64۔ 1 یعنی تم نے یوسف (علیہ السلام) کو بھی ساتھ لے جاتے وقت اسی طرح حفاظت کا وعدہ کیا تھا لیکن جو کچھ ہوا وہ سامنے ہے، اب میں تمہارا کس طرح اعتبار کروں۔ 64۔ 2 تاہم چونکہ غلے کی شدید ضرورت تھی۔ اس لئے اندیشے کے باوجود بنیامین کو ساتھ بھیجنے سے انکار مناسب نہیں سمجھا اور اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے اسے بھیجنے پر آمادگی ظاہر کردی۔
[٦١] بیٹوں کا بن یامین کو لے جانے پر اصرار اور باپ کا انکار :۔ جب برادران یوسف واپس اپنے گھر یعنی کنعان پہنچے تو جاتے ہی اپنے والد محترم کو اس گفتگو سے مطلع کیا جو ان کے اور شاہ مصر کے درمیان ہوئی تھی اور بڑی وضاحت سے یہ بھی بتلا دیا کہ اگر آپ بن یمین کو ہمارے ساتھ نہیں بھیجیں گے تو پھر ہمیں کبھی غلہ نہ مل سکے گا اور غلہ کی فراہمی اس دور کی سب سے اہم اور شدید ضرورت ہے۔ لہذا آپ ضرور اسے ہمارے ساتھ بھیج دیجئے اور جہاں تک ہم سے ہوسکا ہم ضرور اس کی حفاظت کریں گے۔ سیدنا یعقوب نے انھیں جواب دیا کہ بالکل ایسی ہی بات تم نے اس وقت بھی کہی تھی۔ جب تم یوسف کو اپنے ہمراہ لے گئے تھے۔ پھر معلوم نہیں کہ اس کے ساتھ کیا ماجرا گزرا تم نے بھلا کونسی صحیح بات مجھے بتلائی تھی اور میری تو اس وقت سے اس کے حق میں یہی دعا رہی ہے کہ اللہ اسے زندہ سلامت قائم و دائم اور اپنی حفاظت میں رکھے۔ جہاں کہیں بھی وہ ہو، میں تو ہمیشہ اللہ سے اس کے رحم کا طالب رہا ہوں اور اب تم میرے اس چھوٹے بیٹے کو بھی مجھ سے جدا کرنا چاہتے ہو، یہ کبھی نہیں ہوسکتا۔
قَالَ هَلْ اٰمَنُكُمْ عَلَيْهِ ۔۔ : فرمایا، تم جب یوسف (علیہ السلام) کو لے گئے تھے تب بھی تم نے یہی کہا تھا کہ ” وَاِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ “ پھر تم نے اس کی اچھی حفاظت کی کہ آج تک اس بےچارے کی کوئی خیر خبر نہیں، تو کیا اس کے متعلق بھی تمہاری حفاظت کا ایسا ہی اعتماد کروں، جیسا اس سے پہلے اس کے بھائی کے متعلق تم پر اعتبار کیا تھا۔- فَاللّٰهُ خَيْرٌ حٰفِظًا۔۔ : یعنی میں اسے بحالت مجبوری غلہ کی ضرورت کے پیش نظر تمہارے ساتھ بھیج رہا ہوں، سو میں اسے تمہاری حفاظت میں نہیں بلکہ اللہ کی حفاظت میں دیتا ہوں، وہ ارحم الراحمین ہی اپنی مہربانی سے اس کی حفاظت فرمائے گا۔ ابن کثیر کہتے ہیں کہ یعقوب (علیہ السلام) نے یوسف (علیہ السلام) کو بھائیوں کے ساتھ بھیجتے وقت صرف یہ کہا تھا : (وَاَخَافُ اَنْ يَّاْكُلَهُ الذِّئْبُ ) [ یوسف : ١٣ ] (اور میں ڈرتا ہوں کہ اسے کوئی بھیڑیا کھاجائے) اب جو اس کے بھائی کو ” فَاللّٰهُ خَيْرٌ حٰفِظًا ۠ وَّهُوَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِيْنَ “ کہتے ہوئے اللہ کی حفاظت میں دیا تو نہ صرف یوسف کا بھائی بلکہ یوسف (علیہ السلام) بھی مل گئے۔
اس لئے فرمایا فاللّٰهُ خَيْرٌ حٰفِظًا یعنی تمہاری حفاظت کا نتیجہ تو پہلے دیکھ چکا ہوں اب تو میں اللہ تعالیٰ ہی کی حفاظت پر بھروسہ کرتا ہوں وَهُوَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِيْنَ اور وہ سب سے زیادہ رحمت کرنے والا ہے اسی سے امید ہے کہ وہ میری ضعیفی اور موجودہ غم واندوہ پر نظر فرما کر مجھ پر دوہرے صدمے نہ ڈالے گا - خلاصہ یہ ہے کہ یعقوب (علیہ السلام) نے ظاہری حالات اور اپنی اولاد کے عہد و پیمان پر بھروسہ نہ کیا مگر اللہ تعالیٰ کے بھروسہ پر چھوٹے بیٹے کو بھی ساتھ بھیجنے کے لئے تیار ہو گئے
قَالَ ہَلْ اٰمَنُكُمْ عَلَيْہِ اِلَّا كَـمَآ اَمِنْتُكُمْ عَلٰٓي اَخِيْہِ مِنْ قَبْلُ ٠ ۭ فَاللہُ خَيْرٌ حٰفِظًا ٠ ۠ وَّہُوَاَرْحَمُ الرّٰحِمِيْنَ ٦٤- رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین .- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] لوگو تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )
(٦٤) یہ سن کر حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے ان سے کہا کیا میں بنیامین کے بارے میں بھی تم پر ویسا ہی اعتبار کروں جیسا کہ اس سے پہلے یوسف (علیہ السلام) کے بارے میں تمہارا اعتبار کرچکا ہوں اور حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بارے میں جو تم سے میں نے عہد لیا تھا، اب اس سے زیادہ اور کیا عہد لے سکتا ہوں بس تمہاری نگہبانی سے کیا ہوتا ہے اللہ تعالیٰ ہی کے سپرد ہے اور وہی بنیامین پر اس کے والدین اور بھائیوں سے زیادہ مہربان ہے۔