Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

ابراہیم علیہ السلام کی بشارت اولاد اور فرشتوں سے گفتگو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس وہ فرشتے بطور مہمان بشکل انسان آتے ہیں جو قوم لوط کی ہلاکت کی خوشخبری اور حضرت ابراہیم کے ہاں فرزند ہو نے کی بشارت لے کر اللہ کی طرف سے آئے ہیں ۔ وہ آکر سلام کرتے ہیں ۔ آپ ان کے جواب میں سلام کہتے ہیں ۔ اس لفظ کو پیش سے کہنے میں علم بیان کے مطابق ثبوت و دوام پایا جاتا ہے ۔ سلام کے بعد ہی حضرت ابراہیم علیہ السلام ان کے سامنے مہمان داری پیش کرتے ہیں ۔ بچھڑے کا گوشت جسے گرم پتھروں پر سینک لیا گیا تھا ، لاتے ہیں ۔ جب دیکھا کہ ان نو وارد مہمانوں کے ہاتھ کھانے کی طرف بڑھتے ہی نہیں ، اس وقت ان سے کچھ بدگمان سے ہوگئے اور کچھ دل میں خوف کھانے لگے حضرت سدی فرماتے ہیں کہ ہلاکت قوم لوط کے لیے جو فرشتے بھیجے گئے وہ بصورت نوجوان انسان زمین پر آئے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے گھر پر اترے آپ نے انہیں دیکھ کر بڑی تکریم کی ، جلدی جلدی اپنا بچھڑا لے کر اس کو گرم پتھوں پر سینک کر لا حاضر کیا اور خود بھی ان کے ساتھ دستر خوان پر بیٹھ گئے ، آپ کی بیوی صاحبہ حضرت سارہ کھلانے پلانے کے کام کاج میں لگ گئیں ۔ ظاہر ہے کہ فرشتے کھانا نہیں کھاتے ۔ وہ کھانے سے رکے اور کہنے لگے ابراہیم ہم جب تلک کسی کھانے کی قیمت نہ دے دیں کھایا نہیں کرتے ۔ آپ نے فرمایا ہاں قیمت دے دیجئے انہوں نے پوچھا کیا قیمت ہے ، آپ نے فرمایا بسم اللہ پڑھ کر کھانا شروع کرنا اور کھانا کھا کر الحمد اللہ کہنا یہی اس کی قیمت ہے ۔ اس وقت حضرت جبرائیل نے حضرت میکائیل کی طرف دیکھا اور دل میں کہا کہ فی الواقع یہ اس قابل ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنا خلیل بناۓ ۔ اب بھی جو انہوں نے کھانا شروع نہ کیا تو آپ کے دل میں طرح طرح کے خیالات گذرنے لگے ۔ حضرت سارہ نے دیکھا کہ خود حضرت ابراہیم ان کے اکرام میں یعنی ان کے کھانے کی خدمت میں ہیں ، تاہم وہ کھانا نہیں کھاتے تو ان مہمانوں کی عجیب حالت پر انہیں بےساختہ ہنسی آگئی ۔ حضرت ابراہیم کو خوف زدہ دیکھ کر فرشتوں نے کہا آپ خوف نہ کیجئے ۔ اب دہشت دور کرنے کے لیے اصلی واقعہ کھول دیا کہ ہم کوئی انسان نہیں فرشتے ہیں ۔ قوم لوط کی طرف بھیجے گئے ہیں کہ انہیں ہلاک کریں ۔ حضرت سارہ کو قوم لوط کی ہلاکت کی خبر نے خوش کر دیا ۔ اسی وقت انہیں ایک دوسری خوشخبری بھی ملی کہ اس ناامیدی کی عمر میں تمہارے ہاں بچہ ہوگا ۔ انہیں عجب تھا کہ جس قوم پر اللہ کا عذاب اتر رہا ہے ، وہ پوری غفلت میں ہے ۔ الغرض فرشتوں نے آپ کو اسحاق نامی بچہ پیدا ہو نے کی بشارت دی ۔ اور پھر اسحاق کے ہاں یعقوب کے ہو نے کی بھی ساتھ ہی خوش خبری سنائی ۔ اس آیت سے اس بات پر استدلال کیا گیا ہے کہ ذبیح اللہ حضرت اسماعیل علیہ السلام تھے ۔ کیونکہ حضرت اسحاق علیہ السلام کی تو بشارت دی گئی تھی اور ساتھ ہی ان کے ہاں بھی اولاد ہو نے کی بشارت دی گئی تھی ۔ یہ سن کر حضرت سارہ علیہ السلام نے عورتوں کی عام عادت کے مطابق اس پر تعجب ظاہر کیا کہ میاں بیوی دونوں کے اس بڑھے ہوئے بڑھاپے میں اولاد کیسی ؟ یہ تو سخت حیرت کی بات ہے ۔ فرشتوں نے کہا امر اللہ میں کیا حیرت ؟ تم دونوں کو اس عمر میں ہی اللہ بیٹا دے گا گو تم سے آج تک کوئی اولاد نہیں ہوئی اور تمہارے میاں کی عمر بھی ڈھل چکی ہے ۔ لیکن اللہ کی قدرت میں کمی نہیں وہ جو چاہے ہو کر رہتا ہے ، اے نبی کے گھر والو تم پر اللہ کی رحمتیں اور اس کی برکتیں ہیں ، تمہیں اس کی قدرت میں تعجب نہ کرنا چاہے ۔ اللہ تعالیٰ تعریفوں والا اور بزرگ ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

69۔ 1 یہ دراصل حضرت لوط اور ان کی قوم کے قصے کا ایک حصہ ہے۔ حضرت لوط علیہ السلام، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے چچا زاد بھائی تھے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کی بستی بحرہ، میت کے جنوب مشرق میں تھی، جبکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) فلسطین میں مقیم تھے۔ جب حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم کو ہلاک کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا۔ تو ان کی طرف سے فرشتے بھیجے گئے۔ یہ فرشتے قوم لوط (علیہ السلام) کی طرف جاتے ہوئے راستے میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس ٹھہرے اور انھیں بیٹے کی بشارت دی۔ 69۔ 2 یعنی سلمنا سلاما علیک ہم آپ کو سلام عرض کرتے ہیں۔ 69۔ 3 جس طرح پہلا سلام ایک فعل مقدر کے ساتھ منصوب تھا۔ اس طرح یہ سالم مبتدا یا خبر ہونے کی بنا پر مرفوع ہے عبادت ہوگی : اَمْرُکُمْ سَلَا م، ُ یا عَلَیْکُمْ سَلَام، ُ ۔ 69۔ 4 حضرت ابرا ہیم (علیہ السلام) بڑے مہمان نواز تھے وہ یہ نہیں سمجھ پائے کہ یہ فرشتے ہیں جو انسانی صورت میں آئے ہیں اور کھانے پینے سے معزور ہیں، بلکہ انہوں نے انھیں مہمان سمجھا اور فورا مہمانوں کی خاطر تواضع کے لئے بھنا ہوا بچھڑا لا کر ان کی خدمت میں پیش کردیا۔ نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مہمان سے پوچھنے کی ضرورت نہیں بلکہ جو موجود ہو حاضر خدمت کردیا جائے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨٠] فرشتوں کا ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس اسحاق کی خوشخبری لے کر جانا :۔ اس سورة میں بھی انبیاء کے قصص کی ترتیب وہی ہے جو پہلے سورة اعراف میں گذر چکی ہے یعنی ثمود کے بعد قوم لوط کی تباہی کا ذکر ہے یہاں ضمناً جو ابراہیم کا ذکر آیا ہے تو بطور تمہید آیا ہے کیونکہ جو فرشتے قوم لوط کی ہلاکت کے لیے مامور کیے گئے تھے وہ پہلے سیدنا ابراہیم کے پاس ہی ایک بیٹے کی خوشخبری دینے آئے تھے یہ فرشتے انسانی شکل میں آئے اور آکر سلام کیا سیدنا ابراہیم نے سلام کا جواب دیا پھر ان کی مہمان نوازی میں مشغول ہوگئے اور تھوڑی دیر میں ایک بچھڑا بھون کرلے آئے اور کھانے کے لیے ان کے سامنے رکھ دیا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَلَقَدْ جَاۗءَتْ رُسُلُنَآ اِبْرٰهِيْمَ بالْبُشْرٰي : ” رُسُلُنَآ “ ہمارے بھیجے ہوئے سے مراد فرشتے ہیں جو انسانی شکل میں ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس بیٹے اور پوتے اسحاق اور یعقوب کی خوش خبری لے کر آئے تھے۔ ان کی تعداد بعض نے تین بیان کی، جبرائیل، میکائیل اور اسرافیل، بعض نے نو (٩) اور بعض نے تیرہ (١٣) ، مگر قرآن و سنت سے ان کی تعداد کا ذکر ہمیں نہیں ملا۔ سورة حجر (٤٩، ٥٠) میں اللہ تعالیٰ نے اپنے غفور و رحیم ہونے اور اپنے عذاب کے عذاب الیم ہونے کی خبر دینے کا حکم دیا ہے۔ اس کے بعد ابراہیم اور لوط (علیہ السلام) کے یہ واقعات ذکر فرمائے جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ فرشتوں کی ایک ہی جماعت ایک کے لیے خوش خبری اور دوسری قوم کے لیے عذاب لے کر آئی تھی۔ چناچہ ان کے آنے سے اللہ تعالیٰ کی دونوں صفات کا اظہار ہوا تھا۔ یہاں ان فرشتوں کے آنے کو ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے خوش خبری لانے والے فرمایا ہے، کیونکہ اگر ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے بیٹے اور پوتے کی خبر خوش خبری ہے تو لوط (علیہ السلام) کی ملعون قوم کی بربادی کی خبر بھی ابراہیم اور لوط (علیہ السلام) دونوں کے لیے خوش خبری ہے، البتہ قوم لوط کے لیے بری خبر ہے۔ - قَالُوْا سَلٰمًا ۭ قَالَ سَلٰمٌ : پہلا ” سَلٰمًا “ منصوب ہے، یہ جملہ فعلیہ ہے : ” نُسَلِّمُ سَلاَمًا “ ” ہم سلام کہتے ہیں۔ “ دوسرا ” سَلٰمٌ“ مرفوع ہے، یعنی ” سَلَامٌ عَلَیْکُمْ “ ” تم پر سلام ہو۔ “ معلوم ہوا کہ فرشتوں نے اللہ تعالیٰ کے اس حکم پر عمل کیا جس میں کسی کے گھر میں داخل ہونے سے پہلے سلام کہنے کا حکم ہے۔ دیکھیے سورة نور (٢٧) بلکہ ابن عمر (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کیا ہے : ( اَلسَّلَامُ قَبْلَ السُّؤَالِ فَمَنْ بَدَأَکُمْ بالسُّؤَالِ قَبْلَ السَّلَامِ فَلَا تُجِیْبُوْہٗ ) [ السلسلۃ الصحیحۃ : ١؍٤٥٨، ح : ٨١٦ ] ” سلام سوال سے پہلے ہے، جو تم سے سلام سے پہلے سوال کرے، اسے جواب مت دو ۔ “ اور ایک روایت میں فرمایا : ( مَنْ بَدَأَ بالْکَلَامِ قَبْلَ السَّلَامِ فَلَا تُجِیْبُوْہٗ ) [ صحیح الجامع : ٦١٢٢ ] ” جو سلام سے پہلے بات کرے اسے جواب مت دو ۔ “ ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے اس حکم پر عمل کرتے ہوئے بہتر جواب دیا جو سورة نساء (٨٦) میں ہے، کیونکہ جملہ فعلیہ کچھ وقت کے لیے ہوتا ہے جب کہ جملہ اسمیہ میں استمرار یعنی ہمیشگی پائی جاتی ہے، یعنی تم پر ہمیشہ سلامتی ہو۔ ” سَلٰمًا “ کے جواب میں ” َسلٰمٌ‘ بہتر جواب ہے۔ - فَمَا لَبِثَ اَنْ جَاۗءَ بِعِجْلٍ حَنِيْذٍ : اس سے ایک بات تو یہ معلوم ہوئی کہ فرشتے انسانی شکل اختیار کرسکتے ہیں۔ حدیث میں اس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ معروف حدیث جبریل (علیہ السلام) میں فرشتے کا ایک اعرابی کی شکل میں آنا بخاری و مسلم میں موجود ہے۔ [ بخاری : ٤٧٧٧۔ مسلم : ٨] دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ ابراہیم (علیہ السلام) اولو العزم پیغمبر ہو کر بھی مہمانوں کو پہچان نہ سکے، ورنہ وہ کھانے کا اہتمام نہ کرتے، کیونکہ فرشتے نہ کھاتے ہیں نہ پیتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ علم غیب صرف اللہ تعالیٰ کا خاصہ ہے۔ جب ابراہیم (علیہ السلام) علم غیب نہیں رکھتے تھے تو پھر ان لوگوں کی کیا اوقات ہے جو نہ نبی ہیں اور نہ ان کے اصلی حالات اللہ کے سوا کوئی جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کی کیا حیثیت ہے ؟ تیسری بات یہ معلوم ہوئی کہ ابراہیم (علیہ السلام) بیحد مہمان نواز تھے۔ یہ وصف ہر نبی خصوصاً ابراہیم (علیہ السلام) اور ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں بہت پایا جاتا تھا۔ ہماری ماں خدیجہ (رض) نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پہلی وحی کے موقع پر آپ کے اوصاف میں اس وصف کا خصوصی ذکر فرمایا : ( وَتَقْرِی الضَّیْفَ ) [ بخاری : ٣ ] ” آپ مہمان کی مہمان نوازی کرتے ہیں۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تربیت یافتہ صحابہ کا یہ حال تھا کہ نافع (رض) بیان کرتے ہیں : ( کَانَ ابْنُ عُمْرَ لَا یَأْکُلُ حَتَّی یُؤْتٰی بِمِسْکِیْنٍ یَأْکُلُ مَعَہٗ ) ” عبد اللہ بن عمر (رض) اس وقت تک کھانا نہیں کھاتے تھے جب تک کوئی مسکین ان کے ساتھ کھانے کے لیے نہ لایا جاتا۔ “ [ بخاری، الأطعمۃ، باب المؤمن یأکل في معی واحد : ٥٣٩٣ ] پھر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے والد ماجد ابراہیم (علیہ السلام) کی فیاضی کا کیا حال ہوگا۔ چوتھی بات یہ معلوم ہوئی کہ مہمان نوازی میں دیر نہیں کرنی چاہیے، نہ ان سے اس بارے میں پوچھ گچھ کرنی چاہیے۔ سورة ذاریات میں ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) چپکے سے گھر گئے اور کھانا لے آئے۔ وقت کی مناسبت سے جو حاضر ہو پیش کردیا جائے، مہمان کی خواہش ہے تو کھالے، ورنہ اس کی مرضی۔ - پانچویں یہ کہ ابراہیم (علیہ السلام) پر دنیوی لحاظ سے بھی اللہ تعالیٰ کا فضل تھا، ورنہ بھنا ہوا بچھڑا تھوڑی دیر میں لا کر پیش کردینا ہر شخص کے بس کی بات نہیں۔ چھٹی یہ کہ وہ احادیث جن میں گائے کے گوشت کو بیماری کہا گیا ہے، بظاہر اچھی سند کی بھی ہوں تو شاذ ہیں، کیونکہ قرآن میں گائے کے گوشت کو بطور انعام ذکر کیا گیا ہے۔ اس کی قربانی اور مختلف موقعوں پر ذبح کرنا قرآن مجید اور صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ اللہ تعالیٰ یا اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیماری والی چیز کی اجازت کیسے دے سکتے ہیں ؟- ساتویں یہ کہ ابراہیم (علیہ السلام) ، ہمارے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور تمام انبیاء بشر تھے اور کھانا کھاتے تھے۔ وہ نہ اللہ تعالیٰ یا اس کا کوئی جزو تھے اور نہ فرشتے، بلکہ وہ انسان تھے، کھانا کھاتے اور بازاروں میں چلتے پھرتے تھے۔ (دیکھیے فرقان : ٢٠) اور ان کی بیویاں تھیں اور اولادیں بھی۔ (دیکھیے رعد : ٣٨) جب کہ اللہ تعالیٰ اور فرشتے ان سب سے پاک ہیں۔ آٹھویں یہ کہ صوفیاء جو جان دار یا اس سے نکلنے والی چیزیں اپنے خود ساختہ وظیفوں اور چلّوں کے دوران میں یا ہمیشہ کے لیے کھانا ترک کردیتے ہیں وہ ملت ابراہیمی کے نہیں بلکہ ہندو مذہب کے پیروکار ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے ( بشکل بشر) ابراہیم ( علیہ السلام) کے پاس (ان کے فرزند اسحاق (علیہ السلام) کی) بشارت لے کر آئے ( گو مقصود اعظم ان کے آنے کا قوم لوط پر عذاب واقع کرنا تھا، لقولہ تعالیٰ فما خطبکم الج) اور ( آنے کے وقت) انہوں نے سلام کیا، ابراہیم ( علیہ السلام) نے بھی سلام کیا ( پہچانا نہیں کہ یہ فرشتے معمولی مہمان سمجھے) پھر دیر نہیں لگائی کہ ایک تلا ہوا ( فربہ لقولہ تعالیٰ سمین) بچھڑا لائے ( اور ان کے سامنے رکھ دیا، یہ تو فرشتے تھے کیوں کھانے لگے تھے) سو جب ابراہیم ( علیہ السلام) نے دیکھا کہ ان کے ہاتھ اس کھانے تک نہیں بڑھتے تو ان سے متوحش ہوئے اور ان سے دل میں خوف زدہ ہوئے ( کہ یہ مہمان تو نہیں کوئی مخالف نہ ہوں کہ بارادہ فاسد آئے ہوں اور میں گھر میں ہوں احباب و اصحاب پاس نہیں یہاں تک کہ بےتکلفی سے اس کو زبان سے بھی ظاہر کردیا لقولہ تعالیٰ (آیت) قال انا منکم وجلون) وہ فرشتے کہنے لگے ڈرو مت ( ہم آدمی نہیں ہیں فرشتے ہیں آپ کے پاس بشارت لے کر آئے ہیں کہ آپ کے ایک فرزند پیدا ہوگا اسحاق اور اس کے پیچھے ایک فرزند ہوگا یعقوب، اور بشارت اس لئے کہا کہ اول تو اولاد خوشی کی چیز ہے، پھر ابراہیم (علیہ السلام) بوڑھے ہوگئے تھے بی بی بھی بہت بوڑھی تھیں امید اولاد کی نہ رہی تھی، آپ نے نور نبوت سے توجہ کرکے پہچان لیا کہ واقعی فرشتے ہیں، لیکن فراست نبوت سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ اس کے سوا اور بھی کسی بڑے کام کے لئے آئے ہیں اس لئے اس کی تعیین کے ساتھ سوال کیا (آیت) فما خطبکم یعنی کس کام کے لئے آئے ہیں ؟ اس وقت انہوں نے کہا کہ) ہم قوم لوط کی طرف بھیجے گئے ہیں ( کہ ان کو سزا کفر میں ہلاک کریں، ان میں تو یہ گفتگو ہو رہی تھی) اور ابراہیم ( علیہ السلام) کی بی بی ( حضرت سارہ کہیں) کھڑی ( سن رہی) تھیں پس ( اولاد کی خبر سن کر جس کی ان کو بعد اس کے کہ اسماعیل (علیہ السلام) بطن ہاجرہ سے تولد ہوئے تمنا بھی تھی، خوشی سے) ہنسیں ( اور بولتی پکارتی آئیں اور تعجب سے ماتھے پر ہاتھ مارا، لقولہ تعالیٰ (آیت) فَاَقْبَلَتِ امْرَاَتُهٗ فِيْ صَرَّةٍ فَصَكَّتْ وَجْهَهَا) سو ہم نے (یعنی ہمارے فرشتوں نے) ان کو ( مکرر) بشارت دی اسحاق ( کے پیدا ہونے) کی اور اسحاق کے پیچھے یعقوب کی ( جو کہ اسحاق کے فرزند ہوں گے جس سے معلوم ہوگیا کہ تمہارے ہاں فرزند ہوگا اور زندہ رہے گا یہاں تک کہ وہ بھی صاحب اولاد ہوگا، اس وقت) کہنے لگیں کہ ہائے خاک پڑے اب میں بچہ جنوں گی بڑھیا ہو کر اور یہ میرے میاں ( بیٹھے) ہیں باکل بوڑھے، واقعی یہ بھی عجیب بات ہے، فرشتوں نے کہا کہ کیا ( خاندان نبوت میں رہ کر اور ہمیشہ معجزات و معاملات عجیبہ کی ( خاص) تم خدا کے کاموں میں تعجب کرتی ہو ( اور خصوصاً ) اس خاندان کے لوگوں پر تو اللہ تعالیٰ کی ( خاص) رحمت اور اس کی ( انواع و اقسام کی برکتیں ( نازل ہوتی رہتی) ہیں بیشک وہ (اللہ تعالیٰ ) تعریف کے لائق ( اور بڑی شان والا ہے ( وہ بڑے سے بڑا کام کرسکتا ہے، پس بجائے تعجب کے اس کی تعریف اور شکر میں مشغول ہو ) ۔ - معارف و مسائل - ان پانچ آتیوں میں حضرت خلیل اللہ ابراہیم (علیہم السلام) کا ایک واقعہ مذکور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے چند فرشتوں کو ان کے پاس اولاد کی بشارت دینے کے لئے بھیجا کیونکہ ابراہیم (علیہ السلام) کی زوجہ محترمہ حضرت سارہ سے کوئی اولاد نہ تھی اور ان کو اولاد کی تمنا تھی مگر دونوں کا بڑھاپا تھا بظاہر کوئی امید نہ تھی اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے ذریعہ خوشخبری بھیجی اور وہ بھی اس شان کی کہ نرینہ اولاد ہوگی اور ان کا نام بھی اسحاق تجویز فرما دیا اور پھر یہ بھی بتلا دیا کہ وہ زندہ رہیں گے اور وہ بھی صاحب اولاد ہوں گے ان کے لڑکے کا نام یعقوب ہوگا اور دونوں اللہ تعالیٰ کے رسول و پیغمبر ہوں گے، یہ فرشتے چونکہ بشکل انسانی آئے تھے اس لئے ابراہیم (علیہ السلام) نے ان کو عام مہمان سمجھ کر مہمان نوازی شروع کی، بھونا ہوا گوشت لا کر سامنے رکھا، مگر وہ تو حقیقتہ فرشتے تھے کھانے پینے سے پاک، اس لئے کھانا سامنے ہونے کے باوجود اس کی طرف ہاتھ نہیں بڑھایا، ابراہیم (علیہ السلام) کو یہ دیکھ کر اندیشہ لاحق ہوا کہ یہ مہمان نہیں معلوم ہوتے ممکن ہے کسی فساد کی نیت سے آئے ہوں، فرشتوں نے ان کا یہ اندیشہ معلوم کر کے بات کھول دی اور بتلا دیا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے فرشتے ہیں آپ گھبرائیں نہیں، ہم آپ کو اولاد کی بشارت دینے کے علاوہ ایک اور کام کے لئے بھی بھیجے گئے ہیں کہ قوم لوط پر عذاب نازل کریں، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی زوجہ، محترمہ حضرت سارہ پس پردہ یہ گفتگو سن رہی تھیں، جب معلوم ہوگیا کہ یہ انسان نہیں فرشتے ہیں تو پردہ کی ضرورت نہ رہی، بڑھاپے میں اولاد کی خوشخبری سن کر ہنس پڑیں اور کہنے لگیں کہ کیا میں بڑھیا ہو کر اولاد جنوں گی، اور یہ میرے شوہر بھی بوڑھے ہیں، فرشتوں نے جواب دیا کہ کیا تم اللہ تعالیٰ کے حکم پر تعجب کرتی ہو جس کی قدرت میں سب کچھ ہے، خصوصاً تم خاندان نبوت میں رہ کر اس کا مشاہدہ بھی کرتی رہتی ہو کہ اس خاندان پر اللہ تعالیٰ کی غیر معمولی رحمت و برکت نازل ہوتی رہتی ہے جو اکثر سلسلہ اسباب ظاہری سے بالاتر ہوتی ہے پھر تعجب کی کیا بات ہے۔ یہ اس واقعہ کا خلاصہ ہے آگے آیات مذکورہ کی پوری تفصیل دیکھئے، پہلی آیت میں بتلایا ہے کہ یہ فرشتے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس کوئی خوشخبری لے کر آئے تھے اس خوشخبری کا ذکر آگے تیسری آیت میں ہے فَبَشَّرْنٰهَا بِاِسْحٰقَ ۔- حضرت عبداللہ بن عباس نے فرمایا کہ یہ تین فرشتے، جبریل، میکائیل اور اسرافیل تھے ( قرطبی) انہوں نے بشکل انسان آکر ابراہیم (علیہ السلام) کو سلام کیا، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے سلام کا جواب دیا اور ان کو انسان سمجھ کر مہمان نوازی شروع کی۔- حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پہلے وہ انسان ہیں جنہوں نے دنیا میں مہان نوازی کی رسم جاری فرمائی ( قرطبی) ان کا معمول یہ تھا کہ کبھی تنہا کھانا نہ کھاتے بلکہ ہر کھانے کے وقت تلاش کرتے تھے کہ کوئی مہمان آجائے تو اس کے ساتھ کھائیں۔- قرطبی نے بعض اسرائیلی روایات سے نقل کیا ہے کہ ایک روز کھانے کے وقت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے مہمان کی تلاش شروع کی تو ایک اجنبی آدمی ملا جب وہ کھانے پر بیٹھا تو ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا کہ بسم اللہ کہو، اس نے کہا کہ میں جانتا نہیں اللہ کون اور کیا ہے ؟ ابراہیم (علیہ السلام) نے اس کو دسترخوان سے اٹھا دیا، جب وہ باہر چلا گیا تو جبریل امین آئے اور کہا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے تو اس کو کفر کے باوجود ساری عمر اس کو رزق دیا اور آپ نے ایک لقمہ دینے میں بھی بخل کیا، یہ سنتے ہی ابراہیم (علیہ السلام) اس کے پیچھے دوڑے اور اس کو واپس بلایا، اس نے کہا کہ جب تک آپ اس کی وجہ نہ بتلائیں کہ پہلے کیوں مجھے نکالا تھا اور اب پھر کیوں بلا رہے ہیں میں اس وقت تک آپ کے ساتھ نہ جاؤں گا۔- حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے واقعہ بتلا دیا تو یہی واقعہ اس کے مسلمان ہونے کا سبب بن گیا، اس نے کہا کہ وہ رب جس نے یہ حکم بھیجا ہے بڑا کریم ہے میں اس پر ایمان لاتا ہوں، پھر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ گیا اور مومن ہو کر باقاعدہ بسم اللہ پڑھ کر کھانا کھایا۔- حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی عادت مہمان نوازی کے مطابق بشکل انسان آنے والے فرشتوں کو انسان اور مہمان سمجھ کر مہمان نوازی شروع کی اور فوراً ہی ایک تلا ہوا بچھڑا سامنے لا کر رکھ دیا۔- دوسری آیت میں بتلایا گیا کہ آنے والے فرشتے اگرچہ بشکل انسانی آئے تھے اور یہ بھی ممکن تھا کہ اس وقت ان کو بشری خواص کھانے پینے کے بھی عطا کردیئے جاتے مگر حکمت اسی میں تھی کہ یہ کھانا نہ کھائیں تاکہ ان کے فرشتے ہونے کا راز کھلے اس لئے شکل انسانی میں بھی ان کے ملکی خواص کو باقی رکھا گیا جس کی وجہ سے انہوں نے کھانے پر ہاتھ نہ بڑھایا۔- بعض روایات میں ہے کہ ان کے ہاتھ میں کچھ تیر تھے ان کی نوک اس تلے ہوئے گوشت میں لگانے لگے ان کے اس عمل سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنے عرف کے مطابق یہ خطرہ لاحق ہوگیا کہ شاید یہ کوئی دشمن ہوں کیونکہ ان کے عرف میں کسی مہمان کا کھانے سے انکار کرنا ایسے ہی شر و فساد کی علامت ہوتا تھا۔ (قرطبی) فرشتوں نے بات کھول دی کہ ہم فرشتے ہیں اس لئے نہیں کھاتے، آپ کوئی خطرہ محسوس نہ کریں۔- احکام و مسائل :- آیات مذکورہ میں معاشرت سے متعلق بہت سے احکام اور اہم ہدایات آئی ہیں جن کو امام قرطبی نے اپنی تفسیر میں تفصیل سے لکھا ہے۔- سنت سلام :- (آیت) قَالُوْا سَلٰمًا ۭ قَالَ سَلٰمٌ، اس سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کے لئے سنت ہے کہ جب آپس میں ملیں تو سلام کریں، آنے والے مہمان کو اس میں پیش قدمی کرنا چاہئے اور دوسروں کو جواب دینا چاہئے۔- یہ تو ہر قوم و ملت میں پائی جاتی ہے کہ ملاقات کے وقت ایک دوسرے کو خوش کرنے کیلئے کچھ کلمات بولتے ہیں مگر اسلام کی تعلیم اس معاملہ میں بھی بےنظیر اور بہترین ہے کیونکہ سلام کا مسنون لفظ السلام علیکم اللہ کے نام پر مشتمل ہونے کی وجہ سے ذکر اللہ بھی ہے اور مخاطب کے لئے اللہ تعالیٰ سے سلامتی کی دعا بھی اور اپنی طرف سے اس کی جان و مال و آبرو کیلئے سلامتی کی ضمانت بھی۔- قرآن کریم میں اس جگہ فرشتوں کی طرف سے صرف سَلٰمًا اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف سے جواب میں سَلٰمٌ ذکر کیا گیا ہے بظاہر یہاں پورے الفاظ سلام کے ذکر کرنے کی ضرورت نہ سمجھی، جیسے عرف و محاورہ میں کہا جاتا ہے کہ فلاں نے فلاں کو سلام کیا، مراد یہ ہوتی ہے کہ پورا کلمہ السلام علیکم کہا، اسی طرح یہاں لفظ سلام سے پورا کلمہ مسنونہ سلام کا مراد ہے جو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے قول و عمل سے لوگوں کو بتلایا ہے، یعنی ابتداء سلام میں السلام علیکم اور جواب سلام وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ۔- مہمانی اور مہمان داری کے چند اصول :- (آیت) فَمَا لَبِثَ اَنْ جَاۗءَ بِعِجْلٍ حَنِيْذٍ ، یعنی نہیں ٹھہرے ابراہیم (علیہ السلام) مگر صرف اس قدر کہ لے آئے تلا ہوا بچھڑا۔- اس سے چند باتیں معلوم ہوئیں، اول یہ کہ مہمان نوازی کے آداب میں سے یہ ہے کہ مہمان کے آتے ہی جو کچھ کھانے پینے کی چیز میسر ہو اور جلدی سے مہیا ہوسکے وہ لا رکھے، پھر اگر صاحب وسعت ہے تو مزید مہمانی کا انتظام بعد میں کرے (قرطبی) - دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ مہمان کے لئے بہت زیادہ تکلفات کی فکر میں نہ پڑے، آسانی سے جو اچھی چیز میسر ہوجائے وہ مہمان کی خدمت میں پیش کردے، حضرت ابراہیم کے یہاں گائے بیل رہتے تھے، اس لئے بچھڑا ذبح کرکے فوری طور پر اس کا گوشت تل کر سامنے لا رکھا ( قرطبی ) ۔- تیسرے یہ کہ آنے والوں کی مہمانی کرنا آداب اسلام اور مکارم اخلاق میں سے ہے، انبیاء و صلحاء کی عادت ہے، اس میں علماء کا اختلاف ہے کہ مہمانی کرنا واجب ہے یا نہیں ؟ جمہور علماء اس پر ہیں کہ واجب نہیں، سنت اور مستحسن ہے۔ بعض نے فرمایا کہ گاؤں والوں پر واجب ہے کہ جو شخص ان کے گاؤں میں ٹھہرے اس کی مہمانی کریں کیونکہ وہاں کھانے کا کوئی دوسرا انتظام نہیں ہوسکتا اور شہر میں ہوٹل وغیرہ سے اس کا انتظام ہوسکتا ہے، اس لئے شہر والوں پر واجب نہیں ( قرطبی) نے اپنی تفسیر میں یہ مختلف اقوال نقل کیے ہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَقَدْ جَاۗءَتْ رُسُلُنَآ اِبْرٰہِيْمَ بِالْبُشْرٰي قَالُوْا سَلٰمًا۝ ٠ۭ قَالَ سَلٰمٌ فَمَا لَبِثَ اَنْ جَاۗءَ بِعِجْلٍ حَنِيْذٍ۝ ٦٩- جاء - جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] ، - ( ج ی ء ) جاء ( ض )- جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔- سلام - السِّلْمُ والسَّلَامَةُ : التّعرّي من الآفات الظاهرة والباطنة، قال : بِقَلْبٍ سَلِيمٍ- [ الشعراء 89] ، أي : متعرّ من الدّغل، فهذا في الباطن، وقال تعالی: مُسَلَّمَةٌ لا شِيَةَ فِيها - [ البقرة 71] ، فهذا في الظاهر، وقد سَلِمَ يَسْلَمُ سَلَامَةً ، وسَلَاماً ، وسَلَّمَهُ الله، قال تعالی: وَلكِنَّ اللَّهَ سَلَّمَ [ الأنفال 43] ، وقال : ادْخُلُوها بِسَلامٍ آمِنِينَ [ الحجر 46] ، أي : سلامة، وکذا قوله : اهْبِطْ بِسَلامٍ مِنَّا[هود 48] . والسّلامة الحقیقيّة ليست إلّا في الجنّة، إذ فيها بقاء بلا فناء، وغنی بلا فقر، وعزّ بلا ذلّ ، وصحّة بلا سقم، كما قال تعالی: لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام 127] ، أي : السلام ة، قال : وَاللَّهُ يَدْعُوا إِلى دارِ السَّلامِ [يونس 25] ، وقال تعالی: يَهْدِي بِهِ اللَّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوانَهُ سُبُلَ السَّلامِ [ المائدة 16] ، يجوز أن يكون کلّ ذلک من السّلامة . وقیل : السَّلَامُ اسم من أسماء اللہ تعالیٰ «1» ، وکذا قيل في قوله : لَهُمْ دارُ السَّلامِ [ الأنعام 127] ، والسَّلامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ [ الحشر 23] ، قيل : وصف بذلک من حيث لا يلحقه العیوب والآفات التي تلحق الخلق، وقوله : سَلامٌ قَوْلًا مِنْ رَبٍّ رَحِيمٍ [يس 58] ، سَلامٌ عَلَيْكُمْ بِما صَبَرْتُمْ [ الرعد 24] ، سلام علی آل ياسین «2» كلّ ذلک من الناس بالقول، ومن اللہ تعالیٰ بالفعل، وهو إعطاء ما تقدّم ذكره ممّا يكون في الجنّة من السّلامة، وقوله : وَإِذا خاطَبَهُمُ الْجاهِلُونَ قالُوا سَلاماً [ الفرقان 63] ، أي : نطلب منکم السّلامة، فيكون قوله ( سلاما) نصبا بإضمار فعل، وقیل : معناه : قالوا سَلَاماً ، أي : سدادا من القول، فعلی هذا يكون صفة لمصدر محذوف . وقوله تعالی: إِذْ دَخَلُوا عَلَيْهِ فَقالُوا سَلاماً قالَ سَلامٌ [ الذاریات 25] ، فإنما رفع الثاني، لأنّ الرّفع في باب الدّعاء أبلغ «3» ، فكأنّه تحرّى في باب الأدب المأمور به في قوله : وَإِذا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْها [ النساء 86] ، ومن قرأ سلم «4» فلأنّ السّلام لمّا کان يقتضي السّلم، وکان إبراهيم عليه السلام قد أوجس منهم خيفة، فلمّا رآهم مُسَلِّمِينَ تصوّر من تَسْلِيمِهِمْ أنهم قد بذلوا له سلما، فقال في جو ابهم : ( سلم) ، تنبيها أنّ ذلک من جهتي لکم كما حصل من جهتكم لي . وقوله تعالی: لا يَسْمَعُونَ فِيها لَغْواً وَلا تَأْثِيماً إِلَّا قِيلًا سَلاماً سَلاماً [ الواقعة 25- 26] ، فهذا لا يكون لهم بالقول فقط، بل ذلک بالقول والفعل جمیعا . وعلی ذلک قوله تعالی: فَسَلامٌ لَكَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ [ الواقعة 91] ، وقوله : وَقُلْ سَلامٌ [ الزخرف 89] ، فهذا في الظاهر أن تُسَلِّمَ عليهم، وفي الحقیقة سؤال اللہ السَّلَامَةَ منهم، وقوله تعالی: سَلامٌ عَلى نُوحٍ فِي الْعالَمِينَ [ الصافات 79] ، سَلامٌ عَلى مُوسی وَهارُونَ [ الصافات 120] ، سَلامٌ عَلى إِبْراهِيمَ [ الصافات 109] ، كلّ هذا تنبيه من اللہ تعالیٰ أنّه جعلهم بحیث يثنی - __________- عليهم، ويدعی لهم . وقال تعالی: فَإِذا دَخَلْتُمْ بُيُوتاً فَسَلِّمُوا عَلى أَنْفُسِكُمْ- [ النور 61] ، أي : ليسلّم بعضکم علی بعض .- ( س ل م ) السلم والسلامۃ - کے معنی ظاہری اور باطنی آفات سے پاک اور محفوظ رہنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : بِقَلْبٍ سَلِيمٍ [ الشعراء - 89] پاک دل ( لے کر آیا وہ بچ جائیگا یعنی وہ دل جو دغا اور کھوٹ سے پاک ہو تو یہ سلامت باطن کے متعلق ہے اور ظاہری عیوب سے سلامتی کے متعلق فرمایا : مُسَلَّمَةٌ لا شِيَةَ فِيها[ البقرة 71] اس میں کسی طرح کا داغ نہ ہو ۔ پس سلم یسلم سلامۃ وسلاما کے معنی سلامت رہنے اور سلمۃ اللہ ( تفعیل ) کے معنی سلامت رکھنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَلكِنَّ اللَّهَ سَلَّمَ [ الأنفال 43] لیکن خدا نے ( تمہیں ) اس سے بچالیا ۔ ادْخُلُوها بِسَلامٍ آمِنِينَ [ الحجر 46] ان میں سلامتی اور ( خاطر جمع ) سے داخل ہوجاؤ ۔ اسی طرح فرمایا :۔ اهْبِطْ بِسَلامٍ مِنَّا[هود 48] ہماری طرف سے سلامتی کے ساتھ ۔۔۔ اترآؤ ۔ اور حقیقی سلامتی تو جنت ہی میں حاصل ہوگی جہاں بقائ ہے ۔ فنا نہیں ، غنا ہے احتیاج نہیں ، عزت ہے ذلت نہیں ، صحت ہے بیماری نہیں چناچہ اہل جنت کے متعلق فرمایا :۔ لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام 127] ان کے لیے سلامتی کا گھر ہے ۔ وَاللَّهُ يَدْعُوا إِلى دارِ السَّلامِ [يونس 25] اور خدا سلامتی کے گھر کی طرف بلاتا ہے ۔ يَهْدِي بِهِ اللَّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوانَهُ سُبُلَ السَّلامِ [ المائدة 16] جس سے خدا اپنی رضامندی پر چلنے والوں کو نجات کے رستے دکھاتا ہے ۔ ان تمام آیات میں سلام بمعنی سلامتی کے ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں السلام اسمائے حسنیٰ سے ہے اور یہی معنی آیت لَهُمْ دارُ السَّلامِ [ الأنعام 127] میں بیان کئے گئے ہیں ۔ اور آیت :۔ السَّلامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ [ الحشر 23] سلامتی امن دینے والا نگہبان ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے وصف کلام کے ساتھ موصوف ہونے کے معنی یہ ہیں کہ جو عیوب و آفات اور مخلوق کو لاحق ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان سب سے پاک ہے ۔ اور آیت :۔ سَلامٌ قَوْلًا مِنْ رَبٍّ رَحِيمٍ [يس 58] پروردگار مہربان کی طرف سے سلام ( کہاجائیگا ) سَلامٌ عَلَيْكُمْ بِما صَبَرْتُمْ [ الرعد 24] اور کہیں گے ) تم رحمت ہو ( یہ ) تمہاری ثابت قدمی کا بدلہ ہے ۔ سلام علی آل ياسین «2» کہ ایسا پر سلام اور اس مفہوم کی دیگر آیات میں سلام علیٰ آیا ہے تو ان لوگوں کی جانب سے تو سلامتی بذریعہ قول مراد ہے یعنی سلام علی ٰ الخ کے ساتھ دعا کرنا اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے سلامتی بالفعل مراد ہے یعنی جنت عطافرمانا ۔ جہاں کہ حقیقی سلامتی حاصل ہوگی ۔ جیسا کہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں اور آیت :۔ وَإِذا خاطَبَهُمُ الْجاهِلُونَ قالُوا سَلاماً [ الفرقان 63] اور جب جاہل لوگ ان سے ( جاہلانہ ) گفتگو کرتے ہیں ۔ تو سلام کہتے ہیں ۔ مٰیں قالوا سلاما کے معنی ہیں ہم تم سے سلامتی چاہتے ہیں ۔ تو اس صورت میں سلاما منصوب اور بعض نے قالوا سلاحا کے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ اچھی بات کہتے ہیں تو اس صورت میں یہ مصدر مخذوف ( یعنی قولا ) کی صٖت ہوگا ۔ اور آیت کریمہ : إِذْ دَخَلُوا عَلَيْهِ فَقالُوا سَلاماً قالَ سَلامٌ [ الذاریات 25] جب وہ ان کے پاس آئے تو سلام کہا ۔ انہوں نے بھی ( جواب میں ) سلام کہا ۔ میں دوسری سلام پر رفع اس لئے ہے کہ یہ باب دعا سے ہے اور صیغہ دعا میں رفع زیادہ بلیغ ہے گویا اس میں حضرت ابراہیم نے اس اد ب کو ملحوظ رکھا ہے جس کا کہ آیت : وَإِذا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْها [ النساء 86] اور جب تم کوئی دعا دے تو ( جواب میں ) تم اس سے بہتر ( کا مے) سے ( اسے ) دعا دو ۔ میں ھکم دیا گیا ہے اور ایک قرآت میں سلم ہے تو یہ اس بنا پر ہے کہ سلام سلم ( صلح) کو چاہتا تھا اور حضرت ابراہیم السلام ان سے خوف محسوس کرچکے تھے جب انہیں سلام کہتے ہوئے ۔ ستاتو اس کو پیغام صلح پر محمول کیا اور جواب میں سلام کہہ کر اس بات پر متنبہ کی کہ جیسے تم نے پیغام صلح قبول ہو ۔ اور آیت کریمہ : لا يَسْمَعُونَ فِيها لَغْواً وَلا تَأْثِيماً إِلَّا قِيلًا سَلاماً سَلاماً [ الواقعة 25- 26] وہاں نہ بیہودہ بات سنیں گے ار نہ گالی گلوچ ہاں ان کا کلام سلام سلام ( ہوگا ) کے معنی یہ ہیں کہ یہ بات صرف بذیعہ قول نہیں ہوگی ۔ بلکہ اور فعلا دونوں طرح ہوگئی ۔ اسی طرح آیت :: فَسَلامٌ لَكَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ [ الواقعة - 91] تو ( کہا جائیگا کہ ) تم پر پر داہنے ہاتھ والوں کی طرف سے سلام میں بھی سلام دونوں معنی پر محمول ہوسکتا ہے اور آیت : وَقُلْ سَلامٌ [ الزخرف 89] اور سلام کہدو ۔ میں بظارہر تو سلام کہنے کا حکم ہے لیکن فی الحققیت ان کے شر سے سللامتی کی دعا کرنے کا حکم ہے اور آیات سلام جیسے سلامٌ عَلى نُوحٍ فِي الْعالَمِينَ [ الصافات 79]( یعنی ) تمام جہان میں نوح (علیہ السلام) پر سلام کہ موسیٰ اور ہارون پر سلام ۔ ۔ سَلامٌ عَلى مُوسی وَهارُونَ [ الصافات 120] ابراہیم پر سلام ۔ سَلامٌ عَلى إِبْراهِيمَ [ الصافات 109] میں اس بات پر تنبیہ ہی کہ اللہ تعالیٰ نے ان انبیاء ابراہیم کو اس قدر بلند مرتبہ عطا کیا تھا کہ لوگ ہمیشہ ان کی تعریف کرتے اور ان کے لئے سلامتی کے ساتھ دعا کرتے رہیں گے اور فرمایا : فَإِذا دَخَلْتُمْ بُيُوتاً فَسَلِّمُوا عَلى أَنْفُسِكُمْ [ النور 61] اور جب گھروں میں جایا کرو تو اپنے ( گھر والوں ) کو سلام کیا کرو ۔ یعنی تم ایک دوسرے کو سلام کہاکرو ۔ - لبث - لَبِثَ بالمکان : أقام به ملازما له . قال تعالی: فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ [ العنکبوت 14] ،- ( ل ب ث ) لبث بالمکان - کے معنی کسی مقام پر جم کر ٹھہرنے اور مستقل قیام کرنا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ [ العنکبوت 14] تو وہ ان میں ۔ ہزار برس رہے ۔- عِجْلُ ( بچهڑا)- : ولد البقرة لتصوّر عَجَلَتِهَا التي تعدم منه إذا صار ثورا . قال : عِجْلًا جَسَداً [ الأعراف 148] ، وبقرةٌ مُعْجِلٌ: لها عِجْلٌ.- العجلۃ بچھڑے کو کہتے ہیں کیونکہ اس میں پھرتی پائی جاتی ہے جو بیل کی عمر تک پہنچنے پر ختم ہوجاتی ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ عِجْلًا جَسَداً [ الأعراف 148] ایک بچھڑا ( بنالیا وہ ایک جسم تھا : ۔ اور وہ گائے جس کے ساتھ اس کا بچھڑ ہوا سے معجل کہا جاتا ہے ۔- حنذ - قال تعالی: جاءَ بِعِجْلٍ حَنِيذٍ [هود 69] ، أي : مشويّ بين حجرین، وإنّما يفعل ذلک لتتصبّب عنه اللّزوجة التي فيه، وهو من قولهم : حَنَذْتُ الفرس : استحضرته شوطا أو شوطین، ثم ظاهرت عليه الجلال ليعرق وهو محنوذ وحَنِيذ، وقد حَنَذَتْنَا الشّمسُ ولمّا کان ذلک خروج ماء قلیل قيل : إذا سَقَيْتَ الخَمْرَ فَأَحْنِذْ أي : قلّل الماء فيها، کالماء الذي يخرج من العرق والحنیذ .- ( ح ن ذ) الحنیذ ( بھونا ہوا ) قرآن میں ہے :۔ جاءَ بِعِجْلٍ حَنِيذٍ [هود 69] کہ ایک بھونا ہوا بچھڑا لے آئے ۔ یعنی وہ بچھڑا جو دو گرم پھتروں کے درمیان رکھ کر کباب کیا گیا تھا اور یہ اس لئے کرتے تھے تاکہ اس سے لزوجت بہ کر نکل جائے ۔ یہ حنذت الفرس سے ماخوذ ہے جس کے معنی پسینہ لانے کے لئے گھوڑے کو ایک دو چکر دوڑا کر اس پر جھول ڈال دینے کے ہیں ۔ ایسے گھوڑے کو محنوذ اور حنیذ کہا جاتا ہے ۔ حنذتنا الشمس ہمیں سور ج نے جھلس دیا ۔ اور پسینہ سے چونکہ معمولی سا پانی نکلتا ہے ۔ اس لئے جب کوئی شراب پلائے تو اس سے کہا جاتا ہے احنذ یعنی اس میں تھوڑا سا پانی ملا لو یعنی پسینہ کی مقدار میں یا اس رطوبت کی طرح جو حنیذ یعنی کباب کئے ہوئے گوشت سے نکلتی ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے قالوا سلاما ً قال سلام کہا تم پر سلام ہو۔ ابراہیم نے جواب دیا تم پر بھی سلام ہو پہلے سلام کے معنی سلمت سلاما ً میں نے سلام کیا کے ہیں اسی بنا پر یہ منصوب ہے اور دوسرا سلام اس کا جواب ہے یعنی علیکم سلام اسی بنا پر یہ مرفوع ہے ۔ دونوں کا مفہوم ایک ہے تا ہم اعراب کے لحاظ میں ان سے اس واسطے فرق رکھا گیا تا کہ کسی گمان کرنے والے کو حکایت اور نقل کا گمان نہ پیدا ہوجائے اس میں یہ دلالت موجود ہے کہ لفظ سلام اہل اسلام کی تحیت یعنی آپس میں ایک دوسرے کو سلام کرنے کا ذریعہ تھا نیز یہی لفظ فرشتوں کے سلام کا بھی ذریعہ تھا۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٦٩) جبریل امین (علیہ السلام) اور ان کے ساتھ بارہ فرشتے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس اور اس کے بیٹے حضرت اسحاق (علیہ السلام) ، کی بشارت لے کر آئے اور آتے ہی انہوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو سلام کیا، ابراہیم (علیہ السلام) نے انکو سلام کیا اور اگر بغیر الف کے سلم پڑھا جائے تو مقصود سلامتی اور عافیت ہوئی، پھر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) فورا ایک پکا ہوا فربہ بچھڑا لائے اور ان کے سامنے کھانے کے لیے پیش کیا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(اب ان آیات میں حضرت ابراہیم کا ذکر آ رہا ہے ‘ مگر آپ کا ذکر انباء الرسل کے طور پر نہیں بلکہ بالکل مختلف انداز میں ہے۔ یہاں رسولوں کے ذکر میں ایک خوبصورت تقسیم کو مد نظر رکھیں کہ اس سورت میں پہلے تین رسول جن کا زمانہ حضرت ابراہیم سے پہلے کا ہے (حضرت نوح ‘ حضرت ہود اور حضرت صالح) ان کا ذکر کرنے کے بعد حضرت ابراہیم کا ذکر مختصراً قصص النبیین کے انداز میں آیا ہے اور آپ کے ذکر کے بعد پھر تین رسولوں کا تذکرہ ہے جو آپ ہی کی نسل میں سے تھے ‘ بلکہ ان میں سے حضرت لوط تو آپ کے بھتیجے اور ہم عصر بھی تھے۔ یہاں پر حضرت لوط کا ذکر انباء الرسل کے انداز میں آیا ہے اور اسی کے ذیل میں حضرت ابراہیم کا ذکر ہے۔ جب حضرت لوط کی قوم پر عذاب بھیجنے کا فیصلہ ہوا تو عذاب کے فرشتے براہ راست حضرت لوط کے پاس جانے کے بجائے پہلے حضرت ابراہیم کے پاس گئے اور وہاں نہ صرف قوم لوط ( علیہ السلام) پر عذاب کے بارے میں ان کا حضرت ابراہیم کے ساتھ مکالمہ ہوا بلکہ فرشتوں نے حضرت سارہ کو حضرت اسحاق کی ولادت کی خوشخبری بھی دی ۔- یاد رہے کہ سورة الاعراف میں بھی جب ان چھ رسولوں کا تذکرہ انباء الرسل کے انداز میں ہوا تو وہاں بھی حضرت ابراہیم کا ذکر نہیں کیا گیا اور جب سورة الانعام (جو سورة الاعراف کی جڑواں سورت ہے) میں حضرت ابراہیم کا تذکرہ آیا تو انباء الرسل کے انداز میں نہیں بلکہ قصص النبیین کے انداز میں آیا ہے۔ یعنی حضرت ابراہیم کا ذکر قرآن حکیم میں اس طرح کہیں بھی نہیں آیا کہ آپ کو اپنی قوم کی طرف مبعوث کیا گیا ہو آپ نے اپنی قوم کو دعوت توحید دی ہو ‘ قوم اس دعوت سے منکر ہوئی ہو اور پھر اس پر عذاب بھیج دیا گیا ہو۔- (قَالَ سَلٰمٌ فَمَا لَبِثَ اَنْ جَآءَ بِعِجْلٍ حَنِیْذٍ )- مہمانوں کی آمد کے فوراً بعد حضرت ابراہیم نے ان کی ضیافت کے لیے ایک بچھڑا ذبح کیا اور اسے بھون کر ان کے سامنے پیش کردیا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة هُوْد حاشیہ نمبر :75 اس سے معلوم ہوا کہ فرشتے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہاں انسانی صورت میں پہنچے تھے اور ابتداء انہوں نے اپنا تعارف نہیں کرایا تھا ۔ اس لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خیال کیا کہ یہ کوئی اجنبی مہمان ہیں اور ان کے آتے ہی فورا ان کی ضیافت کا انتظام فرمایا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

39: اللہ تعالیٰ نے یہ فرشتے دو کاموں کے لئے بھیجے تھے، ایک یہ کہ وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو یہ خوشخبری دیں کہ ان کے یہاں ایک بیٹا ہوگا، یعنی حضرت اسحاق (علیہ السلام) پیدا ہوں گے اور ان کا دوسرا کام یہ تھا کہ وہ حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم پر عذاب نازل کریں، چنانچہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو خوشخبری دینے کے بعد وہ حضرت لوط (علیہ السلام) کی بستیوں کی طرف جانے والے تھے۔