38۔ 1 اجداد کو بھی آباء کہا، اس لئے کہ وہ بھی آباء ہی ہیں۔ پھر ترتیب میں جد اعلٰی (ابراہیم علیہ السلام) پھر جد اقرب (اسحاق علیہ السلام) اور پھر باپ (یعقوب علیہ السلام) کا ذکر کیا، یعنی پہلے۔ پہلی اصل، پھر دوسری اصل اور پھر تیسری اصل بیان کی۔ 38۔ 2 وہی توحید کی دعوت اور شرک کی تردید ہے جو ہر نبی کی بنیادی اور اولین تعلیم اور دعوت ہوتی ہے۔
وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ اٰبَاۗءِيْٓ ۔۔ : پھر انھیں اپنا اور اپنے آباء کا تعارف کروایا، کیونکہ داعی کی شخصیت بھی دعوت قبول کرنے میں مددگار ہوتی ہے، چناچہ فرمایا کہ میں نے اپنے آباء ابراہیم، اسحاق اور یعقوب (علیہ السلام) کی ملت اور ان کے دین کی پیروی کی ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ہم کسی صورت اللہ کے ساتھ کسی بھی چیز کو شریک کریں، خواہ وہ آدمی ہو یا فرشتہ، جن ہو یا بھوت پری، بت ہو یا قبر، پتھر ہو یا درخت، چاند سورج ہوں یا ستارے، غرض کسی کو بھی ہم ہرگز اللہ کا شریک نہیں بنا سکتے۔ ” مَا كَانَ لَنَآ “ میں نفی کی ” كَانَ “ کے ساتھ تاکید کا یہی معنی ہے۔ نیک آباء کی پیروی سعادت ہے، جب کہ گمراہ آباء کی تقلید ضلالت ہے، جیسا کہ ان قیدیوں کو فرمایا : (اِلَّآ اَسْمَاۗءً سَمَّيْتُمُوْهَآ اَنْتُمْ وَاٰبَاۗؤُكُمْ ) یعنی اللہ کے سوا جس کی بھی تم عبادت کرتے ہو وہ محض نام ہیں جو تم نے اور تمہارے آباء نے رکھ لیے ہیں، ایسے آباء کی پیروی گمراہی ہے۔- ذٰلِكَ مِنْ فَضْلِ اللّٰهِ عَلَيْنَا۔۔ : یعنی توحید کی یہ سمجھ عطا کرنا ہم پر اللہ کے بیشمار احسانوں میں سے ایک احسان ہے۔ ” وعلی الناس “ اور لوگوں پر بھی احسان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے ذریعے سے ان کو توحید سمجھانے کا انتظام فرمایا، لیکن اکثر لوگ اس نعمت کی قدر نہیں کرتے۔
اس کے بعداول کفر کی برائی اور ملت کفر سے اپنی بیزاری بیان کی اور پھر یہ بھی جتلا دیا کہ خاندان نبوت ہی کا ایک فرد اور انہی کی ملت حق کا پابند ہوں میرے آباء و اجداد ابراہیم واسحاق و یعقوب ہیں یہ خاندانی شرافت بھی عادۃ انسان کا اعتماد پیدا کرنے کا ذریعہ ہوتی ہے اس کے بعد بتلایا کہ ہمارے لئے کسی طرح جائز نہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو اس کی خدائی صفات میں شریک سمجھیں پھر فرمایا کہ یہ دین حق کی توفیق ہم پر اور سب لوگوں پر اللہ تعالیٰ ہی کا فضل ہے کہ اس نے سلامت فہم عطا فرما کر قبول حق ہمارے لئے آسان کردیا مگر بہت سے لوگ اس نعمت کی قدر اور شکر نہیں کرتے پھر انہی قیدیوں سے سوال کیا کہ اچھا تم ہی بتلاؤ کہ انسان بہت سے پروردگاروں کا پرستار ہو یہ بہتر ہے کہ صرف ایک اللہ کا بندہ بنے جس کا قہر وقوت سب پر غالب ہے پھر بت پرستی کی برائی ایک دوسرے طریقہ سے یہ بتلائی کہ تم نے اور تمہارے باپ دادوں نے کچھ بتوں کو اپنا پروردگار سمجھا ہوا ہے یہ تو صرف نام ہی نام کے ہیں جو تم نے گھڑ لئے ہیں نہ ان میں ذاتی صفات اس قابل ہیں کہ ان کو کسی ادنیٰ قوت و طاقت کا مالک سمجھا جائے کیونکہ وہ سب بےحس و حرکت ہیں یہ بات تو آنکھوں سے مشاہدہ کی ہے دوسرا راستہ ان کے معبود حق ہونے کا یہ ہوسکتا تھا کہ اللہ تعالیٰ ان کی پرستش کے لئے احکام نازل فرمائے تو اگرچہ مشاہدہ اور ظاہر عقل ان کی خدائی کو تسلیم نہ کرتے مگر حکم خداوندی کی وجہ سے ہم اپنے مشاہدہ کو چھوڑ کر اللہ کے حکم کی اطاعت کرتے مگر یہاں وہ بھی نہیں کیونکہ حق تعالیٰ نے ان کی عبادت کیلئے کوئی حجت و دلیل نازل نہیں فرمائی بلکہ اس نے یہی بتلایا کہ حکم اور حکومت سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی کا حق نہیں اور حکم یہ دیا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو یہی وہ دین قیّم ہے جو میرے آباء و اجداد کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوا مگر لوگ اس حقیقت کو نہیں جانتے،
وَاتَّبَعْتُ مِلَّۃَ اٰبَاۗءِيْٓ اِبْرٰہِيْمَ وَاِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ ٠ۭ مَا كَانَ لَنَآ اَنْ نُّشْرِكَ بِاللہِ مِنْ شَيْءٍ ٠ۭ ذٰلِكَ مِنْ فَضْلِ اللہِ عَلَيْنَا وَعَلَي النَّاسِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُوْنَ ٣٨- تبع - يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلک قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] - ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ - کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے - شرك - وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان :- أحدهما : الشِّرْكُ العظیم،- وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] ، - والثاني : الشِّرْكُ الصّغير،- وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ- [ الأعراف 190] ،- ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ - دین میں شریک دو قسم پر ہے - ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ - دوم شرک صغیر - کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔- فضل - الفَضْلُ : الزّيادة عن الاقتصاد، وذلک ضربان : محمود : کفضل العلم والحلم، و مذموم : کفضل الغضب علی ما يجب أن يكون عليه . والفَضْلُ في المحمود أكثر استعمالا، والفُضُولُ في المذموم، والفَضْلُ إذا استعمل لزیادة أحد الشّيئين علی الآخر - فعلی ثلاثة أضرب :- فضل من حيث الجنس، کفضل جنس الحیوان علی جنس النّبات .- وفضل من حيث النّوع، کفضل الإنسان علی غيره من الحیوان، وعلی هذا النحو قوله :- وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء 70] ، إلى قوله : تَفْضِيلًا - وفضل من حيث الذّات، کفضل رجل علی آخر . فالأوّلان جوهريّان لا سبیل للناقص فيهما أن يزيل نقصه وأن يستفید الفضل، کالفرس والحمار لا يمكنهما أن يکتسبا الفضیلة التي خصّ بها الإنسان، والفضل الثالث قد يكون عرضيّا فيوجد السّبيل علی اکتسابه، ومن هذا النّوع التّفضیل المذکور في قوله : وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل 71] ، لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء 12] ، يعني : المال وما يکتسب،- ( ف ض ل ) الفضل - کے منعی کسی چیز کے اقتضا ( متوسط درجہ سے زیادہ ہونا کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے محمود جیسے علم وحلم وغیرہ کی زیادتی مذموم جیسے غصہ کا حد سے بڑھ جانا لیکن عام طور الفضل اچھی باتوں پر بولا جاتا ہے اور الفضول بری باتوں میں اور جب فضل کے منعی ایک چیز کے دوسری پر زیادتی کے ہوتے ہیں تو اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں ( ۔ ) بر تری بلحاظ جنس کے جیسے جنس حیوان کا جنس نباتات سے افضل ہونا ۔ ( 2 ) بر تری بلحاظ نوع کے جیسے نوع انسان کا دوسرے حیوانات سے بر تر ہونا جیسے فرمایا : ۔ وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء 70]- اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی ۔ ( 3 ) فضیلت بلحاظ ذات مثلا ایک شخص کا دوسرے شخص سے بر تر ہونا اول الذکر دونوں قسم کی فضیلت بلحاظ جو ہر ہوتی ہے ۔ جن میں ادنیٰ ترقی کر کے اپنے سے اعلٰی کے درجہ کو حاصل نہیں کرسکتا مثلا گھوڑا اور گدھا کہ یہ دونوں انسان کا درجہ حاصل نہیں کرسکتے ۔ البتہ تیسری قسم کی فضیلت من حیث الذات چونکہ کبھی عارضی ہوتی ہے اس لئے اس کا اکتساب عین ممکن ہے چناچہ آیات کریمہ : ۔ وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل 71] اور خدا نے رزق ( دولت ) میں بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ۔ لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء 12] تاکہ تم اپنے پروردگار کا فضل ( یعنی روزی تلاش کرو ۔ میں یہی تیسری قسم کی فضیلت مراد ہے جسے محنت اور سعی سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔- شكر - الشُّكْرُ : تصوّر النّعمة وإظهارها، قيل : وهو مقلوب عن الکشر، أي : الکشف، ويضادّه الکفر، وهو : نسیان النّعمة وسترها۔ - والشُّكْرُ ثلاثة أضرب :- شُكْرُ القلب، وهو تصوّر النّعمة .- وشُكْرُ اللّسان، وهو الثّناء علی المنعم .- وشُكْرُ سائر الجوارح، وهو مکافأة النّعمة بقدر استحقاقه .- وقوله تعالی: اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ 13] ،- ( ش ک ر ) الشکر - کے معنی کسی نعمت کا تصور اور اس کے اظہار کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ کشر سے مقلوب ہے جس کے معنی کشف یعنی کھولنا کے ہیں ۔ شکر کی ضد کفر ہے ۔ جس کے معنی نعمت کو بھلا دینے اور اسے چھپا رکھنے کے ہیں - شکر تین قسم پر ہے - شکر قلبی یعنی نعمت کا تصور کرنا شکر لسانی یعنی زبان سے منعم کی تعریف کرنا شکر بالجوارح یعنی بقدر استحقاق نعمت کی مکافات کرنا ۔ اور آیت کریمہ : اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ 13] اسے داود کی آل میرا شکر کرو ۔
(٣٨) ہمارے لیے کسی طرح یہ مناسب نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ان بتوں میں سے کسی کو شریک عبادت قرار دے دیں اور یہ دین مستقیم اور نبوت واسلام جس کی بدولت اللہ تعالیٰ نے ہمیں عزت دی ہے یہ ہم پر اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اور دوسرے لوگوں پر بھی ان کی طرف اس نے ہمیں رسول بنا کر بھیجا، یا یہ کہ مومنین پر اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ ان کو ایمان لانے کی توفیق عطا فرمائی۔
آیت ٣٨ (وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ اٰبَاۗءِيْٓ اِبْرٰهِيْمَ وَاِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ )- آپ کی اس بات سے موروثی اور شعوری عقائد کا فرق سمجھ میں آتا ہے۔ یعنی ایک تو وہ عقائد و نظریات ہیں جو بچہ اپنے والدین سے اپناتا ہے ‘ جیسے ایک مسلمان گھرانے میں بچے کو موروثی طور پر اسلام کے عقائد ملتے ہیں۔ اللہ اور رسول کا نام وہ بچپن ہی سے جانتا ہے ‘ ابتدائی کلمے اس کو پڑھا دیے جاتے ہیں ‘ نماز بھی سکھا دی جاتی ہے۔ لیکن اگر وہ شعور کی عمر کو پہنچنے کے بعد اپنے آزادانہ انتخاب کے نتیجے میں اپنے علم اور غور و فکر سے کوئی عقیدہ اختیار کرے گا تو وہ اس کا شعوری عقیدہ ہوگا۔ چناچہ حضرت یوسف نے اپنے اس شعوری عقیدے کا ذکر کیا کہ اگرچہ وہ جن لوگوں کے درمیان زندگی گزار رہے ہیں وہ اللہ اس کے کسی نبی اور وحی وغیرہ کے تصورات سے نابلد ہیں ‘ سب کے سب کافر اور مشرک ہیں مگر مجھے دیکھو میں نے اس ماحول کا اثر قبول نہیں کیا اپنے ارد گرد کے لوگوں کے نظریات و عقائد نہیں اپنائے بلکہ پورے شعور کے ساتھ اپنے آباء و اَجداد کے نظریات کو صحیح مانتے ہوئے ان کی پیروی کر رہا ہوں صرف اس لیے نہیں کہ وہ میرے آباء و اَجداد تھے ‘ بلکہ اس لیے کہ یہی راستہ میرے نزدیک معقول اور عقل سلیم کے قریب تر ہے۔- (ذٰلِكَ مِنْ فَضْلِ اللّٰهِ عَلَيْنَا وَعَلَي النَّاسِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُوْنَ )- یعنی شرک سے بچنے اور توحید کو اپنانے کا عقیدہ دراصل اللہ کا اپنے بندوں پر بہت بڑا فضل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے۔ اس حیثیت میں انسان کے شایان شان نہیں ہے کہ وہ ان چیزوں کی پرستش کرتا پھرے جنہیں خود اس کی خدمت اور استفادے کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔