Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

70۔ 1 حضرت ابرا ہیم (علیہ السلام) نے جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ کھانے کی طرف نہیں بڑھ رہے تو انہوں کو خوف محسوس ہوا۔ کہتے ہیں کہ ان کے ہاں یہ چیز معروف تھی کہ آئے ہوئے مہمان اگر ضیافت سے فائدہ نہ اٹھاتے تو سمجھا جاتا تھا کی آنے والے مہمان کسی اچھی نیت سے نہیں آئے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ کے پیغمبروں کو غیب کا علم نہیں ہوتا۔ اگر ابراہیم (علیہ السلام) غیب دان ہوتے تو بھنا ہوا بچھڑا بھی نہ لاتے اور ان سے خوف بھی محسوس نہ کرتے۔ 70۔ 2 اس خوف کو فرشتوں نے محسوس کیا، یا ان کے آثار سے جو ایسے موقع پر انسان کے چہرے پر ظاہر ہوتے ہیں یا اپنی گفتگو میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اظہار فرمایا، جیسا کہ دوسرے مقام پر وضاحت ہے ہمیں تو تم سے ڈر لگتا ہے چناچہ فرشتوں نے کہا ڈرو نہیں، آپ جو سمجھ رہے ہیں، ہم وہ نہیں ہیں بلکہ اللہ کی طرف سے بھیجے گئے ہیں اور ہم قوم لوط (علیہ السلام) کی طرف جا رہے ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨١] فرشتوں کا کھانے سے انکار اور ابراہیم (علیہ السلام) کا خدشہ :۔ جب ان فرشتوں نے کھانے کی طرف ہاتھ تک نہ بڑھائے تو سیدنا ابراہیم کو دال میں کچھ کالا محسوس ہوا اور ان سے خوف آنے لگا۔ بعض مفسرین یہ کہتے ہیں کہ یہ ڈرا اس وجہ سے تھا کہ ان لوگوں میں یہ دستور تھا کہ جو مہمان کھانا نہ کھاتا اس کے متعلق یہ سمجھا جاتا کہ وہ کسی بری نیت سے آیا ہے ممکن ہے یہ وجہ بھی ہو۔ مگر فرشتوں کا جواب اس بات کی تائید نہیں کرتا جو یہ تھا کہ ہم قوم لوط کی طرف بھیجے گئے ہیں بات دراصل یہ نہ تھی کہ فرشتوں کا انسانی شکل میں آنا یا کھانے کی طرف ہاتھ نہ بڑھانا یا فرشتوں کو پہچان نہ سکنا ایسی باتیں نہیں تھیں جن سے سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) ڈر جاتے اور ایسے واقعات اولوالعزم انبیاء سے پیش آتے ہی رہتے ہیں کہ فرشتہ انسانی شکل میں آتا ہے جس کا علم انھیں بعد میں ہوتا ہے - سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کے ڈر کی اصل وجہ :۔ بلکہ اصل بات یہ تھی کہ فرشتے چونکہ قوم لوط کو تباہ کرنے کی غرض سے آئے تھے اس لیے ان کے چہروں پر غصہ کے آثار نمایاں تھے لہذا انھیں یہ خطرہ پیدا ہوگیا کہ شاید مجھ سے یا میرے گھر والوں سے ایسی کوئی تقصیر ہوگئی ہے جس کی وجہ سے یہ فرشتے غضب ناک دکھائی دے رہے ہیں پھر جب فرشتوں نے یہ وضاحت کردی کہ آپ کے ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں ہم تو قوم لوط کی طرف بھیجے گئے ہیں تو سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کا اندیشہ دور ہوگیا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فَلَمَّا رَآٰ اَيْدِيَهُمْ لَا تَصِلُ اِلَيْهِ نَكِرَهُمْ ۔۔ : ابراہیم (علیہ السلام) نے صرف کھانا پیش ہی نہیں کیا بلکہ انھیں کھانے کے لیے اصرار بھی کیا : (قَالَ اَلَا تَاْكُلُوْنَ ) [ الذاریات : ٢٧ ] ” فرمایا کیا تم کھاتے نہیں ہو ؟ “ پھر بھی جب انھوں نے کھانے کی طرف ہاتھ نہیں بڑھایا تو دل میں ایک قسم کا خوف محسوس کیا۔ ” خِيْفَةً “ کی تنوین کی وجہ سے ” ایک قسم کا خوف “ ترجمہ کیا گیا ہے۔ خوف کی وجہ یہ تھی کہ ان کے علاقے میں اگر کوئی اجنبی آتا اور وہ مہمانی میں پیش کیا ہوا کھانا قبول نہ کرتا تو اس کے متعلق سمجھا جاتا کہ وہ کسی برے ارادے سے آیا ہے، یا یہ بھی ہوسکتا ہے اور شاید یہی زیادہ موقع کے مناسب ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کی بیوی نے ان کے کھانا تناول نہ کرنے کی وجہ سے ان کے فرشتے ہونے کو بھانپ لیا ہو اور وہ اس بنا پر ڈر گئے ہوں کہ یہ ان کی بستی پر عذاب کے لیے بھیجے گئے ہیں۔ (شوکانی) فرشتوں نے ان کے خوف کو بھانپ لیا، بلکہ سورة حجر (٥٢) میں ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے صاف کہہ دیا : ( اِنَّا مِنْكُمْ وَجِلُوْنَ ) ” ہم تو تم سے خوف زدہ ہیں۔ “- قَالُوْا لَا تَخَفْ اِنَّآ اُرْسِلْنَآ اِلٰي قَوْمِ لُوْطٍ : فرشتوں نے کہا، آپ مت ڈریں، ہمیں (آپ کی بستی پر نہیں بلکہ) لوط (علیہ السلام) کی قوم پر عذاب کے لیے بھیجا گیا ہے۔ اس سے انبیائے کرام (علیہ السلام) کے عالم الغیب ہونے کی اور ان کے کائنات پر اختیار رکھنے کی صاف نفی ہو رہی ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) فَلَمَّا رَآٰ اَيْدِيَهُمْ لَا تَصِلُ اِلَيْهِ نَكِرَهُمْ ، یعنی جب دیکھا ابراہیم (علیہ السلام) نے کہ ان کے ہاتھ کھانے تک نہیں پہنچتے تو متوحش ہوگئے۔- اس سے معلوم ہوا کہ مہمان کے آداب میں سے یہ ہے کہ مہمان کے سامنے جو چیز پیش کی جائے اس کو قبول کرے، ( کھانے کو دل نہ چاہے یا مضر سمجھیں تو معمولی سی شرکت دلجوئی کے لئے کرلیں ) ۔- اسی جملہ سے دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ میزبان کو چاہئے کہ صرف کھانا سامنے رکھ کر فارغ نہ ہوجائے بلکہ اس پر نظر رکھے کہ مہمان کھا رہا ہے یا نہیں، جیسا ابراہیم (علیہ السلام) نے کیا کہ فرشتوں کے کھانا نہ کھانے کو محسوس کیا۔- مگر یہ نظر رکھنا اس طرح ہو کہ مہمان کے کھانے کو تکتا نہ رہے، سرسری نظر سے دیکھ لے کیونکہ مہمان کے لقموں کو دیکھنا آداب ضیافت کے خلاف اور مدعو کے لئے باعث شرمندگی ہوتا ہے جیسا ہشام بن عبدالملک کے دسترخوان پر ایک روز ایک اعرابی کو یہ واقعہ پیش آیا کہ اعرابی کے لقمہ میں بال تھا، امیر المومنین ہشام نے دیکھا تو بتلایا، اعرابی فوراً اٹھ کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ ہم ایسے شخص کے پاس کھانا نہیں کھاتے جو ہمارے لقموں کو دیکھتا ہے۔- امام طبری نے اس جگہ نقل کیا ہے اول جب فرشتوں نے کھانے سے انکار کیا تو یہ کہا تھا کہ ہم مفت کا کھانا نہیں کھاتے اگر آپ قیمت لے لیں تو کھائیں گے، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جواب میں فرمایا کہ ہاں اس کھانے کی ایک قیمت ہے وہ ادا کردو، وہ قیمت یہ ہے کہ شروع میں اللہ کا نام لو اور آخر میں اس کی حمد کرو، جبریل امین نے یہ سن کر اپنے ساتھیوں کو بتلایا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو جو خلیل بنایا ہے یہ اسی کے مستحق ہیں۔- اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ کھانے کے شروع میں بسم اللہ اور آخر میں الحمد للہ کہنا سنت ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَلَمَّا رَآٰ اَيْدِيَہُمْ لَا تَصِلُ اِلَيْہِ نَكِرَہُمْ وَاَوْجَسَ مِنْہُمْ خِيْفَۃً۝ ٠ۭ قَالُوْا لَا تَخَفْ اِنَّآ اُرْسِلْنَآ اِلٰي قَوْمِ لُوْطٍ۝ ٧٠ۭ- يد - الْيَدُ : الجارحة، أصله : وقوله : فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم 9] ،- ( ی د ی ) الید - کے اصل معنی تو ہاتھ کے ہیں یہ اصل میں یدی ( ناقص یائی ) ہے کیونکہ اس کی جمع اید ویدی اور تثنیہ یدیان اور آیت کریمہ : ۔ فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم 9] تو انہوں نے اپنے ہاتھ ان کے مونہوں پر رکھ دئے ۔ - وصل - الِاتِّصَالُ : اتّحادُ الأشياء بعضها ببعض کاتّحاد طرفي الدائرة، ويضادّ الانفصال، ويستعمل الوَصْلُ في الأعيان، وفي المعاني .- يقال : وَصَلْتُ فلاناً. قال اللہ تعالی: وَيَقْطَعُونَ ما أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَنْ يُوصَلَ [ البقرة 27]- ( و ص ل ) الا تصال - کے معنی اشیاء کے باہم اس طرح متحد ہوجانے کے ہیں جس طرح کہ قطرہ دائرہ کی دونوں طرفین ملی ہوئی ہوتی ہیں اس کی ضد انفعال آتی ہے اور وصل کے معنی ملائے کے ہیں اور یہ اسم اور معنی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے چناچہ وصلت فلانا صلہ رحمی کے معنی میں آتا ہے قرآن میں ہے وَيَقْطَعُونَ ما أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَنْ يُوصَلَ [ البقرة 27] اور جس چیز ( یعنی رشتہ قرابت ) کے جوڑے رکھنے کا خدا نے حکم دیا ہے اسی کو قطع کئے ڈالتے ہیں - نكر - الإِنْكَارُ : ضِدُّ العِرْفَانِ. يقال : أَنْكَرْتُ كذا، ونَكَرْتُ ، وأصلُه أن يَرِدَ علی القَلْبِ ما لا يتصوَّره، وذلک ضَرْبٌ من الجَهْلِ. قال تعالی: فَلَمَّا رَأى أَيْدِيَهُمْ لا تَصِلُ إِلَيْهِ نَكِرَهُمْ- [هود 70] ، فَدَخَلُوا عَلَيْهِ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف 58]- وقد يُستعمَلُ ذلک فيما يُنْكَرُ باللّسانِ ، وسَبَبُ الإِنْكَارِ باللّسانِ هو الإِنْكَارُ بالقلبِ لکن ربّما يُنْكِرُ اللّسانُ الشیءَ وصورتُه في القلب حاصلةٌ ، ويكون في ذلک کاذباً. وعلی ذلک قوله تعالی: يَعْرِفُونَ نِعْمَتَ اللَّهِ ثُمَّ يُنْكِرُونَها[ النحل 83] ، فَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ- ( ن ک ر )- الانکار ضد عرفان اور انکرت کذا کے معنی کسی چیز کی عدم معرفت کے ہیں اس کے اصل معنی انسان کے دل پر کسی ایسی چیز کے وارد ہونے کے ہیں جسے وہ تصور میں نہ لاسکتا ہو لہذا یہ ایک درجہ جہالت ہی ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلَمَّا رَأى أَيْدِيَهُمْ لا تَصِلُ إِلَيْهِ نَكِرَهُمْ [هود 70] جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ کھانے کی طرف نہین جاتے ( یعنی وہ کھانا نہین کھاتے ۔ تو ان کو اجنبی سمجھ کر دل میں خوف کیا ۔ فَدَخَلُوا عَلَيْهِ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف 58] تو یوسف (علیہ السلام) کے پاس گئے تو یوسف نے ان کو پہچان لیا اور وہ اس کو نہ پہچان سکے ۔ اور کبھی یہ دل سے انکار کرنے پر بولا جاتا ہے اور انکار لسانی کا اصل سبب گو انکار قلب ہی ہوتا ہے ۔ لیکن بعض اوقات انسان ایسی چیز کا بھی انکار کردیتا ہے جسے دل میں ٹھیک سمجھتا ہے ۔ ایسے انکار کو کذب کہتے ہیں ۔ جیسے فرمایا ۔ يَعْرِفُونَ نِعْمَتَ اللَّهِ ثُمَّ يُنْكِرُونَها[ النحل 83] یہ خدا کی نعمتوں سے واقف ہیں مگر واقف ہوکر ان سے انکار کرتے ہیں ۔ فَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [ المؤمنون 69] اس وجہ سے ان کو نہیں مانتے ۔ - وجس - الوَجْس : الصّوت الخفيّ ، والتَّوَجُّس : التّسمّع، والإيج اس : وجود ذلک في النّفس . قال تعالی: فَأَوْجَسَ مِنْهُمْ خِيفَةً [ الذاریات 28] فالوَجْس قالوا : هو حالة تحصل من النّفس بعد الهاجس، لأنّ الهاجس مبتدأ التّفكير ، ثم يكون الواجس الخاطر .- ( و ج س ) الوجس - کے معنی صوت خفی کے ہیں اور توجس ( تفعل ) خفی آواز سننے کی کوشش کرنے کو کہتے ہیں اور ایجاس کے معنی دل میں کوئی بات محسوس کرنے کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ فَأَوْجَسَ مِنْهُمْ خِيفَةً [ الذاریات 28] اس وقت موسیٰ نے اپنے دل میں خوف معلوم کیا ۔ لہذا وجس اس حالت کو کہتے ہیں جو کسی ( خطرہ کے بعد دل میں پیدا ہوتی ہے اور جو کسی بنتی ہے اسے ھاجس اور اس کے بعد کی حالت کو واجس کہا جاتا ہے :- خوف - الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] - ( خ و ف ) الخوف ( س )- کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ - لوط - لُوطٌ: اسم علم، واشتقاقه من لَاطَ الشیء بقلبي يَلُوطُ لَوْطاً ولَيْطاً ، وفي الحدیث : «الولد أَلْوَطُ- أي : ألصق۔ بالکبد» وهذا أمر لا يَلْتَاطُ بصفري . أي : لا يلصق بقلبي، ولُطْتُ الحوض بالطّين لَوْطاً : ملطته به، وقولهم : لَوَّطَ فلان : إذا تعاطی فعل قوم لوط، فمن طریق الاشتقاق، فإنّه اشتقّ من لفظ لوط الناهي عن ذلک لا من لفظ المتعاطین له .- ( ل و ط ) لوط - ( حضرت لوط (علیہ السلام) ) یہ اسم علم ہے لَاطَ الشیء بقلبي يَلُوطُ لَوْطاً ولَيْطاً ، سے مشتق ہے جس کے معنی کسی چیز کی محبت دل میں جاگزیں اور پیوست ہوجانے کے ہیں ۔ حدیث میں ہے ۔ (115) الولد الوط بالکید ۔ کہ اولاد سے جگری محبت ہوتی ہے ۔ ھذا امر لایلنا ط بصفری ۔ یہ بات میرے دل کو نہیں بھاتی ۔ لطت الحوض بالطین لوطا ۔ میں نے حوض پر کہگل کی ۔ گارے سے پلستر کیا ۔۔۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کے نام سے اشتقاق کرکے تولط فلان کا محاورہ ستعمال ہوتا ہے جس کے معنی خلاف فطرت فعل کرنا ہیں حالانکہ حضرت لوط (علیہ السلام) تو اس فعل سے منع کرتے تھے اور اسے قوم لوط س مشتق نہیں کیا گیا جو اس کا ارتکاب کرتے تھے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٧٠) جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دیکھا کہ انکے ہاتھ اس کھانے تک نہیں بڑھتے کیوں کہ ان کو تو کھانے کی احتیاج نہیں تھی تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ان سے وحشت ہوئی اور ان سے دل میں خوف زدہ ہوئے اور سمجھے کہ کوئی مخالف نہ ہوں کیوں کہ کھانا نہیں کھا رہے ہیں، جب فرشتوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے خوف زدہ ہونے کا احساس کیا تو کہنے لگے ابراہیم (علیہ السلام) ڈرو مت ہم قوم لوط کی ہلاکت کے لیے بھیجے گئے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(نَكِرَهُمْ وَاَوْجَسَ مِنْهُمْ خِيْفَةً )- جب حضرت ابراہیم نے محسوس کیا کہ رسمی اصرار کے باوجود بھی مہمان کسی طور کھانے کی دعوت قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہو رہے تو اب آپ بجا طور پر کھٹکے کہ یہ پر اسرار لوگ کون ہیں اور یہاں کس ارادے سے آئے ہیں ؟ اس زمانے میں یہ رواج بھی تھا کہ اگر کوئی شخص دشمنی کی غرض سے کسی کے پاس جاتا تو اس کے ہاں کا کھانا نہیں کھاتا تھا۔ اسی لیے حضرت ابراہیم کو ان کی طرف سے خدشہ محسوس ہوا۔ جب انہوں نے آپ کا یہ خوف محسوس کیا تو :- (قَالُوْا لاَ تَخَفْ اِنَّآ اُرْسِلْنَآ اِلٰی قَوْمِ لُوْطٍ )- یعنی ہم فرشتے ہیں اور ہمیں قوم لوط کی طرف عذاب کی غرض سے بھیجا گیا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة هُوْد حاشیہ نمبر :76 بعض مفسرین کے نزدیک یہ خوف اس بنا پر تھا کہ جب ان اجنبی نو واردوں نے کھانے میں تأمل کیا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ان کی نیت پر شبہہ ہونے لگا اور آپ اس خیال سے اندیشہ ناک ہوئے کہ کہیں یہ کسی دشمنی کے ارادے سے تو نہیں آئے ہیں ، کیونکہ عرب میں جب کوئی شخص کسی کی ضیافت قبول کرنے سے انکار کرتا تو اس سے یہ سمجھا جاتا تھا کہ وہ مہمان کی حیثیت سے نہیں آیا ہے بلکہ قتل و غارت کی نیت سے آیا ہے ۔ لیکن بعد کی آیت اس تفسیر کی تائید نہیں کرتی ۔ سورة هُوْد حاشیہ نمبر :77 اس انداز کلام سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کھانے کی طرف ان کے ہاتھ نہ بڑھنے سے ہی حضرت ابراہیم علیہ السلام تاڑ گئے تھے کہ یہ فرشتے ہیں ۔ اور چونکہ فرشتوں کا علانیہ انسانی شکل میں آنا غیر معمولی حالات ہی میں ہوا کرتا ہے اس لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خوف جس بات پر ہوا وہ دراصل یہ تھی کہ کہیں آپ کے گھر والوں سے یا آپ کی بستی کے لوگوں سے یا خود آپ سے کوئی ایسا قصور تو نہیں ہو گیا ہے جس پر گرفت کے لیے فرشتے اس صورت میں بھیجے گئے ہیں ۔ اگر بات وہ ہوتی جو بعض مفسرین نے سمجھی ہے تو فرشتے یوں کہتے کہ ”ڈرو نہیں ہم تمہارے رب کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں“ ۔ لیکن جب انہوں نے آپ کا خوف دور کرنے کے لیے کہا کہ ” ہم تو قوم لوط کی طرف بھیجے گئے ہیں“ تو اس سے معلوم ہوا کہ ان کا فرشتہ ہونا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام جان گئے تھے ، البتہ پریشانی اس بات کی تھی کہ یہ حضرات اس فتنے اور آزمائش کی شکل میں جو تشریف لائے ہیں تو آخر وہ بدنصیب کون ہے جس کی شامت آنے والی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

40: چونکہ فرشتے اِنسانی شکل میں آئے تھے، اس لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام شروع میں انہیں اِنسان ہی سمجھے، اور ان کی مہمانی کے لئے بھنے ہوئے بچھڑے کا گوشت لے کر آئے۔ لیکن چونکہ وہ فرشتے تھے، اور کچھ کھا نہیں سکتے تھے، اس لئے انہوں نے کھانے کی طرف ہاتھ نہیں بڑھایا۔ اس زمانے میں رسم یہ تھی کہ اگر کوئی شخص میزبان کے یہاں کھانا پیش ہونے کے بعد نہ کھائے تو یہ اس بات کی علامت سمجھی جاتی تھی کہ وہ کوئی دُشمن ہے جو کسی بری نیت سے آیا ہے، اس لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خوف محسوس کیا۔ اس موقع پر فرشتوں نے واضح کردیا کہ وہ فرشتے ہیں، اور ان دو کاموں کے لئے بھیجے گئے ہیں۔