کہتے ہیں کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے وزیر مصر بن کر سات سال تک غلے اور اناج کو بہترین طور پر جمع کیا ۔ اس کے بعد جب عام قحط سالی شروع ہوئی اور لوگ ایک ایک دانے کو ترسنے لگے تو آپ نے محتاجوں کو دینا شروع کیا ، یہ قحط علاقہ مصر سے نکل کر کنعان وغیرہ شہروں میں بھی پھیل گیا تھا ۔ آپ ہر بیرونی شخص کو اونٹ بھر کر غلہ عطا فرمایا کرتے تھے ۔ اور خود آپ کا لشکر بلکہ خود بادشاہ بھی دن بھر میں صرف ایک ہی مرتبہ دوپہر کے وقت ایک آدھ نوالہ کھا لیتے تھے اور اہل مصر کو پیٹ بھر کر کھلاتے تھے پس اس زمانے میں یہ بات ایک رحمت رب تھی ۔ یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے پہلے سال مال کے بدلے غلہ بیچا ۔ دوسرے سال سامان اسباب کے بدلے ، تیسرے سال بھی اور چوتھے سال بھی ۔ پھر خود لوگوں کی جان اور ان کی اولاد کے بدلے ۔ پس خود لوگ ان کے بچے اور ان کی کل ملیکت اور مال کے آپ مالک بن گئے ۔ لیکن اس کے بعد آپ نے سب کو آزاد کر دیا اور ان کے مال بھی ان کے حوالے کر دئے ۔ یہ روایت بنو اسرائیل کی ہے جسے ہم سچ جھوٹ نہیں کہہ سکتے ۔ یہاں یہ بیان ہو رہا ہے کہ ان آنے والوں میں برادران یوسف بھی تھے ۔ جو باپ کے حکم سے آئے تھے ۔ انہیں معلوم ہوا تھا کہ عزیز مصر مال متاع کے بدلے غلہ دیتے ہیں تو آپ نے اپنے دس بیٹوں کو یہاں بھیجا اور حضرت یوسف علیہ السلام کے سگے بھائی بنیامین کو جو آپ کے بعد حضرت یعقوب علیہ السلام کے نزدیک بہت ہی پیارے تھے اپنے پاس روک لیا ۔ جب یہ قافلہ اللہ کے نبی علیہ السلام کے پاس پہنچا تو آپ نے تو بہ یک نگاہ سب کو پہچان لیا لیکن انمیں سے ایک بھی آپ کو نہ پہچان سکا ۔ اس لئے کہ آپ ان سے بچپن میں ہی جدا ہو گئے تھے ۔ بھائیوں نے آپ کو سوداگروں کے ہاتھ بیچ ڈالا تھا انہیں کیا خبر تھی کہ پھر کیا ہوا ۔ اور یہ تو ذہن میں بھی نہ آ سکتا تھا کہ وہ بچہ جسے بحیثیت غلام بیچا تھا ۔ آج وہی عزیز مصر بن کر بیٹھا ہے ۔ ادھر حضرت یوسف علیہ السلام نے طرز گفتگو بھی ایسا اختیار کیا کہ انہیں وہم بھی نہ ہو ۔ ان سے پوچھا کہ تم لوگ میرے ملک میں کیسے آ گئے ؟ انہوں نے کہا یہ سن کر کہ آپ غلہ عطا فرماتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا مجھے تو شک ہوتا ہے کہ کہیں تم جاسوس نہ ہو ؟ انہوں نے کہا معاذ اللہ ہم جاسوس نہیں ۔ فرمایا تم رہنے والے کہاں کے ہو ؟ کہا کنعان کے اور ہمارے والد صاحب کا نام یعقوب نبی اللہ ہے ۔ آپ نے پوچھا تمہارے سوا ان کے اور لڑکے بھی ہیں ؟ انہوں نے کہا ہاں ہم بارہ بہائی تھے ۔ ہم میں جو سب سے چھوٹا تھا اور ہمارے باپ کی آنکھوں کا تارا تھا وہ تو ہلاک ہو گیا ۔ اسی کا ایک بھائی اور ہے ۔ اسے باپ نے ہمارے ساتھ نہیں بھیجا بلکہ اپنے پاس ہی روک لیا ہے کہ اس سے ذرا آپ کو اطمینان اور تسلی رہے ۔ ان باتوں کے بعد آپ نے حکم دیا کہ انہیں سرکاری مہمان سمجھا جائے اور ہر طرح حاظر مدارات کی جائے اور اچھی جگہ ٹھیرایا جائے ۔ اب جب انہیں غلہ دیا جانے لگا اور ان تھلیے بھر دئے گئے اور جتنے جانور ان کے ساتھ تھے وہ جتنا غلہ اٹھا سکتے تھے بھر دیا تو فرمایا دیکھو اپنی صداقت کے اظہار کے لئے اپنے اس بھائی کو جسے تم اس مرتبہ اپنے ساتھ نہ لائے اب اگر آؤ تو لیتے آنا دیکھو میں نے تم سے اچھا سلوک کیا ہے اور تمہاری بڑی خاطر تواضع کی ہے اس طرح رغبت دلا کر پھر دھمکا بھی دیا کہ اگر دوبارہ کے آنے میں اسے ساتھ نہ لائے تو میں تمہیں ایک دانہ اناج کا نہ دوں گا بلکہ تمہیں اپنے نزدیک بھی نہ آنے دوں گا ۔ انہوں نے وعدے کئے کہ ہم انہیں کہہ سن کر لالچ دکھا کر ہر طرح پوری کوشش کریں گے کہ اپنے اس بھائی کو بھی لائیں تاکہ بادشاہ کے سامنے ہم جھوٹے نہ پڑیں ۔ سدی رحمۃ اللہ علیہ تو کہتے ہیں کہ آپ نے تو ان سے رہن رکھ لیا کہ جب لاؤ گے تو یہ پاؤ گے ۔ لیکن یہ بات کچھ جی کو لگتی نہیں اس لئے کہ آپ نے تو انہیں واپسی کی بڑی رغبت دلائی اور بہت کچھ تمنا ظاہر کی ۔ جب بھائی کوچ کی تیاریاں کرنے لگے تو حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے چالاک چاکروں سے اشارہ کیا کہ جو اسباب یہ لائے تھے اور جس کے عوض انہوں نے ہم سے غلہ لیا ہے وہ انہیں واپس کر دو لیکن اس خوبصورتی سے کہ انہیں معلوم تک نہ ہو ۔ ان کے کجاوں اور بوروں میں ان کی تمام چیزیں رکھ دو ۔ ممکن ہے اس کی وجہ یہ ہو کہ آپ کو خیال ہوا ہو کہ اب گھر میں کیا ہوگا جسے لے کر یہ غلہ لینے کے لئے آئیں ۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ نے اپنے باپ اور بھائی سے اناج کا کچھ معاوضہ لینا مناسب نہ سمجھا ہو اور یہ بھی قرین قیاس ہے کہ آپ نے یہ خیال فرمایا ہو کہ جب یہ اپنا اسباب کھولیں گے اور یہ چیزیں اس میں پائیں گے تو ضروری ہے کہ ہماری یہ چیزیں ہمیں واپس دینے کو آئیں تو اس بہانے ہی بھائی سے ملاقات ہو جائے گی ۔
58۔ 1 یہ اس وقت کا وقع ہے جب خوش حالی کے سات سال گزرنے کے بعد قحط سالی شروع ہوگئی جس نے ملک مصر کے تمام علاقوں اور شہروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، حتیٰ کہ کنعان تک بھی اس کے اثرات جا پہنچے جہاں حضرت یعقوب (علیہ السلام) اور حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بھائی رہائش پذیر تھے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اپنے حسن تدبیر سے اس قحط سالی سے نمٹنے کے لئے جو انتظامات کئے تھے وہ کام آئے اور ہر طرف سے لوگ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے پاس غلہ لینے کے لئے آرہے تھے حضرت یوسف (علیہ السلام) کی یہ شہرت کنعان تک بھی جا پہنچی کہ مصر کا بادشاہ اس طرح غلہ فروخت کر رہا ہے۔ چناچہ باپ کے حکم پر یہ بردران یوسف (علیہ السلام) بھی گھر کی پونجی لے کر غلے کے حصول کے لئے دربار شاہی میں پہنچ گئے جہاں حضرت یوسف (علیہ السلام) تشریف فرما تھے، جنہیں یہ بھائی تو نہ پہچان سکے لیکن یوسف (علیہ السلام) نے اپنے بھائیوں کو پہچان لیا۔
[٥٧] عام قحط اور مصر میں غلہ کی تقسیم کا نظام :۔ برادران یوسف آپ کے پاس اس وقت آئے جب آپ کو بادشاہ بنے ہوئے آٹھ سال کا عرصہ گزر چکا تھا۔ پہلے سات سال انتہائی خوشحالی کا دور تھا۔ اس دور میں آپ نے کافی غلہ محفوظ کرلیا تھا۔ اس کے بعد جب قحط سالی کا دور شروع ہوا تو یہ قحط سالی صرف ملک مصر میں ہی نہ تھی بلکہ آس پاس کے ممالک میں بھی پھیل چکی تھی۔ اب صورت حال یہ تھی کہ مصر میں تو غلہ سستا تھا جبکہ آس پاس کے علاقہ میں بہت مہنگے نرخوں پر فروخت ہو رہا تھا اور غلہ کے حصول کے لیے آس پاس کے علاقوں کے باشندے مصر کا رخ کرتے تھے۔ مصر میں غلہ کی فراہمی اور اس کی نک اس کا تمام تر انتظام سیدنا یوسف نے خود سنبھال رکھا تھا اور اس انتظام کو موجودہ دور کے راشن سسٹم سے تشبیہ دی جاسکتی ہے۔ بیرونی علاقوں سے حصول غلہ کے لیے آنے والوں کے لیے یہ شرط تھی کہ وہ درخواست پیش کریں کہ انھیں اپنے گھر کے کتنے افراد کے لیے غلہ درکار ہے۔ ان کے پورے پورے نام اور پتے لکھے جائیں اور ان کو رجسٹر میں درج کیا جائے اور درخواست کی منظوری کے لیے درخواست حکام بالا کے پاس پیش کی جائے۔ درخواست کی تحقیق کے بعد فی کس ایک بار شتر غلہ کی منظوری دے دی جاتی تھی۔ اسی سلسلہ میں برادران یوسف بھی مصر آئے تھے۔ انہوں نے بھی حسب ضابطہ درخواست دی۔ یہ درخواست بالآخر سیدنا یوسف تک پہنچی۔ آپ نے درخواست کی منظوری دے دی مگر ساتھ ہی ان درخواست دہندگان کو اپنے پاس طلب کرلیا۔ اب برادران یوسف سیدنا یوسف کے سامنے کھڑے تھے۔ آپ انھیں خوب پہچانتے تھے۔ لیکن ان کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہ آسکتی تھی کہ جس بادشاہ کے حضور کھڑے غلہ کی درخواست پیش کر رہے ہیں وہ ان کا بھائی یوسف ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کی وہ بات پوری ہوئی جو اس نے برادران یوسف کے یوسف کو کنویں میں ڈالتے وقت یوسف کے دل میں ڈالی تھی۔
وَجَاۗءَ اِخْوَةُ يُوْسُفَ : یہاں اللہ تعالیٰ نے خوش حالی کے سالوں کا، ان میں یوسف (علیہ السلام) کے حسن انتظام کا اور اس سے متعلق سب باتوں کا ذکر چھوڑ دیا، کیونکہ اصل مقصود یہ تھا کہ انبیاء کو اپنوں کے ہاتھوں کیا کچھ اٹھانا پڑتا ہے اور آخر کار کس طرح ان کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نصرت اور حسن انجام کا اہتمام ہوتا ہے۔ درمیان میں گزرنے والے عرصے کا اندازہ خود بخود ہو رہا ہے، اس لیے اب خوش حالی کے سالوں کے ختم ہونے کے بعد قحط کے دوران بھائیوں کی آمد کی بات شروع فرمائی، جس سے بات خودبخود سمجھ میں آرہی ہے کہ قحط کی وسعت مصر سے نکل کر اردگرد کے ممالک فلسطین و شام وغیرہ تک پہنچ گئی تھی اور مصر کے سوا کہیں سے غلہ نہیں ملتا تھا، اس لیے یہ بھائی غلہ خریدنے کے لیے مصر آئے تھے۔- فَدَخَلُوْا عَلَيْهِ : اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یوسف (علیہ السلام) کتنی احتیاط سے غلہ تقسیم کر رہے تھے کہ وہ غلہ لینے کے لیے آنے والوں سے خود ملتے اور قیمت وصول کرنے کے باوجود ایک اونٹ فی کس سے زیادہ غلہ نہیں جانے دیتے تھے۔ چھوٹے بھائی کو چھوڑ کر سب کے آنے کی وجہ بھی یہی تھی کہ دس اونٹوں کا غلہ مل جائے گا اور شاید یہ بھی ہو کہ راستے میں دشمن سے محفوظ رہ سکیں۔ - فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهٗ مُنْكِرُوْنَ : ” فَعَرَفَهُمْ “ جملہ فعلیہ ہے جس میں تجدد و حدوث ہوتا ہے، یعنی یوسف (علیہ السلام) نے اپنی یادداشت اور ذکاوت سے دیکھتے ہی انھیں پہچان لیا اور دوسرا جملہ اسمیہ ہے جس میں دوام ہوتا ہے کہ بھائی واپسی تک ان سے ناواقف رہے، کیونکہ بہت مدت گزر گئی تھی، چھوٹی عمر میں ان سے الگ ہوئے تھے۔ دوسرے یہ چیز تو ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھی کہ جس بھائی کو وہ کنویں میں ڈال گئے تھے وہ آج مصر کا مختار مطلق ہوگا۔
خلاصہ تفسیر :- (غرض یوسف (علیہ السلام) نے با اختیار ہو کر غلہ کاشت کرانا اور جمع کرانا شروع کیا اور سات برس کے بعد قحط شروع ہوا یہاں تک کہ دور دور سے یہ خبر سن کر مصر میں سلطنت کی طرف سے غلہ فروخت ہوتا ہے ذوق در ذوق لوگ آنا شروع ہوئے) اور (کنعان میں بھی قحط ہوا) یوسف (علیہ السلام) کے بھائی (بھی بجز بنیامین کے غلہ لینے مصر میں) آئے پھر یوسف (علیہ السلام) کے پاس پہونچے سو یوسف (علیہ السلام) نے (تو) ان کو پہچان لیا اور انہوں نے یوسف (علیہ السلام) کو نہیں پہچانا (کیونکہ ان میں تغیر کم ہوا تھا نیز یوسف (علیہ السلام) کو ان کے آنے کا خیال اور قوی احتمال بھی تھا پھر نو وارد سے پوچھ بھی لیتے ہیں کہ آپ کون ہیں کہاں سے آئے ہیں اور شناسا لوگوں کو تھوڑے پتہ سے اکثر پہچان بھی لیتے ہیں بخلاف یوسف (علیہ السلام) کے کہ ان میں (چونکہ مفارقت کے وقت بہت کم عمر تھے) تغیر بھی زیادہ ہوگیا تھا اور ان کو یوسف (علیہ السلام) کے ہونے کا احتمال بھی نہ تھا پھر حکام سے کوئی پوچھ بھی نہیں سکتا کہ آپ کون ہیں ؟ یوسف (علیہ السلام) کو معمول تھا کہ ہر شخص کے ہاتھ غلہ بقدر حاجت فروخت کرتے تھے چناچہ ان کو بھی جب فی آدمی ایک ایک اونٹ غلہ قیمت دے کر ملنے لگا تو انہوں نے کہا کہ ہمارا ایک علاّتی بھائی اور ہے اس کو باپ نے اس وجہ سے کہ ان کا ایک بیٹاگم ہوگیا تھا اپنی تسلی کے لئے رکھ لیا ہے اس کے حصہ کا بھی ایک اونٹ غلہ زیادہ دے دیا جائے یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا کہ یہ قانون کے خلاف ہے اگر اس کا حصہ لینا ہے تو وہ خود آ کرلے جائے غرض ان کے حصہ کا غلہ ان کو دلوا دیا)- اور جب یوسف (علیہ السلام) نے ان کا سامان (غلہ کا) تیار کردیا تو (چلتے وقت) فرما دیا کہ (اگر یہ غلہ خرچ کر کے اب کے آنے کا ارادہ کرو تو) اپنے علاتی بھائی کو بھی (ساتھ) لانا (تاکہ اس کا حصہ بھی دیا جاسکے) تم دیکھتے نہیں ہو کہ میں پورا ناپ کردیتا ہوں اور میں سب سے زیادہ مہمان نوازی کرتا ہوں (پس اگر تمہارا وہ بھائی آئے گا اس کو بھی پورا حصہ دوں گا اور اس کی خوب خاطر داشت کروں گا جیسا تم نے اپنے ساتھ دیکھا غرض آنے میں تونفع ہی نفع ہے) اور اگر تم (دوبارہ آئے اور) اس کو میرے پاس نہ لائے تو (میں سمجھوں گا کہ تم مجھ کو دھوکہ دے کر غلہ زیادہ لینا چاہتے تھے تو اس کی سزا میں) نہ میرے پاس تمہارے نام کا غلہ ہوگا، اور نہ تم میرے پاس آنا (پس اس کے نہ لانے میں یہ نقصان ہوگا کہ تمہارے حصہ کا غلہ بھی سوخت ہو جاوئے گا) وہ بولے (دیکھئے) ہم (اپنی حد امکان تک تو) اس کے باپ سے اس کو مانگیں گے اور ہم اس کام کو (یعنی کوشش اور درخواست) ضرور کریں گے (آگے باپ کے اختیار میں ہے) اور جب وہاں سے بالکل چلنے لگے تو) یوسف (علیہ السلام) نے اپنے نوکروں سے کہہ دیا کہ ان کی جمع پونجی (جس کے عوض انہوں نے غلہ مول لیا ہے) ان (ہی) کے اسباب میں (چھپاکر) رکھ دو تاکہ جب اپنے گھر جائیں تو اس کو (جب وہ اسباب میں سے نکلنے) پہچانیں شاید (یہ احسان وکرم دیکھ کر) پھر دوبارہ آئیں (چونکہ یوسف (علیہ السلام) کو ان کا دوبارہ آنا اور ان کے بھائی کا لانا منظور تھا اس لئے کسی طرح سے اسکی تدبیر کی اول وعدہ اگر اس کو لاؤ گے تو اس کا بھی حصہ ملے گا دوسرے وعید سنا دی کہ اگر نہ لاؤ گے تو اپنا حصہ بھی نہ پاؤ گے تیسرے دام جو کہ نقد کے علاوہ کوئی اور چیز تھی واپس کردی دوخیال سے ایک یہ کہ اس سے احسان و کرم پر استدلال کر کے پھر آئیں گے دوسرے اس لئے کہ شاید ان کے پاس اور دام نہ ہوں اور اس لئے پھر نہ آسکیں اور جب یہ دام ہوں گے انہی کو لے کر پھر آسکتے ہیں) - معارف و مسائل :- پچھلی آیتوں میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کو ملک مصر کا کام اللہ تعالیٰ کے فضل سے حاصل ہوجانے کا بیان تھا مذکور الصدر آیات میں برادران یوسف (علیہ السلام) کا غلہ لینے کے لئے مصر آنا بیان ہوا ہے اور ضمنا آ گیا کہ دس بھائی مصر آئے تھے یوسف (علیہ السلام) کے حقیقی چھوٹے بھائی ساتھ نہ تھے،- درمیانی قصہ کی تفصیل قرآن نے اس لئے نہیں دی کہ پچھلے واقعات سے وہ خود بخود سمجھ میں آجاتی ہے،- ابن کثیر (رح) نے ائمہ تفسیر میں سے سدی اور محمد ابن اسحاق وغیرہ کے حوالہ سے جو تفصیل بیان کی ہے وہ اگر تاریخی اور اسرائیلی روایات سے بھی لی گئی ہو تو اس لئے کچھ قابل قبول ہے کہ نسق قرآنی میں خود اس کی طرف اشارے موجود ہیں ،- ان حضرات نے فرمایا کہ یوسف (علیہ السلام) کو ملک مصر کی وزارت حاصل ہونے کے بعد ابتدائی سات سال تعبیر خواب کے مطابق پورے ملک کیلئے بڑی خوش حالی اور رفاہیت کے آئے پیداوار خوب ہوئی اور زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے اور جمع کرنے کی کوشش کی اس کے بعد اسی خواب کا دوسرا جزء سامنے آیا کہ قحط شدید پڑا جو سات سال تک جاری رہا اس وقت یوسف (علیہ السلام) چونکہ پہلے سے باخبر تھے کہ یہ قحط سات سال تک مسلسل رہے گا اس لئے قحط کے ابتدائی سال میں ملک کے موجودہ ذخیرہ کو بڑی احتیاط سے جمع کرلیا اور پوری حفاظت سے رکھا،- مصر کے باشندوں کے پاس بقدر ان کی ضرورت کے پہلے سے جمع کرا دیا گیا اب قحط عام ہوا اور اطراف واکناف سے لوگ سمٹ کر مصر آنے لگے تو یوسف (علیہ السلام) نے ایک خاص انداز سے غلہ فروخت کرنا شروع کیا کہ ایک شخص کو ایک اونٹ کے بوجھ سے زیادہ نہ دیتے تھے جس کی مقدار قرطبی نے ایک وسق یعنی ساٹھ صاع لکھی ہے جو ہمارے وزن کے اعتبار سے دو سو دس سیر یعنی پانچ من سے کچھ زیادہ ہوتی ہے،- اور اس کام کا اتنا اہتمام کیا کہ غلہ کی فروخت خود اپنی نگرانی میں کراتے تھے یہ قحط صرف ملک مصر میں نہ تھا بلکہ دور دور کے علاقوں تک پھیلا ہوا تھا ارض کنعان جو فلسطین کا ایک حصہ ہے اور حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا وطن ہے اور آج بھی اس کا شہر بنام خلیل ایک پر رونق شہر کی صورت میں موجود ہے یہیں حضرت ابراہیم واسحاق اور یعقوب و یوسف (علیہم السلام) کے مزارات معروف ہیں یہ خطہ بھی اس قحط کی زد سے نہ بچا اور یعقوب (علیہ السلام) کے خاندان میں بےچینی پیدا ہوئی ساتھ ہی ساتھ مصر کی یہ شہرت عام ہوگئی تھی کہ وہاں غلہ قیمتاً مل جاتا ہے حضرت یعقوب (علیہ السلام) تک بھی یہ خبر پہنچی کہ مصر کا بادشاہ کوئی صالح رحم دل آدمی ہے وہ سب خلق خدا کو غلہ دیتا ہے تو اپنے صاحبزادوں سے کہا تم بھی جاؤ مصر سے غلہ لے کر آؤ ،- اور چونکہ یہ بھی معلوم ہوچکا تھا کہ آدمی کو ایک اونٹ کے بار سے زیادہ غلہ نہیں دیا جاتا اس لئے سب ہی صاحبزادوں کو بھیجنے کی تجویز ہوئی مگر سب سے چھوٹے بھائی بنیامین جو یوسف (علیہ السلام) کے حقیقی بھائی تھے اور یوسف (علیہ السلام) کی گم شدگی کے بعد سے حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی محبت و شفقت ان کے ساتھ زیادہ متعلق ہوگئی تھی ان کو اپنے پاس اپنی تسلی اور خبرگیری کے لئے روگ لیا،- دس بھائی کنعان سے سفر کر کے مصر پہنچنے یوسف (علیہ السلام) شاہی لباس میں شاہانہ تخت وتاج کے مالک ہونے کی حیثیت میں سامنے آئے اور بھائیوں نے ان کو بچپن کی سات سالہ عمر میں قافلہ والوں کے ہاتھ بیچا تھا جس کو اس وقت حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی روایت کے مطابق چالیس سال ہوچکے تھے (قرطبی، مظہری)- ظاہر ہے کہ اتنے عرصہ میں انسان کا حلیہ بھی کچھ کا کچھ ہوجاتا ہے اور ان کا یہ وہم و خیال بھی نہ ہوسکتا تھا کہ جس بچہ کو غلام بنا کر بیچا گیا تھا وہ کسی ملک کا وزیر یا بادشاہ ہوسکتا ہے اس لئے بھائیوں نے یوسف (علیہ السلام) کو نہ پہچانا مگر یوسف (علیہ السلام) نے پہچان لیا آیت مذکورہ میں فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهٗ مُنْكِرُوْنَ کے یہی معنی ہیں عربی زبان میں انکار کے اصلی معنی اجنبی سمجھنے ہی کے آتے ہیں اس لئے مُنْكِرُوْنَ کے معنی ناواقف اور انجان کے ہوگئے،- یوسف (علیہ السلام) کے پہچان لینے کے متعلق ابن کثیر نے بحوالہ سدی یہ بھی بیان کیا ہے کہ جب یہ دس بھائی دربار میں پہنچنے تو یوسف (علیہ السلام) نے مزید اطمینان کے لئے ان سے ایسے سوالات کئے جیسے مشتبہ لوگوں سے کئے جاتے ہیں تاکہ وہ پوری حقیقت واضح کر کے بیان کردیں اول تو ان سے پوچھا کہ آپ لوگ مصر کے رہنے والے نہیں آپ کی زبان بھی عبرانی ہے آپ یہاں کیسے پہنچنے انہوں نے عرض کیا کہ ہمارے ملک میں قحط عظیم ہے اور ہم نے آپ کی تعریف سنی اس لئے غلہ حاصل کرنے کے لئے آئے ہیں یوسف (علیہ السلام) نے پھر کہ ہمیں یہ کیسے اطمینان ہو کہ تم سچ کہہ رہے ہو اور تم کسی دشمن کے جاسوس نہیں ہو، تو ان سب بھائیوں نے عرض کیا کہ معاذاللہ ہم سے ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا ہم تو اللہ کے رسول یعقوب (علیہ السلام) کے بیٹے ہیں جو کنعان میں رہتے ہیں
وَجَاۗءَ اِخْوَۃُ يُوْسُفَ فَدَخَلُوْا عَلَيْہِ فَعَرَفَہُمْ وَہُمْ لَہٗ مُنْكِرُوْنَ ٥٨- جاء - جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] ، - ( ج ی ء ) جاء ( ض )- جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔- عرف - المَعْرِفَةُ والعِرْفَانُ : إدراک الشیء بتفکّر وتدبّر لأثره، وهو أخصّ من العلم، ويضادّه الإنكار، قال تعالی: فَلَمَّا جاءَهُمْ ما عَرَفُوا[ البقرة 89] ، فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف 58] - ( ع رف ) المعرفۃ والعرفان - کے معنی ہیں کسی چیز کی علامات وآثار پر غوروفکر کرکے اس کا ادراک کرلینا یہ علم سے اخص یعنی کم درجہ رکھتا ہے اور یہ الانکار کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے قرآن میں ہے ؛- فَلَمَّا جاءَهُمْ ما عَرَفُوا[ البقرة 89] پھر جس کو وہ خوب پہنچانتے تھے جب ان کے پاس آپہنچی تو اس کافر ہوگئے ۔ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف 58] تو یوسف نے ان کو پہچان لیا اور وہ ان کو نہ پہچان سکے ۔- مُنْكَرُ- والمُنْكَرُ : كلُّ فِعْلٍ تحكُم العقولُ الصحیحةُ بقُبْحِهِ ، أو تتوقَّفُ في استقباحِهِ واستحسانه العقولُ ، فتحکم بقبحه الشّريعة، وإلى ذلک قصد بقوله : الْآمِرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّاهُونَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ التوبة 112] - اور المنکر ہر اس فعل کو کہتے ہیں جسے عقول سلیمہ قبیح خیال کریں یا عقل کو اس کے حسن وقبیح میں تو قف ہو مگر شریعت نے اس کے قبیح ہونے کا حکم دیا ہو ۔ چناچہ آیات : ۔ الْآمِرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّاهُونَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ التوبة 112] نیک کاموں کا امر کرنے والے اور بری باتوں سے منع کرنے والے ۔
(٥٨) چناچہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے دس بھائی مصر پہنچے اور حضرت یوسف (علیہ السلام) کے پاس آئے تو حضرت یوسف (علیہ السلام) نے انکو پہچان لیا اور انہوں نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو نہیں پہچانا۔
(فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهٗ مُنْكِرُوْنَ )- ان حالات میں یہ امکان ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ عزیز مصر جس کے دربار میں ان کی پیشی ہورہی ہے وہ ان کا بھائی یوسف ہے۔
سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :50 یہاں پھر سات آٹھ برس کے واقعات درمیان میں چھوڑ کر سلسلہ بیان اس جگہ سے جوڑ دیا گیا ہے ۔ جہاں سے بنی اسرائیل کے مصر منتقل ہونے اور حضرت یعقوب علیہ السلام کو اپنے گم شدہ صاحبزادے کا پتہ ملنے کی ابتداء ہوتی ہے ۔ بیچ میں جو واقعات چھوڑ دیے گئے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ خواب والی پیش خبری کے مطابق حضرت یوسف علیہ السلام کی حکومت کے پہلے سات سال مصر میں انتہائی خوشحالی کے گزرے اور ان ایام میں انہوں نے آنے والے قحط کے لیے وہ تمام پیش بندیاں کرلیں جن کا مشورہ بادشاہ کے خواب کی تعبیر بتاتے وقت وہ دے چکے تھے ۔ اس کے بعد قحط کا دور شروع ہوا اور یہ قحط صرف مصر ہی میں نہ تھا بلکہ آس پاس کے ممالک بھی اس کی لپیٹ میں آگئے تھے ۔ شام ، فلسطین ، شرق اردن ، شمالی عرب ، سب جگہ خشک سالی کا دور دورہ تھا ۔ ان حالات میں حضرت یوسف علیہ السلام کے دانشمندانہ انتظام کی بدولت صرف مصر ہی وہ ملک تھا جہاں قحط کے باوجود غلہ کی فراط تھی ۔ اس لیے ہمسایہ ممالک کے لوگ مجبور ہوئے کہ غلہ حاصل کرنے کے لیے مصر کی طرف رجوع کریں ۔ یہی وہ موقع تھا جب فلسطین سے حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی غلہ خریدنے کے لیے مصر پہنچے ۔ غالبا حضرت یوسف علیہ السلام نے غلہ کی اس طرح ضابطہ بندی کی ہوگی کہ بیرونی ممالک میں خاص اجازت ناموں کے بغیر اور خاص مقدار سے زیادہ غلہ نہ جا سکتا ہوگا ۔ اس وجہ سے جب برادران یوسف علیہ السلام نے غیر ملک سے آکر غلہ حاصل کرنا چاہا ہوگا تو انہیں اس کے لیے خاص اجازت نامہ حاصل کرنے کی ضرورت پیش آئی ہوگی اور اس طرح حضرت یوسف علیہ السلام کے سامنے ان کی پیشی کی نوبت آئی ہوگی ۔ سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :51 برادران یوسف علیہ السلام کا آپ کو نہ پہچاننا کچھ بعید از قیاس نہیں ہے ۔ جس وقت انہوں نے آپ کو کنویں میں پھینکا تھا اس وقت آپ صرف سترہ سال کے لڑکے تھے ۔ اور اب آپ کی عمر ۳۸ سال کے لگ بھگ تھی ۔ اتنی طویل مدت آدمی کو بہت کچھ بدل دیتی ہے ۔ پھر یہ تو ان کے وہم گمان میں بھی نہ تھا کہ جس بھائی کو وہ کنویں میں پھینک گئے تھے وہ آج مصر کا مختار مطلق ہوگا ۔
37: جیسا کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے تعبیر دی تھی، سات سال بعد پورے مصر میں سخت قحط پڑا، اور آس پاس کے علاقے بھی اسکی لپیٹ میں آگئے، حضرت یوسف (علیہ السلام) نے مصر کے بادشاہ کو یہ مشورہ دیا تھا کہ خوشحالی کے سات سالوں میں مسلسل غلے کا ذخیرہ کیا جائے تاکہ جب قحط کے سال آئیں تو یہ ذخیرہ لوگوں کے کام آئے، اس موقع پر آپ نہ صرف اپنے علاقے کے لوگوں کو سستے داموں غلہ فروخت کرسکیں گے بلکہ اردگرد کے دوسرے علاقوں کے لوگوں کی بھی مدد کرسکیں گے، چنانچہ اس قحط کے نتیجے میں دور دور تک غلے کی بڑی قلت ہوگئی، حضرت یعقوب (علیہ السلام) (یعنی حضرت یوسف (علیہ السلام) کے والد) اس پورے عرصے میں فلسطین کے علاقے کنعان ہی میں تھے جب کنعان میں بھی قحط پڑا تو انہیں اور ان کے صاحبزادوں کو پتہ چلا کہ مصر کے بادشاہ نے قحط زدہ لوگوں کے لئے راشن مقرر کر رکھا ہے اور وہاں سے مناسب قیمت پر غلہ مل سکتا ہے، اس خبر کو سن کر حضرت یوسف (علیہ السلام) کے دس باپ شریک بھائی جنہوں نے ان کو بچپن میں کنویں میں ڈالا تھا راشن لینے کیلئے مصر آئے، البتہ ان کے سگے بھائی بنیامین کو اپنے والد کے پاس چھوڑ آئے، یہاں راشن کی تقسیم کا سارا انتظام حضرت یوسف (علیہ السلام) خود کررہے تھے ؛ تاکہ سب لوگوں کو انصاف کے ساتھ راشن مل سکے، چنانچہ ان کے بھائیوں کو ان کے سامنے آنا پڑا۔ 38: حضرت یوسف (علیہ السلام) توان کو اس لئے پہچان گئے کہ ان کی صورتوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی، اور حضرت یوسف (علیہ السلام) کو توقع بھی تھی کہ وہ راشن لینے کے لئے آئیں گے، لیکن وہ بھائی حضرت یوسف (علیہ السلام) کو اس لئے نہیں پہچان سکے کہ انہوں نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو سات سال کی عمر میں دیکھا تھا اور اب وہ بہت بڑے ہوچکے تھے، اس لئے صورت میں بڑی تبدیلی آچکی تھی، اس کے علاوہ ان کہ وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ مصر کے محلات میں ہوسکتے ہیں۔