یہ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ بھائیوں کی واپسی کے وقت اللہ کے نبی نے ان کا مال ومتاع ان کے اسباب کے ساتھ پوشیدہ طور پر واپس کر دیا تھا ۔ یہاں گھر پہنچ کر جب انہوں نے کجاوے کھولے اور اسباب علیحدہ علیحدہ کیا تو اپنی چیزیں جوں کی توں واپس شدہ پائیں تو اپنے والد سے کہنے لگے لیجئے اب آپ کو اور کیا چاہئے ۔ اصل تک تو عزیز مصر نے ہمیں واپس کر دی ہے اور بدلے کا غلہ پورا پورا دے دیا ہے ۔ اب تو آپ بھائی صاحب کو ضرور ہمارے ساتھ کر دیجئے تو ہم خاندان کے لئے غلہ بھی لائیں گے اور بھائی کی وجہ سے ایک اونٹ کا بوجھ اور بھی مل جائے گا کیونکہ عزیز مصر ہر شخص کو ایک اونٹ کا بوجھ ہی دیتے ہیں ۔ اور آپ کو انہیں ہمارے ساتھ کرنے میں تامل کیوں ہے ؟ ہم اس کی دیکھ بھال اور نگہداشت پوری طرح کریں گے ۔ یہ ناپ بہت ہی آسان ہے یہ تھا اللہ کا کلام کا تتممہ اور کلام کو اچھا کرنا ۔ حضرت یعقوب علیہ السلام ان تمام باتوں کے جواب میں فرماتے ہیں کہ جب تک تم حلفیہ اقرار نہ کرو کہ اپنے اس بھائی کو اپنے ہمراہ مجھ تک واپس پہنچاؤ گے میں اسے تمہارے ساتھ بھیجنے کا نہیں ۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ اللہ نہ کرے تم سب ہی گھر جاؤ اور چھوٹ نہ سکو ۔ چنانچہ بیٹوں نے اللہ کو بیچ میں رکھ کر مضبوط عہدو پیمان کیا ۔ اب حضرت یعقوب علیہ السلام نے یہ فرما کر کہ ہماری اس گفتگو کا اللہ وکیل ہے ۔ اپنے پیارے بچے کو ان کے ساتھ کر دیا ۔ اس لئے کہ قحط کے مارے غلے کی ضرورت تھی اور بغیر بھیجے چارہ نہ تھا ۔
65۔ 1 یعنی بادشاہ کے اس حسن سلوک کے بعد، کہ اس نے ہماری خاطر تواضع بھی خوب کی اور ہماری پونجی بھی واپس کردی، اور ہمیں کیا چاہیئے۔ 65۔ 2 کیونکہ فی کس ایک اونٹ جتنا بوجھ اٹھا سکتا تھا، غلہ دیا جاتا تھا، بنیامین کی وجہ سے ایک اونٹ کے بوجھ بھر غلہ مذید ملتا۔ 65۔ 3 اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ بادشاہ کے لئے ایک بار شتر غلہ کوئی مشکل بات نہیں ہے، آسان ہے، دوسرا مطلب یہ ہے کہ ذٰ لِکَ کا اشارہ اس غلے کی طرف ہے جو ساتھ لائے تھے۔ اور یسیر بمعنی قلیل ہے یعنی جو غلہ ہم ساتھ لائے ہیں قلیل ہے بنیامین کے ساتھ جانے سے ہمیں کچھ غلہ اور مل جائے گا تو اچھی ہی بات ہے ہماری ضرورت زیادہ بہتر طریقے سے پوری ہو سکے گی۔
[٦٢] پھر جب غلہ کی بوریاں کھولنے اور ان سے غلہ نکالنے کے دوران انھیں وہ نقدی بھی واپس مل گئی جو انہوں نے بطور قیمت غلہ ادا کی تھی تو ان کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ شاہ مصر کے احسانات انھیں یاد آنے لگے اور بن یمین کو ساتھ لے جانے کے دوبارہ تقاضا کے لیے ایک نئی وجہ بھی پیدا ہوگئی۔ پہلے تقاضا کے وقت انھیں یہ معلوم نہیں تھا کہ غلہ کی رقم کب تک میسر آئے گی اور کب ہمیں دوبارہ مصر جانا ہوگا۔ اس لیے بن یمین کے ساتھ لے جانے کا مطالبہ بھی کچھ ایسا پرزور نہ تھا۔ شاید یہ خیال کرتے ہوں کہ وقت آنے پر باپ مان ہی جائے گا یا اسے منا لیں گے، مگر اب جبکہ غلہ کے لیے قیمت بھی میسر آگئی تو دوبارہ بن یمین کی حفاظت کے عہد و پیمان کرنے اور والد کو اسے ہمراہ لے جانے پر مجبور کرنے اور اس کے فوائد بتلانے لگے۔- [٦٣] یعنی بن یمین کا حصہ بھی ملے گا اور اب جبکہ ساری سہولتیں میسر ہیں تو پھر کیوں نہ غلہ لانے کی کوشش کی جائے، اور بعض لوگوں نے اس آیت میں (یَسِیْرٌ) کے معنی آسان کے بجائے قلیل لیے ہیں۔ یعنی جو غلہ ہم لاچکے ہیں وہ ہمارے گھرانے کے لیے تھوڑا ہے۔ کب تک چلے گا۔ لہذا ہمیں دوبارہ غلہ لانے کے موقعہ کو کسی قیمت پر کھونا نہیں چاہیے۔
وَلَمَّا فَتَحُوْا مَتَاعَهُمْ ۔۔ : جب انھوں نے اپنا سامان کھولا اور دیکھا کہ جو کچھ وہ بطور قیمت لے کر گئے تھے پورا ہی انھیں واپس دے دیا گیا ہے، تو انھیں اپنے چھوٹے بھائی کو ساتھ بھیجنے کے لیے مزید اصرار کرنے اور اطمینان دلانے کا موقع مل گیا۔ چناچہ انھوں نے کہا، ابا جان ہمیں اور کیا چاہیے، ہمارا مال ہمیں واپس مل گیا، اب قیمت موجود ہے، چھوٹا بھائی ساتھ جائے تو ہم سارے اہل خانہ کے لیے غلہ لے آئیں گے، ایک اونٹ زائد بھی مل جائے گا، ورنہ گیارہ کہاں ایک بھی نہیں ملے گا، ایسی صورت میں ہم بھائی کو کیوں نقصان پہنچائیں گے۔- ذٰلِكَ كَيْلٌ يَّسِيْرٌ: اس کے دو معنی کرتے ہیں، ایک تو یہ کہ یہ دس اونٹ غلہ جو ہم لائے ہیں کب تک چلے گا، یہ تو بہت تھوڑا ہے، اس لیے ہمیں ہر صورت دوبارہ جانا پڑے گا اور دوسرا معنی یہ ہے کہ اس طرح ہمارے لیے ایک اونٹ بھر غلہ مزید لانا بالکل آسان ہوگا۔
(آیت) وَلَمَّا فَتَحُوْا مَتَاعَهُمْ وَجَدُوْا بِضَاعَتَهُمْ رُدَّتْ اِلَيْهِمْ ۭ قَالُوْا يٰٓاَبَانَا مَا نَبْغِيْ ۭهٰذِهٖ بِضَاعَتُنَا رُدَّتْ اِلَيْنَا ۚ وَنَمِيْرُ اَهْلَنَا وَنَحْفَظُ اَخَانَا وَنَزْدَادُ كَيْلَ بَعِيْرٍ ۭ ذٰلِكَ كَيْلٌ يَّسِيْرٌ- یعنی اب تک تو برادران یوسف (علیہ السلام) کی یہ ابتدائی گفتگو حالات سفر بیان کرنے کے دوران میں ہو رہی تھی ابھی سامان کھولا نہ تھا اس کے بعد جب سامان کھولا اور دیکھا کہ ان کی وہ پونجی جو غلہ کی قیمت میں ادا کر کے آئے تھے وہ بھی سامان کے اندر جو موجود ہے تو اس وقت انہوں نے یہ محسوس کیا کہ یہ کام سہواً نہیں ہوا بلکہ قصدا ہماری پونجی ہمیں واپس کردی گئی ہے اسی لئے رُدَّتْ اِلَيْنَا کہا یعنی یہ پونجی ہمیں واپس کردی گئی ہے اور پھر والد محترم سے عرض کیا یعنی ہمیں اور کیا چاہئے کہ غلہ بھی آ گیا اور اس کی قیمت بھی واپس مل گئی اب تو ہمیں ضرور دوبارہ اپنے بھائی کو ساتھ لے کر اطمینان سے جانا چاہئے کیونکہ اس معاملہ سے معلوم ہوا کہ عزیز مصر ہم پر بہت مہربان ہے اس لئے کوئی اندیشہ نہیں ہم اپنے خاندان کے لئے غلہ لائیں اور بھائی کو بھی حفاظت سے رکھیں اور بھائی کے حصہ کا غلہ مزید مل جائے کیونکہ ہم جو کچھ لائے ہیں یہ تو ہمارے اخراجات کے مقابلہ میں بہت تھوڑا ہے چند روز میں ختم ہوجائے گا،- برادران یوسف (علیہ السلام) نے جو یہ جملہ مانبغی کہا اس کا ایک مفہوم وہی ہے جو ابھی بتلایا گیا کہ ہمیں اور اس سے زیادہ کیا چاہئے اور اس جملہ میں حرف ما کو نفی کے معنی میں لیا جائے تو یہ مفہوم بھی ہوسکتا ہے کہ اولاد یعقوب (علیہ السلام) نے اپنے والد سے عرض کیا کہ اب تو ہمارے پاس غلہ لانے کے لئے قیمت موجود ہے ہم آپ سے کچھ نہیں مانگتے آپ صرف بھائی کو ہمارے ساتھ بھیج دیں
وَلَمَّا فَتَحُوْا مَتَاعَہُمْ وَجَدُوْا بِضَاعَتَہُمْ رُدَّتْ اِلَيْہِمْ ٠ۭ قَالُوْا يٰٓاَبَانَا مَا نَبْغِيْ ٠ۭ ہٰذِہٖ بِضَاعَتُنَا رُدَّتْ اِلَيْنَا ٠ۚ وَنَمِيْرُ اَہْلَنَا وَنَحْفَظُ اَخَانَا وَنَزْدَادُ كَيْلَ بَعِيْرٍ ٠ۭ ذٰلِكَ كَيْلٌ يَّسِيْرٌ ٦٥- فتح - الفَتْحُ : إزالة الإغلاق والإشكال، وذلک ضربان :- أحدهما : يدرک بالبصر کفتح الباب ونحوه، وکفتح القفل والغلق والمتاع، نحو قوله : وَلَمَّا فَتَحُوا مَتاعَهُمْ [يوسف 65] ، وَلَوْ فَتَحْنا عَلَيْهِمْ باباً مِنَ السَّماءِ [ الحجر 14] .- والثاني : يدرک بالبصیرة کفتح الهمّ ، وهو إزالة الغمّ ، وذلک ضروب : أحدها : في الأمور الدّنيويّة كغمّ يفرج، وفقر يزال بإعطاء المال ونحوه، نحو : فَلَمَّا نَسُوا ما ذُكِّرُوا بِهِ فَتَحْنا عَلَيْهِمْ أَبْوابَ كُلِّ شَيْءٍ [ الأنعام 44] ، أي : وسعنا، وقال : لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 96] ، أي : أقبل عليهم الخیرات . والثاني : فتح المستغلق من العلوم، نحو قولک : فلان فَتَحَ من العلم بابا مغلقا، وقوله : إِنَّا فَتَحْنا لَكَ فَتْحاً مُبِيناً [ الفتح 1] ، قيل : عنی فتح مكّةوقیل : بل عنی ما فتح علی النّبيّ من العلوم والهدایات التي هي ذریعة إلى الثّواب، والمقامات المحمودة التي صارت سببا لغفران ذنوبه وفَاتِحَةُ كلّ شيء : مبدؤه الذي يفتح به ما بعده، وبه سمّي فاتحة الکتاب، وقیل : افْتَتَحَ فلان کذا : إذا ابتدأ به، وفَتَحَ عليه كذا : إذا أعلمه ووقّفه عليه، قال : أَتُحَدِّثُونَهُمْ بِما فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ [ البقرة 76] ، ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ [ فاطر 2] ، وفَتَحَ الْقَضِيَّةَ فِتَاحاً : فصل الأمر فيها، وأزال الإغلاق عنها . قال تعالی: رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنا وَبَيْنَ قَوْمِنا بِالْحَقِّ وَأَنْتَ خَيْرُ الْفاتِحِينَ- [ الأعراف 89] ، ومنه الْفَتَّاحُ الْعَلِيمُ [ سبأ 26] ، قال الشاعر : بأني عن فَتَاحَتِكُمْ غنيّ- وقیل : الفتَاحةُ بالضمّ والفتح، وقوله : إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ [ النصر 1] ، فإنّه يحتمل النّصرة والظّفر والحکم، وما يفتح اللہ تعالیٰ من المعارف، وعلی ذلک قوله : نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] ، فَعَسَى اللَّهُ أَنْ يَأْتِيَ بِالْفَتْحِ [ المائدة 52] ، وَيَقُولُونَ مَتى هذَا الْفَتْحُ [ السجدة 28] ، قُلْ يَوْمَ الْفَتْحِ [ السجدة 29] ، أي : يوم الحکم . وقیل : يوم إزالة الشّبهة بإقامة القیامة، وقیل : ما کانوا يَسْتَفْتِحُونَ من العذاب ويطلبونه،- ( ف ت ح ) الفتح کے معنی کسی چیز سے بندش اور پیچیدگی کو زائل کرنے کے ہیں اور یہ ازالہ دوقسم پر ہے ایک وہ جس کا آنکھ سے ادراک ہو سکے جیسے ۔ فتح الباب ( دروازہ کھولنا ) اور فتح القفل ( قفل کھولنا ) اور فتح المتاع ( اسباب کھولنا قرآن میں ہے ؛وَلَمَّا فَتَحُوا مَتاعَهُمْ [يوسف 65] اور جب انہوں نے اپنا اسباب کھولا ۔ وَلَوْ فَتَحْنا عَلَيْهِمْ باباً مِنَ السَّماءِ [ الحجر 14] اور اگر ہم آسمان کا کوئی دروازہ ان پر کھولتے ۔ دوم جس کا ادراک بصیرت سے ہو جیسے : فتح الھم ( یعنی ازالہ غم ) اس کی چند قسمیں ہیں (1) وہ جس کا تعلق دنیوی زندگی کے ساتھ ہوتا ہے جیسے مال وغیرہ دے کر غم وانددہ اور فقر و احتیاج کو زائل کردینا ۔ جیسے فرمایا : فَلَمَّا نَسُوا ما ذُكِّرُوا بِهِ فَتَحْنا عَلَيْهِمْ أَبْوابَ كُلِّ شَيْءٍ [ الأنعام 44] پھر جب انہوں ن اس نصیحت کو جو ان کو کی گئی تھی ۔ فراموش کردیا تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دیئے ۔ یعنی ہر چیز کی فرادانی کردی ۔ نیز فرمایا : لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 96] تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکات کے دروازے کھول دیتے ۔ یعنی انہیں ہر طرح سے آسودگی اور قارغ البالی کی نعمت سے نوازتے ۔ (2) علوم ومعارف کے دروازے کھولنا جیسے محاورہ ہے ۔ فلان فتح من العلم بابامغلقا فلاں نے طلم کا بندو دروازہ کھول دیا ۔ یعنی شہادت کو زائل کرکے ان کی وضاحت کردی ۔ اور آیت کریمہ :إِنَّا فَتَحْنا لَكَ فَتْحاً مُبِيناً [ الفتح 1] ( اے محمد ) ہم نے تم کو فتح دی اور فتح صریح وصاف ۔ میں بعض نے کہا ہے یہ فتح کی طرف اشارہ ہے اور بعض نے کہا ہے کہ نہیں بلکہ اس سے علوم ومعارف ار ان ہدایات کے دروازے کھولنا مراد ہے جو کہ ثواب اور مقامات محمودہ تک پہچنے کا ذریعہ بنتے ہیں اور آنحضرت کیلئے غفران ذنوب کا سبب ہے ۔ الفاتحۃ ہر چیز کے مبدء کو کہاجاتا ہے جس کے ذریعہ اس کے مابعد کو شروع کیا جائے اسی وجہ سے سورة فاتحہ کو فاتحۃ الکتاب کہاجاتا ہے ۔ افتح فلان کذ افلاں نے یہ کام شروع کیا فتح علیہ کذا کسی کو کوئی بات بتانا اور اس پر اسے ظاہر کردینا قرآن میں ہے : أَتُحَدِّثُونَهُمْ بِما فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ [ البقرة 76] جو بات خدا نے تم پر ظاہر فرمائی ہے وہ تم ان کو ۔۔۔ بتائے دیتے ہو ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ [ فاطر 2] جو لوگوں کیلئے ۔۔ کھولدے فتح القضیۃ فتاحا یعنی اس نے معاملے کا فیصلہ کردیا اور اس سے مشکل اور پیچیدگی کو دور کردیا ۔ قرآن میں ہے ؛ رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنا وَبَيْنَ قَوْمِنا بِالْحَقِّ وَأَنْتَ خَيْرُ الْفاتِحِينَ [ الأعراف 89] اے ہمارے پروردگار ہم میں اور ہماری قوم میں انصاف کے ساتھ فیصلہ کردے اور تو سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے ۔ اسی سے الْفَتَّاحُ الْعَلِيمُ [ سبأ 26] ہے یعن خوب فیصلہ کرنے والا اور جاننے والا یہ اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ سے ہے کسی شاعر نے کہا ہے ( الوافر) (335) وانی من فتاحتکم غنی اور میں تمہارے فیصلہ سے بےنیاز ہوں ۔ بعض نے نزدیک فتاحۃ فا کے ضمہ اور فتحہ دونوں کے ساتھ صحیح ہے اور آیت کریمہ : إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ [ النصر 1] جب اللہ کی مدد آپہنچیں اور فتح حاصل ہوگئی ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ الفتح سے نصرت ، کامیابی اور حکم مراد ہو اور یہ بھی احتمال ہے کہ علوم ومعارف کے دروازے کھول دینا مراد ہو ۔ اسی معنی ہیں میں فرمایا : نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] ( یعنی تمہیں ) خدا کی طرف سے مدد ( نصیب ہوگی ) اور فتح عنقریب ( ہوگی ) فَعَسَى اللَّهُ أَنْ يَأْتِيَ بِالْفَتْحِ [ المائدة 52] تو قریب ہے خدا فتح بھیجے وَيَقُولُونَ مَتى هذَا الْفَتْحُ [ السجدة 28] اور کہتے ہیں ۔۔۔ یہ فیصلہ کب ہوگا ۔ قُلْ يَوْمَ الْفَتْحِ [ السجدة 29] کہدو کہ فیصلے کے دن ۔۔۔ یعنی حکم اور فیصلے کے دن بعض نے کہا ہے کہ الفتح سے قیامت بپا کرکے ان کے شک وشبہ کو زائل کرے کا دن مراد ہے اور بعض نے یوم عذاب مراد لیا ہے ۔ جسے وہ طلب کیا کرتے تھے - متع ( سامان)- وكلّ ما ينتفع به علی وجه ما فهو مَتَاعٌ ومُتْعَةٌ ، وعلی هذا قوله : وَلَمَّا فَتَحُوا مَتاعَهُمْ [يوسف 65] أي : طعامهم، فسمّاه مَتَاعاً ، وقیل : وعاء هم، وکلاهما متاع، وهما متلازمان، فإنّ الطّعام کان في الوعاء .- ( م ت ع ) المتوع - ہر وہ چیز جس سے کسی قسم کا نفع حاصل کیا جائے اسے متاع ومتعۃ کہا جاتا ہے اس معنی کے لحاظ آیت کریمہ : وَلَمَّا فَتَحُوا مَتاعَهُمْ [يوسف 65] جب انہوں نے اپنا اسباب کھولا ۔ میں غلہ کو متاع کہا ہے اور بعض نے غلہ کے تھیلے بابور یاں مراد لئے ہیں اور یہ دونوں متاع میں داخل اور باہم متلا زم ہیں کیونکہ غلہ ہمیشہ تھیلوں ہی میں ڈالا جاتا ہے - بضع - البِضَاعَة : قطعة وافرة من المال تقتنی للتجارة، يقال : أَبْضَعَ بِضَاعَة وابْتَضَعَهَا . قال تعالی: هذِهِ بِضاعَتُنا رُدَّتْ إِلَيْنا [يوسف 65] وقال تعالی: بِبِضاعَةٍ مُزْجاةٍ [يوسف 88]- ( ب ض ع ) البضاعۃ - ۔ مال کا وافر حصہ جو تجارت کے لئے الگ کرلیا گیا ہو ابضع وبتضع بضاعۃ سرمایہ یاپونچی جمع کرنا ۔ الگ قرآن میں ہے ۔ هذِهِ بِضاعَتُنا رُدَّتْ إِلَيْنا [يوسف 65] یہ ہماری پونجی بھی ہمیں واپس کردی گئی ہے ۔ بِبِضاعَةٍ مُزْجاةٍ [يوسف 88] اور ہم تھوڑا سا سرمایہ لائے ہیں ۔- رد - الرَّدُّ : صرف الشیء بذاته، أو بحالة من أحواله، يقال : رَدَدْتُهُ فَارْتَدَّ ، قال تعالی: وَلا يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام 147] - ( رد د ) الرد ( ن )- اس کے معنی کسی چیز کو لوٹا دینے کے ہیں خواہ ذات شے کہ لوٹا یا جائے یا اس کی حالتوں میں سے کسی حالت کو محاورہ ہے ۔ رددتہ فارتد میں نے اسے لوٹا یا پس وہ لوٹ آیا ۔ قرآن میں ہے :۔- وَلا يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام 147] ( مگر بکے ) لوگوں سے اس کا عذاب تو ہمیشہ کے لئے ٹلنے والا ہی نہیں ۔ - بغي - البَغْي : طلب تجاوز الاقتصاد فيما يتحرّى،- والبَغْيُ علی ضربین :- أحدهما محمود، وهو تجاوز العدل إلى الإحسان، والفرض إلى التطوع .- والثاني مذموم، وهو تجاوز الحق إلى الباطل، أو تجاوزه إلى الشّبه، تعالی: إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ [ الشوری 42] - ( ب غ ی ) البغی - کے معنی کسی چیز کی طلب میں درمیانہ روی کی حد سے تجاوز کی خواہش کرنا کے ہیں ۔ - بغی دو قسم پر ہے ۔- ( ١) محمود - یعنی حد عدل و انصاف سے تجاوز کرکے مرتبہ احسان حاصل کرنا اور فرض سے تجاوز کرکے تطوع بجا لانا ۔- ( 2 ) مذموم - ۔ یعنی حق سے تجاوز کرکے باطل یا شہاے ت میں واقع ہونا چونکہ بغی محمود بھی ہوتی ہے اور مذموم بھی اس لئے آیت کریمہ : ۔ السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ ( سورة الشوری 42) الزام تو ان لوگوں پر ہے ۔ جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور ملک میں ناحق فساد پھیلاتے ہیں ۔- مور - المَوْر : الجَرَيان السَّريع . يقال : مَارَ يَمُورُ مَوْراً. قال تعالی: يَوْمَ تَمُورُ السَّماءُ مَوْراً [ الطور 9] ومَارَ الدم علی وجهه، والمَوْرُ : التُّراب المتردِّد به الرّيح، وناقة تَمُورُ في سيرها، فهي مَوَّارَةٌ.- ( م و ر ) المور ۔ کے معنی تیز رفتاری کے ہیں ۔ اور یہ مار یمور مورا سے ہے چناچہ قرآن میں ہے يَوْمَ تَمُورُ السَّماءُ مَوْراً [ الطور 9] جس دن آسمان لرز نے لگے کپکپاکر ۔ مار الرم علیٰ وجھہ کے معنی چہرہ پر تیزی سے خون جاری ہونے کے ہیں اور مور غبار کو بھی کہتے ہیں جو ہوا میں ادہر ادھر اڑتا ہے اور ناقۃ تمور فی میرھا کے معنی ہیں اونٹنی کا تیز رفتاری کی وجہ سے غبار اڑاتے ہوئے چلے جانا ۔ اور تیز رو اونٹنی کو موارۃ کہا جاتا ہے ۔- أهل - أهل الرجل : من يجمعه وإياهم نسب أو دين، أو ما يجري مجراهما من صناعة وبیت وبلد، وأهل الرجل في الأصل : من يجمعه وإياهم مسکن واحد، ثم تجوّز به فقیل : أهل الرجل لمن يجمعه وإياهم نسب، وتعورف في أسرة النبيّ عليه الصلاة والسلام مطلقا إذا قيل :- أهل البیت لقوله عزّ وجلّ : إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ [ الأحزاب 33] - ( ا ھ ل ) اھل الرجل - ۔ ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو اس کے ہم نسب یا ہم دین ہوں اور یا کسی صنعت یامکان میں شریک ہوں یا ایک شہر میں رہتے ہوں اصل میں اھل الرجل تو وہ ہیں جو کسی کے ساتھ ایک مسکن میں رہتے ہوں پھر مجازا آدمی کے قریبی رشتہ داروں پر اہل بیت الرجل کا لفظ بولا جانے لگا ہے اور عرف میں اہل البیت کا لفظ خاص کر آنحضرت کے خاندان پر بولا جانے لگا ہے کیونکہ قرآن میں ہے :۔ إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ ( سورة الأحزاب 33) اسے پیغمبر گے اہل بیت خدا چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی ( کا میل کچیل ) دور کردے ۔- حفظ - الحِفْظ يقال تارة لهيئة النفس التي بها يثبت ما يؤدي إليه الفهم، وتارة لضبط الشیء في النفس، ويضادّه النسیان، وتارة لاستعمال تلک القوة، فيقال : حَفِظْتُ كذا حِفْظاً ، ثم يستعمل في كلّ تفقّد وتعهّد ورعاية، قال اللہ تعالی: وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [يوسف 12]- ( ح ف ظ ) الحفظ - کا لفظ کبھی تو نفس کی اس ہیئت ( یعنی قوت حافظہ ) پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ جو چیز سمجھ میں آئے وہ محفوظ رہتی ہے اور کبھی دل میں یاد ررکھنے کو حفظ کہا جاتا ہے ۔ اس کی ضد نسیان ہے ، اور کبھی قوت حافظہ کے استعمال پر یہ لفظ بولا جاتا ہے مثلا کہا جاتا ہے ۔ حفظت کذا حفظا یعنی میں نے فلاں بات یاد کرلی ۔ پھر ہر قسم کی جستجو نگہداشت اور نگرانی پر یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [يوسف 12] اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں ۔- ( بعیر)- ، اسم جامد للجمل البازل يطلق للذکر والأنثی، جمعه بعران۔ بضمّ الباء۔ وأبعرة وجمع الجمع أباعر وأباعیر، والأوزان علی التوالي فعیل بفتح الفاء، وفعلان بضمّها، وأفعلة، وأفاعل، وأفاعیل - يسر - اليُسْرُ : ضدّ العسر . قال تعالی: يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] ، سَيَجْعَلُ اللَّهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْراً [ الطلاق 7] ، وَسَنَقُولُ لَهُ مِنْ أَمْرِنا يُسْراً [ الكهف 88] ، فَالْجارِياتِ يُسْراً [ الذاریات 3] - ( ی س ر ) الیسر کے معنی آسانی ار سہولت کے ہیں یہ عسر کی ضد ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے ۔ اور سختی نہیں چاہتا ۔ سَيَجْعَلُ اللَّهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْراً [ الطلاق 7] خدا عنقریب تنگی کے بعد کشائش بخشے گا ۔ وَسَنَقُولُ لَهُ مِنْ أَمْرِنا يُسْراً [ الكهف 88] بلکہ اس سے نرم بات کہیں گے ۔ فَالْجارِياتِ يُسْراً [ الذاریات 3] پھر نر می سے چلتی ہیں ۔
(٦٥) (چنانچہ اس گفتگو کے بعد) جب انہوں نے اپنے سامان اور پالانوں کو کھولا تو اس میں ان کے اناج کی قیمت بھی ملی جو ان ہی کی واپس کردی گئی تھی تو کہنے لگے اباجان لیجیے ہم نے جو کچھ اس بادشاہ کی شفقت اور احسان وکرم آپ سے آکر بیان کیا ہے وہ جھوٹ نہیں اور یہ کہ قیمت کی واپسی کی تو ہم نے ان سے درخواست نہیں کی تھی اور ہم نے اناج کی جو قیمت ادا کی تھی وہ بھی ہمارے غلہ کے ساتھ ہمیں واپس کردی گئی ہے یہ اس بادشاہ یعنی حضرت یوسف (علیہ السلام) کا ہم پر مزید احسان وکرم ہے، یہ دیکھ کر حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے ان سے فرمایا بلکہ اس شخص نے تمہیں اس طریقہ سے آزمایا ہے۔- یہ قیمت بھی ان کے پاس واپس لے جاؤ اور انہیں لوٹا دو (ان کے بیٹے کہنے لگے ایسے مہربان بادشاہ سے) اپنے گھروالوں کے لیے اور راشن لائیں گے اور وہاں آنے جانے میں اب تو بنیامین کی بھی خوب دیکھ بھال کریں گے اور بنیامین جب ہمارے ساتھ ہوں گے تو ایک اونٹ اناج کا اور لادیں گے یہ تو تھوڑا سا اناج ہے اور تو بنیامین ہی کی وجہ سے ملے گا اور یہ کام تو بہت ہی آسان ہے اور یہ تدبیر تو بہت ہی عمدہ ہے جس کی وجہ سے ہم ان سے اناج لے کر آئیں گے۔