Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥٦] یعنی اللہ تعالیٰ اپنے مومن اور متقی بندوں کو دنیا میں بھی یقیناً اپنی رحمت سے نوازتا اور اچھا بدلہ دیتا ہے جیسا کہ سیدنا یوسف (علیہ السلام) کو دیا تھا تاہم ایسے لوگوں کو جو آخرت میں اجر ملے گا وہ اس دنیوی اجر سے بدرجہا بہتر ہوگا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

وَلَاَجْرُ الْاٰخِرَةِ خَيْرٌ لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَكَانُوْا يَتَّقُوْنَ یعنی اور آخرت کا اجر وثواب اس دنیا کی دولت و سلطنت اور مثالی حکومت تو عطا ہوئی ہی تھی اس کے ساتھ آخرت کے درجات عالیہ بھی ان کے لئے تیار ہیں اس کے ساتھ یہ بھی بتلادیا کہ یہ درجات دنیا و آخرت یوسف (علیہ السلام) کی خصوصیت نہیں بلکہ اصلائے عام ہے ہر اس شخص کے لئے جو ایمان اور تقویٰ اور پرہیزگاری اختیار کرلے،- حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اپنے زمانہ حکومت میں عوام کے راحت رسانی کے وہ کام کئے جن کی نظیر ملنا مشکل ہے جب تعبیر خواب کے مطابق سات سال خوش حالی کے گذر گئے اور قحط شروع ہوا تو یوسف (علیہ السلام) نے پیٹ بھر کر کھانا چھوڑ دیا لوگوں نے کہا کہ ملک مصر کے سارے خزانے آپ کے قبضہ میں ہیں اور آپ بھوکے رہتے ہیں تو فرمایا کہ میں یہ اس لئے کرتا ہوں تاکہ عام لوگوں کی بھوک کا احساس میرے دل سے غائب نہ ہو اور شاہی باورچیوں کو بھی حکم دے دیا کہ دن میں صرف ایک مرتبہ دوپہر کو کھانا پکا کرے تاکہ شاہی محل کے سب افراد بھی عوام کی بھوک میں کچھ حصہ لے سکیں

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَاَجْرُ الْاٰخِرَۃِ خَيْرٌ لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَكَانُوْا يَتَّقُوْنَ۝ ٥٧ۧ- آخرت - آخِر يقابل به الأوّل، وآخَر يقابل به الواحد، ويعبّر بالدار الآخرة عن النشأة الثانية، كما يعبّر بالدار الدنیا عن النشأة الأولی نحو : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت 64] ، وربما ترک ذکر الدار نحو قوله تعالی: أُولئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ [هود 16] . وقد توصف الدار بالآخرة تارةً ، وتضاف إليها تارةً نحو قوله تعالی: وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأنعام 32] ، وَلَدارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا[يوسف 109] .- وتقدیر الإضافة : دار الحیاة الآخرة .- اخر ۔ اول کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے اور اخر ( دوسرا ) واحد کے مقابلہ میں آتا ہے اور الدارالاخرۃ سے نشاۃ ثانیہ مراد لی جاتی ہے جس طرح کہ الدار الدنیا سے نشاۃ اولیٰ چناچہ فرمایا وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ ( سورة العنْکبوت 64) ہمیشہ کی زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے لیکن کھی الدار کا لفظ حذف کر کے صرف الاخرۃ کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ ( سورة هود 16) یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں آتش جہنم کے سوا اور کچھ نہیں ۔ اور دار کا لفظ کبھی اخرۃ کا موصوف ہوتا ہے اور کبھی اس کی طر ف مضاف ہو کر آتا ہے چناچہ فرمایا ۔ وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ ( سورة الأَنعام 32) اور یقینا آخرت کا گھر بہتر ہے ۔ ان کے لئے جو خدا سے ڈرتے ہیں ۔ (6 ۔ 32) وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ( سورة النحل 41) اور آخرت کا اجر بہت بڑا ہے ۔ اگر وہ اسے جانتے ہوتے ۔- تقوي - والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] - التقویٰ- اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٥٧) ایسے حضرات کو لیے جو اللہ تعالیٰ اور اس کی تمام کتابوں اور تمام احکامات پر ایمان رکھتے ہوں اور کفر و شرک اور تمام بری باتوں سے بچتے ہوں آخرت کا ثواب دنیا کے ثواب سے کہیں زیادہ ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥٧ (وَلَاَجْرُ الْاٰخِرَةِ خَيْرٌ لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَكَانُوْا يَتَّقُوْنَ )- اب یہاں سے آگے اس قصے کا ایک نیا باب شروع ہونے جا رہا ہے۔ واضح رہے کہ آئندہ رکوع کے مضامین اور گزشتہ مضمون کے درمیان زمانی اعتبار سے تقریباً دس سال کا بعد ہے۔ اب بات اس زمانے سے شروع ہورہی ہے جب مصر میں بہتر فصلوں کے سات سالہ دور کے بعد قحط پڑچکا تھا۔ یہاں پر جو تفصیلات چھوڑ دی گئی ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت یوسف کی تعبیر کے عین مطابق سات سال تک مصر میں خوشحالی کا دور دورہ رہا اور فصلوں کی پیداوار معمول سے کہیں بڑھ کر ہوئی۔ اس دوران حضرت یوسف نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت اناج کے بڑے بڑے ذخائر جمع کرلیے تھے۔ چناچہ جب یہ پورا علاقہ قحط کی لپیٹ میں آیا تو مصر کی حکومت کے پاس نہ صرف اپنے عوام کے لیے بلکہ ملحقہ علاقوں کے لوگوں کی ضرورت پوری کرنے کے لیے بھی اناج وافر مقدار میں موجود تھا۔ چناچہ حضرت یوسف نے اس غیر معمولی صورت حال کے پیش نظر ” راشن بندی “ کا ایک خاص نظام متعارف کروایا۔ اس نظام کے تحت ایک خاندان کو ایک سال کے لیے صرف اس قدرّ غلہ دیا جاتا تھا جس قدر ایک اونٹ اٹھا سکتا تھا اور اس کی قیمت اتنی وصول کی جاتی تھی جو وہ آسانی سے ادا کرسکیں۔ ان حالات میں فلسطین میں بھی قحط کا سماں تھا اور وہاں سے بھی لوگ قافلوں کی صورت میں مصر کی طرف غلہ لینے کے لیے آتے تھے۔ ایسے ہی ایک قافلے میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کے دس بھائی بھی غلہ لینے مصر پہنچے جبکہ آپ کا ماں جایا بھائی ان کے ساتھ نہیں تھا۔ اس لیے کہ حضرت یعقوب اپنے اس بیٹے کو کسی طرح بھی ان کے ساتھ کہیں بھیجنے پر آمادہ نہیں تھے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :49 یعنی اب ساری سرزمین مصر اس کی تھی ۔ اس کی ہر جگہ کو وہ اپنی جگہ کہہ سکتا تھا ۔ وہاں کوئی گوشہ بھی ایسا نہ رہا تھا جو اس سے روکا جا سکتا ہو ۔ یہ گویا اس کامل تسلط اور ہمہ گیر اقتدار کا بیان ہے جو حضرت یوسف علیہ السلام کو اس ملک پر حاصل تھا ۔ قدیم مفسرین بھی اس آیت کی یہی تفسیر کرتے ہیں ۔ چنانچہ ابن زید کے حوالہ سے علامہ ابن جریر طبری نے اپنی تفسیر میں اس کے معنی یہ بیان کیے ہیں کہ ” ہم نے یوسف علیہ السلام کو ان سب چیزوں کا مالک بنا دیا جو مصر میں تھیں ، دنیا کے اس حصے میں وہ جہاں جو کچھ چاہتا کر سکتا تھا ، وہ سرزمین اس کے حوالہ کر دی گئی تھی ، حتی کہ اگر وہ چاہتا کہ فرعون کو اپنا زیر دست کر لے اور خود اس سے بالا تر ہوجائے تو یہ بھی کر سکتا تھا “ ۔ دوسرا قول علامہ موصوف نے مجاہد کا نقل کیا ہے جو مشہور ائمہ تفسیر میں سےہیں ۔ ان کا خیال ہے کہ بادشاہ مصر نے یوسف علیہ السلام کے ہاتھ پر اسلام قبول کر لیا تھا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

36:: دُنیا میں حضرت یوسف علیہ السلام کو جو عزّت اور اقتدار ملا، اُس کے ذکر کے ساتھ قرآنِ کریم نے یہ بھی واضح فرمادیا کہ یہ اُس اَجرِ عظیم کے مقابلے میں بہت کم ہے جو اُن کے لئے اﷲ تعالیٰ نے آخرت میں تیار کر رکھا ہے، اس طرح ہر وہ شخص جس کو دُنیا میں کوئی عزّت اور دولت ملی ہو، اُسے یہ ابدی نصیحت فرمادی گئی ہے، اُس کو اصل فکر اس بات کی کرنی چاہئے کہ اِس دُنیا کی عزت ودولت کے نتیجے میں آخرت کا اَجر ضائع نہ ہو۔