Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

زمین مصر میں یوں حضرت یوسف علیہ السلام کی ترقی ہوئی ۔ اب ان کے اختیار میں تھا کہ جس طرح چاہیں تصرف کریں ۔ جہاں چاہیں مکانات تعمیر کریں ۔ یا اس تنہائی اور قید کو دیکھئے یا اب اس اختیار اور آزادی کو دیکھئے ۔ سچ ہے رب جسے چاہے اپنی رحمت کا جتنا حصہ چاہے دے ۔ صابروں کا پھل لا کر ہی رہتا ہے ۔ بھائیوں کا دکھ سہا ، اللہ کی نافرمانی سے بچنے کے لئے عزیز مصر کی عورت سے بگاڑ لی اور قید خانے کی مصیبتیں برداشت کیں ۔ پس رحمت الہی کا ہاتھ بڑھا اور صبر کا اجر ملا ۔ نیک کاروں کی نیکیاں کبھی ضائع نہیں جاتیں ۔ پھر ایسے باایمان تقوی والے آخرت میں بڑے درجے اور اعلی ثواب پاتے ہیں ۔ یہاں یہ ملا ، وہاں کے ملنے کی تو کچھ نہ پوچھئے ۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے بارے میں بھی قرآن میں آیا ہے کہ یہ دنیا کی دولت وسلطنت ہم نے تجھے اپنے احسان سے دی ہے اور قیامت کے دن بھی تیرے لئے ہمارے ہاں اچھی مہمانی ہے ۔ الغرض شاہ مصر ریان بن ولید نے سلطنت مصر کی وزارت آپ کو دی ، پہلے اسی عہدے پر اس عورت کا خاوند تھا ۔ جس نے آپ کو اپنی طرف مائل کرنا چاہا تھا ، اسی نے آپ کو خرید لیا تھا ۔ آخر شاہ مصر آپ کے ہاتھ پر ایمان لایا ۔ ابن اسحاق کہتے ہیں کہ آپ کے خریدنے والے کا نام اطغر تھا ۔ یہ انہی دنوں میں انتقال کر گیا ۔ اس کے بعد باشاہ نے اس کی زوجہ راعیل سے حضرت یوسف علیہ السلام کا نکاح کر دیا ۔ جب آپ ان سے ملے تو فرمایا کہو کیا یہ تمہارے اس ارادے سے بہتر نہیں ؟ انہوں نے جواب دیا کہ اے صدیق مجھے ملامت نہ کیجیئے آپ کو معلوم ہے کہ میں حسن وخوبصورتی والی دھن دولت والی عورت تھی میرے خاوند مردمی سے محروم تھے وہ مجھ سے مل ہی نہیں سکتے تھے ۔ ادھر آپ کو قدرت نے جس فیاضی سے دولت حسن کے ساتھ مالا مال کیا ہے وہ بھی ظاہر ہے ۔ پس مجھے اب ملامت نہ کیجئے ۔ کہتے ہیں کہ واقعی حضرت یوسف علیہ السلام نے انہیں کنواری پایا ۔ پھر ان کے بطن سے آپ کو دو لڑکے ہوئے افراثیم اور میضا ۔ افراثیم کے ہاں نون پیدا ہوئے جو حضرت یوشع کے والد ہیں اور رحمت نامی صاحبزادی ہوئی جو حضرت ایوب علیہ السلام کی بیوی ہیں ۔ حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ عزیز کی بیوی راستے میں کھڑی تھیں جو حضرت یوسف علیہ السلام کی بیوی ہیں ۔ حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ عزیز کی بیوی راستے میں کھڑی تھیں جب حضرت یوسف علیہ السلام کی سواری نکلی تو بےساختہ ان کے منہ سے نکل گیا کہ الحمد اللہ اللہ کی شان کے قربان جس نے اپنی فرمانبرداری کی وجہ سے غلاموں کو بادشاہی پر پہنچایا اور اپنی نافرمانی کی وجہ سے بادشاہوں کو غلامی پر لا اتارا ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

56۔ 1 یعنی ہم نے یوسف (علیہ السلام) کو زمین میں ایسی قدرت و طاقت عطا کی کہ بادشاہ وہی کچھ کرتا جس کا حکم حضرت یوسف (علیہ السلام) کرتے، اور سرزمین مصر میں اس طرح تصرف کرتے جس طرح انسان اپنے گھر میں کرتا ہے اور جہاں چاہتے، وہ رہتے، پورا مصر ان کے زیرنگین تھا۔ 56۔ 2 یہ گویا اجر تھا ان کے صبر کا جو بھائیوں کے ظلم و ستم پر انہوں نے کیا اور ثابت قدمی کا زلیخا کی دعوت گناہ کے مقابلے میں اختیار کی اور اس کی اولو العزمی کا جو قید خانے کی زندگی میں اپنا رکھی۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو ورغلانے کی مذموم سعی کی تھی۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ بادشاہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کی دعوت و تبلیغ سے مسلمان ہوگیا تھا بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ عزیز مصر، جس کا نام اطفیر تھا، فوت ہوگیا تو اس کے بعد زلیخا کا نکاح حضرت یوسف (علیہ السلام) سے ہوگیا اور دو بچے بھی ہوئے، ایک نام افرأیم اور دوسرے کا نام میشا تھا، افرأیم ہی یوشع بن نون اور حضرت ایوب (علیہ السلام) کے والد تھے (تفسیر ابن کثیر) لیکن یہ بات مستند روایت سے ثابت نہیں اس لئے نکاح والی بات صحیح معلوم نہیں ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں اس عورت سے جس کردار کا مظاہرہ ہوا، اس کے ہوتے ہوئے ایک نبی کے حرم سے اس کی وابستگی، نہایت نامناسب بات لگتی ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥٥] اس جملہ کے الفاظ سابقہ حاشیہ کی پوری طرح تائید کر رہے ہیں۔ یعنی اب سیدنا یوسف جہاں چاہتے رہتے اور جو کچھ چاہتے کرسکتے تھے اور ظاہر ہے کہ اگر محض محکمہ مال کے افسر یا وزیر خزانہ ہوتے تو آپ حکومت کے احکام کے پابند ہوتے۔ آپ کو اتنی آزادی کبھی میسر نہ آسکتی تھی اور یہ محض آزادی نہ تھی بلکہ آپ کو خوشحالی کے سالوں میں غلہ کو ذخیرہ کرنے کے لیے مختلف مقامات پر جانا ضروری ہوتا تھا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَكَذٰلِكَ مَكَّنَّا لِيُوْسُفَ فِي الْاَرْضِ : اس آیت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ یوسف (علیہ السلام) کو سلطنت مصر میں ہر قسم کے اختیارات حاصل تھے اور وہ ایک کافر بادشاہ کے وزیر و ملازم نہیں تھے، ہوسکتا ہے کہ بادشاہ نے از خود ہی زمام حکومت ان کے سپرد کردی ہو۔ ایک مشرک بادشاہ اور ایک نبی کا اتنا قرب ممکن ہی نہیں، اگر بادشاہ کو کافر فرض کیا جائے تو ممکن ہی نہیں کہ انسانوں میں سے اللہ کا سب سے بڑا دشمن (کافر بادشاہ) اللہ کے اس وقت کے سب سے بڑے دوست (نبی) سے اتنی دلی محبت رکھ کر نباہ کرسکے۔ اللہ تعالیٰ نے خود فیصلہ فرمایا ہے : (اِنَّ الْكٰفِرِيْنَ كَانُوْا لَكُمْ عَدُوًّا مُّبِيْنًا) [ النساء : ١٠١ ] ” بیشک کافر لوگ ہمیشہ سے تمہارے کھلے دشمن ہیں۔ “ سورة کافرون پر نظر ڈال لیں اور سورة مجادلہ کی آخری آیت پر بھی۔ سورة ممتحنہ کی آیت (٤) میں یوسف (علیہ السلام) کے جد امجد ابراہیم (علیہ السلام) نے تو مسلم و کافر کے درمیان واضح ابدی بغض و عداوت کی صراحت فرما دی ہے۔ کافر بادشاہ اور نبی کے درمیان عداوت و محبت کا منظر دیکھنا ہو تو موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کو دیکھ لیں، حالانکہ موسیٰ (علیہ السلام) نے اس گھر میں بیٹے کی حیثیت سے پرورش پائی تھی۔ بادشاہ تو دور کی بات ہے کافر سرداران قوم ایک لمحہ انبیاء اور مسلمانوں کو برداشت نہیں کرسکے اور نہ کرسکتے ہیں۔ سوائے ایسے مسلمانوں کے جو ان کے ہر عمل بد پر ان کی مدد کریں، یا کم از کم خاموش رہیں۔ اللہ کے نبی یوسف (علیہ السلام) سے اس کی توقع وہی شخص کرسکتا ہے جو یوسف (علیہ السلام) کا خواتین مصر کے مطالبے کے مقابلے میں سال ہا سال کی قید گوارا کرنا اور بادشاہ کے بلانے کے باوجود تحقیق کے بغیر قید خانے سے نکلنے سے انکار نہ جانتا ہو۔- يَتَبَوَّاُ مِنْهَا حَيْثُ يَشَاۗءُ ۔۔ : لفظ ” يَتَبَوَّاُ “ سے یوسف (علیہ السلام) کو مصر میں حاصل ہونے والا اختیار و اقتدار سمجھنے کے لیے اس آیت کو ملاحظہ فرمائیں جس میں ذکر ہے کہ جنتی جنت میں داخلے کے بعد کیا کہیں گے : (وَقَالُوا الْحـَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ صَدَقَنَا وَعْدَهٗ وَاَوْرَثَنَا الْاَرْضَ نَـتَبَوَّاُ مِنَ الْجَــنَّةِ حَيْثُ نَشَاۗءُ ) [ الزمر : ٧٤ ] ” اور وہ کہیں گے سب تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے ہم سے اپنا وعدہ سچا کیا اور ہمیں اس زمین کا وارث بنادیا کہ ہم (اس) جنت میں سے جہاں چاہیں جگہ بنالیں۔ “ جنت جیسا اختیار نہ سہی مگر اس سے اس لفظ کی وسعت کا اندازہ ضرور ہوتا ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ عزیز مصر کی بیوی سے یوسف (علیہ السلام) کا نکاح ہوگیا تھا، مگر محدثین کے نزدیک یہ روایات قابل اعتبار نہیں۔ - وَلَا نُضِيْعُ اَجْرَ الْمُحْسِـنِيْنَ وَلَاَجْرُالْاٰخِرَۃِ ۔۔ : یعنی دنیا و آخرت دونوں میں انھیں اپنے نیک اعمال کا بدلہ ملتا ہے، اس آیت کے سلسلے میں شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” یہ جواب ہوا ان کے سوالوں کا کہ اولاد ابراہیم اس طرح شام سے مصر آئی اور بیان ہوا کہ بھائیوں نے یوسف (علیہ السلام) کو گھر سے دور پھینکا، تاکہ ذلیل ہو، اللہ نے زیادہ عزت دی اور ملک پر زیادہ اختیار دیا ویسا ہی ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ہوا۔ “ (موضح)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) وَكَذٰلِكَ مَكَّنَّا لِيُوْسُفَ فِي الْاَرْضِ ۚ يَتَبَوَّاُ مِنْهَا حَيْثُ يَشَاۗءُ ۭ نُصِيْبُ بِرَحْمَتِنَا مَنْ نَّشَاۗءُ وَلَا نُضِيْعُ اَجْرَ الْمُحْسِـنِيْنَ یعنی جس طرح ہم نے یوسف (علیہ السلام) کو بادشاہ مصر کے دربار میں عزت و منزلت عطا کی اسی طرح ہم نے ان کو پورے ملک مصر پر اقتدار کامل عطا کردیا کہ ان کی زمین میں جس طرح چاہیں احکام جاری کریں ہم جس کو چاہتے ہیں اپنی رحمت و نعمت سے یوں ہی نوازا کرتے ہیں اور ہم نیک کام کرنے والوں کا اجر کبھی ضائع نہیں کرتے،- تفصیل اس کی یہ ہے کہ بادشاہ مصر نے ایک سال تجربہ کرنے کے بعد دربار میں ایک جشن منایا جس میں تمام عمال دولت اور معززین حکومت کو جمع کیا اور یوسف (علیہ السلام) کے سر پر تاج رکھ کر اس مجلس میں لایا گیا اور صرف خزانہ کی ذمہ داری نہیں بلکہ پورے امور مملکت کو عملاً ان کے سپرد کر کے خود گوشہ نشین ہوگیا (قرطبی ومظہری وغیرہ)- حضرت یوسف (علیہ السلام) نے امور سلطنت کو ایسا سنبھالا کہ کسی کو کوئی شکایت باقی نہ رہی سارا ملک آپ کا گرویدہ ہوگیا اور پورے ملک میں امن اور خوش حالی عام ہوگئی خود حضرت یوسف (علیہ السلام) کو بھی حکومت کی اس تمام ذمہ داری میں کوئی دشواری یا رنج و تکلیف پیش نہیں آتی،- امام تفسیر مجاہد (رح) نے فرمایا کہ یوسف (علیہ السلام) کے پیش نظر چونکہ اس سارے جاہ و جلال سے صرف اللہ تعالیٰ کے احکام کا رواج اور اس کے دین کی اقامت تھی اس لئے وہ کسی وقت بھی اس سے غافل نہیں ہوئے کہ شاہ مصر کو اسلام و ایمان کی دعوت دیں یہاں تک کہ مسلسل دعوت و کوشش کا یہ نتیجہ ظاہر ہوا کہ بادشاہ مصر بھی مسلمان ہو گیا

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَكَذٰلِكَ مَكَّنَّا لِيُوْسُفَ فِي الْاَرْضِ۝ ٠ۚ يَتَبَوَّاُ مِنْہَا حَيْثُ يَشَاۗءُ۝ ٠ۭ نُصِيْبُ بِرَحْمَتِنَا مَنْ نَّشَاۗءُ وَلَا نُضِيْعُ اَجْرَ الْمُحْسِـنِيْنَ۝ ٥٦- مكن - المَكَان عند أهل اللّغة : الموضع الحاوي للشیء، قال : وَلَقَدْ مَكَّنَّاكُمْ فِي الْأَرْضِ [ الأعراف 10] وقوله : ذِي قُوَّةٍ عِنْدَ ذِي الْعَرْشِ مَكِينٍ- [ التکوير 20] أي : متمکّن ذي قدر ومنزلة . ومَكِنَات الطّيرِ ومَكُنَاتها :- مقارّه، والمَكْن : بيض الضّبّ ، وبَيْضٌ مَكْنُونٌ [ الصافات 49] . قال الخلیل المکان مفعل من الکون، ولکثرته في الکلام أجري مجری فعال «فقیل : تمكّن وتمسکن، نحو : تمنزل .- ( م ک ن ) المکان - اہل لغت کے نزدیک مکان اس جگہ کو کہتے ہیں جو کسی جسم پر حاوی ہو ۔ قرآن میں ہے ۔- وَلَقَدْ مَكَّنَّاكُمْ فِي الْأَرْضِ [ الأعراف 10] اور ہم نے زمین میں تمہارا ٹھکانا بنایا ۔- أَوَلَمْ نُمَكِّنْ لَهُمْ [ القصص 57] کیا ہم نے ان کو جگہ نہیں دی ۔ وَنُمَكِّنَ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ [ القصص 6] اور ملک میں ان کو قدرت دیں ۔ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضى لَهُمْ [ النور 55] اور ان کے دین کو جسے اس نے ان کے لئے پسند کیا ہے ۔ مستحکم وپائیدار کرے گا ۔ فِي قَرارٍ مَكِينٍ [ المؤمنون 13] ایک مضبوط اور محفوظ جگہ میں ۔ اور امکنت فلانا من فلان کے معنی کسی کو دوسرے پر قدرت دینے کے ہیں مکان و مکانہ جگہ اور حالت کو کہتے ہیں قرآن میں ہے ۔ اعْمَلُوا عَلى مَكانَتِكُمْ [هود 93] اپنی جگہ پر عمل کئے جاؤ ۔ ایک قراءت میں مکانا تکم بصیغہ جمع ہے اور آیت کریمہ : ۔ ذِي قُوَّةٍ عِنْدَ ذِي الْعَرْشِ مَكِينٍ [ التکوير 20] جو صاحب قوت مالک عرش کے ہاں اونچے در جے والا ہے ۔ میں مکین بمعنی متمکن یعنی صاحب قدر ومنزلت ہے : ۔ پرندوں کے گھونسلے ۔ المکن سو سماروں وغیرہ کے انڈے ۔ آیت کریمہ : ۔ وبَيْضٌ مَكْنُونٌ [ الصافات 49] محفوظ انڈے ۔ خلیل کا قول ہے کہ لفظ مکان ( صیغہ ظرف ) مفعل کے وزن پر ہے اور یہ کون سے مشتق ہے پھر کثیر الاستعمال ہونے کی وجہ سے اسے فعال کا حکم دے کر اس سے تمکن وغیرہ مشتقات استعمال ہوئی ہیں ۔ جیسے منزل سے تمنزل وغیرہ - بَوءَ- أصل البَوَاء : مساواة الأجزاء في المکان، خلاف النّبو الذي هو منافاة الأجزاء . يقال :- مكان بَوَاء : إذا لم يكن نابیا بنازله، وبَوَّأْتُ له مکانا : سوّيته فَتَبَوَّأَ ، وبَاءَ فلان بدم فلان يَبُوءُ به أي : ساواه، قال تعالی: وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ أَنْ تَبَوَّءا لِقَوْمِكُما بِمِصْرَ بُيُوتاً [يونس 87] ، - ( ب و ء ) البواء - ۔ کے اصل معنی کسی جگہ کے اجزا کا مساوی ( اور سازگار موافق) ہونے کے ہیں ۔ یہ نبوۃ کی ضد ہے جس کے معنی اجزاء کی ناہمواری ( ناسازگاری ) کے ہیں ۔ لہذا مکان بواء اس مقام کے کہتے ہیں ۔ جو اس جگہ پر اترنے والے کے ساز گار اور موافق ہو ۔ بوات لہ مکانا میں نے اس کے لئے جگہ کو ہموار اور درست کیا اور تبوات اس کا مطاوع ہے جس کے معنی کسی جگہ ٹھہرلے کے ہیں قرآن میں ہے ؛۔ وَأَوْحَيْنَا إِلَى مُوسَى وَأَخِيهِ أَنْ تَبَوَّآ لِقَوْمِكُمَا ( سورة يونس 87) اور ہم نے موسیٰ اور اس گے بھائی کی طرف دحی بھیجی کہ اپنے لوگوں کے لئے مصر میں گھر بناؤ ۔ - حيث - حيث عبارة عن مکان مبهم يشرح بالجملة التي بعده، نحو قوله تعالی: وَحَيْثُ ما كُنْتُمْ [ البقرة 144] ، وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ [ البقرة 149] .- ( ح ی ث ) حیث - ( یہ ظرف مکان مبنی برضم ہے ) اور ) مکان مبہم کے لئے آتا ہے جس کی مابعد کے جملہ سے تشریح ہوتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَحَيْثُ ما كُنْتُمْ [ البقرة 144] اور تم جہاں ہوا کرو - رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین .- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] لوگو تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )- ضيع - ضَاعَ الشیءُ يَضِيعُ ضَيَاعاً ، وأَضَعْتُهُ وضَيَّعْتُهُ. قال تعالی: لا أُضِيعُ عَمَلَ عامِلٍ مِنْكُمْ [ آل عمران 195] - ( ض ی ع ) ضاع - ( ض ) الشیئ ضیاعا کے معنی ہیں کسی چیز کا ہلاک اور تلف کرنا ۔ قرآن میں ہے : لا أُضِيعُ عَمَلَ عامِلٍ مِنْكُمْ [ آل عمران 195] اور ( فرمایا ) کہ میں کسی عمل کرنے والے کے عمل کو ضائع نہیں کرتا ۔- احسان - الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» .- فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل - واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] ، وقوله عزّ وجلّ : وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة 178] ، ولذلک عظّم اللہ تعالیٰ ثواب المحسنین، فقال تعالی: وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت 69] ، وقال تعالی:إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة 195] ، وقال تعالی: ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة 91] ، لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل 30] .- ( ح س ن ) الحسن - الاحسان ( افعال )- احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔ اور فرمایا ؛ وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة 178] اور پسندیدہ طریق سے ( قرار داد کی ) پیروی ( یعنی مطالبہ خونہار ) کرنا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محسنین کے لئے بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت 69] اور خدا تو نیکو کاروں کے ساتھ ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة 195] بیشک خدا نیکی کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے ۔ ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة 91] نیکو کاروں پر کسی طرح کا الزام نہیں ہے ۔ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل 30] جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٥٦) اور ہم نے ایسے عجیب طریقے پر حضرت یوسف (علیہ السلام) کو ملک مصر میں بااختیار بنادیا کہ اس میں جہاں چاہیں رہیں۔- ہم اپنی خصوصی رحمت یعنی نبوت جس پر چاہیں کریں اور جو اس کا اہل ہو اسے متوجہ کردیں اور ہم ایسے مومنین کے اجر کو ضائع نہیں کرتے جو قول وفعل میں نیکو کار ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥٦ (وَكَذٰلِكَ مَكَّنَّا لِيُوْسُفَ فِي الْاَرْضِ ۚ يَتَبَوَّاُ مِنْهَا حَيْثُ يَشَاۗءُ )- حضرت یوسف کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمکن عطا ہونے کا یہ دوسرامرحلہ تھا۔ پہلے مرحلے میں آپ کو بدوی اور صحرائی ماحول سے اٹھا کر اس دور کے ایک نہایت متمدن ملک کی اعلیٰ ترین سطح کی سوسائٹی میں پہنچایا گیا جبکہ دوسرے مرحلے میں آپ کو اسی ملک کے ارباب اختیار و اقتدار کی صف میں ایک نہایت ممتاز مقام عطا کردیا گیا جس کے بعد آپ پورے اختیار کے ساتھ عزیز کے عہدے پر متمکن ہوگئے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :48 اس سے پہلے جو توضیحات گزر چکی ہیں ان کی روشنی میں دیکھا جائے تو صاف نظر آئے گا کہ یہ کوئی نوکری کی درخواست نہیں تھی جو کسی طالب جاہ نے وقت کے بادشاہ کی اشارہ پاتے ہی جھٹ سے پیش کر دی ہو ۔ درحقیقت یہ اس انقلاب کا دروازہ کھولنے کے لیے آخری ضرب تھی جو حضرت یوسف علیہ السلام کی اخلاقی طاقت سے پچھلے دس بارہ سال کے اندر نشونما پاکر ظہور کے لیے تیار ہوچکا تھا اور اب جس کا فتح باب صرف ایک ٹھونکے ہی کا محتاج تھا ۔ حضرت یوسف علیہ السلام آزمائشوں کے ایک طویل سلسلے سے گزر کر آرہے تھے ۔ اور یہ آزمائشیں کسی گمنامی کے گوشے میں پیش نہیں آئی تھیں بلکہ بادشاہ سے لے کر عام شہریوں تک مصر کا بچہ بچہ ان سے واقف تھا ۔ ان آزمائشوں میں انہوں نے ثابت کر دیا تھا کہ وہ امانت ، راستبازی ، حلم ، ضبط نفس ، عالی ظرفی ، ذہانت و فراست اور معاملہ فہمی میں کم از کم اپنے زمانہ کے لوگوں کے درمیان تو اپنا نظیر نہیں رکھتے ۔ ان کی شخصیت کے یہ اوصاف اس طرح کھل چکے تھے کہ کسی کو ان سے انکار کی مجال نہ رہی تھی ۔ زبانیں ان کی شہادت دے چکی تھیں ۔ دل ان سے مسخر ہو چکے تھے ۔ خود بادشاہ ان کے آگے ہتھیار ڈال چکا تھا ۔ ان کا ” حفیظ “ اور ”علیم “ ہونا اب محض ایک دعویٰ نہ تھا بلکہ ایک ثابت شدہ واقعہ تھا جس پر سب ایمان لاچکے تھے ۔ اب اگر کچھ کسر باقی تھی تو وہ صرف اتنی کہ حضرت یوسف علیہ السلام خود حکومت کے ان اختیارات کو اپنے ہاتھ میں لینے پر رضامندی ظاہر کریں جن کے لیے بادشاہ اور اس کے اعیان سلطنت اپنی جگہ بخوبی جان چکے تھے کہ ان سے زیادہ موزوں آدمی اور کوئی نہیں ہے ۔ چنانچہ یہی وہ کسر تھی جو انہوں نے اپنے اس فقرے سے پوری کر دی ۔ ان کی زبان سے اس مطالبے کے نکلتے ہی بادشاہ اور اس کی کونسل نے جس طرح اسے بسروچشم قبول کیا وہ خود اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ پھل اتنا پک چکا تھا کہ اب ٹوٹنے کے لیے ایک اشارے ہی کا منتظر تھا ۔ ( تلمود کا بیان ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو حکومت کے اختیارات سونپنے کا فیصلہ تنہا بادشاہ ہی نے نہیں کیا تھا بلکہ پوری شاہی کونسل نے بالاتفاق اس کے حق میں رائے دی تھی ) ۔ یہ اختیارات جو حضرت یوسف علیہ السلام نے مانگے اور ان کو سونپے گئے ان کی نوعیت کیا تھی؟ ناواقف لوگ یہاں ” خزائن ارض“ کے الفاظ اور آگے چل کر غلہ کی تقسیم کا ذکر دیکھ کر قیاس کرتے ہیں کہ شاید یہ افسر خزانہ ، یا افسر مال ، یا قحط کمشنر ، یا وزیر مالیات ، یا وزیر غذائیات کی قسم کا کوئی عہدہ ہوگا ۔ لیکن قرآن ، بائیبل ، اور تلمود کی متفقہ شہادت ہے کہ درحقیقت حضرت یوسف علیہ السلام سلطنت مصر کے مختار کل ( رومی اصطلاح میں ڈکٹیٹر ) بنائے گئے تھے اور ملک کا سیاہ و سپید سب کچھ ان کے اختیار میں دے دیا گیا تھا ۔ قرآن کہتا ہے کہ جب حضرت یعقوب علیہ السلام مصر پہنچے ہیں اس وقت حضرت یوسف علیہ السلام تخت نشین تھے ( ورفع ابویہ علی العرش ) ۔ حضرت یوسف علیہ السلام کی اپنی زبان سے نکلا ہوا یہ فقرہ قرآن میں منقول ہے کہ” اے میرے رب ، تو نے مجھے بادشاہی عطا کی“ ( رَبَّ قداٰتَیتنی مِنَ الملک ) ۔ پیالے کی چوری کے موقع پر سرکاری ملازم حضرت یوسف علیہ السلام کے پیالے کو بادشاہ کا پیالہ کہتے ہیں ۔ اور اللہ تعالی مصر پر ان کے اقتدار کی کیفیت یہ بیان فرماتا ہے کہ ساری سرزمین مصر ان کی تھی ( یتبوأ مِنھا حیث یشآء ) ۔ رہی بائیبل تو وہ شہادت دیتی ہے کہ فرعون نے یوسف علیہ السلام سے کہا: ” سو تو میرے گھر کا مختار ہوگا اور میری ساری رعایا تیرے حکم پر چلے گی فقط تخت کا مالک ہونے کے سبب سے میں بزرگ تر ہوں گا ……… اور تیرے حکم کے بغیر کوئی آدمی اس سارے ملک مصر میں اپنا ہاتھ یا پاؤں نہ ہلانے پائے گا ۔ اور فرعون نے یوسف علیہ السلام کا نام ضَفِنَات فَعِیحَ ( دنیا کا نجات دہندہ ) رکھا “ ۔ ( پیدائش ٤١:۳۹ - ٤۵ ) اور تلمود کہتی ہے کہ یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے مصر سے واپس جاکر اپنے والد سے حاکم مصر ( یوسف علیہ السلام ) کی تعریف کرتے ہوئے بیان کیا: ” اپنے ملک کے باشندوں پر اس کا اقتدا سب سے بالا ہے ۔ اس کے حکم پر وہ نکلتے اور اسی کے حکم پر وہ داخل ہوتے ہیں ۔ اس کی زبان سارے ملک پر فرمانروائی کرتی ہے ۔ کسی معاملہ میں فرعون کے اذن کی ضرورت نہیں ہوتی“ ۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے یہ اختیارات کس غرض کے لیے مانگے تھے؟ انہوں نے اپنی خدمات اس لیے پیش کی تھیں کہ ایک کافر حکومت کے نظام کو اس کے کافرانہ اصول و قوانین ہی پر چلائیں؟ یا ان کے پیش نظر یہ تھا کہ حکومت کا اقتدار اپنے ہاتھ میں لے کر ملک کے نظام تمدن و اخلاق و سیاست کو اسلام کے مطابق ڈھال دیں؟ اس سوال کا بہترین جواب وہ ہے جو علامہ زمخشری نے اپنی تفسیر ” کشاف “ میں دیا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں: ” حضرت یوسف علیہ السلام نے اجعلنی علیٰ خزائن الارض جو فرمایا تو اس سے ان کی غرض صرف یہ تھی کہ ان کو اللہ تعالی کے احکام جاری کرنے اور حق قائم کرنے اور عدل پھیلانے کا موقع مل جائے اور وہ اس کام کو انجام دینے کی طاقت حاصل کرلیں جس کے لیے انبیاء علیہم السلام بھیجے جاتے ہیں ۔ انہوں نے بادشاہی کی محبت اور دنیا کے لالچ میں یہ مطالبہ نہیں کیا تھا بلکہ یہ جانتے ہوئے کیا تھا کہ کوئی دوسرا شخص ان کے سوا ایسا نہیں ہے جو اس کام کو انجام دے سکے“ ۔ اور سچ یہ ہے کہ یہ سوال دراصل ایک اور سوال پیدا کرتا ہے جو اس سے بھی زیادہ اہم اور بنیادی سوال ہے ۔ اور وہ یہ ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام آیا پیغمبر بھی تھے یا نہیں؟ اگر پیغمبر تھے تو کیا قرآن میں ہم کو پیغمبری کا یہی تصور ملتا ہے کہ اسلام کا داعی خود نظام کفر کو کافرانہ اصولوں پر چلانے کے لیے اپنی خدمات پیش کرے؟ بلکہ یہ سوال اس پر بھی ختم نہیں ہوتا ، اس سے بھی زیادہ نازک اور سخت ایک دوسرے سوال پر جاکر ٹھیرتا ہے ، یعنی یہ کہ حضرت یوسف علیہ السلام ایک راستباز آدمی بھی تھے یا نہیں؟ اگر راستباز تھے تو کیا ایک راستباز انسان کا یہی کام ہے کہ قید خانے میں تو وہ اپنی پیغمبرانہ دعوت کا آغاز اس سوال سے کرے کہ ” بہت سے رب بہتر ہیں یا وہ ایک اللہ جو سب پر غالب ہے“ ، اور بار بار اہل مصر پر بھی واضح کر دے کہ تمہارے ان بہت سے متفرق خود ساختہ خداؤں میں سے ایک یہ شاہ مصر بھی ہے ، اور صاف صاف اپنے مشن کا بنیادی عقیدہ یہ بیان کرے کہ ” فرمانروائی کا اقتدار خدائے واحد کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے“ ، مگر جب عملی آزمائش کا وقت آئے تو وہی شخص خود اس نظام حکومت کا خادم ، بلکہ ناظم اور محافظ اور پشت پناہ تک بن جائے جو شاہ مصر کی ربوبیت میں چل رہا تھا اور جس کا بنیادی نظریہ ” فرمانروائی کے اختیارات خدا کے لیے نہیں بلکہ بادشاہ کے لیے ہیں “ تھا ؟ حقیقت یہ ہے کہ اس مقام کی تفسیر میں دورالخطاط کے مسلمانوں نے کچھ اسی ذہنیت کا اظہار کیا ہے جو کچھ یہودیوں کی خصوصیت تھی ۔ یہ یہودیوں کا حال تھا کہ جب وہ ذہنی و اخلاقی پستی میں مبتلا ہوئے تو پچھلی تاریخ میں جن جن بزرگوں کی سیرتیں ان کو بلندی پر چڑھنے کا سبق دیتی تھیں ان سب کو وہ نیچے گرا کر اپنے مرتبے پر اتار لائے تاکہ اپنے لیے اور زیادہ نیچے گرنے کا بہانہ پیدا کریں ۔ افسوس کہ یہی کچھ مسلمانوں نے بھی کیا ۔ انہیں کافر حکومتوں کی چاکری کرنی تھی ، مگر اس پستی میں گرتے ہوئے اسلام اور اس کے علمبرداروں کی بلندی دیکھ کر انہیں شرم آئی ، لہٰذا اس شرم کو مٹنے اور اپنے ضمیر کو راضی کرنے کے لیے یہ اپنے ساتھ اس جلیل القدر پیغمبر کو بھی خدمت کفر کی گہرائی میں لے گرے جس کی زندگی دراصل انہیں یہ سبق دے رہی تھی کہ اگر کسی ملک میں ایک اور صرف ایک مرد مومن بھی خالص اسلامی اخلاق اور ایمانی فراست و حکمت کا حامل ہو تو وہ تن تنہا مجرد اپنے اخلاق اور اپنی حکمت کے زور سے اسلامی انقلاب برپا کر سکتا ہے ، اور یہ کہ مومن کی اخلاقی طاقت ( بشرطیکہ وہ اس کا استعمال جانتا ہو اور اسے استعمال کرنے کا ارادہ بھی رکھتا ہے ) فوج اور اسلحہ اور سروسامان کے بغیر بھی ملک فتح کر سکتی ہے اور سلطنتوں کو مسخر کر لیتی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani