Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

59۔ 1 حضرت یوسف (علیہ السلام) نے انجان بن کر جب اپنے بھائیوں سے باتیں پوچھیں تو انہوں نے جہاں اور سب کچھ بتایا، یہ بھی بتادیا کہ ہم دس بھائی اس وقت یہاں موجود ہیں۔ لیکن ہمارے دو بھائی (یعنی دوسری ماں سے) اور بھی ہیں۔ ان میں سے ایک تو جنگل میں ہلاک ہوگیا اور اس کے دوسرے بھائی کو والد نے اپنی تسلی کے لئے اپنے پاس رکھا ہے، اسے ہمارے ساتھ نہیں بھیجا۔ جس پر حضرت یوسف (علیہ السلام) نے کہا کہ آئندہ اسے بھی ساتھ لے کر آنا، دیکھتے نہیں کہ میں ناپ بھی پورا دیتا ہوں اور مہمان نوازی اور خاطر مدارت بھی خوب کرتا ہوں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَلَمَّا جَهَّزَهُمْ بِجَهَازِهِمْ ۔۔ : ” جَھَازٌ“ وہ سامان جس کی مسافر کو ضرورت ہوتی ہے۔ یوسف (علیہ السلام) نے کہا : (ائْتُوْنِيْ بِاَخٍ لَّكُمْ ) یہ نہیں کہا ” بِأَخِیْکُمْ “ کہ اپنے بھائی کو جو تمہارے باپ سے ہے لے کر آنا، بلکہ ” بِاَخٍ لَّكُمْ “ کہا، یعنی ” اَخٌ“ کو نکرہ رکھا، تاکہ بھائیوں کے سامنے یہی ظاہر ہو کہ عزیز مصر اس بھائی کو نہیں جانتا۔ یہ سب سے چھوٹے اور یوسف (علیہ السلام) کے سگے بھائی تھے۔ ان کا نام بنیامین مشہور ہے جس کی کوئی پختہ دلیل نہیں، جیسا کہ عزیز مصر کا نام ” فوطیفار “ ، اس کی بیوی کے نام ” زلیخا “ یا ” راعیل “ ، بادشاہ کا نام ” ریان بن ولید “ اور یوسف (علیہ السلام) کے دوسرے بھائیوں کے ناموں کی دلیل اسرائیلی روایات کے سوا کچھ نہیں، جن پر اعتبار ممکن نہیں۔ یوسف (علیہ السلام) کی اس فرمائش سے معلوم ہوتا ہے کہ خود بھائیوں نے یوسف (علیہ السلام) کو اپنے خاندان کا تعارف کرواتے ہوئے اس بھائی کا ذکر کیا۔ - اَلَا تَرَوْنَ ۔۔ : چھوٹے بھائی کو بلوانے کے لیے یوسف (علیہ السلام) نے اپنی تجارتی ایمان داری ” اُوْفِي الْكَيْلَ “ اور بہترین مہمان نوازی کا ذکر بھی کیا اور اگلی آیت میں دھمکی بھی دی کہ اس بھائی کو ساتھ نہ لائے تو نہ غلہ ملے گا اور نہ مجھ سے ملاقات کی امید رکھنا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یوسف (علیہ السلام) نے غلہ لینے کے لیے آنے والے تمام لوگوں کے لیے مہمان نوازی کا، ان کے ٹھہرنے اور کھانے پینے کا بہترین انتظام کر رکھا تھا اور بھائی تو پھر بھائی تھے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

یوسف (علیہ السلام) کا ان سوالات سے مقصد ہی یہ تھا کہ یہ ذرا کھل کر پورے واقعات بیان کردیں تب یوسف (علیہ السلام) نے دریافت کیا کہ تمہارے والد کے اور بھی کوئی اولاد تمہارے سوا ہے تو انہوں نے بتلایا کہ ہم بارہ بھائی تھے جن میں سے ایک چھوٹا بھائی جنگل میں گم ہوگیا اور ہمارے والد کو سب سے زیادہ اسی سے محبت تھی اس کے بعد سے اس کے چھوٹے حقیقی بھائی کے ساتھ زیادہ محبت کرنے لگے اور اسی لئے اس وقت بھی اس کو سفر میں ہمارے ساتھ نہیں بھیجا تاکہ وہ اس کی تسلّی کا سبب بنے،- یوسف (علیہ السلام) نے یہ سب باتیں سن کر حکم دیا کہ ان کو شاہی مہمان کی حیثیت سے ٹھرائیں اور قاعدہ کے موافق غلہ دیدیں۔- تقسیم غلہ میں یوسف (علیہ السلام) نے ضابطہ کار یہ بنایا تھا کہ ایک مرتبہ میں کسی ایک شخص کو ایک اونٹ کے بار سے زیادہ نہ دیتے مگر جب حساب کے موافق وہ ختم ہوجائے تو پھر دوبارہ دیدیتے تھے۔- بھائیوں سے ساری تفصیلات معلوم کرلینے کے بعد ان کے دل میں یہ خیال آنا طبعی امر تھا کہ یہ پھر دوبارہ بھی آئیں اس کے لئے ایک انتظام تو ظاہرا یہ کیا کہ خود ان بھائیوں سے کہا اِئْتُوْنِيْ بِاَخٍ لَّكُمْ مِّنْ اَبِيْكُمْ ۚ اَلَا تَرَوْنَ اَنِّىْٓ اُوْفِي الْكَيْلَ وَاَنَا خَيْرُ الْمُنْزِلِيْنَ یعنی جب تم دوبارہ آؤ تو اپنے سوتیلے بھائی باپ شریک کو بھی لے کر آنا تم دیکھ رہے ہو کہ میں کس طرح پورا پورا غلہ دیتا ہوں اور کس طرح مہمانی کرتا ہوں

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَمَّا جَہَّزَہُمْ بِجَہَازِہِمْ قَالَ ائْتُوْنِيْ بِاَخٍ لَّكُمْ مِّنْ اَبِيْكُمْ۝ ٠ۚ اَلَا تَرَوْنَ اَنِّىْٓ اُوْفِي الْكَيْلَ وَاَنَا خَيْرُ الْمُنْزِلِيْنَ۝ ٥٩- جهز - قال تعالی: فَلَمَّا جَهَّزَهُمْ بِجَهازِهِمْ [يوسف 70] ، الجَهَاز : ما يعدّ من متاع وغیره، والتجهيز : حمل ذلک أو بعثه،- ( ج ھ ز )- الجھاز ۔ سازو سامان جو تیار کر کے رکھا جائے ۔ قرآن میں ہے : فَلَمَّا جَهَّزَهُمْ بِجَهازِهِمْ [يوسف 70] جب ان کے لئے ان کا سامان تیار کردیا ۔ التجھیز ( تفعیل ) تیار کردہ سامان کو لادنا یا بھیجنا - رأى- والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس :- والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو :- لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] ،- والثاني : بالوهم والتّخيّل،- نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] .- والثالث : بالتّفكّر، - نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] .- والرابع : بالعقل،- وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] ،- ( ر ء ی ) رای - الرؤیتہ - کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور - قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں - ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا - جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔- ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا - جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔- (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا - جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے - ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا - جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ - وفی پورا - الوَافِي : الذي بلغ التّمام . يقال : درهم وَافٍ ، وكيل وَافٍ ، وأَوْفَيْتُ الكيلَ والوزنَ. قال تعالی: وَأَوْفُوا الْكَيْلَ إِذا كِلْتُمْ [ الإسراء 35] - ( و ف ی) الوافی - ۔ مکمل اور پوری چیز کو کہتے ہیں جیسے : درھم واف کیل واف وغیرہ ذالک اوفیت الکیل والوزن میں نے ناپ یا تول کر پورا پورا دیا ۔ قرآن میں ہے : وَأَوْفُوا الْكَيْلَ إِذا كِلْتُمْ [ الإسراء 35] اور جب کوئی چیز ناپ کردینے لگو تو پیمانہ پورا پھرا کرو ۔- كيل - الْكَيْلُ : كيل الطعام . يقال : كِلْتُ له الطعام :إذا تولّيت ذلک له، وكِلْتُهُ الطّعام : إذا أعطیته كَيْلًا، واكْتَلْتُ عليه : أخذت منه كيلا . قال اللہ تعالی: وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ الَّذِينَ إِذَا اكْتالُوا عَلَى النَّاسِ يَسْتَوْفُونَ وَإِذا کالُوهُمْ [ المطففین 1- 3] - ( ک ی ل ) الکیل - ( ض ) کے معنی غلہ نا پنے کے ہیں ) اور کلت لہ الطعا م ( صلہ لام ) کے منعی ہیں ۔ میں نے اس کے لئے غلہ ناپنے کی ذمہ داری سنھالی اور کلت الطعام ( بدوں لام ) کے منعی ہیں میں نے اسے غلہ ناپ کردیا اور اکتلت علیہ کے منعی ہیں ۔ میں نے اس سے ناپ کرلیا قرآن میں ہے : ۔ وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ الَّذِينَ إِذَا اكْتالُوا عَلَى النَّاسِ يَسْتَوْفُونَ وَإِذا کالُوهُمْ [ المطففین 1- 3] ناپ اور تول میں کمی کرنے والوں کے لئے خرابی ہے ۔ جو لوگوں سے ناپ کرلیں تو پورا لیں اور جب ان کو ناپ یا تول کردیں تو کم دیں ۔ - نزل ( ضيافت)- النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- والنُّزُلُ : ما يُعَدُّ للنَّازل من الزَّاد، قال : فَلَهُمْ جَنَّاتُ الْمَأْوى نُزُلًا - [ السجدة 19] وأَنْزَلْتُ فلانا : أَضَفْتُهُ.- ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں - النزل - ( طعام مہمانی ) وہ کھان جو آنے والے مہمان کے لئے تیار کیا جائے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَلَهُمْ جَنَّاتُ الْمَأْوى نُزُلًا[ السجدة 19] ان کے رہنے کے لئے باغ میں یہ مہانی ۔- انزلت - فلانا کے معنی کسی کی مہمانی کرنے کے ہیں

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے ائتونی باخ لکم من ابیکم ۔ اپنے سوتیلے بھائی کو میرے پاس لانا تاقول باری فان لم تاتونی بہ فلا کیل لکم عندی ولا تقربون اگر تم اسے نہ لائو گے تو میرے پاس تمہارے لیے کوئی غلہ نہیں ہے بلکہ تم میرے قریب بھی نہ پھٹکنا ۔ ایک قول کے مطابق حضرت یوسف (علیہ السلام) نے بھائیوں سے ان کے سوتیلے بھائی بن یامین کو لانے کا مطالبہ کیا تھا کہ جب آپ نے بھائیوں سے ان کے گھریلو حالات معلوم کیے اور اس سلسلے میں ان کے ساتھ گفتگو کی تو انہوں نے یہ بتایا کہ باپ ان کے سوتیلے بھائی کے ساتھ شفقت سے پیش آتے ہیں اور اس معاملے میں اسے ان کی فرات سے ترجیح دیتے ہیں حالانکہ باپاچھے خاصے سمجھدار انسان ہیں ۔ اس موقع پر حضرت یوسف (علیہ السلام) نے بھائیوں کے سامنے یہ ظاہر کیا کہ وہ ان کے بھائی کو دیکھنا چاہتے ہیں اور ان کا دل اس کا اصل سبب معلوم کرنے کے لیے بےتا ب ہے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کا مقصد یہ تھا کہ اس طریقے سے وہ اپنے بھائی تک رسائی حاصل کرنا چاہتے تھے ۔ انہیں یہ خوف تھا کہ اگر بھائیوں کے سامنے وہ کھل کر آ جائیں اور انہیں بتادیں کہ میں یوسف ہوں تو عین ممکن تھا کہ بھائی ان میں سے بن یامین کا معاملہ چھپا جاتے۔- اور اس کے متعلق کچھ نہ بتاتے بلکہ دونوں بھائیوں کے یکجا ہونے کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرنے کی کوشش کرتے اس لئے حضرت یوسف (علیہ السلام) نے بن یامین کے حصول کے لئے اپنی تدبیر پر مرحلہ وار عمل کیا تاکہ بھائیوں پر حقیقت حال سے واقف ہوجانے کی وجہ سے ایسا دبائو نہ پڑے جس کی بنا پر بھائی کے ساتھ ان کے اختلاف اور نفرت میں اور زیادہ شدت پیدا ہوجائے۔ قول باری ہے (یا بنی لا تدخلوا من باب واحد وادخلوا من ابواب متفرقۃ میرے بچو مصر کے دارالسلطنت میں ایک دروازے سے داخل نہ ہونا بلکہ مختلف دروازوں سے جانا) حضرت ابن عباس (رض) ، حسن بصری، قتادہ، ضحاک اور سدی کا قول ہے کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے یہ بیٹے بڑے وجیہ اور حسین و جمیل تھے، آپ کو یہ خوف پیدا ہوا کہ اکٹھے داخل ہونے کی صورت میں کہیں انہیں نظر نہ لگ جائے۔ دوسرے مفسرین کا قول ہے کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو یہ خوف پیدا ہوگیا کہ کہیں لوگ ان سے حسد کرنا نہ شروع کردیں اور ان کی قوت و طاقت کی خبر بادشاہ کے کانوں تک نہ پہنچ جائے اور وہ انہیں اپنی حکومت کے لئے خطرہ سمجھتے ہوئے قتل نہ کرا دے۔ حضرت ابن عباس (رض) اور دیگر تابعین سے مروی تاویل کی بنا پر یہ دلالت ہوتی ہے کہ نظر بد برحق ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی مروی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (العین حق، نظر بد برحق ہے) قول باری ہے (جعل السقایۃ فی رحل اخیہ ثم اذن موذن ایتھا العیر انکم تارقون۔ اس نے اپنے بھائی کے سامان میں اپنا پیالہ رکھ دیا۔ پھر ایک پکارنے والے نے پکار کر کہا ” اے قافلے والو تم لوگ چور ہو “ ) ایک قول ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اپنے کسی آدمی کو بھائی کے سامان میں پیالہ رکھ دینے کے لئے کہا تھا اس کے بعد جو لوگ پیمانوں کے ذریعے ناپ کر قافلے والوں کو غلہ تقسیم کرنے پر مامور تھے انہیں جب ایک پیمانہ نہ ملا اور پتہ نہل گا کہ اسے کون اٹھا کرلے گیا ہے تو ان میں سے ایک نے قافلہ کے لوگوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ تم چور ہو، غلہ تقسیم کرنے والوں کا خیال تھا کہ قافلے والے اس قسم کی چوریاں کرلیتے ہیں۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے انہیں یہ اعلان کرنے کا حکم نہیں دیا تھا، اس بنا پر اعلان کرنے والے شخص کی یہ بات غلط نہیں تھی کیونکہ اس نے اپنے ظن غالب کی بنیاد پر نیز اپنی سمجھ کے مطابق یہ اعلان کیا تھا۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے بھائی تک رسائی کا جو طریقہ اختیار کیا اس میں یہ دلالت موجود ہے کہ انسان کے لئے دوسرے سے اپنے حق کی وصولی کے لئے ہر ممکن طریقہ اختیار کرنا جائز ہے اس کے لئے اس شخص کی رضا مندی کو کوئی ضرورت نہیں جس سے حق وصول کرنا ہو۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٥٩) غرض کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے جب ان کو انجاج تول دیا تو ان سے کہا کہ جیسا کہ تم کہہ رہے ہو کہ ہمارا ایک سوتیلا بھائی اور ہے تو اب اگر آنے کا ارادہ کرو تو اس کو بھی لانا تاکہ اس کا اناج بھی ملے تم دیکھتے نہیں ہو کہ میں پورا ماپ کردیتا ہوں اور اناج کو ناپ تول کر تقسیم کرانا میرے اختیار میں ہے اور میں سب سے زیادہ مہمان نوازی کرتا ہوں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥٩ (وَلَمَّا جَهَّزَهُمْ بِجَهَازِهِمْ قَالَ ائْتُوْنِيْ بِاَخٍ لَّكُمْ مِّنْ اَبِيْكُمْ )- غلہ چونکہ راشن بندی کے تحت دیا جاتا تھا اس لیے انہوں نے درخواست کی ہوگی کہ ہمارا ایک بھائی اور بھی ہے اس کے اہل خانہ بھی ہیں اسے ہم اپنے والد کی خدمت کے لیے پیچھے چھوڑ آئے ہیں اس کے حصے کا غلہ بھی ہمیں دے دیا جائے۔ اس سلسلے میں سوال و جواب کے دوران انہوں نے یہ بھی بتایا ہوگا کہ ہم دس حقیقی بھائی ہیں جبکہ وہ گیا رہواں بھائی باپ کی طرف سے سگا لیکن والدہ کی طرف سے سوتیلا ہے۔ حضرت یوسف نے یہ سارا ماجرا سننے کے بعد فرمایا ہوگا کہ ٹھیک ہے میں آپ کے گیارہویں بھائی کے حصے کا اضافی غلہ تم لوگوں کو اس شرط پردے دیتا ہوں کہ آئندہ جب تم لوگ غلہ لینے کے لیے آؤ گے تو اپنے اس بھائی کو ساتھ لے کر آؤ گے تاکہ میں تصدیق کرسکوں کہ تم لوگوں نے غلط بیانی کر کے مجھ سے اضافی غلہ تو نہیں لیا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

39: در اصل ہوا یہ تھا کہ جب اِن دس بھائیوں کو ایک ایک اُونٹ کا بوجھ غلہ مل گیا تو انہوں نے حضرت یوسف علیہ السلام سے کہا کہ ہمارا ایک باپ شریک بھائی ہے جو ہمارے والد کی خدمت کے لئے وہاں رہ گیا ہے، اور یہاں نہیں آسکا۔ آپ اس کے حصے کا غلہ بھی ہمیں دے دیجئے۔ اِس پر حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا کہ راشن کو جو قواعد مقرر کئے گئے ہیں، ان کی رُو سے میں ایسا نہیں کرسکتا۔ البتہ اگلی مرتبہ جب آپ آئیں تو اُسے بھی ساتھ لے کر آئیں تو میں سب کا حصہ پورا پورا دُوں گا۔ اور اگر اس مرتبہ آپ لوگ اُسے ساتھ نہ لائے تو آپ کے اپنے حصے کا غلہ بھی آپ کو نہیں ملے گا، کیونکہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ آپ نے جھوٹ بولا تھا کہ آپ کا کوئی اور بھائی بھی ہے، اور دھوکا دینے والوں کو راشن نہیں دیا جا سکتا۔