Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٤] یعنی سیدنا یوسف کو اللہ تعالیٰ نے ایسا عزم و استقلال بخشا کہ کسی عورت کا ان پر جادو نہ چل سکا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فَاسْتَجَابَ لَهٗ رَبُّهٗ ۔۔ : اس کے پروردگار نے اس کی دعا قبول کرکے ان سب عورتوں کا مکر و فریب اس سے ہٹا دیا، چناچہ اس کے بعد کوئی واقعہ پیش نہیں آیا کہ کسی عورت نے انھیں پھسلانے کی کوشش کی ہو۔ معلوم ہوتا ہے کہ جمال یوسفی پر ہیبت نبوت کی زرہ ڈال دی گئی، جیسا کہ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایسی دعوت دینے کی کسی عورت کو کبھی جرأت ہی نہیں ہوئی، حالانکہ ان کے حسن و جمال کا اندازہ ہی نہیں ہوسکتا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) فَاسْتَجَابَ لَهٗ رَبُّهٗ فَصَرَفَ عَنْهُ كَيْدَهُنَّ ۭ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ یعنی ان کی دعاء ان کے رب نے قبول فرما لی اور ان عورتوں کے مکر و حیلہ کو ان سے دور رکھا بیشک وہ بڑا سننے والا اور بڑا جاننے والا ہے،- اللہ تعالیٰ نے ان عورتوں کے جال سے بچانے کے لئے یہ سامان فرما دیا کہ عزیز مصر اور اس کے دوستوں کو اگرچہ یوسف (علیہ السلام) کی بزرگی اور تقویٰ و طہارت کی کھلی نشانیاں دیکھ کر ان کی پاکی کا یقین ہوچکا تھا مگر شہر میں اس واقعہ کا چرچا ہونے لگا اس کو ختم کرنے کے لئے ان کو مصلحت اس میں نظر آئی کہ کچھ عرصہ کے لئے یوسف (علیہ السلام) کو جیل میں بند کردیا جائے تاکہ اپنے گھر میں ان شبہات کا کوئی موقع بھی باقی نہ رہے اور لوگوں کی زبانوں سے اس کا یہ چرچا بھی ختم ہو جائے

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَاسْتَجَابَ لَہٗ رَبُّہٗ فَصَرَفَ عَنْہُ كَيْدَہُنَّ۝ ٠ۭ اِنَّہٗ ہُوَالسَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ۝ ٣٤- استجاب - والاستجابة قيل : هي الإجابة، وحقیقتها هي التحري للجواب والتهيؤ له، لکن عبّر به عن الإجابة لقلة انفکاکها منها، قال تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ [ الأنفال 24]- ( ج و ب ) الجوب - الاستاأبتہ بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی اجابتہ ( افعال ) کے ہے اصل میں اس کے معنی جواب کے لئے تحری کرنے اور اس کے لئے تیار ہونے کے ہیں لیکن اسے اجابتہ سے تعبیر کرلیتے ہیں کیونکہ یہ دونوں ایک دوسرے سے الگ نہیں ہوتے ۔ قرآن میں ہے : اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ [ الأنفال 24] کہ خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو ۔ - سمع - السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا . ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] ، - ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ - ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٤) چناچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی اور عورتوں کے مکر و فریب سے ان کو دور رکھا، بیشک وہ دعاؤں کا سننے والا اور ان کی قبولیت کو جاننے والا ہے یا کہ ان عورتوں کی باتوں کا سننے والا اور ان کے داؤ پیچ کو جاننے والا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :29 دفع کرنا اس معنی میں ہے کہ یوسف علیہ السلام کی سیرت صالحہ کو ایسی مضبوط بخشش دی گئی جس کے مقابلہ میں ان عورتوں کی ساری تدبیریں ناکام ہو کر رہ گئیں ۔ نیز اس معنی میں بھی ہے کہ مشیت الہی نے جیل کا دروازہ ان کے لیے کھلوا دیا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani