بازار مصر سے شاہی محل تک رب کا لطف بیان ہو رہا ہے کہ جس نے آپ کو مصر میں خریدا ، اللہ نے اس کے دل میں آپ کی عزت و وقعت ڈال دی ۔ اس نے آپ کے نورانی چہرے کو دیکھتے ہی سمجھ لیا کہ اس میں خیر و صلاح ہے ۔ یہ مصر کا وزیر تھا ۔ اس کا نام قطفیر تھا ۔ کوئی کہتا ہے اطفیر تھا ۔ اس کے باپ کا نام دوحیب تھا ۔ یہ مصر کے خزانوں کا داروغہ تھا ۔ مصر کی سلطنت اس وقت ریان بن ولید کے ہاتھ تھی ۔ یہ عمالیق میں سے ایک شخص تھا ۔ ۔ عزیز مصر کی بیوی صاحبہ کا نام راعیل تھا ۔ کوئی کہتا ہے زلیخا تھا ۔ یہ رعابیل کی بیٹی تھیں ۔ ابن عباس کا بیان ہے کہ مصر میں جس نے آپ کو خریدا اس کا نام مالک بن ذعربن قریب بن عنق بن مدیان بن ابراہیم تھا ۔ واللہ اعلم ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں سب سے زیادہ دوربین اور دور رس اور انجام پر نظریں رکھنے والے اور عقلمندی سے تاڑنے والے تین شخص گزرے ہیں ۔ ایک تو یہی عزیز مصر کہ بیک نگاہ حضرت یوسف کو تاڑ لیا گیا اور جاتے ہی بیوی سے کہا کہ اسے اچھی طرح آرام سے رکھو ۔ دوسری وہ بچی جس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بیک نگاہ جان لیا اور جا کر باپ سے کا کہ اگر آپ کو آدمی کی ضرورت ہے تو ان سے معاملہ کر لیجئے یہ قوی اور باامانت شخص ہے ۔ تیسرے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کہ آپ نے دنیا سے رخت ہوتے ہوئے خلافت حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے شخص کو سونپی ۔ یہاں اللہ تعالیٰ اپنا ایک اور احسان بیان فرما رہا ہے کہ بھائیوں کے پھندے سے ہم نے چھڑایا پھر ہم نے مصر میں لا کر یہاں کی سرزمین پر ان کا قدم جما دیا ۔ کیونکہ اب ہمارا یہ ارادہ پورا ہونا تھا کہ ہم اسے تعبیر خواب کا کچھ علم عطا فرمائیں ۔ اللہ کے ارادہ کو کون ٹال سکتا ہے ۔ کون روک سکتا ہے؟ کون خلاف کر سکتا ہے؟ وہ سب پر غالب ہے ۔ سب اس کے سامنے عاجز ہیں جو وہ چاہتا ہے ہو کر ہی رہتا ہے جو ارادہ کرتا ہے کر چکتا ہے ۔ لیکن اکثر لوگ علم سے خالی ہوتے ہیں ۔ اس کی حکمت کو مانتے ہیں نہ اس کی حکمت کو جانتے ہیں نہ اس کی باریکیوں پر ان کی نگاہ ہوتی ہے ۔ نہ وہ اس کی حکمتوں کو سمجھ سکتے ہیں ۔ جب آپ کی عقل کامل ہوئی جب جسم اپنی نشو و نما تمام کر چکا تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو نبوت عطا فرمائی اور اس سے آپ کو مخصوص کیا ۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہم نیک کاروں کو اسی طرح بھلا بدلہ دیتے ہیں ۔ کہتے ہیں اس سے مراد تینتیس برس کی عمر ہے ۔ یا تیس سے کچھ اوپر کی یا بیس کی یا چالیس کی یا پچیس کی یا تیس کی یا اٹھارہ کی ۔ یا مراد جوانی کو پہنچنا ہے اور اس کے سوا اور اقوال بھی ہیں واللہ اعلم
21۔ 1 کہا جاتا ہے کہ مصر پر اس وقت ریان بن ولید حکمران تھا اور یہ عزیز مصر، جس نے یوسف (علیہ السلام) کو خریدا اس کا وزیر خزانہ تھا، اس کی بیوی کا نام بعض نے راعیل اور بعض نے زلیخا بتلایا ہے واللہ اعلم۔ 21۔ 2 یعنی جس طرح ہم نے یوسف (علیہ السلام) کو کنویں سے ظالم بھائیوں سے نجات دی، اسی طرح ہم نے یوسف (علیہ السلام) کو سرزمین مصر میں ایک معقول اچھا ٹھکانا عطا کیا۔
[١٩] مصر میں جس شخص نے اس لڑکے کو خریدا وہ کسی اعلیٰ سرکاری منصب پر فائز تھا اور بےاولاد تھا۔ اس نے لڑکے کی شکل و صورت اور عادات و خصائل دیکھ کر ہی یہ اندازہ لگا لیا تھا کہ یہ لڑکا غلام نہیں ہوسکتا۔ یہ تو کسی معزز خاندان کا ایک فرد ہے جسے حوادث زمانہ نے یہاں تک پہنچا دیا ہے۔ لہذا اس نے اپنے گھر کا سارا انتظام اور کام کاج سیدنا یوسف کے سپرد کردیا اور بیوی سے تاکیداً کہہ دیا کہ اسے غلام نہ سمجھو بلکہ گھر کا ایک فرد سمجھو اور عزت و وقار سے رکھو، یہ ہمارے لیے بہت سود مند ثابت ہوگا اور کیا عجب کہ ہم اسے اپنا متبنّیٰ ہی بنالیں۔- [٢٠] تاویل الاحادیث سے مراد رموز مملکت اور اصول حکمرانی ہیں :۔ عزیز مصر کے ہاں سیدنا یوسف (علیہ السلام) کو اس طرح کا باوقار مقام حاصل ہوجانا اس مستقبل کی طرف پہلا زینہ تھا جس میں آپ کو پورے ملک مصر کی حکومت اللہ کی طرف سے عطا ہونے والی تھی۔ آپ کی سابقہ زندگی خالصتاً بدوی ماحول میں گزری تھی اور اس سابقہ زندگی میں بدوی زندگی کے محاسن اور سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کے خاندان میں سے ہونے کی وجہ سے صرف اکیلے اللہ کی پرستش اور دینداری کے عنصر ضرور شامل تھے مگر اللہ تعالیٰ اس وقت کے سب سے زیادہ متمدن اور ترقی یافتہ ملک یعنی مصر میں آپ سے جو کام لینا چاہتا تھا اور اس کام کے لیے جس واقفیت تجربے اور بصیرت کی ضرورت تھی وہ آپ کو عزیز مصر کے گھر میں مختار کی حیثیت سے رہنے میں میسر آگئی۔ اس آیت میں تاویل الاحادیث سے مراد یہی رموز مملکت ہیں اور اس غرض کے لیے اللہ تعالیٰ نے جس طرح اسباب کے رخ کو موڑ دیا وہ اکثر لوگوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتا۔
وَقَالَ الَّذِي اشْتَرٰىهُ مِنْ مِّصْرَ لامْرَاَتِهٖٓ : قرآن نے اس شخص کے نام اور عہدے کا کہیں ذکر نہیں کیا، البتہ آگے چل کر مصر کی عورتوں نے ” عزیز “ کے لقب سے اس کا ذکر کیا ہے اور یہی لقب بعد میں یوسف (علیہ السلام) کے لیے بھی استعمال ہوا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخص مصر کے بادشاہ کا کوئی وزیر یا بہت بڑے عہدے پر فائز شخص تھا۔ اس کی بیوی کا نام بھی قرآن نے کہیں ذکر نہیں کیا، کیونکہ اس سے کوئی فائدہ نہ تھا، بلکہ یہ پردہ پوشی کے بھی خلاف تھا۔ اس لیے جو لوگ اس خاتون کا نام ” زلیخا “ (زاء کے فتحہ اور لام کے کسرہ کے ساتھ) یا ” راعیل “ بتاتے ہیں، ان کے پاس محض اسرائیلی روایات ہیں، کوئی پختہ دلیل نہیں اور ان کا یہ عمل ستر کے بھی خلاف ہے۔ - اَكْرِمِيْ مَثْوٰىهُ عَسٰٓى اَنْ يَّنْفَعَنَآ : عزیز مصر نے اپنی بیوی کو یوسف (علیہ السلام) کی رہائش باعزت رکھنے اور ہر ضرورت مہیا رکھنے کی تاکید کی۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ ہمارا اور اس کا تعلق مالک اور غلام والا ہونے کے بجائے گھر کے ایک معزز رکن کا ہونا چاہیے، بچہ نہایت ذہین اور اچھی عادات والا ہے، امید ہے ہمیں فائدہ دے گا۔ عزیز مصر مملکت کے کسی بھی شخص سے کام کروا سکتا تھا اور مطلوبہ فائدہ حاصل کرسکتا تھا مگر ماتحت نوکر جس طرح فائدہ پہنچاتے ہیں اور نہایت عزت و محبت سے پالے ہوئے اپنے گھر کے ایک فرد سے جس خیر خواہی اور فائدے کی امید ہوتی ہے، دونوں برابر نہیں ہوسکتے ۔- اَوْ نَتَّخِذَهٗ وَلَدًا : اس سے ظاہر ہے کہ ان کے ہاں اولاد نہیں تھی۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق ماں باپ، بہن بھائی یا بیٹا بیٹی منہ کے کہہ دینے سے نہیں بنتے۔ دیکھیے سورة احزاب (٤، ٥) اور مجادلہ (٢) ورنہ عزیز کی بیوی کا سگا بیٹا ہوتا تو وہ اس سے وہ معاملہ کبھی نہ کرتی جس کا ذکر آگے آ رہا ہے۔ اکثر گھروں میں اللہ کی اس نافرمانی کے ایسے ہی نتائج رونما ہوتے ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے نہایت تاکید کے ساتھ اس سے منع فرمایا ہے۔ - وَكَذٰلِكَ مَكَّنَّا لِيُوْسُفَ ۔۔ : اس کی دو تفسیریں ہیں، ایک یہ کہ اس طرح یعنی عزیز مصر کے ہاتھ فروخت کروا کر اور مصر کے اتنے عظیم مقام والے گھر میں باعزت رہائش دے کر ہم نے یوسف (علیہ السلام) کو سرزمین مصر میں جگہ دی (تاکہ وہ باعزت زندگی بسر کرے) تاکہ ایک حکمران کے گھر میں رہ کر سرداروں کی مجلسیں دیکھے اور حکمرانی اور سیاست کے اسرار و رموز سیکھے، جو صحرا میں رہنے سے کبھی حاصل نہیں ہوسکتے تھے اور آخر میں ان کی وجہ سے بنی اسرائیل مصر میں آ کر آباد ہوں۔ دوسری یہ کہ جیسے ہم نے اس سے پہلے یوسف کو بھائیوں کے شر سے بچایا اور کنویں سے نکلوایا، اسی طرح ہم نے اسے سرزمین مصر میں جگہ بخشی۔ - وَاللّٰهُ غَالِبٌ عَلٰٓي اَمْرِهٖ :” غَلَبَ “ کا لفظ وہاں بولا جاتا ہے جہاں کوئی مقابلے میں ہو۔ دیکھیے یوسف (علیہ السلام) کے بھائی کیا چاہتے تھے اور کنویں میں پھینکنے کے بعد اپنے خیال میں وہ کس قدر کامیاب ہوچکے تھے، مگر اللہ اپنے کام پر غالب ہے۔ وہ جو کرنا چاہے کوئی طاقت اسے روک نہیں سکتی۔ کنویں سے نکال کر حکومت تک پہنچانا اور پھینکنے والوں کو سائل بنا کر اس کے سامنے لا کھڑا کرنا اس کے ادنیٰ اشارے کا کام ہے۔ ہمارے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے شاعر نے بدر کے موقع پر کیا خوب کہا تھا - جَاءَتْ سَخِیْنَۃُ کَیْ تُغَالِبَ رَبَّھَا - وَلَیُغْلَبَنَّ مُغَالِبُ الْغَلَّابِ- ” قریش اس لیے آئے تھے کہ اپنے رب کے ساتھ غالب آنے کا مقابلہ کریں گے اور قسم ہے کہ اس زبردست غالب کا مقابلہ کرنے والا ہر صورت مغلوب ہو کر رہے گا۔ “ (قریش کو سخینہ اس لیے کہتے تھے کہ وہ حاجیوں کی ضیافت گرم کھانے سے کرتے تھے) ۔- وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ : اور لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے کہ ہر قسم کا اختیار اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے، اس لیے وہ اپنے مقصد کے حصول کے لیے کسی ظلم وستم کی کمی نہیں کرتے، مگر ہوتا وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کو منظور ہے، بخلاف تھوڑے لوگوں کے، جو ہر حال میں اللہ تعالیٰ کے حکم کے غالب رہنے پر اور اس کی تقدیر پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ نہ خوشی میں پھولتے ہیں نہ مصیبت میں حد سے زیادہ غم میں مبتلا ہوتے ہیں اور نہ کسی صورت اللہ کے حکم سے سر پھیرتے ہیں۔
خلاصہ تفسیر :- (قافلہ والے یوسف (علیہ السلام) کو بھائیوں سے خرید کر مصر لے گئے وہاں عزیز مصر کے ہاتھ فروخت کردیا) اور جس شخص نے مصر میں ان کو خریدا تھا (یعنی عزیز) اس نے (ان کو اپنے گھر لا کر اپنی بیوی کے سپرد کیا اور) اپنی بیوی سے کہا کہ اس کو خاطر سے رکھنا کیا عجب ہے کہ (بڑا ہو کر) ہمارے کام آوے، یا ہم اس کو بیٹا بنالیں (مشہور یہ ہے کہ یہ اس لئے کہا کہ ان کے اولاد نہ تھی) اور ہم نے (جس طرح یوسف (علیہ السلام) کو اپنی خاص عنایت سے اس اندھیرے کنویں سے نجات دی) اسی طرح یوسف کو اس سر زمین (مصر) میں خوب قوت دی (مراد اس سے سلطنت ہے) اور (یہ نجات دینا اس غرض سے بھی تھا) تاکہ ہم ان کو خوابوں کی تعبیر دینا بتلا دیں (مطلب یہ تھا کہ نجات دینے کا مقصد ان کو ظاہری اور باطنی دولت سے مالامال کرنا تھا) اللہ تعالیٰ اپنے (چاہے ہوئے) کام پر غالب (اور قادر) ہے (جو چاہے کر دے) لیکن اکثر آدمی جانتے نہیں (کیونکہ اہل ایمان و یقین کم ہی ہوتے ہیں یہ مضمون قصہ کے درمیان بطور جملہ معترضہ کے اس لئے لایا گیا ہے کہ یوسف (علیہ السلام) کی موجودہ حالت یعنی غلام بن کر رہنا بظاہر کوئی اچھی حالت نہ تھی مگر حق تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ حالت چند روزہ بطور ذریعہ کے ہے اصل مقصد ان کو اونچا مقام عطا فرمانا ہے اور اس کا ذریعہ عزیز مصر کو اور اس کے گھر میں پرورش پانے کو بنایا گیا کیونکہ امراء کے گھر میں پرورش پانے سے سلیقہ و تجربہ بڑھتا ہے، امور سلطنت کا علم ہوتا ہے اسی کا بقیہ آگے یہ ہے) اور جب وہ اپنی جوانی (یعنی سن بلوغ یا کمال شباب) کو پہنچے ہم نے ان کو حکمت اور علم عطا کیا (مراد اس سے علوم نبوت کا عطا کرنا ہے اور کنویں میں ڈالنے کے وقت جو ان کی طرف وحی بھیجنے کا ذکر پہلے آچکا ہے وہ وحی نبوت نہیں تھی بلکہ ایسی وحی تھی جیسے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کو وحی بھیجی گئی تھی) اور ہم نیک لوگوں کو اسی طرح بدلہ دیا کرتے ہیں (جو قصہ یوسف (علیہ السلام) پر تہمت لگانے کا آگے بیان ہوگا اس سے پہلے ان جملوں میں بتلا دیا گیا ہے کہ وہ سراسر تہمت اور جھوٹ ہوگا کیونکہ جس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے علم و حکمت عطا ہو اس سے ایسے کام صادر ہو ہی نہیں سکتے آگے اس تہمت کے قصہ کا بیان ہے کہ یوسف (علیہ السلام) عزیز مصر کے گھر میں آرام و راحت کے ساتھ رہنے لگے) اور (اسی درمیان میں یہ ابتلاء پیش آیا کہ) جس عورت کے گھر میں یوسف (علیہ السلام) رہتے تھے وہ (ان پر مفتون ہوگئی اور) ان سے اپنا مطلب حاصل کرنے کے لئے ان کو پھسلانے لگی اور (گھر کے) سارے دروازے بند کر دئیے اور (ان سے) کہنے لگی آجاؤ تم ہی سے کہتی ہوں یوسف (علیہ السلام) نے کہا (کہ اول تو یہ خود بڑا بھاری گناہ ہے) اللہ بچائے (دوسرے) وہ (یعنی تیرا شوہر) میرا مُربی (اور محسن) ہے کہ مجھ کو کیسی اچھی طرح رکھا (تو کیا میں اس کے ناموس میں خلل اندازی کروں) ایسے حق فراموشوں کو فلاح نہیں ہوا کرتی ( بلکہ اکثر تو دنیا ہی میں ذلیل اور پریشان ہوتے ہیں ورنہ آخرت میں تو عذاب یقینی ہے)- معارف و مسائل :- پچھلی آیتوں میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کی ابتدائی سرگذشت بیان ہوچکی ہے کہ قافلہ والوں نے جب ان کو کنویں سے نکال لیا تو برادران یوسف نے ان کو اپنا غلام گریختہ بنا کر تھوڑے سے درہموں میں ان کا سودا کرلیا اول تو اس لئے کہ ان کو بزرگ ہستی کی قدر معلوم نہ تھی دوسرے اس لئے کہ ان کا اصل مقصد ان سے پیسہ کمانا نہیں بلکہ باپ سے دور کردینا تھا اس لئے صرف فروخت کردینے پر بس نہیں کہ کیونکہ یہ خطرہ تھا کہ کہیں قافلہ والے ان کو یہیں نہ چھوڑ جائیں اور یہ پھر کسی طرح والد کے پاس پہنچ کر ہماری سازش کا راز فاش کردے اس لئے امام تفسیر مجاھدرحمۃ اللہ علیہ کی روایت کے مطابق یہ لوگ اس انتظار میں رہے کہ یہ قافلہ ان کو لے کر مصر کے لئے روانہ ہوجائے اور جب قافلہ روانہ ہوا تو کچھ دور تک قافلہ کے ساتھ چلے اور ان لوگوں سے کہا کہ دیکھو اس کو بھاگ جانے کی عادت ہے کھلانہ چھوڑو بلکہ باندھ کر رکھو، اس در شہوار کی قدرو قیمت سے ناواقف قافلہ والے ان کو اسی طرح مصر تک لے گئے (تفسیر ابن کثیر )- آیات مذکورہ میں اس کے بعد کا قصہ اس طرح مذکور ہے اور قرآنی اعجاز کے ساتھ قصہ کے جتنے اجزاء خود بخود سمجھ میں آسکتے ہیں ان کو بیان کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی مثلاً قافلہ کا مختلف منزلوں سے گذر کر مصر تک پہنچنا اور وہاں جا کر یوسف (علیہ السلام) کو فروخت کرنا وغیرہ سب کو چھوڑ کر یہاں سے بیان ہوتا ہے،- (آیت) وَقَالَ الَّذِي اشْتَرٰىهُ مِنْ مِّصْرَ لامْرَاَتِهٖٓ اَكْرِمِيْ مَثْوٰىهُ یعنی کہا اس شخص نے جس نے یوسف (علیہ السلام) کو مصر میں خریدا اپنی بیوی سے کہ یوسف (علیہ السلام) کے ٹھرانے کا اچھا انتظام کرو۔ - مطلب یہ ہے کہ قافلہ والوں نے ان کو مصر لے جا کر فروخت کرنے کا اعلان کیا تو تفسیر قرطبی میں ہے کہ لوگوں نے بڑھ بڑھ کر قیمتیں لگانا شروع کیں یہاں تک کہ یوسف (علیہ السلام) کے وزن کے برابر مشک اور اسی وزن کے ریشمی کپڑے قیمت لگ گئی - یہ دولت اللہ تعالیٰ نے عزیز مصر کے لئے مقدر کی تھی اس نے یہ سب چیزیں قیمت میں ادا کر کے یوسف (علیہ السلام) کو خرید لیا،- جیسا کہ پہلے ارشاد قرآنی سے معلوم ہوچکا ہے کہ یہ سب کچھ کوئی اتفاقی واقعہ نہیں بلکہ رب العزت کی بنائی ہوئی مستحکم تدبیر کے اجزاء ہیں مصر میں یوسف (علیہ السلام) کی خریداری کے لئے اس ملک کے سب سے بڑے عزت والے شخص کو مقدر فرمایا ابن کثیر نے فرمایا کہ یہ شخص جس نے مصر میں یوسف (علیہ السلام) کو خریدا وہ ملک مصر کا وزیر خزانہ تھا جس کا نام قطفیر یا اطفیریر بتلایا جاتا ہے اور بادشاہ مصر اس زمانہ میں قوم عمالقہ کا ایک شخص ریان بن اسید تھا، (جو بعد میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کے ہاتھ پر اسلام لایا اور مسلمان ہو کر یوسف (علیہ السلام) کی زندگی میں انتقال کر گیا (مظہری) اور عزیز مصر جس نے خریدا تھا اس کی بیوی کا نام راعیل یا زلیخا بتلایا گیا ہے عزیز مصر قطفیر نے یوسف (علیہ السلام) کے متعلق اپنی بیوی کو یہ ہدایت کی کہ ان کو اچھا ٹھکانا دے عام غلاموں کی طرح نہ رکھے ان کی ضروریات کا اچھا انتظام کرے،- حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ دنیا میں تین آدمی بڑے عقلمند اور قیافہ شناس ثابت ہوئے اول عزیز مصر جس نے ان کے کمالات کو اپنے قیافہ سے معلوم کر کے بیوی کو یہ ہدایت دی دوسرے شعیب (علیہ السلام) کی وہ صاحبزادی جس نے موسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں اپنے والد سے کہا (آیت) يٰٓاَبَتِ اسْتَاْجِرْهُ ۡ اِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْـتَاْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْاَمِيْنُ یعنی اباجان ان کو ملازم رکھ لیجئے اس لئے کہ بہترین ملازم وہ شخص ہے جو قوی بھی ہو اور امانت دار بھی تیسرے حضرت صدیق اکبر (رض) ہیں جنہوں نے اپنے بعد فاروق اعظم (رض) کو خلافت کے لئے منتخب فرمایا (ابن کثیر)- (آیت) وَكَذٰلِكَ مَكَّنَّا لِيُوْسُفَ فِي الْاَرْضِ ۡیعنی اس طرح حکومت دے دیہم نے یوسف (علیہ السلام) کو زمین کی اس میں آئندہ آنے والے واقعہ کی بشارت یہ ہے کہ یوسف (علیہ السلام) جو عزیز مصر کے گھر میں اس وقت بحیثیت غلام داخل ہوئے ہیں عنقریب یہ ملک مصر کے سب سے بڑے آدمی ہوں گے اور حکومت کا اقتدار ان کو ملے گا،- وَلِنُعَلِّمَهٗ مِنْ تَاْوِيْلِ الْاَحَادِيْثِ یہاں شروع میں حرف واؤ کو اگر عطف کیلئے مانا جائے تو ایک جملہ اس معنی کا محذوف مانا جائے گا کہ ہم نے یوسف (علیہ السلام) کو زمین کی حکومت اس لئے دی کہ وہ دنیا میں عدل و انصاف کے ذریعہ امن وامان قائم کریں اور باشندگان ملک کی راحت کا انتظام کریں اور اس لے کہ ہم ان کو باتوں کا ٹھکانے لگانا سکھا دیں باتوں کا ٹھکانے لگانا ایک ایسا عام مفہوم ہے جس میں وحی الہی کا سمجھنا اور اس کو برروئے کار لانا بھی داخل ہے اور تمام ضروری علوم کا حاصل ہونا بھی اور خوابوں کی تعبیر صحیح بھی - وَاللّٰهُ غَالِبٌ عَلٰٓي اَمْرِه ٖ یعنی اللہ تعالیٰ غالب اور قادر ہے اپنے کام پر جو اس کا ارادہ ہوتا ہے تمام عالم کے اسباب ظاہرہ اس کے مطابق ہوتے چلے جاتے ہیں جیسا ایک حدیث میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی کام کا ارادہ فرماتے ہیں تو دنیا کے سارے اسباب اسکے لئے تیار کردیتے ہیں وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ لیکن اکثر لوگ اس حقیقت کو نہیں سمجھتے اور اسباب ظاہرہ ہی کو کچھ سمجھ کر انہی کی فکر میں لگے رہتے ہیں مسبب الاسباب اور قادر مطلق کی طرف دھیان نہیں دیتے
وَقَالَ الَّذِي اشْتَرٰىہُ مِنْ مِّصْرَ لِامْرَاَتِہٖٓ اَكْرِمِيْ مَثْوٰىہُ عَسٰٓى اَنْ يَّنْفَعَنَآ اَوْ نَتَّخِذَہٗ وَلَدًا ٠ۭ وَكَذٰلِكَ مَكَّنَّا لِيُوْسُفَ فِي الْاَرْضِ ٠ ۡوَلِنُعَلِّمَہٗ مِنْ تَاْوِيْلِ الْاَحَادِيْثِ ٠ۭ وَاللہُ غَالِبٌ عَلٰٓي اَمْرِہٖ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ ٢١- مصر - المِصْرُ اسم لكلّ بلد ممصور، أي : محدود، يقال : مَصَرْتُ مَصْراً. أي : بنیته، والمِصْرُ : الحدُّ ، - ( م ص ر ) المصر - ہر محدود شہر کو ( جس کے گرد فصیل ہو ) مصر کہتے ہیں ۔ اور مصرت مصرا دو چیزوں کے مابین حد کو کہتے ہیں - كرم - الكَرَمُ إذا وصف اللہ تعالیٰ به فهو اسم لإحسانه وإنعامه المتظاهر، نحو قوله : فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل 40] ، وإذا وصف به الإنسان فهو اسم للأخلاق والأفعال المحمودة التي تظهر منه، ولا يقال : هو كريم حتی يظهر ذلک منه . قال بعض العلماء : الكَرَمُ کالحرّيّة إلّا أنّ الحرّيّة قد تقال في المحاسن الصّغيرة والکبيرة، والکرم لا يقال إلا في المحاسن الکبيرة، كمن ينفق مالا في تجهيز جيش في سبیل الله، وتحمّل حمالة ترقئ دماء قوم، وقوله تعالی: إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ [ الحجرات 13] فإنما کان کذلک لأنّ الْكَرَمَ الأفعال المحمودة، وأكرمها وأشرفها ما يقصد به وجه اللہ تعالی، فمن قصد ذلک بمحاسن فعله فهو التّقيّ ، فإذا أكرم الناس أتقاهم، وكلّ شيء شرف في بابه فإنه يوصف بالکرم . قال تعالی:- فَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان 10] ، وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان 26] ، إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77] ، وَقُلْ لَهُما قَوْلًا كَرِيماً [ الإسراء 23] .- والإِكْرَامُ والتَّكْرِيمُ :- أن يوصل إلى الإنسان إکرام، أي : نفع لا يلحقه فيه غضاضة، أو أن يجعل ما يوصل إليه شيئا كَرِيماً ، أي : شریفا، قال : هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْراهِيمَ الْمُكْرَمِينَ- [ الذاریات 24] . وقوله : بَلْ عِبادٌ مُكْرَمُونَ [ الأنبیاء 26] أي : جعلهم کراما، قال : كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار 11] ، وقال : بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس 15 16] ، وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ [يس 27] ، وقوله : ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن 27] منطو علی المعنيين .- ( ک ر م ) الکرم - ۔ جب اللہ کی صفت ہو تو اس سے احسان وانعام مراد ہوتا ہے جو ذات باری تعالیٰ سے صادر ہوتا رہتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل 40] تو میر اپروردگار بےپرواہ اور کرم کرنے والا ہے ۔ اور جب انسان کی صفت ہو تو پسندیدہ اخلاق اور افعال مراد ہوتے ہیں جو کسی انسان سے ظاہر ہوتے ہیں ۔ اور کسی شخص کو اس وقت تک کریمہ نہیں کہاجاسکتا جب تک کہ اس سے کرم کا ظہور نہ ہوچکا ہو ۔ بعض نے علماء کہا ہے کہ حریت اور کرم ہم معنی ہیں لیکن حریت کا لفظ جھوٹی بڑی ہر قسم کی خوبیوں پر بولا جا تا ہے اور کرم صرف بڑے بڑے محاسن کو کہتے ہیں مثلا جہاد میں فوج کے لئے سازو سامان مہیا کرنا یا کیس ایسے بھاری تا وان کو اٹھا لینا جس سے قوم کے خون اور جان کی حفاظت ہوتی ہو ۔ اور آیت : ۔ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ [ الحجرات 13] اور خدا کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا ہے جو زیادہ پرہیز گار ہیں ۔ میں القی یعنی سب سے زیادہ پرہیز گا ۔ کو اکرم یعنی سب سے زیادہ عزت و تکریم کا مستحق ٹہھر انے کی وجہ یہ ہے کہ کرم بہترین صفات کو کہتے ہیں اور سب سے بہتر اور پسند یدہ کام وہی ہوسکتے ہیں جن سے رضا الہیٰ کے حصول کا قصد کیا جائے لہذا جو جس قدر زیادہ پرہیز گار ہوگا اسی قدر زیادہ واجب التکریم ہوگا ۔ نیز الکریم ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو اپنی چیز کو کہتے ہیں جو اپنی ہم نوع چیزوں میں سب سے زیادہ باشرف ہو چناچہ فرمایا : ۔ فَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان 10] پھر ( اس سے ) اس میں ہر قسم کی نفیس چیزیں اگائیں ۔ وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان 26] اور کھیتیاں اور نفیس مکان ۔ إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77] کہ یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔ وَقُلْ لَهُما قَوْلًا كَرِيماً [ الإسراء 23] اور ان سے بات ادب کے ساتھ کرنا ۔ - الا کرام والتکریم - کے معنی ہیں کسی کو اس طرح نفع پہچانا کہ اس میں اس کی کسی طرح کی سبکی اور خفت نہ ہو یا جو نفع پہچا یا جائے وہ نہایت باشرف اور اعلٰی ہو اور المکرم کے معنی معزز اور با شرف کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْراهِيمَ الْمُكْرَمِينَ [ الذاریات 24] بھلا تمہارے پاس ابراہیم کے معزز مہمانوں کی خبر پہنچی ہے ؛ اور آیت کریمہ : ۔ بَلْ عِبادٌ مُكْرَمُونَ [ الأنبیاء 26] کے معیم یہ ہیں کہ وہ اللہ کے معزز بندے ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ [يس 27] اور مجھے عزت والوں میں کیا ۔ كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار 11] عالی قدر تمہاری باتوں کے لکھنے والے ۔ بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس 15 16] ( ایسے ) لکھنے والوں کے ہاتھوں میں جو سر دار اور نیوک کار ہیں ۔ اور آیت : ۔ ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن 27] اور جو صاحب جلال اور عظمت ہے ۔ میں اکرام کا لفظ ہر دو معنی پر مشتمل ہے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ عزت و تکریم بھی عطا کرتا ہے اور باشرف چیزیں بھی بخشتا ہے - - ثوی - الثَّوَاء : الإقامة مع الاستقرار، يقال : ثَوَى يَثْوِي ثَوَاءً ، قال عزّ وجلّ : وَما كُنْتَ ثاوِياً فِي أَهْلِ مَدْيَنَ [ القصص 45] ، وقال : أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوىً لِلْمُتَكَبِّرِينَ [ الزمر 60] ، قال اللہ تعالی: فَالنَّارُ مَثْوىً لَهُمْ [ فصلت 24] ، ادْخُلُوا أَبْوابَ جَهَنَّمَ خالِدِينَ فِيها فَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِينَ [ الزمر 72] ، وقال : النَّارُ مَثْواكُمْ [ الأنعام 128] ، وقیل : من أمّ مثواک «3» ؟ كناية عمّن نزل به ضيف، والثَّوِيَّة : مأوى الغنم - ( ث و ی ) الثواء ( ص) کے اصل معنی کسی جگہ پر مستقل طور پر اقامت کرنا کے ہیں کہا جاتا ہے ثویٰ یثویٰ ثواء وہ اقامت پذیر ہوگیا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَما كُنْتَ ثاوِياً فِي أَهْلِ مَدْيَنَ [ القصص 45] اور نہ تم مدین والوں میں رہ رہے تھے ۔ أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوىً لِلْمُتَكَبِّرِينَ [ الزمر 60] کیا غرور والوں کا ٹھکانا دوزخ میں نہیں ہے ۔ فَالنَّارُ مَثْوىً لَهُمْ [ فصلت 24] اور انکا ٹھکانا دوزخ ہے ۔ ادْخُلُوا أَبْوابَ جَهَنَّمَ خالِدِينَ فِيها فَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِينَ [ الزمر 72]( اب ) جہنم کے دروازوں میں داخل ہوجاؤ ۔ ہمیشہ اسی میں رہو گے ۔ متکبروں کا کیسا برا ٹھکانا ہے ۔ النَّارُ مَثْواكُمْ [ الأنعام 128] خدا فرمائے گا ( اب ) تمہارا ٹھکانا درزخ ہے ۔ من ام مثواک ( کنایہ ) تمہارا میز بان کو ن ہے ۔ الثویۃ بھیڑ بکریوں کے باڑہ کو کہتے ہیں ۔- عسی - عَسَى طَمِعَ وترجّى، وكثير من المفسّرين فسّروا «لعلّ» و «عَسَى» في القرآن باللّازم، وقالوا : إنّ الطّمع والرّجاء لا يصحّ من الله، وفي هذا منهم قصورُ نظرٍ ، وذاک أن اللہ تعالیٰ إذا ذکر ذلک يذكره ليكون الإنسان منه راجیا لا لأن يكون هو تعالیٰ يرجو، فقوله : عَسى رَبُّكُمْ أَنْ يُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ [ الأعراف 129] ، أي : کونوا راجین - ( ع س ی ) عسیٰ- کے معنی توقع اور امید ظاہر کرنا کے ہیں ۔ اکثر مفسرین نے قرآن پاک میں اس کی تفسیر لازم معیو یعنی یقین سے کی ہے وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حق میں طمع اور جا کا استعمال صحیح نہیں ہے مگر یہ ان کی تاہ نظری ہے کیونکہ جہاں کہیں قرآن میں عسی کا لفظ آیا ہے وہاں اس کا تعلق انسان کے ساتھ ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ کیساتھ لہذا آیت کریمہ : ۔ عَسى رَبُّكُمْ أَنْ يُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ [ الأعراف 129] کے معنی یہ ہیں کہ تم اللہ تعالیٰ سے امید رکھو کہ تمہارے دشمن کو ہلاک کردے - نفع - النَّفْعُ : ما يُسْتَعَانُ به في الوُصُولِ إلى الخَيْرَاتِ ، وما يُتَوَصَّلُ به إلى الخَيْرِ فهو خَيْرٌ ، فَالنَّفْعُ خَيْرٌ ، وضِدُّهُ الضُّرُّ. قال تعالی: وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان 3] - ( ن ف ع ) النفع - ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس سے خیرات تک رسائی کے لئے استعانت حاصل کی جائے یا وسیلہ بنایا جائے پس نفع خیر کا نام ہے اور اس کی ضد ضر ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان 3] اور نہ اپنے نقصان اور نفع کا کچھ اختیار رکھتے ہیں ۔- أخذ ( افتعال، مفاعله)- والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر - ( اخ ذ) الاخذ - الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔- مكن - المَكَان عند أهل اللّغة : الموضع الحاوي للشیء، قال : وَلَقَدْ مَكَّنَّاكُمْ فِي الْأَرْضِ [ الأعراف 10] وقوله : ذِي قُوَّةٍ عِنْدَ ذِي الْعَرْشِ مَكِينٍ- [ التکوير 20] أي : متمکّن ذي قدر ومنزلة . ومَكِنَات الطّيرِ ومَكُنَاتها :- مقارّه، والمَكْن : بيض الضّبّ ، وبَيْضٌ مَكْنُونٌ [ الصافات 49] . قال الخلیل المکان مفعل من الکون، ولکثرته في الکلام أجري مجری فعال «فقیل : تمكّن وتمسکن، نحو : تمنزل .- ( م ک ن ) المکان - اہل لغت کے نزدیک مکان اس جگہ کو کہتے ہیں جو کسی جسم پر حاوی ہو ۔ قرآن میں ہے ۔- وَلَقَدْ مَكَّنَّاكُمْ فِي الْأَرْضِ [ الأعراف 10] اور ہم نے زمین میں تمہارا ٹھکانا بنایا ۔- أَوَلَمْ نُمَكِّنْ لَهُمْ [ القصص 57] کیا ہم نے ان کو جگہ نہیں دی ۔ وَنُمَكِّنَ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ [ القصص 6] اور ملک میں ان کو قدرت دیں ۔ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضى لَهُمْ [ النور 55] اور ان کے دین کو جسے اس نے ان کے لئے پسند کیا ہے ۔ مستحکم وپائیدار کرے گا ۔ فِي قَرارٍ مَكِينٍ [ المؤمنون 13] ایک مضبوط اور محفوظ جگہ میں ۔ اور امکنت فلانا من فلان کے معنی کسی کو دوسرے پر قدرت دینے کے ہیں مکان و مکانہ جگہ اور حالت کو کہتے ہیں قرآن میں ہے ۔ اعْمَلُوا عَلى مَكانَتِكُمْ [هود 93] اپنی جگہ پر عمل کئے جاؤ ۔ ایک قراءت میں مکانا تکم بصیغہ جمع ہے اور آیت کریمہ : ۔ ذِي قُوَّةٍ عِنْدَ ذِي الْعَرْشِ مَكِينٍ [ التکوير 20] جو صاحب قوت مالک عرش کے ہاں اونچے در جے والا ہے ۔ میں مکین بمعنی متمکن یعنی صاحب قدر ومنزلت ہے : ۔ پرندوں کے گھونسلے ۔ المکن سو سماروں وغیرہ کے انڈے ۔ آیت کریمہ : ۔ وبَيْضٌ مَكْنُونٌ [ الصافات 49] محفوظ انڈے ۔ خلیل کا قول ہے کہ لفظ مکان ( صیغہ ظرف ) مفعل کے وزن پر ہے اور یہ کون سے مشتق ہے پھر کثیر الاستعمال ہونے کی وجہ سے اسے فعال کا حکم دے کر اس سے تمکن وغیرہ مشتقات استعمال ہوئی ہیں ۔ جیسے منزل سے تمنزل وغیرہ - علم ( تعلیم)- اختصّ بما يكون بتکرير وتكثير حتی يحصل منه أثر في نفس المُتَعَلِّمِ. قال بعضهم : التَّعْلِيمُ : تنبيه النّفس لتصوّر المعاني، والتَّعَلُّمُ : تنبّه النّفس لتصوّر ذلك، وربّما استعمل في معنی الإِعْلَامِ إذا کان فيه تكرير، نحو : أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] - تعلیم - کے معنی با ر بار کثرت کے ساتھ خبر دینے کے ہیں ۔ حتٰی کہ متعلم کے ذہن میں اس کا اثر پیدا ہوجائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ تعلیم کے معنی تصور کیلئے نفس کو متوجہ کرنا کے ہیں اور تعلم کے معنی ایسے تصور کی طرف متوجہ ہونا کے اور کبھی تعلیم کا لفظ اعلام کی جگہ آتا ہے جب کہ اس میں تاکید کے معنی مقصود ہوں جیسے فرمایا ۔ أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] کیا تم خدا کو اپنی دینداری جتلاتے ہو - حدیث - وكلّ کلام يبلغ الإنسان من جهة السمع أو الوحي في يقظته أو منامه يقال له : حدیث، قال عزّ وجلّ : وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلى بَعْضِ أَزْواجِهِ حَدِيثاً [ التحریم 3] ، وقال تعالی: هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ الْغاشِيَةِ [ الغاشية 1] ، وقال عزّ وجلّ : وَعَلَّمْتَنِي مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحادِيثِ- [يوسف 101] ، أي : ما يحدّث به الإنسان في نومه - حدیث - ہر وہ بات جو انسان تک سماع یا وحی کے ذریعہ پہنچے اسے حدیث کہا جاتا ہے عام اس سے کہ وہ وحی خواب میں ہو یا بحالت بیداری قرآن میں ہے ؛وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلى بَعْضِ أَزْواجِهِ حَدِيثاً [ التحریم 3] اور ( یاد کرو ) جب پیغمبر نے اپنی ایک بی بی سے ایک بھید کی بات کہی ۔- أَتاكَ حَدِيثُ الْغاشِيَةِ [ الغاشية 1] بھلا ترکو ڈھانپ لینے والی ( یعنی قیامت کا ) حال معلوم ہوا ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَعَلَّمْتَنِي مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحادِيثِ [يوسف 101] اور خوابوں کی تعبیر کا علم بخشا۔ میں احادیث سے رویا مراد ہیں - غلب - الغَلَبَةُ القهر يقال : غَلَبْتُهُ غَلْباً وغَلَبَةً وغَلَباً «4» ، فأنا غَالِبٌ. قال تعالی: الم غُلِبَتِ الرُّومُ فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ [ الروم 1- 2- 3]- ( غ ل ب ) الغلبتہ - کے معنی قہرا اور بالادستی کے ہیں غلبتہ ( ض ) غلبا وغلبتہ میں اس پر مستول اور غالب ہوگیا اسی سے صیغہ صفت فاعلی غالب ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ الم غُلِبَتِ الرُّومُ فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ [ الروم 1- 2- 3] الم ( اہل ) روم مغلوب ہوگئے نزدیک کے ملک میں اور وہ مغلوب ہونے کے بعد عنقریب غالب ہوجائیں گے - كثر - الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] - ( ک ث ر )- کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔
عزیز مصر کی فراست - قول باری ہے وقال الذی اشتراہ من مصر لا مراتہ اکرمی مثواہ عسی ان ینفعنا او نتخذہ ولدا ۔ مصر میں جس شخص نے اسے خریدا اس نے اپنی بیوی سے کہا اس کو اچھی طرح رکھنا ، بعید نہیں کہ یہ ہمارے لیے مفید ثابت ہو یا ہم اسے بیٹا بنالیں ۔ حضرت عبد اللہ سے مروی ہے کہ فراست کے لحاظ سے تین بہترین انسان گزرے ہیں ۔ اول عزیز مصر جب اس نے اپنی بیوی سے کہا کہ اسے یعنی یوسف کو اچھی طرح رکھنا ، بعید نہیں کہ یہ ہمارے لیے مفید ثابت ہو یا اسے ہم بیٹا بنالیں۔ دوم حضرت شعیب (علیہ السلام) کی بیٹی جب کہ حضرت موسیٰ کے بارے میں انہوں نے اپنے والد محترم کو مشورہ دیا تھا کہ انہیں غلام رکھ لیا جائے۔ سوم حضرت ابوبکر (رض) جبکہ انہوں نے حضرت عمر (رض) کو خلافت کے لیے نامزد کیا تھا۔
(٢١) مصر میں پہنچ کر مالک بن دعر سے یوسف (علیہ السلام) کو عزیز نے جو کہ بادشاہ کا خازن اور اس کے لشکروں کا افسر تھا خرید لیا اور عزیز کا نام قطفیر تھا اور زلیخا سے کہا کہ ان کو قدرت و منزلت کے ساتھ رکھنا، ممکن ہے کہ یہ ہمارے کام آئے یا ہم اس کو اپنا لڑکا بنا لیں، اور عزیز نے مالک بن دعر سے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو بیس درہم اور ایک کپڑوں کے اور ایک جوتوں کے جوڑے کے عوض خریدا تھا، اور اسی طریقہ سے ہم نے یوسف (علیہ السلام) کو سرزمین مصر میں بادشاہت عطا کی۔- اور تاکہ ہم انھیں خوابوں کی تعبیر دینا بتائیں اور اللہ تعالیٰ اپنے ارادہ کیے ہوئے پر خوب غالب و قادر ہے اور کسی کو اس کے ارادہ پر غلبہ وقدرت نہیں لیکن مصر والے اس چیز کو جانتے اور نہ اس کی تصدیق کرتے ہیں یا یہ کہ وہ اس بات کو جانتے نہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے ارادہ پر غالب ہے
آیت ٢١ (وَقَالَ الَّذِي اشْتَرٰىهُ مِنْ مِّصْرَ لامْرَاَتِهٖٓ اَكْرِمِيْ مَثْوٰىهُ عَسٰٓى اَنْ يَّنْفَعَنَآ اَوْ نَتَّخِذَهٗ وَلَدًا)- وہ شخص مصر کی حکومت میں بہت اعلیٰ منصب (عزیز مصر) پر فائز تھا۔ حضرت یوسف کو بیٹا بنانے کی خواہش سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید اس کے ہاں اولاد نہیں تھی۔- (وَكَذٰلِكَ مَكَّنَّا لِيُوْسُفَ فِي الْاَرْضِ )- اس طریقے سے اللہ تعالیٰ نے یوسف کو اس دور کی متمدن ترین مملکت میں پہنچا دیا اور وہاں آپ کی رہائش کا بندوبست بھی کیا تو کسی جھونپڑی میں نہیں بلکہ ملک کے ایک بہت بڑے صاحب حیثیت شخص کے گھر میں اور وہ بھی محض ایک غلام کے طور پر نہیں بلکہ خصوصی عزت و اکرام کے انداز میں۔- (وَلِنُعَلِّمَهٗ مِنْ تَاْوِيْلِ الْاَحَادِيْثِ )- یعنی عزیز مصر کے گھر میں آپ کو جگہ بنا کردینے کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ وہاں آپ کو ” معاملہ فہمی “ کی تربیت فراہم کی جائے۔ عزیز مصر کا گھر ایک طرح کا سیکریٹریٹ ہوگا جہاں آئے دن انتہائی اعلیٰ سطح کے اجلاس ہوتے ہوں گے اور قومی و بین الاقوامی نوعیت کے انتہائی اہم امور پر بحث و تمحیص کے بعد فیصلے کیے جاتے ہوں گے اور حضرت یوسف کو ان تمام سرگرمیوں کا بہت قریب سے مشاہدہ کرنے کے مواقع میسر آتے ہوں گے۔ اس طرح بہت اعلیٰ سطح کی تعلیم و تربیت کا ایک انتظام تھا جو حضرت یوسف کے لیے یہاں پر کردیا گیا۔- (وَاللّٰهُ غَالِبٌ عَلٰٓي اَمْرِهٖ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ )- اللہ تعالیٰ اپنے ارادے کی تنفیذ پر غالب ہے وہ اپنا کام کر کے رہتا ہے۔
سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :16 بائیبل میں اس شخص کا نام فوطیفار لکھا ہے ۔ قرآن مجید آگے چل کر اسے ”عزیز“ کے لقب سے یاد کرتا ہے ، اور پھر ایک دوسرے موقع پر یہی لقب حضرت یوسف علیہ السلام کے لیے بھی استعمال کرتا ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخص مصر میں کوئی بہت بڑا عہدہ دار یا صاحب منصب تھا ، کیونکہ ”عزیز“ کے معنی ایسے بااقتدار شخص کے ہیں جس کی مزاحمت نہ کہ جاسکتی ہو ۔ بائیبل اور تلمود کا بیان ہے کہ وہ شاہی جلوداروں ( باڈی گارڈ ) کا افسر تھا ، اور ابن جریر حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ شاہی خزانے کا افسر تھا ۔ سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :17 تلمود میں اس عورت کا نام زَلِیخا ( ) لکھا ہے اور یہیں سے یہ نام مسلمانوں کی روایات میں مشہور ہوا ۔ مگر یہ جو ہمارے ہاں عام شہرت ہے کہ بعد میں اس عورت سے حضرت یوسف علیہ السلام کا نکاح ہوا ، اس کی کوئی اصل نہیں ہے ، نہ قرآن میں اور نہ اسرائیلی تاریخ میں ۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک نبی کے مرتبے سے یہ بات بہت فروتر ہے کہ وہ کسی ایسی عورت سے نکاح کرے جس کی بدچلنی کا اس کو ذاتی تجربہ ہوچکا ہو ۔ قرآن مجید میں یہ قاعدہ کلیہ ہمیں بتایا گیا ہے کہ اَلخَبِیثٰتُ لِلخَبِیثِینَ وَالخَبِیثُونَ للخَبِیثٰتِ وَالطَّیِّبٰتُ لِلطَّیِّبِینَ وَالطَّیِّبُونَ لِلطَّیِّبٰتِ ۔ بری عورتیں برے مَردوں کے لیے ہیں اور برے مرد بری عورتوں کے لیے ۔ اور پاک عورتیں پاک مردوں کے لیے ہیں اور پاک مرد پاک عورتوں کے لیے ۔ سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :18 تلمود کا بیان ہے کہ اس وقت حضرت یوسف علیہ السلام کی عمر ١۸ سال تھی اور فوطیفار ان کی شاندار شخصیت کو دیکھ کر ہی سمجھ گیا تھا کہ یہ لڑکا غلام نہیں ہے بلکہ کسی بڑے شریف خاندان کا چشم و چراغ ہے جسے حالات کی گردش یہاں کھینچ لائی ہے ۔ چنانچہ جب وہ انہیں خرید رہا تھا اسی وقت اس نے سوداگروں سے کہہ دیا تھا کہ یہ غلام نہیں معلوم ہوتا ، مجھے شبہہ ہوتا ہے کہ شاید تم اسے کہیں سے چرا لائے ہو ۔ اسی بنا پر فوطیفار نے ان سے غلاموں کا سا برتاؤ نہیں کیا بلکہ انہیں اپنے گھر اور اپنی کل املاک کا مختار بنا دیا ۔ بائیبل کا بیان ہے کہ ” اس نے اپنا سب کچھ یوسف علیہ السلام کے ہاتھ میں چھوڑ دیا اور سوا روٹی کے جسے وہ کھا لیتا تھا اسے اپنی کسی چیز کا ہوش نہ تھا “ ۔ ( پیدائش ۳۹ - ٦ ) سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :19 حضرت یوسف علیہ السلام کی تربیت اس وقت تک صحرا میں نیم خانہ بدوشی اور گلہ بانی کے ماحول میں ہوئی تھی ۔ کنعان اور شمالی عرب کے علاقے میں اس وقت نہ کوئی منظم ریاست تھی اور نہ تمدن و تہذیب نے کوئی بڑی ترقی کی تھی ۔ کچھ آزاد قبائل تھے جو وقتا فوقتا ہجرت کرتے رہتے تھے ، اور بعض قبائل نے مختلف علاقوں میں مستقل سکونت اختیار کر کے چھوٹی چھوٹی ریاستیں بھی بنالی تھیں ۔ ان لوگوں کا حال مصر کے پہلو میں قریب قریب وہی تھا جو ہماری شمال مغربی سرحد پر آزاد علاقہ کے پٹھان قبائل کا ہے ۔ یہاں حضرت یوسف علیہ السلام کو جو تعلیم و تربیت ملی تھی اس میں بدویانہ زندگی کے محاسن اور خانوادہ ابراہیمی کی خداپرستی و دینداری کے عناصر تو ضرور شامل تھے ، مگر اللہ تعالیٰ اس وقت کے سب سے زیادہ متمدن اور ترقی یافتہ ملک ، یعنی مصر میں ان سے جو کام لینا چاہتا تھا ، اور اس لے لیے جس واقفیت ، جس تجربے اور جس بصیرت کی ضرورت تھی ، اس کے نشونما کا کوئی موقع بدوی زندگی میں نہ تھا ۔ اس لیے اللہ نے اپنی قدرت کاملہ سے یہ انتظام فرمایا کہ انہیں سلطنت مصر کے ایک بڑے عہدہ دار کے ہاں پہنچا دیا اور اس نے ان کی غیر معمولی صلاحیتوں کو دیکھ کر انہیں اپنے گھر اور اپنی جاگیر کا مختار کل بنا دیا ۔ اس طرح یہ موقع پیدا ہوگا کہ ان کی وہ تمام قابلیتیں پوری طرح نشونما پاسکیں جواب تک بروئے کار نہیں آئی تھیں اور انہیں ایک چھوٹی جاگیر کے انتظام سے وہ تجربہ حاصل ہو جائے جو آئندہ ایک بڑی سلطنت کا نظم و نسق چلانے کے لیے درکار تھا ۔ اسی مضمون کی طرف اس آیت میں اشارہ فرمایا گیا ہے ۔
13: قرآن کریم کا خاص اسلوب یہ ہے کہ وہ کسی واقعے کو بیان کرتے ہوئے غیر ضروری تفصیلات کا ذکر نہیں کرتا بلکہ واقعے کے اہم حصوں کو بیان کرنے پر اکتفا کرتا ہے۔ یہاں بھی ایسا ہی ہوا ہے جن لوگوں نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو فلسطین کے جنگل سے خریدا تھا، چاہے وہ خود قافلے والے ہوں۔ جیسا کہ اوپر کی روایت سے معلوم ہوتا ہے، یا وہ ہوں جنہوں نے قافلے والوں سے خریدا بہر صورت وہ انہیں مصر لے گئے اور وہاں جا کر انہیں بھاری قیمت پر فروخت کیا۔ وہاں جس شخص نے خریدا، وہ مصر کا وزیر خزانہ تھا جسے اس وقت عزیز مصر کہتے تھے اس نے اپنی بیوی کو تاکید کی کہ ان کا خاص خیال رکھیں۔ بیوی کا نام روایات میں زلیخا بتایا گیا۔