Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

چونکہ اللہ کے نبی نے حضرت یعقوب علیہ السلام کو اپنے بچوں پر نظر لگ جانے کا کھٹکا تھا کیونکہ وہ سب اچھے ، خوبصورت ، تنو مند ، طاقتور ، مضبوط دیدہ رو نوجوان تھے اس لئے بوقت رخصت ان سے فرماتے ہیں کہ پیارے بچو تم سب شہر کے ایک دروازے سے شہر میں نہ جانا بلکہ مختلف دروازوں سے ایک ایک دو دو کر کے جانا ۔ نظر کا لگ جانا حق ہے ۔ گھوڑ سوار کو یہ گرا دیتی ہے ۔ پھر ساتھ ہی فرماتے ہیں کہ یہ میں جانتا ہوں اور میرا ایمان ہے کہ یہ تدبیر تقدیر میں ہیر پہیری نہیں کر سکتی ۔ اللہ کی قضا کو کوئی شخص کسی تدبیر سے بدل نہیں سکتا ۔ اللہ کا چاہا پورا ہو کر ہی رہتا ہے ۔ حکم اسی کا چلتا ہے ۔ کون ہے جو اس کے ارادے کو بدل سکے ؟ اس کے فرمان کو ٹال سکے ؟ اس کی قضا کو لوٹا سکے ؟ میرا بھروسہ اسی پر ہے اور مجھ پر ہی کیا موقوف ہے ۔ ہر ایک توکل کرنے والے کو اسی پر توکل کرنا چاہئے ۔ چنانچہ بیٹوں نے باپ کی فرماں برداری کی اور اسی طرح کئی ایک دروازوں میں بٹ گئے اور شہر میں پہنچے ۔ اس طرح وہ اللہ کی قضا کو لوٹا نہیں سکتے تھے ہاں حضرت یعقوب علیہ السلام نے ایک ظاہری تدبیر پوری کی کہ اس سے وہ نظر بد سے بچ جائیں ۔ وہ ذی علم تھے ، الہامی علم ان کے پاس تھا ۔ ہاں اکثر لوگ ان باتوں کو نہیں جانتے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

67۔ 1 جب بنیامین سمیت، گیارہ بھائی مصر جانے لگے، تو یہ ہدایت دی، کیونکہ ایک ہی باپ کے گیارہ بیٹے، جو قد و قامت اور شکل و صورت میں بھی ممتاز ہوں، جب اکٹھے ایک ہی جگہ یا ایک ساتھ کہیں سے گزریں گے تو عموماً انھیں لوگ تعجب یا حسد کی نظر سے دیکھتے ہیں اور یہی چیز نظر لگنے کا باعث بنتی ہے۔ چناچہ انھیں نظر بد سے بچانے کے لئے بطور تدبیر یہ حکم دیا نظر لگ جانا حق ہے جیسا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی صحیح احادیث سے ثابت ہے مثلاً اَ لْعَیْنُ حَق نظر کا لگ جانا حق ہے ۔ صحیح بخاری صحیح مسلم اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نظر بد سے بچنے کے لیے دعائیہ کلمات بھی اپنی امت کو بتالئے ہیں مثلا فرمایا کہ جب تمہیں کوئی چیز اچھی لگے تو بارک اللہ کہو۔ مؤطا امام مالک جس کی نظر لگے اس کو کہا جائے کہ غسل کرے اور اس کے غسل کا یہ پانی اس شخص کے سر اور جسم پر ڈالا جائے جس کو نظر لگی ہو حوالہ مذکورہ اسی طرح ماشاء اللہ لا قوۃ الا باللہ پڑھنا قرآن سے ثابت ہے سورة کہف قل اغوذ برب الفلق اور قل اغوذ برب الناس نظر کے لیے بطور دم پڑھنا چاہیے جامع ترمذی 67۔ 2 یعنی یہ تاکید بطور ظاہری اسباب، احتیاط اور تدبیر کے ہے جسے اختیار کرنے کا انسانوں کو حکم دیا گیا ہے، تاہم اس سے اللہ تعالیٰ کی تقدیر و قضا میں تبدیلی نہیں آسکتی۔ ہوگا وہی، جو اس کی قضا کے مطابق اس کا حکم ہوگا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٦٥] پھر جب ان گیارہ بھائیوں کی روانگی کا وقت آیا تو کئی طرح کے اندیشے سیدنا یعقوب کے دل میں پیدا ہونے لگے پہلے ان کے بیٹے اجنبی مسافروں کی حیثیت سے اور بےبسی کے عالم میں مصر داخل ہوئے تھے۔ اب یہ ایک لحاظ سے شاہی دعوت کی بنا پر شان و شوکت سے روانہ ہو رہے تھے۔ گیارہ بھائی تھے۔ سب کے سب جوان اور خوبصورت، پھر پہلی بار بھی ان سے مصر میں عام لوگوں جیسا سلوک نہ ہوا تھا بلکہ ان کی بہت عزت و تکریم کی گئی تھی جسے اہل مصر خوب جانتے تھے۔ لہذا روانگی کے وقت سیدنا یعقوب (علیہ السلام) کو سب سے بڑا اندیشہ یہی تھا کہ کہیں انھیں کسی کی نظر نہ لگ جائے۔ لہذا احتیاطی تدبیر کے طور پر انھیں یہ ہدایت کی کہ وہ مصر کے کسی ایک ہی دروازہ سے داخل نہ ہوں۔ بلکہ الگ الگ دروازوں سے داخل ہوں۔ بعض لوگ نظر لگنے کو محض ایک وہم خیال کرتے ہیں۔ درج ذیل حدیث کی رو سے ان کا خیال باطل ہے : ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا نظر لگنا برحق ہے اور اگر کوئی چیز تقدیر پر سبقت کرتی تو نظر کرتی (مسلم، کتاب السلام، باب الطب والمرضیٰ والرقی۔۔ )- اس تدبیر کو اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ انھیں یہ بھی بتلا دیا کہ ہماری تدابیر بھی اس صورت میں کام آسکتی ہیں جبکہ اللہ کو منظور ہو، اور اگر اللہ کو منظور نہ ہو تو سب تدبیریں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں اور ہوتا وہی ہے جو اللہ کو منظور ہو۔ لہذا حقیقت یہی ہے کہ اللہ پر بھروسہ رکھنا تدابیر اختیار کرنے سے بھی زیادہ ضروری ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَقَالَ يٰبَنِيَّ لَا تَدْخُلُوْا ۔۔ : نہ تو آیت کے الفاظ میں اس چیز کی وضاحت ہے اور نہ کسی صحیح حدیث ہی سے اس کا پتا چلتا ہے کہ یعقوب (علیہ السلام) نے اپنے بیٹوں کو یہ حکم کیوں دیا کہ وہ ایک دروازے سے نہیں بلکہ الگ الگ دروازوں سے داخل ہوں۔ اس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ صحرا کے پروردہ تنومند گیارہ نوجوان ایک ہی دروازے سے اکٹھے گزریں گے تو ان کی پڑتال زیادہ ہوگی۔ انھیں رہزنوں کا گروہ بھی سمجھا جاسکتا ہے، اگر شک یا حسد کی بنا پر گرفتار ہوئے تو یوسف (علیہ السلام) تک ایک بھی نہیں پہنچ سکے گا، پھر گرفتار شدگان کی رہائی کی جدوجہد اجنبی وطن میں کون کرے گا، غرض کئی وجہیں ہوسکتی ہیں۔ مگر اکثر مفسرین نے لکھا ہے کہ یعقوب (علیہ السلام) کو اپنے صحت مند، قوی، جوان اور خوب صورت بیٹوں کے اکٹھے داخل ہونے پر نظر بد لگنے کا خطرہ تھا۔ شاہ عبد القادر (رض) فرماتے ہیں : ” یہ ٹوک (نظر بد) سے بچنے کا طریقہ بتایا اور توکل اللہ پر کیا، ٹوک لگنی غلط نہیں اور نظر بد سے بچاؤ کرنا درست ہے۔ “ (موضح) ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( اَلْعَیْنُ حَقٌّ وَلَوْ کَانَ شَيْءٌ سَابَقَ الْقَدَرَ سَبَقَتْہُ الْعَیْنُ وَإِذَا اسْتُغْسِلْتُمْ فَاغْسِلُوْا ) [ مسلم، السلام، باب الطب والمرض والرقي : ٢١٨٨ ]” نظر لگنا ثابت شدہ بات ہے اور اگر کوئی چیز تقدیر سے آگے نکل سکتی تو نظر اس سے آگے نکل جاتی اور جب تم سے غسل کے لیے کہا جائے تو غسل کرو۔ “ - نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں بہت سے لوگوں کو نظر بد سے نقصان کا پہنچنا ثابت ہے۔ دراصل نظر لگانے والے کی آنکھ سے کوئی ایسی تاثیر رکھنے والی شعاع نکلتی ہے جو نشانہ بننے والے کو نقصان پہنچاتی ہے، جیسا کہ اب لیزر (شعاع) سے پتھر بھی توڑ دیا جاتا ہے۔ یہ حسد کی وجہ سے بھی ہوسکتی ہے اور اپنے پیاروں کو بھی لگ جاتی ہے، کسی کی آنکھ میں یہ تاثیر زیادہ ہوتی ہے کسی میں کم۔ بچوں پر یہ زیادہ اثر اندازہوتی ہے۔ اس سلسلے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک ہدایت تو یہ دی ہے کہ کوئی چیز اچھی لگے تو اس کے لیے برکت کی دعا کرے، مثلاً : (تَبَارَکَ اللّٰہُ أَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ ، اَللّٰھُمَّ بَارِکْ فِیْہِ ) یا اپنی زبان میں کہہ دے ” یا اللہ اس میں برکت فرما۔ “ قرآن مجید سے ثابت ہے کہ کوئی اپنے خوب صورت باغ وغیرہ میں داخل ہو تو یہ کہے : ( مَا شَاۗءَ اللّٰهُ ۙ لَا قُوَّةَ اِلَّا باللّٰهِ ) [ الکھف : ٣٩ ] اس آیت سے یہی الفاظ اپنی ہر پیاری چیز پر پڑھنے کی ترغیب بھی ملتی ہے، اس سے وہ چیز نظربد سے محفوظ رہے گی۔ اگر نظر لگ جائے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسے دور کرنے کے دو طریقے ثابت ہیں، ایک تو یہ ہے کہ اگر معلوم ہوجائے کہ کس کی نظر لگی ہے تو اس سے غسل کروا کر وہ پانی نظر کے مریض پر ڈالا جائے، جیسا کہ اوپر صحیح مسلم کی حدیث میں گزرا، یا کم از کم اس کا چہرہ، دونوں ہاتھ، دونوں کہنیاں، دونوں گھٹنے، پیروں کی انگلیاں اور تہ بند کے اندر کا حصہ کسی برتن میں دھو کر وہ پانی مریض پر ڈالا جائے (تو وہ تندرست ہوجائے گا) ۔ [ الموطأ، العین، باب الوضوء من العین : ٢ ] دوسرا طریقہ توحید پر مبنی دم ہے۔ عوف بن مالک راوی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( لَا بَأْسَ بالرُّقٰی مَا لَمْ یَکُنْ فِیْہِ شِرْکَ ) [ مسلم، السلام، باب لا بأس بالرقٰي۔۔ : ٢٢٠٠ ] ” دموں میں کوئی حرج نہیں جب تک کہ وہ شرک نہ ہوں۔ “ مشرک صوفیوں اور گدی نشینوں کے بجائے خود ہی مسنون دم کرلیا کریں، یہاں چند مسنون دم ضرورت اور فائدے کے لیے نقل کیے جاتے ہیں : 1 عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حسن و حسین (رض) کو پناہ دلواتے (دم کرتے) اور فرماتے : ” تم دونوں کا باپ ( ابراہیم (علیہ السلام ) اسماعیل اور اسحاق ( علیہ السلام) کو ان کلمات کے ساتھ پناہ دلواتا (دم کرتا) تھا : (أَعُوْذُ بِکَلِمَات اللّٰہِ التَّامَّۃِ مِنْ کُلِّ شَیْطَانٍ وَھَامَّۃٍ وَمِنْ کُلِّ عَیْنٍ لَامَّۃٍ ) [ بخاری، أحادیث الأنبیاء، باب : ٣٣٧١ ] ” میں پناہ طلب کرتا ہوں اللہ کے کامل کلمات کے ساتھ ہر شیطان اور زہریلے جانور سے اور ہر اس آنکھ سے جو نظر لگانے والی ہے۔ “ ابوداؤد (٤٧٣٧) اور ترمذی (٢٠٦٠) میں شروع کے لفظ یہ ہیں : ( أُعِیْذُکُمَا بِکَلِمَات اللّٰہِ التَّامَّۃِ ) یعنی میں تم دونوں کو دم کرتا ہوں۔ اگر ایک کو دم کرے تو ” أُعِیْذُکَ “ کہہ لے۔ 2 ابوسعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ جبریل (علیہ السلام) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے، کہا : ” اے محمد آپ بیمار ہوگئے ہیں ؟ “ کہا : ” ہاں “ تو انھوں نے کہا : ( بِسْمِ اللّٰہِ أَرْقِیْکَ مِنْ کُلِّ شَيْءٍ یُؤْذِیْکَ ، مِنْ شَرِّ کُلِّ نَفْسٍ أَوْ عَیْنٍ حَاسِدٍ ، اَللّٰہُ یَشْفِیْکَ بِسْمِ اللّٰہِ أَرْقِیْکَ ) [ مسلم، باب الطب والمرض والرقٰی : ٢١٨٦ ] ” میں اللہ ہی کے نام کے ساتھ تجھے دم کرتا ہوں ہر اس چیز سے جو تجھے تکلیف دے رہی ہے اور ہر حسد کرنے والے نفس یا آنکھ کے شر سے، اللہ تجھے شفا دے۔ اللہ ہی کے نام سے میں تجھے دم کرتا ہوں۔ “ مسند احمد (٥؍٣٢٣، ح : ٢٢٨٢٦) میں عبادہ بن صامت (رض) سے ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بخار تھا، پچھلے پہر جبریل (علیہ السلام) نے دم کیا، شام کو آپ بہترین حالت میں ہوگئے۔ 3 آسمان سے اترنے والی تمام کتابوں میں سے سورة فاتحہ سب سے عظیم سورت ہے۔ صحیح بخاری میں ہے، ایک قبیلے کے سردار کو (جنھوں نے صحابہ کرام (رض) کے قافلے کی مہمان نوازی سے انکار کردیا تھا) سانپ نے ڈس لیا۔ ابوسعید خدری (رض) نے سورة فاتحہ پڑھ کر اسے دم کیا، وہ بالکل ٹھیک ہوگیا تو صحابہ نے ان سے طے کی ہوئی تیس بکریاں وصول کیں۔ [ بخاری، الإجارۃ، باب ما یعطي في الرقیۃ علی أحیاء العرب۔۔ : ٢٢٧٦] ابوداؤد میں ہے کہ خارجہ بن صلت کے چچا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آ کر مسلمان ہوگئے، واپسی پر ان کا گزر ایک قوم پر ہوا، جہاں ایک پاگل لوہے کی زنجیر کے ساتھ بندھا ہوا تھا، انھوں نے ان سے دم کی درخواست کی تو انھوں نے صرف سورة فاتحہ پڑھ کر دم کیا۔ صبح و شام تین دن سورة فاتحہ پڑھ کر جمع شدہ تھوک اس پر پھینکتے رہے تو وہ تندرست ہوگیا اور ایسا گویا اسے رسیوں سے کھول دیا گیا ہو، تو انھوں نے ان کو سو بکریاں دیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( کُلْ فَلَعَمْرِيْ مَنْ أَکَلَ بِرُقْیَۃِ بَاطِلٍ لَقَدْ أَکَلْتَ بِرُقْیَۃِ حَقٍّ )[أبوداوٗد، الطب، باب کیف الرقی : ٣٩٠١ ] ” کھالو، میری عمر کی قسم لوگ تو باطل دم کے ساتھ کھاتے ہیں، تم نے حق دم کے ساتھ کھایا ہے۔ “ اس لیے ہر بیماری، نظر ہو یا کوئی اور سورة فاتحہ جیسا عظیم دم موجود ہونے کی صورت میں اگر کوئی مشرکوں بدعتیوں کے پاس جائے تو اس پر افسوس ہے۔ 4 سورة فلق اور سورة ناس کے متعلق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عقبہ بن عامر (رض) سے فرمایا : ( یَا عُقْبَۃُ تَعَوَّذْ بِھِمَا فَمَا تَعَوَّذَ مُتَعَوِّذٌ بِمِثْلِھِمَا ) [ أبوداوٗد، الوتر، باب فی المعوذتین : ١٤٦٣ ] ” اے عقبہ ان دونوں کے ساتھ پناہ پکڑ، کیونکہ کسی پناہ پکڑنے والے نے ان جیسی سورتوں کے ساتھ پناہ نہیں پکڑی۔ “ کتب احادیث میں اور بھی دم موجود ہیں جو حصن المسلم اور ادعیہ و اذکار کی دوسری کتابوں میں موجود ہیں۔ - وَمَآ اُغْنِيْ عَنْكُمْ ۔۔ : اور میں اللہ کی طرف سے آنے والی کوئی چیز تم سے ہٹا نہیں سکتا، بلکہ اس نے جو کچھ تمہاری تقدیر میں لکھ دیا ہے وہ ہو کر رہے گا، مگر چونکہ آدمی کا فرض ہے کہ جہاں تک ممکن ہو خرابی سے بچنے کی تدبیر کرے، اگرچہ اصل بھروسا تدبیر پر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی حفاظت پر ہونا چاہیے، کیونکہ اسباب بھی تب ہی کام آتے ہیں جب اللہ تعالیٰ چاہے۔ سو تدبیر کرنا بھی دراصل اللہ تعالیٰ ہی سے مدد مانگنے کا نام ہے۔ ” الگ الگ دروازوں سے داخل ہونا “ تدبیر ہے اور ” میں اللہ سے آنے والی کوئی چیز تم سے ہٹا نہیں سکتا “ تقدیر پر ایمان ہے، جس کا نتیجہ اسی پر توکل ہے۔ - اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلّٰهِ ۔۔ : یہاں حکم سے مراد کونی اور قدری حکم ہے جس پر یہ کائنات چل رہی ہے، اس میں بندے کا کچھ اختیار نہیں۔ ” عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ “ یعنی میری طرح تم پر اور سب لوگوں پر بھی لازم ہے کہ صرف اسی پر بھروسا کریں، اپنی تدبیر پر غرور نہ کریں، اگرچہ شرعی حکم بھی اللہ ہی کا ماننا لازم ہے مگر اس میں اللہ تعالیٰ نے امتحان کے لیے بندے کو کچھ اختیار دیا ہے جس پر باز پرس ہوگی۔ - پہلی دفعہ یعقوب (علیہ السلام) نے انھیں مختلف دروازوں سے داخل ہونے کا حکم نہیں دیا، شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ اس وقت قحط کی وجہ سے تمام بھائیوں کی صحت اچھی نہیں ہوگی، اب وہ بہترین صحت کے ساتھ تھے اور مزید یہ کہ وہ چھوٹے بھائی کو ساتھ لے جا رہے تھے جو یوسف (علیہ السلام) کے بعد یعقوب (علیہ السلام) کو سب سے زیادہ پیارے اور یوسف (علیہ السلام) کی ماں کے بطن سے تھے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :- اور (چلتے وقت) یعقوب (علیہ السلام نے (ان سے) فرمایا کہ اے میرے بیٹو (جب مصر میں پہنچو تو) سب کے سب ایک ہی دروازہ سے مت جانا بلکہ علیحٰدہ علیحٰدہ دروازوں سے جانا اور (یہ محض ایک تدبیر ظاہری ہے بعض مکروہات مثل نظر بد سے بچنے کی باقی) خدا کے حکم کو تم پر سے میں ٹال نہیں سکتا حکم تو بس اللہ تعالیٰ کا (چلتا) ہے (باوجود اس تدبیر ظاہری کے دل سے) اسی پر بھروسہ رکھتا ہوں اور اسی پر بھروسہ رکھنے والوں کو بھروسہ رکھنا چاہئے (یعنی تم بھی اسی پر بھروسہ رکھنا تدبیر پر نظر مت کرنا، غرض سب رخصت ہو کر چلے) اور جب (مصر پہنچ کر) جس طرح ان کے باپ نے کہا تھا (اسی طرح شہر کے) اندر داخل ہوئے تو باپ کا ارمان پورا ہوگیا (باقی) ان کے باپ کو ان سے (یہ تدبیر بتلا کر) خدا کا حکم ٹالنا مقصود نہ تھا (تاکہ ان پر کسی قسم کا اعتراض یا اس تدبیر کے نافع ہونے سے ان پر شبہ لازم آئے چناچہ خود انہوں نے ہی فرما دیا تھا وَمَآ اُغْنِيْ عَنْكُمْ الخ) لیکن یعقوب (علیہ السلام) کے جی میں (درجہ تدبیر میں) ایک ارمان (آیا) تھا جس کو انہوں نے ظاہر کردیا اور وہ بلاشبہ بڑے عالم تھے بایں وجہ کہ ہم نے ان کو علم دیا تھا (وہ علم کے خلاف تدبیر کو اعتقادا مؤ ثر حقیقی کب سمجھ سکتے تھے صرف ان کے اس قول کی وجہ وہی عملا ایک تدبیر کا ارتکاب تھا جو کہ مشروع و محمود ہے) لیکن اکثر لوگ اس کا علم نہیں رکھتے (بلکہ جہل سے تدبیر حقیقی اعتقاد کرلیتے ہیں) اور جب یہ لوگ (یعنی برادران یوسف) یوسف (علیہ السلام) کے پاس پہنچے (اور بنیامین کو پیش کر کے کہا کہ ہم آپ کے حکم کے موافق ان کو لائے ہیں) انہوں نے اپنے بھائی کو اپنے ساتھ ملا لیا (اور تنہائی میں ان سے) کہا کہ میں تیرا بھائی (یوسف) ہوں سو یہ لوگ جو کچھ (بدسلوکی) کرتے رہے ہیں اس کا رنج مت کرنا (کیونکہ اب تو اللہ نے ہم کو ملا دیا اب سب غم بھلا دینا چاہئے یوسف (علیہ السلام) کے ساتھ بدسلوکی تو ظاہر اور مشہور ہے رہا بنیامین کے ساتھ، سو یا تو ان کو بھی کچھ تکلیف دی ہو ورنہ یوسف (علیہ السلام) کی جدائی کیا ان کے حق میں کچھ کم تکلیف تھی پھر دونوں بھائیوں نے مشورہ کیا کہ کوئی ایسی صورت ہو کہ بنیامین یوسف (علیہ السلام) کے پاس رہیں کیونکہ ویسے رہنے میں تو اور بھائیوں کا بوجہ عہدو سوگند کے اصرار ہوگا ناحق جھگڑا ہوگا اور پھر اگر وجہ بھی ظاہر ہوگئی تو راز کھلا اور اگر مخفی رہی تو یعقوب (علیہ السلام) کا رنج بڑھے گا کہ بلاسبب کیوں گئے یا کیوں رہے یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا کہ تدبیر تو ہے مگر ذرا تمہاری بدنامی ہے بنیامین نے کہا کچھ پرواہ نہیں غرض ان میں یہ امر قرار پا گیا اور ادھر سب کو غلہ دے کر ان کی رخصت کا سامان درست کیا گیا)- معارف و مسائل :- آیات مذکورہ میں برادران کا یوسف (علیہ السلام) کے چھوٹے بھائی کو ساتھ لے کر دوسری مرتبہ سفر مصر کا ذکر ہے اس وقت حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے ان کو شہر مصر میں داخل ہونے کے لئے ایک خاص وصیت یہ فرمائی کہ اب تم گیارہ بھائی وہاں جا رہے ہو تو شہر کے ایک ہی دروازہ سے سب داخل نہ ہونا بلکہ شہر پناہ کے پاس پہنچ کر متفرق ہوجانا اور شہر کے مختلف دروازوں سے داخل ہونا - سبب اس وصیت کا یہ اندیشہ تھا کہ یہ سب نوجوان اور ماشاء اللہ صحت مند قدآور صاحب جمال وصاحب وجاہت ہیں ایسا نہ ہو کہ جب لوگوں کو یہ معلوم ہو کہ یہ سب ایک ہی باپ کی اولاد اور بھائی بھائی ہیں تو کسی بدنظر کی نظر لگ جائے جس سے ان کو کوئی تکلیف پہنچنے یا اجتماعی طور سے داخل ہونے کی وجہ سے کچھ لوگ حسد کرنے لگیں اور تکلیف پہنچائیں - حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے ان کو یہ وصیت پہلی مرتبہ نہیں کی اس دوسرے سفر کی موقع پر فرمائی اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ پہلی مرتبہ تو یہ لوگ مصر میں مسافرانہ اور شکستہ حالت میں داخل ہوئے تھے نہ کوئی ان کو پہچانتا تھا نہ کسی سے ان کے حال پر زیادہ توجہ دینے کا خطرہ تھا مگر پہلے ہی سفر میں ملک مصر نے ان کو غیر معمولی اکرام کیا جس سے عام ارکان دولت اور شہر کے لوگوں میں تعارف ہوگیا تو اب یہ خطرہ قوی ہوگیا کہ کسی کی نظر لگ جائے یا سب کو ایک باشوکت جماعت سمجھ کر کچھ لوگ حسد کرنے لگیں نیز اس مرتبہ بنیامین چھوٹے بیٹے کا ساتھ ہونا بھی والد کے لئے اور زیادہ توجہ دینے کا سبب ہوا - نظر بد کا اثر حق ہے : اس سے معلوم ہوا کہ انسان کی نظرلگ جانا اور اس سے کسی دوسرے انسان یا جانور وغیرہ کو تکلیف ہوجانا یا نقصان پہنچ جانا حق ہے محض جاہلانہ وہم و خیال نہیں اسی لئے حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو اس کی فکر ہوئی، رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی اس کی تصدیق فرمائی ہے ایک حدیث میں ہے کہ نظر بد ایک انسان کو قبر میں اور اونٹ کو ہنڈیا میں داخل کردیتی ہے اسی لئے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جن چیزوں سے پناہ مانگی اور امت کو پناہ مانگنے کی تلقین فرمائی ہے (ان میں من کل عین لامۃ) بھی مذکور ہے یعنی میں پناہ مانگتا ہوں نظر بد سے (قرطبی)- صحابہ کرام (رض) میں سہل بن حنیف کا واقعہ معروف ہے کہ انہوں نے ایک موقع پر غسل کرنے کے لئے کپڑے اتارے تو ان کے سفید رنگ تندرست بدن پر عامر بن ربیعہ کی نظر پڑگئی اور ان کی زبان سے نکلا کہ میں نے تو آج تک اتنا حسین بدن کسی کا نہیں دیکھا یہ کہنا تھا کہ فوراً سہل بن حنیف کو سخت بخار چڑھ گیا رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب اس کی اطلاع ہوئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ علاج تجویز کیا کہ عامربن ربیعہ کو حکم دیا کہ وہ وضو کریں اور وضو کا پانی کسی برتن میں جمع کریں یہ پانی سہل بن حنیف کے بدن پر ڈالا جائے ایسا ہی کیا گیا تو فوراً بخار اتر گیا اور وہ بالکل تندرست ہو کر جس مہم پر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جا رہے تھے اس پر روانہ ہوگئے اس واقعہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عامر بن ربیعہ کو یہ تنبیہ بھی فرمائی (علام یقتل احدکم اخاہ الا برکت ان العین حقٌ) کوئی شخص اپنے بھائی کو کیوں قتل کرتا ہے تم نے ایسا کیوں نہ کیا کہ جب ان کا بدن تمہیں خوب نظر آیا تو برکت کی دعاء کرلیتے نظر کا اثر ہوجانا حق ہے - اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جب کسی شخص کو کسی دوسرے کی جان ومال میں کوئی اچھی بات تعجب انگیز نظر آئے تو اس کو چاہئے کہ اس کے واسطے یہ دعاء کرے کہ اللہ تعالیٰ اس میں برکت عطا فرماویں بعض روایات میں ہے کہ ماشاء اللہ لَاقُوَ ۃ الاَّ باللہ کہے اس سے نظر بد کا اثر جاتا رہتا ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی کی نظر بد کسی کو لگ جائے تو نظر لگانے والے ہاتھ پاؤں اور چہرہ کا غسالہ اس کے بدن پر ڈالنا نظر بد کے اثر کو زائل کردیتا ہے،- قرطبی نے فرمایا کہ تمام علماء امت اہل سنت والجماعت کا اس پر اتفاق ہے کہ نظر بد لگ جانا اور اس سے نقصان پہنچ جانا حق ہے،- حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے ایک طرف تو نظر بد یا حسد کے اندیشہ سے اولاد کو یہ وصیت فرمائی کہ سب مل کر ایک دروازہ سے شہر میں داخل نہ ہوں دوسری طرف ایک حقیقت کا اظہار بھی ضروری سمجھا جس سے غفلت کی بناء پر ایسے معاملات میں بہت سے عوام جاہلانہ خیالات واوہام کے شکار ہوجاتے ہیں وہ یہ کہ نظر بد کی تاثیر کسی انسان کے جان ومال میں ایک قسم کا مسمریزم ہے اور وہ ایسا ہی ہے جیسے مضر دوا یا غذا انسان کو بیمار کردیتی ہے، گرمی، سردی کی شدت سے امراض پیدا ہوجاتے ہیں اسی طرح نظر بد یا مسمریزم کے تصرفات بھی انہی اسباب عادیہ میں سے ہیں کہ نظر یا خیال کی قوت سے اس کے آثار ظاہر ہوجاتے ہیں ان میں خود کوئی تاثیر حقیقی نہیں ہوتی بلکہ سب اسباب عالم حق جل شانہ کی قدرت کاملہ اور مشیت و ارادہ کے تابع ہیں تقدیر خداوندی کے مقابلہ میں نہ کوئی مفید تدبیر مفید ہو سکتی ہے نہ مضر تدبیر کی مضرت اثر انداز ہو سکتی ہے اس لئے ارشاد فرمایا،- وَمَآ اُغْنِيْ عَنْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ مِنْ شَيْءٍ ۭ اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلّٰهِ ۭعَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ ۚ وَعَلَيْهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُوْنَ یعنی نظر بد سے بچنے کی جو تدبیر میں نے بتلائی ہے میں جانتا ہوں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی مشیت و ارادہ کو نہیں ٹال سکتی حکم تو صرف اللہ ہی کا چلتا ہے البتہ انسان کو ظاہری تدبیر کرنے کا حکم ہے اس لئے یہ وصیت کی گئی مگر میرا بھروسہ اس تدبیر پر نہیں بلکہ اللہ ہی پر اعتماد ہے اور ہر شخص کو یہی لازم ہے کہ اسی پر اعتماد اور بھروسہ کرے ظاہری اور مادی تدبیروں پر بھروسہ نہ کرے،- حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے جس حقیقت کا اظہار فرمایا اتفاقا ہوا بھی کچھ ایسا ہی کہ اس سفر میں بنیامین کو حفاظت کے ساتھ واپس لانے کی ساری تدبیریں مکمل کرلینے کے باوجود سب چیزیں ناکام ہوگئیں اور بنیامین کو مصر میں روک لیا گیا جس کے نتیجہ میں حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو ایک دوسرا شدید صدمہ پہنچا ان کی تدبیر کا ناکام ہونا جو اگلی آیت میں منصوص ہے اس کا مقصد یہی ہے کہ اصل مقصد کے لحاظ سے تدبیر ناکام ہوگئی اگرچہ نظر بد یا حسد وغیرہ کامیاب ہوئی کیونکہ اس سفر میں ایسا واقعہ پیش نہیں آیا مگر بتقدیر الہی جو حادثہ پیش آنے والا تھا اس طرف یعقوب (علیہ السلام) کی نظر نہ گئی اور نہ اس کے لئے کوئی تدبیر کرسکے مگر اس ظاہری ناکامی کے باوجود ان کے توکل کی برکت سے یہ دوسرا صدمہ پہلے صدمہ کا بھی علاج ثابت ہوا اور بڑی عافیت و عزت کے ساتھ یوسف (علیہ السلام) اور بنیامین دونوں سے ملاقات انجام کار نصیب ہوئی۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَقَالَ يٰبَنِيَّ لَا تَدْخُلُوْا مِنْۢ بَابٍ وَّاحِدٍ وَّادْخُلُوْا مِنْ اَبْوَابٍ مُّتَفَرِّقَۃٍ۝ ٠ۭ وَمَآ اُغْنِيْ عَنْكُمْ مِّنَ اللہِ مِنْ شَيْءٍ۝ ٠ۭ اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلہِ۝ ٠ۭ عَلَيْہِ تَوَكَّلْتُ۝ ٠ۚ وَعَلَيْہِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُوْنَ۝ ٦٧- دخل - الدّخول : نقیض الخروج، ويستعمل ذلک في المکان، والزمان، والأعمال، يقال : دخل مکان کذا، قال تعالی: ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة 58]- ( دخ ل ) الدخول - ( ن ) یہ خروج کی ضد ہے ۔ اور مکان وزمان اور اعمال سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے ( فلاں جگہ میں داخل ہوا ۔ قرآن میں ہے : ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة 58] کہ اس گاؤں میں داخل ہوجاؤ ۔- باب - البَاب يقال لمدخل الشیء، وأصل ذلک : مداخل الأمكنة، کباب المدینة والدار والبیت، وجمعه : أَبْوَاب . قال تعالی: وَاسْتَبَقَا الْبابَ وَقَدَّتْ قَمِيصَهُ مِنْ دُبُرٍ وَأَلْفَيا سَيِّدَها لَدَى الْبابِ [يوسف 25] ، وقال تعالی: لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ وَادْخُلُوا مِنْ أَبْوابٍ مُتَفَرِّقَةٍ [يوسف 67] ، ومنه يقال في العلم : باب کذا، وهذا العلم باب إلى علم کذا، أي : به يتوصل إليه . وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «أنا مدینة العلم وعليّ بابها» «1» . أي : به يتوصّل، قال الشاعر : أتيت المروءة من بابها«2» وقال تعالی: فَتَحْنا عَلَيْهِمْ أَبْوابَ كُلِّ شَيْءٍ [ الأنعام 44] ، وقال عزّ وجل : بابٌ باطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ [ الحدید 13] وقد يقال : أبواب الجنّة وأبواب جهنم للأشياء التي بها يتوصّل إليهما . قال تعالی: فَادْخُلُوا أَبْوابَ جَهَنَّمَ [ النحل 29] ، وقال تعالی: حَتَّى إِذا جاؤُها وَفُتِحَتْ أَبْوابُها وَقالَ لَهُمْ خَزَنَتُها سَلامٌ عَلَيْكُمْ [ الزمر 73] ، وربما قيل : هذا من بَابَة كذا، أي : ممّا يصلح له، وجمعه : بابات، وقال الخلیل : بابة «3» في الحدود، وبَوَّبْتُ بابا، أي : عملت، وأبواب مُبَوَّبَة، والبَوَّاب حافظ البیت، وتَبَوَّبْتُ بوابا : اتخذته، وأصل باب : بوب .- الباب ہر چیز میں داخل ہونے کی جگہ کو کہتے ہیں ۔ دراصل امکنہ جیسے شہر ، مکان ، گھر وغیرہ میں داخل ہونے کی جگہ کو باب کہتے ہیں ۔ اس کی جمع ابواب ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ ۔ وَاسْتَبَقَا الْبابَ وَقَدَّتْ قَمِيصَهُ مِنْ دُبُرٍ وَأَلْفَيا سَيِّدَها لَدَى الْبابِ [يوسف 25] اور دونوں دروازون کی طرف بھاگے اور عورت نے ان کا کرتہ پیچھے سے ( پکڑ کر جو کھینچا تو ) چھاڑ ڈالا ۔ اور دونوں کو دروازں کے پاس عورت کا خاوند مل گیا ۔ لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ وَادْخُلُوا مِنْ أَبْوابٍ مُتَفَرِّقَةٍ [يوسف 67] ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہونا بلکہ جدا جدادروازوں سے داخل ہونا ۔ اور اسی سے ( مجازا ) علم میں باب کذا کا محاورہ ہے ۔ نیز کہا جاتا ہے کہ یعنی یہ علم فلاں تک پہنچنے کا ذریعہ ہے ۔ ایک حدیث میں آنحضرت نے فرمایا : ۔ یعنی میں علم کا شہرہوں اور علی اس کا دروازہ ہے ۔ کسی شاعر نے کہا ہے ( رجہ ) تم نے جو انمردی کو اسی کی جگہ سے حاصل کیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَتَحْنا عَلَيْهِمْ أَبْوابَ كُلِّ شَيْءٍ [ الأنعام 44] تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دیئے بابٌ باطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ [ الحدید 13] جس میں ایک دروازہ ہوگا جو اس کی جانب اندرونی ہے اس میں تو رحمت ہے۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ابواب جنۃ اور ابوب جہنم سے مراد وہ باتیں ہیں جو ان تک پہنچنے کا ذریعے بنتی ہیں قرآن میں ہے : ۔ فَادْخُلُوا أَبْوابَ جَهَنَّمَ [ النحل 29] کہ دوزخ کے دروازوں میں داخل ہوجاؤ ۔ حَتَّى إِذا جاؤُها وَفُتِحَتْ أَبْوابُها وَقالَ لَهُمْ خَزَنَتُها سَلامٌ عَلَيْكُمْ [ الزمر 73] یہاں تک کہ جب اس کے پاس پہنچ جائیں گے تو اسکے دروازے کھول دیئے جائیں گے ۔ تو اسکے دراغہ ان سے کہیں کے کم تم پر سلام ۔ اور جو چیز کسی کام کے لئے صلاحیت رکھتی ہو اس کے متعلق کہا جاتا ہے ۔ کہ یہ اس کے مناسب ہے اس کی جمع بابت ہے خلیل کا قول ہے کہ بابۃ کا لفظ حدود ( اور حساب میں ) استعمال ہوتا ہے بوبت بابا : میں نے دروازہ بنایا ۔ نے بنے ہوئے دروازے قائم کئے ہوئے دروازے ۔ البواب دربان تبوبت بابا میں نے دروازہ بنایا ۔ باب اصل میں بوب ہے اور اس میں الف واؤ سے مبدل ہے ۔- غنی( فایدة)- أَغْنَانِي كذا، وأغْنَى عنه كذا : إذا کفاه . قال تعالی: ما أَغْنى عَنِّي مالِيَهْ [ الحاقة 28] ، ما أَغْنى عَنْهُ مالُهُ [ المسد 2] ، لَنْ تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوالُهُمْ وَلا أَوْلادُهُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئاً [ آل عمران 10] ، - ( غ ن ی ) الغنیٰ- اور اغنانی کذا اور اغنی کذا عنہ کذا کسی چیز کا کا فی ہونا اور فائدہ بخشنا ۔ قر آں میں ہے : ما أَغْنى عَنِّي مالِيَهْ [ الحاقة 28] میرا مال میرے کچھ کام نہ آیا ما أَغْنى عَنْهُ مالُهُ [ المسد 2] تو اس کا مال ہی اس کے کچھ کام آیا ۔۔۔۔ لَنْ تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوالُهُمْ وَلا أَوْلادُهُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئاً [ آل عمران 10] نہ تو ان کا مال ہی خدا کے عذاب سے انہیں بچا سکے گا اور نہ ان کی اولاد ہی کچھ کام آئیگی - وكل - والتَّوَكُّلُ يقال علی وجهين، يقال :- تَوَكَّلْتُ لفلان بمعنی: تولّيت له، ويقال : وَكَّلْتُهُ فَتَوَكَّلَ لي، وتَوَكَّلْتُ عليه بمعنی: اعتمدته قال عزّ وجلّ : فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ [ التوبة 51] - ( و ک ل) التوکل ( تفعل )- اس کا استعمال دو طرح ہوتا ہے ۔ اول ( صلہ لام کے ساتھ ) توکلت لفلان یعنی میں فلاں کی ذمہ داری لیتا ہوں چناچہ وکلتہ فتوکل لی کے معنی ہیں میں نے اسے وکیل مقرر کیا تو اس نے میری طرف سے ذمہ داری قبول کرلی ۔ ( علیٰ کے ساتھ ) توکلت علیہ کے معنی کسی پر بھروسہ کرنے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ [ التوبة 51] اور خدا ہی پر مومنوں کو بھروسہ رکھنا چاہئے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٦٧) حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے ان سے فرمایا کہ سب کے سب ایک ہی دروازہ سے مت داخل ہونا، بلکہ الگ الگ دروازوں سے داخل ہونا تمہارے بارے میں قدرت کے فیصلے کو تو تم سے نہیں ٹال سکتا حکم تو بہرحال اسی کا چلتا ہے، اسی پر بھروسہ کرتا ہوں اور اپنے اور تمہارے معاملہ کو اسی کے سپرد کرتا ہوں اور اسی پر سب کو بھروسہ کرنا چاہیے یا کہ مومنین پر یہی واجب و ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ پر توکل کریں۔- اور حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو ان پر نظر بد کا خوف ہوا کیوں کہ یہ سب بھائی خوبصورت شخصیت والے اور خوبصورت چہروں والے تھے اسی وجہ سے اس چیز کا ان کے متعلق خدشہ ہوا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٦٧ (وَقَالَ يٰبَنِيَّ لَا تَدْخُلُوْا مِنْۢ بَابٍ وَّاحِدٍ وَّادْخُلُوْا مِنْ اَبْوَابٍ مُّتَفَرِّقَةٍ )- حسد اور نظر بد وغیرہ کے اثرات سے بچنے کے لیے بہتر ہے کہ آپ تمام بھائی اکٹھے ایک دروازے سے شہر میں داخل ہونے کے بجائے مختلف دروازوں سے داخل ہوں۔ - (وَمَآ اُغْنِيْ عَنْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ مِنْ شَيْءٍ )- میں اللہ کے کسی فیصلے کو تم لوگوں سے نہیں ٹال سکتا۔ اگر اللہ کی مشیت میں تم لوگوں کو کوئی گزند پہنچنا منظور ہے تو میں اس کو روک نہیں سکتا۔ یہ صرف انسانی کوشش کی حد تک احتیاطی تدابیر ہیں جو ہم اختیار کرسکتے ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یوسف کے بعد ان کے بھائی کو بھیجچتے وقت یعقوب کے دل پر کیا کچھ گزر رہی ہوگی گو خدا پر بھروسہ تھا اور صبر و تسلیم میں ان کا مقام نہایت بلند تھا ، مگر پھر بھی تھے تو انسان ہی ، طرح طرح کے اندیشے دل میں آتے ہوں گے اور رہ رہ کر اس خیال سے کانپ اٹھتے ہوں گے کہ خدا جانے اب اس لڑکے کی صورت بھی دیکھ سکوں گا یا نہیں ، اسی لیے وہ چاہتے ہوں گے کہ اپنی حد تک احتیاط میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی جائے ۔ یہ احتیاطی مشورہ کہ مصر کے دار السلطنت میں یہ سب بھائی ایک دروازے سے نہ جائیں ، ان سیاسی حالات کا تصور کرنے سے صاف سمجھ میں آجاتا ہے جو وقت پائے جاتے تھے ، یہ لوگ سلطنت مصر کی سرحد پر آزاد قبائلی علاقے کے رہنے والے تھے ، اہل مصر اس علاقے کے لوگوں کو اسی شبہہ کی نگاہ سے دیکھتے ہوں گے جس نگاہ سے ہندوستان کی برطانوی حکومت آزاد سرحدی علاقے والوں کو دیکھتی رہی ہے ۔ حضرت یعقوب کو اندیشہ ہوا ہوگا کہ اس قحط کے زمانہ میں اگر یہ لوگ ایک جتھا بنے ہوئے وہاں داخل ہوں گے تو شاید انہیں مشتبہ سمجھا جائے اور یہ گمان کیا جائے کہ یہ یہاں لوٹ مار کی غرض سے آئے ہیں ، پچھلی آیت میں حضڑت یعقوب کا یہ ارشاد کہ الا یہ کہ کہیں تم گھیر ہی لیے جاؤ اس مضمون کی طرف خود اشارہ کر رہا ہے کہ یہ مشورہ سیاسی اسباب کی بناء پر تھا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

42: یہ تاکید حضرت یعقوب علیہ السلام نے اس خیال سے فرمائی کہ یہ گیارہ کے گیارہ بھائی جو سب ماشا اللہ قد آور اور حسین و جمیل تھے جب ایک ساتھ شہر میں داخل ہوں گے، تو کہیں کسی کی نظر نہ لگ جائے۔ 43۔ نظرِ بد سے بچنے کی تدبیر بتانے کے ساتھ ساتھ حضرت یعقوب علیہ السلام نے یہ حقیقت بھی واضح فرما دی کہ اِنسان کی کسی تدبیر میں بذات خود کوئی تاثیر نہیں ہوتی۔ جو کچھ ہوتا ہے اﷲ تعالیٰ کی حکمت اور مشیت سے ہوتا ہے، وہ چاہتا ہے تو اِنسان کی تدبیر میں اثر پیدا فرما دیتا ہے، اور چاہتا ہے تو وہ بے اثر ہوجاتی ہے۔ لہٰذا ایک مومن کا کام یہ ہے کہ وہ اپنی سی تدبیر تو ضرور کرے، لیکن بھروسہ اُس تدبیر کے بجائے اﷲ تعالیٰ ہی پر رکھے۔