Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

68۔ 1 یعنی اس تدبیر سے اللہ کی تقدیر کو ٹالا نہیں جاسکتا تھا، تاہم حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے جی میں جو (نظر بد لگ جانے کا اندیشہ تھا، اس کے پیش نظر انہوں نے ایسا کہا۔ 68۔ 2 یعنی یہ تدبیر وحی الٰہی کی روشنی میں تھی اور یہ عقیدہ بھی حذر (احتیا طی تدبیر) قدر کو نہیں بدل سکتی، اللہ تعالیٰ کے سکھلائے ہوئے علم پر مبنی تھا، جس سے اکثر لوگ بےبہرہ ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٦٦] یعنی سیدنا یعقوب (علیہ السلام) کے دل کا ارمان یہ تھا کہ یہ سب بھائی بخیر و عافیت مصر جائیں اور وہاں سے غلہ لے کر بخیروعافیت واپس پہنچ جائیں۔ سیدنا یعقوب کی تدبیر اور ان کا بھروسہ اس اندیشے میں تو کام آگیا کہ انھیں نظر نہیں لگی۔ لیکن ان کے دل کا ارمان پورا نہ ہوسکا۔ کیونکہ اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ لہذا ان کی یہ تدبیر اللہ کی اس تقدیر کے مقابلہ میں کچھ کام نہ آسکی۔ جس کے متعلق انھیں خیال تک بھی نہیں آسکتا تھا۔- [٦٧] سیدنا یعقوب کی بیٹوں کو نصیحت اور اللہ کی تقدیر :۔ وہ تعلیم جو اللہ تعالیٰ نے سیدنا یعقوب کو دی تھی یہ تھی کہ محض ظاہری تدبیر پر ہی بھروسہ نہ کر بیٹھنا چاہیے بلکہ ظاہری تدابیر اختیار کرنے کے بعد بھی بھروسہ اللہ ہی پر کرنا چاہیے اور یہی تعلیم وہ اپنے بیٹوں کو دے رہے تھے۔ مگر اکثر لوگ اس تعلیم سے واقف نہیں، وہ صرف ظاہری اسباب پر ہی بھروسہ کرلیتے ہیں یا پھر کچھ ایسے ہوتے ہیں کہ محض اللہ پر بھروسہ کرتے ہیں اور ظاہری اسباب اختیار نہیں کرتے یا ان کی پروا نہیں کرتے۔ یہ دونوں باتیں غلط اور اللہ کی دی ہوئی تعلیم کے خلاف ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَلَمَّا دَخَلُوْا ۔۔ : ” حَاجَةً “ ” خواہش “ کیونکہ انسان اس کا محتاج ہوتا ہے۔ - وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ : یعنی اکثر لوگ اس سرّ الٰہی (تقدیر) کی حقیقت کو نہیں جانتے اور اپنی تدبیر پر نازاں رہتے ہیں، یا پھر اللہ پر بھروسا کرنے کا یہ مطلب سمجھتے ہیں کہ سرے سے کوئی تدبیر اختیار ہی نہ کی جائے، جیسا کہ اکثر صوفیوں کا حال یا دعویٰ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر یعقوب (علیہ السلام) نے تدبیر اور توکل کے صحیح مفہوم کو سمجھ کر اپنے بیٹوں کو نصیحت کی تھی تو وہ دراصل ہماری اس تعلیم کا نتیجہ تھا جو ہم نے اسے دی تھی، یعنی بذریعہ وحی۔ شاہ عبدالقادر (رض) لکھتے ہیں : ” تقدیر پھر بھی ان پر آگئی، دفع نہ ہوئی، سو جن کو علم ہے ان کو تقدیر کا یقین اور اسباب کا بچاؤ دونوں ہوسکتے ہیں اور بےعلم سے ایک ہو تو دوسرا نہ ہو۔ “ (موضح)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

اسی مضمون کا بیان اس کے بعد کی آیت میں اس طرح آیا کہ صاحبزادوں نے والد کے حکم کی تعمیل کی شہر کے متفرق دروازوں سے مصر میں داخل ہوئے تو باپ کا ارمان پورا ہوگیا ان کی یہ تدبیر اللہ کے کسی حکم کو ٹال نہ سکتی تھی مگر یعقوب (علیہ السلام) کی پدرانہ شفقت و محبت کا تقاضا تھا جو انہوں نے پورا کرلیا،- اس آیت کے آخر میں حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی مدح ان الفاظ میں کی گئی ہے وَاِنَّهٗ لَذُوْ عِلْمٍ لِّمَا عَلَّمْنٰهُ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ یعنی یعقوب (علیہ السلام) بڑے علم والے تھے کیونکہ ان کو ہم نے علم دیا تھا مطلب یہ ہے کہ عام لوگوں کی طرح ان کا علم کتابی اور اکتسابی نہیں بلکہ بلا واسطہ عطاء خداوندی اور وہبی علم تھا اسی لئے انہوں نے ظاہری تدبیر جو شرعا مشروع اور محمود ہے وہ تو کرلی، مگر اس پر بھروسہ نہیں کیا مگر بہت سے لوگ اس بات کی حقیقت کو نہیں جانتے اور ناواقفیت سے یعقوب (علیہ السلام) کے بارے میں ایسے شبہات میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ یہ تدبیریں پیغمبر کی شان کے شایان نہ تھیں، بعض حضرات مفسرین نے فرمایا کہ پہلے لفظ علم سے مراد علم کے مقتضیٰ پر عمل کرنا ہے اور مطلب یہ ہے کہ ہم نے جو علم ان کو عطا کیا وہ اس پر عامل اور اس کے پابند تھے اسی لئے ظاہری تدبیروں پر بھروسہ نہیں فرمایا بلکہ اعتماد اور بھروسہ صرف اللہ تعالیٰ ہی پر فرمایا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَمَّا دَخَلُوْا مِنْ حَيْثُ اَمَرَہُمْ اَبُوْہُمْ۝ ٠ۭ مَا كَانَ يُغْنِيْ عَنْہُمْ مِّنَ اللہِ مِنْ شَيْءٍ اِلَّا حَاجَۃً فِيْ نَفْسِ يَعْقُوْبَ قَضٰىہَا۝ ٠ۭ وَاِنَّہٗ لَذُوْ عِلْمٍ لِّمَا عَلَّمْنٰہُ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ۝ ٦٨ۧ- حيث - حيث عبارة عن مکان مبهم يشرح بالجملة التي بعده، نحو قوله تعالی: وَحَيْثُ ما كُنْتُمْ [ البقرة 144] ، وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ [ البقرة 149] .- ( ح ی ث ) حیث - ( یہ ظرف مکان مبنی برضم ہے ) اور ) مکان مبہم کے لئے آتا ہے جس کی مابعد کے جملہ سے تشریح ہوتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَحَيْثُ ما كُنْتُمْ [ البقرة 144] اور تم جہاں ہوا کرو - قضی - الْقَضَاءُ : فصل الأمر قولا کان ذلک أو فعلا، وكلّ واحد منهما علی وجهين : إلهيّ ، وبشريّ. فمن القول الإلهيّ قوله تعالی:- وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] أي : أمر بذلک،- ( ق ض ی ) القضاء - کے معنی قولا یا عملا کیس کام کا فیصلہ کردینے کے ہیں اور قضاء قولی وعملی میں سے ہر ایک کی دو قسمیں ہیں قضا الہیٰ اور قضاء بشری چناچہ قضاء الہیٰ کے متعلق فرمایا : ۔ وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - ذو - ذو علی وجهين : أحدهما : يتوصّل به إلى الوصف بأسماء الأجناس والأنواع، ويضاف إلى الظاهر دون المضمر، ويثنّى ويجمع، ويقال في المؤنّث : ذات، وفي التثنية : ذواتا، وفي الجمع : ذوات، ولا يستعمل شيء منها إلّا مضافا، قال : وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة 251] ، وقال : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم 6] ، وَذِي الْقُرْبى [ البقرة 83] ، وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود 3] ، ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة 177] ، إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ- [ الأنفال 43] ، وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف 18] ، وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال 7] ، وقال : ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن 48] ، وقد استعار أصحاب المعاني الذّات، فجعلوها عبارة عن عين الشیء، جو هرا کان أو عرضا، واستعملوها مفردة ومضافة إلى المضمر بالألف واللام، وأجروها مجری النّفس والخاصّة، فقالوا : ذاته، ونفسه وخاصّته، ولیس ذلک من کلام العرب . - والثاني في لفظ ذو :- لغة لطيّئ، يستعملونه استعمال الذي، ويجعل في الرفع، والنصب والجرّ ، والجمع، والتأنيث علی لفظ واحد نحو : وبئري ذو حفرت وذو طویت - ( ذ و ) ذو ( والا ۔ صاحب )- یہ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے - ( 1) اول یہ کہ اسماء اجناس وانوع کے ساتھ توصیف کے لئے اسے ذریعہ بنایا جاتا ہے ۔ اس صورت میں اسم ضمیر کیطرف مضاف نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ اسم ظاہر کی طرف مضاف ہوتا ہے اور اس کا تنثیہ جمع بھی آتا ہے ۔ اور مونث کے لئے ذات کا صیغہ استعمال ہوتا ہے اس کا تثنیہ ذواتا اور جمع ذوات آتی ہے ۔ اور یہ تمام الفاظ مضاف ہوکر استعمال ہوتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة 251] لیکن خدا اہل عالم پر بڑا مہرابان ہے ۔ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم 6] ( یعنی جبرئیل ) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے ۔ وَذِي الْقُرْبى [ البقرة 83] اور رشتہ داروں ۔ وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود 3] اور ہر ساحب فضل کو اسکی بزرگی ( کی داو ) دیگا ۔ ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة 177] رشتہ داروں اور یتیموں ۔ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ [ الأنفال 43] تو دلوں تک کی باتوں سے آگاہ ہے ۔ وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف 18] اور ہم ان کو دائیں اور بائیں کروٹ بدلاتے ہیں ۔ وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال 7] اور تم چاہتے تھے کہ جو قافلہ بےشان و شوکت ( یعنی بےہتھیار ) ہے وہ تمہارے ہاتھ آجائے ۔ ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن 48] ان دونوں میں بہت سے شاخیں یعنی قسم قسم کے میووں کے درخت ہیں ۔ علمائے معانی ( منطق وفلسفہ ) ذات کے لفظ کو بطور استعارہ عین شے کے معنی میں استعمال کرتے ہیں اور یہ جو ہر اور عرض دونوں پر بولاجاتا ہے اور پھر کبھی یہ مفرد یعنی بدون اضافت کت استعمال ہوتا ہے ۔ اور کبھی اسم ضمیر کی طرف مضاف ہو کر اور کبھی معرف بلالم ہوکر ۔ اور یہ لفظ بمنزلہ نفس اور خاصہ کے بولا جاتا ہے ۔ اور نفسہ وخاصتہ کی طرح ذاتہ بھی کہاجاتا ہے ۔ مگر یہ عربی زبان کے محاورات سے نہیں ہے - ( 2 ) دوم بنی طیی ذوبمعنی الذی استعمال کرتے ہیں اور یہ رفعی نصبی جری جمع اور تانیث کی صورت میں ایک ہی حالت پر رہتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع ( الوافر ) یعنی کنواں جسے میں نے کھودا اور صاف کیا ہے ۔- علم ( تعلیم)- اختصّ بما يكون بتکرير وتكثير حتی يحصل منه أثر في نفس المُتَعَلِّمِ. قال بعضهم : التَّعْلِيمُ : تنبيه النّفس لتصوّر المعاني، والتَّعَلُّمُ : تنبّه النّفس لتصوّر ذلك، وربّما استعمل في معنی الإِعْلَامِ إذا کان فيه تكرير، نحو : أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] - تعلیم - کے معنی با ر بار کثرت کے ساتھ خبر دینے کے ہیں ۔ حتٰی کہ متعلم کے ذہن میں اس کا اثر پیدا ہوجائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ تعلیم کے معنی تصور کیلئے نفس کو متوجہ کرنا کے ہیں اور تعلم کے معنی ایسے تصور کی طرف متوجہ ہونا کے اور کبھی تعلیم کا لفظ اعلام کی جگہ آتا ہے جب کہ اس میں تاکید کے معنی مقصود ہوں جیسے فرمایا ۔ أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] کیا تم خدا کو اپنی دینداری جتلاتے ہو - نوس - النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] - ( ن و س ) الناس ۔- بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٦٨) چناچہ مصر پہنچ کر جس طرح کہ ان کے والد نے ان کو حکم دیا تھا اسی طرح داخل ہوئے اور اس تدبیر سے حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا ان سے حکم الہی کا ٹالنا مقصود نہیں تھا لیکن حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے دل میں اس تدبیر کے بارے میں ایک خیال آیا تھا جس کو انہوں نے اپنے بیٹوں پر ظاہر کردیا۔- اور حضرت یعقوب (علیہ السلام) بیشک بڑے عالم (اور حدود شرعیہ کے) بڑے پاس رکھنے والے تھے کیوں کہ ہم نے ان کو احکام حدود قضا وقدر تمام باتوں کا حکم دیا تھا اور وہ بخوبی جانتے تھے کہ حکم تو صرف اللہ تعالیٰ ہی کا چلتا ہے مگر مصر والے نہ اس چیز کو جانتے تھے اور نہ اس کی تصدیق کرتے تھے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(مَا كَانَ يُغْنِيْ عَنْهُمْ مِّنَ اللّٰهِ مِنْ شَيْءٍ اِلَّا حَاجَةً فِيْ نَفْسِ يَعْقُوْبَ قَضٰىهَا)- حضرت یعقوب کے دل میں ایک کھٹک تھی جسے دور کرنے کے لیے آپ نے یہ تدبیر اختیار کی کہ اپنے بیٹوں کو ہدایت کردی کہ وہ ایک دروازے سے داخل ہونے کی بجائے مختلف دروازوں سے داخل ہوں لیکن آپ کی یہ تدبیر اللہ کے کسی فیصلے پر اثر انداز نہیں ہوسکتی تھی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

۵٤ ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تدبیر اور توکل کے درمیان یہ ٹھیک ٹھیک توازن جو تم حضرت یعقوب کے مذکورہ بالا اقوال میں پاتے ہو ، یہ دراصل علم حقیقت کے اس فیضان کا نتیجہ تھا جو اللہ تعالی کے فضل سے ان پر ہوا تھا ، ایک طرف وہ عالم اسباب کے قوانین کے مطابق تمام ایسی تدبیریں کرتے ہیں جو عقل و فکر اور تجربہ کی بنا پر اختیار کرنی ممکن تھیں ، بیٹوں کو ان کا پہلا جرم یاد دلا کر زجر و تنبیہ کرتے ہیں تاکہ وہ دوبارہ ویسا ہی جرم کرنے کی جرات نہ کریں ، ان سے خدا کے نام پر عہد و پیمان لیتے ہیں کہ سوتیلے بھائی کی حٖفاظت کریں گے اور وقت کے سیاسی حالات کو دیکھتے ہوئے جس احتیاطی تدبیر کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اسے بھی استعمال کرنے کا حکم دیتے ہیں تاکہ اپنی حد تک کوئی خارجی سبب بھی ایسا نہ رہنے دیا جائے جو ان لوگوں کے گھر جانے کا موجب ہو ، مگر دوسری طرف ہر آن یہ بات ان کے پیش نظر ہے اور اس کا بار بار اظہار کرتے ہیں کہ کوئی انسانی تدبیر اللہ کی مشیت کو نافذ ہونے سے نہیں روک سکتی ، اور اصل حفاظت اللہ کی حفاظت ہے ، اور بھروسا اپنی تدبیروں پر نہیں بلکہ اللہ ہی کے فضل پر ہونا چاہیے ، یہ صحیح توازن اپنی باتوں میں اور اپنے کاموں میں صرف وہی شخص قائم کرسکتا ہے جو حقیقت کا علم رکھتا ہو ، جو یہ بھی جانتا ہو کہ حیات دنیا کے ظاہری پہلو میں اللہ بنائی ہوئی فطرت انسان سے کس سعی و عمل کا تقاضا کرتی ہے اور اس سے بھی واقف ہو کہ اس ظاہر کے پیچھے جو حقیقت نفس الامری پوشیدہ ہے اس کی بنا پر اصل کار فرما طاقت کونسی ہے اور اس کے ہوتے ہوئے اپنی سعی و عمل پر انسان کا بھروسا کس قدر بے بنیاد ہے ، یہی وہ بات ہے جس کو اکثر لوگ نہیں جانتے ، ان میں سے جس کے ذہن پر ظاہر کا غلبہ ہوتا ہے وہ توکل سے غافل ہوکر تدبیر ہی کو سب کچھ سمجھ بیٹھتا ہے اور جس کے دل پر باطن چھا جاتا ہے وہ تدبیر سے بے پروا ہوکر نرے توکل ہی کے بل پر زندگی کی گاڑی چلانا چاہتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

44: یعنی بہت سے لوگ یا تو اپنی ظاہری تدبیروں کو ہی موثر حقیق سمجھ بیٹھتے ہیں، یا ان پر اتنا بھروسہ کرلیتے ہیں کہ انہیں کبھی یہ خیال بھی نہیں آتا کہ جب تک اللہ تعالیٰ ان تدبیروں میں تاثیر پیدا نہ فرمائیں ان کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوسکتا۔ لیکن حضرت یعقوب (علیہ السلام) ایسے نہیں تھے۔ انہوں نے جب اپنے صاحبزادوں کو نظر بد سے بچنے کی تدبیر بتائی تو ساتھ ہی یہ کہہ دیا کہ یہ محض ایک تدبیر ہے لیکن نفع اور نقصان پہنچانے کا اختیار اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو حاصل نہیں ہے چنانچہ ان کی یہ تدبیر نظر بد سے حفاظت کی حد تک تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے کام آئی لیکن اللہ تعالیٰ ہی کے حکم سے یہ بھائی ایک اور مشکل میں گرفتار ہوئے جس کی تفصیل آگے آ رہی ہے۔