بیان ہو رہا ہے کہ باپ کے پاس پہنچ کر انہوں کہا کہ اب ہمیں تو غلہ مل نہیں سکتا تاوقتیکہ آپ ہمارے ساتھ ہمارے بھائی کو نہ بھجیں اگر انہیں ساتھ کر دیں تو البتہ مل سکتا ہے آپ بےفکر رہئے ہم اس کی نگہبانی کرلیں گے نکتل کی دوسری قرأت یکتل بھی ہے ۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے فرمایا کہ بس وہی تم ان کے ساتھ کرو گے جو اس سے پہلے ان کے بھائی حضرت یوسف علیہ السلام کے ساتھ کر چکے ہو کہ یہاں سے لے گئے اور یہاں پہنچ کر کوئی بات بنا دی ۔ حافظاکی دوسری قرأت حفظا بھی ہے آپ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی بہترین حافظ اور نگہبان ہے اور ہے بھی وہ ارحم الراحمین میرے بڑھاپے پر میری کمزوری پر رحم فرمائے گا اور جو غم و رنج مجھے اپنے بچے کا ہے وہ دور کر دے گا ۔ مجھے اس کی پاک ذات سے امید ہے کہ وہ میرے یوسف کو مجھ سے پھر ملا دے گا اور میری پراگندگی کو دور کر دے گا ۔ اس پر کوئی کام مشکل نہیں وہ اپنے بندوں سے اپنے رحم وکرم کو نہیں روکتا ۔
63۔ 1 مطلب یہ ہے کہ آئندہ کے لئے غلہ بنیامین کے بھیجنے کے ساتھ مشروط ہے۔ اگر یہ ساتھ نہیں جائے گا تو غلہ نہیں ملے گا۔ اس لئے اسے ضرور ساتھ بھجیں تاکہ ہم دوبارہ بھی اسی طرح غلہ مل سکے، جس طرح اس دفعہ ملا ہے، اور اس طرح کا اندیشہ نہ کریں جو یوسف (علیہ السلام) کو بھیجتے ہوئے کیا تھا، ہم اس کی حفاظت کریں گے۔
فَلَمَّا رَجَعُوْٓا اِلٰٓى اَبِيْهِمْ ۔۔ : قحط میں سب سے پہلی فکر جان بچانے کی تھی اور نظر آ رہا تھا کہ یہ غلہ کتنی دیر چلے گا، اس لیے واپس جاتے ہی ابھی سامان نہیں کھولا اور سب سے پہلے یہ بات کی کہ ابا جان آئندہ ہمیں غلہ دینے سے انکار کردیا گیا ہے، اس کے بعد سارا قصہ سنایا اور بتایا اب غلہ ملنے کی صرف ایک ہی صورت ہے کہ آپ ہمارے ساتھ ہمارے بھائی کو بھیج دیں تو ہمیں غلہ مل جائے گا۔ - وَاِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ : اس میں بھی تین تاکیدیں ہیں، یعنی یوسف کی طرح اس کے بارے میں فکر نہ کیجیے، ہمیں پورا احساس ہے، اس لیے ہم اس کی پوری حفاظت کریں گے۔
خلاصہ تفسیر :- غرض جب لوٹ کر اپنے باپ (یعقوب (علیہ السلام) کے پاس پہنچے کہنے لگے اے ابا (ہماری بڑی خاطر ہوئی اور غلہ بھی ملا مگر بنیامین کا حصہ نہیں ملا بلکہ بدون بنیامین کے ساتھ لے جاتے ہوئے آئندہ بھی) ہمارے لئے (مطلقا) غلہ کی بندش کردی گئی سو (اس صورت میں ضروری ہے کہ) آپ ہمارے بھائی (بنیامین) کو ہمارے ساتھ بھیج دیجئے تاکہ (دوبارہ غلہ لانے سے جو امر مانع ہے وہ مرتفع ہوجاوے اور) ہم (پھر) غلہ لا سکیں اور (اگر ان کے بھیجنے سے آپ کو کوئی اندیشہ ہی مانع ہے تو اس کے متعلق یہ عرض ہے کہ) ہم ان کی پوری حفاظت رکھیں گے یعقوب (علیہ السلام) نے فرمایا کہ بس (رہنے دو ) میں اس کے بارے میں بھی تمہارا ویسا ہی اعتبار کرتا ہوں جیسا اس سے پہلے اس کے بھائی (یوسف علیہ السلام) کے بارے میں تمہارا اعتبار کرچکا ہوں (یعنی دل تو میرا گواہی دیتا نہیں مگر تم کہتے ہو کہ بدون اس کے گئے ہوئے آئندہ غلہ نہ ملے گا اور عادۃ زندگی کا مدار ہی پر ہے اور جان بچانا فرض ہے) سو (خیر اگر لے ہی جاؤ گے تو) اللہ (کے سپرد وہی) سب سے بڑھ کر نگہبان ہے (میری نگہبانی سے کیا ہوتا ہے) اور وہ سب مہربانوں سے زیادہ مہربان ہے (میری محبت اور شفقت سے کیا ہوتا ہے) اور (اس گفتگو کے بعد) جب انہوں نے اپنا اسباب کھولا تو (اس میں) ان کی جمع پونجی (بھی) ملی کہ ان ہی کو واپس کردی گئی کہنے لگے کہ اے ابّا (لیجئے) اور ہم کو کیا چاہئے یہ ہماری جمع پونجی بھی تو ہم ہی کو لوٹا دی گئی (ایسا کریم بادشاہ ہے اور اس سے زیادہ کس عنایت کا انتظار کریں یہ عنایت بس ہے اس کا مقتضیٰ بھی یہی ہے کہ ایسے کریم بادشاہ کے پاس پھرجائیں گے اور وہ موقوف ہے بھائی کے ساتھ لیجانے پر اس لئے اجازت ہی دیدیجئے ان کو ساتھ لے جائیں گے) اور اپنے گھر والوں کے واسطے (اور) رسدلائیں گے اور اپنے بھائی کی خوب حفاظت رکھیں گے اور ایک اونٹ کا بوجھ غلہ اور زیادہ لائیں گے (کیونکہ جس قدر اس وقت لائے ہیں) یہ تو تھوڑا سا غلہ ہے (جلد ہی ختم ہوجائے گا پھر اور ضرورت ہوگی اور اس کا ملنا موقوف ہے ان کے لیجانے پر) یعقوب (علیہ السلام) نے فرمایا کہ (خیر اس حالت میں بھیجنے سے انکار نہیں لیکن) اس وقت تک ہرگز اس کو تمہارے ہمراہ نہ بھیجوں گا جب تک کہ اللہ کی قسم کھالی) سو جب وہ قسم کھا کر اپنے باپ کو قول دے چکے تو انہوں نے فرمایا کہ ہم لوگ جو بات چیت کر رہے ہیں یہ سب اللہ کے حوالے ہے (یعنی وہی ہمارے قول و اقرار کا گواہ ہے کہ سن رہا ہے اور وہی اس قول کو پورا کرسکتا ہے پس اس کہنے سے دو غرض ہوئیں اول ان کو اپنے قول کے خیال رکھنے کی ترغیب اور تنبیہ کہ اللہ کو حاضر وناضر سمجھنے سے یہ بات ہوتی ہے اور دوسرے اس تدبیر کا منتہیٰ تقدیر کو قرار دینا کہ توکل کا حاصل ہے اور اس کے بعد بنیامین کو ہمراہ جانے کی اجازت دے دیغرض دوبارہ مصر کے سفر کو مع بنیامین سب تیار ہوگئے)- معارف و مسائل :- آیات مذکورہ میں واقعہ کا بقیہ حصہ اس طرح مذکور ہے کہ جب برادران یوسف (علیہ السلام) مصر سے غلہ لے کر گھر واپس آئے تو مصر کے معاملہ کا تذکرہ والد ماجد سے کرتے ہوئے یہ بھی بتلایا کہ عزیز مصر نے آئندہ کے لئے ہمیں غلہ دینے کے لئے یہ شرط کردی ہے کہ اپنے چھوٹے بھائی کو ساتھ لاؤ گے تو ملے گا ورنہ نہیں اس لئے آپ آئندہ بنیامین کو بھی ہمارے ساتھ بھیج دیں تاکہ ہمیں آئندہ بھی غلہ مل سکے اور ہم اس بھائی کی تو پوری حفاظت کرنے والے ہیں ان کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہوگی ،- والد ماجد نے فرمایا کہ کیا ان کے بارے میں تم پر ایسا ہی اطمینان کروں جیسا اس سے پہلے ان کے بھائی یوسف کے بارے میں کیا تھا مطلب ظاہر ہے کہ اب تمہاری بات کا اعتبار کیا ہے ایک مرتبہ تم پر اطمینان کر کے مصبیت اٹھا چکا ہوں تم نے یہی الفاظ حفاظت کرنے کے اس وقت بھی بولے تھے،- یہ تو ان کی بات کا جواب تھا مگر پھر خاندان کی ضرورت کے پیش نظر پیغمبرانہ توکل اور اس حقیقت کو اصل قرار دیا کہ کوئی نفع نقصان کسی بندہ کے ہاتھ میں نہیں جب تک اللہ تعالیٰ ہی کی مشیت و ارادہ نہ ہو اور جب ان کا ارادہ ہوجائے تو پھر اس کو کوئی ٹال نہیں سکتا اس لئے مخلوق پر بھروسہ بھی غلط ہے اور ان کی شکایات پر معاملہ کا مدار رکھنا بھی نامناسب ہے
فَلَمَّا رَجَعُوْٓا اِلٰٓى اَبِيْہِمْ قَالُوْا يٰٓاَبَانَا مُنِعَ مِنَّا الْكَيْلُ فَاَرْسِلْ مَعَنَآ اَخَانَا نَكْتَلْ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ ٦٣- رجع - الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، - ( ر ج ع ) الرجوع - اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے - منع - المنع يقال في ضدّ العطيّة، يقال : رجل مانع ومنّاع . أي : بخیل . قال اللہ تعالی: وَيَمْنَعُونَ- الْماعُونَ [ الماعون 7] ، وقال : مَنَّاعٍ لِلْخَيْرِ [ ق 25] ، ويقال في الحماية، ومنه :- مكان منیع، وقد منع وفلان ذو مَنَعَة . أي : عزیز ممتنع علی من يرومه . قال تعالی: أَلَمْ نَسْتَحْوِذْ عَلَيْكُمْ وَنَمْنَعْكُمْ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ النساء 141] ، وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ مَنَعَ مَساجِدَ اللَّهِ [ البقرة 114] ، ما مَنَعَكَ أَلَّا تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُكَ [ الأعراف 12] أي : ما حملک ؟- وقیل : ما الذي صدّك وحملک علی ترک ذلک ؟- يقال : امرأة منیعة كناية عن العفیفة . وقیل :- مَنَاعِ. أي : امنع، کقولهم : نَزَالِ. أي : انْزِلْ.- ( م ن ع ) المنع ۔- یہ عطا کی ضد ہے ۔ رجل مانع امناع بخیل آدمی ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَيَمْنَعُونَالْماعُونَ [ الماعون 7] اور برتنے کی چیزیں عاریۃ نہیں دیتے ۔ مَنَّاعٍ لِلْخَيْرِ [ ق 25] جو مال میں بخل کر نیوالا ہے اور منع کے معنی حمایت اور حفاظت کے بھی آتے ہیں اسی سے مکان منیع کا محاورہ ہے جس کے معیم محفوظ مکان کے ہیں اور منع کے معنی حفاظت کرنے کے فلان ومنعۃ وہ بلند مر تبہ اور محفوظ ہے کہ اس تک دشمنوں کی رسائی ناممکن ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَلَمْ نَسْتَحْوِذْ عَلَيْكُمْ وَنَمْنَعْكُمْ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ النساء 141] کیا ہم تم پر غالب نہیں تھے اور تم کو مسلمانون کے ہاتھ سے بچایا نہیں ۔ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ مَنَعَ مَساجِدَ اللَّهِ [ البقرة 114] اور اس سے بڑھ کر کون ظالم ہے جو خدا کی سجدوں سے منع کرے ۔ اور آیت : ۔ ما مَنَعَكَ أَلَّا تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُكَ [ الأعراف 12] میں مانععک کے معنی ہیں کہ کسی چیز نے تمہیں اکسایا اور بعض نے اس کا معنی مالذی سدک وحملک علٰی ترک سجود پر اکسایا او مراۃ منیعۃ عفیفہ عورت ۔ اور منا ع اسم بمعنی امنع ( امر ) جیسے نزل بمعنی انزل ۔- كيل - الْكَيْلُ : كيل الطعام . يقال : كِلْتُ له الطعام :إذا تولّيت ذلک له، وكِلْتُهُ الطّعام : إذا أعطیته كَيْلًا، واكْتَلْتُ عليه : أخذت منه كيلا . قال اللہ تعالی: وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ الَّذِينَ إِذَا اكْتالُوا عَلَى النَّاسِ يَسْتَوْفُونَ وَإِذا کالُوهُمْ [ المطففین 1- 3] - ( ک ی ل ) الکیل - ( ض ) کے معنی غلہ نا پنے کے ہیں ) اور کلت لہ الطعا م ( صلہ لام ) کے منعی ہیں ۔ میں نے اس کے لئے غلہ ناپنے کی ذمہ داری سنھالی اور کلت الطعام ( بدوں لام ) کے منعی ہیں میں نے اسے غلہ ناپ کردیا اور اکتلت علیہ کے منعی ہیں ۔ میں نے اس سے ناپ کرلیا قرآن میں ہے : ۔ وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ الَّذِينَ إِذَا اكْتالُوا عَلَى النَّاسِ يَسْتَوْفُونَ وَإِذا کالُوهُمْ [ المطففین 1- 3] ناپ اور تول میں کمی کرنے والوں کے لئے خرابی ہے ۔ جو لوگوں سے ناپ کرلیں تو پورا لیں اور جب ان کو ناپ یا تول کردیں تو کم دیں ۔ - حفظ - الحِفْظ يقال تارة لهيئة النفس التي بها يثبت ما يؤدي إليه الفهم، وتارة لضبط الشیء في النفس، ويضادّه النسیان، وتارة لاستعمال تلک القوة، فيقال : حَفِظْتُ كذا حِفْظاً ، ثم يستعمل في كلّ تفقّد وتعهّد ورعاية، قال اللہ تعالی: وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [يوسف 12]- ( ح ف ظ ) الحفظ - کا لفظ کبھی تو نفس کی اس ہیئت ( یعنی قوت حافظہ ) پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ جو چیز سمجھ میں آئے وہ محفوظ رہتی ہے اور کبھی دل میں یاد ررکھنے کو حفظ کہا جاتا ہے ۔ اس کی ضد نسیان ہے ، اور کبھی قوت حافظہ کے استعمال پر یہ لفظ بولا جاتا ہے مثلا کہا جاتا ہے ۔ حفظت کذا حفظا یعنی میں نے فلاں بات یاد کرلی ۔ پھر ہر قسم کی جستجو نگہداشت اور نگرانی پر یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [يوسف 12] اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں ۔
(٦٣) چناچہ کہ جب یہ بھائی کنعان آئے تو کہنے لگے اگر اب آئندہ آپ بنیامین کو ہمارے ساتھ نہیں بھیجیں گے تو اناج ہمیں نہیں ملے گا لہذا ہمارے ساتھ بنیامین کو روانہ کیجیے تاکہ وہ بھی اپنے لیے ایک اونٹ کے برابر اناج لاسکے اور اگر یہ لفظ نون کے ساتھ پڑھا جائے تو مطلب یہ ہوگا تاکہ کہ پھر ہم اناج لاسکیں، اور ہم بنیامین کی حفاظت کے پورے ضامن ہیں کہ صحیح سلامت پھر آپ کے پاس ان کو لے آئیں گے۔
آیت ٦٣ (فَلَمَّا رَجَعُوْٓا اِلٰٓى اَبِيْهِمْ قَالُوْا يٰٓاَبَانَا مُنِعَ مِنَّا الْكَيْلُ )- یعنی انہوں نے آئندہ کے لیے ہمارے چھوٹے بھائی کے حصے کا غلہ روک دیا ہے اور وہ تبھی ملے گا جب ہم اس کو وہاں لے کر جائیں گے۔
41: یعنی اگر ہم بنیامین کو ساتھ لے کر نہ گئے تو ہم میں سے کسی کو غلہ نہیں مل سکے گا۔