71۔ 1 حضرت ابراہیم کی اہلیہ کیوں ہنسیں ؟ بعض کہتے ہیں کہ قوم لوط (علیہ السلام) کی فساد انگیزیوں سے وہ بھی آگاہ تھیں، ان کی ہلاکت کی خبر سے انہوں نے مسرت کی۔ بعض کہتے ہیں اس لئے ہنسی آئی کہ دیکھو آسمانوں سے ان کی ہلاکت کا فیصلہ ہوچکا ہے اور یہ قوم غفلت کا شکار ہے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ تقدیم و تاخیر ہے۔ اور اس ہنسنے کا تعلق اس بشارت سے ہے جو فرشتوں نے بوڑھے جوڑے کو دی۔ واللہ اعلم۔
[٨٢] سیدہ سارہ کو خوشخبری دینا :۔ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کی بیوی سارہ بھی پاس کھڑی یہ مکالمہ سن رہی تھیں جب یہ اندیشہ دور ہوا تو خوشی سے ان کی ہنسی نکل گئی پھر فرشتوں نے انھیں ایک بیٹے جس کا نام اسحاق ہوگا کی خوشخبری دی اور یہ بھی بتلایا کہ اسحاق کے بعد اس سے یعقوب بھی ویسا ہی اولوالعزم پیغمبر پیدا ہوگا اور یہ خوشخبری خصوصاً سیدہ سارہ کو اس لیے دی گئی کہ وہ بےاولاد تھیں جبکہ سیدنا ابراہیم صاحب اولاد تھے اور دوسری بیوی ہاجرہ کے بطن سے سیدنا اسماعیل پیدا ہوچکے تھے اس لیے یہ خوشخبری سیدنا ابراہیم کے مقابلہ میں سیدہ سارہ کے لیے بہت زیادہ خوشی کی بات تھی۔- بعض مفسرین نے یہاں ضحکت کے معنی حاضت بھی کیا ہے یعنی سیدہ سارہ کو حیض آگیا امام راغب نے اس کی یہ وضاحت کردی ہے کہ یہ ضحکت کے معنی نہیں ہیں البتہ یہ ممکن ہے کہ بچہ کے حمل قرار پانے کی علامت کے طور پر انھیں حیض آگیا ہو اور حیض آنے کے معنی یہ تھے کہ انھیں حمل قرار پاسکتا ہے اور اولاد ہوسکتی ہے۔
وَامْرَاَتُهٗ قَاۗىِٕمَةٌ فَضَحِكَتْ : ان کی بیوی سارہ[ مہمانوں کی خدمت کے لیے پردے کے پیچھے ساتھ ہی کھڑی تھی اور خوف زدہ تھی۔ جب اس نے یہ بات سنی تو ہنس پڑی، یا تو اس لیے کہ ہم انھیں ڈاکو سمجھے تھے یہ تو فرشتے نکلے، یا اس خوشی میں کہ ہم تو خوف زدہ تھے کہ اس طرح فرشتوں کی آمد خطرے سے خالی نہیں ہوتی (دیکھیے حجر : ٨) مگر یہ تو ہم پر عذاب کے بجائے ہمارے عزیز پیغمبر لوط (علیہ السلام) کی نافرمان قوم پر عذاب کی خوش خبری لے کر آئے ہیں اور دشمن کی ہلاکت کی خبر سے یقیناً خوشی ہوتی ہے۔- فَبَشَّرْنٰهَا بِاِسْحٰقَ ۔۔ : سارہ[ کے لیے ایک خوشی کی خبر وہ تھی جو اوپر گزری، جس پر وہ بےساختہ ہنس پڑیں۔ فرشتوں نے انھیں مزید دو خوش خبریاں دیں، ایک بیٹا عطا ہونے کی، پھر اس بیٹے سے پوتا یعقوب عطا ہونے کی اور ان کے ضمن میں یہ خوش خبری تھی کہ تم دونوں میاں بیوی ابھی اتنی عمر اور پاؤ گے کہ بیٹا ملے گا، وہ جوان ہوگا، پھر اس کی شادی ہوگی اور اسے یعقوب عطا ہوگا، گویا مسلسل چار خوش خبریاں۔ یہ چاروں خوش خبریاں فرشتوں نے دی تھیں، مگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے اسے یہ خوش خبریاں دیں، کیونکہ فرشتوں کا کام تو صرف پہنچانا تھا، اصل خوش خبری تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھی جو کسی صورت غلط نہیں ہوسکتی۔
وَامْرَاَتُہٗ قَاۗىِٕمَۃٌ فَضَحِكَتْ فَبَشَّرْنٰہَا بِـاِسْحٰقَ ٠ۙ وَمِنْ وَّرَاۗءِ اِسْحٰقَ يَعْقُوْبَ ٧١- قائِمٌ- وفي قوله : أَفَمَنْ هُوَ قائِمٌ عَلى كُلِّ نَفْسٍ بِما كَسَبَتْ [ الرعد 33] . وبناء قَيُّومٍ :- ( ق و م ) قيام - أَفَمَنْ هُوَ قائِمٌ عَلى كُلِّ نَفْسٍ بِما كَسَبَتْ [ الرعد 33] تو کیا جو خدا ہر نفس کے اعمال کا نگہبان ہے ۔ یہاں بھی قائم بمعنی حافظ ہے ۔- ضحك - الضَّحِكُ : انبساطُ الوجه وتكشّر الأسنان من سرور النّفس، ولظهور الأسنان عنده سمّيت مقدّمات الأسنان الضَّوَاحِكِ. - قال تعالیٰ “ وَامْرَأَتُهُ قائِمَةٌ فَضَحِكَتْ [هود 71] ، وضَحِكُهَا کان للتّعجّب بدلالة قوله : أَتَعْجَبِينَ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ [هود 73] ، ويدلّ علی ذلك أيضا قوله : أَأَلِدُ وَأَنَا عَجُوزٌ إلى قوله : عَجِيبٌ [هود 72] ، وقول من قال : حاضت، فلیس ذلک تفسیرا لقوله : فَضَحِكَتْ كما تصوّره بعض المفسّرين «1» ، فقال : ضَحِكَتْ بمعنی حاضت، وإنّما ذکر ذلک تنصیصا لحالها، وأنّ اللہ تعالیٰ جعل ذلک أمارة لما بشّرت به، فحاضت في الوقت ليعلم أنّ حملها ليس بمنکر، إذ کانت المرأة ما دامت تحیض فإنها تحبل،- ( ض ح ک ) الضحک - ( س) کے معنی چہرہ کے انبساط اور خوشی سے دانتوں کا ظاہر ہوجانا کے ہیں اور ہنستے وقت چونکہ سامنے کے دانت ظاہر ہوجاتے ہیں اس لئے ان کو ضواحک کہاجاتا ہے اور بطور استعارہ ضحک بمعنی تمسخر بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ ضحکت منہ کے معنی ہیں میں نے اس کا مذاق اڑایا اور جس شخص کا لوگ مذاق اڑائیں اسے ضحکۃ اور جو دوسروں کا مذاق اڑائے اسے ضحکۃ ( بفتح الحاء ) کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَامْرَأَتُهُ قائِمَةٌ فَضَحِكَتْ [هود 71] اور حضرت ابراہیم کی بیوی ( جوپ اس ) کھڑیتی ہنس پڑی ۔ میں ان کی بیوی ہنسنا تعجب کی بنا پر تھا جیسا کہ اس کے بعد کی آیت : أَتَعْجَبِينَ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ [هود 73] کیا خدا کی قدرت سے تعجب کرتی ہو سے معلوم ہوتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ : أَأَلِدُ وَأَنَا عَجُوزٌ إلى قوله : عَجِيبٌ [هود 72] اسے ہے میرے بچو ہوگا ؟ میں تو بڑھیا ہوں ۔۔۔۔ بڑی عجیب بات ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ اور جن لوگوں نے یہاں ضحکت کے معنی حاضت کئے ہیں انہوں نے ضحکت کی تفسیر نہیں کی ہے ۔ جیسا کہ بعض مفسرین نے سمجھا سے بلکہ اس سے حضرت ابراہیم کی بیوی کی حالت کا بیان کرنا مقصود ہے کہ جب ان کو خوشخبری دی گئی تو بطور علامت کے انہیں اسی وقت حیض آگیا ۔ تاکہ معلوم ہوجائے کہ ان کا حاملہ ہونا بھی کچھ بعید نہیں ہے ۔ کیونکہ عورت کو جب تک حیض آتا ہے وہ حاملہ ہوسکتی ہے - وراء - ( وَرَاءُ ) إذا قيل : وَرَاءُ زيدٍ كذا، فإنه يقال لمن خلفه . نحو قوله تعالی:- وَمِنْ وَراءِ إِسْحاقَ يَعْقُوبَ [هود 71] ،- ( و ر ی ) واریت - الورآء کے معنی خلف یعنی پچھلی جانب کے ہیں مثلا جو زہد کے پیچھے یا بعد میں آئے اس کے متعلق ورآء زید کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَمِنْ وَراءِ إِسْحاقَ يَعْقُوبَ [هود 71] اور اسحاق کے بعد یعقوب کی خوش خبری دی ۔
(٧١) اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی بیوی حضرت سارہ اوٹ سے مہمانوں کی خدمت کے لیے کھڑی ہوئی تھیں، وہ یہ منظر دیکھ کر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) مہمانوں سے خوف زدہ ہو رہے ہیں، متعجب ہوئیں۔- پھر ہم نے انکو اسحاق فرزند اور یعقوب پوتے کی خوشخبری دی۔
آیت ٧١ (وَامْرَاَتُهٗ قَاۗىِٕمَةٌ فَضَحِكَتْ )- حضرت سارہ قریب ہی کہیں پردے کے پیچھے کھڑی یہ ساری باتیں سن رہی تھیں تو آپ شاید حضرت ابراہیم کی حالت پر ہنس پڑیں کہ میرے شوہر فرشتوں سے خوف زدہ ہوگئے تھے۔- (فَبَشَّرْنٰهَا بِاِسْحٰقَ ۙ وَمِنْ وَّرَاۗءِ اِسْحٰقَ يَعْقُوْبَ )- یعنی فرشتوں نے حضرت سارہ کو حضرت اسحاق ( علیہ السلام) کی ولادت کی خوشخبری دی اور ساتھ ہی حضرت یعقوب یعنی پوتے کی بھی۔ اس وقت حضرت ہاجرہ کے ہاں حضرت اسماعیل کی ولادت ہوچکی تھی۔ حضرت سارہ حضرت ابراہیم کی پہلی بیوی تھیں جبکہ حضرت ہاجرہ کو آپ کی خدمت میں بادشاہ مصر نے پیش کیا تھا۔ یہودیوں کے ہاں حضرت ہاجرہ کو کنیز سمجھا جاتا ہے ‘ حالانکہ آپ مصر کے شاہی خاندان کی خاتون تھیں۔ آپ کے ہاں حضرت اسماعیل کی ولادت ہوئی تو حضرت ابراہیم ان دونوں (ماں اور بیٹے) کو اللہ کے حکم سے حجاز میں اس جگہ چھوڑ آئے جہاں بعد میں بیت اللہ تعمیر ہونا تھا۔ بہر حال حضرت سارہ کے ہاں اس وقت تک کوئی اولاد نہیں تھی۔ چناچہ فرشتوں نے آپ کو بیٹے کی اور پھر اس بیٹے کے بیٹے کی ولادت کی بشارت دی۔
سورة هُوْد حاشیہ نمبر :78 اس سے معلوم ہوا کہ فرشتوں کے انسانی شکل میں آنے کی خبر سنتے ہی سارا گھر پریشان ہو گیا تھا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اہلیہ بھی گھبرائی ہوئی باہر نکل آئی تھیں ۔ پھر جب انہوں نے یہ سن لیا کہ ان کے گھر پر یا ان کی بستی پر کوئی آفت آنے والی نہیں ہے تب کہیں ان کی جان میں جان آئی اور وہ خوش ہو گئیں ۔ سورة هُوْد حاشیہ نمبر :79 فرشتوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بجائے حضرت سارہ رضی اللہ عنہا کو یہ خوشخبری اس لیے سنائی کہ اس سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اہلیہ بھی گھبرائی ہوئی باہر نکل آئی تھیں ۔ پھر جب انہوں نے یہ سن لیا کہ ان کے گھر پر یا ان کی بستی پر کوئی آفت آنے والی نہیں ہے تب کہیں ان کی جان میں جان آئی اور وہ خوش ہوگئیں ۔
41: ہنسنے کی وجہ بعض مفسرین نے تو یہ بیان کی ہے کہ جب انہیں اطمینان ہوگیا کہ یہ فرشتے ہیں، اور خطرے کی کوئی بات نہیں ہے، تو خوشی کی وجہ سے وہ ہنس پڑیں، لیکن زیادہ صحیح بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ وہ بیٹے کی خوشخبری سن کر ہنسی تھیں۔ سورۃ حجر آیت 53 اور سورۃ ذاریات آیت 29،30 میں بیان فرمایا گیا ہے کہ فرشتوں نے بیٹے کی خوشخبری پہلے دے دی تھی اور حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم پر عذاب نازل کرنے کا ذکر بعد میں کیا تھا اس پر انہیں تعجب بھی ہوا اور خوشی بھی اور ان کو ہنستا دیکھ کر فرشتوں نے دوبارہ خوشخبری دی۔