Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

76۔ 1 یہ فرشتوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے کہا کہ اب اس بحث و تکرار کا کوئی فائدہ نہیں، اسے چھوڑیئے اللہ کا وہ حکم (ہلاکت کا) آچکا ہے، جو اللہ کے ہاں مقدر تھا۔ اور اب یہ عذاب نہ کسی کے مجادلے سے روکے گا نہ کسی کی دعا سے ٹلے گا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨٦] فرشتوں نے جواب دیا کہ اب اس بحث کا کچھ فائدہ نہیں اللہ تعالیٰ ان پر عذاب کا فیصلہ کرچکا ہے اور ہمیں اس نے اسی غرض کے لیے مامور کردیا ہے۔ لہذا اب یہ موخر نہیں ہوسکتا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

يٰٓـــاِبْرٰهِيْمُ اَعْرِضْ عَنْ ھٰذَا ۔۔ : یہ فرشتوں کی بات ہے جو بالآخر انھوں نے ابراہیم (علیہ السلام) سے کہی کہ اب بحث و تکرار کا کچھ فائدہ نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم آجانے کے بعد عذاب ٹلنے کی کوئی صورت نہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

يٰٓـــاِبْرٰہِيْمُ اَعْرِضْ عَنْ ھٰذَا۝ ٠ۚ اِنَّہٗ قَدْ جَاۗءَ اَمْرُ رَبِّكَ۝ ٠ۚ وَاِنَّہُمْ اٰتِيْہِمْ عَذَابٌ غَيْرُ مَرْدُوْدٍ۝ ٧٦- اعرض - وإذا قيل : أَعْرَضَ عنّي، فمعناه : ولّى مُبدیا عَرْضَهُ. قال : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة 22] ، فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ- ( ع ر ض ) العرض - اعرض عنی اس نے مجھ سے روگردانی کی اعراض کیا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة 22] تو وہ ان سے منہ پھیرے ۔ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ [ النساء 63] تم ان سے اعراض بر تو اور نصیحت کرتے رہو ۔- أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام 40]- ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی " آنا " ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو۔- رد - الرَّدُّ : صرف الشیء بذاته، أو بحالة من أحواله، يقال : رَدَدْتُهُ فَارْتَدَّ ، قال تعالی: وَلا يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام 147] - ( رد د ) الرد ( ن )- اس کے معنی کسی چیز کو لوٹا دینے کے ہیں خواہ ذات شے کہ لوٹا یا جائے یا اس کی حالتوں میں سے کسی حالت کو محاورہ ہے ۔ رددتہ فارتد میں نے اسے لوٹا یا پس وہ لوٹ آیا ۔ قرآن میں ہے :۔- وَلا يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام 147] ( مگر بکے ) لوگوں سے اس کا عذاب تو ہمیشہ کے لئے ٹلنے والا ہی نہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٧٦) ارشاد ہوا ابراہیم اس سفارش پر اصرار مت کرو، قوم لوط کی ہلاکت کے بارے میں تمہارے پروردگار کا حکم آچکا، ان پر ضرور ایسا عذاب آنے والا ہے جو کسی طرح ٹلنے والا نہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة هُوْد حاشیہ نمبر :84 اس سلسلہ بیان میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ واقعہ ، خصوصا قوم لوط علیہ السلام کے قصے کی تمہید کے طور پر بظاہر کچھ بے جوڑ سا محسوس ہوتا ہے ۔ مگر حقیقت میں یہ اس مقصد کے لحاظ سے نہایت برمحل ہے جس کے لیے بچھلی تاریخ کے یہ واقعات یہاں بیان کیے جا رہے ہیں ۔ اس کی مناسبت سمجھنے کے لیے حسب ذیل دو باتوں کو پیش نظر رکھیے: ( ۱ ) مخاطب قریش کے لوگ ہیں جو حضرات ابراہیم علیہ السلام کی اولاد ہونے کی وجہ ہی سے تمام عرب کے پیرزادے ، کعبۃ اللہ کے مجاور اور مذہبی واخلاقی اور سیاسی و تمدنی پیشوائی کے مالک بنے ہوئے ہیں اور اس گھمنڈ میں مبتلا ہیں کہ ہم پر خدا کا غضب کیسے نازل ہوسکتا ہے جبکہ ہم خدا کے اس پیارے بندے کی اولاد ہیں اور وہ خدا کے دربار میں ہماری سفارش کرنے کو موجود ہے ۔ اس پندار غلط کو توڑنے کے لیے پہلے تو انہیں یہ منظر دکھایا گیا کہ حضرت نوح علیہ السلام جیسا عظیم الشان پیغمبر اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے جگر گوشے کو ڈوبتے دیکھ رہا ہے اور تڑپ کر خدا سے دعا کرتا ہے کہ اس کے بیٹے کو بچالیا جائے مگر صرف یہی نہیں کہ اس کی سفارش بیٹے کے کچھ کام نہیں آتی ، بلکہ اس سفارش پر باپ کو الٹی ڈانٹ سننی پڑتی ہے ۔ اس کے بعد اب یہ دوسرا منظر خود حضرت ابراہیم علیہ السلام کا دکھایا جاتا ہے کہ ایک طرف تو ان پر بے پایاں عنایات ہیں اور نہایت پیار کے انداز میں ان کا ذکر ہو رہا ہے ، مگر دوسری طرف جب وہی ابراہیم علیہ السلام انصاف کے معاملہ میں دخل دیتے ہیں تو ان کے اصرار والحاح کے باوجود اللہ تعالی مجرم قوم کے معاملے میں ان کی سفارش کو رد کر دیتا ہے ۔ ( ۲ ) اس تقریر میں یہ بات بھی قریش کے ذہن نشین کرنی مقصود ہے کہ اللہ تعالی وہ قانون مکافات جس سے لوگ بالکل بے خوف اور مطمئن بیٹھے ہوئے تھے ، کس طرح تاریخ کے دوران میں تسلسل اور باقاعدگی کے ساتھ ظاہر ہوتا رہا ہے اور خود ان کے گردوپیش اس کے کیسے کھلے کھلے آثار موجود ہیں ۔ ایک طرف حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں جو حق وصداقت کی خاطر گھر سے بے گھر ہو کر ایک اجنبی ملک میں مقیم ہیں اور بظاہر کوئی طاقت ان کے پاس نہیں ہے ۔ مگر اللہ تعالی ان کے حسن عمل کا ہی پھل ان کو دیتا ہے کہ بانچھ بیوی کے پیٹ سے بڑھاپے میں اسحاق علیہ السلام پیدا ہوتے ہیں ، پھر ان کے ہاں یعقوب علیہ السلام کی پیدائش ہوتی ہے ، اور ان سے بنی اسرائیل کی وہ عظیم الشان نسل چلتی ہے جس کی عظمت کے ڈنکے صدیوں تک اسی فلسطین و شام میں بجتے رہے جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام ایک بے خانماں مہاجر کی حیثیت سے آکر آباد ہوئے تھے ۔ دوسری طرف قوم لوط علیہ السلام ہے جو اسی سرزمین کے ایک حصہ میں اپنی خوشحالی پر مگن اور اپنی بدکاریوں میں مست ہے ۔ دور دور تک کہیں بھی اس کو اپنی شامت اعمال کے آثار نظر نہیں آرہے ہیں ۔ اور لوط علیہ السلام کی نصیحتوں کو وہ چٹکیوں میں اڑا رہی ہے ۔ مگر جس تاریخ کو ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے ایک بڑی اقبال مند قوم کے اٹھائے جانے کا فیصلہ کیا جاتا ہے ، ٹھیک وہی تاریخ ہے جب اس بدکار قوم کو دنیا سے نیست ونابود کرنے کا فرمان نافذ ہوتا ہے اور وہ ایسے عبرتناک طریقہ سے فنا کی جاتی ہے کہ آج اس کی بستیوں کا نشان کہیں ڈھونڈے نہیں ملتا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani