انجانے خطرے کا اظہار نبی اللہ حضرت یعقوب علیہ السلام اپنے بیٹوں کی اس طلب کا کہ بھائی یوسف کو ہمارے ساتھ سیر کے لیے بھیجئے جواب دیتے ہیں کہ تمہیں معلوم ہے مجھے اس سے بہت محبت ہے ۔ تم اسے لے جاؤ گے مجھ پر اس کی اتنی دیر کی جدائی بھی شاق گزرے گی ۔ حضرت یعقوب کی اس بڑھی ہوئی محبت کی وجہ یہ تھی کہ آپ حضرت یوسف کے چہرے پر خیر کے نشان دیکھ رہے تھے ۔ نبوت کا نور پیشانی سے ظاہر تھا ۔ اخلاق کی پاکیزگی ایک ایک بات سے عیاں تھی ۔ صورت کی خوبی ، سیرت کی اچھائی کا بیان تھی ، اللہ کی طرف سے دونوں باپ بیٹوں پر صلوۃ و سلام ہو ۔ دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ ممکن ہے تم اپنی بکریوں کے چرانے چگانے اور دوسرے کاموں میں مشغول رہو اور اللہ نہ کرے کوئی بھیڑیا آکر اس کا کام تمام کر جائے اور تمہیں پتہ بھی نہ چلے ۔ آہ حضرت یعقوب علیہ السلام کی اسی بات کو انہوں نے لے لیا اور دماغ میں بسا لیا کہ یہی ٹھیک عذر ہے ، یوسف کو الگ کر کے ابا کے سامنے یہی من گھڑت گھڑ دیں گے ۔ اسی وقت بات بنائی اور جواب دیا کہ ابا آپ نے کیا خوب سوچا ۔ ہماری جماعت کی جماعت قوی اور طاقتور موجود ہو اور ہمارے بھائی کو بھیڑیا کھا جائے؟ بالکل ناممکن ہے ۔ اگر ایسا ہو جائے تو پھر تو ہم سب بیکار نکمے عاجز نقصان والے ہی ہوئے ۔
[١١] بھائیوں کے اس مطالبہ پر باپ کو ایک نامعلوم خطرہ محسوس ہوا اور خطرہ وہی تھا جس کی اطلاع آپ سیدنا یوسف کو ان کے خواب کی تعبیر کے سلسلہ میں بتلاچکے تھے۔ بھائیوں کو غالباً خواب کا علم تو نہیں تھا۔ تاہم سیدنا یعقوب کا وجدان انھیں یہی بتلا رہا تھا کہ بھائیوں کی نیت بخیر معلوم نہیں ہوتی۔ چناچہ انہوں نے اپنے اس خطرہ کو ایسے الفاظ میں ظاہر کیا جس سے ان کی نیت پر شک محسوس نہ ہو اور کہا ممکن ہے تم لوگ اپنے ریوڑ کی حفاظت میں مشغول ہو اور کوئی بھیڑیا یا درندہ آکر اسے کوئی گزند پہنچا جائے اور پھاڑ کھائے اور تمہیں پتہ بھی نہ چلے۔
قَالَ اِنِّىْ لَيَحْزُنُنِيْٓ ۔۔ : یعقوب (علیہ السلام) نے نہ بھیجنے کے لیے دو عذر پیش کیے، ایک تو نہایت تاکید کے الفاظ ” اِنَّ “ اور ” لام تاکید “ کے ساتھ کہا کہ مجھے تمہارا اسے اپنے ساتھ لے جانا غمگین کرتا ہے۔ (حالانکہ یہی بات تو ان کے غصے کا باعث تھی) دوسرا یہ کہ مجھے خوف ہے کہ اسے کوئی بھیڑیا کھاجائے گا۔ ساتھ ہی ان کے جذبات ٹھنڈے رکھنے کے لیے یہ کہنے کے بجائے کہ ” اور تم بیٹھے رہو گے “ یہ کہا کہ ” تم اس سے غافل ہو گے۔ “ گویا تم میرے غم اور خوف دونوں کا سامان کر رہے ہو۔ - ان کو بھیڑیے کا بہانہ کرنا تھا وہی ان کے دل میں خوف آیا۔ (موضح) یا یعقوب (علیہ السلام) کے منہ سے یہ بات نکلنا تھی کہ انھوں نے اسی کا بہانہ بنا لیا۔
یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں نے جب والد سے یہ درخواست کی کہ یوسف کو کل ہمارے ساتھ تفریح کے لئے بھیج دیجئے تو حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے فرمایا کہ ان کو بھیجنا دو وجہ سے پسند نہیں کرتا اول تو مجھے اس نور نظر کے بغیر چین نہیں آتا دوسرے یہ خطرہ ہے کہ جنگل میں کہیں ایسا نہ کہ تمہاری غفلت کے وقت اس کو بھیڑیا کھا جائے - یعقوب (علیہ السلام) کو بھیڑیئے کا خطرہ یا تو اس وجہ سے ہوا کہ کنعان میں بھیڑیوں کی کثرت تھی اور یا اس وجہ سے کہ انہوں نے خواب میں دیکھا تھا کہ وہ کسی پہاڑی کے اوپر ہیں اور یوسف (علیہ السلام) اس کے دامن میں نیچے ہیں اچانک دس بھیڑیوں نے ان کو گھیر لیا اور ان پر حملہ کرنا چاہا مگر ایک بھیڑئیے ہی نے مدافعت کر کے چھڑا دیا پھر یوسف (علیہ السلام) زمین کے اندرچھپ گئے،- جس کی تعبیر بعد میں اس طرح ظاہر ہوئی کہ دس بھیڑئیے یہ دس بھائی تھے اور جس بھیڑئیے نے مدافعت کر کے ان کو ہلاکت سے بچایا وہ بڑے بھائی یہوداہ تھے اور زمین میں چھپ جانا کنویں کی گہرائی سے تعبیر تھی،- حضرت عبداللہ بن عباس سے ایک روایت میں منقول ہے کہ یعقوب (علیہ السلام) کو اس خواب کی بناء پر خودان بھائیوں سے خطرہ تھا انہی کو بھیڑیا کہا تھا مگر بمصلحت پوری بات ظاہر نہیں فرمائی (قرطبی)
قَالَ اِنِّىْ لَيَحْزُنُنِيْٓ اَنْ تَذْہَبُوْا بِہٖ وَاَخَافُ اَنْ يَّاْكُلَہُ الذِّئْبُ وَاَنْتُمْ عَنْہُ غٰفِلُوْنَ ١٣- حزن - الحُزْن والحَزَن : خشونة في الأرض وخشونة في النفس لما يحصل فيه من الغمّ ، ويضادّه الفرح، ولاعتبار الخشونة بالغم قيل : خشّنت بصدره : إذا حزنته، يقال : حَزِنَ يَحْزَنُ ، وحَزَنْتُهُ وأَحْزَنْتُهُ قال عزّ وجلّ : لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران 153] - ( ح ز ن ) الحزن والحزن - کے معنی زمین کی سختی کے ہیں ۔ نیز غم کی وجہ سے جو بیقراری سے طبیعت کے اندر پیدا ہوجاتی ہے اسے بھی حزن یا حزن کہا جاتا ہے اس کی ضد فوح ہے اور غم میں چونکہ خشونت کے معنی معتبر ہوتے ہیں اس لئے گم زدہ ہوے کے لئے خشنت بصررہ بھی کہا جاتا ہے حزن ( س ) غمزدہ ہونا غمگین کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران 153] تاکہ جو چیز تمہارے ہاتھ سے جاتی رہے ۔۔۔۔۔ اس سے تم اندو ہناک نہ ہو - ذهب - الذَّهَبُ معروف، وربما قيل ذَهَبَةٌ ، ويستعمل ذلک في الأعيان والمعاني، قال اللہ تعالی: وَقالَ إِنِّي ذاهِبٌ إِلى رَبِّي[ الصافات 99] ،- ( ذ ھ ب ) الذھب - ذھب ( ف) بالشیء واذھبتہ لے جانا ۔ یہ اعیان ومعانی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : إِنِّي ذاهِبٌ إِلى رَبِّي[ الصافات 99] کہ میں اپنے پروردگار کی طرف جانے والا ہوں ۔ - خوف - الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] - ( خ و ف ) الخوف ( س )- کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ - أكل - الأَكْل : تناول المطعم، وعلی طریق التشبيه قيل : أكلت النار الحطب، والأُكْل لما يؤكل، بضم الکاف وسکونه، قال تعالی: أُكُلُها دائِمٌ [ الرعد 35] - ( ا ک ل ) الاکل - کے معنی کھانا تناول کرنے کے ہیں اور مجازا اکلت النار الحطب کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی آگ نے ایندھن کو جلا ڈالا۔ اور جو چیز بھی کھائی جائے اسے اکل بضم کاف و سکونا ) کہا جاتا ہے ارشاد ہے أُكُلُهَا دَائِمٌ ( سورة الرعد 35) اسکے پھل ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں ۔- ( الذئب)- ، اسم جامد للحیوان المفترس المعروف، وزنه فعل بکسر فسکون .- غفل - الغَفْلَةُ : سهو يعتري الإنسان من قلّة التّحفّظ والتّيقّظ، قال تعالی: لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ مِنْ هذا[ ق 22] - ( غ ف ل ) الغفلتہ - ۔ اس سہو کو کہتے ہیں جو قلت تحفظ اور احتیاط کی بنا پر انسان کو عارض ہوجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ مِنْ هذا[ ق 22] بیشک تو اس سے غافل ہو رہا تھا
(١٣) ان کے باپ نے فرمایا مجھے تمہارے ساتھ بھیجنے میں دو امر مانع ہیں، ایک تم ان کو میری نظروں سے لے جاؤ اور میں ان کو نہ دیکھ سکوں اور دوسرا یہ کہ مجھے اس چیز کا اندیشہ ہے کہ اس کو کوئی بھیڑیا کھا جائے اور تم اپنے کھیل کود میں مصروف رہو۔
آیت ١٣ (قَالَ اِنِّىْ لَيَحْزُنُنِيْٓ اَنْ تَذْهَبُوْا بِهٖ وَاَخَافُ اَنْ يَّاْكُلَهُ الذِّئْبُ وَاَنْتُمْ عَنْهُ غٰفِلُوْنَ )- مجھے اس بات کا ڈر ہے کہ وہ تمہارے ساتھ چلا جائے پھر تم لوگ اپنی مصروفیات میں منہمک ہوجاؤ اس طرح وہ جنگل میں اکیلا رہ جائے اور کوئی بھیڑیا اسے پھاڑ کھائے۔
7: یعنی اگر کوئی اور حادثہ بھی پیش نہ آئے تو ان کا میری نظروں سے دور چلا جانا بھی میرے لیے باعث رنج ہوگا۔ اس سے معلوم ہوا کہ محبوب اولاد کو کسی خاص ضرورت کے بغیر جدا کرنا بھی ماں باپ کے لیے تکلیف دہ ہے۔ 8: بعض روایات میں ہے کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے ایک خواب دیکھا تھا کہ بھیڑیے حضرت یوسف (علیہ السلام) پر حملہ کر رہے ہیں۔