Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

66۔ 1 یعنی تمہیں اجتماعی مصیبت پیش آجائے یا تم سب ہلاک یا گرفتار ہوجاؤ، جس سے خلاصی پر تم قادر نہ ہو، تو اور بات ہے۔ اس صورت میں تم معذور ہو گے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٦٤] دوبارہ مطالبہ پر سیدنا یعقوب کا مشروط طور پر تسلیم کرلینا :۔ بالآخر سیدنا یعقوب (علیہ السلام) اپنے بیٹوں کے سامنے مجبور ہوگئے۔ ان سے اللہ کے نام پر پختہ عہد دینے کا مطالبہ کیا جسے تسلیم کرنے کو وہ پہلے ہی تیار بیٹھے تھے۔ سیدنا یعقوب نے مزید یہ شرط عائد کردی کہ تمہیں اس وقت تک بن یمین کی حفاظت کرنا ہوگی جب تک تمہاری جان میں جان ہے ہاں اگر تم خود ہی کہیں گھیر لیے جاؤ اور تمہیں اپنی جانوں کی حفاظت بھی مشکل ہوجائے تو یہ الگ بات ہے۔ بیٹوں نے اس بات کو بھی تسلیم کرلیا تو اس وقت سیدنا یعقوب نے ان سے کہا کہ جو کچھ ہم میں قول و اقرار پایا ہے۔ اس پر اللہ گواہ ہے اور وہی اسے بخیر و عافیت سرانجام دینے والا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قَال اللّٰهُ عَلٰي مَا نَقُوْلُ وَكِيْلٌ : ” وَكِيْلٌ“ بروزن ” فَعِیْلٌ“ بمعنی مفعول ہے، یعنی ” مَوْکُوْلٌ اِلَیْہِ “ جس کے سپرد اپنا کام کردیا جائے۔ یعقوب (علیہ السلام) نے ایک طرف بیٹوں سے پختہ عہد، یعنی قسمیں لے لیں اور ظاہری اسباب سے پورا وثوق حاصل کرلیا اور دوسری طرف معاملہ اللہ کے سپرد کر کے بھروسا اسی پر رکھا کہ جو کچھ ہم کہہ رہے ہیں اسے پورا کرنا اسی کے اختیار میں ہے اور جو جان بوجھ کر بدعہدی یا خیانت کرے گا وہ خود اسے سزا دے گا، اللہ پر توکل کا صحیح مطلب بھی یہی ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

والد محترم نے یہ سب باتیں سن کر جواب دیا لَنْ اُرْسِلَهٗ مَعَكُمْ حَتّٰى تُؤ ْتُوْنِ مَوْثِقًا مِّنَ اللّٰهِ لَتَاْتُنَّنِيْ بِهٖٓ یعنی میں بنیامین کو تمہارے ساتھ اس وقت تک نہ بھیجوں گا جب تک تم اللہ تعالیٰ کی قسم اور یہ عہد و پیمان مجھے نہ دے دو کہ تم اس کو ضرور اپنے ساتھ واپس لاؤ گے مگر چونکہ حقیقت میں نظروں سے یہ بات کسی وقت غائب نہیں ہوتی کہ انسان بیچارہ ظاہری قوت وقدرت کتنی ہی رکھتا ہو پھر بھی ہر چیز میں مجبور اور قدرت حق جل شانہ کے سامنے عاجز ہے وہ کسی شخص کو حفاظت کے ساتھ واپس لانے کا عہد و پیمان ہی کیا کرسکتا ہے کیونکہ وہ اس پر مکمل قدرت نہیں رکھتا اس لئے اس عہد و پیمان کے ساتھ ایک استثناء بھی لگا دیا (آیت) الا این یحاط بکم یعنی بجز اس صورت کے کہ تم سب کسی گھیرے میں آجاؤ امام تفسیر مجاہد (رح) نے اس کا مطلب یہ بیان کیا کہ تم سب ہلاک ہوجاؤ اور قتادہ (رح) نے فرمایا کہ مطلب یہ ہے کہ تم بالکل عاجز اور مغلوب ہوجاؤ۔- آیت) فَلَمَّآ اٰتَوْهُ مَوْثِقَهُمْ قَال اللّٰهُ عَلٰي مَا نَقُوْلُ وَكِيْلٌ یعنی جب صاحبزادوں نے مطلوبہ طریقہ پر عہد و پیمان کرلیا یعنی سب نے قسمیں کھائیں اور والد کو اطمینان دلانے کیلئے بڑی شدت سے حلف کئے تو یعقوب (علیہ السلام) نے فرمایا کہ بنیامین کی حفاظت کے لئے حلف اٹھانے کا جو کام ہم کر رہے ہیں اس سب معاملہ کا بھروسہ اللہ تعالیٰ ہی پر ہے اسی کی توفیق سے کوئی کسی کی حفاظت کرسکتا ہے اور اپنے عہد کو پورا کرسکتا ہے ورنہ انسان بےبس ہے اس کے ذاتی قبضہ قدرت میں کچھ نہیں - ہدایات ومسائل - مذکورہ آیات میں انسان کے لئے بہت سی ہدایات اور احکام ہیں ان کو یاد رکھئے - پہلی ہدایت : برادران یوسف (علیہ السلام) سے جو خطا اس سے پہلے سرزد ہوئی وہ بہت سے کبیر اور شدید گناہوں پر مشتمل تھی، مثلا اول، جھوٹ بول کر والد کو اس پر آمادہ کرنا کہ وہ یوسف (علیہ السلام) کو ان کے ساتھ تفریح کے لئے بھیج دیں، دوسرے والد سے عہد کر کے اس کی خلاف ورزی، تیسرے چھوٹے معصوم بھائی سے بےرحمی اور شدت کا برتاؤ، چوتھے ضعیف والد کی انتہائی دل آزاری کی پروا نہ کرنا، پانچویں ایک بےگناہ انسان کو قتل کرنے کا منصوبہ بنانا چھٹے ایک آزاد انسان کو جبراً اور ظلماً فروخت کردینا۔- یہ ایسے انتہائی اور شدید جرائم تھے کہ جب یعقوب (علیہ السلام) پر یہ واضح ہوگیا کہ انہوں نے جھوٹ بولا ہے اور دیدہ و دانستہ یوسف (علیہ السلام) کو ضائع کیا ہے تو اس کا مقتضیٰ بظاہر یہ تھا کہ وہ ان صاحبزادوں سے قطع تعلق کرلیتے یا ان کو نکال دیتے مگر حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے ایسا نہیں کیا بلکہ وہ بدستور والد کی خدمت میں رہے یہاں تک کہ انھیں مصر سے غلہ لانے کے لئے بھیجا اور اس پر مزید یہ کہ دوبارہ پھر ان کو چھوٹے بھائی کے متعلق والد سے عرض معروض کرنے کا موقع ملا اور بالآخر ان کی بات مان کر چھوٹے صاحبزادہ کو بھی ان کے حوالہ کردیا، اس سے معلوم ہوا کہ اولاد سے کوئی گناہ وخطا سرزد ہوجائے تو باپ کو چاہئے کہ تربیت کر کے ان کی اصلاح کی فکر کرے اور جب تک اصلاح کی امید ہو قطع تعلق نہ کرے جیسا کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے ایسا ہی کیا اور بالآخر وہ سب اپنی خطاؤں پر نادم اور گناہوں سے تائب ہوئے ہاں اگر اصلاح سے مایوسی ہوجائے اور ان کے ساتھ تعلق قائم رکھنے میں دوسروں کے دین کا ضرر محسوس ہو تو پھر قطع تعلق کرلینا مناسب ہے،- دوسری ہدایت : اس حسن معاملہ اور حسن خلق کی ہے جو یہاں حضرت یعقوب (علیہ السلام) سے ظاہر ہوا کہ صاحبزادوں کے اتنے شدید جرائم کے باوجود ان کا معاملہ ایسا رہا کہ دوبارہ چھوٹے بھائی کو ساتھ لے جانے کی درخواست کرنے کی جرأت کرسکے،- تیسری ہدایت : یہ بھی ہے کہ ایسی صورت میں بغرض اصلاح خطا کار کو جتلا دینا بھی مناسب ہے کہ تمہارے معاملہ کا تقاضا تو یہ تھا کہ تمہاری بات نہ مانی جاتی مگر ہم اس سے در گذر کرتے ہیں تاکہ وہ آئندہ شرمندہ ہو کر اس سے کلی طور پر تائب ہوجائے جیسا کہ یعقوب (علیہ السلام) نے اول جتلایا کہ کیا بنیامین کے معاملہ میں بھی تم پر ایسا ہی اطمینان کرلوں جیسا یوسف (علیہ السلام) کے معاملہ میں کیا تھا مگر جتلانے کے بعد غالب احوال سے ان کا تائب ہونا معلوم کر کے اللہ پر توکل کیا اور چھوٹے صاحبزادے کو ان کے حوالہ کردیا۔- چوتھی ہدایت : یہ ہے کہ کسی انسان کے وعدہ اور حفاظت پر حقیقی طور سے بھروسہ کرنا غلطی ہے اصل بھروسہ صرف اللہ تعالیٰ پر ہونا چاہئے وہی حقیقی کارساز اور مسبب الاسباب ہیں اسباب کو مہیا کرنا پھر ان میں تاثیر دینا سب انہی کی قدرت میں ہے اسی لئے یعقوب (علیہ السلام) نے فرمایا فاللّٰهُ خَيْرٌ حٰفِظًا۔ کعب احبار کا قول ہے کہ اس مرتبہ چونکہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے صرف اولاد کے کہنے پر بھروسہ نہیں کیا بلکہ معاملہ کو اللہ کے سپرد کیا اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ قسم ہے میری عزت و جلال کی کہ اب میں آپ کے دونوں بیٹوں کو آپ کے پاس واپس بھیجوں گا - پانچواں مسئلہ : اس میں یہ ہے کہ اگر دوسرے شخص کا مال یا کوئی چیز اپنے سامان میں نکلے اور قرائن قویہ اس پر شاہد ہوں کہ اس نے بالقصد ہمیں دینے ہی کے لئے ہمارے سامان میں باندھ دیا ہے تو اس کو اپنی لئے رکھنا اور اس میں تصرف کرنا جائز ہے جیسے یہ پونجی جو برادران یوسف (علیہ السلام) کے سامان سے برآمد ہوئی اور قرائن قویہ اس پر شاہد تھے کہ کسی بھول یا نسیان سے ایسا نہیں ہوا بلکہ قصدا اس کو واپس دے دیا گیا ہے اس لئے حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے اس رقم کی واپسی کی ہدایت نہیں فرمائی لیکن جہاں یہ اشتباہ موجود ہو کہ شاید بھولے سے ہمارے پاس آگئی وہاں مالک سے تحقیق اور دریافت کئے بغیر اس کا استعمال کرنا جائز نہیں - چھٹامسئلہ : اس میں یہ ہے کہ کسی شخص کو ایسی قسم دینا نہیں چاہئے جس کا پورا کرنا بالکل اس کے قبضہ میں نہ ہو جیسے حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے بنیامین کو صحیح وسالم واپس لانے کی قسم دی تو اس میں سے اس حالت کو مستثنی ٰ کردیا کہ یہ بالکل عاجز و مجبور ہوجائیں یا خود بھی سب ہلاکت میں پڑجائیں، اسی لئے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب صحابہ کرام (رض) سے اپنی اطاعت کا عہد لیا تو خود اس میں استطاعت کی قید لگا دی یعنی جہاں تک ہماری قدرت و استطاعت میں داخل ہے ہم آپ کی پوری اطاعت کریں گے،- ساتواں مسئلہ : اس میں یہ ہے کہ برادران یوسف سے عہد و پیمان لینا کہ وہ بنیامین کو واپس لائیں گے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کفالۃ بالنفس جائز ہے یعنی کسی مقدمہ میں ماخوذ انسان کو مقدمہ کی تاریخ پر حاضر کرنے کی ضمانت کرلینا درست ہے،- اس مسئلہ میں امام مالک (رح) کا اختلاف ہے وہ صرف مالی ضمانت کو جائز رکھتے ہیں نفس انسانی کی ضمانت کو جائز نہیں رکھتے

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قَالَ لَنْ اُرْسِلَہٗ مَعَكُمْ حَتّٰى تُؤْتُوْنِ مَوْثِقًا مِّنَ اللہِ لَتَاْتُنَّنِيْ بِہٖٓ اِلَّآ اَنْ يُّحَاطَ بِكُمْ۝ ٠ۚ فَلَمَّآ اٰتَوْہُ مَوْثِقَہُمْ قَالَ اللہُ عَلٰي مَا نَقُوْلُ وَكِيْلٌ۝ ٦٦- أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام 40]- ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی " آنا " ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو۔- وثق - وَثِقْتُ به أَثِقُ ثِقَةً : سکنت إليه واعتمدت عليه، وأَوْثَقْتُهُ : شددته، والوَثَاقُ والوِثَاقُ : اسمان لما يُوثَقُ به الشیء، والوُثْقَى: تأنيث الأَوْثَق . قال تعالی: وَلا يُوثِقُ وَثاقَهُ أَحَدٌ [ الفجر 26] ، حَتَّى إِذا أَثْخَنْتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثاقَ [ محمد 4] - والمِيثاقُ :- عقد مؤكّد بيمين وعهد، قال : وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثاقَ النَّبِيِّينَ [ آل عمران 81] ، وَإِذْ أَخَذْنا مِنَ النَّبِيِّينَ مِيثاقَهُمْ [ الأحزاب 7] ، وَأَخَذْنا مِنْهُمْ مِيثاقاً غَلِيظاً [ النساء 154] - والمَوْثِقُ الاسم منه . قال : حَتَّى تُؤْتُونِ مَوْثِقاً مِنَ اللَّهِ إلى قوله : مَوْثِقَهُمْ [يوسف 66] - ( و ث ق )- وثقت بہ اثق ثقتہ ۔ کسی پر اعتماد کرنا اور مطمئن ہونا ۔ اوثقتہ ) افعال ) زنجیر میں جکڑنا رسی سے کس کر باندھنا ۔ اولوثاق والوثاق اس زنجیر یارسی کو کہتے ہیں جس سے کسی چیز کو کس کو باندھ دیا جائے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلا يُوثِقُ وَثاقَهُ أَحَدٌ [ الفجر 26] اور نہ کوئی ایسا جکڑنا چکڑے گا ۔- حَتَّى إِذا أَثْخَنْتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثاقَ [ محمد 4] یہ ان تک کہ جب ان کو خوب قتل کرچکو تو ( جو زندہ پکڑے جائیں ان کو قید کرلو ۔- المیثاق - کے منیق پختہ عہدو پیمان کے ہیں جو قسموں کے ساتھ موکد کیا گیا ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثاقَ النَّبِيِّينَ [ آل عمران 81] اور جب ہم نے پیغمبروں سے عہد لیا ۔ وَأَخَذْنا مِنْهُمْ مِيثاقاً غَلِيظاً [ النساء 154] اور عہد بھی ان سے پکالیا ۔- الموثق - ( اسم ) پختہ عہد و پیمان کو کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى تُؤْتُونِ مَوْثِقاً مِنَ اللَّهِ إلى قوله : مَوْثِقَهُمْ [يوسف 66] کہ جب تک تم خدا کا عہد نہ دو ۔- حيط - الحائط : الجدار الذي يَحُوط بالمکان، والإحاطة تقال علی وجهين :- أحدهما : في الأجسام - نحو : أَحَطْتُ بمکان کذا، أو تستعمل في الحفظ نحو : إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُحِيطٌ [ فصلت 54] ، - والثاني : في العلم - نحو قوله : أَحاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْماً [ الطلاق 12] - ( ح و ط ) الحائط ۔- دیوار جو کسی چیز کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہو اور - احاطۃ ( افعال ) کا لفظ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) اجسام کے متعلق جیسے ۔ احطت بمکان کذا یہ کبھی بمعنی حفاظت کے آتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُحِيطٌ [ فصلت 54] سن رکھو کہ وہ ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ یعنی وہ ہر جانب سے ان کی حفاظت کرتا ہے ۔- (2) دوم احاطہ بالعلم - ہے جیسے فرمایا :۔ أَحاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْماً [ الطلاق 12] اپنے علم سے ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ - وكيل - التَّوْكِيلُ : أن تعتمد علی غيرک وتجعله نائبا عنك، والوَكِيلُ فعیلٌ بمعنی المفعول . قال تعالی: وَكَفى بِاللَّهِ وَكِيلًا[ النساء 81] أي : اکتف به أن يتولّى أمرك،- ( و ک ل) التوکیل - کے معنی کسی پر اعتماد کر کے اسے اپنا نائب مقرر کرنے کے ہیں اور وکیل فعیل بمعنی مفعول کے وزن پر ہے ۔ قرآن میں : ۔ وَكَفى بِاللَّهِ وَكِيلًا[ النساء 81] اور خدا ہی کافی کار ساز ہے ۔ یعنی اپنے تمام کام اسی کے سپرد کر دیجئے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٦٦) یعقوب (علیہ السلام) نے ان سے فرمایا خیر محض ان باتوں پر میں اس وقت تک تمہارے ساتھ بنیامین کو نہیں بھیجوں گا جب تک کہ اللہ کی قسم کھا کر مجھے پختہ قول نہ دو گے کہ تم اس کو ضرور میرے پاس لے کر آؤ گے ہاں اگر کوئی تم پر آسمانی آفت نازل ہوجائے یا یہ کہ سماوی یا دنیاوی مصیبت میں گھر جاؤ تو مجبوری ہے، چناچہ جب وہ اللہ کی قسم کھا کر بنیامین کے واپس لانے کا اپنے باپ سے وعدہ کرچکے، تب حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے فرمایا ہماری ان باتوں کا اللہ گواہ ہے ،۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٦٦ (قَالَ لَنْ اُرْسِلَهٗ مَعَكُمْ حَتّٰى تُؤْتُوْنِ مَوْثِقًا مِّنَ اللّٰهِ لَتَاْتُنَّنِيْ بِهٖٓ اِلَّآ اَنْ يُّحَاطَ بِكُمْ )- ہاں اگر کوئی ایسی مصیبت آجائے کہ تم سب کے سب گھیرلیے جاؤ اور وہاں سے گلو خلاصی مشکل ہوجائے تو اور بات ہے ‘ مگر عام حالات میں تم لوگ اسے واپس میرے پاس لانے کے پابند ہو گے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani