61۔ 1 یعنی ہم اپنے باپ کو اس بھائی کو لانے کے لئے پھسلائیں گے اور ہمیں امید ہے کہ ہم اس میں کامیاب ہوجائیں گے۔
[٥٩] وہ کہنے لگے، ہمارا باپ بوڑھا ہے۔ لہذا وہ آسانی سے اسے ہمارے ساتھ روانہ نہ کرے گا۔ تاہم ہم لوگ اپنی پوری کوشش کریں گے اور امید ہے کہ اپنے باپ کو اس بات پر آمادہ کرلیں گے۔
قَالُوْا سَنُرَاوِدُ عَنْهُ ۔۔ : یعنی ہم اس کے باپ کو ہر طرح سے آمادہ کریں گے۔ ” سین “ مستقبل کا معنی دینے کے علاوہ تاکید کے لیے بھی آتا ہے، اس لیے ترجمہ ” ضرور “ کیا گیا ہے۔ ” وَاِنَّا لَفٰعِلُوْنَ “ میں یہ کام کرنے کا وعدہ تین طرح کی تاکید سے کیا ہے، ” اِنَّ “ ، لام تاکید اور جملہ اسمیہ سے۔
قَالُوْا سَنُرَاوِدُ عَنْہُ اَبَاہُ وَاِنَّا لَفٰعِلُوْنَ ٦١- راود - والمُرَاوَدَةُ : أن تنازع غيرک في الإرادة، فترید غير ما يريد، أو ترود غير ما يرود، ورَاوَدْتُ فلانا عن کذا . قال : هِيَ راوَدَتْنِي عَنْ نَفْسِي[يوسف 26] ، وقال : تُراوِدُ فَتاها عَنْ نَفْسِهِ [يوسف 30] ، أي : تصرفه عن رأيه، - ( ر و د ) الرود - المراودۃ ( مفاعلہ ) یہ راود یراود سے ہے اور اس کے معنی ارادوں میں باہم اختلاف اور کشیدگی کے ہیں ۔ یعنی ایک کا ارداہ کچھ ہو اور دوسرے کا کچھ اور راودت فلان عن کزا کے معنی کسی کو اس کے ارداہ سے پھسلانے کی کوشش کرنا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ هِيَ راوَدَتْنِي عَنْ نَفْسِي[يوسف 26] اس نے مجھے میرے ارداہ سے پھیرنا چاہا ۔ تُراوِدُ فَتاها عَنْ نَفْسِهِ [يوسف 30] وہ اپنے غلام سے ( ناجائز ) مطلب حاصل کرنے کے درپے ہے ۔ یعنی اسے اس کے ارادہ سے پھسلانا چاہتی ہے ۔
(٦١) وہ کہنے لگے ہم اپنے باپ سے اس کو ساتھ لانے کی اجازت مانگیں گے اور کوشش کریں گے اور ہم ضرور اس کو لے کر آئیں گے ہم اس کی ضمانت لیتے ہیں۔