طوفان نوح کا آخری منظر کشتی ٹھہری اور اللہ کا سلام آپ پر اور آپ کے تمام مومن ساتھیوں پر اور ان کی اولاد میں سے قیامت تک جو ایماندار آنے والے ہیں سب پر نازل ہوا ۔ ساتھ ہی کافروں کے دنیوی فائدے سے مستفید ہو نے اور پھر عذاب میں گرفتار ہو نے کا بھی اعلان ہوا ۔ پس یہ آیت قیامت تک کے مومنوں کی سلامتی اور برکت اور کافروں کی سزا پر مبنی ہے ۔ امام ابن اسحاق کا بیان ہے کہ جب جناب باری جل شانہ نے طوفان بند کرنے کا ارادہ فرما لیا تو روئے زمین پر ایک ہوا بھیج دی جس نے پانی کو ساکن کر دیا اور اس کا اُبلنا بند ہو گیا ساتھ ہی آسمان کے دروازے بھی جو اب تک پانی برسا رہے تھے بند کر دئیے گئے ۔ زمین کو پانی کے جذب کر لینے کا حکم ہو گیا اسی وقت پانی کم ہونا شروع ہو گیا اور بقول اہل توراۃ کے ساتویں مہینے کی سترہویں تاریخ کشتی نوح جودی پر لگی ۔ دسویں مہینے کی پہلی تاریخ کو پہاڑوں کی چوٹیاں کھل گئیں ۔ اس کے چالیس دن کے بعد کشتی کے روزن پانی کے اوپر دکھائی دینے لگے ۔ پھر آپ نے کوے کو پانی کی تحقیق کے لیے بھیجا لیکن وہ پلٹ کر نہ آیا ، آپ نے کبوتر کو بھیجا جو واپس آیا ۔ اپنے پاؤں رکھنے کو اسے جگہ نہ ملی ، آپ نے اپنے ہاتھ پر لے کر اسے اندر لے لیا ، پھر ساتھ دن کے بعد اسے دوبارہ بھیجا ۔ شام کو وہ واپس آیا ، اپنی چونچ میں زیتون کا پتہ لیے ہوئے تھا اس سے اللہ کے نبی نے معلوم کر لیا کہ پانی زمین سے کچھ ہی اونچا رہ گیا ہے ۔ پھر سات دن کے بعد بھیجا اب کی مرتبہ وہ نہ لوٹا تو آپ نے سمجھ لیا کہ زمین بالکل خشک ہو چکی ہے ۔ الغرض پورے ایک سال کے بعد حضرت نوح علیہ السلام نے کشتی کا سرپوش اٹھایا اور آواز آئی کہ اے نوح ہماری نازل کردہ سلامتی کے ساتھ اب اتر آؤ الخ ۔
48۔ 1 یہ اترنا کشتی سے یا اس پہاڑ سے ہے جس پر کشتی جا کر ٹھہر گئی تھی۔ 48۔ 2 اس سے مراد یا تو وہ گروہ ہیں جو حضرت نوح (علیہ السلام) کے ساتھ کشتی میں سوار تھے، یا آئندہ ہونے والے وہ گروہ ہیں جو ان کی نسل سے ہونے والے تھے، اگلے فقرے کے پیش نظر یہی دوسرا مفہوم زیادہ صحیح ہے۔ 48۔ 3 یہ وہ گروہ ہیں جو کشتی میں بچ جانے والوں کی نسل سے قیامت تک ہوں گے۔ مطلب یہ ہے کہ ان کافروں کو دنیا کی چند روزہ زندگی گزارنے کے لئے ہم دنیا کا سازو سامان ضرور دیں گے لیکن بالآخر عذاب الیم سے دو چار ہوں گے۔
[٥٣] نوح اور آپ کے ساتھیوں کا پھر زمین پر آباد ہونا :۔ جب کشتی جودی پہاڑ پر ٹک گئی تو نوح (علیہ السلام) کو بذریعہ وحی مطلع کیا گیا کہ اب پانی نہیں چڑھے گا بلکہ اترتا چلا جائے گا لہذا کشتی سے سب سوار بخیر و عافیت اتر آؤ۔ یہ لوگ پہلے جودی پہاڑ پر اترے پھر آہستہ آہستہ زمین کے خشک ہونے پر زمین پر اتر آئے اس سیلاب کے بعد زمین سے پھل اور غلہ بافراط پیدا ہوئے جس سے نوح (علیہ السلام) کے ساتھی خوشحال ہوگئے اور امن و چین سے پھر زمین پر آباد ہو کر رہنے لگے۔ ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے یہ خبر بھی دے دی کہ ان لوگوں کی اولاد سے بھی سرکش لوگ پیدا ہوں گے تو انھیں بھی اللہ اپنے دستور کے مطابق عذاب سے دوچار کرے گا۔
قِيْلَ يٰنُوْحُ اهْبِطْ بِسَلٰمٍ مِّنَّا وَبَرَكٰتٍ عَلَيْكَ : یعنی ہماری طرف سے اپنے آپ پر اور اپنے ساتھ والے لوگوں پر سلامتی اور بیشمار برکتیں لے کر کشتی سے زمین پر اترو۔- وَعَلٰٓي اُمَمٍ مِّمَّنْ مَّعَكَ : یعنی ان تمام مومنوں پر جو قیامت تک تمہاری اور تمہارے ساتھ والوں کی نسل سے پیدا ہوں گے، لیکن ان ساتھ والوں سے نسل صرف نوح (علیہ السلام) کے بیٹوں کی چلی، جیسا کہ فرمایا : (وَجَعَلْنَا ذُرِّيَّتَهٗ هُمُ الْبٰقِيْنَ ) [ الصافآت : ٧٧ ] ” اور ہم نے اس کی اولاد ہی کو باقی رہنے والے بنادیا۔ “- وَاُمَمٌ سَنُمَتِّعُهُمْ ثُمَّ يَمَسُّهُمْ ۔۔ : حق تعالیٰ نے تسلی فرما دی کہ اس کے بعد ساری نوع انسانیت پر ہلاکت نہیں آئے گی، ہاں بعض فرقے ہلاک ہوں گے۔ (موضح) ہلاک ہونے والے فرقوں سے مراد وہ تمام کافر ہیں جو نوح (علیہ السلام) کی نسل سے پیدا ہوئے یا قیامت تک پیدا ہوں گے۔
چوتھی آیت میں قصہ طوفان کا خاتمہ اس طرح بیان فرمایا کہ جب طوفان ختم ہوچکا اور حضرت نوح (علیہ السلام) کی کشتی جودی پہاڑ پر ٹھہر گئی، اور زمین کا پانی زمین نے نگل لیا، اور آسمان کا باقی ماندہ پانی نہروں، دریاؤں کی شکل میں محفوظ ہوگیا، جس کے نتیجہ میں زمین انسانی رہائش کے قابل ہوگئی تو حضرت نوح (علیہ السلام) سے کہا گیا کہ اب آپ پہاڑ سے زمین پر اتریئے، اور کوئی فکر نہ کیجئے کیونکہ آپ کے ساتھ ہماری طرف سے سلامتی اور برکتیں ہوں گی، یعنی آفات اور مصائب سے سلامتی اور مال و اولاد میں وسعت و برکت ہوگی۔ اس ارشاد کے مطابق طوفان کے بعد دنیا میں ساری انسانی آبادی حضرت نوح (علیہ السلام) کی اولاد ہے، قرآن کریم نے دوسری جگہ فرمایا (آیت) وجعلنا ذریتہ ھم الباقین، یعنی اس واقعہ کے بعد دنیا میں باقی رہنے والی سب قومیں صرف نوح (علیہ السلام) ہی کی ذریت و اولاد ہوں گی، اسی لئے حضرت نوح (علیہ السلام) کو اہل تاریخ آدم ثانی کا نام دیتے ہیں۔- پھر یہ سلامت و برکت کا وعدہ جو حضرت نوح (علیہ السلام) سے کیا گیا ہے صرف ان کی ذات تک محدود نہیں بلکہ فرمایا گیا (آیت) وَعَلٰٓي اُمَمٍ مِّمَّنْ مَّعَكَ ، یعنی جو امتیں اور جماعتیں آپ کے ساتھ کشتی میں سوار ہیں ان پر بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے سلامتی اور برکت نازل ہوگی، حضرت نوح (علیہ السلام) کے ساتھ کشتی میں سوار ہونے والوں کو آیت میں امم کے لفظ سے تعبیر کیا ہے جو امہ کی جمع ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ یہ کشتی میں سوار ہونے والے مختلف قوموں اور امتوں پر مشتمل تھے حالانکہ پہلے معلوم ہوچکا ہے کہ کشتی میں سوار ہونے والے زیادہ تر حضرت نوح (علیہ السلام) کے خاندان کے لوگ تھے اور معدودے چند دوسرے مومن بھی تھے، تو ان لوگوں کو مختلف امتیں اور قومیں اس لحاظ سے فرمایا گیا ہے کہ ان کی آنے والی نسلوں میں مختلف امتیں اور قومیں ہوں گی، اس سے معلوم ہوا کہ اُمَمٍ مِّمَّنْ مَّعَكَ ، کے الفاظ میں وہ تمام نسل انسانی داخل ہے جو قیامت تک پیدا ہوگی۔- اسی لئے اس کی ضرورت پڑی کہ سلامت و برکت کے مضمون میں تفصیل کی جائے کیونکہ قیامت تک آنے والی نسل انسانی میں تو مومن بھی ہوں گے کافر بھی، مومن کے لئے تو سلامت و برکت اپنے عام مفہوم کے اعتبار سے درست ہے کہ دنیا میں بھی ان کو سلامت و برکت نصیب ہوگی آخرت میں بھی، لیکن اسی نسل میں جو کفار ہوں گے وہ تو جہنم کے دائمی عذاب میں مبتلا ہوں گے، ان کو سلامت و برکت کا محل قرار دینا کس طرح صحیح ہوگا اس لئے آخر آیت میں فرمایا (آیت) وَاُمَمٌ سَنُمَتِّعُهُمْ ثُمَّ يَمَسُّهُمْ مِّنَّا عَذَابٌ اَلِيْمٌ، یعنی دنیا کی سلامت و برکت تو اللہ تعالیٰ کا خوان یغما ہے جس سے دوست دشمن سبھی کھاتے پیتے ہیں اس میں وہ لوگ بھی شریک ہوں گے جو نوح (علیہ السلام) کی اولاد میں کفر اختیار کریں گے لیکن آخرت کی نجات و فلاح یہ صرف مؤمنین کے لئے مخصوص ہوگی، کافر کا اس کے نیک اعمال کا بدلہ دنیا ہی میں دے دلا کر فارغ کردیا جائے گا، آخرت میں اس کے لئے بجز عذاب کے کچھ نہ ہوگا۔- طوفان نوح کی یہ تفصیلی خبریں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بذریعہ وحی معلوم کرکے اپنی قوم کو سنائیں تو یہ واقعہ خود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نبی برحق ہونے کی ایک شہادت بن گیا، اس پر متنبہ کرنے کے لئے پانچویں آیت میں ارشاد فرمایا کہ نوح (علیہ السلام) اور ان کے طوفان کے واقعات یہ غیب کی خبریں ہیں جن کو نہ آپ پہلے سے جانتے تھے اور نہ آپ کی قوم، عرب ہی اس سے واقف تھے آپ نے ان کو بتلایا تو اس کا راستہ بجز اس کے کیا ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی نے بذریعہ وحی آپ کو بتلایا ہے، کیونکہ اگر آپ کی قوم کے لوگ لکھے پڑھے اور تاریخ عالم سے واقفیت رکھنے والے ہوتے تو یہ خیال بھی ہوسکتا تھا کہ آپ نے ان لوگوں سے سن کر یہ واقعات بیان کردیئے ہیں، لیکن جبکہ پوری قوم بھی ان واقعات سے بیخبر تھی، اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تعلیم حاصل کرنے کے لئے کبھی کسی دوسرے ملک میں تشریف نہیں لے گئے تو اس خبر کا راستہ صرف وحی متعین ہوگیا جو نبی کے پیغمبر برحق ہونے کی واضح دلیل ہے۔
قِيْلَ يٰنُوْحُ اہْبِطْ بِسَلٰمٍ مِّنَّا وَبَرَكٰتٍ عَلَيْكَ وَعَلٰٓي اُمَمٍ مِّمَّنْ مَّعَكَ ٠ ۭ وَاُمَمٌ سَنُمَتِّعُہُمْ ثُمَّ يَمَسُّہُمْ مِّنَّا عَذَابٌ اَلِيْمٌ ٤٨- هبط - الهُبُوط : الانحدار علی سبیل القهر كهبوط الحجر، والهَبُوط بالفتح : المنحدر . يقال :- هَبَطْتُ أنا، وهَبَطْتُ غيري، يكون اللازم والمتعدّي علی لفظ واحد . قال تعالی: وَإِنَّ مِنْها لَما يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ [ البقرة 74] يقال : هَبَطْتُ وهَبَطْتُهُ هَبْطاً ، وإذا استعمل في الإنسان الهُبُوط فعلی سبیل الاستخفاف بخلاف الإنزال، فإنّ الإنزال ذكره تعالیٰ في الأشياء التي نبّه علی شرفها، كإنزال الملائكة والقرآن والمطر وغیر ذلك . والهَبُوطُ ذکر حيث نبّه علی الغضّ نحو : وَقُلْنَا اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة 36] ، فَاهْبِطْ مِنْها فَما يَكُونُ لَكَ أَنْ تَتَكَبَّرَ فِيها [ الأعراف 13] ، اهْبِطُوا مِصْراً فَإِنَّ لَكُمْ ما سَأَلْتُمْ [ البقرة 61] ولیس في قوله : فَإِنَّ لَكُمْ ما سَأَلْتُمْ [ البقرة 61] تعظیم وتشریف، ألا تری أنه تعالیٰ قال :- وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ وَباؤُ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ [ البقرة 61] ، وقال جلّ ذكره : قُلْنَا اهْبِطُوا مِنْها جَمِيعاً [ البقرة 38] ويقال : هَبَطَ المَرَضُ لحم العلیل : حطّه عنه، والهَبِيط :- الضّامر من النّوق وغیرها إذا کان ضمره من سوء غذاء، وقلّة تفقّد .- ( ھ ب ط ) الھبوط - ( ض ) کے معنی کسی چیز کے قہرا یعنی بےاختیار ی کی حالت میں نیچے اتر آنا کے ہیں جیسا کہ پتھر بلندی سے نیچے گر پڑتا ہے اور الھبوط ( بفتح لہاء ) صیغہ صفت ہے یعنی نیچے گر نے والی چیز ھبط ( فعل لازم اور متعدی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے جیسے انا میں نیچے اتار دیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنَّ مِنْها لَما يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ [ البقرة 74] اور بعض پتھر ایسے بھی ( ہوتے ہیں ) جو اللہ کے ڈر سے گر پڑتے ہیں ۔ اور جب لفظ ھبوط انسان کے لئے بولا جاتا ہے تو اس میں استخفاف اور حقارت کا پہلو پایا جاتا ہے بخلاف لفظ انزال ( الا فعال کے کہ اسے اللہ تعالیٰ نے بہت سے موقعوں پر با شرف چیزوں کے لئے استعمال کیا گیا ہے جیسے ملائکہ قرآن بارش وغیرہ اور جہاں کہیں کسی چیز کے حقیر ہونے پر تنبیہ مقصؤد ہے وہاں لفظ ھبوط استعمال کیا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَقُلْنَا اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة 36] اور ہم نے حکم دیا کہ تم ( سب ) اتر جاؤ تم ایک کے دشمن ایک ۔ فَاهْبِطْ مِنْها فَما يَكُونُ لَكَ أَنْ تَتَكَبَّرَ فِيها [ الأعراف 13] تو بہشت سے نیچے اتر کیونکہ تیری ہستی نہیں کہ تو بہشت میں رہ کر شیخی مارے ۔ اهْبِطُوا مِصْراً فَإِنَّ لَكُمْ ما سَأَلْتُمْ [ البقرة 61] اچھا تو ) کسی شہر میں اتر پڑوں کہ جو مانگتے ہو ( وہاں تم کو ملے گا ۔ یہاں یہ نہ سمجھنا چاہیئے کہ سے ان کا شرف ظاہر ہوتا ہے کیونکہ اس کے مابعد کی آیت : ۔ وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ وَباؤُ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ [ البقرة 61] اور ان پر ذلت اور محتاجی لیسدی گئی اور وہ خدا کے غضب میں آگئے ان ہم کو دور کرنے کے لئے کافی ہے ۔ قُلْنَا اهْبِطُوا مِنْها جَمِيعاً [ البقرة 38] ہم نے حکم دیا کہ تم سب کے سب ) یہاں سے اتر جاؤ محاورہ ہے ھیط المرض لھم العلیل بیمار ینے اس کے گوشت کو کم کردیا یعنی ( لاغر کردیا اور الھبط اونٹ وغیرہ کو کہتے ہیں جو غذا کے ناقص اور مالک کی بےاعتنائی کی وجہ سے لاغر ہوجائے ۔- برك - أصل البَرْك صدر البعیر وإن استعمل في غيره، ويقال له : بركة، وبَرَكَ البعیر : ألقی بركه، واعتبر منه معنی اللزوم، فقیل : ابْتَرَكُوا في الحرب، أي : ثبتوا ولازموا موضع الحرب، وبَرَاكَاء الحرب وبَرُوكَاؤُها للمکان الذي يلزمه الأبطال، وابْتَرَكَتِ الدابة : وقفت وقوفا کالبروک، وسمّي محبس الماء بِرْكَة، والبَرَكَةُ : ثبوت الخیر الإلهي في الشیء .- قال تعالی: لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 96]- ( ب رک ) البرک - اصل میں البرک کے معنی اونٹ کے سینہ کے ہیں ( جس پر وہ جم کر بیٹھ جاتا ہے ) گو یہ دوسروں کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے اور اس کے سینہ کو برکۃ کہا جاتا ہے ۔ برک البعیر کے معنی ہیں اونٹ اپنے گھٹنے رکھ کر بیٹھ گیا پھر اس سے معنی لزوم کا اعتبار کر کے ابترکوا ا فی الحرب کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی میدان جنگ میں ثابت قدم رہنے اور جم کر لڑنے کے ہیں براکاء الحرب الحرب وبروکاءھا سخت کا ر زار جہاں بہ اور ہی ثابت قدم رہ سکتے ہوں ۔ ابترکت الدبۃ چو پائے کا جم کر کھڑا ہوجانا برکۃ حوض پانی جمع کرنے کی جگہ ۔ البرکۃ کے معنی کسی شے میں خیر الہٰی ثابت ہونا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 96] تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکات - ( کے دروازے ) کھول دیتے ۔ یہاں برکات سے مراد بارش کا پانی ہے اور چونکہ بارش کے پانی میں اس طرح خیر ثابت ہوتی ہے جس طرح کہ حوض میں پانی ٹہر جاتا ہے اس لئے بارش کو برکات سے تعبیر کیا ہے ۔- الأُمّة :- كل جماعة يجمعهم أمر ما إمّا دين واحد، أو زمان واحد، أو مکان واحد سواء کان ذلک الأمر الجامع تسخیرا أو اختیارا، وجمعها : أمم، وقوله تعالی: وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثالُكُمْ [ الأنعام 38] أي : كل نوع منها علی طریقة قد سخرها اللہ عليها بالطبع، فهي من بين ناسجة کالعنکبوت، وبانية کالسّرفة «4» ، ومدّخرة کالنمل ومعتمدة علی قوت وقته کالعصفور والحمام، إلى غير ذلک من الطبائع التي تخصص بها كل نوع . وقوله تعالی: كانَ النَّاسُ أُمَّةً واحِدَةً [ البقرة 213] أي : صنفا واحدا وعلی طریقة واحدة في الضلال والکفر، وقوله : وَلَوْ شاءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ أُمَّةً واحِدَةً [هود 118] أي : في الإيمان، وقوله : وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ [ آل عمران 104] أي : جماعة يتخيّرون العلم والعمل الصالح يکونون أسوة لغیرهم، وقوله : إِنَّا وَجَدْنا آباءَنا عَلى أُمَّةٍ [ الزخرف 22] أي : علی دين مجتمع . قال : وهل يأثمن ذو أمّة وهو طائع وقوله تعالی: وَادَّكَرَ بَعْدَ أُمَّةٍ [يوسف 45] أي : حين، وقرئ ( بعد أمه) أي : بعد نسیان . وحقیقة ذلك : بعد انقضاء أهل عصر أو أهل دين . وقوله : إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً قانِتاً لِلَّهِ [ النحل 120] أي : قائما مقام جماعة في عبادة الله، نحو قولهم : فلان في نفسه قبیلة . وروي :«أنه يحشر زيد بن عمرو بن نفیل أمّة وحده» وقوله تعالی: لَيْسُوا سَواءً مِنْ أَهْلِ الْكِتابِ أُمَّةٌ قائِمَةٌ [ آل عمران 113] أي : جماعة، وجعلها الزجاج هاهنا للاستقامة، وقال : تقدیره : ذو طریقة واحدة فترک الإضمار أولی.- الامۃ - ہر وہ جماعت جن کے مابین رشتہ دینی ہو یا وہ جغرافیائی اور عصری وحدت میں منسلک ہوں پھر وہ رشتہ اور تعلق اختیاری اس کی جمع امم آتی ہے اور آیت کریمہ :۔ وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُمْ ( سورة الأَنعام 38) اور زمین پر جو چلنے پھر نے والے ( حیوان ) دو پروں سے اڑنے والے پرند ہیں وہ بھی تمہاری طرح جماعتیں ہیں ۔ میں امم سے ہر وہ نوع حیوان مراد ہے جو فطری اور ت سخیری طور پر خاص قسم کی زندگی بسر کر رہی ہو ۔ مثلا مکڑی جالا بنتی ہے اور سرفۃ ( مور سپید تنکوں سے ) اپنا گھر بناتی ہے اور چیونٹی ذخیرہ اندوزی میں لگی رہتی ہے اور چڑیا کبوتر وغیرہ وقتی غذا پر بھروسہ کرتے ہیں الغرض ہر نوع حیوان اپنی طبیعت اور فطرت کے مطابق ایک خاص قسم کی زندگی بسر کر رہی ہے اور آیت کریمہ :۔ كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً ( سورة البقرة 213) ( پہلے تو سب ) لوگ ایک امت تھے ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تما لوگ صنف واحد اور ضلالت و کفر کے ہی کے مسلک گامزن تھے اور آیت کریمہ :۔ وَلَوْ شَاءَ اللهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً ( سورة المائدة 48) اور اگر خدا چاہتا تو تم سب کو ہی شریعت پر کردیتا ۔ میں امۃ واحدۃ سے وحدۃ بحاظ ایمان مراد ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ ( سورة آل عمران 104) کے معنی یہ ہیں کہ تم میں سے ایک جماعت ایسی بھی ہونی چاہیے جو علم اور عمل صالح کا راستہ اختیار کرے اور دوسروں کے لئے اسوۃ بنے اور آیت کریمہ ؛۔ إِنَّا وَجَدْنَا آبَاءَنَا عَلَى أُمَّةٍ ( سورة الزخرف 22 - 23) ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک متفقہ دین پر پایا ہے ۔ میں امۃ کے معنی دین کے ہیں ۔ چناچہ شاعر نے کہا ہی ع (25) وھل یاثمن ذوامۃ وھوطائع ( طویل ) بھلا کوئی متدین آدمی رضا اور رغبت سے گناہ کرسکتا ہے اور آیت کریمہ :۔ وَادَّكَرَ بَعْدَ أُمَّةٍ ( سورة يوسف 45) میں امۃ کے معنی حین یعنی عرصہ دارز کے ہیں اور ایک قرات میں بعد امہ ( ربالھاء ) ہے یعنی نسیان کے بعد جب اسے یاد آیا ۔ اصل میں بعد امۃ کے معنی ہیں ایک دور یا کسی ایک مذہب کے متبعین کا دورگزر جانے کے بعد اور آیت کریمہ :۔ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةً قَانِتًا ( سورة النحل 120) کے معنی یہ ہیں کہ حضرت ابراہیم عبادت الہی میں ایک جماعت اور قوم بمنزلہ تھے ۔ جس طرح کہ محاورہ ہے ۔ فلان فی نفسہ قبیلۃ کہ فلاں بذات خود ایک قبیلہ ہے یعنی ایک قبیلہ کے قائم مقام ہے (13) وروی انہ یحشر زیدبن عمرابن نفیل امۃ وحدہ اورا یک روایت میں ہے کہ حشر کے دن زید بن عمر و بن نفیل اکیلا ہی امت ہوگا ۔ اور آیت کریمہ :۔ - لَيْسُوا سَوَاءً مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ أُمَّةٌ قَائِمَةٌ ( سورة آل عمران 113) وہ سب ایک جیسے نہیں ہیں ان اہل کتاب میں کچھ لوگ ( حکم خدا پر ) قائم بھی ہیں ۔ میں امۃ بمعنی جماعت ہے زجاج کے نزدیک یہاں قائمۃ بمعنی استقامت ہے یعنی ذو و طریقہ واحدۃ تو یہاں مضمر متردک ہے - متع - الْمُتُوعُ : الامتداد والارتفاع . يقال : مَتَعَ النهار ومَتَعَ النّبات : إذا ارتفع في أول النّبات، والْمَتَاعُ : انتفاعٌ ممتدُّ الوقت، يقال : مَتَّعَهُ اللهُ بکذا، وأَمْتَعَهُ ، وتَمَتَّعَ به . قال تعالی: وَمَتَّعْناهُمْ إِلى حِينٍ [يونس 98] وكلّ موضع ذکر فيه «تمتّعوا» في الدّنيا فعلی طریق التّهديد، وذلک لما فيه من معنی التّوسّع،- ( م ت ع ) المتوع - کے معنی کیس چیز کا بڑھنا اور بلند ہونا کے ہیں جیسے متع النھار دن بلند ہوگیا ۔ متع النسبات ( پو دا بڑھ کر بلند ہوگیا المتاع عرصہ دراز تک فائدہ اٹھانا محاورہ ہے : ۔ متعہ اللہ بکذا وامتعہ اللہ اسے دیر تک فائدہ اٹھانے کا موقع دے تمتع بہ اس نے عرصہ دراز تک اس سے فائدہ اٹھایا قران میں ہے : ۔ وَمَتَّعْناهُمْ إِلى حِينٍ [يونس 98] اور ایک مدت تک ( فوائد دینوی سے ) ان کو بہرہ مندر کھا ۔ اور قرآن پاک میں جہاں کہیں دنیاوی ساز و سامان کے متعلق تمتعو آیا ہے تو اس سے تہدید مراد ہے کیونکہ اس میں ایک گو نہ عیش کو شی اور وسعت کے معنی پائے جاتے ہیں - مسس - المسّ کاللّمس لکن اللّمس قد يقال لطلب الشیء وإن لم يوجد - والمسّ يقال في كلّ ما ينال الإنسان من أذى. نحو قوله : وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة 80] ،- ( م س س ) المس کے - معنی چھونا کے ہیں اور لمس کے ہم معنی ہیں لیکن گاہے لمس کیس چیز کی تلاش - کرنے کو بھی کہتے ہیں اور اس میں یہ ضروری نہیں کہ وہ چیز مل جل بھی جائے ۔- اور مس کا لفظ ہر اس تکلیف کے لئے بول دیا جاتا ہے جو انسان تو پہنچے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة 80] اور کہتے ہیں کہ دوزخ کی آگ ہمیں ۔۔ چھوہی نہیں سکے گی - ألم - الأَلَمُ الوجع الشدید، يقال : أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قال تعالی: فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَما تَأْلَمُونَ [ النساء 104] ، وقد آلمت فلانا، و عذاب أليم، أي : مؤلم . وقوله : لَمْ يَأْتِكُمْ [ الأنعام 130] فهو ألف الاستفهام، وقد دخل علی «لم» .- ( ا ل م ) الالم - کے معنی سخت درد کے ہیں کہا جاتا ہے الم یالم ( س) أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قرآن میں ہے :۔ فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ ( سورة النساء 104) تو جس طرح تم شدید درد پاتے ہو اسی طرح وہ بھی شدید درد پاتے ہیں ۔ اٰلمت فلانا میں نے فلاں کو سخت تکلیف پہنچائی ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ( سورة البقرة 10 - 174) میں الیم بمعنی مؤلم ہے یعنی دردناک ۔ دکھ دینے والا ۔ اور آیت :۔ اَلَم یَاتِکُم (64 ۔ 5) کیا تم کو ۔۔ نہیں پہنچی ۔ میں الف استفہام کا ہے جو لم پر داخل ہوا ہے ( یعنی اس مادہ سے نہیں ہے )
(٤٨) جب پانی بالکل اتر گیا، تب حضرت نوح (علیہ السلام) سے کہا گیا کہ اے نوح اب کشتی پر سے اترو، ہماری طرف سے سلام اور برکتیں لے کر جو تم پر نازل ہوں گی اور اس اہل سعادت کے گروہ پر جو تمہارے ساتھ کشتی میں موجود ہے اور مردوں کی پشتوں میں بہت سی ایسی جماعتیں بھی ہوں گی کہ آباؤ اجداد کی پشتوں سے نکلنے کے بعد ہم انھیں چند روزہ عیش دیں گے اور ان کے کفر کی وجہ سے ہماری طرف سے ان پر سخت سزا ہوگی اور وہ بدبختوں سے ہوں گے۔- ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) کے پاس وحی چار سو اسی سال کی عمر میں بھیجی، اس کے بعد وہ ایک سوبیس تک اپنی قوم کو دعوت دیتے رہے اور جس وقت وہ کشتی میں سوار ہوئے تو ان کی عمر چھ سو سال کی تھی اور کشتی کی لمبائی تین سو ہاتھ اور چوڑائی پچاس ہاتھ کی تھی اور تیس ہاتھ اونچی تھی اور کشتی کی اوپر نیچے تین منزلیں تھیں پہلی منزل میں درندوں اور موذی جانوروں سوار کیا اور دوسری منزل میں جنگلی جانوروں کو سوار کیا اور سب سے اوپر والی منزل میں انسانوں کو سوار کیا جو اسی آدمی تھے جن میں چالیس مرد اور چالیس عورتیں تھیں، اور مرد و عورتوں کے درمیان حضرت آدم (علیہ السلام) کا جسم تھا اور کشتی میں حضرت نوح (علیہ السلام) کے تین لڑکے بھی تھے سام، حام، یا فث، انتہی۔
آیت ٤٨ (قِيْلَ يٰنُوْحُ اهْبِطْ بِسَلٰمٍ مِّنَّا وَبَرَكٰتٍ عَلَيْكَ وَعَلٰٓي اُمَمٍ مِّمَّنْ مَّعَكَ )- عام خیال یہی ہے کہ اس طوفان کے بعد نسل انسانی حضرت نوح کے ان تینوں بیٹوں سے چلی تھی۔ اس سلسلے میں ماہرین علم الانساب کی مختلف آراء کا خلاصہ یہ ہے کہ آپ کے بیٹے حضرت سام اس علاقے میں آباد ہوگئے ‘ جبکہ حضرت یافث کی اولاد وسطی ایشیا کے پہاڑی سلسلے کو عبور کر کے روس کے میدانی علاقوں میں جا بسی۔ پھر وہاں سے ان میں سے کچھ لوگ صحرائے گوبی کو عبور کر کے چین کی طرف چلے گئے۔ چناچہ وسطی ایشیا کے ممالک سے لے کر چین اس کے ملحقہ علاقوں اور پورے یورپ میں اسی نسل کے لوگ آباد ہیں۔ ان کے علاوہ اور شمالی اقوام کے لوگ بھی اسی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ - دوسری طرف حضرت حام کی نسل کے کچھ لوگ مشرق کی طرف کوچ کر کے ایران اور پھر ہندوستان میں آب سے۔ جبکہ ان میں سے بعض دوسرے قبائل جزیرہ نمائے سینا کو عبور کر کے مغرب میں سوڈان اور مصر کی طرف چلے گئے۔ چناچہ آریائی اقوام ‘ رومن ‘ جرمن ‘ یونانی اور مشرقی یورپ کے تمام لوگ حضرت حام ہی کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں ‘ واللہ اعلم۔- (وَاُمَمٌ سَنُمَتِّعُهُمْ ثُمَّ يَمَسُّهُمْ مِّنَّا عَذَابٌ اَلِيْمٌ )- جیسا کہ بعد میں قوم عاد اور قوم ثمود پر عذاب آیا ہے۔
سورة هُوْد حاشیہ نمبر :52 یعنی اس پہاڑ سے جس پر کشتی ٹھیری تھی ۔
27: سلامتی اور برکتوں کا وعدہ جو حضرت نوح (علیہ السلام) کے ساتھیوں کے لیے کیا گیا، اس میں ’’ قوموں‘‘ کا لفظ استعمال کر کے یہ اشارہ دیا گیا ہے کہ یہ لوگ اگرچہ اس وقت تھوڑے سے ہیں لیکن ان کی نسل سے بہت سی قومیں پیدا ہوں گی، اور دین حق پر قائم رہیں گی، اس لیے سلامتی اور برکتوں میں وہ بھی شریک ہوں گی۔ البتہ آخر میں یہ فرمایا گیا کہ کچھ قومیں ان کی نسل میں ایسی آئیں گی کہ جو دین برحق پر قائم نہیں رہیں گی۔ لہذا انہیں دنیا میں کچھ عرصے لطف اٹھانے کا موقع دیا جائے گا۔ لیکن ان کا آخری انجام ان کے کفر کی وجہ سے یہی ہوگا کہ وہ دنیا یا آخرت میں اللہ تعالیٰ کے عذاب میں گرفتار ہوں گے۔