73۔ 1 یہ استفہام انکار کے لئے ہے۔ یعنی تو اللہ تعالیٰ کے قضا و قدر پر کس طرح تعجب کا اظہار کرتی ہے جبکہ اس کے لئے کوئی چیز مشکل نہیں۔ اور نہ وہ اسباب عادیہ ہی کا محتاج ہے، وہ تو جو چاہے، اس کے لفظ کُنْ (ہو جا) سے معرض وجود میں آجاتا ہے۔ 73۔ 2 حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اہلیہ محترمہ کو یہاں فرشتوں نے اہل بیت سے یاد کیا اور دوسرے ان کے لئے جمع مذکر مخاطب (عَلَیْکُمْ ) کا صیغہ استعمال کیا۔ جس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ اہل بیت کے لئے جمع مذکر کے صیغے کا استعمال بھی جائز ہے۔ جیسا کہ سورة احزاب، 33 میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ کی ازواج مطہرات کو بھی اہل بیت کہا ہے اور انھیں جمع مذکر کے صیغے سے مخاطب بھی کیا ہے۔
[٨٤] فرشتے کہنے لگے کہ ایک پیغمبر کی بیوی ہو کر اللہ کے کام پر تعجب کرتی ہو ؟ اللہ جو چاہے وہ اس کے کرنے پر قادر ہے اور سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کے گھر والوں پر تو اللہ کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوتی رہی ہیں اور آئندہ بھی ہوتی رہیں گی جن میں سے ایک ہونے والا بچہ اسحاق کی پیدائش بھی ہے۔
قَالُوْٓا اَتَعْجَبِيْنَ مِنْ اَمْرِ اللّٰهِ : یعنی وہ تو ماں باپ کے بغیر بھی پیدا کرسکتا ہے، پھر بوڑھی عورت کو بچہ عطا کرنا اسے کیا مشکل ہے۔ جب اللہ کے امر کے سامنے کوئی چیز ناممکن نہیں تو تعجب کیسا۔ پھر اس گھر میں شروع سے اللہ کی رحمت و برکت کے جو معجزے ظاہر ہوتے رہے ہیں، مثلاً آگ کا گلزار ہونا، اسماعیل (علیہ السلام) کا ذبح سے محفوظ رہنا، مصر کے اس ظالم جبار سے سارہ[ کی عصمت کا محفوظ رہنا وغیرہ، ان کے بعد تو اللہ کے حکم سے کسی بھی ناممکن کام کے ہوجانے پر تعجب نہیں ہونا چاہیے۔ - رَحْمَتُ اللّٰهِ وَبَرَكٰتُهٗ عَلَيْكُمْ اَهْلَ الْبَيْتِ :” اَهْلَ الْبَيْتِ “ سے پہلے حرف ندا ” یَا “ مقدر ہے، اس لیے یہ منصوب ہے، یعنی ” اے گھر والو “ پہلے ” سَلٰماً “ کہا تھا، اب ” رَحْمَتُ اللّٰهِ وَبَرَكٰتُهٗ عَلَيْكُمْ “ کے ساتھ وہ مکمل ہوگیا، اس سے زائد الفاظ ثابت نہیں ہیں۔ اس وقت فرشتوں کی مخاطب صرف اکیلی سارہ[ تھیں، ان کے لیے فرشتوں نے جو الفاظ استعمال کیے ہیں، ان میں سے دو الفاظ خاص طور پر قابل توجہ ہیں، ایک تو یہ کہ اکیلی عورت کو ” عَلَیْکُم “ جمع مذکر حاضر کے لفظ سے خطاب کیا ہے، حالانکہ وہ مؤنث تھیں۔ دوسرا انھیں ” اَهْلَ الْبَيْتِ “ کہہ کر خطاب کیا ہے۔ معلوم ہوا کہ آدمی کے اہل بیت (گھر والے) اس کی بیوی ہوتی ہے۔ دوسرا یہ کہ سلام اور رحمت و برکت کہتے وقت عورتوں کو بھی مذکر کے صیغے سے مخاطب کیا جاتا ہے۔ یہ آیت فیصلہ کن ہے کہ سورة احزاب کی آیت : (اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيْرًا) [ الأحزاب : ٣٣ ] ” اللہ تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے گندگی دور کر دے اے گھر والو اور تمہیں پاک کر دے خوب پاک کرنا۔ “ اس آیت میں اہل بیت کا ذکر کرتے ہوئے پہلے بھی اور بعد میں بھی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج مطہرات کا ذکر ہے، تو یہاں اس آیت میں بھی ” عَنْکُم “ اور ” اَهْلَ الْبَيْتِ “ اور ” یُطَھِّرَکُمْ “ تینوں میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویاں مراد ہیں۔ اس کی نفی کرنے والے ایک واضح اور ثابت شدہ حقیقت کی نفی کر رہے ہیں، جس کی وجہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محبوب ازواج مطہرات سے بغض و عناد کے سوا کچھ نہیں اور جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیاروں سے بغض رکھے وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محبت سے کیسے بہرہ ور ہوسکتا ہے۔
قَالُوْٓا اَتَعْجَبِيْنَ مِنْ اَمْرِ اللہِ رَحْمَتُ اللہِ وَبَرَكٰتُہٗ عَلَيْكُمْ اَہْلَ الْبَيْتِ ٠ۭ اِنَّہٗ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ ٧٣- رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین .- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] لوگو تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )- برك - أصل البَرْك صدر البعیر وإن استعمل في غيره، ويقال له : بركة، وبَرَكَ البعیر : ألقی بركه، واعتبر منه معنی اللزوم، فقیل : ابْتَرَكُوا في الحرب، أي : ثبتوا ولازموا موضع الحرب، وبَرَاكَاء الحرب وبَرُوكَاؤُها للمکان الذي يلزمه الأبطال، وابْتَرَكَتِ الدابة : وقفت وقوفا کالبروک، وسمّي محبس الماء بِرْكَة، والبَرَكَةُ : ثبوت الخیر الإلهي في الشیء .- قال تعالی: لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 96]- ( ب رک ) البرک - اصل میں البرک کے معنی اونٹ کے سینہ کے ہیں ( جس پر وہ جم کر بیٹھ جاتا ہے ) گو یہ دوسروں کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے اور اس کے سینہ کو برکۃ کہا جاتا ہے ۔ برک البعیر کے معنی ہیں اونٹ اپنے گھٹنے رکھ کر بیٹھ گیا پھر اس سے معنی لزوم کا اعتبار کر کے ابترکوا ا فی الحرب کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی میدان جنگ میں ثابت قدم رہنے اور جم کر لڑنے کے ہیں براکاء الحرب الحرب وبروکاءھا سخت کا ر زار جہاں بہ اور ہی ثابت قدم رہ سکتے ہوں ۔ ابترکت الدبۃ چو پائے کا جم کر کھڑا ہوجانا برکۃ حوض پانی جمع کرنے کی جگہ ۔ البرکۃ کے معنی کسی شے میں خیر الہٰی ثابت ہونا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 96] تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکات - ( کے دروازے ) کھول دیتے ۔ یہاں برکات سے مراد بارش کا پانی ہے اور چونکہ بارش کے پانی میں اس طرح خیر ثابت ہوتی ہے جس طرح کہ حوض میں پانی ٹہر جاتا ہے اس لئے بارش کو برکات سے تعبیر کیا ہے ۔- بيت - أصل البیت : مأوى الإنسان باللیل، قال عزّ وجلّ : فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل 52] ، - ( ب ی ت ) البیت - اصل میں بیت کے معنی انسان کے رات کے ٹھکانہ کے ہیں ۔ کیونکہ بات کا لفظ رات کو کسی جگہ اقامت کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل 52] یہ ان کے گھر ان کے ظلم کے سبب خالی پڑے ہیں ۔ - حمد - الحَمْدُ لله تعالی: الثناء عليه بالفضیلة، وهو أخصّ من المدح وأعمّ من الشکر، فإنّ المدح يقال فيما يكون من الإنسان باختیاره، ومما يقال منه وفيه بالتسخیر، فقد يمدح الإنسان بطول قامته وصباحة وجهه، كما يمدح ببذل ماله وسخائه وعلمه، والحمد يكون في الثاني دون الأول، والشّكر لا يقال إلا في مقابلة نعمة، فكلّ شکر حمد، ولیس کل حمد شکرا، وکل حمد مدح ولیس کل مدح حمدا، ويقال : فلان محمود :- إذا حُمِدَ ، ومُحَمَّد : إذا کثرت خصاله المحمودة، ومحمد : إذا وجد محمودا «2» ، وقوله عزّ وجلّ :إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود 73] ، يصحّ أن يكون في معنی المحمود، وأن يكون في معنی الحامد، وحُمَادَاكَ أن تفعل کذا «3» ، أي : غایتک المحمودة، وقوله عزّ وجل : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف 6] ، فأحمد إشارة إلى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم باسمه وفعله، تنبيها أنه كما وجد اسمه أحمد يوجد وهو محمود في أخلاقه وأحواله، وخصّ لفظة أحمد فيما بشّر به عيسى صلّى اللہ عليه وسلم تنبيها أنه أحمد منه ومن الذین قبله، وقوله تعالی: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ- [ الفتح 29] ، فمحمد هاهنا وإن کان من وجه اسما له علما۔ ففيه إشارة إلى وصفه بذلک وتخصیصه بمعناه كما مضی ذلک في قوله تعالی: إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم 7] ، أنه علی معنی الحیاة كما بيّن في بابه «4» إن شاء اللہ .- ( ح م د ) الحمدللہ - ( تعالیٰ ) کے معنی اللہ تعالے کی فضیلت کے ساتھ اس کی ثنا بیان کرنے کے ہیں ۔ یہ مدح سے خاص اور شکر سے عام ہے کیونکہ مدح ان افعال پر بھی ہوتی ہے جو انسان سے اختیاری طور پر سرزد ہوتے ہیں اور ان اوصاف پر بھی جو پیدا کشی طور پر اس میں پائے جاتے ہیں چناچہ جس طرح خرچ کرنے اور علم وسخا پر انسان کی مدح ہوتی ہے اس طرح اسکی درازی قدو قامت اور چہرہ کی خوبصورتی پر بھی تعریف کی جاتی ہے ۔ لیکن حمد صرف افعال اختیار یہ پر ہوتی ہے ۔ نہ کہ اوصاف اضطرار ہپ پر اور شکر تو صرف کسی کے احسان کی وجہ سے اس کی تعریف کو کہتے ہیں ۔ لہذا ہر شکر حمد ہے ۔ مگر ہر شکر نہیں ہے اور ہر حمد مدح ہے مگر ہر مدح حمد نہیں ہے ۔ اور جس کی تعریف کی جائے اسے محمود کہا جاتا ہے ۔ مگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صرف اسی کو کہہ سکتے ہیں جو کثرت قابل ستائش خصلتیں رکھتا ہو نیز جب کوئی شخص محمود ثابت ہو تو اسے بھی محمود کہہ دیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود 73] وہ سزاوار تعریف اور بزرگوار ہے ۔ میں حمید بمعنی محمود بھی ہوسکتا ہے اور حامد بھی حماد اک ان تفعل کذا یعنی ایسا کرنے میں تمہارا انجام بخیر ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف 6] اور ایک پیغمبر جو میرے بعد آئیں گے جن کا نام احمد ہوگا ان کی بشارت سناتاہوں ۔ میں لفظ احمد سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات کی طرف اشارہ ہے اور اس میں تنبیہ ہے کہ جس طرح آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام احمد ہوگا اسی طرح آپ اپنے اخلاق واطوار کے اعتبار سے بھی محمود ہوں گے اور عیٰسی (علیہ السلام) کا اپنی بشارت میں لفظ احمد ( صیغہ تفضیل ) بولنے سے اس بات پر تنبیہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت مسیح (علیہ السلام) اور ان کے بیشتر وجملہ انبیاء سے افضل ہیں اور آیت کریمہ : مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ [ الفتح 29] محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خدا کے پیغمبر ہیں ۔ میں لفظ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گومن وجہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام ہے لیکن اس میں آنجناب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اوصاف حمیدہ کی طرف بھی اشاره پایا جاتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ : إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم 7] میں بیان ہوچکا ہے کہ ان کا یہ نام معنی حیات پر دلالت کرتا ہے جیسا کہ اس کے مقام پر مذ کور ہے ۔- مجد - الْمَجْدُ : السّعة في الکرم والجلال، وقوله في صفة القرآن : ق وَالْقُرْآنِ الْمَجِيدِ [ ق 1] - ( م ج د ) مجد - یمجد مجدا ومجا دۃ کے معنی کرم وشرف اور بزرگی میں وسعت اور پہنائی کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ ق وَالْقُرْآنِ الْمَجِيدِ [ ق 1] قرآن مجید کی قسم ۔
ازواج مطہرات اہل بیت میں - قول باری ہے العجبین من امر اللہ رحمۃ اللہ وبرکاتہ علیکم اھل البیت اللہ کے حکم پر تعجب کرتی ہو، ابراہیم کے گھر والو، تم لوگوں پر تو اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہیں ۔ یہ قول باری اس پر دلالت کرتا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج مطہرات آپ کے اہل بیت میں داخل تھیں اس لیے کہ فرشتوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی زوجہ محترمہ کو انکے اہل بیت میں شمار کیا ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج مطہرات کو خطاب کرتے ہوئے انہیں اہل بیت کے لفظ سے یاد فرمایا، چناچہ ارشاد باری ہے۔ ومن یقیت منکن للہ ورسولہ وتعمل صالحا ً نو تھا اجرھا موتین واعتدنا لھا رزقتا ً کریما ً اور جو کوئی تم میں سے اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری رہے گی اور عمل صالح کرتی رہے گی تو ہم اس کا اجرا دوہرا دیں گے اور ہم نے اس کے لیے ایک مخصوص عمدہ نعمت تیار کر رکھی ہے۔ تا قول باری واطعن اللہ ورسولہ انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت اور اللہ کا اور اس کے رسول کا حکم مانو ، اللہ تو بس یہی چاہتا ہے کہ اے نبی کے گھر والو تم سے آلودگی کو دور رکھے اہل بیت کے لفظ میں ازواج مطہرات بھی داخل ہوگئیں اس لیے کہ خطاب کی ابتداء ان سے ہی ہوئی تھی۔
(٧٣) فرشتوں نے ان سے کہا کہ اب بھی (خاندان نبوت میں رہ کر) اللہ کی قدرت میں تعجب کرتی ہو اور خصوصا ابراہیم (علیہ السلام) کے گھر والو تم پر تو اللہ تعالیٰ کی برکتیں اور رحمتیں نازل ہوتی رہتی ہیں، بیشک وہ اللہ تعالیٰ تمہارے کاموں میں تعریف کے لائق اور بڑی شان والا ہے کہ تمہیں نیک لڑکے کی وجہ سے اعزاز عطا کیا۔
آیت ٧٣ (قَالُوْٓا اَتَعْجَبِيْنَ مِنْ اَمْرِ اللّٰهِ )- یعنی یہ تو اللہ کا فیصلہ ہے اور ہم اللہ کی طرف سے آپ ( علیہ السلام) کو خوشخبری دے رہے ہیں۔- (رَحْمَتُ اللّٰهِ وَبَرَكٰتُهٗ عَلَيْكُمْ اَهْلَ الْبَيْتِ )- اس آیت میں ” اہل بیت “ کا مفہوم بہت واضح ہو کر سامنے آتا ہے۔ یہاں پر اس کا مصداق حضرت سارہ کے علاوہ کوئی اور نہیں ‘ لہٰذا یہاں لازمی طور پر آپ ہی اہل بیت ہیں۔ چناچہ محمد رسول اللہ کے معاملے میں بھی اہل بیت رسول آپ کی ازواج مطہرات ہی ہیں۔ اور آپ کا فرمان جو حضرت فاطمہ ‘ حضرت علی ‘ حضرت حسن اور حضرت حسین کے بارے میں ہے : (اَللّٰھُمَّ آٰؤُلاَءِ اَہْلُ بَیْتِیْ ) (١) تو یہ گویا آپ نے اپنے اہل بیت کے دائرے کو وسعت دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ لوگ بھی میرے اہل بیت میں شامل ہیں۔- (اِنَّهٗ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ)- اللہ تعالیٰ اپنی ذات میں ستودہ صفات ہے اور وہ بہت عظمتوں والا ہے۔
سورة هُوْد حاشیہ نمبر :82 مطلب یہ ہے کہ اگرچہ عادتا اس عمر میں انسان کے ہاں اولاد نہیں ہوا کرتی ، لیکن اللہ کی قدرت سے ایسا ہونا کچھ بعید بھی نہیں ہے ۔ اور جب کہ یہ خوشخبری تم کو اللہ کی طرف سے دی جا رہی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ تم جیسی ایک مومنہ اس پر تعجب کرے ۔
42: یہ ترجمہ اہل البیت کو عربی گرامر کے قاعدے سے منصوب علی سبیل المدح قرار دینے پر مبنی ہے۔ ترجمے میں مقدس کا لفظ بھی اسی لیے بڑھایا گیا ہے۔ اس کا دوسرا ترجمہ اس طرح بھی ممکن ہے کہ : اے اہل بیت تم پر اللہ کی رحمت اور برکتیں ہیں۔