Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

حضرت ابراہیم کی بردباری اور سفارش ۔ مہمانوں کے کھانا نہ کھانے کی وجہ سے حضرت ابراہیم کے دل میں جو دہشت سمائی تھی ۔ ان کا حل کھل جانے پر وہ دور ہو گئی ۔ پھر آپ نے اپنے ہاں لڑکا ہو نے کی خوش خبری بھی سن لی ۔ اور یہ بھی معلوم ہو گیا کہ یہ فرشتے قوم لوط کی ہلاکت کے لیے بھیجے گئے ہیں تو آپ فرمانے لگے کہ اگر کسی بستی میں تین سو مومن ہوں کیا پھر بھی وہ بستی ہلاک کی جائے گی؟ حضرت جبرائیل علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں نے جواب دیا کہ نہیں ۔ پھر پوچھا کہ اگر چالیس ہوں؟ جواب ملا پھر بھی نہیں ۔ دریافت کیا اگر تیس ہوں ۔ کہا گیا پھر بھی نہیں ۔ یہاں تک کے تعداد گھٹاتے گھٹاتے پانچ کی بابت پوچھا تو فرشتوں نے یہی جواب دیا ۔ پھر ایک ہی کی نسبت سوال کیا اور یہی جواب ملا تو آپ نے فرمایا پھر اس بستی کو حضرت لوط علیہ السلام کی موجودگی میں تم کیسے ہلاک کرو گے؟ فرشتوں نے کہا ہمیں وہاں حضرت لوط کی موجودگی کا علم ہے اسے اور اس کے اہل خانہ کو سوائے اس کی بیوی کے ہم بچالیں گے ۔ اب آپ کو اطمینان ہو اور خاموش ہوگئے ۔ حضرت ابراہیم بردبار ، نرم دل اور رجوع رہنے والے تھے اس آیت کی تفسیر پہلے گزر چکی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کی بہترین صفتیں بیان فرمائیں ہیں ۔ حضرت ابراہیم کی اس گفتگو اور سفارش کے جواب میں فرمان باری ہوا کہ اب آپ اس سے چشم پوشی کیجئے ۔ قضاء حق نافذ و جاری ہو گئی اب عذاب آئے گا اور وہ لٹایا نہ جائے گا ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

74۔ 1 اس مجادلہ سے مراد یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرشتوں سے کہا کہ جس بستی کو تم ہلاک کرنے جا رہے ہو، اسی میں حضرت لوط (علیہ السلام) بھی موجود ہیں۔ جس پر فرشتوں نے کہا ہم جانتے ہیں کہ لوط (علیہ السلام) بھی وہاں رہتے ہیں۔ لیکن ہم ان کو اور ان کے گھر والوں کو سوائے ان کی بیوی کے بچا لیں گے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨٥] سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم لوط پر عذاب کے بارے میں بحث :۔ اس آیت میں ہم سے سے مراد ہمارے فرشتوں سے ہے یعنی جب سیدنا ابراہیم کا خوف خوشی میں تبدیل ہوگیا تو وہ ہمارے فرشتوں سے یہ بحث کرنے لگے کہ وہاں تو لوط خود بھی موجود ہیں۔ پھر تم اس بستی کو کیسے ہلاک کرو گے اور فلاں مومن بھی موجود ہے اور فلاں بھی جس سے آپ کا مقصد صرف یہ تھا کہ اگر عذاب کو موخر کردیا جائے تو شاید لوگ ایمان لے آئیں اور انھیں کچھ مزید مہلت مل جائے اور اس کی وجہ یہ تھی کہ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نرم دل واقع ہوئے تھے اور وہ چاہتے یہ تھے کہ کسی طرح اللہ کی یہ مخلوق عذاب الٰہی سے بچ جائے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فَلَمَّا ذَهَبَ عَنْ اِبْرٰهِيْمَ الرَّوْعُ ۔۔ : ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم لوط سے متعلق بحث فرشتوں سے ہوئی تھی، جیسا کہ سورة عنکبوت (٣٢) میں صراحت ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے ساتھ جھگڑا فرمایا، کیونکہ فرشتے تو جو کچھ کر رہے تھے اللہ تعالیٰ کے حکم ہی سے کر رہے تھے۔” يُجَادِلُنَا “ مضارع کا صیغہ حکایت حال یعنی اس وقت کی منظر کشی کے لیے استعمال فرمایا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - پھر جب ابراہیم ( علیہ السلام) کا وہ خوف زائل ہوگیا ( جب فرشتوں نے لَا تَخَفْ کہا اور ان کا فرشتہ ہونا معلوم ہوگیا) اور ان کو خوشی کی خبر ملی ( کہ اولاد پیدا ہوگی) تو ( ادھر سے بےفکر ہو کر دوسری طرف متوجہ ہوئے کہ قوم لوط ہلاک کی جاوے گی اور) ہم سے لوط ( علیہ السلام) کی قوم کے بارے میں ( سفارش جو باعتبار مبالغہ و اصرار کے صورۃً ) جدال ( تھا) کرنا شروع کیا ( جس کی تفصیل دوسری آیت میں ہے کہ وہاں تو لوط (علیہ السلام) بھی موجود ہیں اس لئے عذاب نہ بھیجا جاوے کہ ان کو گزند پہنچے گا، مطلب یہ ہوگا کہ اس بہانہ سے قوم بچ جاوے جیسا فِيْ قَوْمِ لُوْطٍ سے ظا ہرا معلوم ہوتا ہے اور شاید ابراہیم (علیہ السلام) کو ان کے مومن ہونے کی امید ہو) واقعی ابراہیم بڑے حلیم الطبع رحیم المزاج رقیق القلب تھے ( اس لئے سفارش میں مبالغہ کیا، ارشاد ہوا کہ) اے ابراہیم (گو بہانہ لوط (علیہ السلام) کا ہے مگر اصلی مطلب معلوم ہوگیا کہ قوم کی سفارش ہے سو) اس بات کو جانے دو ( یہ ایمان نہ لاویں گے اسی لئے) تمہارے رب کا حکم ( اس کے متعلق) آچکا ہے اور ( اس کے سبب سے) ان پر ضرور ایسا عذاب آنے والا ہے جو کسی طرح ہٹنے والا نہیں ( اس لئے اس باب میں کچھ کہنا سننا بیکار ہے، رہا لوط (علیہ السلام) کا وہاں ہونا سو ان کو اور سب ایمان والوں کو وہاں سے علیحدہ کردیا جاوے گا اس کے بعد عذاب آوے گا تاکہ ان کو گزند نہ پہنچے چناچہ اس پر بات ختم ہوگئی) اور (ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس سے فارغ ہوکر) جب ہمارے وہ فرشتے لوط (علیہ السلام) کے پاس آئے تو لوط (علیہ السلام) ان کے (آنے کی) وجہ سے ( اس لئے) مغموم ہوئے ( کہ وہ بہت حسین نوجوانوں کی شکل میں آئے تھے اور لوط (علیہ السلام) نے ان کو آدمی سمجھا اور اپنی قوم کی نامعقول حرکت کا خیال آیا) اور ( اس وجہ سے) ان کے ( آنے کے) سبب بہت تنگدل ہوئے ( اور غایت تنگدلی سے) کہنے لگے کہ آج کا دن بہت بھاری ہے ( کہ ان کی تو ایسی صورتیں اور قوم کی یہ حرکتیں ( اور میں تن تنہا، دیکھئے کیا ہوتا ہے ؟ ) اور ان کی قوم (نے جو یہ خبر سنی تو) ان کے ( یعنی لوط (علیہ السلام) کے) پاس دوڑے ہوئے آئے اور پہلے سے نامعقول حرکتیں کیا ہی کرتے تھے (اسی خیال سے اب بھی آئے) لوط ( علیہ السلام) بڑے گھبرائے اور براہ تملق) فرمانے لگے کہ اے میری قوم یہ میری (بہو) بیٹیاں ( جو تمہارے گھروں میں ہیں) موجود ہیں وہ تمہارے (نفس کی کامرانی کے) لئے ( اچھی) خاصی ہیں سو ( اَمردوں پر نگاہ کرنے کے باب میں) اللہ سے ڈرو اور میرے مہمانوں میں مجھ کو فضیحت مت کرو ( یعنی ان مہمانوں کو کچھ کہنا مجھ کو شرمندہ اور رسوا کرنا ہے اگر ان کی رعایت نہیں کرتے کہ مسافر ہیں تو میرا خیال کرو کہ تم میں رہتا سہتا ہوں، افسوس اور تعجب ہے) کیا تم میں کوئی بھی ( معقول آدمی اور) بھلا مانس نہیں ( کہ اس بات کو سمجھے اور اوروں کو سمجھائے) وہ لوگ کہنے لگے کہ آپ کو معلوم ہے کہ ہم کو آپ کی ان ( بہو) بیٹیوں کی کوئی ضرورت نہیں ( کیونکہ عورتوں سے ہم کو رغبت ہی نہیں) اور آپ کو تو معلوم ہے ( یہاں آنے سے) جو ہمارا مطلب ہے، لوط ( علیہ السلام) نہایت عاجز اور زچ ہو کر) فرمانے لگے کیا خوب ہوتا اگر میرا تم پر کچھ زور چلتا ( کہ خود تمہارے شر کو دفع کرتا) یا کسی مضبوط پایہ کی پناہ پکڑتا ( مراد یہ کہ میرا کوئی کنبہ قبلیہ ہوتا کہ میری مدد کرتا، لوط (علیہ السلام) کا جو اس قدر اضطراب دیکھا تو) فرشتے کہنے لگے اے لوط (ہم آدمی نہیں جو آپ اس قدر گھبراتے ہیں) ہم تو آپ کے رب کے بھیجے ہوئے ( فرشتے) ہیں (تو ہمارا تو کیا کرسکتے ہیں اور آپ اپنے لئے بھی اندیشہ نہ کریں) آپ تک (بھی) ہرگز ان کی رسائی نہیں ہوگی ( کہ آپ کو کچھ تکلیف پہنچا سکیں اور ہم ان پر عذاب نازل کرنے آئے ہیں) سو آپ رات کے کسی حصہ میں اپنے گھر والوں کو لے کر (یہاں سے باہر) چلے جائیے اور تم میں سے کوئی پیچھے پھر کر بھی نہ دیکھے (یعنی سب جلدی چلے جائیں) ہاں مگر آپ کی بیوی ( بوجہ مسلمان نہ ہونے کے نہ جاوے گی اس پر بھی وہی آفت آنے والی ہے جو اور لوگوں پر آوے گی (اور ہم رات کے وقت نکل جانے کو اس لئے کہتے ہیں کہ) ان کے (عذاب کے) وعدہ کا وقت صبح کا وقت ہے ( لوط (علیہ السلام) بہت دق ہوگئے تھے فرمانے لگے کہ جو کچھ ہو ابھی ہوجاوے کذا فی الدر المنثور، فرشتوں نے کہا) کیا صبح کا وقت قریب نہیں (غرض لوط (علیہ السلام) شبا شب دور نکل گئے اور صبح ہوئی اور عذاب کا سامان شروع ہوا) سو جب ہمارا حکم ( عذاب کے لئے) آپہنچا تو ہم نے اس زمین ( کو الٹ کر اس) کا اوپر کا تختہ تو نیچے کردیا ( اور نیچے کا تختہ اوپر کردیا) اور اس سر زمین پر کھنگر کے پتھر ( مراد جھانوہ جو پک کر مثل پتھر کے ہوجاتا ہے) برسانا شروع کئے جو لگاتار گر رہے تھے جن پر آپ کے رب کے پاس ( یعنی عالم غیب میں) خاص نشان بھی تھا ( جس سے اور پتھروں سے وہ پتھر ممتاز تھے) اور ( اہل مکہ کو چاہئے کہ اس قصہ سے عبرت پکڑیں کیونکہ) یہ بستیاں ( قوم لوط کی) ان ظالموں سے کچھ دور نہیں ہیں (ہمیشہ شام کو آتے جاتے ان کی بربادی کے آثار دیکھتے ہیں پس ان کو اللہ اور رسول کی مخالفت سے ڈرنا چاہئے ) ۔- معارف و مسائل - سورة ہود میں اکثر انبیاء سابقین اور ان کی امتوں کے حالات اور انبیاء (علیہم السلام) کی مخالفت کی بناء پر مختلف قسم کے آسمانی عذابوں کا بیان آیا ہے، آیات مذکورہ میں حضرت لوط (علیہ السلام) اور ان کی قوم کا حال اور قوم لوط پر عذاب شدید کا بیان ہے۔- حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم کافر ہونے کے علاوہ ایک ایسی خبیث بدکاری اور بیحیائی میں مبتلا تھی جو دنیا میں کبھی پہلے نہ پائی گئی تھی جس سے جنگل کے جانور بھی نفرت کرتے ہیں کہ مرد مرد کے ساتھ منہ کالا کرے جس کا وبال و عذاب عام بدکاری سے بدرجہا زیادہ ہے، اسی لئے اس قوم پر ایسا شدید عذاب آیا جو عام بےحیائی اور بدکاری کرنے والوں پر کبھی نہیں آیا۔- حضرت لوط (علیہ السلام) کا واقعہ جو ان آیات میں مذکور ہے اس طرح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے چند فرشتے جن میں جبریل امین بھی شامل تھے اس قوم پر عذاب نازل کرنے کے لئے بھیجے، جو پہلے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے یہاں فلسطین پہنچے جس کا واقعہ پچھلی آیات میں بیان ہوچکا ہے، اس کے بعد حضرت لوط (علیہ السلام) کے پاس آئے جن کا مقام وہاں سے دس بارہ میل کے فاصلہ پر تھا اللہ تعالیٰ شانہ جس قوم کو عذاب میں پکڑتے ہیں اس پر ان کے عمل کے مناسب ہی عذاب مسلط فرماتے ہیں، اس موقع پر بھی اللہ تعالیٰ کے یہ فرشتے حسین لڑکوں کی شکل میں بھیجے گئے جب وہ حضرت لوط (علیہ السلام) کے گھر پہنچے تو ان کو بشکل انسانی دیکھ کر انہوں نے بھی مہمان سمجھا اور اس وقت وہ سخت فکر و غم میں مبتلا ہوگئے کہ مہمانوں کی مہمانی نہ کی جائے تو یہ شان پیغمبری کے خلاف ہے اور اگر ان کو مہمان بنایا جاتا ہے تو اپنی قوم کی خباثت معلوم ہے، اس کا خطرہ ہے کہ وہ مکان پر چڑھ آئیں اور ان مہمانوں کو اذیت پہنچائیں اور وہ ان کی مدافعت نہ کرسکیں، اور دل میں کہنے لگے کہ آج بڑی سخت مصیبت کا دن ہے۔- اللہ جل شانہ نے اس عالم کو عجیب عبرت کی جگہ بنایا ہے جس میں اس کی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ کے بیشمار مظاہر ہوتے ہیں، آزر بت پرست کے گھر میں اپنا خلیل حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پیدا کردیا، حضرت لوط (علیہ السلام) جیسے مقبول و برگزیدہ پیغمبر کے گھر میں ان کی بیوی کافروں سے ملتی اور حضرت لوط (علیہ السلام) کی مخالفت کرتی تھی، جب یہ محترم مہمان حسین لڑکوں کی شکل میں حضرت لوط (علیہ السلام) کے گھر میں مقیم ہوگئے تو ان کی بیوی نے ان کی قوم کے اوباش لوگوں کو خبر کردی کہ آج ہمارے گھر میں اس طرح کے مہمان آئے ہیں ( قرطبی و مظہری )

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَلَمَّا ذَہَبَ عَنْ اِبْرٰہِيْمَ الرَّوْعُ وَجَاۗءَتْہُ الْبُشْرٰي يُجَادِلُنَا فِيْ قَوْمِ لُوْطٍ۝ ٧٤ۭ- روع - والرَّوْعُ : إصابة الرُّوع، واستعمل فيما ألقي فيه من الفزع، قال : فَلَمَّا ذَهَبَ عَنْ إِبْراهِيمَ الرَّوْعُ [هود 74] ،- ( ر و ع ) الروع - اور روع ( بفتح الراء ) خوف کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَلَمَّا ذَهَبَ عَنْ إِبْراهِيمَ الرَّوْعُ [هود 74] پھر جب ابراہیم ( کے دل سے ) خوف دور ہوا ۔- جدل - الجِدَال : المفاوضة علی سبیل المنازعة والمغالبة، وأصله من : جَدَلْتُ الحبل، أي : أحكمت فتله ۔ قال اللہ تعالی: وَجادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ [ النحل 125] - ( ج د ل ) الجدال - ( مفاعلۃ ) کے معنی ایسی گفتگو کرنا ہیں جسمیں طرفین ایک دوسرے پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کریں اصل میں یہ جدلت الحبل سے مشتق ہے ۔ جس کے معنی ہیں رسی کو مضبوط بٹنا اسی سے بٹی ہوئی رسی کو الجدیل کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَجادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ [ النحل 125] اور بہت ہی اچھے طریق سے ان سے مناظرہ کرو ۔- لوط - لُوطٌ: اسم علم، واشتقاقه من لَاطَ الشیء بقلبي يَلُوطُ لَوْطاً ولَيْطاً ، وفي الحدیث : «الولد أَلْوَطُ- أي : ألصق۔ بالکبد» وهذا أمر لا يَلْتَاطُ بصفري . أي : لا يلصق بقلبي، ولُطْتُ الحوض بالطّين لَوْطاً : ملطته به، وقولهم : لَوَّطَ فلان : إذا تعاطی فعل قوم لوط، فمن طریق الاشتقاق، فإنّه اشتقّ من لفظ لوط الناهي عن ذلک لا من لفظ المتعاطین له .- ( ل و ط ) لوط - ( حضرت لوط (علیہ السلام) ) یہ اسم علم ہے لَاطَ الشیء بقلبي يَلُوطُ لَوْطاً ولَيْطاً ، سے مشتق ہے جس کے معنی کسی چیز کی محبت دل میں جاگزیں اور پیوست ہوجانے کے ہیں ۔ حدیث میں ہے ۔ (115) الولد الوط بالکید ۔ کہ اولاد سے جگری محبت ہوتی ہے ۔ ھذا امر لایلنا ط بصفری ۔ یہ بات میرے دل کو نہیں بھاتی ۔ لطت الحوض بالطین لوطا ۔ میں نے حوض پر کہگل کی ۔ گارے سے پلستر کیا ۔۔۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کے نام سے اشتقاق کرکے تولط فلان کا محاورہ ستعمال ہوتا ہے جس کے معنی خلاف فطرت فعل کرنا ہیں حالانکہ حضرت لوط (علیہ السلام) تو اس فعل سے منع کرتے تھے اور اسے قوم لوط س مشتق نہیں کیا گیا جو اس کا ارتکاب کرتے تھے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قوم لوط کی تباہی کا حکم - قول باری ہے فلما ذھب عن ابراہیم الروح و جاء تہ البشری یجادلنا فی قوم لوط ۔ پھر جب ابراہیم کی گھبراہٹ دورہو گئی اور اولاد کی بشارت سے اس کا دل خوش ہوگیا تو اس نے قوط لوط کے معاملہ میں ہم سے جھگڑا شروع کیا ۔ یعنی جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے خوف دور ہوگیا تو وہ فرشتوں سے یہ سن کر کہ انہیں قوم لوط کر ہلاک کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے ، ا ن سے جھگڑنے لگے ، اس موقعہ پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرشتوں سے فرمایا کہ تم قوط لوط کو کیسے ہلاک کرو گے جبکہ وہاں لوط (علیہ السلام) بھی موجود ہیں ؟ فرشتوں نے جواب میں کہا کہ ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ وہاں کون کون ہیں ۔ ہم انہیں یعنی حضرت لوط (علیہ السلام) کو اور ان کے اہل خانہ کو بچا لیں گے۔ اس تفسیر کی حسن سے روایت کی گئی ہے ۔ ایک قول کے مطابق حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرشتوں سے یہ سوال کیا تھا کہ آیا تم انہیں اس صورت میں بھی ہلاک کردو گے جبکہ وہاں پچاس اہل ایمان ہوں گے ؟ فرشتوں نے جواب میں کہا تھا کہ ایسی صورت میں ہم انہیں ہلاک نہیں کریں گے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ان کے ساتھ بحث و مباحثہ کرتے ہوئے پچاس کی تعداد کو دس تک لے آئے اس تعدا د پر بھی فرشتوں نے نفی میں جواب دیا ۔ اس تفسیر کی قتادہ سے روایت کی گئی ہے۔ ایک قول کے مطابق حضرت ابراہیم (علیہ السلام) فرشتوں سے اس لیے بحث و مباحثہ کرتے رہے تا کہ پتہ چل سکے کہ کس گناہ کی شامت میں قوم لوط مکمل خاتمہ کے عذاب کی مستحق بنی ہے۔ نیز یہ کہ آیا یہ عذاب ان پر لا محالہ آنے ہی والا ہے یا صرف ڈرانے کی ایک صورت ہے جس سے ڈر کر یہ لوگ اللہ کی اطاعت کی طرف مائل ہوجائیں ۔ بعض لوگ اس آیت سے بیان کی تاخیر کے جواز کے حق میں استدلا ل کرتے ہیں اس لیے کہ فرشتوں نے آکر خبر دی تھی کہ وہ قوم لوط کو ہلاک کرنے والے ہیں لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ اس عذاب سے بچ رہنے والے کون سے افراد ہیں جس کی وجہ سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ان سے بحث کرنے لگے کہ آیا تم انہیں ہلاک کر دو گے جبکہ ان میں فلاں فلاح اہل ایمان موجود ہیں ۔ اس طرح یہ حضرات بیان کی تاخیر کے جواز پر استدلال کرتے ہیں ۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ بات یہ نہیں ہے بلکہ اصل صورت یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرشتوں سے وہ وجہ دریافت کی تھی جس کی بنا پر قوم لوط مکمل استیصال کے عذاب کی سزا وار گردانی گئی تھی نیز یہ کہ آیا یہ عذاب لا محالہ ان پر آنے ہی والا تھا یا صرف ڈراوا تھا جس سے متاثر ہو کر یہ لوگ اللہ کی اطاعت اور فرمانبرداری کی راہ پر آ جاتے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٧٤) پھر جب حضرات ابراہیم (علیہ السلام) کا وہ خوف زائل ہوا اور انکو لڑکے کی بشارت ملی تو ادھر سے بےفکر ہو کر ہم سے قوم لوط کی ہلاکت کے بارے میں سفارش کرنا شروع کیا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

حضرت ابراہیم کا یہ مجادلہ تورات میں بڑی تفصیل سے بیان ہوا ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم نے فرشتوں سے کہا کہ اگر ان بستیوں میں پچاس آدمی بھی راست باز ہوئے تو کیا پھر بھی ان کو ہلاک کردیا جائے گا ؟ فرشتوں نے جواب دیا کہ نہیں ‘ پھر انہیں ہلاک نہیں کیا جائے گا۔ پھر حضرت ابراہیم نے چالیس آدمیوں کا پوچھا تو انہوں نے کہا کہ پھر بھی ان کو تباہ نہیں کیا جائے گا۔ چناچہ اس طرح بات ہوتے ہوتے پانچ آدمیوں پر آگئی۔ اس پر حضرت ابراہیم کو بتایا گیا کہ آپ اس بحث کو چھوڑ دیں۔ اب تو آپ کے رب کا فیصلہ آچکا ہے کیونکہ ان بستیوں میں خود حضرت لوط اور ان کی دو بیٹیوں کے علاوہ کوئی ایک متنفس بھی راست باز نہیں ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة هُوْد حاشیہ نمبر :83 جھگڑے کا لفظ اس موقع پر اس انتہائی محبت اور ناز کے تعلق کو ظاہر کرتا ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے خدا کے ساتھ رکھتے تھے ۔ اس لفظ سے یہ تصویر آنکھوں کے سامنے پھر جاتی ہے کہ بندے اور خدا کے درمیان بڑی دیر تک رد وکد جاری رہتی ہے ۔ بندہ اصرار کر رہا ہے کہ کسی طرح قوم پر لوط علیہ السلام پر سے عذاب ٹال دیا جائے ۔ خدا جواب میں کہہ رہا ہے کہ یہ قوم اب خیر سے باکل خالی ہوچی ہے اور اس کے جائم اس حد سے گزر چکے ہیں کہ اس کے ساتھ کوئی رعایت کی جا سکے ۔ مگر بندہ ہے کہ پھر یہی کہے جاتا ہے کہ پروردگار اگر کچھ تھوڑی سی بھلائی بھی اس میں باقی ہو تو اسے اور ذرا مہلت دیدے ، شاید کہ وہ بھلائی لے آئے ۔ بائیبل مین اس جھگڑے کی کجھ تشریح بھی بیان ہوئی ہے ، لیکن قرآں کا مجمل بیان اپنے اندر اس سے زیادہ معنوی وسعت رکھتا ہے ۔ ( تقابل کے لیے ملاحظہ ہو کتاب پیدائش ، باب 18 ۔ آیت 23 ۔ 32 )

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

43: جیسا کہ سورۃ اعراف آیت 80 کے حاشیہ میں بیان کیا جا چکا ہے حضرت لوط (علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بھتیجے تھے جو عراق میں ہی ان پر ایمان لا کر ان کے ساتھ وطن سے ہجرت میں ان کے ساتھ شریک تھے۔ بعد میں اللہ تعالیٰ نے ان کو بھی پیغمبر بنا کر سدوم کے شہر میں بھیجا۔ اس شہر کے لوگ شرک کے علاوہ ہم جنس پرستی کی خباثت میں مبتلا تھے۔ جب انہوں نے حضرت لوط (علیہ السلام) کی بات نہیں مانی تو اللہ تعالیٰ نے ان پر عذاب نازل کرنے کے لیے ان فرشتوں کو بھیجا تھا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو یہ امید تھی کہ شاید یہ لوگ سنبھل جائیں اس لیے وہ اللہ تعالیٰ سے فرمائش کرتے رہے کہ ابھی ان پر عذاب نازل نہ کیا جائے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) چونکہ اللہ تعالیٰ کے لاڈلے پیغمبر تھے، اس لیے انہوں نے ناز کے انداز میں بار بار جس طرح عذاب کو موخر کرنے کی فرمائش کی، اسے اس آیت میں پیار بھرے اسلوب میں جھگڑنے سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔