Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

20۔ 1 بھائیوں یا دوسری تفسیر کی رو سے اہل قافلہ نے بیچا۔ 20۔ 2 کیونکہ گری پڑی چیز انسان کو یوں ہی کسی محنت کے بغیر مل جاتی ہے، اس لئے چاہے وہ کتنی بھی قیمتی ہو، اس کی صحیح قدر و قیمت انسان پر واضح نہیں ہوتی۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٨] یوسف کو بیچنے والے کون تھے ؟ برادران یوسف یا قافلے والے :۔ بائیبل کی روایت کے مطابق تو قرآن کے لفظ (وَشَرَوْہُ ) کی ضمیر کا مرجع برادران یوسف ہیں۔ یعنی برادران یوسف نے سیدنا یوسف (علیہ السلام) کو معمولی سی قیمت کے عوض قافلہ والوں کے ہاتھ بیچ ڈالا۔ کیونکہ وہ یوسف کی خبرگیری رکھتے تھے اور بروقت جھگڑا کھڑا کردیا کہ یہ لڑکا ہمارا غلام ہے جو گھر سے بھاگ آیا تھا اور ہم اس کی تلاش میں تھے۔ بالآخر انہوں نے ان قافلہ والوں سے معمولی سی قیمت کے عوض اس کی سودا بازی کرلی۔ کیونکہ یہ جو رقم انھیں مل رہی تھی مفت میں مل رہی تھی۔ لہذا انہوں نے اتنی قیمت کو بھی غنیمت سمجھا۔ ان کی اصل غرض تو یہی تھی کہ یوسف یہاں سے دور کسی ملک میں پہنچ جائے اور یہ مقصد پورا ہو رہا تھا اور یہی قصہ عوام میں زبان زد عام ہے۔ لیکن قرآن کا سیاق وسباق اس مفہوم کی تائید نہیں کرتا۔ قرآن کے مطابق اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ قافلہ والوں نے مصر میں جاکر اس لڑکے (یوسف (علیہ السلام) کو فروخت کر ڈالا اور اسے معمولی قیمت میں اس لیے بیچ ڈالا کہ انھیں بھی یہ مال مفت میں ہاتھ لگ گیا تھا۔ لہذا زیادہ قیمت لگانے میں ان کی کوئی دلچسپی نہ تھی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍۢ بَخْسٍ ۔۔ :” بَخْسٍ “ کا معنی اصل قیمت سے کم قیمت ہے، جیسے فرمایا : ( وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْـيَاۗءَهُمْ ) [ الأعراف : ٨٥ ] ” اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دو ۔ “ یعنی قافلے والوں نے اسے تھوڑی قیمت، چند گنے ہوئے درہموں میں بیچ دیا، کیونکہ زیادہ درہم ہوتے تو وہ گننے کے بجائے تول لیے جاتے تھے۔ ” اور وہ اس میں رغبت نہ رکھنے والوں میں سے تھے “ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ قانونی طور پر حقیقی غلام کو نہیں بیچ رہے تھے، اس لیے جو کچھ مل گیا اسے انھوں نے غنیمت سمجھا۔ بےرغبت ہونے کی ایک وجہ یہ تھی کہ وہ جلد اس سے خلاصی حاصل کرنا چاہتے تھے، کیونکہ ڈرتے تھے کہ کہیں کوئی ایسا شخص نہ آجائے جو انھیں اس جرم میں پکڑ لے کہ وہ اس کے آزاد بیٹے کو غلام بنا کر پکڑ لائے ہیں، تو ہر وقت چھپا کر رکھنا اور یوسف (علیہ السلام) کو کسی سے اپنی حقیقت بیان کرنے کا موقع ہی نہ دینا ان کے لیے مصیبت تھا۔ اس سے ان لوگوں کی داستان گوئی کی حقیقت بھی معلوم ہوگئی جو یوسف (علیہ السلام) کے خریداروں کے ہجوم کا اور سوت کی اٹی لانے والی عورت کا اور آخر کار سونے میں تول کر فروخت کرنے کا ذکر کرتے ہیں۔ ویسے بھی ” شَرَی یَشْرِیْ “ بیچنے اور ” اِشْتَرَی یَشْتَرِیْ “ خریدنے کے معنوں میں آتا ہے، الا یہ کہ کوئی خاص قرینہ اس کے خلاف ہو، کیونکہ اصل یہی ہے کہ ” فَعَلَ “ کسی حدث (کام) کے لیے آتا ہے اور ” اِفْتَعَلَ “ اس کی مطاوعت (اس کام کا اثر قبول کرنے) کے لیے ہوتا ہے، جیسے ” بَاعَ “ اس نے بیچا اور ” اِبْتَاعَ “ اس نے خریدا۔ ” رَھَنَ “ اس نے گروی دیا اور ” اِرْتَھَنَ “ اس نے گروی لیا۔ ” کَرِیَ “ اس نے کرایہ پر دیا اور ” اِکْتَرَی “ اس نے کرایہ پر لیا۔ اس کے خلاف اول تو آتا ہی نہیں، آئے تو کوئی قرینہ موجود ہوتا ہے۔ جو لوگ یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں کا آ کر قافلے والوں کے ہاتھوں فروخت کرنا ذکر کرتے ہیں ان کی بات کا قرآن کی کسی آیت میں ذکر چھوڑ کر اشارہ بھی نہیں ہے۔ اگر کوئی اسرائیلی روایت ہے تو اس کا اعتبار نہیں اور وہ قرآن کے بیان کے بھی خلاف ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍۢ بَخْسٍ دَرَاهِمَ مَعْدُوْدَةٍ لفظ شراء عربی زبان میں خریدنے اور فروخت کرنے دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے یہاں بھی دونوں معنی کا احتمال ہے ضمیر اگر بردران یوسف کی طرف عائد کی جائے تو فروخت کرنے کے معنی ہوں گے اور قافلہ والوں کی طرف عائد کی جائے تو خریدنے کے معنی ہوں گے مطلب یہ ہے کہ بیچ ڈالا برادران یوسف نے یا خرید لیا قافلہ والوں نے یوسف (علیہ السلام) کو بہت تھوڑی قیمت یعنی گنتی کے چند دراہم کے معاوضہ میں - قرطبی نے فرمایا کہ عرب تجار کی عادت یہ تھی کہ بڑی رقموں کے معاملات وزن سے کیا کرتے تھے اور چھوٹی رقمیں جو چالیس سے زیادہ نہ ہوں ان کے معاملات گنتی سے کیا کرتے تھے اس لئے دراہم کے ساتھ معدودہ کے لفظ نے یہ بتلادیا کہ دراہم کی مقدار چالیس درہم کی بھی مختلف روایتیں منقول ہیں (ابن کثیر)- (آیت) وَكَانُوْا فِيْهِ مِنَ الزَّاهِدِيْنَ زاہدین، زاہد کی جمع ہے جو زہد سے مشتق ہے زہد کے لفظی معنی بےرغبتی اور بےتوجہی کے آتے ہیں محاورات میں دنیا کی مال و دولت سے بےرغبتی اور اعراض کو کہا جاتا ہے معنی آیت کے یہ ہیں کہ برداران یوسف اس معاملہ میں دراصل مال کے خواہش مند نہ تھے ان کا اصل مقصد تو یوسف (علیہ السلام) کو باپ سے جدا کرنا تھا اس لئے تھوڑے سے دراہم میں معاملہ کرلیا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَشَرَوْہُ بِثَمَنٍؚبَخْسٍ دَرَاہِمَ مَعْدُوْدَۃٍ۝ ٠ۚ وَكَانُوْا فِيْہِ مِنَ الزَّاہِدِيْنَ۝ ٢٠ۧ- شری - الشِّرَاءُ والبیع يتلازمان، فَالْمُشْتَرِي دافع الثّمن، وآخذ المثمن، والبائع دافع المثمن، وآخذ الثّمن . هذا إذا کانت المبایعة والْمُشَارَاةُ بناضّ وسلعة، فأمّا إذا کانت بيع سلعة بسلعة صحّ أن يتصور کلّ واحد منهما مُشْتَرِياً وبائعا، ومن هذا الوجه صار لفظ البیع والشّراء يستعمل کلّ واحد منهما في موضع الآخر . وشَرَيْتُ بمعنی بعت أكثر، وابتعت بمعنی اشْتَرَيْتُ أكثر، قال اللہ تعالی: وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف 20] ، أي : باعوه،- ( ش ر ی ) شراء - اور بیع دونوں لازم ملزوم ہیں ۔ کیونکہ مشتری کے معنی قیمت دے کر اس کے بدلے میں کوئی چیز لینے والے کے ہیں ۔ اور بائع اسے کہتے ہیں جو چیز دے کہ قیمت لے اور یہ اس وقت کہا جاتا ہے جب ایک طرف سے نقدی اور دوسری طرف سے سامان ہو لیکن جب خریدو فروخت جنس کے عوض جنس ہو ۔ تو دونوں میں سے ہر ایک کو بائع اور مشتری تصور کرسکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ بیع اور شراء کے الفاظ ایک دوسرے کی جگہ استعمال ہوتے ہیں اور عام طور پر شربت بمعنی بعت اور ابتعت بمعنی اشتریت آتا ہے قرآن میں ہے ۔ وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف 20] اور اس کو تھوڑی سی قیمت پر بیچ ڈالا ۔- ثمن - قوله تعالی: وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف 20] . الثَّمَنُ : اسم لما يأخذه البائع في مقابلة البیع، عينا کان أو سلعة . وکل ما يحصل عوضا عن شيء فهو ثمنه . قال تعالی: إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمانِهِمْ ثَمَناً قَلِيلًا [ آل عمران 77]- ( ث م ن ) الثمن - اصل میں ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو فروخت کرنے والا اپنی چیز کے عوض خریدار سے وصول کرتا ہے خواہ وہ زر نقد ہو یا سامان ۔ قرآن میں ہے :۔ وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف 20] اور اسے تھوڑی سی قیمت یعنی چند درہموں پر بیچ ڈالا ۔ - بخس - البَخْسُ : نقص الشیء علی سبیل الظلم، قال تعالی: وَهُمْ فِيها لا يُبْخَسُونَ- [هود 15] ، وقال تعالی: وَلا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْياءَهُمْ [ الأعراف 85] ، والبَخْسُ والبَاخِسُ : الشیء الطفیف الناقص، وقوله تعالی: وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف 20] قيل : معناه : بَاخِس، أي : ناقص، وقیل : مَبْخُوس أي : منقوص، ويقال : تَبَاخَسُوا أي : تناقصوا وتغابنوا فبخس بعضهم بعضا .- ( ب خ س ) البخس - ( س ) کے معنی کوئی چیز ظلم سے کم کرنا کے ہیں قرآن میں ہے وَهُمْ فِيها لا يُبْخَسُونَ [هود 15] اور اس میں ان کی حتی تلفی نہیں کی جاتی ولا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْياءَهُمْ [ الأعراف 85] اور لوگوں کو چیزیں کم نہ دیا کرو ۔ البخس وا ابا خس ۔ حقیر اور آیت کریمہ : وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف 20] میں بعض نے کہا ہے کہ بخس کے معنی حقیر اور ناقص کے ہیں اور بعض نے منحوس یعنی منقوص کا ترجمہ کیا ہے ۔ محاورہ ہے تباخسوا ۔ انہوں نے ایک دوسرے کی حق تلفی کی ۔- درهم - قال تعالی: وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ دَراهِمَ مَعْدُودَةٍ [يوسف 20] ، الدّرهم : الفضّة المطبوعة المتعامل بها .- ( درھ م ) الدرھم - ۔ چاندی کے ایک سکہ کا نام اسکی جمع دراھم ہے ۔ قرآن میں ہے : وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ دَراهِمَ مَعْدُودَةٍ [يوسف 20] اور اسکو تھوڑی سی قیمت ( یعنی معدودے چند درہموں پر بیج دالا ۔- زهد - الزَّهِيدُ : الشیء القلیل، والزَّاهِدُ في الشیء : الرّاغب عنه والرّاضي منه بالزّهيد، أي : القلیل . قال تعالی: وَكانُوا فِيهِ مِنَ الزَّاهِدِينَ [يوسف 20] .- ( ز ھ د ) الزھد - کے معنی حقیر چیز کے ہیں اور کسی چیز سے بےرغبتی کرنے والے یا حقیر سے چیز پر راضی ہوجانے والے کو زاھد فی الشئی ) کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَكانُوا فِيهِ مِنَ الزَّاهِدِينَ [يوسف 20]

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

دراہم کی تشریح - قول باری ہے وشروہ بثمن بخس دراھم معدودۃ آخر کار انہوں نے اسکو تھوڑی سی قیمت پر چند درہموں کے عوض بیچ ڈالا۔ فراء کا قول ہے کہ ثمن ان درہم و دینار کو کہتے ہیں جو خرید و فروخت اور لین دین کی صورت میں بدل کے طور پر کسی کے ذمے لازم ہوجاتے ہیں۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ظاہر کلام اسی مفہوم پر دلالت کرتا ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ثمن کو درہم کے نام سے موسم کیا اور فرمایا وشروہ بمثن فراء کا قول لغت کے دائرے میں قابل قبو ل ہے۔ جب اس نے یہ بتایا کہ ثمن اس چیز کا نام ہے جو انسان کے ذمہ خرید و فروخت میں بدل کے طور پر لازم ہوجاتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے درہم کو مثن کا نام دیا تو یہ بات اس امر کی مقتضی ہوگئی کہ جب خرید و فروخت اور لین دین میں درہم کو بدل قرار دیا جائے تو خریدار کے ذمہ ان کا ثبوت بھی ہوجائے خواہ اس نے ان کا تعین کیا ہو یا تعین نہ کیا ہو بلکہ مطلق رہنے دیا ہو ۔ اس لیے کہ اگر اس کی تعیین کی بنا پر یہ متعین ہوجاتے تو یہ ثمن بننے کے دائرے سے خارج ہوجاتے اس لیے کہ اعیان حقیقت میں ثمن نہیں بن سکتے ہاں انسان انہیں بدل کے طور پر استعمال کر کے انہیں معنوں میں انہیں ثمن کا نام دیتا ہے۔ دراصل اس میں ثمن کے ساتھ تشبیہ کا پہلو ہوتا ہے۔ جب یہ بات ثابت ہوگئی تو اب ضروری ہوگیا کہ درہم و دینارکا تعین نہہو اس لیے کہ اگر ان کا تعین کردی جائے تو اس صورت میں ان سے وہ صفت سلب ہوجائے گی جس کے ساتھ اللہ نے انہیں موصوف کیا یعنی انہیں ثمن قرار دیا ہے۔ عدم تعیین کی وجہ یہ ہے کہ اعیان ، ثمن نہیں بن سکتے۔- قول باری دراہم معدود ۃ کی تفسیر میں حضرت ابن عباس (رض) ، حضرت ابن مسعود (رض) اور قتادہ سے مروی ہے کہ یہ بیس درہم تھے ، مجاہد سے بائیں درہم منقول ہے۔ ایک قول کے مطابق درہم کی قلت کی بنا پر لفظ معدودۃ استعمال کیا گیا ۔ ایک قول ہے کہ انہوں نے ان درہم کو وزن نہیں کیا تھا بلکہ ان کی گنتی کی تھی اس بنا پر درج بالا لفظ استعمال ہوا ۔ ایک قول کے مطابق درہم جب تک ایک اوقیہ کے برابر نہ ہوجائے اس وقت تک اور انہیں وزن نہ کرتے اور ایک اوقیہ میں چالیس درہم آتے تھے۔ حضرت ابن عباس (رض) اور مجاہد کا قول ہے کہ حضرت یوسف (علیہم السلام) کے بھائی اس موقعہ پر موجود تھے انہوں نے قافلہ والوں سے کہا کہ یہ ہمارا بھاگا ہوا غلام ہے، چناچہ قافلہ والوں نے ان سے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو خرید لیا ۔ قتادہ کا قول ہے کہ قافلہ والوں نے حضرت یوسف کو فروخت کیا تھا۔ قوبل باری وکانو فیہ من الزاھدین کی تفسیر میں ایک قول ہے کہ حضرت یوسف کے بھائی ان کی قیمت کے معاملہ میں کچھ زیادہ کے امیدوار نہیں تھے۔ ان کا مقصد تو صرف یہ تھا کہ کسی طرح یوسف ان کے والد کی نظروں سے غائب کردیئے جائیں۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٠ (وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍۢ بَخْسٍ دَرَاهِمَ مَعْدُوْدَةٍ ۚ وَكَانُوْا فِيْهِ مِنَ الزَّاهِدِيْنَ )- اگرچہ انہوں نے حضرت یوسف کو مال تجارت سمجھ کر چھپایا تھا ‘ مگر مصر پہنچ کر بالکل ہی معمولی قیمت پر فروخت کردیا۔ اس زمانے میں درہم ایک دینار کا چوتھا حصہ ہوتا تھا۔ گویا انہوں نے چندّ چونیوں کے عوض آپ ( علیہ السلام) کو بیچ دیا۔ اس لیے کہ آپ ( علیہ السلام) کے بارے میں اس وقت تک انہیں کوئی خاص دلچسپی نہیں رہی تھی۔ اس کی دو وجوہات تھیں ‘ ایک تو آپ ( علیہ السلام) ان کے لیے مفت کا مال تھے جس پر ان لوگوں کا کوئی سرمایہ وغیرہ نہیں لگا تھا ‘ لہٰذا جو مل گیا انہوں نے اسے غنیمت جانا۔ دوسرے ان لوگوں کو آپ ( علیہ السلام) کی طرف سے ہر وقت یہ دھڑکا لگا رہتا تھا کہ لڑکے کے وارث آکر کہیں اسے پہچان نہ لیں اور ان پر چوری کا الزام نہ لگ جائے۔ لہٰذا وہ جلد از جلد آپ ( علیہ السلام) کے معاملے سے جان چھڑانا چاہتے تھے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :15 اس معاملہ کی سادہ صورت یہ معلوم ہوتی ہے کہ برادران یوسف علیہ السلام حضرت یوسف علیہ السلام کو کنویں میں پھینک کر چلے گئے تھے بعد میں قافلے والوں نے آکر ان کو وہاں سے نکالا اور مصر لے جاکر بیچ دیا ۔ مگر بائیبل کا بیان ہے کہ برادران یوسف علیہ السلام نے بعد میں اسماعیلیوں کے ایک قافلے کو دیکھا اور چاہا کہ یوسف علیہ السلام کو کنویں سے نکال ان کے ہاتھ بیچ دیں ۔ لیکن اس پہلے ہی مدین کے سوداگر انہیں کنویں سے نکال چکے تھے ۔ ان سوداگروں نے حضرت یوسف علیہ السلام کو بیس روپے میں اسماعیلیوں کے ہاتھ بیچ ڈالا ۔ پھر آگے چل کر بائیبل کے مصنفین یہ بھول جاتے ہیں کہ اوپر وہ اسماعیلیوں کے ہاتھ حضرت یوسف علیہ السلام کو فروخت کرا چکے ہیں ۔ چنانچہ وہ اسماعیلیوں کے بجائے پھر مدین ہی کے سوداگروں سے مصر میں انہیں دوبارہ فروخت کراتے ہیں ( ملاحظہ ہو کتاب پیدائش باب ۳۷ ۔ آیت ۲۵ تا ۲۸ و آیت ۳٦ ) ۔ اس کے برعکس تلمود کا بیان ہے کہ مدین کے سوداگروں نے یوسف علیہ السلام کو کنویں سے نکال کر اپنا غلام بنا لیا ۔ پھر برادران یوسف علیہ السلام نے حضرت یوسف علیہ السلام کو ان کے قبضہ میں دیکھ کر ان سے جھگڑا کیا ۔ آخرکار انہوں نے ۲۰ درہم قیمت ادا کر کے برادران یوسف علیہ السلام کو راضی کیا ۔ پھر انہوں نے بیس ہی درہم میں یوسف علیہ السلام کو اسماعیلیوں کے ہاتھ بیچ دیا اور اسماعیلیوں نے مصر لے جاکر انہیں فروخت کیا ۔ یہیں سے مسلمانوں میں یہ روایت مشہور ہوئی ہے کہ برادران یوسف علیہ السلام نے حضرت یوسف علیہ السلام کو فروخت کیا تھا ۔ لیکن واضح رہنا چاہیے کہ قرآن اس روایت کی تائید نہیں کرتا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

12: قرآن کریم کے الفاظ سے تو بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ بیچنے والے قافلے ہی کے لوگ تھے، اور حضرت یوسف (علیہ السلام) کو اپنے پاس رکھنے سے دلچسپی نہیں تھی بلکہ ان کو بیچ کر جو بھی قیمت ہاتھ آجائے وہ اسے غنیمت سمجھتے تھے، کیونکہ مفت حاصل ہو رہی تھی۔ اس لیے جب کوئی خریدار ملا، انہوں نے اسے تھوڑی سی قیمت پر ہی بیچ دیا۔ البتہ بعض روایات میں واقعے کی یہ تفصیل آئی ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بھائی انہیں کنویں میں ڈال تو گئے تھے۔ لیکن بڑا بھائی یہوداہ روزانہ ان کی خبر گیری کے لیے آتا تھا اور کچھ کھانا بھی انہیں پہنچا دیتا تھا۔ تیسرے دن جب انہیں کنویں میں نہ پایا تو تلاش کرنے سے وہ قافلے والے مل گئے۔ اس موقع پر دوسرے بھائی بھی آگئے اور انہوں نے قافلے والوں سے کہا کہ یہ ہمارا غلام ہے جو بھاگ گیا تھا۔ اور اگر تم چاہو تو ہم اسے تمہارے ہاتھ فروخت کرسکتے ہیں۔ چونکہ ان بھائیوں کا اصل مقصد تو یہ تھا کہ وہ ان کے والد کی سرزمین سے دور چلے جائیں۔ قیمت لینا اصل مقصد نہیں تھا۔ اس لیے انہوں نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو قافلے والوں کے ہاتھ معمولی قیمت پر بیچ دیا۔ بائبل میں بھی یہ مذکور ہے کہ بیچنے والے ان کے بھائی ہی تھے اور انہوں نے قافلے ہاتھ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو فروخت کیا تھا۔