Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

یہ تاریخ ماضی وحی کے ذریعے بیان کی گئی ہے قصہ نوح اور اسی قسم کے گذشتہ واقعات وہ ہیں جو تیرے سامنے نہیں ہوئے لیکن بذریعہ وحی کے ہم تجھے انکی خبر کر ہے ہیں اور تو لوگوں کے سامنے ان کی حقیقت اس طرح کھول رہا ہے کہ گویا ان کے ہو نے کے وقت تو وہیں موجود تھا ۔ اس سے پہلے نہ تو تجھے ہی انکی کوئی خبر تھی نہ تیری قوم میں سے کوئی اور ان کا علم رکھتا تھا ۔ کہ کسی کو بھی گمان ہو کہ شاید تو نے اس سے سیکھ لیے ہوں پاس صاف بات ہے کہ یہ اللہ کی وحی سے تجھے معلوم ہوئے اور ٹھیک اسی طرح جس طرح اگلی کتابوں میں موجود ہیں ۔ پس اب تجھے ان کے ستانے جھٹلانے پر صبر و برداشت کرنا چاہیے ہم تیری مدد پر ہیں تجھے اور تیرے تابعداروں کو ان پر غلبہ دیں گے ، انجام کے لحاظ سے تم ہی غالب رہو گے ، یہی طریقہ اور پیغمبروں کا بھی رہا ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

49۔ 1 یہ نبی سے خطاب ہے اور آپ سے علم غیب کی نفی کی جا رہی ہے کہ یہ غیب کی خبریں ہیں جن سے ہم آپ کو خبردار کر رہے ہیں ورنہ آپ اور آپ کی قوم ان سے لا علم تھی۔ 49۔ 2 یعنی آپکی قوم آپ کی جو تکذیب کر رہی ہے اور آپ کو ایذائیں پہنچا رہی ہے، اس پر صبر سے کام لیجئے اس لئے کہ آپ کے مددگار ہیں اور حسن انجام آپ کے اور آپ کے پیرو کاروں کے لئے ہی ہے، جو تقویٰ کی صفت سے متصف ہیں۔ عاقبت، دنیا و آخرت کے اچھے انجام کو کہتے ہیں۔ اس میں متقین کی بڑی بشارت ہے کہ ابتدا میں چاہے انھیں کتنا بھی مشکلات سے دوچار ہونا پڑے، تاہم بالآخر اللہ کی مدد و نصرت اور حسن انجام کے وہی مستحق ہیں جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا ( اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُوْمُ الْاَشْهَادُ ) 40 ۔ المو من۔ 51) ہم اپنے رسولوں کی اور ایمان والو کی مدد، دنیا میں بھی کریں گے اور اس دن بھی جب گواہی دینے والے کھڑے ہوں گے۔ (وَلَقَدْ سَبَقَتْ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِيْنَ 171؀ښ اِنَّهُمْ لَهُمُ الْمَنْصُوْرُوْنَ 172؀۠ وَاِنَّ جُنْدَنَا لَهُمُ الْغٰلِبُوْنَ 173؁) 37 ۔ الصافات :171 تا 172) اور البتہ وعدہ پہلے ہی اپنے رسولوں کے لیے صدر ہوچکا ہے کہ وہ مظفر منصور ہوں گے اور ہمارا ہی لشکر غالب اور برتر رہے گا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥٤] نوح (علیہ السلام) کا زمانہ آپ سے تقریباً چار ہزار سال پیشتر کا ہے اس دور کے مستند اور صحیح ترین حالات کی اطلاع دینا اللہ ہی کا کام ہوسکتا ہے۔ اہل مکہ ان حالات سے مطلقاً بیخبر تھے گویا یہ نوح کا قصہ اس تفصیل سے بتادینا بھی آپ کی نبوت کی دلیل ہے۔- [٥٥] یعنی بالآخر اچھا انجام اللہ سے ڈرنے والوں کا ہی ہوتا ہے جیسا کہ نوح (علیہ السلام) کے ساتھیوں کا ہوا بلکہ ہر حق و باطل کے معرکہ میں، خواہ اس کا تعلق انبیاء سے ہو یا نہ ہو۔ بالآخر غلبہ حق کو ہی حاصل ہوتا ہے اور حق پرست ہی انجام کے لحاظ سے بہتر رہتے ہیں اور اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہے کہ اخروی زندگی میں بہرحال اللہ سے ڈرنے والوں کا ہی انجام بخیر ہوگا اور یہ دونوں مطلب درست ہیں گویا اس آیت میں آپ اور صحابہ کرام (رض) کو خوش خبری بھی دی گئی ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

تِلْكَ مِنْ اَنْۢبَاۗءِ الْغَيْبِ ۔۔ : اس آیت سے معلوم ہوا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شروع ہی سے سب کچھ نہیں جانتے تھے، نہ آپ غیب دان تھے، ورنہ وحی کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ بعض لوگ ان تمام آیات کی تاویل کرتے ہیں جن میں ہے کہ اے نبی یہ غیب کی خبریں ہیں، ہم آپ کو سنا رہے ہیں، آپ نہ اس وقت وہاں تھے نہ آپ کو یہ باتیں معلوم تھیں، یہ ہم نے آپ کو وحی کے ذریعے بتائی ہیں۔ جو لوگ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی عالم الغیب کہتے ہیں وہ اس قسم کی آیات ” یہ غیب کی خبریں ہیں، اس سے پہلے آپ ان کو نہیں جانتے تھے “ کی تحریف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ خطاب دراصل امت کے لوگوں کو ہے کہ اے امت محمد کے لوگو تم یہ باتیں نہیں جانتے تھے، مگر ہماری اس زیر تفسیر آیت نے ان لوگوں کی اس تحریف کو واضح طور پر باطل ثابت کردیا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ” یہ غیب کی خبروں سے ہے جنھیں ہم تیری طرف وحی کرتے ہیں، اس سے پہلے نہ تو انھیں جانتا تھا اور نہ تیری قوم۔ “ معلوم ہوا کہ ان تمام آیات سے بھی یہی مراد ہے کہ صرف قوم ہی نہیں خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی غیب دان نہیں تھے۔ اگر غیب دان مانیں تو بار بار وحی کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ اسی طرح نوح (علیہ السلام) کا سارا واقعہ ان کے غیب دان ہونے کی نفی کرتا ہے، ورنہ اگر انھیں پہلے ہی سب کچھ معلوم تھا تو ساڑھے نو سو سال کی محنت، اس دوران میں قوم کی بدتمیزیوں پر صبر، پھر وحی کے مطابق کشتی بنانا، پھر بیٹے کے حق میں دعا کرنا، اللہ تعالیٰ کا ناراض ہونا اور نوح (علیہ السلام) کا معافی مانگنا سب کچھ افسانہ ٹھہرتا ہے۔ اسی طرح اگر ابراہیم (علیہ السلام) کو معلوم تھا کہ آگ مجھے نہیں جلائے گی، اسماعیل (علیہ السلام) ذبح نہیں ہوں گے، یا سارہ[ کا کچھ نہیں بگڑے گا تو پھر ان کی جان و مال اور اولاد و آبرو اللہ کی راہ میں قربان کردینے کی بات بےمعنی ٹھہرتی ہے۔ بدر کی رات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آہ وزاری اور افک یعنی عائشہ (رض) پر بہتان کے موقع پر پریشانی کا کچھ مطلب نہیں بنتا۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا۔ رسولوں کو اتنی بات ہی معلوم ہوتی ہے جو وحی کے ذریعے سے انھیں بتائی جاتی ہے۔- فَاصْبِرْ ړاِنَّ الْعَاقِبَةَ لِلْمُتَّقِيْنَ : ” عَاقِبَۃٌ“ ایک حالت کے بعد آنے والی حالت، اس پر الف لام آئے تو عموماً اچھا انجام مراد ہوتا ہے، یعنی جس طرح نوح (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کا انجام بخیر رہا اور ان کے تمام مخالفین ہلاک کردیے گئے، اسی طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انجام بھی دنیا و آخرت دونوں میں بہتر رہے گا اور آپ کے مخالفین دنیا میں بھی ذلیل و برباد ہوں گے اور آخرت میں بھی انھیں دوزخ کی آگ نصیب ہوگی۔ مسلمانوں کی تعداد کا کم ہونا اور مدت دراز تک اسلام کی دعوت کا کامیاب نہ ہونا اس بات کی دلیل نہیں کہ یہ دعوت ناکام ہے، بلکہ مسلسل صبر اور دعوت کے نتیجے میں آخری کامیابی اہل اسلام ہی کو ملے گی، خواہ کچھ نسلیں گزرنے کے بعد ملے۔ کائنات میں اللہ تعالیٰ کے لاتعداد لشکر ہیں، مثلاً آگ، ہوا، پانی، پہاڑ اور بیشمار مخلوق۔ اللہ تعالیٰ ان میں سے کسی کو بھی اشارہ کر دے تو کافروں کا نام و نشان باقی نہیں رہ سکتا۔ کافر یہ نہ سمجھیں کہ مسلمان ہمیشہ مغلوب و مقہور ہی رہیں گے، بلکہ مسلمان اگر صبر و استقامت سے کام لیں اور اپنی ہر مصیبت اور بےبسی کو صرف اللہ کریم کے سامنے پیش کرتے رہیں، جیسا کہ نوح (علیہ السلام) نے کہا : (اَنِّىْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِرْ ) [ القمر : ١٠ ] ” بیشک میں مغلوب ہوں سو تو بدلہ لے۔ “ تو خواہ ان کی تعداد کتنی ہی کم ہو، جیسا کہ نوح (علیہ السلام) کی ساڑھے نو سو سال کی دعوت کا حاصل بہت ہی کم آدمی بارہ (١٢) یا چالیس (٤٠) یا اسّی (٨٠) آدمی نکلے، مگر نوح (علیہ السلام) اور اہل ایمان کی محنت ناکام نہیں ہوئی، بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی غیبی قوت کے ساتھ دنیا کو تہ و بالا کرکے ان قلیل لوگوں کو ایسی کامیابی عطا فرمائی کہ ان کے دشمنوں کا نام و نشان مٹ گیا اور یہ پوری زمین کے مالک بن گئے۔ بنی اسرائیل، موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کا واقعہ پڑھ لیجیے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تین سو تیرہ بےسرو سامان ساتھیوں کی ایک ہزار مسلح کفار کے مقابلے میں غیب سے فرشتے بھیج کر ایسی مدد کی کہ وہ دن فیصلہ کن دن بن گیا کہ آئندہ کسے غالب ہو کر رہنا ہے۔ غرض اللہ کا فیصلہ ہے کہ اچھا انجام متقین ہی کا ہے۔ (الوسیط)- اس آیت میں ” تِلْكَ مِنْ اَنْۢبَاۗءِ الْغَيْبِ “ سے ” وَلَا قَوْمُكَ مِنْ قَبْلِ ھٰذَا “ تک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی امت پر احسان کا ذکر ہے، ” فَاصْبِرْ “ میں نصیحت ہے اور ” اِنَّ الْعَاقِبَةَ لِلْمُتَّقِيْنَ “ میں تسلی اور خوش خبری ہے۔ - اس واقعہ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا حق ہونا بھی ثابت ہوتا ہے کہ آپ نے اُمّی ہونے کے باوجود نوح (علیہ السلام) کا واقعہ پورا پورا صحیح سنا دیا جو وحی الٰہی کے بغیر ممکن نہ تھا۔ - یہ واقعہ اس بات کی دلیل ہے کہ اپنی پوری کوشش کے باوجود اگر کسی صالح آدمی کا بیٹا صالح نہ بن سکے تو باپ اس میں بےقصور ہے۔ نوح (علیہ السلام) جیسا مہربان اور کامل مربی بھی اگر بیٹے کو راہ راست پر نہ لاسکا تو ہماری تمہاری کیا حیثیت ہے ؟ اب اللہ تعالیٰ کی تقدیر اور مشیت پر صبر و رضا کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ (قرطبی)- قرآن مجید واقعات بیان کرتے وقت ان میں سے انھی حصوں کو نمایاں کرتا ہے جن سے کوئی نصیحت اور فائدہ حاصل ہو رہا ہو۔ ان کے وہ حصے جو اس مقصد سے خاص تعلق نہیں رکھتے انھیں چھوڑ دیتا ہے۔ مثلاً نوح (علیہ السلام) کی وہ کشتی کتنی مدت میں بنی، اس کا طول و عرض کیا تھا، اس میں سوار ہونے والے جانور کیسے جمع کیے گئے، اس میں کتنے کمرے تھے، کشتی کتنے دن پانی میں رہی، ” جودی “ پر کشتی سے اترنے کے بعد نوح (علیہ السلام) نے کہاں اقامت اختیار فرمائی اور طوفان کتنے دن زمین پر برپا رہا۔ رہے وہ قصے کہانیاں جو عام مشہور ہیں، وہ اکثر اسرائیلیات ہیں، جن کی شرع یا عقل سے تائید نہیں ہوتی۔ - ایک مسئلہ جس پر بہت سے علماء نے بحث کی ہے، یہ بھی ہے کہ طوفان ساری زمین پر آیا تھا یا کچھ حصے پر ؟ تفسیر المنار کے مصنف نے اپنے استاد شیخ محمد عبدہ مصری کا فتویٰ نقل کیا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن کریم اور احادیث کے ظاہر الفاظ سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ طوفان نوح (علیہ السلام) کی پوری قوم پر آیا تھا اور ان کے علاوہ اس وقت پوری زمین پر کوئی اور آباد نہ تھا، اس لیے یہ عقیدہ رکھنا ضروری ہے، مگر اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ طوفان پوری زمین پر آیا تھا، کیونکہ اس بات کی کوئی دلیل نہیں کہ پوری زمین قوم نوح سے بھری ہوئی تھی۔ یہ تاریخی مسائل قرآن کے مقاصد میں سے نہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے صریح الفاظ میں کوئی وضاحت نہیں فرمائی۔ اس لیے ہم کہتے ہیں قرآن کے ظاہر کا تقاضا یہی ہے جو اوپر بیان ہوا، اب اگر کسی علمی تحقیق سے اس کے خلاف کوئی بات ثابت ہوجائے تو اس سے قرآن و حدیث کی کسی قطعی و صریح بات پر کوئی حرف نہیں آتا۔ (الوسیط)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

آخر آیت میں رسول کریم کی تسلی دینے کے لئے فرمایا کہ آپ کی نبوت و رسالت پر آفتاب سے زیادہ روشن دلائل کے ہوتے ہوئے بھی اگر کچھ بد بخت نہیں مانتے اور آپ سے جھگڑا کرتے ہیں تو آپ کو اپنے پہلے پیغمبر نوح (علیہ السلام) کا اسوہ دیکھنا چاہئے کہ انہوں نے ایک ہزار سال کی طویل عمر ساری انہیں اذیتوں میں گزار دی، تو جس طرح انہوں نے صبر کیا آپ بھی ایسا ہی صبر سے کام لیں، کیونکہ یہ متعین ہے کہ انجام کار کامیابی متقی لوگوں کو ہی ملے گی۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

تِلْكَ مِنْ اَنْۢبَاۗءِ الْغَيْبِ نُوْحِيْہَآ اِلَيْكَ۝ ٠ۚ مَا كُنْتَ تَعْلَمُہَآ اَنْتَ وَلَا قَوْمُكَ مِنْ قَبْلِ ھٰذَا۝ ٠ۭۛ فَاصْبِرْ۝ ٠ۭۛ اِنَّ الْعَاقِبَۃَ لِلْمُتَّقِيْنَ۝ ٤٩ ۧ- نبأ - خبر ذو فائدة عظیمة يحصل به علم أو غَلَبَة ظنّ ، ولا يقال للخبر في الأصل نَبَأٌ حتی - يتضمّن هذه الأشياء الثّلاثة، وحقّ الخبر الذي يقال فيه نَبَأٌ أن يتعرّى عن الکذب، کالتّواتر، وخبر اللہ تعالی، وخبر النبيّ عليه الصلاة والسلام، ولتضمُّن النَّبَإِ معنی الخبر قال اللہ تعالی: قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص 67 68] ، - ( ن ب ء ) النبا ء - کے معنی خیر مفید کے ہیں جو علم یا غلبہ ظن کا فائدہ دے اور حقیقی منعی کے لحاظ سے کسی خبر تک اس میں تین چیزیں موجود نہ ہوں ۔ یعنی نہایت مفید ہونا اور اس سے علم یا غلبہ ظن کا حاصل ہونا اور نبا صرف اس خبر کو کہا جاتا ہے جس میں کذب کا احتمال نہ ہو ۔ جیسے خبر متواتر خبر الہیٰ اور خبر نبوی جیسے فرمایا : ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص 67 68] کہہ دو کہ یہ ایک بڑی ( ہولناک چیز کی ) خبر ہے جس کو تم دھیان میں نہیں لاتے - غيب - الغَيْبُ : مصدر غَابَتِ الشّمسُ وغیرها : إذا استترت عن العین، يقال : غَابَ عنّي كذا . قال تعالی: أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل 20]- ( غ ی ب ) الغیب ( ض )- غابت الشمس وغیر ھا کا مصدر ہے جس کے معنی کسی چیز کے نگاہوں سے اوجھل ہوجانے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ غاب عنی کذا فلاں چیز میری نگاہ سے اوجھل ہوئی ۔ قرآن میں ہے : أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل 20] کیا کہیں غائب ہوگیا ہے ۔ اور ہر وہ چیز جو انسان کے علم اور جو اس سے پودشیدہ ہو اس پر غیب کا لفظ بولا جاتا ہے - وحی - أصل الوحي : الإشارة السّريعة، ولتضمّن السّرعة قيل : أمر وَحْيٌ ، وذلک يكون بالکلام علی سبیل الرّمز والتّعریض، وقد يكون بصوت مجرّد عن التّركيب، وبإشارة ببعض الجوارح، وبالکتابة، وقد حمل علی ذلک قوله تعالیٰ عن زكريّا : فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم 11] وقوله : وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس 87] فوحيه إلى موسیٰ بوساطة جبریل، ووحيه تعالیٰ إلى هرون بوساطة جبریل وموسی،- ( و ح ی ) الوحی - کے اصل معنی جلدی سے اشارہ کرنا کے ہیں ۔ اور اس کے معنی سرعت کو متضمن ہو نیکی وجہ سے ہر تیز رفتار معاملہ کو امر وحی کہا جاتا ہے اور یہ وحی کبھی رمزوتعریض کے طور پر بذریعہ کلام کے ہوتی ہے اور کبھی صوت مجرد کی صورت میں ہوتی ہے یعنی اس میں ترکیب الفاظ نہیں ہوتی اور کبھی بذیعہ جوارح کے اور کبھی بذریعہ کتابت کے اس بنا پر آیت : ۔ فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم 11] پھر وہ عبادت کے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام خدا کو یاد کرتے رہو ۔- اور آیت : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس 87] اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی میں موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف یکساں قسم کی وحی بھیجنا مراد نہیں ہے بلکہ موسیٰ علیہ اسلام کی طر وحی تو حضرت جبریل کی وسا طت سے آتی تھی مگر ہارون (علیہ السلام) کی طرف حضرت موسیٰ اور جبریل (علیہ السلام) دونوں کی وساطت سے وحی کی جاتی ہے - قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - صبر - الصَّبْرُ : الإمساک في ضيق، والصَّبْرُ : حبس النّفس علی ما يقتضيه العقل والشرع، أو عمّا يقتضیان حبسها عنه، وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] ، وسمّي الصّوم صبرا لکونه کالنّوع له، وقال عليه السلام :«صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ( ص ب ر ) الصبر - کے معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روک رکھنا ۔ لہذا الصبر کے معنی ہوئے عقل و شریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضا کے مطابق اپنے آپ کو روک رکھنا ۔ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] صبر کرنے والے مرو اور صبر کرنے والی عورتیں اور روزہ کو صبر کہا گیا ہے کیونکہ یہ بھی ضبط نفس کی ایک قسم ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا «صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ماه رمضان اور ہر ماہ میں تین روزے سینہ سے بغض کو نکال ڈالتے ہیں - عاقب - والعاقِبةَ إطلاقها يختصّ بالثّواب نحو : وَالْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ [ القصص 83] ، وبالإضافة قد تستعمل في العقوبة نحو : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا [ الروم 10] ،- ( ع ق ب ) العاقب - اور عاقبتہ کا لفظ بھی ثواب کے لئے مخصوص ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ [ القصص 83] اور انجام نیک تو پرہیز گاروں ہی کا ہے ۔ مگر یہ اضافت کی صورت میں کبھی آجاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا [ الروم 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔- تقوي - والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] - التقویٰ- اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٤٩) یہ قصہ آپکو جو غیب سے خبریں دی جاتی ہیں ان میں سے ایک ہے جن کو اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کے پاس جبریل امین کے ذریعے پچھلی امتوں کے واقعات کے سلسلہ میں پہنچاتے ہیں اور قرآن حکیم سے قبل ان گزشتہ قوموں کے واقعات کو نہ آپ جانتے تھے اور نہ آپکی قوم سو آپ اپنی قوم کی ایذاء رسانی اور تکذیب پر صبر کیجیے یقیناً نیک انجامی بذریعہ نصرت اور جنت ان ہی لوگوں کے لیے ہے جو کفر وشرک اور تمام فواحش سے بچنے والے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(فَاصْبِرْ ړاِنَّ الْعَاقِبَةَ لِلْمُتَّقِيْنَ )- آپ ہمت اور صبر و استقامت کے ساتھ اپنا کام کیے چلے جائیں۔ یقیناً انجام کار کی کامیابی اہل تقویٰ ہی کے لیے ہے ۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة هُوْد حاشیہ نمبر :53 یعنی جس طرح نوح علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں ہی کا آخر کار بول بالا ہوا ، اسی طرح تمہارا اور تمہارے ساتھیوں کا بھی ہوگا ۔ خدا کا قانون یہی ہے کہ ابتداء کار میں دشمنان حق خواہ کتنے ہی کامیاب ہوں مگر آخری کامیابی صرف ان لوگوں کا حصہ ہوتی ہے جو خدا سے ڈر کر فکر و عمل کی غلط راہوں سے بچتے ہوئے مقصد حق کے لیے کام کرتے ہیں ۔ لہٰذا اس وقت جو مصائب و شدائد تم پر گزر رہے ہیں جن مشکلات سے تم دوچار ہو رہے ہو اور تمہاری دعوت کو دبانے میں تمہارے مخالفوں کو بظاہر جو کامیابی ہوتی نظر آرہی ہے اس پر بد دل نہ ہو بلکہ ہمت اور صبر کے ساتھ اپنا کام کیے چلے جاؤ ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

28: حضرت نوح علیہ السلام کا واقعہ بیان فرمانے کے بعد آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بارے میں اس آیت نے دو حقیقتوں کی طرف توجہ دِلائی ہے۔ ایک یہ کہ یہ واقعہ نہ صرف آپ کو بلکہ قریش اور عرب کے غیر اہلِ کتاب میں سے کسی کو پہلے معلوم نہیں تھا، اور آپ کے پاس اس کو اہلِ کتاب سے سیکھنے کا بھی کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ لہٰذا یہ بات واضح ہے کہ یہ واقعہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو وحی کے ذریعے معلوم ہوا ہے۔ اس سے آپ کی نبوت اور رِسالت کی دلیل ملتی ہے۔ دوسرے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو اپنی قوم کی طرف سے جس تکذیب اور اذیتوں کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا، اس واقعے کے ذریعے آپ کو اوّل تو صبر سے کام لینے کی تلقین فرمائی گئی ہے، اور دوسرے یہ تسلی دی گئی ہے کہ جس طرح حضرت نوح علیہ السلام کو شروع میں سخت مشکلات پیش آئیں، مگر آخر انجام انہی کے حق میں ہوا، اسی طرح آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم بالآخر ان لوگوں پر غالب آئیں گے۔