری باعیننا جزاء لمن کان کفر) (القمر) اور ہم نے اسے تخنوں اور کیلوں والی کشتی میں سوار کرلیا جو ہماری آنکھوں کے سامنے چل رہی تھی بدلہ اسکی طرف سے جس کا کفر کیا گیا تھا۔ 42۔ 2 یہ حضرت نوح (علیہ السلام) کا چوتھا بیٹا تھا جس کا لقب کنعان اور نام یام تھا، اسے حضرت نوح (علیہ السلام) نے دعوت دی کہ مسلمان ہوجا اور کافروں کے ساتھ شامل رہ کر غرق ہونے والوں میں سے مت ہو۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤٨] طوفان کی کیفیت اور نوح (علیہ السلام) کا اپنے بیٹے کو نصیحت کرنا :۔ طوفان کی یہ صورت تھی کہ مسلسل چھ ماہ تک چشمے زمین سے پانی اگلتے رہے اور آسمان سے مسلسل بارش ہوتی رہی۔ حتیٰ کہ ٹیلے اور پہاڑ سب کچھ اس پانی میں ڈوب گئے کشتی پانی کے ساتھ ساتھ اوپر اٹھ رہی تھی اور جس طرح اللہ اسے چلاتا چلتی جارہی تھی۔ جب پانی ابھی اوپر اٹھ رہا تھا اور پانی کی سطح زمین سے خاصی بلند ہو رہی تھی اور پانی کی لہریں پہاڑ کی طرح اٹھ اٹھ کر ایک دوسرے سے ٹکرا رہی تھیں۔ اس دوران ایک واقعہ پیش آیا۔ نوح کا کافر بیٹا یام یا کنعان جسے کشتی میں سوار نہیں کیا گیا تھا ایک پہاڑی کے کنارے لگ کر کھڑا طوفان کی ہولناکیاں دیکھ رہا تھا۔ نوح (علیہ السلام) کی اس پر نظر پڑگئی تو پدرانہ شفقت نے جوش مارا اور اسے کہنے لگے بیٹے ایمان لے آؤ اور ہمارے ساتھ اس کشتی میں سوار ہوجاؤ اور کافروں کا ساتھ چھوڑ دو

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَهِىَ تَجْرِيْ بِهِمْ فِيْ مَوْجٍ كَالْجِبَالِ : پہاڑوں جیسی موجوں سے طوفان کے پانی کی وسعت، اس کی طغیانی اور جوش و غضب کے اندازے کے ساتھ کشتی کے مضبوط اور مستحکم ہونے کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ - وَنَادٰي نُوْحُۨ ابْنَهٗ ۔۔ : باپ کی شفقت دیکھیے کتنے پیار سے ” یبنی “ (اے میرے چھوٹے سے بیٹے یا اے میرے پیارے بیٹے) کہہ کر کشتی میں سوار ہونے کی دعوت دے رہے ہیں۔- وَلَا تَكُنْ مَّعَ الْكٰفِرِيْنَ : اس سے معلوم ہوا کہ اس بیٹے کی بربادی کا باعث کافروں کی مجلس اور ان کے ساتھ رہنا تھا، اگر وہ نوح (علیہ السلام) کی صحبت میں رہتا تو کفار کے ہتھے نہ چڑھتا۔ اتنے بڑے سیلاب کے وقت بھی وہ غرق ہوگیا مگر اس نے نوح (علیہ السلام) کے پاس آنا گوارا نہیں کیا۔ شیخ سعدی لکھتے ہیں ؂- پسر نوح بابداں بہ نشست - خاندان نبوتش گم شدہ - ” نوح (علیہ السلام) کا بیٹا بروں کے ساتھ بیٹھا تو اس سے نبوت کا خاندان ہی گم ہوگیا (وہ خاندان نبوت کا فرد ہی نہ رہا) ۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

دوسری اور تیسری آیت میں بتلایا کہ جب حضرت نوح (علیہ السلام) کے سب اہل و عیال کشتی میں سوار ہوگئے مگر ایک لڑکا جس کا نام کنعان بتلایا جاتا ہے سوار ہونے سے رہ گیا تو پدرانہ شفقت سے حضرت نوح (علیہ السلام) نے اس کو پکارا کہ ہمارے ساتھ کشتی میں آجاؤ، کافروں کے ساتھ نہ رہو کہ غرق ہوجاؤ گے، یہ لڑکا کافروں دشمنوں کے ساتھ ساز باز رکھتا تھا اور حقیقت میں کافر تھا مگر غالبا حضرت نوح (علیہ السلام) کو اس کے کافر ہونے کا یقینی طور پر علم نہ تھا اور اگر علم تھا تو کفر سے توبہ کرکے ایمان لانے کی دعوت کے طور پر اس کو کشتی میں سوار ہونے اور کافروں کا ساتھ چھوڑنے کی نصیحت فرمائی، مگر اس بد بخت نے اس وقت بھی طوفان کو سرسری سمجھا اور کہنے لگا کہ آپ فکر نہ کریں، میں پہاڑ پر چڑھ کر طوفان سے بچ جاؤں گا، حضرت نوح (علیہ السلام) نے پھر متنبہ کیا کہ ظالم کس خیال میں ہے آج کوئی اونچی عمارت یا پہاڑ کسی کو اللہ کے عذاب سے بچانے والا نہیں اور بچنے کی کوئی صورت بجز اس کے نہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی اس پر رحم فرماویں، باپ بیٹے کی یہ گفتگو دور سے چل ہی رہی تھی کہ ایک موج اس طوفان کی آئی اور بیٹے کو بہالے گئی، تاریخی روایات کے لحاظ سے چالیس گز اونچائی پر تھا۔- چوتھی آیت میں طوفان کے ختم ہونے اور حالات کے ہموار ہونے کا یبان اس طرح کیا گیا ہے کہ حق تعالیٰ نے زمین کو خطاب کرکے حکم دیا (آیت) يٰٓاَرْضُ ابْلَعِيْ مَاۗءَكِ ، اے زمین تو اپنا پانی نگل لے، مراد یہ تھی کہ جس قدر پانی زمین سے ابلا تھا اس کے لئے یہ حکم دے دیا کہ اس کو پھر زمین اپنے اندر اتار لے، آسمان کو حکم دیا گیا کہ اب پانی برسنا بند کردے، اس طرح زمین سے نکلا ہوا پانی پھر زمین میں چلا گیا اور آسمان سے آئندہ پانی برسنا بند ہوگیا، آسمان سے برسا ہوا جتنا پانی زمین پر موجود تھا اس کو قدرت نے دریاؤں اور نہروں کی شکل دے دیجس سے انسان فائدہ اٹھائے ( تفسیر قرطبی و مظہری) - اس آیت میں حق تعالیٰ نے آسمان اور زمین کو خطاب کرکے احکام دیئے ہیں، حالانکہ ظاہر نظر میں وہ کوئی ذی شعور چیزیں نہیں ہیں، اسی لئے بعض حضرات نے اس کو مجاز و استعارہ پر محمول کیا ہے، مگر واقعہ یہ ہے کہ ہماری نظر اور ہمارے اعتبار سے دنیا کی جتنی چیزیں بےشعور، بےحس، بےجان ہیں، حقیقت میں وہ سب ذی روح ذی شعور چیزیں ہیں البتہ ان کا شعور و ادراک اس درجہ کا نہیں جس درجہ کا انسان وغیرہ کو حاصل ہے اسی لئے ان کو غیر ذی شعور قرار دے کر احکام شرعیہ کا مکلف نہیں بنایا گیا، قرآن مجید کی بہت سی آیتیں اس پر شاہد ہیں جیسے (آیت) وَاِنْ مِّنْ شَيْءٍ اِلَّايُسَبِّحُ بِحَمْدِهٖ ، یعنی کوئی چیز ایسی نہیں جو اللہ تعالیٰ کی حمد و تسبیح نہ پڑھتی ہو، اور یہ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا اس کی معرفت پر موقوف ہے اور معرفت عقل و شعور پر، اس سے معلوم ہوا کہ ہر چیز میں عقل و شعور اپنے اپنے حوصلہ کے مطابق موجود ہے اسی عقل و شعور سے وہ اپنے خالق کو پہچانتی ہے اور جس کام پر اس کو اس کے پیدا کرنے والے نے لگا دیا ہے اس کام کو ہر چیز خوب سمجھتی ہے اور اس کی ادائیگی میں بڑی مضبوطی سے لگی ہوئی ہے، آیت قرآن (آیت) اعطی کل شیء خلقہ ثم ھدی، کا یہی مطلب ہے، اس لئے اس آیت میں اگر آسمان و زمین کے خطاب کو حقیقی معنی خطاب قرار دیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں، کیونکہ بقول رومی - خاک و باد و آب و آتش زندہ اند بامن و تو مردہ با حق زندہ اند

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَہِىَ تَجْرِيْ بِہِمْ فِيْ مَوْجٍ كَالْجِبَالِ۝ ٠ۣ وَنَادٰي نُوْحُۨ ابْنَہٗ وَكَانَ فِيْ مَعْزِلٍ يّٰبُنَيَّ ارْكَبْ مَّعَنَا وَلَا تَكُنْ مَّعَ الْكٰفِرِيْنَ۝ ٤٢- موج - المَوْج في البحر : ما يعلو من غوارب الماء . قال تعالی: فِي مَوْجٍ كَالْجِبالِ [هود 42] ، يَغْشاهُ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ مَوْجٌ [ النور 40] ومَاجَ كذا يَمُوجُ ، وتَمَوَّجَ تَمَوُّجاً : اضطرب اضطرابَ الموج . قال تعالی: وَتَرَكْنا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ [ الكهف 99]- ( م و ج ) الموج - سمندر سے پانی کی جو لہر مغرب کی طرف سے اٹھتی ہے اسے موج کہا جاتا ہے قرآن میں ہے ؛ ۔ فِي مَوْجٍ كَالْجِبالِ [هود 42] مہروں میں چلنے لگی ( لہریں کیا تھیں گویا پہاڑ ( تھے) يَغْشاهُ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ مَوْجٌ [ النور 40] جس پر چلی آتی ہو اور اس کے اوپر اور لہر آرہی ہے ماج کذا یموج وتموج تموجا موج کی طرح سضطرب ہونا۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَتَرَكْنا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ [ الكهف 99] اس ( روز ) ہم ان کو چھوڑ دیں گے ۔ کہ روئے زمین پر پھیل کر ) ایک دوسرے میں گھس جائیں ۔- جبل - الجَبَل جمعه : أَجْبَال وجِبَال، وقال عزّ وجل :- أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهاداً وَالْجِبالَ أَوْتاداً [ النبأ 6- 7] - ( ج ب ل )- قرآن میں ہے : ۔ أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهاداً وَالْجِبالَ أَوْتاداً [ النبأ 6- 7] کیا ہم نے زمین کو بچھونا نہیں بنایا " ۔ اور پہاڑوں کو ( اس کی میخیں ) نہیں ٹھہرایا ؟- ندا - النِّدَاءُ : رفْعُ الصَّوت وظُهُورُهُ ، وقد يقال ذلک للصَّوْت المجرَّد، وإيّاه قَصَدَ بقوله : وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] أي : لا يعرف إلّا الصَّوْت المجرَّد دون المعنی الذي يقتضيه تركيبُ الکلام . ويقال للمرکَّب الذي يُفْهَم منه المعنی ذلك، قال تعالی: وَإِذْ نادی رَبُّكَ مُوسی[ الشعراء 10] وقوله : وَإِذا نادَيْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ [ المائدة 58] ، أي : دَعَوْتُمْ ، وکذلك : إِذا نُودِيَ لِلصَّلاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ [ الجمعة 9] ونِدَاءُ الصلاة مخصوصٌ في الشَّرع بالألفاظ المعروفة، وقوله : أُولئِكَ يُنادَوْنَمِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت 44] فاستعمال النّداء فيهم تنبيها علی بُعْدهم عن الحقّ في قوله : وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ مِنْ مَكانٍ قَرِيبٍ [ ق 41] ، وَنادَيْناهُ مِنْ جانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ [ مریم 52] ، وقال : فَلَمَّا جاءَها نُودِيَ [ النمل 8] ، وقوله : إِذْ نادی رَبَّهُ نِداءً خَفِيًّا [ مریم 3] فإنه أشار بِالنِّدَاء إلى اللہ تعالی، لأنّه تَصَوَّرَ نفسَهُ بعیدا منه بذنوبه، وأحواله السَّيِّئة كما يكون حال من يَخاف عذابَه، وقوله : رَبَّنا إِنَّنا سَمِعْنا مُنادِياً يُنادِي لِلْإِيمانِ- [ آل عمران 193] فالإشارة بالمنادي إلى العقل، والکتاب المنزَّل، والرّسول المُرْسَل، وسائر الآیات الدَّالَّة علی وجوب الإيمان بالله تعالی. وجعله منادیا إلى الإيمان لظهوره ظهورَ النّداء، وحثّه علی ذلك كحثّ المنادي . وأصل النِّداء من النَّدَى. أي : الرُّطُوبة، يقال : صوت نَدِيٌّ رفیع، واستعارة النِّداء للصَّوْت من حيث إنّ من يَكْثُرُ رطوبةُ فَمِهِ حَسُنَ کلامُه، ولهذا يُوصَفُ الفصیح بکثرة الرِّيق، ويقال : نَدًى وأَنْدَاءٌ وأَنْدِيَةٌ ، ويسمّى الشَّجَر نَدًى لکونه منه، وذلک لتسمية المسبَّب باسم سببِهِ وقول الشاعر - كَالْكَرْمِ إذ نَادَى مِنَ الكَافُور أي : ظهر ظهورَ صوتِ المُنادي، - ( ن د ی ) الندآ ء - کے معنی آواز بلند کرنے کے ہیں اور کبھی نفس آواز پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] جو لوگ کافر ہیں ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ میں اندر سے مراد آواز و پکار ہے یعنی وہ چو پائے صرف آواز کو سنتے ہیں اور اس کلام سے جو مفہوم مستناد ہوتا ہے اسے ہر گز نہیں سمجھتے ۔ اور کبھی اس کلام کو جس سے کوئی معنی مفہوم ہوتا ہو اسے ندآء کہہ دیتے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے ۔ وَإِذْ نادی رَبُّكَ مُوسی[ الشعراء 10] اور جب تمہارے پروردگار نے موسیٰ کو پکارا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذا نادَيْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ [ المائدة 58] اور جب تم لوگ نماز کے لئے اذان دیتے ہو ۔ میں نماز کے لئے اذان دینا مراد ہے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : ۔ إِذا نُودِيَ لِلصَّلاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ [ الجمعة 9] جب جمعے کے دن نماز کے لئے اذان دی جائے ۔ میں بھی نداء کے معنی نماز کی اذان دینے کے ہیں اور شریعت میں ند اء الصلوۃ ( اذان ) کے لئے مخصوص اور مشہور کلمات ہیں اور آیت کریمہ : ۔ أُولئِكَ يُنادَوْنَ مِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت 44] ان کو گویا دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے : ۔ میں ان کے متعلق نداء کا لفظ استعمال کر کے متنبہ کیا ہے کہ وہ حق سے بہت دور جا چکے ہیں ۔ نیز فرمایا ۔ وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ مِنْ مَكانٍ قَرِيبٍ [ ق 41] اور سنو جس دن پکارنے والا نزدیک کی جگہ سے پکارے گا ۔ وَنادَيْناهُ مِنْ جانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ [ مریم 52] اور ہم نے ان کو طور کے ذہنی جانب سے پکارا فَلَمَّا جاءَها نُودِيَ [ النمل 8] جب موسیٰ ان ان کے پاس آئے تو ندار آئی ۔ ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِذْ نادی رَبَّهُ نِداءً خَفِيًّا [ مریم 3] جب انہوں نے اپنے پروردگار کو دبی آواز سے پکارا میں اللہ تعالیٰ کے متعلق نادی کا لفظ استعمال کرنے سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ زکریا (علیہ السلام) نے اپنے گناہ اور احوال سینہ کے باعث اس وقت اپنے آپ کو حق اللہ تعالیٰ سے تصور کیا تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرنے والے کی حالت ہوتی ہے اور آیت کریمہ ؛ ۔ رَبَّنا إِنَّنا سَمِعْنا مُنادِياً يُنادِي لِلْإِيمانِ [ آل عمران 193] اے پروردگار ہم نے ایک ندا کرنے والے کو سنا ۔ جو ایمان کے لئے پکاررہا تھا ۔ میں منادیٰ کا لفظ عقل کتاب منزل رسول مرسل اور ان آیات الہیہ کو شامل ہے جو ایمان باللہ کے وجوب پر دلالت کرتی ہیں اور ان چیزوں کو منادی للا یمان اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ ندا کی طرح ظاہر ہوتی ہیں اور وہ پکارنے والے کی طرح ایمان لانے کی طرف دعوت دے رہی ہیں ۔ اصل میں نداء ندی سے ہے جس کے معنی رطوبت نمی کے ہیں اور صوت ندی کے معنی بلند آواز کے ہیں ۔ اور آواز کے لئے نداء کا استعارہ اس بنا پر ہے کہ جس کے منہ میں رطوبت زیادہ ہوگی اس کی آواز بھی بلند اور حسین ہوگی اسی سے فصیح شخص کو کثرت ریق کے ساتھ متصف کرتے ہیں اور ندی کے معنی مجلس کے بھی آتے ہیں اس کی جمع انداء واندید آتی ہے ۔ اور در خت کو بھی ندی کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ وہ نمی سے پیدا ہوتا ہے اور یہ تسمیۃ المسبب با سم السبب کے قبیل سے ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( 420 ) کالکرم اذا نادٰی من الکافور جیسا کہ انگور کا خوشہ غلاف ( پردہ ) سے ظاہر ہوتا ہے ۔ جیسا کہ منادی کرنے والے کی آواز ہوتی ہے ۔ - - عزل - الاعْتِزَالُ : تجنّب الشیء عمالة کانت أو براءة، أو غيرهما، بالبدن کان ذلک أو بالقلب، يقال : عَزَلْتُهُ ، واعْتَزَلْتُهُ ، وتَعَزَّلْتُهُ فَاعْتَزَلَ. قال تعالی: وَإِذِ اعْتَزَلْتُمُوهُمْ وَما يَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ الكهف 16] - ( ع ز ل ) الا عتزال - کے معنی ہیں کسی چیز سے کنارہ کش ہوجانا عام اس سے کہ وہ چیز کوئی پیشہ ہو یا کوئی بات وغیرہ ہو جس سے بری ہونے کا اعلان کیا جائے نیز وہ علیحدہ گی بذریعہ بدن کے ہو یا بذریعہ دل کے دنوں قسم کی علیحگی پر بولا جاتا ہے عزلتہ واعتزلتہ وتعزلتہ میں نے اس کو علیحہ فاعتزل چناچہ وہ علیحہ ہ ہوگیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذِ اعْتَزَلْتُمُوهُمْ وَما يَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ الكهف 16] اور جب تم نے ان مشرکوں سے اور جن کی یہ خدا کے سوا عبادت کرتے ہیں ان سے کنارہ کرلیا ۔ - كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٤٢) اور وہ کشتی ان کو لے کر عظیم الشان موجوں میں چلنے لگی اور حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنے بیٹے کنعان کو پکارا وہ کشتی سے الگ کسی پہاڑ کی چوٹی پر تھا کہ اے بیٹے کلمہ ”۔ لاالہ اللہ “۔ کہہ کر ہمارے ساتھ سوار ہوجا اور عقیدہ میں کافروں کے ساتھ مت ہو کہ کہیں تو بھی طوفان میں غرق ہوجائے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

23: حضرت نوح علیہ السلام کے اور بیٹے تو کشتی میں سوار ہوگئے تھے، مگر ایک بیٹا جس کا نام کنعان بتایا جاتا ہے، کافر تھا، اور کافروں ہی کے ساتھ اُٹھتا بیٹھتا، وہ کشتی میں سوار نہیں ہوا تھا۔ حضرت نوح علیہ السلام کو یا تو علم نہیں تھا کہ وہ کافر ہے، اور وہ محض یہ سمجھتے تھے کہ اس کی صحبت خراب ہے، یا کافر ہونے کا علم تھا، مگر یہ چاہتے تھے کہ وہ مسلمان ہوجائے، اس لئے پہلے اُسے کشتی میں سوار ہونے کی دعوت دی، پھر وہ دُعا فرمائی جو آگے آیت:۴۵ میں آرہی ہے کہ اُس کو بھی کشتی میں سوار ہونے کی اجازت مل جائے، یعنی اگر کافر ہے تو اُسے اِیمان کی توفیق ہوجائے۔ چونکہ اﷲ تعالیٰ نے یہ وعدہ فرمایا تھا کہ حضرت نوح علیہ السلام کے سارے گھر والے جو صاحب اِیمان ہوں گے، انہیں عذاب سے نجات ملے گی، اس لئے حضرت نوح علیہ السلام نے اس وعدے کا حوالہ بھی دیا۔ اﷲ تعالیٰ نے جواب میں فرمایا کہ وہ کافر ہے، اور اس کے مقدر میں ایمان نہیں ہے، اس لئے وہ درحقیقت تمہارے گھر والوں میں شامل ہی نہیں ہے۔ یہ بات تمہارے علم میں نہیں تھی کہ اُس کے مقدر میں ایمان نہیں، اس لئے تم نے اس کی نجات یا ایمان کی دُعا مانگی۔ اگلی آیت میں جو ارشاد ہے کہ :’’ مجھ سے ایسی چیز نہ مانگو جس کی تمہیں خبر نہیں۔‘‘ اُس کا یہی مطلب ہے۔