جیل خانہ میں بادشاہ کے باورچی اور ساقی سے ملاقات اتفاق سے جس روز حضرت یوسف علیہ السلام کو جیل خانہ جانا پڑا اسی دن باشاہ کا ساقی اور نان بائی بھی کسی جرم میں جیل خانے بھیج دیئے گئے ۔ ساقی کا نام بندار تھا اور باورچی کا نام بحلث تھا ۔ ان پر الزام یہ تھا کہ انہوں نے کھانے پینے میں بادشاہ کو زہر دینے کی سازش کی تھی ۔ قید خانے میں بھی نبی اللہ حضرت یوسف علیہ السلام کی نیکیوں کی کافی شہرت تھی ۔ سچائی ، امانت داری ، سخاوت ، خوش خلقی ، کثرت عبادت ، اللہ ترسی ، علم و عمل ، تعبیر خواب ، احسان و سلوک وغیرہ میں آپ مشہور ہوگئے تھے ۔ جیل خانے کے قیدیوں کی بھلائی ان کی خیر خواہی ان سے مروت و سلوک ان کے ساتھ بھلائی اور احسان ان کی دلجوئی اور دلداری ان کے بیماروں کی تیمارداری خدمت اور دوا دارو بھی آپ کا تشخص تھا ۔ یہ دونوں ہی ملازم حضرت یوسف علیہ السلام سے بہت ہی محبت کرنے لگے ۔ ایک دن کہنے لگے کہ حضرت ہمیں آپ سے بہت ہی محبت ہو گئی ہے ۔ آپ نے فرمایا اللہ تمہیں برکت دے ۔ بات یہ ہے کہ مجھے تو جس نے چاہا کوئی نہ کوئی آفت ہی مجھ پر لایا ۔ پھوپھی کی محبت ، باپ کا پیار ، عزیز کی بیوی کی چاہت ، سب مجھے یاد ہے ۔ اور اس کا نتیجہ میری ہی نہیں بلکہ تمہاری آنکھوں کے سامنے ہے ۔ اب دونوں نے ایک مرتبہ خواب دیکھا ساقی نے دیکھا کہ وہ انگور کا شیرہ نچوڑ رہا ہے ۔ ابن مسعود کی قرأت میں خمرا کے بدلے لفظ عنبا ہے ، اہل عمان انگور کو خمر کہتے ہیں ۔ اس نے دیکھا تھا کہ گویا اس نے انگور کی بیل بوئی ہے اس میں خوشے لگے ہیں ، اس نے توڑے ہیں ۔ پھر ان کا شیرہ نچوڑ رہا ہے کہ بادشاہ کو پلائے ۔ یہ خواب بیان کر کے آرزو کی کہ آپ ہمیں اس کی تعبیر بتلائیے ۔ اللہ کے پیغمبر نے فرمایا اس کی تعبیر یہ ہے کہ تمہیں تین دن کے بعد جیل خانے سے آزاد کر دیا جائے گا اور تم اپنے کام پر یعنی بادشاہ کی ساقی گری میں لگ جاؤ گے ۔ دوسرے نے کہا جناب میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں سر پر روٹی اٹھائے ہوئے ہوں اور پرندے آ آکر اس میں سے کھا رہے ہیں ۔ اکثر مفسرین کے نزدیک مشہور بات تو یہی ہے کہ واقعہ ان دونوں نے یہی خواب دیکھے تھے اور ان کی صحیح تعبیر حضرت یوسف علیہ السلام سے دریافت کی تھی ۔ لیکن حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ درحقیقت انہوں نے کوئی خواب تو نہیں دیکھا تھا ۔ لیکن حضرت یوسف علیہ السلام کی آزمائش کے لیے جھوٹے خواب بیان کر کے تعبیر طلب کی تھی ۔
36۔ 1 یہ دونوں نوجوان شاہی دربار سے تعلق رکھتے تھے۔ ایک شراب پلانے پر معمور تھا اور دوسرا نان بھائی تھا، کسی حرکت پر دونوں کو قید میں ڈال دیا تھا۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) اللہ کے پیغمبر تھے، دعوت و تبلیغ کے ساتھ ساتھ عبادت و ریاضت تقویٰ و راست بازی اور اخلاق و کردار کے لحاظ سے جیل میں دیگر تمام قیدیوں سے ممتاز تھے علاوہ ازیں خوابوں کی تعبیر کا خصوصی علم اور ملکہ اللہ نے ان کو عطا فرمایا تھا۔ ان دونوں نے خواب دیکھا تو قدرتی طور پر حضرت یوسف (علیہ السلام) کی طرف انہوں نے رجوع کیا اور کہا ہمیں آپ محسنین میں سے نظر آتے ہیں، ہمیں ہمارے خوابوں کی تعبیر بتائیں۔ محسن کے ایک معنی بعض نے یہ بھی کئے ہیں کہ خواب کی تعبیر آپ اچھی کرلیتے ہیں۔
[٣٦] دو قیدیوں کا اپنے اپنے خوابوں کی تعبیر پوچھنا :۔ اسی زمانہ میں دو اور قیدی قید خانہ میں ڈالے گئے، ان میں ایک شاہ مصر کا نانبائی تھا اور دوسرا اس کا ساقی یعنی شراب پلانے والا تھا۔ ان دونوں پر الزام یہ تھا کہ انہوں نے بادشاہ کو زہر دینے کی کوشش کی ہے اور بقول بعض مفسرین الزام یہ تھا کہ انہوں نے ایک دعوت کے موقعہ پر صفائی کا پورا خیال نہیں رکھا تھا۔ کچھ دنوں کے بعد ان دونوں نے ایک ہی رات الگ الگ خواب دیکھا اور چونکہ سیدنا یوسف پورے قیدخانہ میں اپنی پاک سیرت، بلندی اخلاق اور اعلیٰ کردار کی وجہ سے مشہور ہوچکے تھے۔ لہذا ان قیدیوں نے اپنے اپنے خواب کی تعبیر معلوم کرنے کے لیے انہی کی طرف رجوع کیا۔ ساقی نے اپنا خواب یہ بیان کیا کہ میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں انگوروں سے شراب نچوڑ رہا ہوں اور یہ خواب اس کے پیشہ سے تعلق رکھتا تھا اور نانبائی نے کہا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے سر پر بہت سی روٹیاں رکھی ہوئی ہیں اور پرندے ان روٹیوں کو نوچ نوچ کر رکھا رہے ہیں اور یہ خواب اس کے پیشہ سے تعلق رکھتا تھا۔ اپنے اپنے خواب بیان کرکے ان سے التجا کی کہ اس کی تعبیر بتائی جائے۔
وَدَخَلَ مَعَهُ السِّجْنَ فَتَيٰنِ ۔۔ : ” فَتَيٰنِ “ ” فَتًی “ کی تثنیہ ہے، دو نوجوان، یہ لفظ عام طور پر غلام یا خادم پر بھی بول لیا جاتا ہے۔ یہ دونوں بادشاہ کے خاص خادم تھے، بہت جلد دونوں یوسف (علیہ السلام) کے حسن اخلاق سے متاثر اور ان سے مانوس ہوگئے۔ یوسف (علیہ السلام) کے ہر ایک کی بےلوث خدمت کرنے نے ان پر یہ حقیقت واضح کردی کہ یہ بندہ ہر ایک کی خیر خواہی اور خدمت کسی بھی معاوضے کی امید یا کسی طمع کے بغیر کرتا ہے، اسی کا نام احسان ہے اور ایسا کرنے والا محسن ہوتا ہے، جیسا کہ بنی اسرائیل نے قارون سے کہا تھا : (وَاَحْسِنْ كَمَآ اَحْسَنَ اللّٰهُ اِلَيْكَ ) [ القصص : ٧٧ ] ” اور احسان کر جیسے اللہ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے۔ “ اور حقیقت یہ ہے کہ اپنی نیکی اور ہمدردی کی وجہ سے ایسا شخص خودبخود ہی ہر ایک کی نگاہ میں آجاتا ہے کہ یہ نیک اور اچھا آدمی ہے۔ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابوبکر صدیق (رض) میں یہ صفت بطور خاص پائی جاتی تھی، جیسا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفات مثلاً دوسروں کا بوجھ اٹھانا، مہمان نوازی کرنا، مصیبت میں لوگوں کی مدد کرنا، لوگوں کے لیے ذریعۂ معاش تلاش اور مہیا کرنا، سچ کہنا وغیرہ کی تصدیق ہماری ماں خدیجہ (رض) نے کی اور ابوبکر (رض) کی صفات کی تصدیق ابن دغنہ نے کی۔ [ بخاری، الوحي، کیف بدء الوحي : ٣، و مناقب الأنصار، باب ہجرۃ النبي (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔۔ : ٣٩٠٥ ] یہ لوگ صرف نماز روزے ہی کے نیک نہ تھے، بلکہ اس کے ساتھ لوگوں کے خیر خواہ بھی تھے، یہی بندوں کے ساتھ احسان ہے۔ اب ان دونوں نے خواب دیکھا تو پوری جیل میں ان کی نگاہ صرف یوسف (علیہ السلام) پر پڑی اور انھوں نے تعبیر کے لیے انھی کو منتخب کرنے کی وجہ بھی صاف لفظوں میں بیان کردی : (نَبِّئْنَا بِتَاْوِيْـلِهٖ ۚ اِنَّا نَرٰىكَ مِنَ الْمُحْسِنِيْنَ ) یعنی آپ ہمیں اس کی تعبیر بتائیں، کیونکہ بیشک ہم آپ کو احسان کرنے والوں سے دیکھتے ہیں۔ یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ آپ خواب کی تعبیر بہت اچھی کرتے ہیں، شاید اس سے پہلے بھی یوسف (علیہ السلام) نے کچھ تعبیریں کی ہوں جو درست نکلی ہوں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انھیں یہ علم خاص طور پر دیا تھا۔ احسان کے یہ دونوں معنی بندوں پر احسان کے ہیں، ایک احسان اللہ تعالیٰ کی عبادت میں بھی ہوتا ہے جس کا ذکر حدیث جبریل (علیہ السلام) میں ہے، فرمایا : ( أَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَأَنَّکَ تَرَاہٗ فَإِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہٗ فَإِنَّہٗ یَرَاکَ ) [ بخاری، الإیمان، باب سؤال جبریل النبي (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : ٥٠] ” تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو، سو اگر تم اسے نہیں دیکھتے تو وہ تمہیں دیکھتا ہے۔ “ ہوسکتا ہے ان قیدیوں نے یوسف (علیہ السلام) کی نماز، عبادت اور ذکر الٰہی میں اللہ سے تعلق کو دیکھ کر ان کے محسن اور نیک ہونے کا یقین کرلیا ہو کہ ان کی عبادت سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ شخص واقعی اس طرح توجہ اور محویت سے عبادت کر رہا ہے، گویا اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے۔
خلاصہ تفسیر :- اور یوسف (علیہ السلام) کے ساتھ (یعنی اسی زمانے میں) اور بھی دو غلام (بادشاہ کے) جیل خانے میں داخل ہوئے (جن میں ایک ساقی تھا دوسرا روٹی پکانے والا باورچی اور ان کی قید کا سبب یہ تھا کہ انہوں نے کھانے میں اور شراب میں زہر ملاکر بادشاہ کو دیا ہے ان کا مقدمہ زیر تحقیق تھا اس لئے قید کر دئیے گئے انہوں نے جو حضرت یوسف (علیہ السلام) میں بزرگی کے آثار پائے تو) ان میں سے ایک نے (حضرت یوسف (علیہ السلام) سے) کہا کہ میں اپنے آپ کو خواب میں دیکھتا ہوں کہ (جیسے) شراب (بنانے کے لئے انگور کا شیرہ) نچوڑ رہا ہوں (اور بادشاہ کو وہ شراب پلا رہا ہوں) اور دوسرے نے کہا کہ میں اپنے کو اس طرح دیکھتا ہوں کہ (جیسے) اپنے سر پر روٹیاں لئے جاتا ہوں (اور) اس میں سے پرندے (نوچ نوچ کر) کھاتے ہیں ہم کو اس خواب کی (جو ہم دونوں نے دیکھا ہے) تعبیر بتلائیے آپ ہم کو نیک آدمی معلوم ہوتے ہیں یوسف (علیہ السلام) نے (جب یہ دیکھا کہ یہ لوگ اعتقاد کے ساتھ میری طرف مائل ہوئے ہیں تو چاہا کہ ان کو سب سے پہلے ایمان کی دعوت دی جائے اس لئے اول اپنا نبی ہونا ایک معجزہ سے ثابت کرنے کے لئے) فرمایا کہ (دیکھو) جو کھانا تمہارے پاس آتا ہے جو کہ تم کو کھانے کے لئے (جیل خانے میں) ملتا ہے میں اس کے آنے سے پہلے اس کی حقیقت تم بتلا دیا کرتا ہوں (کہ فلاں چیز آوے گی اور ایسی ایسی ہوگی اور) یہ بتلا دینا اس علم کی بدولت ہے جو مجھ کو میرے رب نے تعلیم فرمایا ہے (یعنی مجھ کو وحی سے معلوم ہوجاتا ہے تو یہ ایک معجزہ ہے جو دلیل نبوت ہے اور اس وقت یہ معجزہ خاص طور پر اس لئے مناسب تھا کہ جس واقعہ میں قیدیوں نے تعبیر کے لئے ان کی طرف رجوع کیا وہ واقعہ بھی کھانے ہی سے متعلق تھا اثبات نبوت کے بعد آگے اثبات توحید کا مضمون بیان فرمایا کہ) میں نے تو ان لوگوں کا مذہب (پہلے ہی سے) چھوڑ رکھا ہے جو اللہ پر ایمان نہیں لائے اور وہ لوگ آخرت کے بھی منکر ہیں اور میں نے اپنے ان (بزرگوار) باپ دادوں کا مذہب اختیار کر رکھا ہے ابراہیم کا اور اسحاق کا اور یعقوب کا (علیہم السلام اور اس مذہب کارکن اعظم یہ ہے کہ) ہم کو کسی طرح زیبا نہیں ہے کہ اللہ کے ساتھ کسی شے کو شریک (عبادت) قرار دیں یہ (عقیدہ توحید) ہم پر اور (دوسرے) لوگوں پر (بھی) خدا تعالیٰ کا ایک فضل ہے (کہ اس کی بدولت دنیا وآخرت کی فلاح ہے) لیکن اکثر لوگ (اس نعمت کا) شکر (ادا) نہیں کرتے (یعنی توحید کو اختیار نہیں کرتے) اے قیدخانہ کے رفیقو (ذرا سوچ کر بتلاؤ کہ عبادت کے واسطے) متفرق معبود اچھے ہیں یا ایک معبود برحق جو سب سے زبردست ہے وہ اچھا تم لوگ تو خدا کو چھوڑ کر صرف چند بےحقیقت ناموں کی عبادت کرتے ہو جن کو تم نے اور تمہارے باپ دادوں نے (آپ ہی) ٹھرا لیا ہے خدا تعالیٰ نے تو ان (کے معبود ہونے) کی کوئی دلیل (عقلی یا نقلی) بھیجی نہیں (اور) حکم خدا ہی کا ہے اس نے یہ حکم دیا ہے کہ بجز اس کے اور کسی کی عبادت مت کرو یہی (توحید اور عبادت صرف حق تعالیٰ کے لئے مخصوص کرنا) سیدھا طریقہ ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے (ایمان کی دعوت و تبلیغ کے بعد اب ان کے خواب کی تعبیر بتاتے ہیں کہ) اے قیدخانہ کے رفیقو تم میں ایک تو (جرم سے بری ہو کر) اپنے آقا کو (بدستور) شراب پلایا کرے گا اور دوسرا (مجرم قرار پاکر) سولی دیا جاوے گا اور اس کے سر کو پرندے (نوچ نوچ کر) کھاویں گے اور جس بارے میں تم پوچھتے تھے وہ اسی طرح مقدر ہوچکا (چنانچہ مقدمہ کی تنقیح کے بعد اسی طرح ہوا کہ ایک بری ثابت ہوا اور دوسرا مجرم، دونوں جیل خانہ سے بلائے گئے ایک رہائی کیلئے دوسرا سزا کے لئے) اور (جب وہ لوگ جیل خانہ سے جانے لگے تو) جس شخص پر رہائی کا گمان تھا اس سے یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اپنے آقا کے سامنے میرا بھی تذکرہ کرنا (کہ ایک شخص بےقصور قید میں ہے اس نے وعدہ کرلیا) پھر اس کو اپنے آقا سے (یوسف (علیہ السلام) کا تذکرہ کرنا شیطان نے بھلا دیا تو (اس وجہ سے) قیدخامہ میں اور بھی چند سال ان کا رہنا ہوا،- معارف و مسائل :- مذکورہ آیات میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کے قصہ کا ایک ذیلی واقعہ مذکور ہے یہ بات آپ بار بار معلوم کرچکے ہیں کہ قرآن حکیم نہ کوئی تاریخی کتاب ہے نہ قصہ کہانی کہ اس میں جو تاریخی واقعہ یا قصہ ذکر کیا جاتا ہے اس سے مقصود صرف انسان کو عبرت وموعظت اور زندگی کے مختلف پہلوؤں کے متعلق اہم ہدایات ہوتی ہیں پورے قرآن اور بیشمار انبیاء (علیہم السلام) کے واقعات میں صرف ایک ہی قصہ یوسف (علیہ السلام) ایسا ہے جس کو قرآن نے مسلسل بیان کیا ہے ورنہ ہر مقام کے مناسب تاریخی واقعہ کا کوئی ضروری جزء ذکر کرنے پر اکتفاء کیا گیا ہے،- قصہ یوسف (علیہ السلام) کو اول سے آخر تک دیکھئے تو اس میں سینکڑوں عبرت وموعظت کے مواقع اور انسانی زندگی کے مختلف ادوار کے لئے اہم ہدایتیں ہیں یہ ذیلی قصہ بھی بہت سی ہدایات اپنے دامن میں لئے ہوئے ہے،- واقعہ یہ ہوا کہ یوسف (علیہ السلام) کی براءت اور پاکی بالکل واضح ہوجانے کے باوجود عزیز مصر اور اس کی بیوی نے بدنامی کا چرچا ختم کرنے کے لئے کچھ عرصہ کے لئے یوسف (علیہ السلام) کو جیل میں بھیج دینے کا فیصلہ کرلیا جو درحقیقت یوسف (علیہ السلام) کی دعاء اور خواہش کی تکمیل تھی کیونکہ عزیز مصر کے گھر میں رہ کر عصمت بچانا ایک سخت مشکل معاملہ ہوگیا تھا،- یوسف (علیہ السلام) جیل میں پہنچے تو ساتھ دو مجرم قیدی اور بھی داخل ہوئے ان میں سے ایک بادشاہ کا ساقی اور دوسرا باورچی تھا ابن کثیر نے بحوالہ ائمہ تفسیر لکھا ہے کہ یہ دونوں اس الزام میں گرفتار ہوئے تھے کہ انہوں نے بادشاہ کو کھانے وغیرہ میں زہر دینے کی کوشش کی تھی مقدمہ زیر تحقیق تھا اس لئے ان دونوں کو جیل میں رکھا گیا،- یوسف (علیہ السلام) جیل میں داخل ہوئے تو اپنے پیغمبرانہ اخلاق اور رحمت و شفقت کے سبب سب قیدیوں کی دلداری اور خبرگیری کرتے تھے جو بیمار ہوگیا اس کی عیادت اور خدمت کرے جس کو غمگین و پریشان پایا اس کو تسلی دیتے صبر کی تلقین اور رہائی کی امید سے اس کا دل بڑھاتے تھے خود تکلیف اٹھا کر دوسروں کو آرام دینے کی فکر کرتے اور رات بھر اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول رہتے تھے ان کے یہ حالات دیکھ کر جیل کے سب قیدی آپ کی بزرگی کے متعقد ہوگئے جیل کا افسر بھی متأثرہوا اس نے کہا کہ اگر میرے اختیار میں ہوتا تو میں آپ کو چھوڑ دیتا اب اتنا ہی کرسکتا ہوں کہ آپ کو یہاں کوئی تکلیف نہ پہونچے،- فائدہ عجیبہ : جیل کے افسر نے یا قیدیوں میں سے بعض نے حضرت یوسف (علیہ السلام) سے اپنی عقیدت و محبت کا اظہار کیا کہ ہمیں آپ سے بہت محبت ہے تو یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا کہ خدا کے لئے مجھ سے محبت نہ کرو کیونکہ جب کسی نے مجھ سے محبت کی ہے تو مجھ پر آفت آئی ہے بچپن میں میری پھوپی کو مجھ سے محبت تھی اس کے نتیجہ میں مجھ پر چوری کا الزام لگا پھر میرے والد نے مجھ سے محبت کی تو بھائیوں کے ہاتھوں کنویں کی قید پھر غلامی اور جلاوطنی میں مبتلا ہوا عزیز کی بیوی نے مجھ سے محبت کی تو اس جیل میں پہنچا (ابن کثیر، مظہری)- یہ دو قیدی جو یوسف (علیہ السلام) کے ساتھ جیل میں گئے تھے ایک روز انہوں نے کہا کہ آپ ہمیں نیک صالح بزرگ معلوم ہوتے ہیں اس لئے آپ سے ہم اپنی خواب کی تعبیر دریافت کرنا چاہتے ہیں حضرت ابن عباس (رض) اور بعض دوسرے ائمہ تفسیر نے فرمایا کہ یہ خواب انہوں نے حقیقتہ دیکھے ہیں حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے فرمایا کہ خواب کچھ نہ تھا محض یوسف (علیہ السلام) کی بزرگی اور سچائی کی آزمائش کے لئے خواب بنایا تھا ،- بہرحال ان میں سے ایک یعنی شاہی ساقی نے تو یہ کہا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں انگور سے شراب نکال رہا ہوں اور دوسرے یعنی باورچی نے کہا میں نے دیکھا کہ میرے سر پر روٹیوں کا کوئی ٹوکرا ہے اس میں سے جانور نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں اور درخواست کی کہ ہمیں ان دونوں خوابوں کی تعبیر بتلائیے،- حضرت یوسف (علیہ السلام) سے خوابوں کی تعبیر دریافت کی جاتی ہے مگر وہ پیغمبرانہ انداز پر اس سوال کے جواب سے پہلے تبلیغ و دعوت ایمان کا کام شروع فرماتے ہیں اور اصول دعوت کے ما تحت حکمت ودانشمندی سے کام لے کر سب سے پہلے ان لوگوں کے قلوب میں اپنا اعتمادپیدا کرنے کے لئے اپنے اس معجزے کا ذکر کیا کہ تمہارے لئے جو کھانا تمہارے گھروں سے یا کسی دوسری جگہ سے آتا ہے اس کے آنے سے پہلے ہی میں تمہیں بتلا دیتا ہوں کہ کس قسم کا کھانا اور کیسا اور کتنا اور کس وقت آئے گا اور وہ ٹھیک اسی طرح نکلتا ہے - احکام ومسائل - آیات مذکورہ سے بہت سے احکام و مسائل اور فوائد و ہدایات حاصل ہوتے ہیں ان میں غور کیجئے،- پہلا مسئلہ : یہ ہے کہ یوسف (علیہ السلام) جیل میں بھیجے گئے جو مجرموں اور بدمعاشوں کی بستی ہوتی ہے مگر یوسف (علیہ السلام) نے ان کے ساتھ بھی حسن اخلاق، حُسن معاشرت کا وہ معاملہ کیا جس سے یہ سب گرویدہ ہوگئے جس سے معلوم ہوا کہ مصلحین کے لئے لازم ہے کہ مجرموں خطاکاروں سے شفقت و ہمدردی کا معاملہ کر کے ان کو اپنے سے مانوس و مربوط کریں کسی قدم پر منافرت کا اظہار نہ ہونے دیں - دوسرا مسئلہ : آیت کے جملے اِنَّا نَرٰىكَ مِنَ الْمُحْسِنِيْنَ سے یہ معلوم ہوا کہ تعبیر خواب ایسے ہی لوگوں سے دریافت کرنا چاہئے جن کے نیک صالح اور ہمدرد ہونے پر اعتماد ہو - تیسرا مسئلہ : یہ معلوم ہوا کہ حق کی دعوت دینے والوں اور اصلاح خلق کی خدمت کرنا چاہئے جن کے نیک، صالح اور ہمدرد ہونے پر اعتماد ہو،- تیسرامسئلہ : یہ معلوم ہوا کہ حق کی دعوت دینے والوں اور اصلاح خلق کی خدمت کرنے والوں کا طرز عمل یہ ہونا چاہئے کہ پہلے حسن اخلاق اور علمی وعملی کمالات کے ذریعہ خلق اللہ پر اپنا اعتماد قائم کریں خواہ اس میں ان کو کچھ اپنے کمالات کا اظہار بھی کرنا پڑے جیسا یوسف (علیہ السلام) نے اس موقع پر اپنا معجزہ بھی ذکر کیا اور اپنا خاندان نبوت کا ایک فردہونا بھی ظاہر کیا یہ اظہار کمال اگر اصلاح خلق کی نیت سے ہو اپنی ذاتی بڑائی ثابت کرنے کے لئے نہ ہو تو یہ وہ تزکیہ نفس نہیں جسکی ممانعت قرآن کریم میں آئی ہے فَلَا تُزَكُّوْٓا اَنْفُسَكُمْ یعنی پاک نفسی کا اظہار نہ کرو (تفسیرمظہری)- چوتھا مسئلہ : تبلیغ و ارشاد کا ایک اہم اصول یہ بتلایا گیا ہے کہ داعی اور مصلح کا فرض ہے کہ ہر وقت ہر حال میں اپنے وظیفہ دعوت و تبلیغ کو سب کاموں سے مقدم رکھے، کوئی اس کے پاس کسی کام کے لئے آئے وہ اپنے اصلی کام کو نہ بھولے جیسے حضرت یوسف (علیہ السلام) کے پاس قیدی تعبیر خواب دریافت کرنے کے لئے آئے تو یوسف (علیہ السلام) نے تعبیر خواب کے جواب سے پہلے دعوت و تبلیغ کے ذریعہ ان کو رشد و ہدایت کا تحفہ عطا فرمایا یہ نہ سمجھے کہ دعوت و تبلیغ کسی جلسہ کسی منبر یا اسٹیج ہی پر ہوا کرتی ہے شخصی ملاقاتوں اور نجی مذاکروں کے ذریعہ یہ کام اس سے زیادہ مؤ ثر ہوتا ہے،- پانچواں مسئلہ : بھی اسی ارشاد و اصلاح سے متعلق ہے کہ حکمت کے ساتھ وہ بات کہی جائے جو مخاطب کو دل نشین ہو سکے جیسا یوسف (علیہ السلام) نے ان کو یہ دکھلایا کہ مجھے جو کوئی کمال حاصل ہوا وہ اس کا نتیجہ ہے کہ میں نے ملت کفر کو چھوڑ کر ملت اسلام کو اختیار کیا اور پھر کفر و شرک کی خرابیاں دل نشین انداز میں بیان فرمائیں - چھٹامسئلہ : اس سے ثابت ہوا کہ جو معاملہ مخاطب کے لئے تکلیف دہ اور ناگوار ہو اس کا اظہار ضروری ہو تو مخاطب کے سامنے جہاں تک ممکن ہو ایسے انداز سے ذکر کیا جائے کہ اس کو تکلیف کم سے کم پہنچے جیسے تعبیر خواب میں ایک شخص کی ہلاکت متعین تھی مگر یوسف (علیہ السلام) نے اس کو مبہم رکھا یہ متعین کر کے نہیں کہا کہ تم سولی چڑھائے جاؤ گے (ابن کثیر، مظہری)- ساتواں مسئلہ : یہ ہے کہ یوسف (علیہ السلام) نے جیل سے رہائی کے لئے اس قیدی سے کہا کہ جب بادشاہ کے پاس جاؤ تو میرا بھی ذکر کرنا کہ وہ بےقصور جیل میں ہے اس سے معلوم ہوا کہ کسی مصیبت سے خلاصی کے لئے کسی شخص کو کوشش کا واسطہ بنانا توکل کے خلاف نہیں۔- آٹھوں مسئلہ : یہ ہے کہ اللہ جل شانہ کو اپنے برگزیدہ پیغمبروں کے لئے ہر جائز کوشش بھی پسند نہیں کہ کسی انسان کو اپنی خلاصی کا ذریعہ بنائیں ان کے اور حق تعالیٰ کے درمیان کوئی واسطہ نہ ہونا ہی انبیاء (علیہم السلام) کا اصلی مقام ہے شاید اسی لئے یہ قیدی یوسف (علیہ السلام) کے اس کہنے کو بھول گیا اور ان کو مزید کئی سال جیل میں رہنا پڑا ایک حدیث میں بھی رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس طرف اشارہ فرمایا ہے۔
وَدَخَلَ مَعَہُ السِّجْنَ فَتَيٰنِ ٠ۭ قَالَ اَحَدُہُمَآ اِنِّىْٓ اَرٰىنِيْٓ اَعْصِرُ خَمْرًا ٠ۚ وَقَالَ الْاٰخَرُ اِنِّىْٓ اَرٰىنِيْٓ اَحْمِلُ فَوْقَ رَاْسِيْ خُبْزًا تَاْكُلُ الطَّيْرُ مِنْہُ ٠ۭ نَبِّئْنَا بِتَاْوِيْـلِہٖ ٠ۚ اِنَّا نَرٰىكَ مِنَ الْمُحْسِـنِيْنَ ٣٦- فتی - الفَتَى الطّريُّ من الشّباب، والأنثی فَتَاةٌ ، والمصدر فَتَاءٌ ، ويكنّى بهما عن العبد والأمة .- قال تعالی: تُراوِدُ فَتاها عَنْ نَفْسِهِ [يوسف 30]- ( ف ت ی ) الفتیٰ- کے معنی نوجوان کے ہیں اس کی مونث فتاۃ اور مصدر فتاء ہے بعدہ کنایہ کے طور پر یہ دونوں لفظ ( فتی اور فتاۃ ) غلام اور لونڈی کے معنی میں استعمال ہونے لگے ہیں ۔ قرآن میں ہے :- تُراوِدُ فَتاها عَنْ نَفْسِهِ [يوسف 30] اپنے ٖغلام کو اپنی طرف مائل کرنا چاہتی تھی ۔ جس طرح نوجوان آدمی کو فتی کہا جاتا ہے - عصر - العَصْرُ : مصدرُ عَصَرْتُ ، والمَعْصُورُ : الشیءُ العَصِيرُ ، والعُصَارَةُ : نفاية ما يُعْصَرُ. قال تعالی:إِنِّي أَرانِي أَعْصِرُ خَمْراً [يوسف 36] ، وقال : وَفِيهِ يَعْصِرُونَ [يوسف 49] ، أي : يستنبطون منه الخیر، وقرئ : (يُعْصَرُونَ ) أي : يمطرون، واعْتَصَرْتُ من کذا : أخذت ما يجري مجری العُصَارَةِ ، قال الشاعر : وإنّما العیش بربّانه ... وأنت من أفنانه مُعْتَصِرٌ وَأَنْزَلْنا مِنَ الْمُعْصِراتِ ماءً ثَجَّاجاً [ عم 14] ، أي : السحائب التي تَعْتَصِرُ بالمطر . أي : تصبّ ، وقیل : التي تأتي بالإِعْصَارِ ، والإِعْصَارُ : ريحٌ تثیر الغبار . قال تعالی: فَأَصابَها إِعْصارٌ [ البقرة 266] . والاعْتِصَارُ : أن يغصّ فَيُعْتَصَرَ بالماء، ومنه : العَصْرُ ، والعَصَرُ : الملجأُ ، والعَصْرُ والعِصْرُ : الدّهرُ ، والجمیع العُصُورُ. قال : وَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنْسانَ لَفِي خُسْرٍ [ العصر 1- 2] ، والعَصْرُ : العشيُّ ، ومنه : صلاة العَصْرِ وإذا قيل : العَصْرَانِ ، فقیل : الغداة والعشيّ وقیل : اللّيل والنهار، وذلک کالقمرین للشمس والقمر والمعْصِرُ : المرأةُ التي حاضت، ودخلت في عَصْرِ شبابِهَا - ( ع ص ر ) العصر - ( ع ص ر ) العصر یہ عصرت الشئی کا مصدر ہے جس کے معنی ہیں نچوڑ نا المعصور : أَعْصِرُ خَمْراً [يوسف 36] انی اعصر خمرا ( دیکھتا کیو ہوں ) کہ شراب ( کے لئے انگور ) نچوڑ رہا ہوں ۔ وَفِيهِ يَعْصِرُونَ [يوسف 49] اور لوگ اسی میں رس نچوڑیں گے ۔ یعنی اس میں خیرو برکت حاصل ہوگی ایک قرات میں یعصرون ہے یعنی اسی سال خوب بارش ہوگی اعتصرت من کزا کے معنی کسی چیز سے خیرو برکت حاصل کرنا کے ہیں شاعر نے کہا ہے ( 312 ) وانما العیش بربانہ وانت من افنانہ معتصر زندگی کا لطف تو اٹھتی جوانی کے ساتھ ہے جب کی تم اس کی شاخوں سے رس نچوڑتے ہو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَأَنْزَلْنا مِنَ الْمُعْصِراتِ ماءً ثَجَّاجاً [ عم 14] اور نچڑتے بادلوں سے موسلا دھار مینہ بر سایا ۔ میں معصرات سے مراد بادلوں ہیں جو پانی نچوڑتے یعنی گراتے ہیں ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ معصرات ان بادلوں کو کہا جاتا ہے جو اعصار کے ساتھ آتے ہیں اور اعصار کے معنی ہیں گردو غبار والی تند ہوا قرآن میں ہے : ۔ فَأَصابَها إِعْصارٌ [ البقرة 266] تو ( ناگہاں ) اس باغ پر ۔۔۔۔۔۔۔ بگولہ چلے ۔ الاعتصار کے معنی کیس چیز کو دبا کر اس سے دس نچوڑنے کے ہیں اسی سے عصروعصر ہے جس کے معنی جائے پناہ کے ہیں العصر والعصروقت اور زمانہ اس کی جمع عصور ہے قرآن میں : ۔ وَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنْسانَ لَفِي خُسْرٍ [ العصر 1- 2] زمانہ کی قسم کہ انسان نقصان میں ہے ۔ العصر کے معنی العشی بھی آتے ہیں یعنی زوال آفتاب سے غروب شمس تک کا زمانہ اسی سے صلاۃ العصر ( نماز عصر ) ہے العصران صبح شام رات دن اور یہ القمران کی طرح ہے جس کے معنی ہیں چاند اور سورج المعصر وہ عورت جسے حیض آجائے اور جوانی کی عمر کو پہنچ گئی ہو ۔- خمر - أصل الخمر : ستر الشیء، ويقال لما يستر به : خِمَار، لکن الخمار صار في التعارف اسما لما تغطّي به المرأة رأسها، وجمعه خُمُر، قال تعالی:- وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلى جُيُوبِهِنَّ [ النور 31] والخَمْر سمّيت لکونها خامرة لمقرّ العقل، وهو عند بعض الناس اسم لكلّ مسكر . وعند بعضهم اسم للمتخذ من العنب والتمر، لما روي عنه صلّى اللہ عليه وسلم : «الخمر من هاتین الشّجرتین : النّخلة والعنبة» - ( خ م ر ) الخمر - ( ن ) اصل میں خمر کے معنی کسی چیز کو چھپانے کے ہیں اسی طرح خمار اصل میں ہر اس چیز کو کہاجاتا ہے جس سے کوئی چیز چھپائی جائے مگر عرف میں خمار کا لفظ صرف عورت کی اوڑھنی پر بولا جاتا ہے جس کے ساتھ وہ اپنے سر کو چھپاتی ہے ۔ اس کی جمع خمر آتی ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔- وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلى جُيُوبِهِنَّ [ النور 31] اور اپنے سینوں پر اوڑھنیاں اوڑھے رہا کریں ۔ کہاجاتا ہے ۔ الخمر - ۔ شراب ۔ نشہ ۔ کیونکہ وہ عقل کو ڈہانپ لیتی ہے بعض لوگوں کے نزدیک ہر نشہ آور چیز پر خمر کا لفظ بولا جاتا ہے اور بعض کے نزدیک صرف اسی چیز کو خمر کہا جاتا ہے ۔ جو انگور یا کھجور سے بنائی گئ ہو ۔ کیونکہ ایک روایت میں ہے (122) الخمر من ھاتین الشجرتین التخلۃ و العنبۃ ( کہ خمر ( شراب حرام صرف وہی ہے جو ان دو درختوں یعنی انگور یا کھجور سے بنائی گئی ہو ۔ - حمل - الحَمْل معنی واحد اعتبر في أشياء کثيرة، فسوّي بين لفظه في فعل، وفرّق بين كثير منها في مصادرها، فقیل في الأثقال المحمولة في الظاهر کا لشیء المحمول علی الظّهر : حِمْل .- وفي الأثقال المحمولة في الباطن : حَمْل، کالولد في البطن، والماء في السحاب، والثّمرة في الشجرة تشبيها بحمل المرأة، قال تعالی:- وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلى حِمْلِها لا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ [ فاطر 18] ،- ( ح م ل ) الحمل - ( ض ) کے معنی بوجھ اٹھانے یا لادنے کے ہیں اس کا استعمال بہت سی چیزوں کے متعلق ہوتا ہے اس لئے گو صیغہ فعل یکساں رہتا ہے مگر بہت سے استعمالات میں بلحاظ مصاد رکے فرق کیا جاتا ہے ۔ چناچہ وہ بوجھ جو حسی طور پر اٹھائے جاتے ہیں ۔ جیسا کہ کوئی چیز پیٹھ لادی جائے اس پر حمل ( بکسرالحا) کا لفظ بولا جاتا ہے اور جو بوجھ باطن یعنی کوئی چیز اپنے اندر اٹھا ہے ہوئے ہوتی ہے اس پر حمل کا لفظ بولا جاتا ہے جیسے پیٹ میں بچہ ۔ بادل میں پانی اور عورت کے حمل کے ساتھ تشبیہ دے کر درخت کے پھل کو بھی حمل کہہ دیاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ - وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلى حِمْلِها لا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ [ فاطر 18] اور کوئی بوجھ میں دبا ہوا پنا بوجھ ہٹانے کو کسی کو بلائے تو اس میں سے کچھ نہ اٹھائے گا ۔- فوق - فَوْقُ يستعمل في المکان، والزمان، والجسم، والعدد، والمنزلة،- وذلک أضرب :- الأول : باعتبار العلوّ.- نحو : وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة 63] ، مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ [ الزمر 16] ، وَجَعَلَ فِيها رَواسِيَ مِنْ فَوْقِها [ فصلت 10] ، ويقابله تحت . قال : قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ [ الأنعام 65] - الثاني : باعتبار الصّعود والحدور - . نحو قوله :إِذْ جاؤُكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ [ الأحزاب 10] .- الثالث : يقال في العدد .- نحو قوله : فَإِنْ كُنَّ نِساءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ [ النساء 11] .- الرابع : في الکبر والصّغر - مَثَلًا ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة 26] .- الخامس : باعتبار الفضیلة الدّنيويّة .- نحو : وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ [ الزخرف 32] ، أو الأخرويّة : وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ البقرة 212] ، فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ آل عمران 55] .- السادس : باعتبار القهر والغلبة .- نحو قوله : وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام 18] ، وقوله عن فرعون : وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قاهِرُونَ [ الأعراف 127] - ( ف و ق ) فوق - یہ مکان ازمان جسم عدد اور مرتبہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے - اور کئی معنوں میں بولا جاتا ہے - اوپر جیسے فرمایا ۔ وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة 63] اور کوہ طور کو تم پر اٹھا کھڑا کیا ۔ مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ [ الزمر 16] کے اوپر تو آگ کے سائبان ہوں گے ۔ وَجَعَلَ فِيها رَواسِيَ مِنْ فَوْقِها [ فصلت 10] اور اسی نے زمین میں اس کے پہاڑ بنائے ۔ اس کی ضد تحت ہے جس کے معنی نیچے کے ہیں چناچہ فرمایا ۔ قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ [ الأنعام 65] کہ وہ اس پر بھی قدرت رکھتا ہے کہ تم پر اوپر کی طرف سے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے عذاب بھیجے - ۔ 2 صعود یعنی بلند ی کی جانب کے معنی میں - اس کی ضدا سفل ہے جس کے معنی پستی کی جانب کے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ إِذْ جاؤُكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ [ الأحزاب 10] جب وہ تمہارے اوپر اور نیچے کی جانب سے تم پر چڑھ آئے - ۔ 3 کسی عدد پر زیادتی کے معنی - ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَإِنْ كُنَّ نِساءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ [ النساء 11] اگر اولاد صرف لڑکیاں ہی ہوں ( یعنی دو یا ) دو سے زیادہ - ۔ 4 جسمانیت کے لحاظ سے بڑا یا چھوٹا ہونے کے معنی - دیتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : مَثَلًا ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة 26] مچھر یا اس سے بڑھ کر کسی چیز مثلا مکھی ۔ مکڑی کی مثال بیان فرمائے ۔- 5 بلحاظ فضیلت دنیوی کے استعمال ہوتا ہے - جیسے فرمایا ۔ وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ [ الزخرف 32] اور ایک دوسرے پر درجے بلند کئے ۔ اور کبھی فضلیت اخروی کے لحاظ سے آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ البقرة 212] لیکن جو پرہیز گار ہیں وہ قیامت کے دن ان پر پر فائق ہوں گے ۔ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ آل عمران 55] کافروں پر فائق ۔- 6 فوقیت معنی غلبہ اور تسلط - کے جیسے فرمایا : ۔ وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام 18] اور وہ اپنے بندوں پر غالب ہے ۔ وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قاهِرُونَ [ الأعراف 127] فرعون سے اور بےشبہ ہم ان پر غالب ہیں ۔ - رأس - الرَّأْسُ معروف، وجمعه رُؤُوسٌ ، قال : وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْباً [ مریم 4] ، وَلا تَحْلِقُوا رُؤُسَكُمْ [ البقرة 196] ، ويعبّر بِالرَّأْسِ عن الرَّئِيسِ ، والْأَرْأَسُ : العظیم الرّأس، وشاة رَأْسَاءُ : اسودّ رأسها . ورِيَاسُ السّيف : مقبضه .- ( ر ء س ) الراس - سر کو کہتے ہیں اور اس کی جمع رؤوس آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْباً [ مریم 4] اور سر بڑاھاپے ( کی آگ ) سے بھڑک اٹھا ہے ۔ وَلا تَحْلِقُوا رُؤُسَكُمْ [ البقرة 196] اپنے سر نہ منڈاؤ اور کبھی راس بمعنی رئیس بھی آتا ہے اور ارء س ( اسم تفصیل ) کے معنی بڑے سر والا کے ہیں اور سیاہ سر والی بکری کو شاۃ راساء کہتے ہیں اور ریاس السیف کے معنی دستہ شمشیر کے ہیں ۔- خبز - الخُبْز معروف قال اللہ تعالی: أَحْمِلُ فَوْقَ رَأْسِي خُبْزاً [يوسف 36] ، والخُبْزَة : ما يجعل في الملّة، والخَبْزُ : اتّخاذه، واختبزت : إذا أمرت بخبزه، والخِبَازَة صنعته، واستعیر الخبز للسّوق الشّديد، لتشبيه هيئة السّائق بالخابز .- ( خ ب ز ) الخبر ۔ روٹی ۔ قرآن میں ہے : أَحْمِلُ فَوْقَ رَأْسِي خُبْزاً [يوسف 36] کہ اپنے سر پر روٹیاں اٹھائے ہوئے ہوں ۔ الخبرۃ ۔ نان کو ماج ۔ الخبر ( مصدر ض ) روٹی بنانا ۔ اختبز ۔ افتعال ) روٹی کا حکم دینا الخبازۃ نانبائی کا پیشہ ۔ استعارہ کے طور پر خبر کے معنی سخت ہنکاتے کے بھی آتے ہیں کیونکہ ہانکنے والا بھی اس طرح ہاتھ مارتا ہے جیسے روٹی بنانے والا ہے ۔- طير - الطَّائِرُ : كلُّ ذي جناحٍ يسبح في الهواء، يقال : طَارَ يَطِيرُ طَيَرَاناً ، وجمعُ الطَّائِرِ : طَيْرٌ «3» ، كرَاكِبٍ ورَكْبٍ. قال تعالی: وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ [ الأنعام 38] ، وَالطَّيْرَ مَحْشُورَةً- [ ص 19] ، وَالطَّيْرُ صَافَّاتٍ [ النور 41] وَحُشِرَ لِسُلَيْمانَ جُنُودُهُ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ وَالطَّيْرِ- [ النمل 17] ، وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ [ النمل 20] - ( ط ی ر ) الطائر - ہر پر دار جانور جو فضا میں حرکت کرتا ہے طار یطیر طیرا نا پرند کا اڑنا ۔ الطیر ۔ یہ طائر کی جمع ہے جیسے راکب کی جمع رکب آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ [ الأنعام 38] یا پرند جو اپنے پر دل سے اڑتا ہے ۔ وَالطَّيْرَ مَحْشُورَةً [ ص 19] اور پرندوں کو بھی جو کہ جمع رہتے تھے ۔ وَالطَّيْرُ صَافَّاتٍ [ النور 41] اور پر پھیلائے ہوئے جانور بھی ۔ وَحُشِرَ لِسُلَيْمانَ جُنُودُهُ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ وَالطَّيْرِ [ النمل 17] اور سلیمان کے لئے جنون اور انسانوں اور پرندوں کے لشکر جمع کئے گئے ۔ وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ [ النمل 20] انہوں نے جانوروں کا جائزہ لیا ۔ - احسان - الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» .- فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل - واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] ، وقوله عزّ وجلّ : وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة 178] ، ولذلک عظّم اللہ تعالیٰ ثواب المحسنین، فقال تعالی: وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت 69] ، وقال تعالی:إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة 195] ، وقال تعالی: ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة 91] ، لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل 30] .- ( ح س ن ) الحسن - الاحسان ( افعال )- احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔ اور فرمایا ؛ وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة 178] اور پسندیدہ طریق سے ( قرار داد کی ) پیروی ( یعنی مطالبہ خونہار ) کرنا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محسنین کے لئے بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت 69] اور خدا تو نیکو کاروں کے ساتھ ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة 195] بیشک خدا نیکی کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے ۔ ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة 91] نیکو کاروں پر کسی طرح کا الزام نہیں ہے ۔ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل 30] جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہے ۔
قول باری ہے قال احدھما انی ارانی اعصرخموا ً ۔ ایک روز ان میں سے ایک نے کہا میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں شراب کشید کر رہا ہوں ایک قول کے مطابق فقرے میں کچھ الفاظ پوشیدہ ہیں یعنی عصیر العنیب الخمر شراب تیار کرنے کے لیے انگور کا رس اس کے لیے مائع شراب میں کشید کا عمل نہیں ہوسکتا ۔ ایک قول کے مطابق میں ایسی چیز کشید کررہا ہوں جو آخر کار شراب میں تبدیل ہوجائے گی ۔ اس چیز یعنی رس کو خمر کے نام سے موسوم کردیا ۔ اگرچہ فی الحال وہ شراب نہیں تھی ۔ یہ اطلاق مجاز کے طور پر کیا گیا ہے انگور سے شراب کی کشید اس طرح بھی درست ہے کہ انگور کو مٹکے میں ڈال کر رکھ دیاجائے یہاں تک کہ اس میں ابا ل آ جائے اور جوش مارنے لگے اس طرح انگور کے دانوں میں موجود رس شراب میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ اس تشریح کی بنا پر شراب کے لیے شید کے الفاظ کو حقیقت پر محمول کیا جائے گا ۔ ضحاک کا قول ہے کہ عربی زبان کی ایک بولی میں انگور کو شراب کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔- قول باری ہے نبئنابتاویلہ انا نراک من المحسنین ہمیں اس کی تعبیر بتایئے ہم دیکھتے ہیں کہ آپ ایک نیک آدمی ہیں ۔ قتادہ کا قول ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) مریضوں کا علاج معالجہ کرتے ، غمزدوں کو تسلی دیتے اور عبادت الٰہی میں بڑی سرگرمی دکھاتے تھے۔ ایک قول کے مطابق آپ مظلوموں کی مدد کرتے کمزوروں کا ہاتھ بٹاتے اور بیماروں کی عیادت کرتے تھے۔ ایک قول ہے کہ آپ خوابوں کی تعبیر کے لحاظ سے محسن تھے۔ یعنی خوابوں کی بہت درست تعبیر کرتے تھے ، آپ نے اپنے ان دونوں قیدی ساتھیوں کے علاوہ دوسرے لوگوں کے خوابوں کی تعبیر بھی کی تھی۔
(٣٦) اور حضرت یوسف (علیہ السلام) کے قید کے زمانہ میں یعنی ان کے جانے کے پانچ سال بعد بادشاہ کے دو غلام بھی جیل میں داخل ہوئے، ایک ان میں سے بادشاہ کا ساقی تھا اور دوسرا نانبائی، بادشا ان دونوں پر ناراض ہوا اور قید میں بھیج دیا ان میں سے ساقی نے حضرت یوسف (علیہ السلام) سے کہا کہ میں نے خود کو خواب میں انگور کا شیرہ نچوڑتے ہوئے دیکھا ہے کہ بادشاہ کو شراب بنا کر پلا رہا ہوں، اور تفصیل خواب کی یہ ہے گویا کہ میں انگوروں کے باغ میں داخل ہوا اور وہاں ایک عمدہ انگوروں کی بیل پر نظر پڑی جس کی تین شاخیں ہیں اور ایک شاخ پر انگوروں کے خوشے لٹک رہے ہیں تو میں اس سے انگور توڑ کر نچوڑ رہا ہوں اور انھیں بادشاہ کو پلا رہا ہوں۔- یہ سن کر حضرت یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا کہ تو نے بہت اچھا خواب دیکھا ہے، انگور کا باغ تو تیرا سابقہ پیشہ ہے اور اس کی بیل یہ بھی تیرے سپرد وہ کام ہوگا اور اس بیل کی خوبصورتی سے تیری عزت مراد ہے اور بیل کی تین شاخیں جو ہیں تو وہ یہ کہ تو تین دن تک جیل میں رہے گا اور پھر اپنے پہلے کام پر واپس چلا جائے گا اور انگور نچور کر جو بادشاہ کو پلا رہا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ پھر عزت کے ساتھ بادشاہ کا ساقی بنے گا۔- اور نانبائی کہنے لگا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے گویا کہ میں بادشاہ کے مطبخ سے نکلا ہوں اور میرے سر پر روٹیوں کی تین ٹوکریاں لدی ہوئی ہیں اس پر سے پرندے نوچ نوچ کر رکھا رہے ہیں، حضرت یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا کہ تم نے بہت برا خواب دیکھا ہے تمہارا پہلا پیشہ تم سے واپس لے لیا جائے گا اور تم تین دن جیل میں رہو گے، اس کے بعد بادشاہ تمہیں جیل سے نکال کر پھانسی دے گا اور پرندے تمہارا سر نوچ نوچ کر کھائیں گے۔- چناچہ ان دونوں نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بتانے سے پہلے کہا کہ آپ ہمیں کو ان کی تعبیر بتائیے آپ قیدیوں پر احسان کرنے والے معلوم ہوتے ہیں یا یہ کہ ہم آپ کو سچا سمجھتے ہیں۔
آیت ٣٦ (وَدَخَلَ مَعَهُ السِّجْنَ فَتَيٰنِ )- جب حضرت یوسف کو جیل بھیجا گیا تو اتفاقاً اسی موقع پر دو اور قیدی بھی آپ کے ساتھ جیل میں داخل کیے گئے۔- (نَبِّئْنَا بِتَاْوِيْـلِهٖ ۚ اِنَّا نَرٰىكَ مِنَ الْمُحْسِنِيْنَ )- ہم دیکھ رہے ہیں کہ آپ دوسرے قیدیوں سے بالکل مختلف ہیں۔ آپ اعلیٰ اخلاق اور قابل رشک کردار کے مالک ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ آپ ہمارے خوابوں کے سلسلے میں ضرور ہماری راہنمائی فرمائیں گے۔
سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :31 غالبا اس وقت جب کہ حجرت یوسف علیہ السلام قید کیے گئے ان کی عمر بیس اکیس سال سے زیادہ نہ ہوگی ۔ تلمود میں بیان کیا گیا ہے کہ قید خانے سے چھوٹ کر جب وہ مصر کے فرمانروا ہوئے تو ان کی عمر تیس سال تھی ، اور قرآن کہتا ہے کہ قید خانے میں وہ بضع سنین یعنی کئی سال رہے ۔ بضع کا اطلاق عربی زبان میں دس تک کے عدد کے لیے ہوتا ہے ۔ سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :32 یہ دو غلام جو قید خانہ میں حضرت یوسف علیہ السلام کے ساتھ داخل ہوئے تھے ان کے متعلق بائیبل کی روایت ہے کہ ان میں سے ایک شاہ مصر کے ساقیوں کا سردار تھا اور دوسرا شاہی نان بائیوں کا افسر ۔ تلمود کا بیان ہے کہ ان دونوں کو شاہ مصر نے اس قصور پر جیل بھیجا تھا کہ ایک دعوت کے موقع پر روٹیوں میں کچھ کر کراہٹ پائی گئی تھی اور شراب کے ایک گلاس میں مکھی نکل آئی تھی سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :33 اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ قید خانے میں حضرت یوسف علیہ السلام کس نگاہ سے دیکھے جاتے تھے ۔ اوپر جن واقعات کا ذکر گزر چکا ہے ان کو پیش نظر رکھنے سے یہ بات قابل تعجب نہیں رہتی کہ ان دوقیدیوں نے آخر حضرت یوسف علیہ السلام ہی سے آکر اپنے خواب کی تعبیر کیوں پوچھی اور ان کی خدمت میں یہ نذر عقیدت کیوں پیش کہ کہ اِنَّا نَرٰکَ مِنَ المُحسِنِینَ ۔ جیل کے اندر اور باہر سب لوگ جانتے تھے کہ یہ شخص کوئی مجرم نہیں ہے بلکہ ایک نہایت نیک نفس آدمی ہے ، سخت ترین آزمائشوں میں اپنی پر ہیزگاری کا ثبوت دے چکا ہے ، آج پورے ملک میں اس سے زیادہ نیک انسان کوئی نہیں ہے ، حتٰی کہ ملک کے مذہبی پیشواؤں میں بھی اس کی نظیر مفقود ہے ۔ یہی وجہ تھی کہ نہ صرف قیدی ان کو عقیدت کی نگاہ سے دیکھتے تھے بلکہ قید خانے کے حکام اور اہلکار تک ان کے معتقد ہو گئے تھے ۔ چنانچہ بائیبل میں ہے کہ ” قید خانے کی داروغہ نے سب قیدیوں کو جو قید میں تھے یوسف علیہ السلام کے ہاتھ میں سونپا اور جو کچھ وہ کرتے اسی حکم سے کرتے تھے ، اور قید خانے کا داروغہ سب کاموں کی طرف سے جو اس کے ہاتھ میں تھے بے فکر تھا “ ۔ ( پیدائش ۳۹:۲۳ ، ۲۲ )
24: روایات میں ہے کہ ان دونوں میں سے ایک بادشاہ کو شراب پلایا کرتا تھا، اور دوسرا اُس کا باورچی تھا، اور ان پر الزام یہ تھا کہ انہوں نے بادشاہ کو زہر دینے کی کوشش کی ہے۔ اس الزام میں ان پر مقدمہ چل رہا تھا جس کی وجہ سے انہیں قید خانے میں بھیجا گیا۔ حضرت یوسف علیہ السلام سے ان کی ملاقات ہوئی، اور انہوں نے اپنے خوابوں کی تعبیر اُن سے پوچھی۔