62۔ 1 فِتْیَان (نوجوانوں) سے مراد یہاں وہ نوکر چاکر اور خادم و غلام ہیں جو دربار شاہی میں مامور تھے۔ 62۔ 2 اس سے مراد وہ پونجی ہے جو غلہ خریدنے کے لئے برادران یوسف (علیہ السلام) ساتھ لائے تھے، پونجی چپکے سے ان کے سامانوں میں اس لئے رکھوا دی کہ ممکن ہے دوبارہ آنے کے لئے ان کے پاس مذید پونجی نہ ہو تو یہی پونجی لے کر آجائیں۔
[٦٠] غلہ کی قیمت کی واپسی :۔ سیدنا یوسف نے ان کی اچھی طرح مہمان نوازی کی اور غلہ بھرنے والوں کو یہ اشارہ بھی کردیا کہ جو رقم غلہ کی قیمت کے طور پر ان سے وصول کی گئی ہے وہ بھی ان کے غلہ میں رکھ دی جائے اور یہ کام انہوں نے اس غرض سے کیا کہ ممکن ہے کہ انھیں دوبارہ آنے کے لیے رقم میسر نہ ہو اور وہ آہی نہ سکیں یا بڑی دیر بعد میسر ہو تو اس صورت میں بڑی دیر سے میرے پاس دوبارہ ان کے چھوٹے حقیقی بھائی بن یمین کو ساتھ لے کر آئیں۔ قرآن کے الفاظ سے تو رقم واپس کرنے کی یہی اصل غرض معلوم ہوتی ہے۔ تاہم بعض مفسرین کہتے ہیں کہ رقم کی واپسی سے ان کا دوسرا مقصد یا تابع مقصد یہ بھی تھا کہ وہ بھائیوں سے غلہ کی قیمت لینا پسند نہیں کرتے تھے۔
وَقَالَ لِفِتْيٰنِهِ ۔۔ : ” فِتْیَانٌ“ ” فَتًی “ کی جمع ہے، دیکھیے (آیت ٣٦) ” رِحَالٌ“ ” رَحْلٌ“ کی جمع ہے، وہ کجاوہ جو اونٹ پر سوار ہونے کے لیے رکھا جاتا ہے اور اس سامان کو بھی کہہ لیتے ہیں جو اونٹ پر رکھا جائے، اس لیے اونٹ کو ” رَاحِلَۃٌ“ کہہ لیتے ہیں۔ ” بِضَاعَۃٌ“ وہ رقم یا سامان جس کے ساتھ کوئی چیز خریدی جائے، یعنی اپنے جوانوں کو وہ رقم یا سازوسامان جو وہ غلہ خریدنے کے لیے قیمت کے طور پر لائے تھے، ان کو بتائے بغیر بطور احسان ان کی بوریوں میں رکھ دینے کا حکم دے دیا اور اس لیے بھی کہ بھائیوں کی حالت دیکھ کر گھر کی تنگ دستی کا اندازہ ہوگیا، جس کا ذکر تیسری دفعہ آنے پر انھوں نے خود کیا۔ دیکھیے آیت (٨٨) ” لَعَلَّهُمْ يَعْرِفُوْنَهَآ “ شاید وہ ان درہموں وغیرہ کو ان کی ساخت یا مہر یا تھیلیوں سے پہچان لیں اور اس احسان اور رقم کی موجودگی کی وجہ سے دوبارہ آجائیں۔
ابن کثیر نے یوسف (علیہ السلام) کو یہ خیال آیا کہ شایدان کے پاس اس نقد وزیور وغیرہ کے سوا اور کچھ موجود ہی نہ ہو تو پھر دوبارہ غلہ لینے کے لئے نہیں آسکیں گے دوسرے یہ بھی احتمال ہے کہ اپنے والد اور بھائیوں سے کھانے کی قیمت لینا گوارا نہ ہو اس لئے شاہی خزانہ میں اپنے پاس سے جمع کردیا ان کی رقم ان کو واپس کردی اور ایک احتمال یہ بھی ہے کہ وہ جانتے تھے کہ جب ان کا سامان ان کے پاس پہنچ جائے گا اور والد ماجد کو علم ہوگا تو وہ اللہ کے رسول ہیں اس پر واپس شدہ سامان کو مصری خزانہ کی امانت سمجھ کر ضرور واپس بھیجیں گے اس لئے بھائیوں کا دوبارہ آنا اور یقینی ہوجائے گا، بہرحال یوسف (علیہ السلام) نے یہ سب انتظامات اس لئے کئے کہ آئندہ بھی بھائیوں کے آنے کا سلسلہ جاری رہے اور چھوٹے حقیقی بھائی سے ملاقات بھی ہوجائے،- مسائل و فوائد - یوسف (علیہ السلام) کے اس واقعہ سے اس کا جواز معلوم ہوا کہ جب کسی ملک میں اقتصادی حالات ایسے خراب ہوجائیں کہ اگر حکومت نظم قائم نہ کرے تو بہت سے لوگ اپنی ضروریات زندگی سے محروم ہوجائیں تو حکومت ایسی چیزوں کو اپنے نظم اور کنڑول میں لے سکتی ہے اور غلہ کی مناسب قیمت مقرر کرسکتی ہے حضرات فقہاء امت نے اس کی تصریح فرمائی ہے - یوسف (علیہ السلام) کا اپنے حالات سے والد کو اطلاع نہ دینا بامر الہی تھا :- یوسف (علیہ السلام) کے اس واقعہ میں ایک بات حیرت انگیز ہے کہ مفارقت سے اتنے متأثر کہ روتے روتے نابینا ہوگئے اور دوسری طرف یوسف (علیہ السلام) جو خود بھی نبی و رسول ہیں باپ سے فطری اور طبعی محبت کے علاوہ ان کے حقوق سے بھی پوری طرح باخبر ہیں لیکن چالیس سال کے طویل زمانہ میں ایک مرتبہ بھی کبھی یہ خیال نہ آیا کہ میرے والد میری جدائی سے بےچین ہیں اپنی خیریت کی خبر کسی ذریعہ سے ان تک پہونچوا دیں خبرپہونچوا دینا تو اس حالت میں بھی کچھ بعید نہ تھا جب وہ غلامی کی صورت میں مصر پہنچ گئے تھے پھر عزیز مصر کے گھر میں تو ہر طرح کی آزادی اور آسائش کے سامان بھی تھے، اس وقت کسی ذریعہ سے گھر تک خط یا خبر پہونچوا دینا کچھ مشکل نہ تھا اسی طرح جیل کی زندگی میں دنیا جانتی ہے کہ سب خبریں ادھر کی ادھر پہونچتی ہی رہتی ہیں خصوصاً جب اللہ تعالیٰ نے عزت کے ساتھ جیل سے رہا فرمایا اور ملک مصر کا اقتدار ہاتھ میں آیا اس وقت تو خود چل کر والدین خدمت میں حاضر ہونا سب سے پہلا کام ہونا چاہئے تھا اور یہ کسی وجہ سے مصلحت کے خلاف ہوتا تو کم از کم قاصد بھیج کر والد کو مطمئن کر دنیا تو معمولی بات تھی - لیکن پیغمبر خدا یوسف (علیہ السلام) سے کہیں منقول نہیں کہ اس کا ارادہ بھی کیا ہو اور خود کیا ارادہ کرتے جب بھائی غلہ لینے کے لئے آئے تو ان کو بھی اصل واقعہ کے اظہار کے بغیر رخصت کردیا یہ تمام حالات کسی ادنیٰ انسان سے بھی متصور نہیں ہو سکتے اللہ کے برگزیدہ رسول سے یہ صورت کیسے برداشت ہوئی اس حیرت انگیز خاموشی کا ہمیشہ یہی جواب دل میں آیا کرتا تھا کہ غالباً اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت بالغہ کے ما تحت یوسف (علیہ السلام) کو اپنے اظہار سے روک دیاہو گا تفسیر قرطبی میں اس کی تصریح مل گئی کہ اللہ تعالیٰ نے بذریعہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو روک دیا تھا کہ اپنے گھر اپنے متعلق کوئی خبر نہ بھیجیں ،- اللہ تعالیٰ کی حکمتوں کو وہی جانتے ہیں انسان ان کا کیا احاطہ کرسکتا ہے کبھی کوئی چیز کسی کے سمجھ میں بھی آجاتی ہے یہاں بظاہر اس کی اصل حکمت اس امتحان کی تکمیل تھی جو یعقوب (علیہ السلام) کا لیا جا رہا تھا اور یہی وجہ تھی کہ اس واقعہ کی ابتداء ہی میں جب یعقوب (علیہ السلام) کو یہ انداز ہوچکا تھا کہ یوسف کو بھیڑئیے نے نہیں کھایا بلکہ بھائیوں کی کوئی شرارت ہے تو اس کا طبعی اقتضاء یہ تھا کہ اسی وقت جگہ پر پہونچتے تحقیق کرتے مگر اللہ تعالیٰ نے ان کو دھیان اس طرف نہ جانے دیا اور پھر مدتوں کے بعد انہوں نے بھائیوں سے یہ بھی فرمایا کہ جاؤ یوسف اور اس کے بھائی کو تلاش کرو جب اللہ تعالیٰ کوئی کام کرنا چاہتے ہیں تو اس کے سب اسباب اسی طرح جمع فرمادیتے ہیں،
وَقَالَ لِفِتْيٰنِہِ اجْعَلُوْا بِضَاعَتَہُمْ فِيْ رِحَالِہِمْ لَعَلَّہُمْ يَعْرِفُوْنَہَآ اِذَا انْقَلَبُوْٓا اِلٰٓى اَہْلِہِمْ لَعَلَّہُمْ يَرْجِعُوْنَ ٦٢- فتی - الفَتَى الطّريُّ من الشّباب، والأنثی فَتَاةٌ ، والمصدر فَتَاءٌ ، ويكنّى بهما عن العبد والأمة .- قال تعالی: تُراوِدُ فَتاها عَنْ نَفْسِهِ [يوسف 30]- ( ف ت ی ) الفتیٰ- کے معنی نوجوان کے ہیں اس کی مونث فتاۃ اور مصدر فتاء ہے بعدہ کنایہ کے طور پر یہ دونوں لفظ ( فتی اور فتاۃ ) غلام اور لونڈی کے معنی میں استعمال ہونے لگے ہیں ۔ قرآن میں ہے :- تُراوِدُ فَتاها عَنْ نَفْسِهِ [يوسف 30] اپنے ٖغلام کو اپنی طرف مائل کرنا چاہتی تھی ۔ جس طرح نوجوان آدمی کو فتی کہا جاتا ہے - بضع - البِضَاعَة : قطعة وافرة من المال تقتنی للتجارة، يقال : أَبْضَعَ بِضَاعَة وابْتَضَعَهَا . قال تعالی: هذِهِ بِضاعَتُنا رُدَّتْ إِلَيْنا [يوسف 65] وقال تعالی: بِبِضاعَةٍ مُزْجاةٍ [يوسف 88]- ( ب ض ع ) البضاعۃ - ۔ مال کا وافر حصہ جو تجارت کے لئے الگ کرلیا گیا ہو ابضع وبتضع بضاعۃ سرمایہ یاپونچی جمع کرنا ۔ الگ قرآن میں ہے ۔ هذِهِ بِضاعَتُنا رُدَّتْ إِلَيْنا [يوسف 65] یہ ہماری پونجی بھی ہمیں واپس کردی گئی ہے ۔ بِبِضاعَةٍ مُزْجاةٍ [يوسف 88] اور ہم تھوڑا سا سرمایہ لائے ہیں ۔- رحل - الرَّحْلُ ما يوضع علی البعیر للرّكوب، ثم يعبّر به تارة عن البعیر، وتارة عمّا يجلس عليه في المنزل، وجمعه رِحَالٌ. وَقالَ لِفِتْيانِهِ اجْعَلُوا بِضاعَتَهُمْ فِي رِحالِهِمْ [يوسف 62] ، والرِّحْلَةُ : الِارْتِحَالُ. قال تعالی: رِحْلَةَ الشِّتاءِ وَالصَّيْفِ [ قریش 2] ،- ( ر ح ل )- الرحل ہر وہ چیز جسے اونٹ پر اس لئے باندھا جائے کہ اس پر سوار ہوا جائے پھر یہ لفظ مجازا خود اونٹ پر بولا جانے لگا ہے اور کبھی رحل کا لفظ اس چیز پر بھی بولا جاتا ہے جس پر گھر میں بیٹھا جاتا ہے ۔ اس کی جمع رجال آتی ہے ۔ قرآن میں ہے ؛َ وَقالَ لِفِتْيانِهِ اجْعَلُوا بِضاعَتَهُمْ فِي رِحالِهِمْ [يوسف 62] تو اس نے اپنے نوکروں سے کہا کہ ان کا سرمایہ ان کے کچادوں میں رکھ دو ۔ الرحلۃ ( مصدر ) اس کے اصل معنی سفر یا کوچ کرنے میں قرآن میں ہے : رِحْلَةَ الشِّتاءِ وَالصَّيْفِ [ قریش 2] جاڑے اور گرمی کے سفروں کو ( اکٹھا رکھنے والے )- انقلاب - قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، - والِانْقِلابُ : الانصراف، قال : انْقَلَبْتُمْ عَلى أَعْقابِكُمْ وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلى عَقِبَيْهِ [ آل عمران 144] ، وقال : إِنَّا إِلى رَبِّنا مُنْقَلِبُونَ [ الأعراف 125] - ( ق ل ب ) قلب - الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں - الانقلاب - کے معنی پھرجانے کے ہیں ارشاد ہے ۔ انْقَلَبْتُمْ عَلى أَعْقابِكُمْ وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلى عَقِبَيْهِ [ آل عمران 144] تو تم الٹے پاؤں پھر جاؤ ( یعنی مرتد ہوجاؤ ) وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلى عَقِبَيْهِ [ آل عمران 144] اور جو الٹے - پاؤں پھر جائے گا ۔إِنَّا إِلى رَبِّنا مُنْقَلِبُونَ [ الأعراف 125] ہم اپنے پروردگار کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں ۔
(٦٢) حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اپنے نوکروں سے فرمایا ان کی جمع پونجی ان کے پلان ہی میں اس طرح چھپا کر رکھو دو کہ ان کو پتا نہ چلے۔- تاکہ یہ میرے احسان کو جان لیں یا یہ کہ ان کو معلوم ہوجائے کہ یہ ان ہی کی جمع پونجی ہے اور وہ جب اپنے والد کے پہنچیں تو پھر اس رقم کو لے کر میرے پاس آئیں۔
آیت ٦٢ (وَقَالَ لِفِتْيٰنِهِ اجْعَلُوْا بِضَاعَتَهُمْ فِيْ رِحَالِهِمْ )- اس زمانے میں چیزوں کے عوض ہی چیزیں خریدی جاتی تھیں۔ چناچہ وہ لوگ بھی اپنے ہاں سے کچھ چیزیں (بھیڑ بکریوں کی اون وغیرہ) اس مقصد کے لیے لے کر آئے تھے اور غلے کی قیمت کے طور پر اپنی وہ چیزیں انہوں نے پیش کردی تھیں۔ مگر حضرت یوسف نے اپنے ملازمین کو ہدایت کردی کہ جب ان کے کجاو وں میں گندم بھری جائے تو ان لوگوں کی یہ چیزیں بھی جو انہوں نے غلے کی قیمت کے طور پر ادا کی ہیں چپکے سے واپس ان کے کجاو وں میں ہی رکھ دی جائیں۔
40: حضرت یوسف علیہ السلام نے اِن بھائیوں کے ساتھ یہ احسان فرمایا کہ غلے کو خریدنے کے لئے جو قیمت انہوں نے دی تھی، وہ واپس انہی کے سامان میں رکھوا دی۔ اُس زمانے میں سونے چاندی کے سکوں کے بجائے مختلف قسم کا سامان قیمت کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کنعان سے کچھ چمڑا اور جوتے لے کر آئے تھے، وہی انہوں نے غلے کی قیمت کے طور پر پیش کیا، ور اُسی کو حضرت یوسف علیہ السلام نے واپس ان کے سامان میں رکھوا دیا، یہ ظاہر بات ہے کہ انہوں نے اپنی جیب سے اتنی قیمت سرکاری خزانے میں جمع کرا دی ہوگی۔