Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

جیل خانہ میں خوابوں کی تعبیر کا سلسلہ اور تبلیغ توحید حضرت یوسف علیہ السلام اپنے دونوں قیدی ساتھیوں کو تسکین دیتے ہیں کہ میں تمہارے دونوں خوابوں کی صحیح تعبیر جانتا ہوں اور اس کے بتانے میں مجھے کوئی بخل نہیں ۔ اس کی تعبیر کے واقعہ ہو نے سے پہلے ہی میں تمہیں وہ بتا دوں گا ۔ حضرت یوسف کے اس فرمان اور اس وعدے سے تو یہ ظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف ، تنہائی کی قید میں تھے کھانے کے وقت کھول دیا جاتا تھا اور ایک دوسرے سے مل سکتے تھے اس لیے آپ نے ان سے یہ وعدہ کیا اور ممکن ہے کہ اللہ کی طرف سے تھوڑی تھوڑی کر کے دونوں خوابوں کی پوری تعبیر بتلائی گی ہو ۔ ابن عباس سے یہ اثر مروی ہے گو بہت غریب ہے ۔ پھر فرماتے ہیں مجھے یہ علم اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا فرما گیا ہے ۔ وہ یہ ہے کہ میں نے ان کافروں کا مذہب چھوڑ رکھا ہے جو نہ اللہ کو مانیں نہ آخرت کو برحق جانیں میں نے اللہ کے پیغمبروں کے سچے دین کو مان رکھا ہے اور اسی کی تابعداری کرتا ہوں ۔ خود میرے باپ دادا اللہ کے رسول تھے ۔ ابراہیم ، اسحاق ، یعقوب علیہ الصلواۃ والسلام ۔ فی الواقع جو بھی راہ راست پر استقامت سے چلے ہدایت کا پیرو رہے ۔ اللہ کے رسولوں کی اتباع کو لازم پکڑ لے ، گمراہوں کی راہ سے منہ پھیر لے ۔ اللہ تبارک تعالیٰ اس کے دل کو پرنور اور اس کے سینے کو معمور کر دیتا ہے ۔ اسے علم و عرفان کی دولت سے مالا مال کر دیتا ہے ۔ اسے بھلائی میں لوگوں کا پیشوا کر دیتا ہے کہ اور دنیا کو وہ نیکی کی طرف بلاتا رہتا ہے ۔ ہم جب کہ راہ راست دکھا دئیے گئے توحید کی سمجھ دے دئیے گئے شرک کی برائی بتا دئیے گئے ۔ پھر ہمیں کیسے یہ بات زیب دیتی ہے؟ کہ ہم اللہ کے ساتھ اور کسی کو بھی شریک کرلیں ۔ یہ توحید اور سچا دین اور یہ اللہ کی وحدانیت کی گواہی یہ خاص اللہ کا فضل ہے جس میں ہم تنہا نہیں بلکہ اللہ کی اور مخلوق بھی شامل ہے ۔ ہاں ہمیں یہ برتری ہے کہ ہماری جانب یہ براہ راست اللہ کی وحی آئی ہے ۔ اور لوگوں کو ہم نے یہ وحی پہنچائی ۔ لیکن اکثر لوگ ناشکری کرتے ہیں ۔ اللہ کی اس زبردست نعمت کی جو اللہ نے ان پر رسول بھیج کر انعام فرمائی ہے ناقدری کرتے ہیں اور اسے مان کر نہیں رہتے بلکہ رب کی نعمت کے بدلے کفر کرتے ہیں ۔ اور خود مع اپنے ساتھیوں کے ہلاکت کے گھر میں اپنی جگہ بنا لیتے ہیں ۔ حضرت ابن عباس دادا کو بھی باپ کے مساوی میں رکھتے ہیں اور فرماتے جو چاہے حطیم میں اس سے مباہلہ کرنے کو تیار ہوں ۔ اللہ تعالیٰ نے دادا دادی کا ذکر نہیں کیا دیکھو حضرت یوسف کے بارے میں فرمایا میں نے اپنے باپ ابراہیم اسحاق اور یعقوب کے دین کی پیروی کی ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

37۔ 1 یعنی میں جو تعبیر بتلاؤں گا، وہ کاہنوں اور نجومیوں کی طرح ظن وتخمین پر مبنی نہیں ہوگی، جس میں خطا اور نیکی دونوں کا احتمال ہوتا ہے۔ بلکہ میری تعبیر یقینی علم پر مبنی ہوگی جو اللہ کی طرف سے مجھے عطا کیا گیا ہے، جس میں غلطی کا امکان ہی نہیں۔ 37۔ 2 یہ الہام اور علم الٰہی (جن سے آپ کو نوازا گیا) کی وجہ بیان کی جا رہی ہے کہ میں نے ان لوگوں کا مذہب چھوڑ دیا جو اللہ اور آخرت پر یقین نہیں رکھتے، اس کے صلے میں اللہ تعالیٰ کے یہ انعامات مجھ پر ہوئے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٧] سیدنا یوسف کا قیدیوں کو اسلام کے اصول سمجھانا :۔ سیدنا یوسف نے انھیں جواب دیا کہ خواب کی تعبیر تو میں تمہیں بتا ہی دوں گا اور جس وقت تمہارا کھانا آیا کرتا ہے اس سے پہلے ہی بتادوں گا اور اس سے پہلے یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ خوابوں کی تعبیر کا علم جو اللہ نے مجھے سکھایا ہے تو یہ مجھ پر اللہ کا خاص احسان ہے اور اللہ کا فضل و احسان ان لوگوں پر ہی ہوا کرتا ہے جو اللہ ہی کے ہو کر رہتے ہیں۔ اسی کی عبادت کرتے ہیں اور اسی پر بھروسہ کرتے ہیں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بناتے۔ میں ان لوگوں (مصریوں) کا دین ہرگز قبول نہیں کرتا جو نہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور نہ روز آخرت پر، بلکہ میں تو اپنے بزرگوں سیدنا ابراہیم اور سیدنا یعقوب کے دین پر ہوں اور یہ بزرگ خالصتاً اللہ ہی کی عبادت کیا کرتے تھے کسی کو اس کی عبادت میں شریک نہیں کیا کرتے تھے اور ایسا دین اختیار کرلینا ہی اللہ کا بہت بڑا فضل و احسان ہے۔ کاش لوگ یہ بات سمجھ جائیں۔- اس موقعہ پر سیدنا یوسف کے ان قیدیوں کو اصول دین سمجھانے سے ضمناً کئی باتوں کا پتہ چلتا ہے مثلاً :- ١۔ تبلیغ کا بہترین وقت :۔ تبلیغ کا سب سے بہتر موقع وہ ہوتا ہے جب سننے والا خود بات سننے کا خواہش مند ہو۔ یہ قیدی اپنے اپنے خواب کی تعبیر تو بہرحال سننا ہی چاہتے تھے اور اس کے منتظر بھی تھے۔ سیدنا یوسف نے اس موقعہ سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور پہلے انھیں اصول دین سمجھانا شروع کردیے۔ اگر آپ انھیں خوابوں کی تعبیر بتادیتے تو شاید وہ بعد میں ایسی باتیں سننے کو تیار ہی نہ ہوتے یا سنتے بھی تو ان میں کوئی دلچسپی نہ لیتے۔- ٢۔ سیدنا یوسف کی سابقہ زندگی میں بیشمار اتار چڑھاؤ آچکے تھے لیکن آپ نے کسی موقع پر اس انداز میں تبلیغ نہیں کی تھی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انہی ایام میں آپ کو نبوت عطا ہوئی تھی۔- ٣۔ سیدنا یوسف کا زمانہ نبوت :۔ اس تبلیغ کے دوران سیدنا ابراہیم، اسحاق اور یعقوب کا نام لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان بزرگوں کی اس علاقہ مصر میں بھی خاصی شہرت تھی اور یہ نیک شہرت تھی۔ نیز یہ بتانا مقصود تھا کہ میں کوئی نئی بات پیش نہیں کر رہا بلکہ وہی کچھ کہہ رہا ہوں جو اہل حق ہمیشہ سے کہتے آئے ہیں۔- ٤۔ جس طرح آپ نے اس موقعہ کو غنیمت سمجھ کر اس سے فائدہ اٹھایا۔ قید خانے میں کم و بیش آٹھ نو سال کی طویل مدت میں یقیناً آپ کو ایسے بہت سے مواقع میسر آئے ہوں گے۔ گویا یہ قید خانہ ہی آپ کی تبلیغی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا تھا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قَالَ لَا يَاْتِيْكُمَا طَعَامٌ۔۔ : یوسف (علیہ السلام) اس سے پہلے بھی اللہ کے دین اور توحید پر قائم تھے، قید میں اللہ تعالیٰ نے یہ حکمت رکھی کہ دنیا کے معاملات سے فراغت اور خلوت نصیب ہوئی، ذکر وفکر کا موقع زیادہ ملا، کفار کے تعلق سے دل خالی ہوا تو سینہ علم نبوت کے نور سے اور زیادہ روشن ہوگیا۔ اب ان دونوں کو یوسف (علیہ السلام) سے خواب کی تعبیر پوچھنے کی ضرورت پڑی تو یوسف (علیہ السلام) نے ضروری سمجھا کہ پہلے انھیں توحید اور آخرت پر ایمان کی دعوت دیں، بعد میں خواب کی تعبیر بتائیں، اس لیے ان سے بات کا کچھ وقت لے لیا، مگر ساتھ ہی ان کی تسلی کردی تاکہ وہ گھبرا نہ جائیں، کہا کہ کھانا جو تمہیں دیا جاتا ہے، اس کے آنے سے پہلے پہلے میں تمہیں ہر حال میں تعبیر بتادوں گا۔ کھانا آنے سے پہلے پہلے کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ کھانے کا وقت قریب ہی تھا۔ - ذٰلِكُمَا مِمَّا عَلَّمَنِيْ رَبِّيْ ۔۔ : ” ذٰلِكُمَا “ کی تفسیر کے لیے دیکھیں آیت (٣٢) یعنی خواب کی تعبیر ان علوم میں سے ایک علم ہے جو اللہ نے مجھے سکھائے ہیں، مثلاً شریعت، حکمت، معیشت، امانت وغیرہ۔ مطلب یہ کہ میں تعبیر اندازے اور اٹکل سے نہیں بلکہ حقیقی علم کے ساتھ کروں گا۔ مصر کے کاہن اور درباری مشیر علم تعبیر میں مہارت رکھتے تھے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے یوسف (علیہ السلام) کو یہ علم خاص طور پر عطا فرمایا، تاکہ وقت آنے پر ظاہر ہو کہ اللہ تعالیٰ کے نبی کو عطا کردہ علم میں اور دوسرے کسی بھی بڑے سے بڑے عالم کے علم میں کیا فرق ہوتا ہے، گویا یہ یوسف (علیہ السلام) کو عطا کردہ ایک معجزہ بھی تھا۔ یہاں یہ سوال خودبخود پیدا ہونا تھا کہ یہ علوم جن میں سے علم تعبیر بھی ہے، آپ کو کیسے حاصل ہوئے ؟ اس کے جواب میں یوسف (علیہ السلام) نے اس پورے معاشرے میں سے اپنے پر اس نعمت کے اسباب بیان فرمائے، پھر ان کو نہایت حکیمانہ طریقے سے دعوت توحید دی۔ چناچہ پہلی بات یہ فرمائی کہ یہ علوم مجھے میرے رب تعالیٰ نے عطا فرمائے ہیں، ( ” اِنِّىْ تَرَكْتُ “ میں ” اِنَّ “ سبب بیان کرنے کے لیے ہے) اس لیے کہ میں نے ان لوگوں کی ملت اور ان کے دین کو ان میں رہنے اور جوان ہونے کے باوجود چھوڑے رکھا، کبھی اختیار ہی نہیں کیا، جو اللہ پر ایمان نہیں رکھتے اور آخرت کے بھی وہ منکر ہیں، کیونکہ ایسے لوگ ان علوم کے لائق ہی نہیں ہوتے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

ذٰلِكُمَا مِمَّا عَلَّمَنِيْ رَبِّيْ اور یہ کوئی رمل، جفر کا فن یا کہانت وغیرہ کا شعبدہ نہیں، بلکہ میرا رب بذریعہ وحی مجھے بتلا دیتا ہے میں اس کی اطلاع دیدیتا ہوں اور یہ ایک کھلا معجزہ تھا جو دلیل نبوت اور اعتماد کا بہت بڑا سبب ہے

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قَالَ لَا يَاْتِيْكُمَا طَعَامٌ تُرْزَقٰنِہٖٓ اِلَّا نَبَّاْتُكُمَا بِتَاْوِيْـلِہٖ قَبْلَ اَنْ يَّاْتِيَكُمَا۝ ٠ۭ ذٰلِكُمَا مِمَّا عَلَّمَنِيْ رَبِّيْ۝ ٠ۭ اِنِّىْ تَرَكْتُ مِلَّۃَ قَوْمٍ لَّا يُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَہُمْ بِالْاٰخِرَۃِ ہُمْ كٰفِرُوْنَ۝ ٣٧- طعم - الطَّعْمُ : تناول الغذاء، ويسمّى ما يتناول منه طَعْمٌ وطَعَامٌ. قال تعالی: وَطَعامُهُ مَتاعاً لَكُمْ [ المائدة 96] ، قال : وقد اختصّ بالبرّ فيما روی أبو سعید «أنّ النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أمر بصدقة الفطر صاعا من طَعَامٍ أو صاعا من شعیر» «2» . قال تعالی: وَلا طَعامٌ إِلَّا مِنْ غِسْلِينٍ [ الحاقة 36] ، - ( ط ع م ) الطعم - ( س) کے معنی غذا کھانے کے ہیں ۔ اور ہر وہ چیز جو بطورغذا کھائی جائے اسے طعم یا طعام کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَطَعامُهُ مَتاعاً لَكُمْ [ المائدة 96] اور اس کا طعام جو تمہارے فائدہ کے لئے ۔ اور کبھی طعام کا لفظ خاص کر گیہوں پر بولا جاتا ہے جیسا کہ ابوسیعد خدری سے ۔ روایت ہے ان النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) امر بصدقۃ الفطر صاعا من طعام اوصاعا من شعیر ۔ کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صدقہ فطر میں ایک صحابی طعام یا ایک صاع جو د ینے کے حکم دیا ۔ قرآن میں ہے : وَلا طَعامٌ إِلَّا مِنْ غِسْلِينٍ [ الحاقة 36] اور نہ پیپ کے سوا ( اس کے ) لئے کھانا ہے - رزق - الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، - ( ر ز ق) الرزق - وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو - أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام 40]- ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی " آنا " ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو۔- علم ( تعلیم)- اختصّ بما يكون بتکرير وتكثير حتی يحصل منه أثر في نفس المُتَعَلِّمِ. قال بعضهم : التَّعْلِيمُ : تنبيه النّفس لتصوّر المعاني، والتَّعَلُّمُ : تنبّه النّفس لتصوّر ذلك، وربّما استعمل في معنی الإِعْلَامِ إذا کان فيه تكرير، نحو : أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] - تعلیم - کے معنی با ر بار کثرت کے ساتھ خبر دینے کے ہیں ۔ حتٰی کہ متعلم کے ذہن میں اس کا اثر پیدا ہوجائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ تعلیم کے معنی تصور کیلئے نفس کو متوجہ کرنا کے ہیں اور تعلم کے معنی ایسے تصور کی طرف متوجہ ہونا کے اور کبھی تعلیم کا لفظ اعلام کی جگہ آتا ہے جب کہ اس میں تاکید کے معنی مقصود ہوں جیسے فرمایا ۔ أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] کیا تم خدا کو اپنی دینداری جتلاتے ہو - ملل - المِلَّة کالدّين، وهو اسم لما شرع اللہ تعالیٰ لعباده علی لسان الأنبیاء ليتوصّلوا به إلى جوار الله، والفرق بينها وبین الدّين أنّ الملّة لا تضاف إلّا إلى النّبيّ عليه الصلاة والسلام الذي تسند إليه . نحو : فَاتَّبِعُوا مِلَّةَ إِبْراهِيمَ [ آل عمران 95] ، وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف 38] ولا تکاد توجد مضافة إلى الله، ولا إلى آحاد أمّة النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم، ولا تستعمل إلّا في حملة الشّرائع دون آحادها،- ( م ل ل ) الملۃ - ۔ دین کی طرح ملت بھی اس دستور نام ہے جو اللہ تعالیٰ نے انبیاء کی زبان پر بندوں کے لئے مقرر فرمایا تا کہ اس کے ذریعہ وہ قریب خدا وندی حاصل کرسکیں ۔ دین اور ملت میں فرق یہ ہے کی اضافت صرف اس نبی کی طرف ہوتی ہے جس کا وہ دین ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ فَاتَّبِعُوا مِلَّةَ إِبْراهِيمَ [ آل عمران 95] پس دین ابراہیم میں پیروی کرو ، وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف 38] اور اپنے باپ دادا کے مذہب پر چلتا ہوں ۔ اور اللہ تعالیٰ یا کسی اذا دامت کی طرف اسکی اضافت جائز نہیں ہے بلکہ اس قوم کی طرف حیثیت مجموعی مضاف ہوتا ہے جو اس کے تابع ہوتی ہے ۔ - كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

یوسف (علیہ السلام) کی تعبیر خواب میں حکمت تبلیغ - قول باری ہے قال لا باتیکما طعام ترزقا نہ الا نبا تکما بتاویلہ قبل ان یا تیکما ۔ یوسف نے کہا ۔ یہاں جو کھانا تمہیں ملا کرتا ہے اس کے آنے سے پہلے میں تمہیں ان خوابوں کی تعبیر بتادوں گا ۔ تا آخر آیت ۔ ابن جریج کا قول ہے کہ حضرت یوسف نے دونوں قیدی ساتھیوں کے خوابوں کی تعبیر فوری طور پر بتانے سے اس لیے پہلو تھی کی تھی کہ ان میں سے ایک کے خواب کی تعبیر بری تھی اس لیے آپ نے انہیں تعبیر بتانے کی بجائے ان سے وہ گفتگو کی جو آیت میں درج ہے لیکن دونوں نے اس وقت تک آپ کا پیچھا نہ چھوڑا جب تک آپ نے انہیں تعبیر نہ بتادی ۔ ایک قول کے مطابق آپ نے تعبیر بتانے سے پہلے ان دونوں سے یہ گفتگو اس لیے کی کہ انہیں پتہ چل جائے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی نبوت کی خلعت سے سرفراز کیا ہے ، نیز یہ کہ وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر آمادہ ہوجائیں۔- حضرت یوسف (علیہ السلام) ان لوگوں کے درمیان اس سے پہلے کافی عرصہ گزارچکے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کے متعلق یہ حکایت نہیں کی کہ آپ نے ان لوگوں کو کبھی اللہ کی طرف دعوت دی تھی جبکہ یہ لوگ بت پرستی میں مبتلا تھے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کی طرف سے انہیں توحید کی دعوت کو قبول کرلیں گے۔ لیکن جب آپ نے دیکھا کہ خواب کی تعبیر بتانے کے احسان کے زیراثر وہ لوگ آپکی طرف متوجہ ہیں تو آپ کو یہ توقع پیدا ہوگئی کہ اب یہ لوگ میری باتوں پر کان دھریں گے اور میری دعوت قبول کریں گے چناچہ آپ نے انہیں توحید باری کی دعوت دی جس کی حکایت اس قول باری میں ہوتی ہے۔ یا صاحبی السجنء ارباب متفرقون خیرا ام اللہ الواحد القھا اے زندان کے ساتھیوں تم خود ہی سوچو کہ بہت سے متفرق رب بہتر ہیں یا وہ ایک اللہ جو سب پر غالب ہے تا آخر آیت ثانیہ۔- حضرت یوسف (علیہ السلام) نے توحید باری کی تبلیغ کا جواز انداز اختیار کیا تھا وہ اس قول باری کے عین مطابق تھا ۔ ادع الی سبیل ربک بالحکمۃ والموعظۃ الحسنۃ ۔ اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی موعظت کے ذریعے لوگوں کو بلائو یعنی بڑی حکمت اور باریک بینی سے اس مناسب وقت کا انتظار کرتے رہو جب لوگ اللہ کے راستے کی طرف تمہاری دعوت پر کان دھرنے کے لیے آمادہ ہوں اور اس دعوت کو قبول کرنے کے لیے تیار ہوں ۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کی دعوت توحید کی حکایت اس لیے کی ہے کہ م بھی تبلیغ کے سلسلے میں ان کی اقتدا کریں۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٧) حضرت یوسف (علیہ السلام) نے ان دونوں سے فرمایا اور یوسف (علیہ السلام) کو جو علم کا معجزہ حاصل تھا اس سے بھی ان لوگوں کو آشنا کرنا چاہا کہ دیکھو جو کھانا تمہارے پاس آتا ہے کہ تمہیں کھانے کے لیے وہ ملتا ہے اس کے آنے سے پہلے ہی میں اس کی حقیقت اور رنگت تمہیں بتلا دیا کرتا ہوں تو پھر تمہارے خوابوں کی تعبیر سے کیوں کرواقف نہ ہوں گا، یہ بتلانا اس علم کی بدولت ہے جو میرے پروردگار نے مجھے دیا ہے میں نے تو ایسے لوگوں کے مذہب کی اتباع کی ہی نہیں جو اللہ تعالیٰ پر ایمان نہیں لاتے اور موت کے بعد کی زندگی کے بھی منکر ہیں۔- میں نے تو اپنے ان بزرگوار باپ داداؤں کے مذہب کو اختیار کر رکھا ہے یعنی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اسحاق (علیہ السلام) ، یعقوب (علیہ السلام) ۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٧ (قَالَ لَا يَاْتِيْكُمَا طَعَامٌ تُرْزَقٰنِهٖٓ اِلَّا نَبَّاْتُكُمَا بِتَاْوِيْـلِهٖ قَبْلَ اَنْ يَّاْتِيَكُمَا)- جیل میں قیدیوں کے کھانے کے اوقات مقرر ہوں گے۔ آپ نے فرمایا کہ آپ لوگ اب تعبیر کے بارے میں فکر مت کرو ‘ وہ تو میں کھانا آنے سے پہلے پہلے آپ لوگوں کو بتادوں گا لیکن میں تم لوگوں سے اس کے علاوہ بھی بات کرنا چاہتا ہوں ‘ لہٰذا اس وقت تم لوگ میری بات سنو۔ حضرت یوسف کا یہ طریقہ ایک داعی حق کے لیے راہنمائی کا ذریعہ ہے۔ ایک داعی کی ہر وقت یہ کوشش ہونی چاہیے کہ تبلیغ کے لیے حق بات لوگوں تک پہنچانے کے لیے جب اور جہاں موقع میسر آئے اس سے فائدہ اٹھائے۔ چناچہ حضرت یوسف نے دیکھا کہ لوگ میری طرف خود متوجہ ہوئے ہیں تو آپ نے اس موقع کو غنیمت جانا اور ان کی حاجت کو مؤخر کرکے پہلے انہیں پیغامِ حق پہنچانا ضروری سمجھا۔ - (ذٰلِكُمَا مِمَّا عَلَّمَنِيْ رَبِّيْ )- آپ نے انہی کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے اپنی بات شروع کی اور خوابوں کی تعبیر کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کا تعارف کرایا کہ یہ علم مجھے میرے رب نے سکھایا ہے اس میں میرا اپنا کوئی کمال نہیں ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

25: اس کا مطلب بعض مفسرین نے تو یہ بتایا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے انہیں اطمینان دلایا کہ میں تمہارے ان خوابوں کی تعبیر ابھی تھوڑی دیر میں بتاؤں گا، اور جو کھانا تمہیں جیل سے ملنے والا ہے، اس کے تمہارے پاس پہنچنے سے پہلے ہی بتا دُوں گا۔ اور بعض مفسرین نے اس کا مطلب یہ بیان فرمایا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے مجھے ایسا علم عطا فرمایا ہے کہ جو کھانا تمہیں جیل سے ملنے والا ہو اس کے آنے سے پہلے ہی میں تمہیں بتا سکتا ہوں کہ اس مرتبہ کونسا کھانا تمہیں دیا جائے گا۔ یعنی اﷲ تعالیٰ مجھے بہت سی باتیں وحی کے ذریعے بتا دیتے ہیں۔ یہ بات آپ نے اس لئے ارشاد فرمائی کہ آپ ان دونوں کو توحید کی دعوت دینا چاہتے تھے۔ اور ان کو آپ کے اس علم کا پتہ چلنے سے اس بات کی امید تھی، کہ وہ آپ کی بات کو غور سے سنیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ کسی کو دِین کی کوئی بات بتانی ہو تو اُس کے دل میں اپنا اعتماد پید اکرنے کے لئے اگر کوئی شخص اپنے علم کا اظہار کردے، اور محض بڑائی جتانا مقصود نہ ہو تو ایسا اظہار کرنا جائز ہے۔ 26: حضرت یوسف علیہ السلام نے جب دیکھا کہ یہ دونوں قیدی ان پر خواب کی تعبیر کے بارے میں بھروسہ کر رہے ہیں، اور انہیں نیک بھی سمجھتے ہیں تو خواب کی تعبیر بتانے سے پہلے اِن کو دین حق کی دعوت دینا مناسب سمجھا، بالخصوص اس وجہ سے بھی کہ ان میں سے ایک کے خواب کی تعبیر یہ تھی کہ اُسے سولی دی جائے گی، اور اُس طرح اس کی زندگی کی مہلت ختم ہونے والی ہے، اس لئے آپ نے چاہا کہ مرنے سے پہلے وہ ایمان لے آئے، تاکہ اس کی آخرت سنوَر جائے۔ یہی پیغمبرانہ اُسلوب ہے کہ وہ جب کوئی مناسب موقع دیکھتے ہیں، اپنی دعوت پیش کرنے سے نہیں چوکتے۔