Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

72۔ 1 یہ اہلیہ حضرت سارہ تھیں، جو خود بھی بوڑھی تھیں اور ان کا شوہر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بھی بوڑھے تھے۔ اس لئے تعجب ایک فطری امر تھا، جس کا اظہار ان سے ہوا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨٣] اس وقت سیدہ سارہ کی عمر سو سال سے چند سال کم تھی اور حیض مدت سے بند ہوچکا تھا اور سیدنا ابراہیم کی عمر سو سال سے چند سال زائد تھی لہذا سیدہ سارہ کا بطور تعجب ایسے الفاظ کہنا ایک فطری امر تھا اگرچہ اس میں دل کی خوشی بھی شامل تھی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قَالَتْ يٰوَيْلَتٰٓى : امام طبری (رض) نے فرمایا کہ ” یَا وَیْلَتَا “ کا کلمہ عرب کسی چیز پر تعجب اور اسے انوکھا سمجھنے کے وقت بولتے ہیں، چناچہ تعجب کے وقت کہتے ہیں : ” وَیْلُ أُمِّہِ مَا أَرْجَلَہُ “ ” اس کی ماں ہلاک ہو، وہ کس قدر مرد ہے۔ “ باقی الف کے متعلق طبری کا فیصلہ یہ ہے کہ یہ الف ” ندبہ “ کا ہے اور تاء کا اضافہ اس لیے کیا گیا ہے کہ ” وَیْلٌ“ کے بعد والا الف ندبہ اتنا واضح اور لمبا نہیں ہوسکتا جتنا درمیان میں تاء کے اضافے سے ہوسکتا ہے۔ - ءَاَلِدُ وَاَنَا عَجُوْزٌ ۔۔ : پہلی خوش خبری کا رد عمل وہ ہنسی تھی جو سارہ[ کے چہرے پر نمودار ہوئی، اب ایک ایسی چیز کی خوش خبری ملی جو ساری زندگی کی آرزو کا خلاصہ تھی اور اس وقت ملی جب دنیاوی اسباب کے لحاظ سے اس کی امید ہی نہ تھی تو سارہ[ کی ہنسی حیرت اور دہشت میں بدل گئی۔ کہا کیا ایسا ہوگا کہ میرے ہاں بچہ ہوگا ؟ جب کہ میں بڑھیا ہوں اور یہ میرا خاوند بھی بوڑھا ہے، یقیناً یہ تو ایک عجیب چیز ہے۔ یہ خوش خبری فرشتوں نے ابراہیم (علیہ السلام) کو بھی دی تھی، جیسا کہ سورة ذاریات میں ہے : (ۭ وَبَشَّرُوْهُ بِغُلٰمٍ عَلِيْمٍ ) [ الذاریات : ٢٨ ] ” اور انھوں نے اسے ( ابراہیم (علیہ السلام ) کو ایک بہت علم والے لڑکے کی خوش خبری دی۔ “ مگر یہاں خصوصاً ان کی بیوی کو خوش خبری دینے اور ان سے گفتگو کا ذکر کیا ہے، کیونکہ ابراہیم (علیہ السلام) کے ہاں تو ہاجرہ[ سے اسماعیل پیدا ہوچکے تھے، لیکن سارہ[ ابھی تک بےاولاد تھیں۔ قدیم مفسرین اور اسرائیلی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت ابراہیم (علیہ السلام) کی عمر سو سال اور سارہ[ کی عمر نوے سال تھی، مگر حقیقت یہ ہے کہ ان دونوں کی عمر کے تعین کا کوئی بااعتماد ذریعہ ہمارے پاس نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا بیان سارہ[ کا ” عَجُوْزٌ“ ہونا اور ان کے خاوند کا ” شَیْخاً “ ہونا ہی ” لَشَيْءٌ عَجِيْبٌ“ سمجھنے کے لیے کافی ہے، ورنہ اللہ تعالیٰ ضرور ان کی عمر بھی بیان فرما دیتا۔- یہ آیت دلیل ہے کہ ذبیح اسماعیل (علیہ السلام) تھے، کیونکہ اسحاق (علیہ السلام) کی خوش خبری کے ساتھ ہی یعقوب پوتے کی خوش خبری بھی تھی، ان کے ذبح کے حکم کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ (قرطبی)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قَالَتْ يٰوَيْلَــتٰٓى ءَاَلِدُ وَاَنَا عَجُوْزٌ وَّھٰذَا بَعْلِيْ شَيْخًا۝ ٠ۭ اِنَّ ھٰذَا لَشَيْءٌ عَجِيْبٌ۝ ٧٢- ويل - قال الأصمعيّ : وَيْلٌ قُبْحٌ ، وقد يستعمل علی التَّحَسُّر .- ووَيْسَ استصغارٌ. ووَيْحَ ترحُّمٌ. ومن قال : وَيْلٌ وادٍ في جهنّم، قال عز وجل : فَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا يَكْسِبُونَ [ البقرة 79] ، وَوَيْلٌ لِلْكافِرِينَ [إبراهيم 2] وَيْلٌ لِكُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الجاثية 7] ، فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ كَفَرُوا [ مریم 37] ، فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا [ الزخرف 65] ، وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ [ المطففین 1] ، وَيْلٌ لِكُلِّ هُمَزَةٍ [ الهمزة 1] ، يا وَيْلَنا مَنْ بَعَثَنا[يس 52] ، يا وَيْلَنا إِنَّا كُنَّا ظالِمِينَ [ الأنبیاء 46] ، يا وَيْلَنا إِنَّا كُنَّا طاغِينَ [ القلم 31] .- ( و ی ل ) الویل - اصمعی نے کہا ہے کہ ویل برے مونیں میں استعمال ہوتا ہے اور حسرت کے موقع پر ویل اور تحقیر کے لئے ویس اور ترحم کے ویل کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ اور جن لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ ویل جہنم میں ایک وادی کا نام ہے۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا يَكْسِبُونَ [ البقرة 79] ان پر افسوس ہے اس لئے کہ بےاصل باتیں اپنے ہاتھ سے لکھتے ہیں اور پھر ان پر افسوس ہے اس لئے کہ ایسے کام کرتے ہیں وَوَيْلٌ لِلْكافِرِينَ [إبراهيم 2] اور کافروں کے لئے سخت عذاب کی جگہ خرابی ہے ۔ ۔ فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا [ الزخرف 65] سو لوگ ظالم ہیں ان کی خرابی ہے ۔ وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ [ المطففین 1] ناپ تول میں کمی کر نیوالا کے لئے کر ابی ہے ۔ وَيْلٌ لِكُلِّ هُمَزَةٍ [ الهمزة 1] ہر طعن آمیز اشارتیں کرنے والے چغلخور کی خرابی ہے ۔ يا وَيْلَنا مَنْ بَعَثَنا[يس 52]( اے ہے) ہماری خواب گا ہوں سے کسی نے ( جگا ) اٹھایا ۔ يا وَيْلَنا إِنَّا كُنَّا ظالِمِينَ [ الأنبیاء 46] ہائے شامت بیشک ہم ظالم تھے ۔ يا وَيْلَنا إِنَّا كُنَّا طاغِينَ [ القلم 31] ہائے شامت ہم ہی حد سے بڑھ گئے تھے ۔- ولد - الوَلَدُ : المَوْلُودُ. يقال للواحد والجمع والصّغير والکبير . قال اللہ تعالی: فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء 11] ،- ( و ل د ) الولد - ۔ جو جنا گیا ہو یہ لفظ واحد جمع مذکر مونث چھوٹے بڑے سب پر بولاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء 11] اور اگر اولاد نہ ہو ۔ - عجز - عَجُزُ الإنسانِ : مُؤَخَّرُهُ ، وبه شُبِّهَ مُؤَخَّرُ غيرِهِ. قال تعالی: كَأَنَّهُمْ أَعْجازُ نَخْلٍ مُنْقَعِرٍ [ القمر 20] ، والعَجْزُ أصلُهُ التَّأَخُّرُ عن الشیء، وحصوله عند عَجُزِ الأمرِ ، أي : مؤخّره، كما ذکر في الدّبر، وصار في التّعارف اسما للقصور عن فعل الشیء، وهو ضدّ القدرة . قال تعالی: أَعَجَزْتُ أَنْ أَكُونَ [ المائدة 31] ، وأَعْجَزْتُ فلاناً وعَجَّزْتُهُ وعَاجَزْتُهُ : جعلته عَاجِزاً. قال : وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّهِ [ التوبة 2] ، وَما أَنْتُمْ بِمُعْجِزِينَ فِي الْأَرْضِ [ الشوری 31] ، وَالَّذِينَ سَعَوْا فِي آياتِنا مُعاجِزِينَ [ الحج 51] ، وقرئ : معجزین فَمُعَاجِزِينَ قيل : معناه ظانّين ومقدّرين أنهم يُعْجِزُونَنَا، لأنهم حسبوا أن لا بعث ولا نشور فيكون ثواب و عقاب، وهذا في المعنی کقوله : أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئاتِ أَنْ يَسْبِقُونا [ العنکبوت 4] ، و «مُعَجِّزِينَ» : يَنسُبُون إلى العَجْزِ مَن تَبِعَ النبيَّ صلّى اللہ عليه وسلم، وذلک نحو : جهّلته وفسّقته، أي : نسبته إلى ذلك . وقیل معناه :- مثبّطين، أي : يثبّطون الناس عن النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم کقوله : الَّذِينَ يَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ [ الأعراف 45] ، وَالعَجُوزُ سمّيت لِعَجْزِهَا في كثير من الأمور . قال تعالی: إِلَّا عَجُوزاً فِي الْغابِرِينَ [ الصافات 135] ، وقال : أَأَلِدُ وَأَنَا عَجُوزٌ [هود 72] .- ( ع ج ز ) عجز الانسان - عجز الانسان ۔ انسان کا پچھلا حصہ تشبیہ کے طور ہر چیز کے پچھلے حصہ کو عجز کہہ دیا جاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ كَأَنَّهُمْ أَعْجازُ نَخْلٍ مُنْقَعِرٍ [ القمر 20] جیسے کھجوروں کے کھو کھلے تنے ۔ عجز کے اصلی معنی کسی چیز سے پیچھے رہ جانا یا اس کے ایسے وقت میں حاصل ہونا کے ہیں جب کہ اسکا وقت نکل جا چکا ہو جیسا کہ لفظ کسی کام کے کرنے سے قاصر رہ جانے پر بولا جاتا ہے اور یہ القدرۃ کی ضد ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ أَعَجَزْتُ أَنْ أَكُونَ [ المائدة 31] اے ہے مجھ سے اتنا بھی نہ ہوسکا کہ میں ۔۔۔۔ ۔ اعجزت فلانا وعجزتہ وعاجزتہ کے معنی کسی کو عاجز کردینے کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّهِ [ التوبة 2] اور جان رکھو کہ تم خدا کو عاجز نہیں کرسکو گے ۔ وَما أَنْتُمْ بِمُعْجِزِينَ فِي الْأَرْضِ [ الشوری 31] اور تم زمین میں خدا کو عاجز نہیں کرسکتے ۔ وَالَّذِينَ سَعَوْا فِي آياتِنا مُعاجِزِينَ [ الحج 51] اور جہنوں نے ہماری آیتوں میں کوشش کی کہ ہمیں ہرادیں گے ۔ ایک قرات میں معجزین ہے معاجزین کی صورت میں اس کے معنی ہوں گے وہ یہ زعم کرتے ہیں کہ ہمیں بےبس کردیں گے کیونکہ وہ یہ گمان کرچکے ہیں کہ حشر ونشر نہیں ہے کہ اعمال پر جذا وسزا مر تب ہو لہذا یہ باعتبار معنی آیت کریمہ : أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئاتِ أَنْ يَسْبِقُونا [ العنکبوت 4] کیا وہ لوگ جو برے کام کرتے ہیں یہ سمجھے ہوئے ہیں کہ ہمارے قابو سے نکل جائیں گے ۔ کے مترادف ہوگا اور اگر معجزین پڑھا جائے تو معنی یہ ہوں گے کہ وہ آنحضرت کے متبعین کیطرف عجز کی نسبت کرتے ہیں جیسے جھلتہ وفسقتہ کے معنی کسی کی طرف جہالت یا فسق کی نسبت کرنا کے ہوتے ہیں ۔ اور بعض کے نزدیک معجزین بمعنی مثبطین ہے یعنی لوگوں کو آنحضرت کی اتباع سے روکتے ہیں جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ الَّذِينَ يَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ [ الأعراف 45] جو خدا کی راہ سے روکتے ( ہیں ) اور بڑھیا کو عجوز اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ بھی اکثر امور سے عاجز ہوجاتی ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ إِلَّا عَجُوزاً فِي الْغابِرِينَ [ الصافات 135] مگر ایک بڑھیا کہ پیچھے رہ گئی ۔ أَأَلِدُ وَأَنَا عَجُوزٌ [هود 72] اے ہے میرے بچہ ہوگا اور میں تو بڑھیا ہوں ۔- بعل - البَعْلُ هو الذکر من الزوجین، قال اللہ عزّ وجل : وَهذا بَعْلِي شَيْخاً [هود 72] ، وجمعه بُعُولَة، نحو : فحل وفحولة . - ( ب ع ل البعل - کے معنی شوہر کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَهَذَا بَعْلِي شَيْخًا ( سورة هود 72) اور یہ میرے میاں بھی بوڑھے ہیں اس کی جمع بعولۃ آتی ہے جیسے فحل وفحولۃ - شيخ - يقال لمن طعن في السّنّ : الشَّيْخُ ، وقد يعبّر به فيما بيننا عمّن يكثر علمه، لما کان من شأن الشَّيْخِ أن يكثر تجاربه ومعارفه، ويقال : شَيْخٌ بيّن الشَّيْخُوخَةُ ، والشَّيْخُ ، والتَّشْيِيخُ. قال اللہ تعالی: هذا بَعْلِي شَيْخاً [هود 72] ، وَأَبُونا شَيْخٌ كَبِيرٌ [ القصص 23] .- ( ش ی خ ) الشیخ - کے معنی معمر آدمی کے ہیں عمر رسید ہ آدمی کے چونکہ تجربات اور معارف زیادہ ہوتے ہیں اس مناسب سے کثیر العلم شخص کو بھی شیخ کہہ دیا جاتا ہے ۔ محاورہ شیخ بین الشیوخۃ والشیخ ولتیشخ یعنی وہ بہت بڑا عالم ہے قرآن میں ہے : ۔ هذا بَعْلِي شَيْخاً [هود 72] یہ میرے میاں بھی بوڑھے ہیں وَأَبُونا شَيْخٌ كَبِيرٌ [ القصص 23] . ہمارے والد بڑی عمر کے بوڑھے ہیں ۔- عجب - العَجَبُ والتَّعَجُّبُ : حالةٌ تعرض للإنسان عند الجهل بسبب الشیء، ولهذا قال بعض الحکماء : العَجَبُ ما لا يُعرف سببه، ولهذا قيل : لا يصحّ علی اللہ التَّعَجُّبُ ، إذ هو علّام الغیوب لا تخفی عليه خافية . يقال : عَجِبْتُ عَجَباً ، ويقال للشیء الذي يُتَعَجَّبُ منه : عَجَبٌ ، ولما لم يعهد مثله عَجِيبٌ. قال تعالی: أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً أَنْ أَوْحَيْنا - [يونس 2] ، تنبيها أنهم قد عهدوا مثل ذلک قبله، وقوله : بَلْ عَجِبُوا أَنْ جاءَهُمْ- [ ق 2] ، وَإِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ [ الرعد 5] ،- ( ع ج ب ) العجب اور التعجب - اس حیرت کو کہتے ہیں جو کسی چیز کا سبب معلوم نہ ہونے کی وجہ سے انسان کو لاحق ہوجاتی ہے اسی بنا پر حکماء نے کہا ہے کہ عجب اس حیرت کو کہتے ہیں جس کا سبب معلوم نہ ہو اس لئے اللہ تعالیٰ پر تعجب کا اطلاق جائز نہیں ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ تو علام الغیوب ہے اس بنا پر کوئی چیز بھی مخفی نہیں ہے عجبت عجبا ( س ) میں نے تعجب کیا عجب ہر وہ بات جس سے تعجب پیدا ہوا اور جس جیسی چیز عام طور نہ دیکھی جاتی ہوا ہے عجیب کہا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً أَنْ أَوْحَيْنا[يونس 2] کیا لوگوں کو اس بات پر حیرت ہے کہ ہم نے وحی بھیجی ۔ میں تنبیہ کی ہے کہ آنحضرت کی طرف وحی بھیجنا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کیونکہ یہ لوگ پہلے سے سلسلہ وحی کو جانتے ہیں نیز فرمایا : ۔ بَلْ عَجِبُوا أَنْ جاءَهُمْ [ ق 2] بلکہ ان لوگوں نے تعجب کیا ہے کہ انہی میں سے ایک ہدایت کرنے والا ان کے پاس آیا ۔ وَإِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ [ الرعد 5] اور اگر تم عجیب بات سننی چاہو تو کافروں کا یہ کہنا عجیب ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

بڑھاپے میں اولاد - قول باری ہے فقالت یویلتیء الدوانا عجوز وھذا بعلی شیخا ً ان ھذا الشی عجیب ۔ وہ بولی ۔ ہائے میری کم بختی کیا اب میرے ہاں اولاد ہوگی جبکہ میں بڑھیا پھونس ہوگئی اور یہ میرے میاں بھی بوڑھے ہوچکے ، یہ تو بڑی عجیب بات ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی زوجہ محترمہ کو اگرچہ اس بات کا یقین تھا کہ ایسا کردینا اللہ کی قدرت سے باہر نہیں ہے تا ہم بتقاضائے بشریت وہ اس پر اپنے تعجب کا اظہار کیے بغیر نہ رہ سکیں ۔ انہوں نے اس پر غور و فکر کرنے سے پہلے اپنے فوری ردعمل کا اظہار کردیا جس طرح حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے سامنے جب لاٹھی نے سانپ کی شکل اختیار کرلی تو فوری ردعمل کے طور پر آپ الٹے پائوں بھاگے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو کہا گیا اقبل ولا تخف انک من الامنین آگے آئو اور ڈرو مت ، تم بالکل محفوظ ہو ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی زوجہ محترمہ کو اس بنا پر تعجب ہوا کہ اس وقت شوہر کی عمر ایک س بیس برس کی تھی اور بیوی یعنی حضرت سارہ کی عمر نوے برس تھی۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٧٢) یہ سن کر حضرت سارہ ہنسیں (اور ان کو حیض کی شکایت ہوئی) اور کہنے لگیں کہ اب میں اٹھانوے سال کی بڑھیا ہو کر بچہ کیسے پیدا کروں گی اور میاں ابراہیم ننانوے سال کے بوڑھے ہیں، واقعی یہ بھی عجیب بات ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة هُوْد حاشیہ نمبر :80 اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ حضرت سارہ رضی اللہ عنہا فی الواقع اس پر خوش ہونے کے بجائے الٹی اس کو کم بختی سمجھتی تھیں ۔ بلکہ دراصل یہ اس قسم کے الفاظ میں سے ہے جو عورتیں بالعموم تعجب کے مواقع پر بولا کرتی ہیں اور جن سے لغوی معنی مراد نہیں ہوتے بلکہ محض اظہار تعجب مقصود ہوتا ہے ۔ سورة هُوْد حاشیہ نمبر :81 بائیبل سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عمر اس وقت ۱۰۰ برس اور حضرت سارہ رضی اللہ عنہا کی عمر ۹۰ برس کی تھی ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani