78۔ 1 جب اغلام بازی کے ان مریضوں کو پتہ چلا کہ چند خوبرو نوجوان لوط (علیہ السلام) کے گھر آئے ہیں تو دوڑے ہوئے آئے اور انھیں اپنے ساتھ لے جانے پر اصرار کیا، تاکہ ان سے اپنی غلط خواہشات پوری کریں۔ 78۔ 2 یعنی تمہیں اگر جنسی خواہش ہی کی تسکین مقصود ہے تو اس کے لئے میری اپنی بیٹیاں موجود ہیں، جن سے تم نکاح کرلو اور اپنا مقصد پورا کرلو۔ یہ تمہارے لئے ہر طرح سے بہتر ہے۔ بعض نے کہا کہ بنات سے مراد عام عورتیں ہیں اور انھیں اپنی لڑکیاں اس لئے کہا کہ پیغمبر اپنی امت کے لئے ایک طرح کا باپ ہوتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس کام کے لئے عورتیں موجود ہیں، ان سے نکاح کرلو اور اپنا مقصد پورا کرو (ابن کثیر) 78۔ 3 یعنی میرے گھر آئے مہمانوں کے ساتھ زیادتی اور زبردستی کر کے مجھے رسوا نہ کرو۔ کیا تم میں ایک آدمی بھی ایسا سمجھدار نہیں ہے، جو میزبانی کے تقاضوں اور اس کی نزاکت کو سمجھ سکے، اور تمہیں اپنے برے ارادوں سے روک سکے، حضرت لوط (علیہ السلام) نے یہ ساری باتیں اس بنیاد پر کہیں کہ وہ ان فرشتوں کو فی الواقع نو وارد مسافر اور مہمان ہی سمجھتے رہے۔ اس لئے بجا طور پر ان کی مخالفت کو اپنی عزت و وقار کے لئے ضروری سمجھتے رہے۔ اگر ان کو پتہ چل جاتا یا وہ عالم الغیب ہوتے تو ظاہر بات ہے کہ انھیں یہ پریشانی ہرگز لاحق نہ ہوتی، جو انھیں ہوئی اور جس کا نقشہ یہاں قرآن مجید نے کھینچا ہے۔
[٨٨] مشٹنڈوں کا گھس آنا اور سیدنا لوط (علیہ السلام) کی پیش کش :۔ ان مہمانوں کی آمد کی اطلاع پاتے ہی کچھ مشٹنڈے گھر کی دیواریں پھاند کر وہاں پہنچ گئے اور سیدنا لوط سے مطالبہ کیا کہ ان مہمانوں کو ہمارے حوالہ کردو یہی وہ لمحہ تھا جو سیدنا لوط کے لیے سوہان روح بنا ہوا تھا۔ چناچہ سیدنا لوط نے مہمانوں کا دفاع کرنے کی خاطر کہا کہ یہ میری بیٹیاں حاضر ہیں میں تم سے ان کا نکاح کردیتا ہوں اور یہی تمہارے لیے پاکیزہ تر راستہ ہے اور مہمانوں کا مجھ سے مطالبہ نہ کرو۔ نہ ہی ان کے سامنے مجھے رسوا کرو اور یہ بات آپ نے اس لیے کہی کہ یہ لوگ آپ سے آپ کی بیٹیوں کے رشتہ کا مطالبہ کرچکے تھے لیکن آپ نے ان کی بری حرکات دیکھ کر ان کو رشتہ سے جواب دے دیا تھا اب مہمانوں کی اور اپنی عزت بچانے کی خاطر ان کا یہ مطالبہ بھی منظور کرلیا اور انھیں یہ عار بھی دلائی کہ کیا تم شرم و حیا اور بدکرداری کی سب حدیں پھاند گئے ہو اور تم میں کوئی بھی ایسا بھلامانس آدمی موجود نہیں رہا جو دوسروں کو سمجھا سکے یا میری بات مان لے۔- بیٹیوں سے مراد :۔ بعض مفسرین یہ بھی کہتے ہیں کہ میری بیٹیوں سے مراد قوم کی سب بیٹیاں ہیں کیونکہ نبی پوری قوم کا روحانی باپ ہوتا ہے اور قوم کی بیٹیاں اس کی روحانی بیٹیاں ہوتی ہیں۔ اگرچہ یہ بات بھی درست ہے مگر موقعہ کی نزاکت اسی شرح کا مطالبہ کرتی ہے جو پہلے پیش کی گئی ہے اور قرآن کے ظاہری الفاظ بھی اسی کی تائید کرتے ہیں۔
وَجَاۗءَهٗ قَوْمُهٗ يُهْرَعُوْنَ اِلَيْهِ : ” ھَرَعَ “ (ف) کا معنی کسی کو تیزی سے دھکیلنا ہے۔ فعل مجہول کا مطلب یہ ہے کہ جب اس خبیث قوم کو لوط (علیہ السلام) کے گھر ایسے حسینوں کے آنے کی خبر ملی تو وہ ان کی طرف تیزی سے اس طرح بےاختیار دوڑتے ہوئے آئے جیسے کوئی انھیں پیچھے سے دھکیل رہا ہے۔- وَمِنْ قَبْلُ كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ السَّيِّاٰتِ : فعل مضارع پر ” کَانَ “ آئے تو استمرار اور ہمیشگی کا معنی دیتا ہے، الا یہ کہ اس کے خلاف کوئی دلیل ہو۔ اس لیے زمخشری نے اس کا معنی کیا ہے : ” وَ مِنْ قَبْلِ ذٰلِکَ الْوَقْتِ کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ الْفَوَاحِشَ وَیُکْثِرُوْنَھَا فَضَرَوْا بِھَا وَمَرَنُوْا عَلَیْھَا “ ” اس سے پہلے وہ یہ برے کام کثرت سے کرتے تھے، حتیٰ کہ یہ ان کی عادت بن چکی تھی۔ “ یعنی کوئی آدمی شروع شروع میں ایسا غلیظ فعل کرنے سے کچھ جھجکتا ہے مگر یہ لوگ بےاختیار تیزی سے اس لیے آئے کہ کثرت سے اس فعل بد کے ارتکاب نے ان کی حیا اور جھجک بالکل ختم کردی تھی۔- قَالَ يٰقَوْمِ هٰٓؤُلَاۗءِ بَنَاتِيْ ۔۔ : جب وہ گھس آئے اور شدت سے مہمانوں کو اپنے حوالے کرنے کا مطالبہ کرنے لگے تو لوط (علیہ السلام) نے مہمانوں کی عزت بچانے کے لیے اپنی تواضع کی انتہا کردی، کہا یہ میری بیٹیاں ہیں، یہ تمہارے لیے بہت پاکیزہ ہیں، اللہ سے ڈرو مجھے میرے مہمانوں میں رسوا نہ کرو۔ کیا تم میں ایک بھی بھلا آدمی نہیں ؟ یہاں مفسرین نے بیٹیاں پیش کرنے کی مختلف توجیہیں کی ہیں۔ اشرف الحواشی میں ہے کہ ” بَنَاتِی “ (بیٹیوں) سے مراد ان لوگوں کی اپنی عورتیں ہیں، کیونکہ نبی اپنی قوم کے لیے بمنزلہ باپ کے ہوتا ہے اور قوم کی ساری عورتیں نبی کی بیٹیاں ہوتی ہیں، جیسا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق ارشاد ہے : (اَلنَّبِيُّ اَوْلٰى بالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ وَاَزْوَاجُهٗٓ اُمَّهٰتُهُمْ ) [ الأحزاب : ٦ ] ” یہ نبی مومنوں پر ان کی جانوں سے زیادہ حق رکھنے والا ہے اور اس کی بیویاں ان کی مائیں ہیں۔ “ یہی تفسیر راجح ہے، گو بعض نے لوط (علیہ السلام) کی اپنی بیٹیاں بھی مراد لی ہیں کہ ان سے شادی کرلو۔ (کما فی الموضح) اس تفسیر کے راجح ہونے کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ لوط (علیہ السلام) کی بیٹیاں معروف قول کے مطابق صرف دو تھیں، اگر کم و بیش بھی ہوں تو پوری قوم سے تو ان کی شادی نہیں ہوسکتی، اس لیے بیٹیوں سے مراد قوم کی بیٹیاں یعنی ان کی بیویاں ہیں۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ مراد اپنی ہی بیٹیاں تھیں، مگر نہ انھیں ان کے حوالے کرنا مقصود تھا نہ ان کی ان سے شادی کرنا، بلکہ محض انھیں شرمندہ کرکے اپنے مہمانوں کی عزت بچانا مقصود تھا، کیونکہ وہ بھی جانتے تھے اور قوم بھی کہ اپنی بیٹیاں کوئی کسی کے حوالے نہیں کرتا۔ یہ صرف اپنی عاجزی کے اظہار اور انھیں شرمندہ کرنے کے لیے ہے، جیسا کہ سلیمان (علیہ السلام) نے فیصلہ کیا تھا کہ لاؤ بچے کے دو ٹکڑے کرکے دونوں دعویدار عورتوں کو ایک ایک حصہ دے دیتے ہیں، حالانکہ ان کی مراد ہرگز یہ نہ تھی کہ واقعی بچے کو درمیان سے کاٹ دیاجائے، بلکہ وہ حقیقت اگلوانا چاہتے تھے۔ آیت کے ظاہر الفاظ سے یہ معنی مناسب معلوم ہوتا ہے۔ - ” هُنَّ اَطْهَرُ لَكُمْ “ کا مطلب یہ نہیں کہ مردوں سے یہ فعل بھی کچھ طہارت رکھتا ہے، مگر عورتیں زیادہ طاہر ہیں، بلکہ یہاں یہ بہت پاکیزہ کے معنوں میں ہے۔
حضرت لوط (علیہ السلام) کا سابقہ اندیشہ سامنے آگیا، جس کا بیان دوسری آیت میں ہے (آیت) وَجَاۗءَهٗ قَوْمُهٗ يُهْرَعُوْنَ اِلَيْهِ ، یعنی آگئی ان کے پاس ان کی قوم دوڑی ہوئی، اور وہ پہلے سے نامعقول حرکتیں کیا ہی کرتے تھے۔- اس میں اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ یہ اپنے خبیث عمل کی نحوست سے اس قدر بےحیاء ہوچکے تھے کہ علانیہ حضرت لوط (علیہ السلام) کے مکان پر چڑھ دوڑے۔- حضرت لوط (علیہ السلام) نے جب دیکھا کہ ان کی مدافعت مشکل ہے تو ان کو شر سے باز رکھنے کے لئے فرمایا کہ تم اس شر و فساد سے باز آجاؤ تو میں اپنی لڑکیاں تمہارے سرداروں کے نکاح میں دیدوں گا، اس زمانہ میں مسلمان لڑکی کا نکاح کافر سے جائز تھا، اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ابتدائی زمانہ تک یہی حکم جاری تھا اسی لئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی دو صاحبزادیوں کا نکاح عتبة بن ابی لہب اور ابو العاص بن بیع سے کردیا تھا حالانکہ یہ دونوں کفر پر تھے، بعد میں وہ آیات نازل ہوئی جن میں مسلمان عورت کا نکاح کافر مرد سے حرام قرار پایا (قرطبی ) ۔- اور بعض مفسرین نے فرمایا کہ اس جگہ اپنی لڑکیوں سے مراد اپنی پوری قوم کی لڑکیاں ہیں کیونکہ ہر پیغمبر اپنی قوم کیلئے مثل باپ کے ہوتا ہے اور پوری امت اس کی روحانی اولاد ہوتی ہے جیسا کہ آیت کریمہ (آیت) اَلنَّبِيُّ اَوْلٰى بالْمُؤ ْمِنِيْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ وَاَزْوَاجُهٗٓ اُمَّهٰتُهُمْ ، کے ساتھ حضرت عبداللہ بن مسعود کی قراءت میں وھو اب لھم کے الفاظ بھی آئے ہیں، جس میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنی تمام امت کا باپ قرار دیا ہے، اس تفسیر کے مطابق حضرت لوط (علیہ السلام) کے اس قول کا مطلب یہ ہوگا کہ تم اپنی خبیث عادت سے باز آؤ شرافت کے ساتھ قوم کی لڑکیوں سے نکاح کرو، ان کو بیبیاں بناؤ۔- پھر لوط (علیہ السلام) نے ان کو خدا تعالیٰ کے عذاب سے ڈرانے کے لئے فرمایا فاتَّقُوا اللّٰهَ اور پھر عاجزانہ درخواست کی (آیت) وَلَا تُخْزُوْنِ فِيْ ضَيْفِيْ یعنی مجھ کو میرے مہمانوں کے متعلق رسوا نہ کرو، جو میری فریاد سنے۔- مگر وہاں شرافت و انسانیت کا کوئی اثر کسی میں باقی نہ تھا، سب نے جواب میں کہا (آیت) لَقَدْ عَلِمْتَ مَا لَنَا فِيْ بَنٰتِكَ مِنْ حَقٍّ ۚ وَاِنَّكَ لَتَعْلَمُ مَا نُرِيْدُ ، یعنی آپ جانتے ہیں کہ ہمیں آپ کی لڑکیوں کی کوئی ضرورت نہیں، ہم جو کچھ چاہتے ہیں وہ آپ کو معلوم ہے۔
وَجَاۗءَہٗ قَوْمُہٗ يُہْرَعُوْنَ اِلَيْہِ ٠ۭ وَمِنْ قَبْلُ كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ السَّيِّاٰتِ ٠ۭ قَالَ يٰقَوْمِ ہٰٓؤُلَاۗءِ بَنَاتِيْ ہُنَّ اَطْہَرُ لَكُمْ فَاتَّقُوا اللہَ وَلَا تُخْزُوْنِ فِيْ ضَيْفِيْ ٠ۭ اَلَيْسَ مِنْكُمْ رَجُلٌ رَّشِيْدٌ ٧٨- هرع - يقال هَرِعَ وأَهْرَعَ : ساقه سوقا بعنف وتخویف . قال اللہ تعالی: وَجاءَهُ قَوْمُهُ يُهْرَعُونَ إِلَيْهِ [هود 78] وهَرَعَ برمحه فَتَهَرَّعَ :إذا أشرعه سریعا، والهَرِعُ : السّريع المشي والبکاء، قيل : والْهَرِيعُ والْهَرْعَةُ : القملة الصّغيرة .- ( ھ ر ع ) ھرع - واھرع کے معنی سختی اور تخویف سے ہانکنے اور ۔۔۔۔ چلانے کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَجاءَهُ قَوْمُهُ يُهْرَعُونَ إِلَيْهِ [هود 78] اور لوط کی قوم کے لاگ ان کے پاس بےتحاشا دوڑتے ہوئے آئے ۔ اور ھر ع بر محہ فتھر ع کے معنی نیزے کو سرعت کے ساتھ کسی کی سیدھا کرنے کے ہیں اور ھریع تیز روا اور چلا کر رونے والے کو کہتے ہیں ۔ ا الھر یع ( ایضا ) والھر عۃ چھوٹی جوں کو کہتے ہیں ۔ - عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے - سَّيِّئَةُ :- الفعلة القبیحة، وهي ضدّ الحسنة، قال : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم 10]: بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة 81] - سَّيِّئَةُ :- اور ہر وہ چیز جو قبیح ہو اسے سَّيِّئَةُ :،- ، سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اسی لئے یہ لفظ ، ، الحسنیٰ ، ، کے مقابلہ میں آتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ چناچہ قرآن میں ہے اور سیئۃ کے معنی برائی کے ہیں اور یہ حسنۃ کی ضد ہے قرآن میں ہے : بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة 81] جو برے کام کرے - ها - هَا للتنبيه في قولهم : هذا وهذه، وقد ركّب مع ذا وذه وأولاء حتی صار معها بمنزلة حرف منها، و (ها) في قوله تعالی: ها أَنْتُمْ [ آل عمران 66] استفهام، قال تعالی: ها أَنْتُمْ هؤُلاءِ حاجَجْتُمْ [ آل عمران 66] ، ها أَنْتُمْ أُولاءِ تُحِبُّونَهُمْ [ آل عمران 119] ، هؤُلاءِ جادَلْتُمْ- [ النساء 109] ، ثُمَّ أَنْتُمْ هؤُلاءِ تَقْتُلُونَ أَنْفُسَكُمْ [ البقرة 85] ، لا إِلى هؤُلاءِ وَلا إِلى هؤُلاءِ [ النساء 143] . و «هَا» كلمة في معنی الأخذ، وهو نقیض : هات . أي : أعط، يقال : هَاؤُمُ ، وهَاؤُمَا، وهَاؤُمُوا، وفيه لغة أخری: هَاءِ ، وهَاءَا، وهَاءُوا، وهَائِي، وهَأْنَ ، نحو : خَفْنَ وقیل : هَاكَ ، ثمّ يثنّى الکاف ويجمع ويؤنّث قال تعالی: هاؤُمُ اقْرَؤُا كِتابِيَهْ [ الحاقة 19] وقیل : هذه أسماء الأفعال، يقال : هَاءَ يَهَاءُ نحو : خاف يخاف، وقیل : هَاءَى يُهَائِي، مثل : نادی ينادي، وقیل : إِهَاءُ نحو : إخالُ. هُوَ : كناية عن اسم مذكّر، والأصل : الهاء، والواو زائدة صلة للضمیر، وتقوية له، لأنها الهاء التي في : ضربته، ومنهم من يقول : هُوَّ مثقّل، ومن العرب من يخفّف ويسكّن، فيقال : هُو .- ( ھا ) ھا ۔ یہ حرف تنبیہ ہے اور ذا ذہ اولاٰ اسم اشارہ کے شروع میں آتا ہے اور اس کے لئے بمنزلہ جز سمجھنا جاتا ہے مگر ھا انتم میں حرف ھا استہفام کے لئے ہے ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ ها أَنْتُمْ هؤُلاءِ حاجَجْتُمْ [ آل عمران 66] دیکھو ایسی بات میں تو تم نے جھگڑا کیا ہی تھا ۔ ها أَنْتُمْ أُولاءِ تُحِبُّونَهُمْ [ آل عمران 119] دیکھو تم ایسے صاف دل لوگ ہو کہ ان لوگوں سے ودستی رکھتے ہو ۔ هؤُلاءِ جادَلْتُمْ [ النساء 109] بھلا تم لوگ ان کی طرف سے بحث کرلیتے ہو ۔ ثُمَّ أَنْتُمْ هؤُلاءِ تَقْتُلُونَ أَنْفُسَكُمْ [ البقرة 85] پھر تم وہی ہو کہ اپنوں کو قتل بھی کردیتے ہو ۔ لا إِلى هؤُلاءِ وَلا إِلى هؤُلاءِ [ النساء 143] نہ ان کی طرف ( ہوتے ہو ) نہ ان کی طرف ۔ ھاءم ـ اسم فعل بمعنی خذ بھی آتا ہے اور ھات ( لام ) کی ضد ہے اور اس کی گردان یون ہے ۔ ھاؤم ھاؤم ۔ ھاؤموا ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ هاؤُمُ اقْرَؤُا كِتابِيَهْ [ الحاقة 19] لیجئے اعمالنامہ پڑھئے اور اس میں ایک لغت بغیر میم کے بھی ہے ۔ جیسے : ۔ ھا ، ھا ، ھاؤا ھائی ھان کے بروزن خفن اور بعض اس کے آخر میں ک ضمیر کا اضافہ کر کے تنبیہ جمع اور تذکرو تانیث کے لئے ضمیر میں تبدیل کرتے ہیں جیسے ھاک ھاکما الخ اور بعض اسم فعل بنا کر اسے کھاؤ یھاء بروزن خاف یخاف کہتے ہیں اور بعض کے نزدیک ھائی یھائی مثل نادٰی ینادی ہے اور بقول بعض متکلم مضارع کا صیغہ اھاء بروزن اخال آتا ہے ۔- ( ابْنُ )- أصله : بنو، لقولهم في الجمع :- أَبْنَاء، وفي التصغیر : بُنَيّ ، قال تعالی: يا بُنَيَّ لا تَقْصُصْ رُؤْياكَ عَلى إِخْوَتِكَ [يوسف 5] ، يا بُنَيَّ إِنِّي أَرى فِي الْمَنامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ [ الصافات 102] ، يا بُنَيَّ لا تُشْرِكْ بِاللَّهِ [ لقمان 13] ، يا بنيّ لا تعبد الشیطان، وسماه بذلک لکونه بناء للأب، فإنّ الأب هو الذي بناه وجعله اللہ بناء في إيجاده، ويقال لكلّ ما يحصل من جهة شيء أو من تربیته، أو بتفقده أو كثرة خدمته له أو قيامه بأمره : هو ابنه، نحو : فلان ابن الحرب، وابن السبیل للمسافر، وابن اللیل، وابن العلم، قال الشاعر - أولاک بنو خير وشرّ كليهما - وفلان ابن بطنه وابن فرجه : إذا کان همّه مصروفا إليهما، وابن يومه : إذا لم يتفكّر في غده . قال تعالی: وَقالَتِ الْيَهُودُ : عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ ، وَقالَتِ النَّصاری: الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ [ التوبة 30] - وقال تعالی: إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي [هود 45] ، إِنَّ ابْنَكَ سَرَقَ [يوسف 81] ، وجمع ابْن : أَبْنَاء وبَنُون، قال عزّ وجل : وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَزْواجِكُمْ بَنِينَ وَحَفَدَةً [ النحل 72] ، وقال عزّ وجلّ : يا بَنِيَّ لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ [يوسف 67] ، يا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ [ الأعراف 31] ، يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف 27] ، ويقال في مؤنث ابن : ابْنَة وبِنْت، وقوله تعالی: هؤُلاءِ بَناتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ [هود 78] ، وقوله : لَقَدْ عَلِمْتَ ما لَنا فِي بَناتِكَ مِنْ حَقٍّ [هود 79] ، فقد قيل : خاطب بذلک أکابر القوم وعرض عليهم بناته «1» لا أهل قریته كلهم، فإنه محال أن يعرض بنات له قلیلة علی الجمّ الغفیر، وقیل : بل أشار بالبنات إلى نساء أمته، وسماهنّ بنات له لکون کلّ نبيّ بمنزلة الأب لأمته، بل لکونه أكبر وأجل الأبوین لهم كما تقدّم في ذکر الأب، وقوله تعالی: وَيَجْعَلُونَ لِلَّهِ الْبَناتِ [ النحل 57] ، هو قولهم عن اللہ : إنّ الملائكة بنات اللہ .- الابن ۔- یہ اصل میں بنو ہے کیونکہ اس کی جمع ابناء اور تصغیر بنی آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : يا بُنَيَّ لا تَقْصُصْ رُؤْياكَ عَلى إِخْوَتِكَ [يوسف 5] کہ بیٹا اپنے خواب کا ذکر اپنے بھائیوں سے نہ کرنا ۔ يا بُنَيَّ إِنِّي أَرى فِي الْمَنامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ [ الصافات 102] کہ بیٹا میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ ( گویا ) تم کو ذبح کررہاہوں ۔ يا بُنَيَّ لا تُشْرِكْ بِاللَّهِ [ لقمان 13] کہ بیٹا خدا کے ساتھ شریک نہ کرنا ۔ يا بنيّ لا تعبد الشیطانبیٹا شیطان کی عبادت نہ کرنا ۔ اور بیٹا بھی چونکہ اپنے باپ کی عمارت ہوتا ہے اس لئے اسے ابن کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ باپ کو اللہ تعالٰٰ نے اس کا بانی بنایا ہے اور بیٹے کی تکلیف میں باپ بمنزلہ معمار کے ہوتا ہے اور ہر وہ چیز جو دوسرے کے سبب اس کی تربیت دیکھ بھال اور نگرانی سے حاصل ہو اسے اس کا ابن کہا جاتا ہے ۔ نیز جسے کسی چیز سے لگاؤ ہوا است بھی اس کا بن کہا جاتا جسے : فلان ابن حرب ۔ فلان جنگ جو ہے ۔ ابن السبیل مسافر ابن اللیل چور ۔ ابن العلم پروردگار وہ علم ۔ شاعر نے کہا ہے ع ( طویل ) یہ لوگ خیر وزر یعنی ہر حالت میں اچھے ہیں ۔ فلان ابن بطنہ پیٹ پرست فلان ابن فرجہ شہوت پرست ۔ ابن یومہ جو کل کی فکر نہ کرے ۔ قرآن میں ہے : وَقالَتِ الْيَهُودُ : عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ ، وَقالَتِ النَّصاری: الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ [ التوبة 30] اور یہود کہتے ہیں کہ عزیز خدا کے بیٹے ہیں اور عیسائی کہتے میں کہ مسیح خدا کے بیٹے ہیں ۔ إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي [هود 45] میرا بیٹا بھی میرے گھر والوں میں ہے ۔ إِنَّ ابْنَكَ سَرَقَ [يوسف 81] کہ اب آپکے صاحبزادے نے ( وہاں جاکر ) چوری کی ۔ ابن کی جمع ابناء اور بنون آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَزْواجِكُمْ بَنِينَ وَحَفَدَةً [ النحل 72] اور عورتوں سے تمہارے بیٹے اور پوتے پیدا کئے يا بَنِيَّ لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ [يوسف 67] کہ بیٹا ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہونا ۔ يا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ [ الأعراف 31] ( 3 ) اے نبی آدم ہر نماز کے وقت اپنے تیئں مزین کیا کرو ۔ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف 27] اے نبی آدم ( دیکھنا کہیں ) شیطان تمہیں بہکانہ دے ۔ اور ابن کی موئث ابنۃ وبنت اور ان کی جمع اور ابن کی موئث ابنۃ وبنت اور ان کی جمع بنات آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ هؤُلاءِ بَناتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ [هود 78] ( جو ) میری ) قوم کی ) لڑکیاں ہیں تمہارے لئے جائز اور ) پاک ہیں ۔ لَقَدْ عَلِمْتَ ما لَنا فِي بَناتِكَ مِنْ حَقٍّ [هود 79] تمہاری ۃ قوم کی ) بیٹیوں کی ہمیں کچھ حاجت نہیں ۔ بعض کہتے ہیں کہ حضرت لوط (علیہ السلام) نے اکابر قوم خطاب کیا تھا اور ان کے سامنے اپنی بیٹیاں پیش کی تھیں ۔ مگر یہ ناممکن سی بات ہے کیونکہ نبی کی شان سے بعید ہے کہ وہ اپنی چند لڑکیاں مجمع کثیر کے سامنے پیش کرے اور بعض نے کہا ہے کہ بنات سے ان کی قوم کی عورتیں مراد ہیں اور ان کو بناتی اس لئے کہا ہے کہ ہر نبی اپنی قوم کے لئے بمنزلہ باپ کے ہوتا ہے بلکہ والدین سے بھی اس کا مرتبہ بڑا ہوتا ہے جیسا کہ اب کی تشریح میں گزر چکا ہے اور آیت کریمہ : وَيَجْعَلُونَ لِلَّهِ الْبَناتِ [ النحل 57] اور یہ لوگ خدا کے لئے تو بیٹیاں تجویز کرتے ہیں ۔ کے مونی یہ ہیں کہ وہ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتی ہیں ۔- طهر - والطَّهَارَةُ ضربان :- طَهَارَةُ جسمٍ ، وطَهَارَةُ نفسٍ ، وحمل عليهما عامّة الآیات . يقال : طَهَّرْتُهُ فَطَهُرَ ، وتَطَهَّرَ ، وَاطَّهَّرَ فهو طَاهِرٌ ومُتَطَهِّرٌ. قال تعالی: وَإِنْ كُنْتُمْ جُنُباً فَاطَّهَّرُوا[ المائدة 6] ، أي : استعملوا الماء، أو ما يقوم مقامه، قال : وَلا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ فَإِذا تَطَهَّرْنَ [ البقرة 222] ،- ( ط ھ ر ) طھرت - طہارت دو قسم پر ہے - ۔ طہارت جسمانی اور طہارت قلبی اور قرآن پاک میں جہاں کہیں طہارت کا لفظ استعمال ہوا ہے وہاں بالعموم دونوں قسم کی طہارت مراد ہے کہا جاتا ہے : ۔ طھرتہ فطھروتطھر واطھر فھو طاھر ومتطھر - میں نے اسے پاک کیا چناچہ وہ پاک ہوگیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنْ كُنْتُمْ جُنُباً فَاطَّهَّرُوا[ المائدة 6] اور اگر نہانے کی حاجت ہو تو نہاکر پاک ہوجایا کرو ۔ یعنی یا جو چیز اس کے قائم مقام ہو اس کے ذریعہ طہارت کرلیا کرو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ فَإِذا تَطَهَّرْنَ [ البقرة 222] اور جب تک پاک نہ ہوجائیں ان سے مقاربت نہ کرو ۔ - تقوي - والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] - التقویٰ- اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔- خزی - خَزِيَ الرّجل : لحقه انکسار، إمّا من نفسه، وإمّا من غيره . فالذي يلحقه من نفسه هو الحیاء المفرط، ومصدره الخَزَايَة ورجل خَزْيَان، وامرأة خَزْيَى وجمعه خَزَايَا . وفي الحدیث :«اللهمّ احشرنا غير خزایا ولا نادمین» والذي يلحقه من غيره يقال : هو ضرب من الاستخفاف، ومصدره الخِزْي، ورجل خز . قال تعالی: ذلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيا [ المائدة 33] ، - ( خ ز ی ) خزی - ( س ) الرجل رسوا ہونا ۔ خواہ وہ رسوائی انسان کو خود اس کی ذات سے لاحق ہو یا غیر کی طرف سے پھر رسوائی اپنی جانب سے لاحق ہوتی ہے اسے حیائے مفرط کہاجاتا ہے اور اس کا مصدر خزابۃ ہے ۔ اس سے صیغہ صفت مذکر خزبان اور مونث خزلی خزابا ۔ حدیث میں ہے (110) اللھم احشرنا غیر خزایا و الاناد میں اے خدا ہمیں اس حالت میں زندہ نہ کرنا ہم شرم اور ندامت محسوس کرنیوالے ہوں ۔ اور جو رسوائی دوسروں کی طرف سے لاحق ہوتی ہے وہ ذلت کی ایک قسم ہے ۔ اور اس کا مصدر خزی ہے ۔ اور رجل خزی کے معنی ذلیل آدمی کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا :۔ ذلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيا [ المائدة 33] دنیا میں انکی سوائی ہے ۔ کہ رسوائی اور برائی ہے ۔ - ضيف - والضَّيْفُ : من مال إليك نازلا بك، وصارت الضِّيَافَةُ متعارفة في القری، وأصل الضَّيْفِ مصدرٌ ، ولذلک استوی فيه الواحد والجمع في عامّة کلامهم، وقد يجمع فيقال : أَضْيَافٌ ، وضُيُوفٌ ، وضِيفَانٌ. قال تعالی: ضَيْفِ إِبْراهِيمَ [ الحجر 51] - ( ض ی ف ) الضیف - الضیف ۔ اصل میں اسے کہتے ہیں کو تمہارے پاس ٹھہرنے کے لئے تمہاری طرف مائل ہو مگر عرف میں ضیافت مہمان نوازی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اصل میں چونکہ یہ مصدر ہے اس لئے عام طور پر واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے مگر کبھی اس کی جمع اضیاف وضیوف وضیفاف بھی آجاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ ضَيْفِ إِبْراهِيمَ [ الحجر 51] بھلا تمہارے اس ابراھیم کے مہمانوں کی خبر پہنچتی ہے ۔ - رجل - الرَّجُلُ : مختصّ بالذّكر من الناس، ولذلک قال تعالی: وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا - [ الأنعام 9] - ( ر ج ل ) الرجل - کے معنی مرد کے ہیں اس بنا پر قرآن میں ہے : ۔ وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا[ الأنعام 9] اگر ہم رسول کا مدد گار ) کوئی فرشتہ بناتے تو اس کو بھی آدمی ہی بناتے ۔ - رشد - الرَّشَدُ والرُّشْدُ : خلاف الغيّ ، يستعمل استعمال الهداية، يقال : رَشَدَ يَرْشُدُ ، ورَشِدَ «5» يَرْشَدُ قال : لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ [ البقرة 186] - ( ر ش د ) الرشد - والرشد یہ غیٌ کی ضد ہے اور ہدایت کے معنی استعمال ہوتا ہے اور یہ باب نصرعلم دونوں سے آتا ہے ۔ قرآن میں ہے : لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ [ البقرة 186] تاکہ وہ سیدھے رستے پر لگ جائیں ۔
(٧٨) اور لوط (علیہ السلام) کی قوم یہ خبر سن کر (کہ نوجوان مہمان آئے ہیں) لوط (علیہ السلام) کے پاس بہت تیزی کے ساتھ دوڑے ہوئے آئے اور جبریل امین (علیہ السلام) کی تشریف آوری کے قبل ہی سے وہ نامعقول حرکتیں کیا کرتے تھے۔- لوط (علیہ السلام) ان سے فرمانے لگے، اے میری قوم یہ میری بیٹیاں ہیں یا میری قوم کی لڑکیاں ہیں میں تم سے ان کی شادی کردیتا ہوں فعل حرام کے ارتکاب سے اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور میرے مہمانوں کے بارے میں مجھے شرمندہ مت کرو کیا تم میں کوئی بھلا مانس نہیں کہ صحیح راستہ پر تمہیں چلائے نیکیوں کا حکم دے اور برائیوں سے روکے۔
(قَالَ يٰقَوْمِ هٰٓؤُلَاۗءِ بَنَاتِيْ هُنَّ اَطْهَرُ لَكُمْ )- مفسرین نے اس کے ایک معنی تو یہ مراد لیے ہیں کہ تمہارے گھروں میں تمہاری بیویاں موجود ہیں جو میری بیٹیوں ہی کی مانند ہیں ‘ کیونکہ نبی اپنی پوری قوم کے لیے باپ کی طرح ہوتا ہے۔ جیسے سورة الاحزاب آیت ٦ میں حضور کے بارے میں فرمایا گیا ہے : (وَاَزْوَاجُہٗٓ اُمَّہٰتُہُمْ ) کہ آپ کی تمام ازواج مطہرات مؤمنین کی مائیں ہیں۔ اس کے دوسرے معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ حضرت لوط نے اپنی بیٹیوں کے بارے میں فرمایا کہ یہ میری بیٹیاں ہیں ان سے جائز اور پاکیزہ طریقے سے نکاح کرلو میں اس کے لیے تیار ہوں لیکن میرے ان مہمانوں کے بارے میں مجھے رسوا نہ کرو۔- (فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَلَا تُخْزُوْنِ فِيْ ضَيْفِيْ ۭ اَلَيْسَ مِنْكُمْ رَجُلٌ رَّشِيْدٌ)- کیا تم لوگوں میں کوئی ایک بھی شریف النفس انسان نہیں ہے جو میرا ساتھ دے اور ان سب لوگوں کو بداخلاقی اور بےحیائی سے روکے۔
سورة هُوْد حاشیہ نمبر :87 ہوسکتا ہے کہ حضرت لوط کا اشارہ قوم کی لڑکیوں کی طرف ہو ، کیونکہ نبی اپنی قوم کے لیے بمنزلہ باپ ہوتا ہے اور قوم کی لڑکیاں اس کی نگاہ میں اپنی بیٹیوں کی طرح ہوتی ہیں ، اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ کا اشارہ خود اپنی صاحبزادی کی طرف ہو ، بہرحال دونوں صورتوں میں یہ گمان کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ حضرت لوط نے ان سے زنا کرنے کے لیے کہا ہوگا ، یہ تمہارے لیے پاکیزہ تر ہیں ، کا فقرہ ایسا غلط مفہوم لینے کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑتا ۔ حضرت لوط کا منشا صاف طور پر یہ تھا کہ اپنی شہوت نفس کو اس فطری اور جائز طریقے سے پورا کرو جو اللہ نے مقرر کیا ہے اور اس کے لیے عورتوں کی کمی نہیں ہے ۔
46: کی نبی کی امت میں جتنی عورتیں ہوتی ہیں، وہ اس نبی کی رُوحانی بیٹیاں ہوتی ہیں۔ حضرت لوط علیہ السلام نے ان بد قماش لوگوں کو نرمی سے سمجھانے کی کوشش کی کہ تمہاری عورتیں جو میری رُوحانی بیٹیاں ہیں، تمہارے گھروں میں موجود ہیں۔ تم اپنی نفسانی خواہشات ان سے پوری کرسکتے ہو، اور یہی فطرت کا پاکیزہ طریقہ ہے۔