Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

55۔ 1 خزائن خزانۃ کی جمع ہے خزانہ ایسی جگہ کو کہتے ہیں جس میں چیزیں محفوظ کی جاتی ہیں زمین کے خزانوں سے مراد وہ گودام ہیں جہاں غلہ جمع کیا جاتا ہے۔ اس کا انتظام ہاتھ میں لینے کی خواہش اس لئے ظاہر کی کہ مستقبل قریب میں (خواب کی تعبیر کی رو سے) جو قحط سالی کے ایام آنے والے ہیں، اس سے نمٹنے کے لئے مناسب انتطامات کئے جاسکیں اور غلے کی معقول مقدار بچا کر رکھی جاسکے، عام حالات میں اگرچہ عہدہ و منصب کی طلب جائز نہیں ہے، لیکن حضرت یوسف (علیہ السلام) کے اس اقدام سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ خاص حالات میں اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ قوم اور ملک کو جو خطرات درپیش ہیں اور ان سے نمٹنے کی اچھی صلاحیت میرے اندر موجود ہیں جو دوسروں میں نہیں ہیں، تو وہ اپنی اہلیت کے مطابق اس مخصوص عہدے اور منصب کی طلب کرسکتا ہے علاوہ ازیں حضرت یوسف (علیہ السلام) نے تو سرے سے عہدا و منصب طلب ہی نہیں کیا، البتہ جب بادشاہ مصر نے انھیں پیشکش کی تو پھر ایسے عہدے کی خواہش کی جس میں انہوں نے ملک اور قوم کی خدمت کا پہلو نمایاں دیکھا۔ 55۔ 2 حَفِیْظ میں اس کی اس طرح حفاظت کروں گا کہ اسے کسی بھی غیر ضروری مصرف میں خرچ نہیں کروں گا عَلِیْم اس کو جمع کرنے اور خرچ کرنے اور اس کے رکھنے اور نکالنے کا بخوبی علم رکھتا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥٤] سیدنا یوسف نے شاہ مصر سے کس چیز کا مطالبہ کیا تھا :۔ اس کے جواب میں سیدنا یوسف نے کہا کہ پھر آپ مجھے ملک کے سیاہ وسفید کا مالک بنا دیجئے اور یہ بات تو آپ لوگ بھی سمجھ چکے ہیں کہ میں اس نظم و نسق کو پوری احتیاط کے ساتھ چلانے کی اہلیت رکھتا ہوں۔ بادشاہ سے آپ کے اس مطالبہ سے متعلق چند امور غور طلب ہیں :- بعض مفسرین نے خزائن الارض کے مطالبہ سے یہ سمجھا کہ آپ نے محکمہ مال کے افسر اعلیٰ یا وزیرخزانہ کا عہدہ طلب کیا تھا۔ جو ملکی معیشت سے تعلق رکھتا تھا۔ کیونکہ آپ نے خواب کی جو تعبیر بتلائی تھی وہ اسی شعبہ سے تعلق رکھتی تھی اور آئندہ جو برادران یوسف کے مصر میں آنے کا ذکر ہے۔ وہ بھی اسی شعبہ سے تعلق ہے لیکن اس پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ آیا ایک نبی کسی کافرانہ حکومت کا کل پرزہ بن کر رہ سکتا ہے ؟ ظاہر ہے کہ ایک نبی کے لیے کسی بھی صورت یہ شایان شان نہیں کہ وہ اس بات کو گوارا کرلے۔ لہذا یہاں خزائن الارض سے مراد مکمل اقتدار یا ملک کے سیاہ وسفید کا مختار ہونا ہے۔ بالخصوص اس لحاظ سے کہ ان الفاظ میں اس معنی کی بھی گنجائش موجود ہے اور اس لیے بھی کہ اس سے اگلی آیت میں واضح طور پر یہ الفاظ موجود ہیں۔ (وَكَذٰلِكَ مَكَّنَّا لِيُوْسُفَ فِي الْاَرْضِ ۚ يَتَبَوَّاُ مِنْهَا حَيْثُ يَشَاۗءُ ۭ نُصِيْبُ بِرَحْمَتِنَا مَنْ نَّشَاۗءُ وَلَا نُضِيْعُ اَجْرَ الْمُحْسِـنِيْنَ 56؀) 12 ۔ یوسف :56) لہذا عَلٰی خَزَائِنِ الاَرْضِ سے محض وزارت خزانہ یا شعبہ مالیات مراد لینا درست نہیں۔- طلب امارت کس صورت میں مذموم ہے ؟ دوسری بات یہ ہے کہ طلب امارت شرعاً ممنوع اور مذموم چیز ہے تو پھر سیدنا یوسف نے ایسا مطالبہ کیوں کیا تھا ؟ بالخصوص اس صورت میں جبکہ بادشاہ کافر بھی تھا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ طلب امارت صرف اس صورت میں ممنوع اور مذموم ہے جبکہ اس کا جذبہ محرکہ یا مقصود صرف حب جاہ و مال ہو۔ لیکن جہاں ملک بھر کا انتظام درہم برہم ہو رہا ہو یا کسی بڑے مفسدہ کا خطرہ موجود ہو اور مطالبہ کرنے والے کو یہ بھی علم ہو کہ کوئی دوسرا اس کے سوا یہ بوجھ برداشت کرنے کے قابل نہیں تو اس وقت معاملہ بالکل برعکس ہوجاتا ہے اور اس وقت مطالبہ نہ کرنا مذموم بن جاتا ہے۔ رہی یہ بات کہ سیدنا یوسف نے ایک کافر بادشاہ سے مطالبہ کیوں کیا تھا تو اس کا جواب پہلے گزر چکا کہ یہ مطالبہ محض طلب امارت کا نہ تھا بلکہ پورے اقتدار کا مطالبہ تھا۔ یعنی ملک کا پورے کا پورا اقتدار ہی سیدنا یوسف کے حوالہ کردیا جائے۔ چناچہ بادشاہ نے اپنے درباریوں سے اس مطالبہ کے متعلق مشورہ کیا۔ جس میں یہی طے ہوا کہ مکمل اقتدار سیدنا یوسف (علیہ السلام) کے حوالہ کردیا جائے اس لیے کہ سات سالہ قحط پر کنٹرول اور ملکی معیشت کو تباہی سے بچانے کے لیے انھیں کوئی دوسرا آدمی نظر نہیں آرہا تھا۔ اور اس مشورہ پر عمل درآمد کے بعد بادشاہ صرف برائے نام بادشاہ رہ گیا تھا۔ جملہ اختیارات سیدنا یوسف (علیہ السلام) کی طرف منتقل ہوگئے تھے۔ لہذا یہ طلب امارت نہیں بلکہ حق کی فتح تھی۔ چناچہ بعد میں ملک بھر کا پورا انتظام سیدنا یوسف نے اپنی مرضی کے مطابق چلایا تھا اور قرآن نے بھی اس منتقلی اقتدار کے بعد بادشاہ کے لیے ملک کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ (نیز دیکھئے سورة بنی اسرائیل آیت نمبر ٨٢ کا حاشیہ)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قَالَ اجْعَلْنِيْ عَلٰي خَزَاۗىِٕنِ الْاَرْضِ ۔۔ : ” الْاَرْضِ “ میں الف لام عہد کا ہے ” اس زمین “ یعنی مجھے سرزمین مصر کے خزائن پر مقرر کردیجیے، کیونکہ میں ان کی پوری طرح حفاظت کرسکتا ہوں اور اس کام کو اچھی طرح جانتا ہوں۔ ” خزائن “ ” خَزَانَۃٌ“ کی جمع ہے، اس سے مراد یا تو ان گوداموں کا نظام ہے جو خوش حالی کے سالوں کے لیے تعمیر کیے جائیں گے اور غلہ سنبھالیں گے اور قحط کے سالوں میں ان سے غلہ تقسیم کیا جائے گا، کیونکہ اس کے لیے بہت بڑی منصوبہ بندی، محنت و امانت اور حساب کتاب میں مہارت کی ضرورت ہے، یا مراد سلطنت کے تمام ذرائع آمدنی و پیداوار ہیں۔ قرآن میں ” خزائن “ کا لفظ عموماً اسی معنی میں استعمال ہوا ہے، جیسا کہ ارشاد ہے : ( وَلِلّٰهِ خَزَاۗىِٕنُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ) [ المنافقون : ٧ ] ” حالانکہ آسمانوں کے اور زمین کے خزانے اللہ ہی کے ہیں۔ “ اور دیکھیے سورة انعام (٥٠) ، بنی اسرائیل (١٠٠) ، صٓ (٩) ، طور (٣٧) اور حجر (٢١) اور یہی معنی یہاں صحیح ہے، کیونکہ خوش حالی کے سالوں میں گوداموں کی تعمیر، پھر سات سال تک پورے ملک کے لوگوں سے ضرورت سے زائد گندم خریدنا، حکومت کی آمدنی کے تمام ذرائع پر مکمل اختیار کے بغیر ممکن نہ تھا، تاکہ ملک بھی چلتا رہے اور جنس کی خریداری کے لیے رقم بھی مہیا ہو سکے اور گودام بھی تعمیر ہو سکیں۔ مطلب یہ ہے کہ جب یوسف (علیہ السلام) نے دیکھا کہ بادشاہ کی نگاہ میں ان کی قدر و منزلت بڑھ گئی ہے اور وہ انھیں ہر طرح کے اختیارات سونپنے کو تیار ہے تو اپنی اہلیت پر اعتماد کرتے ہوئے یہ پیش کش مناسب سمجھی کہ سلطنت کے تمام ذرائع آمدنی و پیداوار میرے حوالے کردیے جائیں، بلکہ آئندہ آیات (١٠٠، ١٠١) سے تو معلوم ہوتا ہے کہ آخر کار مصر میں یوسف (علیہ السلام) ہی تخت نشین ہوگئے تھے، یا کم از کم عملاً حکومت انھی کی تھی اور یہ پیش کش اس لیے بھی تھی کہ یوسف (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے نبی تھے، اس ملک کے تمام اختیارات پر قبضہ ان کے لیے اس لیے بھی ضروری تھا کہ وہ توحید کی اشاعت اور شرک کا استیصال کرسکیں۔ - 3 یہاں ایک سوال اٹھایا جاتا ہے کہ یوسف (علیہ السلام) نے خود عہدہ مانگا جب کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عہدہ مانگنے یا اس کی حرص رکھنے والے کے متعلق فرمایا : ( لاَ نَسْتَعْمِلُ عَلٰی عَمَلِنَا مَنْ أَرَادَہٗ ) [ بخاری، الإجارۃ، باب استئجار الرجل الصالح۔۔ : ٢٢٦١ ]” ہم ایسے شخص کو ہرگز عہدہ نہیں دیں گے جو اس کا ارادہ رکھے۔ “ اس کے کئی جواب ہیں جن میں سے سب سے صحیح اور مضبوط جواب یہ ہے کہ بادشاہ نے یوسف (علیہ السلام) کو عہدے پر تو فائز کر ہی دیا تھا : ( اِنَّكَ الْيَوْمَ لَدَيْنَا مَكِيْنٌ اَمِيْنٌ) [ یوسف : ٥٤ ] ” بلاشبہ تو آج ہمارے ہاں صاحب اقتدار، امانت دار ہے۔ “ جس طرح آج کل پہلے وزیر چن لیے جاتے ہیں اور پھر وہ اپنے لیے شعبے کا انتخاب خود کرتے ہیں، اسی طرح جب بادشاہ نے انھیں اپنے ہاں پوری طرح صاحب اقتدار اور امانت دار قرار دے دیا تو یوسف (علیہ السلام) جانتے تھے کہ اس منصب کے تقاضے خزانے پر مکمل اختیار کے بغیر پورے ہو ہی نہیں سکتے، سو ان کے لیے یہ اختیار طلب کرنے کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں تھا۔ خلاصہ یہ کہ انھوں نے عہدہ ہرگز نہیں مانگا، بلکہ انھیں جب عہدے سے نوازا گیا تو انھوں نے اس کی عملی صورت پیش فرمائی۔ - دوسرا جواب یہ ہے کہ اگر کسی کو اصرار ہو کہ انھوں نے عہدہ مانگا ہے تو ٹھیک ہے جو شخص یوسف (علیہ السلام) جیسے مقام پر فائز ہو وہ بیشک عہدہ مانگ لے، جو ان جیسے اوصاف رکھتا ہو، انسان کی سب سے منہ زور قوت (جنس) سمیت تمام بہیمانہ قوتوں مثلاً غصے، خیانت اور ظلم وغیرہ پر ان کی طرح قابو رکھتا ہو اور نبوت سے بھی سرفراز ہو، کیونکہ ایسی صورت میں نہ اس عہدے کی ذمہ داری کے ضائع ہونے کا خطرہ ہے نہ خیانت کا۔ دوسرا شخص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم پر عمل کرے اور آرام سے رہے، خود اپنے آپ کو اس آزمائش میں نہ ڈالے جس کا انجام رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں واضح طور پر بتادیا۔ ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَا مِنْ أَمِیْرِ عَشَرَۃٍ إِلاَّ یُؤْتٰی بِہٖ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مَغْلُوْلاً لَا یَفُکُّہٗ إِلاَّ الْعَدْلُ أَوْ یُوْبِقُہُ الْجَوْرُ ) [ مسند أحمد : ٢؍٤٣١، ح : ٩٥٨٦۔ سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ : ٦؍٢٣٧، ح : ٢٦٢١ ]” کوئی بھی دس آدمیوں کا امیر ہو اسے طوق پہنا کر لایا جائے گا، عدل کے سوا کوئی چیز اسے نہیں چھڑائے گی، یا ظلم اسے ہلاک کر دے گا۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

اس پر یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا - (آیت) اِجْعَلْنِيْ عَلٰي خَزَاۗىِٕنِ الْاَرْضِ ۚ اِنِّىْ حَفِيْظٌ عَلِيْمٌ یعنی ملک کے خزانے (جن میں زمین کی پیداوار بھی شامل ہے آپ میرے سپرد کردیں میں ان کی حفاظت بھی پوری کرسکتا ہوں اور خرچ کرنے کے مواقع اور مقدار خرچ کے اندازہ سے بھی پورا واقف ہوں (قرطبی ومظہری)- ان دو لفظوں میں حضرت یوسف (علیہ السلام) نے ان تمام اوصاف کو جمع کردیا جو ایک وزیر میں ہونے چاہئیں کیونکہ پہلی ضرورت تو امین خزانہ کے لئے اس کی ہے کہ وہ سرکاری اموال کو ضائع نہ ہونے دے بلکہ پوری حفاظت سے جمع کرے پھر غیر لوگوں اور غلط قسم کے مصارف میں خرچ نہ ہونے دے اور دوسری ضرورت اس کی ہے کہ جہاں جس قدر خرچ کرنا ضروری ہے اس میں نہ کوتاہی کرے اور نہ مقدار ضرورت سے زائد خرچ کرے، لفظ حفیظ پہلی ضرورت کی پوری ضمانت ہی اور لفظ علیم دوسری ضرورت کی - شاہ مصر اگرچہ یوسف (علیہ السلام) کے کمالات کا گرویدہ اور ان کی دیانت اور عقل کامل کا پورا معتقد ہوچکا تھا، مگر بالفعل وزارت خزانہ کا منصب ان کو سپرد نہیں کیا بلکہ ایک سال تک ایک معزز مہمان کی طرح رکھا - سال بھر پورا ہونے کے بعد نہ صرف وزارت خزانہ بلکہ پورے امور مملکت ان کے سپرد کر دئیے شاید مقصد یہ تھا کہ جب تک گھر میں رکھ کر ان کے اخلاق و عادات کا پورا تجربہ نہ ہوجائے اتنا بڑا منصب سپرد کرنا مناسب نہیں جیسا کہ سعدی شیرازی (رح) نے فرمایا ہے،- چو یوسف کسے درصلاح وتمیز بیک سال باید کہ گرددعزیز - بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ اسی زمانہ میں زلیخا کے شوہر قطفیر کا انتقال ہوگیا تو شاہ مصر نے حضرت یوسف (علیہ السلام) سے ان کی شادی کردی اس وقت یوسف (علیہ السلام) نے ان سے فرمایا کہ کیا یہ صورت اس سے بہتر نہیں ہے جو تم چاہتی تھیں زلیخا نے اعتراف قصورت کے ساتھ اپنا عذر بیان کیا اللہ تعالیٰ جل شانہ نے بڑی عزت وشان کے ساتھ ان کی مراد پوری فرمائی اور عیش ونشاط کے ساتھ زندگی گذری تاریخی روایات کے مطابق دو لڑکے بھی پیدا ہوئے جن کا نام افرائیم اور منشا تھا - بعض روایات میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے شادی کے بعد یوسف (علیہ السلام) کے دل میں زلیخا کی محبت اس سے زیادہ پیدا کردی جتنی زلیخا کو یوسف (علیہ السلام) سے تھی یہاں تک کہ ایک مرتبہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے ان سے شکایت کی کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ تم مجھ سے اب اتنی محبت نہیں رکھتیں جتنی پہلے تھی زلیخا نے عرض کیا کہ آپ کے وسیلہ سے مجھے اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل ہوگئی اس کے سامنے سب تعلقات اور خیالات مضمحل ہوگئے یہ واقعہ بعض دوسری تفصیلات کے ساتھ تفسیر قرطبی اور مظہری میں بیان ہوا ہے،- قصہ یوسف (علیہ السلام) کے ضمن میں جو عام انسانوں کی صلاح و فلاح کے لئے بہت سی ہدایات اور تعلیمات آئی ہیں ان کا ذکر کچھ پہلے ہوچکا ہے مذکور الصدر آیات میں مزید مسائل اور ہدایات حسب ذیل ہیں - پہلامسئلہ : حضرت یوسف (علیہ السلام) کے قول وَمَآ اُبَرِّئُ نَفْسِيْ میں نیک اور متقی پرہیزگار بندوں کے لئے یہ ہدایت ہے کہ جب ان کو کسی گناہ سے بچنے کی توفیق ہوجائے تو اس پر ناز نہ کریں اور اس کے بالمقابل گناہگاروں کو حقیر نہ سمجھیں بلکہ ارشاد یوسفی کے مطابق اس بات کو اپنے دل میں جمائیں کہ یہ ہمارا کوئی ذاتی کمال نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے نفس امارہ کو ہم پر غالب نہیں آنے دیا ورنہ ہر انسان کا نفس اس کو طبعی طور پر برے ہی کاموں کی طرف کھینچتا ہے - حکومت کا کوئی عہدہ خود طلب کرنا جائز نہیں مگر چند شرائط کے ساتھ اجازت ہے :- دوسرامسئلہ : اجْعَلْنِيْ عَلٰي خَزَاۗىِٕنِ الْاَرْضِ سے یہ معلوم ہوا کہ کسی سرکاری عہدہ اور منصب کو طلب کرنا خاص صورتوں میں جائز ہے جیسے یوسف (علیہ السلام) نے خزائن ارض کا انتظام اور ذمہ داری طلب فرمائی ،- مگر اس میں یہ تفصیل ہے کہ جب کسی خاص عہدہ کے متعلق یہ معلوم ہو کہ کوئی دوسرا آدمی اس کا اچھا انتظام نہیں کرسکے گا اور اپنے بارے میں یہ اندازہ ہو کہ عہدہ کے کام کا خود طلب کرلینا بھی جائز ہے بشرطیکہ حُبّ جاہ ومال اس کا سبب نہ ہو بلکہ خلق اللہ تعالیٰ کی صحیح خدمت اور انصاف کے ساتھ ان کے حقوق پہنچانا مقصود ہو جیسے حضرت یوسف (علیہ السلام) کے سامنے صرف یہی مقصد تھا اور جہاں یہ صورت نہ ہو تو حدیث میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکومت کا کوئی عہدہ خود طلب کرنے سے منع فرمایا ہے اور جس نے خود کسی عہدہ کی درخواست کی اس کو عہدہ نہیں دیا - صحیح مسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عبدالرحمن بن سمرہ (رض) سے فرمایا کہ کبھی کوئی امارت طلب نہ کرو کیونکہ تم نے خود سوال کر کے عہدۃ امارت حاصل بھی کرلی تو اللہ تعالیٰ کی تائید نہیں ہوگی جس کے ذریعہ تم لغزشوں اور خطاؤں سے بچ سکو اور اگر بغیر درخواست اور طلب کے تمہیں کوئی عہدہ مل گیا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تائید واعانت ہوگی جس کی وجہ سے تم اس عہدے کے پورے حقوق ادا کرسکو گے - اسی طرح صحیح مسلم کی ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کسی عہدہ کی درخواست کی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا انَّا لن نَّستَعملَ عَلیٰ عَملنا مَن اَرَادَہٗ یعنی ہم اپنا عہدہ کسی ایسے شخص کو نہیں دیا کرتے جو خود اس کا طالب ہو،- حضرت یوسف (علیہ السلام) کا طلب عہدہ خاص حکمت پر مبنی تھا :- مگر حضرت یوسف (علیہ السلام) کا معاملہ اس سے مختلف ہے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ بادشاہ مصر کافر ہے اس کا عملہ بھی ایسا ہی ہے اور ملک پر ایک طوفانی قحط آنے والا ہے اس وقت خود غرض لوگ عام خلق اللہ پر رحم نہ کھائیں گے اور لاکھوں انسان بھوک سے مر جائیں گے کوئی دوسرا آدمی ایسا موجود نہ تھا جو غریبوں کے حقوق میں انصاف کرسکے اس لئے خود اس عہدہ کی درخواست کی اگرچہ اس کے ساتھ کچھ اپنے کمالات کا اظہار بھی بضرورت کرنا پڑا تاکہ بادشاہ مطمئن ہو کر عہدہ ان کو سپرد کر دے،- اگر آج بھی کوئی شخص یہ محسوس کرے کہ کوئی عہدہ حکومت کا ایسا ہے جس کے فرائض کو کوئی دوسرا آدمی صحیح طور پر انجام دینے والا موجود نہیں اور خود اس کو یہ اندازا ہے کہ میں صحیح انجام دے سکتا ہوں تو اس کے لئے جائز ہے بلکہ واجب ہے کہ اس عہدہ کی خود درخواست کرے مگر اپنے جاہ ومال کے لئے نہیں بلکہ خدمت خلق کے لئے جس کا تعلق قلبی نیت اور ارادہ سے ہے جو اللہ تعالیٰ پر خوب روشن ہے (قرطبی)- حضرات خلفائے راشدین کا خلافت کی ذمہ داری اٹھا لینا اسی وجہ سے تھا کہ وہ جانتے تھے کہ کوئی دوسرا اس وقت اس ذمہ داری کو صحیح انجام نہ دے سکے گا صحابہ کرام (رض) حضرت علی (رض) اور معاویہ (رض) و حضرت حسین (رض) اور عبداللہ بن زبیر (رض) وغیرہم کے جو اختلافات پیش آئے وہ سب اسی پر مبنی تھے کہ ان میں سے ہر ایک یہ خیال کرتا تھا کہ اس وقت فرائض خلافت کو میں اپنے مقابل سے زیادہ حکمت و قوت کے ساتھ پورا کرسکوں گا جاہ و مال کی طلب کسی کا مقصد اصلی نہ تھا - کیا کسی کافر حکومت کا عہدہ قبول کرنا جائز ہے :- تیسرا مسئلہ : یہ ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے بادشاہ مصر کی ملازمت قبول فرمائی حالانکہ وہ کافر تھا جس سے معلوم ہوا کہ کافر یا فاسق حکمران کا عہدہ قبول کرنا خاص حالات میں جائز ہے،- لیکن امام جصاص (رح) نے آیت کریمہ فَلَنْ اَكُوْنَ ظَهِيْرًا لِّلْمُجْرِمِيْنَ کے تحت لکھا ہے کہ اس آیت کی رو سے ظالموں کافروں کی اعانت کرنا ہے اور ایسی اعانت کو قرآن کریم کی بہت سے آیتوں میں حرام قرار دیا گیا ہے،- حضرت یوسف (علیہ السلام) نے جو اس ملازمت کو نہ صرف قبول فرمایا بلکہ درخواست کر کے حاصل کیا اس کی خاص وجہ امام تفسیر مجاہد (رح) نے یہ قرار دی ہے کہ بادشاہ مصر اس وقت مسلمان ہوچکا تھا مگر چونکہ قرآن وسنت میں اس کی کوئی دلیل موجود نہیں اس لئے عام مفسرین نے اس کی وجہ یہ قرار دی ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) بادشاہ مصر کے معاملہ سے یہ معلوم کرچکے تھے کہ وہ ان کے کام میں دخل نہ دے گا اور کسی خلاف شرع قانون جاری کرنے پر ان کو مجبور نہ کرے گا بلکہ ان کو مکمل اختیارات دے گا جس کے ذریعہ وہ اپنی صوابدید اور قانون حق پر عمل کرسکیں گے ایسے مکمل اختیار کے ساتھ کہ کسی خلاف شرع قانون پر مجبور نہ ہو کوئی کافر یا ظالم کی ملازمت اختیاکر لے تو اگرچہ اس کافر ظالم کے ساتھ تعاون کرنے کی قباحت پھر بھی موجود ہے مگر جن حالات میں اس کو اقتدار سے ہٹانا قدرت میں نہ ہو اور اس کا عہدہ قبول نہ کرنے کی صورت میں خلق اللہ کے حقوق ضائع ہونے یا ظلم وجور کا اندیشہ قوی ہو تو بمجبوری اتنے تعاون کی گنجائش حضرت یوسف (علیہ السلام) کے عمل سے ثابت ہوجاتی ہے جس میں خود کسی خلاف شرع امر کا ارتکاب نہ کرنا پڑے کیونکہ درحقیقت یہ اس کے گناہ میں اعانت نہیں ہوگی گو سبب بعید کے طور پر اس سے بھی اس کی اعانت کا فائدہ حاصل ہوجائے اعانت کے ایسے اسباب بعیدہ کے بارے میں بحالات مذکورہ شرعی گنجائش ہے جس کی تفصیل حضرات فقہاء نے بیان فرمائی ہے سلف صالحین صحابہ وتابعین میں بہت سے حضرات کا ایسے ہی حالات میں ظالم و جابر حکمرانوں کا عہدہ قبول کرلینا ثابت ہے (قرطبی، مظہری)- علامہ مادردی نے سیاست شرعیہ سے متعلق اپنی کتاب میں نقل کیا ہے کہ بعض حضرات نے یوسف (علیہ السلام) کے اس عمل کی بناء پر کافر اور ظالم حکمرانوں کا عہدہ قبول کرنا اس شرط کے ساتھ جائز رکھا ہے کہ خود اس کو کوئی کام خلاف شرع نہ کرنا پڑے اور بعض حضرات نے اس شرط کے ساتھ بھی اس کو اس لئے جائز نہیں رکھا کہ اس میں بھی اہل ظلم وجور کی تقویت اور تائید ہوتی ہے یہ حضرات یوسف (علیہ السلام) کے فعل کی مختلف توجیہات بیان کرتے ہیں جن کا حاصل یہ ہے کہ یہ عمل حضرت یوسف (علیہ السلام) کی ذات یا ان کی شریعت کے ساتھ مخصوص تھا اب دوسروں کے لئے جائز نہیں مگر جمہور علماء فقہاء نے پہلے ہی قول کو اختیار فرما کر جائز قرار دیا ہے (قرطبی)- تفسیر بحر محیط میں ہے جہاں یہ معلوم ہو کہ علماء صلحاء اگر یہ عہدہ قبول نہ کریں گے تو لوگوں کے حقوق ضائع ہوجائیں گے انصاف نہ ہو سکے گا وہاں ایسا عہدہ قبول کرلینا جائز بلکہ ثواب ہے بشرطیکہ اس عہدہ میں خود اس کو خلاف شرع امور کے ارتکاب پر مجبوری پیش نہ آئے،- چوتھا مسئلہ : حضرت یوسف (علیہ السلام) کے قول اِنِّىْ حَفِيْظٌ عَلِيْمٌ سے یہ ثابت ہوا کہ ضرورت کے موقع پر اپنے کسی کمال یا فضیلت کا ذکر کردینا تزکیہ نفس یعنی پاکبازی جتلانے میں داخل نہیں جس کی قرآن کریم میں ممانعت آئی ہے بشرطیکہ اس کا ذکر کرنا کبر و غرور اور فخر و تعلی کی وجہ سے نہ ہو۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قَالَ اجْعَلْنِيْ عَلٰي خَزَاۗىِٕنِ الْاَرْضِ۝ ٠ۚ اِنِّىْ حَفِيْظٌ عَلِيْمٌ۝ ٥٥- خزن - الخَزْنُ : حفظ الشیء في الخِزَانَة، ثمّ يعبّر به عن کلّ حفظ کحفظ السّرّ ونحوه، وقوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا عِنْدَنا خَزائِنُهُ [ الحجر 21]- ( خ زن ) الخزن - کے معنی کسی چیز کو خزانے میں محفوظ کردینے کے ہیں ۔ پھر ہر چیز کی حفاظت کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے جیسے بھیدہ وغیرہ کی حفاظت کرنا اور آیت :۔ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا عِنْدَنا خَزائِنُهُ [ الحجر 21] اور ہمارے ہاں ہر چیز کے خزانے ہیں ۔ - أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ - حفظ - الحِفْظ يقال تارة لهيئة النفس التي بها يثبت ما يؤدي إليه الفهم، وتارة لضبط الشیء في النفس، ويضادّه النسیان، وتارة لاستعمال تلک القوة، فيقال : حَفِظْتُ كذا حِفْظاً ، ثم يستعمل في كلّ تفقّد وتعهّد ورعاية، قال اللہ تعالی: وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [يوسف 12]- ( ح ف ظ ) الحفظ - کا لفظ کبھی تو نفس کی اس ہیئت ( یعنی قوت حافظہ ) پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ جو چیز سمجھ میں آئے وہ محفوظ رہتی ہے اور کبھی دل میں یاد ررکھنے کو حفظ کہا جاتا ہے ۔ اس کی ضد نسیان ہے ، اور کبھی قوت حافظہ کے استعمال پر یہ لفظ بولا جاتا ہے مثلا کہا جاتا ہے ۔ حفظت کذا حفظا یعنی میں نے فلاں بات یاد کرلی ۔ پھر ہر قسم کی جستجو نگہداشت اور نگرانی پر یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [يوسف 12] اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٥٥) حضرت یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا مجھے مصر کے خزانوں پر مقرر کردیجیے میں اس کی مقدار وغیرہ کی حفاظت بھی رکھوں گا اور قحط سالی کے زمانہ وقوع سے بھی اچھی طرح واقف ہوں یا یہ کہ جو کام آپ میرے سپرد کریں گے میں اس کی حفاظت بھی کروں گا اور ان تمام لوگوں کی زبانوں سے بھی خوب واقف ہوں جو آپ کے پاس آتے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥٥ (قَالَ اجْعَلْنِيْ عَلٰي خَزَاۗىِٕنِ الْاَرْضِ ۚ اِنِّىْ حَفِيْظٌ عَلِيْمٌ)- حضرت یوسف جان چکے تھے کہ اس ملک پر بہت بڑی آفت آنے والی ہے اور اگر اس ممکنہ صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے بر وقت درست اور مؤثر اقدام نہ کیے گئے تو نہ صرف خود مصر ایک خوفناک قحط کی زد میں آجائے گا بلکہ آس پاس کے علاقوں کے لیے بھی بہت بھیانک حالات پیدا ہوجائیں گے۔ اس پورے خطے میں مصر ہی ایک ایسا ملک تھا جہاں غلہ اور دوسری اشیائے خوراک پیدا ہوتی تھیں۔ اس کے ہمسایہ میں چاروں طرف خشک صحرائی علاقے تھے اور اناج وغیرہ کے سلسلے میں ان علاقوں کا انحصار بھی مصر کی زراعت پر تھا۔ یہی وجہ تھی کہ آپ نے موقع دیکھا تو فوراً اپنی خدمات پیش کردیں کہ اگر خزانے اور خوراک و زراعت کا پورا انتظام و انصرام میرے پاس ہوگا تو میں اس آفت کا سامنا کرنے کے لیے جامع اور ٹھوس منصوبہ بندی کرسکوں گا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

35: عام حالات میں حکومت کا کوئی عہدہ خود طلب کرنا شرعی اعتبار سے جائز نہیں ہے، اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی ممانعت فرمائی ہے ؛ لیکن جب کسی سرکاری عہدہ کے نااہلوں کے سپرد ہونے کی وجہ سے خلق خدا کی پریشانی کا قوی خطرہ ہو تو ایسی مجبوری کی حالت میں کسی نیک پارسا اور متقی آدمی کے لئے عہدے کا طلب کرنا جائز ہے، یہاں حضرت یوسف (علیہ السلام) کو اندیشہ تھا کہ قحط کا جو زمانہ آنے والا ہے اس میں لوگوں کے ساتھ ناانصافیاں ہوں گی، اس کے علاوہ اس ملک میں اللہ تعالیٰ کا قانون جاری کرنے کا اس کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) خود یہ ذمہ داری قبول فرمائیں، اور اللہ تعالیٰ کے احکام کو نافذ فرمائیں، اس لئے آپ نے ملک کے خزانوں کا انتظام اپنے سر لے لیا، پھر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رفتہ رفتہ بادشاہ نے حکومت کے سارے اختیارات انہی کے سپرد کردئے تھے اور وہ پورے ملک کے حکمران بن گئے تھے اور حضرت مجاہد (رح) کی روایت یہ ہے کہ بادشاہ ان کے ہاتھ پر مسلمان بھی ہوگیا تھا، لہذا حضرت یوسف (علیہ السلام) کا اس ذمہ داری کو قبول کرنا پورے ملک پر اللہ تعالیٰ کا قانون انصاف نافذ ہونے کا ذریعہ بن گیا۔