جیل خانہ اور یوسف علیہ السلام حضرت یوسف علیہ السلام کی پاک دامنی کا راز سب پر کھل گیا ۔ لیکن تاہم ان لوگوں نے مصلحت اسی میں دیکھی کہ کچھ مدت تک حضرت یوسف علیہ السلام کو جیل خانہ مییں رکھیں ۔ بہت ممکن ہے کہ اس میں ان سب نے یہ مصلحت سوچی ہو کہ لوگوں میں یہ بات پھیل گئی ہے کہ عزیز کی بیوی اس کی چاہت میں مبتلا ہے ۔ جب ہم یوسف کو قید کر دیں گے وہ لوگ سمجھ لیں گے کہ قصور اسی کا تھا اسی نے کوئی ایسی نگاہ کی ہوگی ۔ یہی وجہ تھی کہ جب شاہ مصر نے آپ کو قید خانے سے آزاد کرنے کے لیے اپنے پاس بلوایا تو آپ نے وہیں سے فرمایا کہ میں نہ نکلوں گا جب تک میری برات اور میری پاکدامنی صاف طور پر ظاہر نہ ہو جائے اور آپ حضرات اس کی پوری تحقیق نہ کرلیں جب تک بادشاہ نے ہر طرح کے گواہ سے بلکہ خود عزیز کی بیوی سے پوری تحقیق نہ کر لی اور آپ کا بےقصور ہونا ، ساری دنیا پر کھل نہ گیا آپ جیل خانے سے باہر نہ نکلے ۔ پھر آپ باہر آئے جب کہ ایک دل بھی ایسا نہ تھا جس میں صدیق اکبر ، نبی اللہ پاکدامن اور معصوم رسول اللہ حضرت یوسف علیہ الصلواۃ والسلام کی طرف سے ذرا بھی بد گمانی ہو ۔ قید کرنے کی بڑی وجہ یہی تھی کہ عزیز کی بیوی کی رسوائی نہ ہو ۔
35۔ 1 عفت و پاک دامنی واضح ہوجانے کے باوجود یوسف (علیہ السلام) کو حوالہ زنداں کرنے میں یہی مصلحت ان کے پیش نظر ہوسکتی تھی کہ عزیز مصر حضرت یوسف (علیہ السلام) کو اپنی بیوی سے دور رکھنا چاہتا ہوگا تاکہ وہ دوبارہ یوسف (علیہ السلام) کو اپنے دام میں پھنسانے کی کوشش نہ کرے جیسا کہ وہ ایسا ارادہ رکھتی تھی۔
[٣٥] مصر کی عدالتوں پر بڑے لوگوں کا دباؤ :۔ یعنی پورے شہر کے رؤساء اور اعیان سلطنت پر یہ بات واضح ہوچکی تھی کہ سیدنا یوسف بالکل بےقصور ہیں اور مجرم زلیخا ہے۔ اس کے باوجود اس ملک کی عدالت نے یہ فیصلہ دیا کہ یوسف ہی کو کسی نامعلوم مدت کے لیے قید میں ڈال دیا جائے۔ کیونکہ اب اصل مجرم صرف زلیخا نہ رہی تھی بلکہ اعیان سلطنت کی بیگمات بھی اس جرم میں اس کی ہم نوا اور برابر کی شریک بن چکی تھیں۔ اس واقعہ سے جہاں مردوں کی اپنی بیگمات کے سامنے بےبسی پر روشنی پڑتی ہے وہاں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہاں کی انصاف کرنے والی عدالتیں بھی جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے اصول پر اپنے فیصلے کیا کرتی تھیں اور نامعلوم مدت اس لیے تھی کہ نہ تو کوئی فرد جرم لگ سکتی تھی اور نہ ہی یہ فیصلہ کیا جاسکتا تھا کہ اس بےگناہی کی سزا کتنی مدت ہوسکتی ہے، اور غالباً اس میں یہ مصلحت سمجھی گئی کہ جب تک لوگ اور بالخصوص عورتیں یہ واقعہ بھول نہ جائیں یوسف کو قید میں رہنے دیا جائے۔
ثُمَّ بَدَا لَهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ ۔۔ : جب شہر میں ان واقعات کا چرچا ہوا اور عزیز مصر کی بیوی کی محبت میں دیوانگی اور یوسف (علیہ السلام) کی پاک دامنی پر استقامت کی شہرت پھیلی تو اہل حل و عقد اس نتیجے پر پہنچے کہ یوسف (علیہ السلام) کو ہر صورت کچھ وقت کے لیے قید کردیں، تاکہ ایک گھر میں رہنے کی وجہ سے میل ملاقات ختم ہوجائے اور آہستہ آہستہ اس واقعہ کی شہرت بھی ختم ہوجائے۔ اس فیصلے سے عزیز مصر پر اس کی بیوی اور دوسری عورتوں کا تسلط اور اس کی بےغیرتی اور دیوثی بھی صاف ظاہر ہوتی ہے کہ اس نے یوسف (علیہ السلام) کو تو قید میں ڈال دیا مگر عورتوں سے پوچھا تک نہیں کہ تمہارے منہ میں کتنے دانت ہیں۔ اس سے اس وقت کے معاشرے کی اخلاقی حالت معلوم ہوتی ہے۔ موجودہ زمانے میں پہلے مغرب کے کفار کا یہ حال تھا اب مسلم ممالک کی اشرافیہ کا یہی رنگ ہے۔ (الا ما شاء اللہ) اور تمام کفار اور ان کے ایجنٹ سب مسلمانوں کو ایسا ہی بےغیرت بنانا چاہتے ہیں۔ - اب اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ انھوں نے قید میں ڈالنے کے لیے ان کے کچھ جرائم تجویز کیے، جس طرح حکومتیں فرضی دفعات جرم لگا دیتی ہیں اور انھوں نے عزیز مصر کی بیوی کے الزام (عزیز کے اہل کے ساتھ برائی کے ارادہ) کی حقیقت جاننے کے باوجود اسی کو یوسف (علیہ السلام) کا جرم قرار دے دیا، یا ویسے ہی خاموشی سے انھیں قید میں ڈال دیا، جس کا لازمی نتیجہ اصل حقیقت نہ جاننے والوں کے لیے یہی تاثر تھا کہ آخر اس معاملے میں یوسف (علیہ السلام) کا کوئی قصور تو ہوگا جس کی وجہ سے انھیں جیل میں ڈالا گیا۔ یوسف (علیہ السلام) کو اپنے متعلق اس تاثر سے شدید قلق تھا، اس لیے آگے آپ دیکھیں گے کہ بادشاہ کے اپنے پاس بلانے کے پیغام کے باوجود یوسف (علیہ السلام) اس وقت تک قید خانے سے نہیں نکلے جب تک تمام متعلقہ عورتوں کو بادشاہ کے پاس حاضر کروا کے ان کی زبانی اپنی بےگناہی کی تصدیق نہیں کروائی۔ ایک مفسر نے لکھا ہے کہ اب اگر حکومت کسی داعی یا خطیب کو حق بیان کرنے کے جرم میں قید کر دے اور پھر اللہ کی مدد سے کوئی حاکم اسے جیل سے نکالنے کا حکم دے تو اسے جیل میں اڑ کر نہیں بیٹھنا چاہیے، کیونکہ اس پر کوئی ایسا الزام نہیں جو اس کی بدنامی کا باعث ہو۔ رہی حق کی دعوت و تبلیغ تو وہ کوئی جرم نہیں بلکہ اس کا فرض ہے جو اس نے بعد میں بھی ادا کرتے رہنا ہے۔ اس سب کچھ کے باوجود بھی معلوم ہوتا ہے کہ یوسف (علیہ السلام) کے احسان، تقویٰ ، صبر، وفا، خدمت، پاک بازی، عبادت الٰہی اور دوسری بیشمار خوبیوں کی وجہ سے عزیز مصر کے دل میں ان کی محبت یقیناً موجود تھی جس کی وجہ سے اس نے قید پر اکتفا کیا، ورنہ وہ کسی حیلے سے انھیں غائب بھی کروا سکتا تھا، جیسا بھائیوں نے کیا تھا اور قتل بھی کروا سکتا تھا، جیسا کہ یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں کا پہلا منصوبہ تھا، مگر ایک تو یوسف (علیہ السلام) کا تقویٰ اور صبر تھا اور دوسرا اللہ تعالیٰ کا فیصلہ تھا جو سب پر غالب ہے۔ جس کی وجہ سے قید ہی کا فیصلہ ہوا جس میں اللہ تعالیٰ کی بہت سی حکمتیں تھیں۔
ثُمَّ بَدَا لَهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَا رَاَوُا الْاٰيٰتِ لَيَسْجُنُنَّهٗ حَتّٰي حِيْنٍ یعنی پھر عزیز اور اس کے مشیروں نے مصلحت اس میں سمجھی کہ کچھ عرصہ کے لئے یوسف (علیہ السلام) کو قید میں رکھا جائے چناچہ جیل خانہ میں بھیج دئیے گئے
ثُمَّ بَدَا لَہُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَا رَاَوُا الْاٰيٰتِ لَيَسْجُنُنَّہٗ حَتّٰي حِيْنٍ ٣٥ ۧ- بدا - بَدَا الشیء بُدُوّاً وبَدَاءً أي : ظهر ظهورا بيّنا، قال اللہ تعالی: وَبَدا لَهُمْ مِنَ اللَّهِ ما لَمْ يَكُونُوا يَحْتَسِبُونَ [ الزمر 47] - ( ب د و ) بدا - ( ن ) الشئ یدوا وبداء کے معنی نمایاں طور پر ظاہر ہوجانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ وَبَدا لَهُمْ مِنَ اللَّهِ ما لَمْ يَكُونُوا يَحْتَسِبُونَ [ الزمر 47] اور ان کیطرف سے وہ امر ظاہر ہوجائے گا جس کا ان کو خیال بھی نہ تھا ۔ - سجن - السَّجْنُ : الحبس في السِّجْنِ ، وقرئ رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ إِلَيَّ [يوسف 33]- ( س ج ن ) السجن - ( مصدرن ) قید خانہ میں بند کردینا ۔ اور آیت ۔ رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ إِلَيَّ [يوسف 33] اے میرے پروردگار قید خانہ میں رہنا مجھے زیادہ پسند ہے ۔- حين - الحین : وقت بلوغ الشیء وحصوله، وهو مبهم المعنی ويتخصّص بالمضاف إليه، نحو قوله تعالی: وَلاتَ حِينَ مَناصٍ [ ص 3] - ( ح ی ن ) الحین - ۔ اس وقت کو کہتے ہیں جس میں کوئی چیز پہنچے اور حاصل ہو ۔ یہ ظرف مبہم ہے اور اس کی تعین ہمیشہ مضاف الیہ سے ہوتی ہے جیسے فرمایا : ۔ وَلاتَ حِينَ مَناصٍ [ ص 3] اور وہ رہائی کا وقت نہ تھا ۔
(٣٥) پھر عزیز کو حضرت یوسف (علیہ السلام) کی قیمص کے پھٹنے اور لڑکے کے فیصلے سے یہی مناسب معلوم ہوا کہ چندسالوں تک ان کو قید میں رکھیں یا یہ کہ اتنے وقت تک قید میں رکھیں جب تک کہ لوگوں کی باتیں ختم نہ ہوجائیں۔
آیت ٣٥ (ثُمَّ بَدَا لَهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَا رَاَوُا الْاٰيٰتِ لَيَسْجُنُنَّهٗ حَتّٰي حِيْنٍ )- اس تقریب میں جو کچھ ہوا اس معاملے کو پوشیدہ رکھنا ممکن نہیں تھا چناچہ ارباب اختیار نے جب یہ سارے حالات دیکھے تو انہیں عافیت اور مصلحت اسی میں نظر آئی کہ حضرت یوسف کو وقتی طور پر منظر سے ہٹا دیا جائے اور اس کے لیے مناسب یہی ہے کہ کچھ عرصے کے لیے انہیں جیل میں ڈال دیا جائے۔
سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :30 اس طرح حضرت یوسف علیہ السلام کا قید میں ڈالا جانا درحقیقت ان کی اخلاقی فتح اور مصر کے پورے طبقہ امراء وحکام کی اخلاقی شکست کا اتمام و اعلان تھا ۔ اب حضرت یوسف علیہ السلام کوئی غیر معروف اور گمنام آدمی نہ رہے تھے ۔ سارے ملک میں ، اور کم از کم دارالسلطنت میں تو عام و خاص سب ان سے واقف ہو چکے تھے ۔ جس شخص کی دلفریب شخصیت پر ایک دو نہیں ، اکثر و بیشتر بڑے گھرانوں کی خواتین فریفتہ ہوں ، اور جس کے فتنہ روزگار حسن سے اپنے گھر بگڑتے دیکھ کر مصر کے حکام نے اپنی خیریت اسی میں دیکھی ہو کہ اسے قید کر دیں ، ظاہر ہے کہ ایسا شخص چھپا نہیں رہ سکتا تھا ۔ یقینا گھر گھر اس کا چرچا پھیل گیا ہوگا ۔ عام طور پر لوگ اس بات سے بھی واقف ہو گئے ہوں گے کہ یہ شخص کیسے بلند اور مضبوط اور پاکیزہ اخلاق کا انسان ہے ، اور یہ بھی جان گئے ہوں گے کہ اس شخص کو جیل اپنے کسی جرم پر نہیں بھیجا گیا ہے بلکہ اس لیے بھیجا گیا ہے کہ مصر کے امراء اپنی عورتوں کو قابو میں رکھنے کے بجائے اس بے گناہ کو جیل بھیج دینا زیادہ آسان پاتے تھے ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی شخص کو شرائط انصاف کے مطابق عدالت میں مجرم ثابت کیے بغیر ، بس یونہی پکڑ کر جیل بھیج دینا ، بے ایمان حکمرانوں کی پرانی سنت ہے ۔ اس معاملہ میں بھی آج کے شیاطین چار ہزار برس پہلے کے اشرار سے کچھ بہت زیادہ مختلف نہیں ہیں ۔ فرق اگر ہے تو بس یہ کہ وہ” جمہوریت“ کا نام نہیں لیتے تھے ، اور یہ اپنے ان کرتوتوں کے ساتھ یہ نام بھی لیتے ہیں ۔ وہ قانون کے بغیر اپنی غیر قانونی حرکتیں کیا کرتے تھے ، اور یہ ہر ناروا زیادتی کے لیے پہلے ایک” قانون “ بنا لیتے ہیں ۔ وہ صاف صاف اپنی اغراض کے لیے لوگوں پر دست درازی کرتے تھے اور یہ جس پر ہاتھ ڈالتے ہیں اس کے متعلق دنیا کو یقین دلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس نے ان کو نہیں بلکہ ملک اور قوم کو خطرہ تھا ۔ غرض وہ صرف ظالم تھے ۔ یہ اس کے ساتھ جھوٹے اور بے حیا بھی ہیں ۔
23: یعنی اگرچہ حضرت یوسف علیہ السلام کی بے گناہی اور پارسائی کے بہت سے دلائل ان لوگوں کے سامنے آچکے تھے، لیکن عزیزِ مصر نے اپنی بیوی کو بدنامی سے بچانے اور اس واقعے کا چرچا ختم کرنے کے لئے مناسب یہ سمجھا کہ کچھ عرصے تک انہیں قید خانے ہی میں بند رکھا جائے۔