اِنَّ اِبْرٰهِيْمَ لَحَلِيْمٌ اَوَّاهٌ مُّنِيْبٌ : اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کی بحث و تکرار کا برا نہ مانا، بلکہ نہایت پیار سے ان کا ذکر فرمایا۔
اِنَّ اِبْرٰہِيْمَ لَحَلِيْمٌ اَوَّاہٌ مُّنِيْبٌ ٧٥- حلم - الحِلْم : ضبط النّفس والطبع عن هيجان الغضب، وجمعه أَحْلَام، قال اللہ تعالی: أَمْ تَأْمُرُهُمْ أَحْلامُهُمْ بِهذا [ الطور 32] ، قيل معناه : عقولهم ، ولیس الحلم في الحقیقة هو العقل، لکن فسّروه بذلک لکونه من مسبّبات العقل وقد حَلُمَ وحَلَّمَهُ العقل وتَحَلَّمَ ، وأَحْلَمَتِ المرأة : ولدت أولادا حلماء قال اللہ تعالی: إِنَّ إِبْراهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُنِيبٌ [هود 75] ، - ( ح ل م ) الحلم کے معنی ہیں نفس وطبیعت پر ایسا ضبط رکھنا کہ غیظ وغضب کے موقع پر بھڑ کنہ اٹھے اس کی جمع احلام ہے اور آیت کریمہ : ۔ کیا عقلیں ان کو ۔۔۔ سکھاتی ہیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ احلام سے عقیں مراد ہیں اصل میں ھلم کے معنی متانت کے ہیں مگر چونکہ متانت بھی عقل کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے اس لئے حلم کا لفظ بول کر عقل مراد لے لیتے ہیں جیسا کہ مسبب بول کر سبب مراد لے لیا جاتا ہے حلم بردبار ہونا ۔ عقل نے اسے برد بار رہنا دیا ۔ عورت کا حلیم بچے جننا ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ إِبْراهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُنِيبٌ [هود 75] بیشک ابراہیم بڑے تحمل والے نرم دل اور رجوع کرنے والے تھے ۔ - أوَّه - الأَوَّاه : الذي يكثر التأوّه، وهو أن يقول : أَوَّه أَوَّه، وکل کلام يدل علی حزن يقال له : التَّأَوُّه، ويعبّر بالأوّاه عمّن يظهر خشية اللہ تعالی، وقیل في قوله تعالی: أَوَّاهٌ مُنِيبٌ [هود 75] أي : المؤمن الداعي، وأصله راجع إلى ما تقدّم . قال أبو العباس رحمه اللہ : يقال : إيها : إذا کففته، وويها : إذا أغریته، وواها : إذا تعجّبت منه .- ( ا و ہ ) الاواہ ۔ وہ شخص جو بہت زیادہ تاوہ کرتا ہو اور تاؤہ کے معنی ہیں حزن وغم ظاہر کرنے کے لئے آوہ زبان پر لانا اور ہر وہ کلمہ جس سے تاسف اور حزن کا اظہار ہوتا ہو اسے تاوہ سے تعبیر کرلیتے ہیں لہذا اواہ کا لفظ ہر اس شخص پر بولاجاتا ہے جو خشیت الہی کا بہت زیادہ اظہار کرنیوالا ہو ۔ اور آیت کریمہ :۔ أَوَّاهٌ مُنِيبٌ ( سورة هود 75) کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ ( حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ) مومن اور بہت زیادہہ دعا کرنے والے تھے مآں کے اعتبار سے یہ معنی بھی ماتقدم کی طرف راجع ہے ۔ ابوالعباس فرماتے ہیں کہ کام کے روکنے کے لئے کلمہ ، ، ایھا ، ، اور ترغیب دینے کے لئے وبھا کہا جاتا ہے اور اظہار تعجب کے لئے داھا کہتے ہیں ۔- نوب - النَّوْب : رجوع الشیء مرّة بعد أخری. وَأَنِيبُوا إِلى رَبِّكُمْ [ الزمر 54] ، مُنِيبِينَ إِلَيْهِ [ الروم 31] - ( ن و ب ) النوب - ۔ کسی چیز کا بار بارلوٹ کر آنا ۔ یہ ناب ( ن ) نوبۃ ونوبا کا مصدر ہے، وَأَنِيبُوا إِلى رَبِّكُمْ [ الزمر 54] اپنے پروردگار کی طر ف رجوع کرو ۔ مُنِيبِينَ إِلَيْهِ [ الروم 31] ( مومنو) اس خدا کی طرف رجوع کئے رہو ۔ فلان ینتاب فلانا وہ اس کے پاس آتا جاتا ہے ۔
(٧٥) واقعی براہیم (علیہ السلام) بڑے حلیم الطبع رحیم المزاج اور اللہ تعالیٰ کی طرف بہت متوجہ ہونے والے تھے۔
یہاں حضرت ابراہیم کی یہ تین صفات ایک ساتھ جمع فرما کر آپ کی بہت قدر افزائی بھی فرمائی گئی ہے اور آپ کے مجادلہ کرنے کی وجہ بھی بیان فرما دی گئی ہے کہ چونکہ آپ بہت حلیم الطبع اور دل کے نرم تھے اسی وجہ سے آپ نے آخری حد تک کوشش کی کہ عذاب کے ٹلنے کی کوئی صورت پیدا ہوجائے۔ اسی طرح محمد رسول اللہ کی طبیعت مبارک میں بھی خصوصی نرمی تھی اور حضرت ابوبکر صدیق کو بھی اللہ نے طبیعت کی خاص نرمی عطا کر رکھی تھی۔
44: حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ فرمائش تو منظور نہیں فرمائی گئی کہ قومِ لوط سے عذاب کو مؤخر کردیا جائے، لیکن جس جذبے اور جس انداز سے انہوں نے اﷲ تعالیٰ سے رُجوع فرمایا تھا، اس فقرے میں اُس کی بڑے بلیغ انداز میں تعریف فرمائی گئی ہے۔