Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

حضرت لوط علیہ السلام کے گھر فرشتوں کا نزول ۔ حضرت ابراہیم کو یہ فرشتے اپنا بھید بتا کر وہاں سے چل دیئے اور حضرت لوط علیہ السلام کے پاس ان کے زمین میں یا ان کے مکان میں پہنچے ۔ مرد خوبصورت لڑکوں کی شکل میں تھے تاکہ قوم لوط کی پوری آزمائش ہو جائے ، حضرت لوط ان مہمانوں کو دیکھ کر قوم کی حالت سامنے رکھ کر سٹ پٹا گئے ، دل ہی دل میں پیچ تاب کھانے لگے کہ اگر انہیں مہمان بناتا ہوں تو ممکن ہے خبر پاکر لوگ چڑھ دوڑیں اور اگر مہمان نہیں رکھتا تو یہ انہی کے ہاتھ پڑ جائیں گے ۔ زبان سے بھی نکل گیا کہ آج کا دن بڑا ہیبت ناک دن ہے ۔ قوم والے اپنی شرارت سے باز نہیں آئیں گے ۔ مجھ میں ان کے مقابلہ کی طاقت نہیں ۔ کیا ہوگا ؟ قتادہ فرماتے ہیں ۔ حضرت لوط اپنی زمین پر تھے کہ یہ فرشتے بصورت انسان آئے اور ان کے مہمان بنے ۔ شرما شرمی انکار تو نہ سکے اور انہیں لے کر گھر چلے ، راستے میں صرف اس نیت سے کہ یہ اب بھی واپس چلے جائیں ان سے کہا کہ واللہ یہاں کے لوگوں سے زیادہ برے اور خبیث لوگ اور کہیں نہیں ہیں ۔ کچھ دور جا کر پھر یہی کہا غرض گھر پہچنے تک چار بار یہی کہا ۔ فرشتوں کو اللہ کا حکم بھی یہی تھا کہ جب تک ان کا نبی ، ان کی برائی نہ بیان کرے انہیں ہلاک نہ کرنا ۔ سدی فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس سے چل کر دوپہر کو یہ فرشتے نہر سدوم پہنچے وہاں حضرت لوط کی صاحبزادی جو پانی لینے گئی تھیں ، مل گئیں ۔ ان سے انہوں نے پوچھا کہ یہاں ہم کہیں ٹھہر سکتے ہیں ۔ اس نے کہا آپ یہیں رکیئے میں واپس آکر جواب دوں گی ۔ انہیں ڈر لگا کہ اگر قوم والوں کے ہاتھ یہ لگ گئے تو ان کی بڑی بےعزتی ہوگی ۔ یہاں آکر والد صاحب سے ذکر کیا کہ شہر کے دروازے پر چند پردیسی نو عمر لوگ ہیں ، میں نے تو آج تک نہیں دیکھے ، جاؤ اور انہیں ٹھہراؤ ورنہ قوم والے انہیں ستائیں گے ۔ اس بستی کے لوگوں نے حضرت لوط سے کہہ رکھا تھا کہ دیکھو کسی باہر والے کو تم اپنے ہاں ٹھیرایا نہ کرو ۔ ہم آپ سب کچھ کر لیا کریں گے ۔ آپ نے جب یہ حالت سنی تو جا کر چپکے سے انہیں اپنے گھر لے آئے ۔ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو نے دی ۔ مگر آپ کی بیوی جو قوم سے ملی ہوئی تھی ، اسی کے ذریعہ بات پھوٹ نکلی ۔ اب کیا تھا ۔ دوڑے بھاگے آگئے ، جسے دیکھو خوشیاں مناتا جلدی جلدی لپکتا چلا آتا ہے ان کی تو یہ خو خصلت ہو گئی تھی اس سیاہ کاری کو تو گویا انہوں نے عادت بنا لیا تھا ۔ اس وقت اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہیں نصیحت کرنے لگے کہ تم اس بد خصلت کو چھوڑو اپنی خواہشیں عورتوں سے پوری کرو ۔ بناتی یعنی میری لڑکیاں ۔ اس لیے فرمایا کہ ہر نبی اپنی امت کا گویا باپ ہوتا ہے ۔ قرآن کریم کی ایک اور آیت میں ہے کہ اس وقت انہوں نے کہا تھا کہ ہم تو پہلے ہی آپ کو منع کر چکے تھے کہ کسی کو اپنے ہاں نہ ٹھیرایا کرو ۔ حضرت لوط علیہ السلام نے انہیں سمجھایا اور دنیا آخرت کی بھلائی انہیں سجھائی اور کہا کہ عورتیں ہی اس بات کے لیے موزوں ہیں ۔ ان سے نکاح کر کے اپنی خواہش پوری کرنا ہی پاک کام ہے ۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں یہ سمجھا جائے کہ آپ نے اپنی لڑکیوں کی نسبت یہ فرمایا تھا نہیں بلکہ نبی اپنی پوری امت کا گویا باپ ہوتا ہے ۔ قتادہ وغیرہ سے بھی یہی مروی ہے ۔ امام ابن جریج فرماتے ہیں یہ بھی نہ سمجھنا چاہیے کہ حضرت لوط نے عورتوں سے بےنکاح ملاپ کرنے کو فرمایا ہو ۔ نہیں مطلب آپ کا ان سے نکاح کرلینے کے حکم کا تھا ۔ فرماتے ہیں اللہ سے ڈرو میرا کہا مانو ، عورتوں کی طرف رغبت کرو ، ان سے نکاح کر کے حاجت روائی کرو ۔ مردوں کی طرف اس رغبت سے نہ آؤ اور خصوصاً یہ تو میرے مہمان ہیں ، میری عزت کا خیال کرو کیا تم میں ایک بھی سمجھدار ، نیک راہ یافتہ بھلا آدمی نہیں ۔ اس کے جواب میں ان سرکشوں نے کہا کہ ہمیں عورتوں سے کوئی سروکار ہی نہیں یہاں بھی بناتک یعنی تیری لڑکیاں کے لفظ سے مراد قوم کی عورتیں ہیں ۔ اور تجھے معلوم ہے کہ ہمارا ارادہ کیا ہے یعنی ہمارا ارادہ ان لڑکوں سے ملنے کا ہے ۔ پھر جھگڑا اور نصیحت بےسود ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

77۔ 1 حضرت لوط (علیہ السلام) کی اس سخت پریشانی کی وجہ مفسرین نے لکھی ہے کہ یہ فرشتے نوجوانوں کی شکل میں آئے تھے، جو بےریش تھے، جس سے حضرت لوط (علیہ السلام) نے اپنی قوم کی عادت قبیحہ کے پیش نظر سخت خطرہ محسوس کیا۔ کیونکہ ان کو یہ پتہ نہیں تھا کہ آنے والے یہ نوجوان، مہمان نہیں ہیں، بلکہ اللہ کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں جو اس قوم کو ہلاک کرنے کے لئے آئے ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨٧] خوش شکل فرشتے اور سیدنا لوط کو خدشہ :۔ سیدنا ابراہیم سے ہو کر یہ فرشتے نہایت خوبصورت جوان اور بےریش لڑکوں کی شکل میں سیدنا لوط کے پاس آئے جنہیں دیکھ کر سیدنا لوط کے دل میں سخت گھٹن پیدا ہوئی کئی طرح کے خطرات ان کے سامنے منڈلانے لگے بڑا خطرہ یہی تھا کہ یہ مہمان خوبصورت لڑکے ہیں اور میری قوم جس بدکاری میں مبتلا ہے وہ انھیں کبھی چھوڑے گی نہیں اور دوسری فکر یہ تھی کہ اگر میں ان کی مدافعت بھی کرنا چاہوں تو یہ مرے بس کا روگ نہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَلَمَّا جَاۗءَتْ رُسُلُنَا لُوْطًا سِيْۗءَ بِهِمْ ۔۔ : یہاں سے لوط (علیہ السلام) کا قصہ شروع ہوتا ہے جو کئی سورتوں میں مختلف انداز سے ذکر ہوا ہے، مثلاً سورة اعراف، حجر، شعراء، نمل، عنکبوت، صافات، ذاریات اور قمر۔ ان سورتوں میں بھی تفسیر دیکھ لیں۔ لوط (علیہ السلام) ابراہیم (علیہ السلام) کے آگ سے صحیح سلامت باہر نکل آنے پر ان پر ایمان لے آئے تھے اور انھوں نے ان کے ساتھ ہی شام کی طرف ہجرت کی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں نبوت سے سرفراز فرمایا اور وادی اردن میں ” سدوم “ نامی بستی اور اس کے گرد و نواح کے لیے مبعوث فرمایا۔ یہ قوم شرک و کفر کے ساتھ ساتھ ایسے فعل بد کی مرتکب تھی جس کا ارتکاب ان سے پہلے دنیا بھر میں کسی نے نہیں کیا تھا۔ یہ لوگ عورتوں کو چھوڑ کر مردوں کے ساتھ بدفعلی کے عادی تھے۔ اپنی مجلسوں میں کھلم کھلا برائی کرنا اور ڈاکے مارنا ان کا عام رویہ تھا۔ دیکھیے سورة عنکبوت (٢٩) مزید تفصیل کے لیے دیکھیے سورة اعراف (٨٠ تا ٨٣) کی تفسیر۔- سِيْۗءَ بِهِمْ ۔۔ : ” سَاءَہُ یَسُوْءُہُ “ سے ماضی مجہول ہے، غمگین کرنا، برا لگنا۔ یہاں ” سِيْۗءَ “ کا نائب فاعل لوط (علیہ السلام) کی طرف لوٹنے والی ضمیر ہے اور فاعل محذوف ہے، گویا عبارت یوں ہے کہ ” سَاءَ ہُ مَجِیْءُھُمْ “ یعنی ان کے آنے نے اسے مغموم کردیا۔ فعل مجہول کا معنی ہوگا، وہ ان کی وجہ سے مغموم ہوا۔ ” وَضَاقَ بِهِمْ ذَرْعًا “ ” ذَرْعٌ“ اور ” ذِرَاعٌ“ بازو یا جانور کی اگلی ٹانگوں کو کہتے ہیں، اونٹ یا کسی بھی جان دار پر اگر بوجھ نہ ہو تو وہ کھلا قدم اٹھاتا ہے اور اگر اس کی استعداد سے زیادہ بوجھ ہو تو وہ بڑی مشکل سے قدم اٹھاتا ہے اور وہ بھی بالکل تنگ سا، اس لیے ” ضَاقَ ذَرْعًا “ سے مراد دل تنگ ہونا لیا جاتا ہے۔ لوط (علیہ السلام) کے ان کے آنے کی وجہ سے مغموم ہونے کی وجہ مہمان نوازی میں بخل نہ تھا، نبی سے بڑھ کر کون فراخ دل اور سخی ہوسکتا ہے، بلکہ انھیں اپنی قوم کی عادت بد کا علم تھا۔ ظاہر ہے فرشتے انسانی شکل میں آئے ہوں تو وہ کس قدر خوبصورت ہوں گے۔ لوط (علیہ السلام) کو معلوم نہ تھا کہ یہ فرشتے ہیں، کیونکہ غیب تو صرف اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور لوط (علیہ السلام) کو یہ بات بتائی نہیں گئی تھی، اس لیے ان کے دل پر جو گزری، اللہ تعالیٰ نے اس کا کمال نقشہ کھینچا ہے۔ پہلے غم ہوا، پھر اپنی بےبسی پر تنگ دل ہوئے، پھر جس طرح کوئی شخص کوئی لفظ کہہ کر دل کو کچھ نہ کچھ تسلی دیتا ہے، یہ کہا کہ یہ دن تو بہت سخت ہے۔ [ التحریر والتنویر ]

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَمَّا جَاۗءَتْ رُسُلُنَا لُوْطًا سِيْۗءَ بِہِمْ وَضَاقَ بِہِمْ ذَرْعًا وَّقَالَ ھٰذَا يَوْمٌ عَصِيْبٌ۝ ٧٧- ويقال : سَاءَنِي كذا، وسُؤْتَنِي، وأَسَأْتَ إلى فلان، قال : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک 27] ، وقال : لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء 7] - ساء - اور ساءنی کذا وسؤتنی کہاجاتا ہے ۔ اور اسات الی ٰ فلان ( بصلہ الی ٰ ) بولتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک 27] تو کافروں کے منہ برے ہوجائیں گے ۔ لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء 7] تاکہ تمہارے چہروں کو بگاڑیں ۔ - ضيق - الضِّيقُ : ضدّ السّعة، ويقال : الضَّيْقُ أيضا، والضَّيْقَةُ يستعمل في الفقر والبخل والغمّ ونحو ذلك . قال تعالی: وَضاقَ بِهِمْ ذَرْعاً [هود 77] ، أي : عجز عنهم، وقال : وَضائِقٌ بِهِ صَدْرُكَ [هود 12] - ( ض ی ق ) الضیق والضیق - کتے معنی تنگی کے ہیں اور یہ سعتہ کی ضد ہے اور ضیقتہ کا لفظ فقر بخل غم اور اس قسم کے دوسرے معانی میں استعمال ہوتا ہے چناچہ آیت کریمہ :۔ وَضاقَ بِهِمْ ذَرْعاً [هود 77] کے معنی یہ ہیں کہ وہ انکے مقابلہ سے عاجز ہوگئے ۔ اور آیت ؛۔ وَضائِقٌ بِهِ صَدْرُكَ [هود 12] اور اس ( خیال سے سے تمہارا دل تنگ ہو ۔- ذرع - الذّراع : العضو المعروف، ويعبّر به عن المذروع، أي : الممسوح بالذّراع . قال تعالی: فِي سِلْسِلَةٍ ذَرْعُها سَبْعُونَ ذِراعاً فَاسْلُكُوهُ [ الحاقة 32] - ذر ع ) الذراع - ۔ ہاتھ کہنی سے لے کر درمیانی انگلی کے آخر تک ) کبھی ذراع کا لفظ بول کر مذروع یعنی وہ چیز بھی مراد لی جاتی ہے جس کی پیمائش کی گئی ہو ۔ قرآن میں ہے :۔ فِي سِلْسِلَةٍ ذَرْعُها سَبْعُونَ ذِراعاً فَاسْلُكُوهُ [ الحاقة 32] پھر زنجیر سے جس کی ناپ ستر گز ہی جکڑدو ۔- عصب - العَصَبُ : أطنابُ المفاصلِ ، ولحمٌ عَصِبٌ:- كثيرُ العَصَبِ ، والمَعْصُوبُ : المشدودُ بالعَصَبِ المنزوع من الحیوان، ثمّ يقال لكلّ شدّ : عَصْبٌ ۔ ويَوْمٌ عَصِيبٌ [هود 77] ، شدیدٌ ،- ( ع ص ب ) العصب - کے معنی بدن کے پٹھے جو جوڑوں کو تھامے ہوئے ہیں لمَ عصیب بہت پٹھوں والا گوشت ۔ المعصوب دراصل لوہے کو کہتے ہیں جو پٹھے ( کی تانت ) کے ساتھ بند ھا ہوا ہو پھر عام مضبوطی کے ساتھ باندھنے پر عصب کا لفظ بولا جاتا ہے ۔- ويَوْمٌ عَصِيبٌ [هود 77] ، شدیدٌ ، یوم عصیب سخت دن یہاں عصیب کے معنی ہیں سخت ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٧٧) اور جب جبریل امین (علیہ السلام) اور انکے ساتھ دوسرے فرشتے لوط (علیہ السلام) کے پاس آئے تو لوط (علیہ السلام) انکے آنے کی وجہ سے مغموم اور پریشان ہوئے (کیوں کہ وہ بہت حسین تھے اور لوط (علیہ السلام) نے ان کو آدمی سمجھا کیونکہ ان کی قوم کی غلط حرکات تھیں اور بہت غمگین ہوئے اور اپنی قوم کے برے افعال کی وجہ سے درے اور دل میں کہنے لگے آج کا دن بہت ہی بھاری ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(وَّقَالَ ہٰذَا یَوْمٌ عَصِیْبٌ)- چونکہ ان بستیوں کے لوگوں میں امرد پرستی عام تھی لہٰذا ان کی آخری آزمائش کے لیے فرشتوں کو ان کے پاس نوجوان خوبصورت لڑکوں کے روپ میں بھیجا گیا تھا۔ حضرت لوط ان خوبصورت مہمان لڑکوں کو دیکھ کر اسی لیے پریشان ہوئے کہ اب وہ اپنے ان مہمانوں کا دفاع کیسے کریں گے۔ اس لیے کہ آپ جانتے تھے کہ ان کی قوم کے لوگ کسی اپیل یا دلیل سے باز آنے والے نہیں تھے اور آپ اکیلے زبردستی انہیں روک نہیں سکتے تھے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

45: حضرت لوط (علیہ السلام) کے پاس یہ فرشتے خوبصورت نوجوانوں کی شکل میں آئے تھے۔ اور انہیں ابھی یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ فرشتے ہیں۔ دوسری طرف وہ اپنی قوم کی بد فطرت بے حیائی سے واقف تھے۔ اس لیے ان کی پریشانی کی وجہ یہ تھی کہ ان کی قوم ان مہمانوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنانے کی کوشش کرے گی، چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ جیسا کہ اگلی آیت میں یہ بیان فرمایا گیا ہے، وہ لوگ ان نوجوانوں کی آمد کی خبر سنتے ہی اس مقصد سے دوڑتے ہوئے آئے، اور حضرت لوط (علیہ السلام) سے مطالبہ کیا کہ وہ ان مہمانوں کو ان کے حوالے کردیں۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

45: حضرت لوط (علیہ السلام) کے پاس یہ فرشتے خوبصورت نوجوانوں کی شکل میں آئے تھے۔ اور انہیں ابھی یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ فرشتے ہیں۔ دوسری طرف وہ اپنی قوم کی بد فطرت بے حیائی سے واقف تھے۔ اس لیے ان کی پریشانی کی وجہ یہ تھی کہ ان کی قوم ان مہمانوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنانے کی کوشش کرے گی، چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ جیسا کہ اگلی آیت میں یہ بیان فرمایا گیا ہے، وہ لوگ ان نوجوانوں کی آمد کی خبر سنتے ہی اس مقصد سے دورتے ہوئے آئے، اور حضرت لوط (علیہ السلام) سے مطالبہ کیا کہ وہ ان مہمانوں کو ان کے حوالے کردیں۔