Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

60۔ 1 ترغیب کے ساتھ یہ دھمکی ہے کہ اگر گیارہویں بھائی کو ساتھ نہ لائے تو نہ تمہیں غلہ ملے گا نہ میری طرف سے اس خاطر مدارت کا اہتمام ہوگا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥٨] سیدنا یوسف کے چھوٹے بھائی کو ساتھ لانے کی تاکید :۔ برادران یوسف کی درخواست میں ان کے والد اور چھوٹے بھائی کا بھی اندراج تھا۔ لیکن منظوری فی کس ایک بار شتر غلہ صرف ان افراد کی ہوئی جو غلہ لینے آئے تھے اور سیدنا یوسف کے پاس حاضر کئے گئے تھے۔ آپ نے باقی افراد کے متعلق ان سے سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ ہمارا باپ سن رسیدہ آدمی ہے آنے کے قابل ہی نہیں اور چھوٹے بھائی کو ہم اس کی خبرگیری کے لیے چھوڑ آئے ہیں۔ سیدنا یوسف نے انھیں کہا۔ دیکھو تمہارا باپ تو واقعی آنے کے قابل نہ رہا ہوگا۔ البتہ اگلی بار جب آؤ اپنے چھوٹے بھائی کو ضرور ساتھ لانا۔ اس دفعہ تو تمہاری درخواست منظور کردی گئی ہے اور غلہ بھی پورا دے دیتا ہوں۔ مگر آئندہ اگر تم اپنے بھائی کو نہ لائے تو میں سمجھوں گا کہ تم جھوٹے تھے۔ لہذا اس صورت میں نہ تو تمہیں غلہ مل سکے گا اور نہ ہی مجھ تک رسائی ہوسکے گی۔ بلکہ میرے ہاں آنے کی کوشش ہی نہ کرنا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

اور پھر ایک دھمکی بھی دے دی (آیت) فَاِنْ لَّمْ تَاْتُوْنِيْ بِهٖ فَلَا كَيْلَ لَكُمْ عِنْدِيْ وَلَا تَقْرَبُوْنِ یعنی اگر تم اپنے اس بھائی کو ساتھ نہ لائے تو پھر میں تم میں سے کسی کو بھی غلہ نہ دوں گا (کیونکہ میں سمجھوں گا کہ تم نے مجھ سے جھوٹ بولا ہے) اس طرح تم میرے پاس نہ آنا، دوسرا انتظام خفیہ یہ کیا کہ جو نقد یا زیور وغیرہ ان بھائیوں نے غلہ کی قیمت کے طور پر ادا کیا تھا اس کے متعلق کارندوں کو حکم دے دیا کہ اس کو چھپا کر انہی کے سامان میں اس طرح باندھ دو کہ ان کو اس وقت پتہ نہ لگے تاکہ جب یہ گھر پہنچ کر سامان کھولیں اور اپنا نقدو زیور بھی ان کو واپس ملے تو یہ پھر دوبارہ لینے کیلئے آسکیں

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَاِنْ لَّمْ تَاْتُوْنِيْ بِہٖ فَلَا كَيْلَ لَكُمْ عِنْدِيْ وَلَا تَقْرَبُوْنِ۝ ٦٠- قرب - الْقُرْبُ والبعد يتقابلان . يقال : قَرُبْتُ منه أَقْرُبُ وقَرَّبْتُهُ أُقَرِّبُهُ قُرْباً وقُرْبَاناً ، ويستعمل ذلک في المکان، وفي الزمان، وفي النّسبة، وفي الحظوة، والرّعاية، والقدرة . فمن الأوّل نحو : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة 35] وَلا تَقْرَبُوا الزِّنى [ الإسراء 32] ، فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ بَعْدَ عامِهِمْ هذا [ التوبة 28] . وقوله : وَلا تَقْرَبُوهُنَ [ البقرة 222] ، كناية عن الجماع کقوله : فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ [ التوبة 28] ، وقوله : فَقَرَّبَهُ إِلَيْهِمْ [ الذاریات 27] . وفي الزّمان نحو : اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسابُهُمْ [ الأنبیاء 1] ، وقوله : وَإِنْ أَدْرِي أَقَرِيبٌ أَمْ بَعِيدٌ ما تُوعَدُونَ [ الأنبیاء 109] . وفي النّسبة نحو : وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُوا الْقُرْبى[ النساء 8] ، وقال : الْوالِدانِ وَالْأَقْرَبُونَ [ النساء 7] ، وقال : وَلَوْ كانَ ذا قُرْبى [ فاطر 18] ، وَلِذِي الْقُرْبى [ الأنفال 41] ، وَالْجارِ ذِي الْقُرْبى [ النساء 36] ، يَتِيماً ذا مَقْرَبَةٍ [ البلد 15] . وفي الحظوة : لَا الْمَلائِكَةُ الْمُقَرَّبُونَ [ النساء 172] ، وقال في عيسى: وَجِيهاً فِي الدُّنْيا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ آل عمران 45] ، عَيْناً يَشْرَبُ بِهَا الْمُقَرَّبُونَ [ المطففین 28] ، فَأَمَّا إِنْ كانَ مِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ الواقعة 88] ، قالَ نَعَمْ وَإِنَّكُمْ لَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ الأعراف 114] ، وَقَرَّبْناهُ نَجِيًّا[ مریم 52] . ويقال للحظوة : القُرْبَةُ ، کقوله : قُرُباتٍ عِنْدَ اللَّهِ وَصَلَواتِ الرَّسُولِ أَلا إِنَّها قُرْبَةٌ لَهُمْ [ التوبة 99] ، تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنا زُلْفى[ سبأ 37] . وفي الرّعاية نحو : إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ [ الأعراف 56] ، وقوله : فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ [ البقرة 186] - وفي القدرة نحو : وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ [ ق 16] . قوله وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْكُمْ [ الواقعة 85] ، يحتمل أن يكون من حيث القدرة- ( ق ر ب ) القرب - القرب والبعد یہ دونوں ایک دوسرے کے مقابلہ میں استعمال ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قربت منہ اقرب وقربتہ اقربہ قربا قربانا کسی کے قریب جانا اور مکان زمان ، نسبی تعلق مرتبہ حفاظت اور قدرت سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے جنانچہ فرب مکانی کے متعلق فرمایا : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة 35] لیکن اس درخت کے پاس نہ جانا نہیں تو ظالموں میں داخل ہوجاؤ گے ۔ لا تَقْرَبُوا مالَ الْيَتِيمِ [ الأنعام 152] اور یتیم کے مال کے پاس بھی نہ جانا ۔ وَلا تَقْرَبُوا الزِّنى [ الإسراء 32] اور زنا کے پا س بھی نہ جانا ۔ فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ بَعْدَ عامِهِمْ هذا [ التوبة 28] تو اس برس کے بعد وہ خانہ کعبہ کے پاس نہ جانے پائیں ۔ اور آیت کریمہ ولا تَقْرَبُوهُنَ [ البقرة 222] ان سے مقاربت نہ کرو ۔ میں جماع سے کنایہ ہے ۔ فَقَرَّبَهُ إِلَيْهِمْ [ الذاریات 27] اور ( کھانے کے لئے ) ان کے آگے رکھ دیا ۔ اور قرب زمانی کے متعلق فرمایا : اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسابُهُمْ [ الأنبیاء 1] لوگوں کا حساب ( اعمال کا وقت نزدیک پہنچا ۔ وَإِنْ أَدْرِي أَقَرِيبٌ أَمْ بَعِيدٌ ما تُوعَدُونَ [ الأنبیاء 109] اور مجھے معلوم نہیں کہ جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ عنقریب آنے والی ہے یا اس کا وقت دور ہے ۔ اور قرب نسبی کے متعلق فرمایا : وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُوا الْقُرْبى[ النساء 8] اور جب میراث کی تقسیم کے وقت ( غیر وارث ) رشتے دار آجائیں ۔ الْوالِدانِ وَالْأَقْرَبُونَ [ النساء 7] ماں باپ اور رشتے دار ۔ وَلَوْ كانَ ذا قُرْبى [ فاطر 18] گوہ وہ تمہاری رشتے دار ہو ۔ وَلِذِي الْقُرْبى [ الأنفال 41] اور اہل قرابت کا ۔ وَالْجارِ ذِي الْقُرْبى [ النساء 36] اور رشتے در ہمسایوں يَتِيماً ذا مَقْرَبَةٍ [ البلد 15] یتیم رشتے دار کو ۔۔۔ اور قرب بمعنی کے اعتبار سے کسی کے قریب ہونا کے متعلق فرمایا : لَا الْمَلائِكَةُ الْمُقَرَّبُونَ [ النساء 172] اور نہ مقرب فرشتے ( عار ) رکھتے ہیں ۔ اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : وَجِيهاً فِي الدُّنْيا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ آل عمران 45]( اور جو ) دنیا اور آخرت میں آبرو اور ( خدا کے ) خاصوں میں سے ہوگا ۔ عَيْناً يَشْرَبُ بِهَا الْمُقَرَّبُونَ [ المطففین 28] وہ ایک چشمہ ہے جس میں سے ( خدا کے ) مقرب پئیں گے ۔ فَأَمَّا إِنْ كانَ مِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ الواقعة 88] پھر اگر وہ خدا کے مقربوں میں سے ہے : قالَ نَعَمْ وَإِنَّكُمْ لَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ الأعراف 114]( فرعون نے ) کہا ہاں ( ضرور ) اور اس کے علاوہ تم مقربوں میں داخل کرلئے جاؤ گے ۔ وَقَرَّبْناهُ نَجِيًّا[ مریم 52] اور باتیں کرنے کے لئے نزدیک بلایا ۔ اور القربۃ کے معنی قرب حاصل کرنے کا ( ذریعہ ) کے بھی آتے ہیں جیسے فرمایا : قُرُباتٍ عِنْدَ اللَّهِ وَصَلَواتِ الرَّسُولِ أَلا إِنَّها قُرْبَةٌ لَهُمْ [ التوبة 99] اس کو خدا کی قربت کا ذریعہ ۔ أَلا إِنَّها قُرْبَةٌ لَهُمْ [ التوبة 99] دیکھو وہ بےشبہ ان کے لئے ( موجب ) قربت ہے۔ تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنا زُلْفى[ سبأ 37] کہ تم کو ہمارا مقرب بنادیں ۔ اور رعایت ونگہبانی کے متعلق فرمایا : إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ [ الأعراف 56] کچھ شک نہیں کہ خدا کی رحمت نیکی کرنے والوں کے قریب ہے ۔ فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ [ البقرة 186] میں تو تمہارے پاس ہوں ۔ جب کوئی پکارنے والا پکارتا ہے تو میں اسکی دعا قبول کرتا ہوں ۔ اور قرب بمعنی قدرہ فرمایا : وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ [ ق 16] اور ہم اس کی رگ جان سے بھی زیادہ قریب ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٦٠) اور اگر اپنے سوتیلے بھائی کو نہ لائے تو میں سمجھوں گا کہ تم دھوکے سے زیادہ اناج لینا چاہتے ہو اس کی سزا کے طور پر نہ تمہیں آئندہ اناج ملے گا اور نہ تم دوبارہ میرے پاس آنے کا ارادہ کرنا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :52 اختصار بیان کی وجہ سے شاید کسی کو یہ سمجھنے میں دقت ہو کہ حضرت یوسف علیہ السلام جب اپنی شخصیت کو ان پر ظاہر نہ کرنا چاہتے تھے تو پھر ان کے سوتیلے بھائی کا ذکر کیسے آگیا اور اس کے لانے پر اس قدر اصرار کرنے کے کیا معنی تھے ، کیونکہ اس طرح تو راز فاش ہوا جاتا تھا ۔ لیکن تھوڑا سا غور کرنے سے بات صاف سمجھ میں آجاتی ہے ۔ وہاں غلے کی ضابطہ بندی تھی اور ہر شخص ایک مقرر مقدار غلہ ہی لے سکتا تھا ۔ غلہ لینے کے لیے یہ دس بھائی تھے ۔ مگر وہ اپنے والد اور اپنے گیارھویں بھائی کا حصہ بھی مانگتے ہوں گے ۔ اوپر حضرت یوسف علیہ السلام نے کہا ہوگا کہ تمہارے والد کے خود نہ آنے کے لیے تو یہ عذر معقول ہوسکتا ہے کہ وہ بہت بوڑھے اور نابینا ہیں ، مگر بھائی کے نہ آنے کا کیا معقول سبب ہو سکتا ہے؟ کہیں تم ایک فرضی نام سے زائد غلہ حاصل کرنے اور پھر ناجائز تجارت کرنے کی کوشش تو نہیں کر رہے ہو؟ انہوں نے جواب میں اپنے گھر کے کچھ حالات بیان کیے ہوں گے اور بتایا ہوگا کہ وہ ہمارا سوتیلا بھائی ہے اور بعض وجوہ سے ہمارے والد اس کو ہمارے ساتھ بھیجنے میں تأمل کرتے ہیں ۔ تب حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا ہوگا کہ خیر ، اس وقت تو ہم تمہاری زبان کا اعتبار کر کے تم کو پورا غلہ دیے دیتے ہیں ، مگر آئندہ اگر تم اس کو ساتھ نہ لائے تو تمہارا اعتبار جاتا رہے گا اور تمہیں یہاں سے کوئی غلہ نہ مل سکے گا ۔ اس حاکمانہ دھمکی کے ساتھ آپ نے ان کو اپنےاحسان اپنی مہمان نوازی سے بھی رام کرنے کی کوشش کی ، کیونکہ دل اپنے چھوٹے بھائی کو دیکھنے اور گھر کے حالات معلوم کرنے کے لیے بے تاب تھا ۔ یہ معاملہ کہ ایک سادہ سی صورت ہے جو ذرا غور کرنے سے خود بخود سمجھ میں آجاتی ہے ۔ اس صورت میں بائیبل کی اس مبالغہ آمیز داستان پر اعتماد کرنے کی کوئی ضرورت نہیں رہتی جو کتاب پیدائش کے باب ٤۲ ۔ ٤۳ میں بڑی رنگ آمیزی کے ساتھ پیش کی گئی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani